Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 21

سورة الأنعام

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۲۱﴾

And who is more unjust than one who invents about Allah a lie or denies His verses? Indeed, the wrongdoers will not succeed.

اور اس سے زیادہ بے انصاف کون ہوگا جو اللہ تعالٰی پر جھوٹ بہتان باندھے یا اللہ کی آیات کو جھوٹا بتلائے ایسے بے انصافوں کو کامیابی نہ ہوگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِأيَاتِهِ ... And who does more wrong than he who invents a lie against Allah or rejects His Ayat, meaning, there is no person more unjust than he who lies about Allah and claims that Allah has sent him, while Allah did not send him. There is no person more unjust than he who denies Allah's proofs, signs and evidences, ... إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ Verily, the wrongdoers shall never be successful. Surely, both of these people will never acquire success, whoever falsely (claims that Allah sent him) and whoever refuses (Allah's Ayat).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی جس طرح اللہ پر جھوٹ گھڑنے والا (یعنی نبوت کا جھوٹا دعوا کرنے والا) سب سے بڑا ظالم ہے، اس طرح وہ بھی بڑا ظالم ہے جو اللہ کی آیات اور اس کے سچے رسول کی تکذیب کرے۔ جھوٹے دعوے نبوت پر اتنی سخت وعید کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ متعدد لوگوں نے ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعوے کیئے ہیں اور یوں یقینا نبی کی پیش گوئی کی تیس جھوٹے دجال ہونگے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے۔ گزستہ صدی میں بھی قادیاں کے ایک شخص نے نبوت کا دعوا کیا اور آج اس کے پیروکار اس لئے سچا نبی اور بعض مسیح معبود مانتے ہیں کہ اسے ایک قلیل تعداد نبی مانتی ہے۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا کسی جھوٹے کو سچا مان لینا، اس کی سچائی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ صداقت کے لئے تو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی ضرورت ہے۔ 21۔ 2 جب یہ دونوں ہی ظالم ہیں تو نہ (جھوٹ گھڑنے والا) کامیاب ہوگا اور نہ ہی تکذیب (جھٹلانے والا) اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک اپنے انجام پر اچھی طرح غور کرلے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] شرکیہ عقائد کی قسمیں :۔ مثلاً یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں تصرف کے اختیارت بعض اولیاء اللہ کو بھی دے رکھے ہیں جیسا کہ مشرکین کا اپنے دیوی دیوتاؤں کے متعلق عقیدہ ہوتا ہے کہ وہ ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی کرسکتے ہیں یا یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ ہم گنہگاروں کی دعا و فریاد کب سنتا ہے لہذا ضروری ہے کہ ہم اپنی فریاد کسی بزرگ کو سنائیں اور وہ ہماری فریاد اللہ تک پہنچا دے۔ یا یہ دعویٰ کرنا کہ اللہ کے ساتھ دوسری بھی بہت سی ہستیاں اس کائنات کی خدائی میں اس کی شریک اور ممد و معاون ہیں یا یہ عقیدہ رکھنا کہ ہمارا فلاں بزرگ قیامت کے دن ہماری سفارش کر کے ہمیں اللہ کی گرفت اور عذاب الٰہی سے چھڑا لے گا۔ ایسی سب باتیں اللہ پر بہتان اور شرک کا سرچشمہ ہیں۔ [٢٥] اللہ کی آیات کون کون سی ہیں :۔ آیات سے مراد صرف قرآن کی آیات ہی نہیں بلکہ وہ آیات بھی ہیں جو انسان کے جسم کے اندر موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کمال علم و حکمت پر دلیل ہونے کے علاوہ اس کے وحدہ لاشریک ہونے پر بھی دلالت کرتی ہیں۔ نیز وہ آیات بھی جو انسان کے باہر پوری کائنات میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں اب جو شخص ان سب طرح کی آیات سے اعراض کرتا جائے تو اس کی نجات کیسے ممکن ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي۔۔ : یعنی اگر میں نے جھوٹ بولا تو مجھ سے بڑا ظالم کوئی نہیں اور اگر میں نے سچ پہنچایا اور تم نے جھٹلایا تو تم سے زیادہ گناہ گار کوئی نہیں، پس اپنی فکر کرو۔ (موضح) اب اس آیت میں ان کے خسارے کا سبب بیان فرمایا۔ (رازی) خسارے کا پہلا سبب افتراء علی اللہ، یعنی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا قرار دیا ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ کفار مکہ کے دین کی بنیاد ہی جھوٹ گھڑنے پر تھی۔ بتوں کو اللہ کا شریک قرار دینا، فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہنا اور بحیرہ و سائبہ وغیرہ کو حرام قرار دینا، یہ سب چیزیں جھوٹ گھڑنے پر مبنی تھیں۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ کے دین میں بہت سے افترا شامل ہوگئے تھے، مثلاً وہ تورات و انجیل کو ناقابل نسخ قرار دیتے، اپنے آپ کو اللہ کے بیٹے اور اس کے حبیب کہتے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے متعلق بہت سی جہالت کی باتیں کرتے تھے۔ خسارے کا دوسرا سبب اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانا ہے، جس میں معجزات و احکام کو جھٹلانا بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں میں نبوت کے جھوٹے دعوے دار وہ تیس کذاب بھی شامل ہیں جن کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیش گوئی فرمائی تھی۔ [ مسلم، الفتن، باب لا تقوم الساعۃ ۔۔ : ٨٤؍٢٩٢٣ ] جن میں مرزا قادیانی اور اسے نبی کہنے والے بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے کوئی جھوٹی حدیث لگانے والے بھی، کیونکہ آپ کے ذمے کوئی بات لگانے والا درحقیقت وہ بات اللہ کے ذمے لگا رہا ہوتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِہٖ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۝ ٢١ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ فلح والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ( ف ل ح ) الفلاح فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١) اور اس سے بڑھ کر بھلا بےانصاف کون ہوگا جو توحید خداوندی اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کو شریک کرے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی تکذیب کرے، یقیناً ظالموں اور مشرکوں کو عذاب خداوندی سے کسی طرح چھٹکارا حاصل نہیں ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ط اِنَّہٗ لاَ یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ) ۔ یعنی یہ دو عظیم ترین جرائم ہیں جو شناعت میں برابر کے ہیں ‘ اللہ کی آیات کو جھٹلانا یا کوئی شے خودگھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کردینا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15. This refers to those who asserted that there were also other beings which shared with God in His godhead, were possessed of divine attributes and powers, and rightly deserved to claim from man worship and absolute service. It is also a slander to claim that God has selected certain beings to be His chosen intimates and that lie has commanded - or is at least agreeable to the idea - that they should he considered to possess divine attributes, and that people should serve and revere them as they would serve and revere God, their Lord. 16. By 'signs of God' are meant the signs found within man's own being, as well as those scattered throughout the universe. They also include the signs which are manifest from the lives and achievements of the Prophets, as well as those embodied in the Scriptures. All these point towards one and the same truth - that in the entire realm of existence there is one God alone and that all else are merely His subjects. Who could be more unjust than one who, in utter disregard of all these signs, invests others than the One True God with attributes of godhead, considering them to merit the same rights as God. And does so merely on grounds of either conjecture, or speculation or out of blind adherence to the beliefs of his forefathers although there is not so much as a shred of evidence founded on true knowledge, observation or experience in support of such beliefs. Such a person subjects truth and reality to grave injustice. He also wrongs his own self and everything else in this universe with which he has to deal on the basis of this false assumption.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :15 یعنی یہ دعویٰ کرے کہ خد اکے ساتھ دوسری بہت سی ہستیاں بھی خدائی میں شریک ہیں ، خدائی صفات سے متصف ہیں ، خداوندانہ اختیارات رکھتی ہیں ، اور اس کی مستحق ہیں کہ انسان ان کے آگے عبدیت کا رویہ اختیار کرے ۔ نیز یہ بھی اللہ پر بہتان ہے کہ کوئی یہ کہے کہ خدا نے فلاں فلاں ہستیوں کو اپنا مقَرَّبِ خاص قرار دیا ہے اور اسی نے یہ حکم دیا ہے ، یا کم از کم یہ کہ وہ اس پر راضی ہے کہ ان کی طرف خدائی صفات منسوب کی جائیں اور ان سے وہ معاملہ کیا جائے جو بندے کو اپنے خدا کے ساتھ کرنا چاہیے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :16 اللہ کی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں بھی ہیں جو انسان کے اپنے نفس اور ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں ، اور وہ بھی جو پیغمبروں کی سیرت اور ان کے کارناموں میں ظاہر ہوئیں ، اور وہ بھی جو کتب آسمانی میں پیش کی گئیں ۔ یہ ساری نشانیاں ایک ہی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں ، یعنی یہ کہ موجودات عالم میں خدا صرف ایک ہے باقی سب بندے ہیں ۔ اب جو شخص ان تمام نشانیوں کے مقابلہ میں کسی حقیقی شہادت کے بغیر ، کسی علم ، کسی مشاہدے اور کسی تجربے کے بغیر ، مجرد قیاس و گمان یا تقلید آبائی کی بنا پر ، دوسروں کو الوہیت کی صفات سے متصف اور خداوندی حقوق کا مستحق ٹھیراتا ہے ، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہو سکتا ۔ وہ حقیقت و صداقت پر ظلم کر رہا ہے ، اپنے نفس پر ظلم کررہا ہے اور کائنات کی ہر اس چیز پر ظلم کر رہا ہے جس کے ساتھ وہ اس غلط نظریہ کی بنا پر کوئی معاملہ کرتا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :16 اللہ کی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں بھی ہیں جو انسان کے اپنے نفس اور ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں ، اور وہ بھی جو پیغمبروں کی سیرت اور ان کے کارناموں میں ظاہر ہوئیں ، اور وہ بھی جو کتب آسمانی میں پیش کی گئیں ۔ یہ ساری نشانیاں ایک ہی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں ، یعنی یہ کہ موجودات عالم میں خدا صرف ایک ہے باقی سب بندے ہیں ۔ اب جو شخص ان تمام نشانیوں کے مقابلہ میں کسی حقیقی شہادت کے بغیر ، کسی علم ، کسی مشاہدے اور کسی تجربے کے بغیر ، مجرد قیاس و گمان یا تقلید آبائی کی بنا پر ، دوسروں کو الوہیت کی صفات سے متصف اور خداوندی حقوق کا مستحق ٹھیراتا ہے ، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہو سکتا ۔ وہ حقیقت و صداقت پر ظلم کر رہا ہے ، اپنے نفس پر ظلم کررہا ہے اور کائنات کی ہر اس چیز پر ظلم کر رہا ہے جس کے ساتھ وہ اس غلط نظریہ کی بنا پر کوئی معاملہ کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی اگر میں نے جھوٹ بولا تو مجھ سے بدتر کوئی کوئی نہیں اور اگر میں نے سچ پہنچا یا اور تم نے جھٹلایا تو تم سے زیادہ گنہگار کوئی نہیں بس اپنی فکرو۔ (موضح) اوپر کی آیات میں منکرین پر خسران کا حکم لگا یا اب اس آیت میں اس خسران کا سبب بیان فرمادیا، (رازی) چناچہ خسران کا پہلا سبب افتر ال علی اللہ قرار دیا ہے او اہل علم جانتے ہیں کہ کفار مکہ کے دین کی بنیاد ہی افترا پر تھی بتوں کو شراکا اللہ قرار دینا فرشتوں کو بنات اللہ کہنا اور بحیرہ سائبہ وغیرہ کی تحریم وغیرہ سب چیزیں افتر پر مبنی تھیں اسی طرح یہود و نصاریٰ کے دین میں بہت سے افزا شامل ہوئے تھے مثلام تورات وانجیل کو ناقابل نسخ وتغییر مانتے اپنے آپ کو ابنا اللہ واحبارۃ احباہ کہتے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے متعلق بہت سی جہالت کی باتیں کرتے دوسرا سبب خسران تکذیب آیات اللہ ہے جس میں معجزات کی تکذیب بھی داخل ہ (رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 3 ۔ آیات 21 تا 30: اسرار و معارف : اور یہ تو بدبختی کے اس درجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف کردی اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے یا دولت حاصل کرنے کے لیے وہ کچھ لکھ دیا جو اللہ نے نہیں فرمایا تھا اور جو اللہ کا حکم تھا اسے چھپا دیا یا مٹا دیا جو شخص اپنی خواہشات کا اس قدر اسیر ہو کہ اللہ کی ذات پر جھوٹ بولنے سے نہ چوکے وہ بھلا کسی اور کو معاف کردے گا یا نبی اور رسول کے ساتھ سچ بولے گا ایسے آدمی سے اس کی امید رکھنا ہی فضول ہے کہ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھا جائے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا وہ اللہ کے نام سے کہا جائے یعنی فتوی فروشی کہ حق پہ فیصلہ نہ دیا جائے بلکہ دولت وغیرہ کے لالچ میں اگر کوئی جان بوجھ کر خلاف واقع فتوی دے سکتا ہے تو ایسا انسان ہر گناہ کرسکتا ہے اور یاد رکھو ایسے ظالم انجام کار کبھی اچھے انجام کو نہیں پہنچتے کہ ظلم کا نتیجہ دل کی سیاہی اور ایمان سے محرومی ہوتا ہے بلکہ یوم حشر کو یہ تماشہ دیکھئے گا جب یہ سب لوگ ایک جگہ جمع ہوں گے تو ہم ان مشرکین سے سوال کریں گے کہ تمہارے وہ معبودان باطلہ کہاں ہیں جو تم نے اپنے خیال کے مطابق بنا رکھے تھے اکثر مفسرین کے مطابق یہاں چونکہ اہل کتاب کی بات چل رہی تھی اور ارشاد ہوا کہ انہوں نے دولت یا اقتدار یا ہوا وہوس کی خاطر اللہ کی کتاب تک بدل دی یعنی ان کا معبود اللہ نہ رہا بلکہ وہ چیز معبود قرار پائی جس کی خاطر انہوں نے اسلام کے نام پر کفر تک گھڑ لیا۔ شرک خفی : یہ شرک خفی ہے جس میں لوگ بظاہر تو اللہ کا سجدہ کرتے ہیں مگر اس سجدے سے بھی دنیا حاصل کرنا یا کوئی خواہش پوری کرنا ہچاتے ہیں۔ اس میں ان نام نہاد مسلمانوں کو ضرور سبق حاصل کرنا چاہئے جنہوں نے اسلام کے نام پر رسومات اور رواجات کو اپنا رکھا ہے حتی کہ برصغیر میں کتنی رسوم ایسی ہیں جو خالص ہندوؤں کی مذہبی رسوم ہیں اور اب اسلام کے نام پر نادان مسلمانوں میں پھیلائی جا رہی ہیں وہاں کوئی چھل فریب تو چل نہ سکے گا۔ نہ ہیرا پھیر ہوگی مگر قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم ہرگز مشرک نہ تھے دنیا میں اوصاف ربوبیت بانٹ رکھے تھے کہیں سے اولاد حاصل کرتے اور کہیں چڑھاوا مال حاصل کرنے کے لیے چڑھاتے کسی کو مشکل میں پکارتے اور کسی کی طرف آسانیاں منسوب کرتے غرض سارا نظام ربوبیت بانٹ کر مختلف ہستیوں کو اپنے خیال کے مطابق ان کاموں پہ لگا رکھا تھا اور ساتھ اسلام کا دعوی بھی تھا جیسے نصاری مبتلائے شرک بھی ہیں اور اہل کتاب بھی کہلاتے ہیں جب میدان حشر میں بات صاف ہوئی کہ کسی نبی یا ولی یا نیک صالح آدمی نے تو نہ ایسا دعوی کیا تھا نہ ایسا کام کرنے کا حکم دیا تھا یہ سب ان کا اپنا وہم تھا جس کی قلعی کھل گئی اب کچھ جواب بن نہیں پڑتا تو بڑی سوچ بچار کے بعد عرض کرتے ہیں اللہ کی قسم اے ہمارے رب ہم مشرک تو نہ تھے۔ فرمایا دیکھئے اپنے کردار کو خود جھٹلا رہے ہیں اس لیے کہ آج سب غلط فہمیاں دور ہوگئیں دور تو دنیا میں بھی ہوسکتی تھیں اگر آپ پر اعتبار کرتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کا یقین کرتے تو دنیا میں ہی بات صاف ہوجاتی۔ مگر وہاں ان بدبختوں کو خواہشات نفس نے اندھا بہرا کردیا تھا آپ اپنے زمانے کے مبتلائے شرک اور مبتلائے وہم لوگوں کو دیکھئے تو سہی کہ آپ کی بات سنتے ہیں۔ اور بڑے کان لگا کر سنتے ہیں انسان ویسے بھی فطرتاً حسن پسند واقعی ہوا ہے بات حسین ترین ہو کہ اللہ کی ہو لب خوبصورت ترین ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہیں آواز بےمثل ہو معانی بےمثال ہوں تو سننے والے کو تو سوائے اس کے کہ دل ہار دے اور کوئی راستہ ہی نہیں مگر ان پر الٹا اثر ہوتا ہے اس لیے کہ دل کی حیات ہے ایمان باللہ اور دل کی قوت ہے اطاعت الہی۔ ان کے پاس دونوں نہیں ہیں نہ یہ حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ اپنے وہم کے مطابق اپنے خود تراشیدہ خداؤں پہ خوش بیٹھے ہیں۔ اس جرم کی سزا کے طور پر ہم نے ان کے دلوں پر پردے تان دئیے ہیں۔ ظلمات بعضہا فوق بعض۔ تاریکی کے پردے سختی کے پردے اور کان بھی بند کردئیے گئے ہیں ہدایت کی بات نہ ان کی عقل تک پہنچتی ہے کہ ممکن ہے عقلاً توبہ کا فیصلہ کرتے تو دل بھی درست ہوجاتے نہ دل میں قبول کرنے کی طاقت باقی ہے اب یہ کچھ بھی دیکھتے رہیں ہزاروں معجزات بھی انہیں راہ راست پر لانے سے رہے چونکہ ان میں استعداد ہی نہیں رہی بلکہ یہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کرنے آتے ہیں اور اپنے کفر کی وجہ سے انہیں نہ کلام الہی کا حسن متاثر کرتا ہے نہ لب ہائے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چاشنی بلکہ کہتے ہیں یہ پرانے قصے ہیں یہ کونسی کمال کی بات کہ آپ اگلی قوموں کے حالات بیان کرتے پھریں۔ یہ بھی جھوٹ بولتے ہیں قرآن کریم نے کبھی تاریخ کو بطور موضوع ذکر نہیں فرمایا بطور نصیحت یا دلیل اگر کسی واقعہ کا کوئی حصہ مفید تھا تو اتنا ہی حصہ بیان فرمادیا اور بس باقی سب دلائل ہیں عقلی بھی نقلی بھی توحید پر رسالت پر آخرت پر یا احکام ہیں مگر انہیں یہ سب کچھ نظر نہیں آتا دوسروں کو بھی روکتے پھرتے ہیں کہتے ہیں کیا کروگے سن کر اور خود بھی آپ کی تعلیمات سے دور بھاگتے ہیں مگر یہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ رہے کہ جو بھی آپ کی تعلیمات سے دور ہوتا ہے اپنی جان کو اپنے آپ کو تباہی کے منہ میں دے دیتا ہے یہ اور بات ہے کہ انہیں اس کا شعور ہی نہیں یہ سمجھ نہیں پا رہے۔ دل کی تباہی کے اثرات اگر دوبارہ زندگی ملے تو بھی متاثر کریں گے : آپ دیکھئے گا جب انہیں دوزخ کے کنارے کھڑا کیا جائے گا یعنی جب ان کے دوزخ میں جانے کا فیصلہ ہوچکے گا اور انہیں کنارے پر کھڑا کریں گے کہ اب پھینکے جانے والے ہیں تو یہ کہیں گے اے کا اللہ تعالیٰ ہمیں ایک بار پھر دنیا میں بھیج دے تو کبھی اپنے رب کی باتوں کا انکار نہ کریں اور ماننے کا حق ادا کردیں بڑے پکے ایماندار ثابت ہوں لیکن حقیقت یہ نہیں ہے کہ اب تو ان کا باطن سامنے آگیا اور وہ قلبی کیفیات جو دنیا میں دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ تمہیں میدان حشر میں ہر کسی نے ان کو دیکھ لیا ان کے دل اس طرح سے تباہ ہوچکے ہیں کہ اگر انہیں پھر دنیا میں لوٹا دیا جائے پھر گناہ اور نافرمانی میں مبتلا ہوجائیں گے یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں سب جھوٹ ہے میدان حشر جزا و سزا کی جگہ ہے عمل کی جگہ نہیں کہ یہاں آ کر ان کے دل کی اصلاح ہوگئی ہو اور اس خبث باطن کے ساتھ دوبارہ دنیا میں جائیں تو دوبارہ بھی گناہ ہی کریں گے۔ کیونکہ دل کی اصلاح کا موقع صرف دنیا میں نصیب ہوتا ہے اس کی بنیاد ایمان اور اس کی حیات ذکر قلبی ہے جو اس کی غذا بھی ہے دوا بھی ہے ان دونوں نعمتوں کا دارومدار اس توجہ پر ہے جو انعکاسی طور پر شیخ کے قلب سے نصیب ہوتی ہے اور جس کا سلسلہ اوپر چلتا ہوا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچتا ہے اگر یہ نعمت نصیب ہو تو کم از کم عقیدہ تو درست ہو اور اگر دنیا سے خالی چلا گیا تو حشر سے لوٹ کر بھی آئے تو کہہ دیں گے کہ یہی دنیا کی زندگی ہے اس میں عیش کرلو میاں کیسی آخرت اور کہاں کا حساب اللہ کریم تو اپنے ذاتی علم سے جانتے ہیں مگر اب تو ان کی اندرونی حالت سب کے سامنے کھل گئی ہے لہذا اس سے بھی صاف پتہ چل رہا ہے کہ اس دل کے مالک دنیا میں جا کر کس کردار کا مظاہرہ کریں گے انہیں دیکھئے گا یہ صرف اس وقت تصدیق کرینگے جب میدان حشر میں حساب کتاب کے لیے پیش ہوں گے تو سوال ہوگا کہ کیا یہ سب کچھ سچ اور درست نہیں ہے آخرت فرشتے جنت و دوزخ جزا و سزا اللہ کی توحید نبی کی رسالت اللہ کی کتاب تم کس بات کو غلط ثابت کرسکتے ہو تو اس وقت کہیں گے اے ہمارے پروردگار یہ سب سچ ہے تو ارشاد ہوگا پھر اس سچ کے مطابق تو تمہارا ٹھکانا جہنم ہے کہ اس نے تمہیں بتا دیا تھا جو کفر پہ مرے گا ہمیشہ جہنم میں رہے گا اب جہنم میں جاؤ اس لیے کہ تم کفر میں ہی مبتلا رہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 21 : من اظلم ممن (اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا) ‘ لایفلح (کامیابی نہ پائے گا) ‘ تشریح، آیت نمبر 21 : گزشتہ آیت میں فرمایا ہے (بلکہ اس سے پہلے بھی) کہ وہی لوگ ایمان نہیں لائیں گے جو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں۔ ایمان نہ لانا۔ اپنے آپ پر سب سے بڑا ظلم کرنا ہے۔ مشرکین مکہ کے وفد کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے کہ اللہ کی ذات اور صفات میں اللہ کے بندوں کو شریک کرنا اللہ پر بھی اور اس کے پیغمبروں پر بھی سب سے بڑا الزام ہے۔ چناچہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ ظالم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ ایک اور جگہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں پر لعنت بھیجتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اوپر کفار کا فلاح نہ پانا مذکور ہوا ہے آگے اس فلاح نہ پانے کی کچھ کیفیت مذکور ہے مشرکین کی تو تصریحا کہ مکہ میں جو محل نزول سورت ہے مشرکین زیادہ تھے اور دوسرے کفار کی مقایسة کیونکہ اصل علت عدم فلاح کی یعنی کفر سب میں مشترک ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منکرین حق کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرنا، اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور اپنے باطل نظریات کی تائید کے لیے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا ظلم ہے۔ شریعت کی نظر میں جھوٹ بولنا انتہائی قبیح گناہ ہے۔ اس جرم کی سنگینی میں اس وقت بےپناہ اضافہ ہوجاتا ہے جب کوئی شخص اپنے باطل نظریات کو اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگا کر اسے حق ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ ایسا شخص نہ صرف پرلے درجے کا کذّاب شمارہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین ظالم سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ذات حق پر جھوٹ بول کر لوگوں کو گمراہی کا راستہ دکھانا انتہائی سنگین جرم ہے۔ ایسے ظالم آخرت میں ہر قسم کی مدد سے محروم ہوں گے اکثر اوقات دنیا میں بھی ناکامی کا منہ دیکھیں گے۔ منکرین حق اللہ تعالیٰ پر درج ذیل جھوٹ بولا کرتے ہیں۔ ١۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرنا اور ان پر جھوٹا ہونے کا الزام لگانا۔ ٢۔ معبودان باطل کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی خدائی میں شریک کرنا۔ ٣۔ زندہ اور فوت شدہ بزرگوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا اور پھیلانا کہ ان کی بزرگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے اختیارات میں شریک بنا لیا ہے۔ ٤۔ اپنے گناہوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ایسا کرنے کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اجازت دے رکھی ہے۔ (الاعراف : ٢٨) ٥۔ یہودیوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ ہمیں چند دنوں کے سوا جہنم میں نہیں رکھا جائے گا۔ (البقرۃ : ٨٠) ٦۔ یہودیوں کا اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا اور محب قرار دینا۔ ( المائدۃ : ١٨) ٧۔ یہودیوں کا حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا گرداننا۔ (التوبۃ : ٣٠) ٨۔ عیسائیوں کا حضرت مریم اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کو خدا کا جز قرار دینا۔ (المائدۃ : ١٧، ٧٢) ٩۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ بولنا اور قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے کا انکار کرنا۔ (البقرۃ : ٩١) ١٠۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانا اس کے احکام کی صورت میں ہو یا اس کی قدرت کے نشانات کی شکل میں۔ (النساء : ١٥٠) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے بارے افترا پر دازی نہیں کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر جھوٹ بولنا بڑا ظلم ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانا بہت بڑا ظلم ہے۔ ٤۔ ظالم لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن بڑا ظالم کون ہے : ١۔ سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو اللہ پر جھوٹ بولتا ہے۔ (الکہف : ١٥) ٢۔ اللہ کی آیات کو سن کر اعراض کرنے والا بڑا ظالم ہے۔ (السجدۃ : ٢٢) ٣۔ سچائی کو جھٹلانے والا اور اللہ پر جھوٹ باندھنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الزمر : ٣٢) ٤۔ اللہ کے گھر میں ذکر کرنے سے منع کرنے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ : ١١٤) ٥۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے اور لوگوں کو گمراہ کرنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ١٤٤) ٦۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے اور اس کی آیات کو جھٹلاتا ہے۔ (الانعام : ٢١) ٧۔ اللہ کی مساجد سے روکنے والے سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے ؟ (البقرۃ : ١١٤) ٨۔ شہادۃ کو چھپانے والے سے بڑا ظالم کون ہے ؟ (البقرۃ : ١٤٠) ٩۔ اللہ کی آیات سے اعراض کرنے والے سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے ؟ (الکہف : ٥٧) ١٠۔ اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوسکتا ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (ھود : ١٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٢١ تا ٢٤۔ بات کی مناسب سے اب مشرکین کے سامنے وہ حقیقت رکھی جاتی ہے جس پر وہ دنیا میں قائم تھے ۔ اس کی روشنی میں ان کے موقف اور عمل کو خدا تعالیٰ کے پیمانوں سے ناپا جاتا ہے ۔ سب سے پہلے ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ذرا وہ اپنے رویے پر غور کریں کہ وہ اللہ پر افترا پردازی کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ وہ اس دین پر ہیں جس کے ساتھ حضرت ابراہیم مبعوث ہوئے تھے ۔ اور ان کے مزعومات میں سے یہ بھی تھا کہ وہ خود جن چیزوں کو حلال اور حرام قرار دیتے تھے ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے جیسا کہ اس سورة کے آخر میں لفظ بزعمہم سے اس کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ حالانکہ اللہ نے اس چیز کی حلت یا حرمت کا کوئی حکم نہیں دیا تھا ۔ جس طرح آج ہمارے زمانے میں بیشمار لوگ دعوائے اسلام کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ‘ حالانکہ ان کا یہ دعوی سراسر جھوٹا ہے ۔ اور اللہ پر افتراء ہے ۔ وہ خود اپنی جانب سے قوانین اور فرامین جاری کرتے ہیں ‘ خود اپنی جانب سے زندگی کے اوضاع واطوار اور رسومات پیدا کرتے ہیں اور اپنی جانب سے نئی نئی چیزیں جاری کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ ان معاملات میں اللہ کے اقتدار اعلی کو غصب کرلیتے ہیں اور خود مقتدر اعلی بن بیٹھتے ہیں ۔ پھر بھی ان کا دعوی یہ ہے کہ وہ دین اسلام پر ہیں جو سراسر جھوٹ ہے ۔ ان میں سے تعلیم یافتہ لوگ جنہوں نے اپنا دین فروخت کردیا ہے اور اپنے لئے جہنم کے بدترین درجے کو الاٹ کرا لیا ہے وہ ایسے لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ پھر بھی مسلمان ہیں ۔ ان آیات میں ان کی جانب سے پیش کی جانے والی آیات کو جھٹلانے پر بھی ان کے خلاف نکیر کی جاتی ہے ۔ انہوں نے آیات الہیہ کو مسترد کیا ‘ ان کا مقابلہ اور انکار کیا ‘ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ یہ آیات از جانب اللہ نہیں ہیں اور جس جاہلیت پر وہ عمل پیرا ہیں وہ از جانب اللہ ہیں ۔ یہ موقف بعینہ ویسا ہی ہے جس طرح آج کے دور میں اہل جاہلیت جدید اس کے مدعی ہیں ۔ ان دونوں کا موقف بالکل یکساں ہے ۔ (آیت) ” وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ بِآیتہ “۔ (٦ : ٢١) ” اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ جھوٹا بہتان لگائے ‘ یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے ؟ “ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے شرک کو ظلم اس لئے کہا گیا ہے کہ لفظ ” ظلم “ سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے اس کے گھناؤنے پن اور قباحت کا اظہار اچھی طرح ہوجائے ۔ قرآن کریم میں بیشتر شرک کی تعبیر ظلم سے کی جاتی ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے ایک نہایت ہی برافعل سمجھ کر اس سے متنفر ہوجائیں اور حقیقت حال بھی یہی ہے کہ شرک سچائی کے ساتھ ظلم ہے ۔ نفس انسانی کے ساتھ ظلم ہے اور عوام الناس پر ظلم ہے ۔ اس لئے کہ کبریائی صرف اللہ کا حق ہے اور وہ اس بات کا مستحق ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ اس سے اللہ کی حق تلفی ہوگی ۔ نفس انسانی پر یہ اس لئے ظلم ہے کہ اس کی وجہ سے یہ دائمی ہلاکت میں پڑجائے گا ۔ اور لوگوں پر ظلم یہ ہے کہ وہ معرفت حق سے محروم ہوں گے اور ان کی زندگی ایسے اصولوں کے تحت چلتی رہے گی جو ظالمانہ ہوں گے ‘ غرض شرک ہر پہلو سے ظلم عظیم ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے آخر میں رب العالمین خود فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” انہ لا یفلح الظلمون “۔ (٦ : ٢١) یقینا ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ “ یہاں اللہ تعالیٰ ایک قاعدہ کلیہ بیان کردیتے ہیں اور حکم آجاتا ہے کہ مشرک یا ظلم اور ظالموں کا انجام کیا ہوگا ۔ انسانوں کی کوتاہ نظر آنکھیں جو کچھ دیکھ سکتی ہیں وہ قابل اعتبار حقیقت نہیں ہوتی ۔ انسان کی نظر نہایت ہی قریبی فاصلے تک ہوتی ہے ۔ انسان صرف دنیوی فلاح اور نجات کو دیکھ سکتا ہے ۔ یہ ہے وہ تدبیر جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو انجام بد تک پہنچاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ صادق القول اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ اس موقعہ پر قرآن ان کی ناکامی اور عدم فلاح اور ان کے غلط موقف کی ایک تصویر کشی نہایت ہی زندہ ‘ متحرک اور دلکش الفاظ میں فرماتے ہیں : (آیت) ” وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَیْْنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ (22) ثُمَّ لَمْ تَکُن فِتْنَتُہُمْ إِلاَّ أَن قَالُواْ وَاللّہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ (23) انظُرْ کَیْْفَ کَذَبُواْ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَضَلَّ عَنْہُم مَّا کَانُواْ یَفْتَرُونَ (24) (٦ : ٢٢ تا ٢٤) ” جس روز ہم ان کو اکٹھا کریں گے اور مشرکین سے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم خدا سمجھتے تھے تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ اے ہمارے آقا ! تیری قسم ہم ہر گز مشرک نہ تھے ۔ دیکھو اس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ جھوٹ گھڑیں گے اور وہاں ان کے سارے بناوٹی معبود گم ہو گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرک کی کئی قسمیں ہیں ۔ اللہ کے ساتھ ٹھہرائے ہوئے شرکاء کی بھی کئی اقسام ہیں اور صورت حال وہ نہیں ہے جو عام طور پر کلمہ شرک اور شرکاء اور مشرکین کے اطلاق سے آج کل عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ کچھ لوگ بتوں اور پتھروں کی پوجا کرتے ہیں یا پتھروں ‘ درختوں اور آگ وغیرہ کے مظاہر کی پرستش کرتے ہیں ۔ بس یہی ہے شرک کا مفہوم ۔ درحقیقت شرک تو یہ ہے کہ کوئی اللہ کے سوا کسی اور کے بارے میں یہ اعتراف کرے کہ ذات باری کے خصائص میں سے کچھ خصائص اس میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ چاہے وہ نظریاتی امور ہوں جن میں کا اس کائنات کے تصرفات میں سے کوئی امر اللہ کے سوا کسی اور سے منسوب کیا جائے ‘ یا مراسم عبودیت ہوں کہ اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے بجا لائے جائیں مثلا عبادت اور نذر ونیاز وغیرہ یا زندگی کے نظام کو درست کرنے کے لئے اصول اور ضابطے اللہ کے سوا کسی اور سے لیے جائیں ۔ یہ سب کے سب شرک کے الوان و اقسام ہیں ۔ اس شرک کا ارتکاب یوں ہوتا ہے کہ بعض لوگ ایک قسم کا شرک کرتے ہیں اور بعض دوسری قسم کے شرک میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر مختلف قسم کے مشرکین کے شرکاء اور معبود بھی مختلف ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے ان تمام اقسام پر کلمہ شرک کا اطلاق کیا ہے اور شاید قیامت کے منظر کے اندر ان مشرکین اور شرکاء کے زندہ مناظر پیش کرکے اہل ایمان کو حقیقت سمجھانے کی سعی کی ہے ۔ قرآن کریم نے لفظ شرک کو کسی ایک مفہوم تک محدود نہیں رکھا ہے اور نہ ان میں سے کسی ایک مفہوم سے متصف کسی شخص کو مشرک کہا ہے اور نہ دنیا اور آخرت میں ان تمام اقسام کے مشرکین کے انجام اور سزا اور ان کے ساتھ تعلق میں کوئی فرق کیا ہے ۔ عربوں کے اندر شرک کی یہ تمام اقسام پائی جاتی تھیں ۔ عربوں میں یہ اعتقاد موجود تھا کہ اللہ کی مخلوقات میں سے بعض اللہ کے ساتھ شریک ہیں ۔ یہ شرکت اس طرح ہے کہ اللہ کے ہاں جو بات وہ کہتے ہیں وہ لازما منظور ہوتی ہے ۔ لوگوں کی قسمتوں کے فیصلوں اور واقعات کی رونمائی میں ان کا بھی داخل ہوتا ہے ۔ مثلا فرشتے شریک ہوتے ہیں یا یوں کہ یہ مخلوقات انسان کو اذیت دینے پر قادر ہے ۔ مثلا جنات نقصان دیتے ہیں ۔ یا دونوں طریقوں سے یہ انسان کو اذیت دے سکتے ہیں ۔ مثلا آباؤ و اجداد کی روحیں بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں ۔ ان جنات ‘ کاہنوں اور اجداد کی ارواح کی طرف اشارات کے طور پر یہ لوگ ان کی طرف منسوب بت بناتے تھے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہوتا تھا کہ ان بتوں کے اندر ان خدا رسیدہ مخلوقات کی روح آجاتی ہے ۔ کاہن پھر ان روحوں اور بتوں کے ساتھ ہم کلام بھی ہوتے تھے ۔ یوں ان کے لئے یہ کاہن اس اسلوب اور اٹکل سے بعض چیزوں کو حرام کرتے تھے اور بعض کو حلال کرتے تھے ۔ اس طرح درحقیقت یہ کاہن ہی تھے جو یہ کام کرتے تھے اور وہی شریک کا درجہ رکھتے تھے ۔ مزید برآں شرک کا ارتکاب وہ اس طرح بھی کرتے تھے کہ ان بتوں کے سامنے مراسم بندگی ادا کرتے تھے ۔ ان کے استھانوں پر قربانیاں کرتے اور ان کی نذریں مانتے تھے ۔ یہ قربانیاں اور نذریں اور عبادات بھی دراصل وہ ان کاہنوں کی کرتے تھے ۔ بعض عرب ایرانیوں کے زیر اثر یہ بھی عقیدے رکھتے تھے کہ کواکب کو بھی واقعات عالم میں اثر ودخل حاصل ہے ‘ اور اس طرح گویا یہ ستارے بھی خدا کے شریک ہیں ۔ چناچہ عربوں کے اندر ستارہ پر ستی داخل ہوگئی ۔ اس سورة میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا جو قصہ لایا گیا ہے وہ بھی اسی نقطہ نظر سے لایا گیا ہے اور اس سورة کے موضوع سے یہی بات اس قصے کو مربوط کردیتی ہے ۔ (جیسا کہ آگے ہم بتائیں گے انشاء اللہ) شرک کی تیسری صورت بھی ان عربوں کے اندر رائج تھی ۔ یہ لوگ کاہنوں کی مدد سے اپنے لئے دستور اور قانون خود بناتے تھے اور زندگی کے طور طریقے اور رسم و رواج اپنے لئے خود وضع کرتے تھے ۔ اگرچہ اس کے اندر قانون سازی کی اجازت اللہ نے نہ دی تھی لیکن خود قانون بنا کر وہ دعوی یہ کرتے تھے کہ یہ اللہ کا قانون اور شریعت ہے جس طرح آج کے بعض سیاسی مفکر ایسا دعوی کرتے ہیں ۔ پس اس منظر میں ‘ یعنی قیامت کے دن ‘ اللہ تعالیٰ تمام قسم کے شرکاء کے بارے میں لوگوں کو بلا کر یہ سوال کریں گے کہ لاؤ ان کو اب جن کو تم میرا شریک ٹھہراتے تھے ؟ آج تو ان کا کوئی پتہ نہیں ہے ۔ آج تو وہ اپنے متبعین کی کوئی امداد نہیں کرسکتے ۔ نہ ان کو اس ہولناک صورت حال سے بچا سکتے ہیں۔ (آیت) ” وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَیْْنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ (22) ” جس روز ہم ان کو اکٹھا کریں گے اور مشرکوں سے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم خدا سمجھتے تھے ۔ “ یہ منظر بالکل آنکھوں کے سامنے ۔ گو میدان حشر برپا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ مشرکوں سے یہ باز پرس ہو رہی ہے اور ان کے لئے یہ باز پرس نہایت ہی المناک ہے ۔ ” وہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں ہیں ؟ “ یہ ہولناک باز پرس انہیں حواس باختہ کردیتی ہے ۔ اب ان کی فطرت پر جو پردے پڑگئے تھے وہ پردے ہٹ جاتے ہیں ۔ ان کی فطرت اور ان کی یادداشت سے وہ عارضی حالات محو ہوجاتے ہیں اس لئے کہ ان حالات کی بنیاد فطرت پر تھی ہی نہیں یہ غیر فطری اور محض سراب کی طرح عارضی حالات تھے ۔ ان کا شعور اب یہ بتاتا ہے کہ وہ کس طرح شریک ٹھہر سکتے ہیں ۔ وہ کہیں گے کہ نہ تو شرکاء موجود تھے اور نہ ہی ہم نے کسی کو شریک بنایا ۔ اب یہ منظر ان کے لئے ایک نئے فتنے کا سبب بنے گا ۔ اس حقیقی دربار میں اب خبیث اور بےاصل افکار ان کے ذہن سے محو ہوجاتے ہیں جس طرح بھٹی میں تپ کر چیزوں سے غلط عناصر جھاگ کی شکل میں خارج ہوجاتے ہیں ۔ (آیت) ” ثُمَّ لَمْ تَکُن فِتْنَتُہُمْ إِلاَّ أَن قَالُواْ وَاللّہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ (23) ” تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ اے ہمارے آقا ! تیری قسم ہم ہر گز مشرک نہ تھے ۔ “ وہ حقیقت سامنے آگئی جس کی وجہ سے فتنہ چھٹ گیا یا اس کی روشنی میں فتنہ واضح ہوگیا ۔ ان لوگوں نے اپنے ماضی سے مکمل طور پر کٹ کر اللہ وحدہ کی ربوبیت کا اقرار کرلیا لیکن انہوں نے یہ کام اس وقت کیا جب ان کے لئے اقرار مفید نہ تھا ۔ اس اقرار باطل سے علیحدگی ان کے لئے مفید نہ رہے گی ۔ بلکہ یہ ان کے لئے ایک مصیبت ہوگی اور ان کا یہ اقرار ان کے لئے اب موجب نجات نہ ہوگا ۔ وقت جا چکا ہوگا ۔ آج تو جزائے اعمال کا دن ہے ۔ آج تو آخری فیصلوں کا دن ہے ۔ یہ ریمانڈ کا دن نہ ہوگا ۔ ان کی اس حالت پر اللہ تعالیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ تبصرہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے جب شرک کا ارتکاب کیا اور ان لوگوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا تو انہوں نے اپنے نفوس کے ساتھ جھوٹ اور فریب کا ارتکاب کیا اس لئے کہ اللہ کے ساتھ کسی شریک کا تو دراصل کوئی وجود ہی نہ تھا ۔ نہ ان شرکاء کی کوئی حقیقت تھی ۔ آج ان سے وہ افتراء غائب ہے ۔ انہوں نے حق کا اعتراف اس وقت کیا جب ان کا جھوٹا طلسم غائب ہوگیا۔ (آیت) ” انظُرْ کَیْْفَ کَذَبُواْ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَضَلَّ عَنْہُم مَّا کَانُواْ یَفْتَرُونَ (24) ۔ ” دیکھو اس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ جھوٹ گھڑیں گے اور وہاں ان کے سارے بناوٹی معبود گم ناپید ہوگئے ۔ “ انہوں نے اپنے اوپر جھوٹ بولا ہے ۔ جب انہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو انہوں نے اسی وقت اپنے اوپر جھوٹ بولا اور اپنے آپ کو فریب میں ڈال دیا ۔ اللہ پر افترا باندھا اور اب ان کے تمام معبود ناپید اور گمشدہ ہیں اور اب تو حشر اور حساب کا دن ہے ۔ میرے خیال میں اس آیت کی یہی اطمینان بخش تفسیر ہے ‘ کیونکہ منظر قیامت کا ہے اور وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہیں اور ذات باری کی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ وہ مشرک نہ تھے اس لئے کہ قیامت کے دن ان کا جھوٹ ان کے خلاف ہوگا اس مفہوم میں ۔ کیونکہ قیامت کے دن وہ اللہ پر جھوٹ نہ باندھ سکیں گے اور نہ ارادۃ جھوٹی قسم اٹھا سکیں گے ۔ جن لوگوں نے اس آیت کی یہ تفسیر کی ہے کہ وہ عمدا جھوٹ بولیں گے تو وہ اس لئے درست نہیں ہے کہ لایکتمون اللہ حدیثا کے بموجب وہ قیامت میں اللہ سے تو کوئی بات چھپا نہ سکیں گے ۔ بلکہ قیامت کے اس ہولناک منظر میں ان کی فطرت پاک وصاف ہوجائے گی اور اس سے شرک کی آلائشیں دور ہوجائیں گی ۔ لیکن اللہ ان پر تعجب فرماتا ہے کہ دیکھو انہوں نے دنیا میں اپنی زندگی کس جھوٹ میں بسر کی اور آج آخرت میں ان کے پردہ خیال میں اس جھوٹ کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ (واللہ اعلم بالمراد) بہرحال یہ بھی احتمالات میں سے ایک احتمال ہے ۔ اگلی آیات میں مشرکین کا ایک دوسرا گروہ اسکرین پر آتا ہے اور اب ان کے کیس کا فیصلہ کردیا جاتا ہے ۔ یہ مناظر قیامت میں سے ایک دوسرا منظر ہے ۔ یہ لوگ قرآن کریم کو سنتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی قوت مدرکہ کو معطل کردیا ہے ‘ ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہے ۔ یہ لوگ تحریک اسلامی کے معاند ہیں اور اپنے آپ کو بہت ہی بڑی شے سمجھتے ہیں ۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مجادلہ کر رہے ہیں۔ چناچہ اس صورت میں وہ آنکھیں بند کرنے اور نفرت کرنے کی وجہ سے اس قرآن کریم پر یہ تبصرہ کرتے ہیں ” یہ تو ایک داستان پارینہ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ “ اور پھر وہ دوسروں کو بھی اس حقیقت کو سننے اور قبول کرنے سے منع کرتے ہیں اور خود بھی اس سے دور بھاگتے ہیں ۔ ان کے حالات کی یہ تصویر صفحہ کی ایک طرف ہے اور اس صفحے کے دوسری جانب ان کی نہایت ہی مکروہ اور دردناک حالت کو منقش کیا گیا ہے ۔ وہ آگ کے کنارے کھڑے ہیں ‘ گرفتار ہیں اور انہیں اس خوفناک انجام کے دھانے پر کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ وہ نہایت ہی ذلت میں چیخ و پکار کرتے ہیں اور نہایت ہی حسرت آمیز انداز میں یہ تمنا کرتے ہیں کہ اگر انہیں دنیا کی طرف لوٹایا جائے تو وہ اپنے موقف میں تبدیلی کرلیں گے جس کی وجہ سے ان کو یہ روز بد دیکھنا پڑا ۔ چناچہ نہایت ہی حقارت آمیز انداز میں ان کی اس تمنا اور خواہش کو رد کیا جاتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن مشرکین سے سوال فرمانا اور ان کا مشرک ہونے کا انکار کرنا مشرکین کا یہ طریقہ تھا کہ شرک بھی کرتے تھے اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ پاک کے باغی مت بنو۔ توحید کو چھوڑ کر شرک اختیار نہ کرو تو کہہ دیتے تھے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے اور جو آیات بینات نبیوں کے واسطہ سے ان تک پہنچی تھیں انہیں جھٹلا دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیات کو جھٹلائے۔ یہ ظالم سمجھتے ہیں کہ ہم منہ زوری کر کے جو گمراہی پر جمے ہوئے ہیں اور نبی کی بات کو قبول نہیں کرتے یہ کامیابی کی بات ہے۔ ان کا یہ سمجھنا جہالت اور سفاہت پر مبنی ہے۔ (اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ) (بلاشبہ بات یہ ہے کہ ظالم کامیاب نہ ہوں گے) یہ منہ زوری اور ہٹ دھرمی کام نہ آئے گی۔ آخرت میں دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ ظالموں کی نا کامی اور بربادی کا تذکرہ فرما کر آخرت کا ایک منظر بیان فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25 زجر ہے مشرکین کے لیے اور استفہام انکار کے لیے ہے یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتا ہے اور اللہ کے نیک بندوں کو خدا کے ساتھ شریک بناتا ہے اور توحید کی آیتوں اور توحید کے دلائل کا انکار کرتا ہے وہ سب سے بڑا ظالم ہے۔ اِنَّہٗ لَایُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ اور ظالم لوگ جو توحید کو مٹانے پر تلے ہوئے ہیں اور جو دن رات شرک کرتے ہیں آخرت میں ان کی نجات نہیں ہوگی تو جو اظلم (یعنی سب سے بڑے ظالم) ہو ان کی بدرجہ اولیٰ نہیں ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

21 اور اس شخص سے زیادہ اور بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان لگائے یا اس کی آیات اور اس کی نشانیوں کی تکذیب کرے اور اللہ تعالیٰ کیآیات کو جھلائے واقعہ یہ ہے کہ ایسے ظالم اور ناانصاف فلاح نہیں پاتے اور اس قسم کے ظالموں کو فلاح نصیب نہیں ہوتی۔