Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 32

سورة الأنعام

وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ ؕ وَ لَلدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۳۲﴾

And the worldly life is not but amusement and diversion; but the home of the Hereafter is best for those who fear Allah , so will you not reason?

اور دنیاوی زندگانی تو کچھ بھی نہیں بجز لہو و لعب کے اور دار آخرت متقیوں کے لئے بہتر ہے کیا تم سوچتے سمجھتے نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَهْوٌ ... And the life of this world is nothing but play and amusement. means, most of it is play and amusement, ... وَلَلدَّارُ الاخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلَ تَعْقِلُونَ But far better is the abode of the Hereafter for those who have Taqwa. Will you not then understand!

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦] دنیا کی زندگی کھیل تماشاکس لحاظ سے ہے :۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی زندگی میں سرے سے کوئی سنجیدگی ہے ہی نہیں۔ اور یہ محض کھیل تماشے یا سیر و تفریح کے لیے بنائی گئی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی حقیقی اور پائیدار زندگی کے مقابلہ میں یہ زندگی ایسی ہے جیسے کوئی شخص کچھ دیر کھیل تفریح میں دل بہلا کر بعد میں پھر سے اپنے اصل کام کی طرف متوجہ ہوجائے۔ یہ کھیل تماشا صرف ظاہر بین اور دنیا پرست لوگوں کے لیے ہے اور دنیا میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت چونکہ ایسی ہی ہے جو اس دنیا کی رنگینیوں میں ہی کھو کر رہ جاتی ہے۔ لہذا کہیں اس دنیا کی زندگی کو کھیل تماشا اور کہیں دھوکے کا سامان کہا گیا ہے ورنہ ایماندار اور اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے تو اس دنیا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے کیونکہ جو کچھ بھی وہ اس دنیا میں بوئیں گے وہی جا کر آخرت میں کاٹیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ۔ : دنیوی زندگی کے بہت جلد ختم ہونے کے اعتبار سے اس کو لہو و لعب فرمایا ہے۔ (رازی) یعنی آخرت کی حقیقی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی اور اس کی لذتیں ایسی ہی ہیں جیسے بچوں کا کھیل تماشا جو تھوڑی دیر میں ختم ہوجاتا ہے۔ دیکھیے سورة حدید (٢٠) انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ کے راستے میں ایک شام یا ایک صبح دنیا وما فیہا سے بہتر ہے اور جنت میں تمہارے کسی شخص کی ایک کمان کی مقدار کے برابر یا اس کے کوڑے کے برابر جگہ دنیا وما فیہا سے بہتر ہے، اور اگر اہل جنت میں سے کوئی عورت زمین والوں کی طرف جھانک لے تو آسمان و زمین کے درمیان کی جگہ کو روشن کر دے اور اسے خوشبو سے بھر دے اور اس کے سر کا دوپٹا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ “ [ بخاری، الجہاد والسیر، باب الحورالعین و صفتھن : ٢٧٩٦ ] وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَيْرٌ۔۔ : یعنی آخرت کا گھر دنیا سے کہیں بہتر ہے، مگر ان کے لیے جو کفر و شرک، نفاق اور کبائر سے بچتے ہیں، ورنہ کافر کے لیے تو دنیا کی زندگی ہی بہتر ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَ جَنَّۃُ الْکَافِرِ ) [ مسلم، الزھد، باب الدنیا سجن۔۔ : ٢٩٥٦ ]” دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ۝ ٠ۭ وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ۝ ٠ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝ ٣٢ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ لعب أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] ، ( ل ع ب ) اللعب ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] لهو [ اللَّهْوُ : ما يشغل الإنسان عمّا يعنيه ويهمّه . يقال : لَهَوْتُ بکذا، ولهيت عن کذا : اشتغلت عنه بِلَهْوٍ ] . قال تعالی: إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد/ 36] ، وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] ، ويعبّر عن کلّ ما به استمتاع باللهو . قال تعالی: لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء/ 17] ومن قال : أراد باللهو المرأة والولد فتخصیص لبعض ما هو من زينة الحیاة الدّنيا التي جعل لهوا ولعبا . ويقال : أَلْهاهُ كذا . أي : شغله عمّا هو أهمّ إليه . قال تعالی: أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر/ 1] ، رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور/ 37] ولیس ذلک نهيا عن التّجارة وکراهية لها، بل هو نهي عن التّهافت فيها والاشتغال عن الصّلوات والعبادات بها . ألا تری إلى قوله : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج/ 28] ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله تعالی: لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء/ 3] أي : ساهية مشتغلة بما لا يعنيها، واللَّهْوَةُ : ما يشغل به الرّحى ممّا يطرح فيه، وجمعها : لُهًا، وسمّيت العطيّة لُهْوَةً تشبيها بها، واللَّهَاةُ : اللّحمة المشرفة علی الحلق، وقیل : بل هو أقصی الفم . ( ل ھ و ) اللھو ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے ہتائے اور بازر کھے یہ لھوت بکذا ولھیت عن کذا سے اسم ہے جس کے معنی کسی مقصد سے ہٹ کر بےسود کام میں لگ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد/ 36] جان رکھو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے ۔ پھر ہر وہ چیز جس سے کچھ لذت اور فائدہ حاصل ہو اسے بھی لھو کہہ دیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء/ 17] اگر ہم چاہتے کہ کھیل بنائیں تو ہم اپنے پاس سے بنا لیتے ۔ اور جن مفسرین نے یہاں لھو سے مراد عورت یا اولادلی ہے انہوں نے دنیاوی آرائش کی بعض چیزوں کی تخصیص کی ہے جو لہو ولعب بنالی گئیں ہیں ۔ محاورہ ہے : الھاۃ کذا ۔ یعنی اسے فلاں چیز نے اہم کام سے مشغول کردیا ۔ قرآن میں ہے : أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر/ 1] لوگوتم کو کثرت مال وجاہ واولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور/ 37] یعنی ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سود اگر ی غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ اس آیت سے تجارت کی ممانعت یا کر اہتبیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں پروانہ دار مشغول ہو کر نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہونے کی مذمت کی طرف اشارہ ہے نفس تجارت کو قرآن نے فائدہ مند اور فضل الہی سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج/ 28] تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں ۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة/ 198] اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ ( حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت ) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو ۔ اور آیت کریمہ : لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء/ 3] ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ان کے دل غافل ہو کر بیکار کاموں میں مشغول ہیں ۔ اللھوۃ ۔ آٹا پیستے وقت چکی میں ایک مرتبہ جتنی مقدار میں غلہ ڈالا جائے ۔ اس لھوۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع لھاء آتی ہے ۔ پھر تشبیہ کے طور پر عطیہ کو بھی لھوۃ کہدیتے ہیں ۔ اللھاۃ ( حلق کا کوا ) وہ گوشت جو حلق میں لٹکا ہوا نظر آتا ہے ۔ بعض نے اس کے معنی منہ کا آخری سرا بھی کئے ہیں ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢) اور دنیاوی زندگی میں جو بھی کچھ عیش و عشرت نظر آتی ہے وہ ایک عارضی اور جھوٹی خوشی کی طرح ہے اور اس کے بالمقابل جنت کفر وشرک اور فواحش سے بچنے والوں کے لیے بہتر ہے، یہ منکرین حق پھر بھی نہیں سمجھتے کہ دنیا فانی اور جنت کو بقا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ لَعِبٌ وَّلَہْوٌ ط) ۔ اس کا مطلب یہ نہیں لینا چاہیے کہ دنیا کی زندگی کی کوئی حقیقت نہیں ہے ‘ بلکہ تقابل میں ایسا کہا جاتا ہے کہ آخرت کے مقابلے میں اس کی یہی حقیقت ہے۔ ایک شے ابدی ہے ‘ ہمیشہ ہمیش کی ہے اور ایک شے عارضی اور فانی ہے۔ ان دونوں کا آپس میں کیا مقابلہ ؟ جیسے دعائے استخارہ میں الفاظ آئے ہیں : فَاِنَّکَ تَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ (اے اللہ ! تو ہی سب کچھ جانتا ہے ‘ میں کچھ نہیں جانتا) ۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ انسان کے پاس کوئی بھی علم نہیں ہے ‘ لیکن اللہ کے علم کے مقابلے میں کسی دوسرے کا علم کچھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح یہاں آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو لعب اور لہو قرار دیا گیا ہے۔ ورنہ دنیا تو ایک اعتبار سے آخرت کی کھیتی ہے۔ ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ (اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الآخِرَۃِ ) (١) ‘ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں بوؤگے تو وہاں کاٹو گے۔ اگر یہاں بوؤ گے نہیں تو وہاں کاٹو گے کیا ؟ یہ تعلق ہے آپس میں دنیا اور آخرت کا۔ اس اعتبار سے دنیا ایک حقیقت ہے اور ایک امتحانی وقفہ ہے۔ لیکن جب آپ تقابل کریں گے دنیا اور آخرت کا تو دنیا اور اس کا مال و متاع آخرت کی ابدیت اور اس کی شان و شوکت کے مقابلے میں گویا نہ ہونے کے برابر ہے۔ دنیا تو محض تین گھنٹے کے ایک ڈرامہ کی مانند ہے جس میں کسی کو بادشاہ بنا دیا جاتا ہے اور کسی کو فقیر۔ جب ڈرامہ ختم ہوتا ہے تو نہ بادشاہ سلامت بادشاہ ہیں اور نہ فقیر فقیر ہے۔ ڈرامہ ہال سے باہر جا کر کپڑے تبدیل کیے اور سب ایک جیسے بن گئے۔ یہ ہے دنیا کی اصل حقیقت۔ چناچہ اس آیت میں دنیا کو کھیل تماشا قرار دیا گیا ہے۔ (وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ) اب وہ مقام آگیا ہے جسے میں نے اس سورة کے عمود کا ذروۂ سنام (climax) قراردیا تھا۔ یہاں ترجمہ کرتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے ‘ لیکن ہمیں ترجمانی کی کوشش تو بہر حال کرنی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20. This does not mean that earthly life has nothing serious about it and that it has been brought into being merely as a sport and pastime. What this observation means is that, compared with the true and abiding life of the Hereafter, earthly life seems, as it were, a sport, a transient pastime with which to amuse oneself before turning to serious business. Earthly life has been likened to a sport and pastime for another reason as well. Since Ultimate Reality is hidden in this world, the superficially minded ones who lack true perception encounter many a thing which causes them to fall a prey to misconceptions. As a result of these misconceptions such persons indulge in a variety of actions which are so blatantly opposed to reality that their life seems to consist merely of sport and pastime. One who assumes the position of a king in this world, for instance, is no different from the person who plays the part of a king on the stage of a theatre. His head is bedecked with a crown and he goes about commanding people as if he were a king, even though he has no royal authority. He may later, if the director of the theatre wishes, be either dismissed from his royal office, put into prison or even be sentenced to death Plays of this kind go on all over the world. Saints and man-made deities are deemend to respond to human supplications even though they do not have a shred of authority to do so. Again, some people try to unravel the Unseen even though to do so lies altogether beyond their reach. There are those who claim to provide sustenance to others despite the fact that they are themselves dependent on others for their own sustenance. There are still others who think that they have the power either to bestow honour and dignity on human beings or to degrade them, either to confer benefits or to harm them. Such people go about trumpeting their own glory but their own foreheads bear the stamp of their humble bondage to their Creator. By just one twist of fortune such people may fall of their pededstrals and be trampled under the feet of those upon whom they have been imposing their God-like authority. All these people come to a sudeen end with death.As soon as man crosses the boundaries of this world and steps into the Next, the reality will be fully manifest, all the misconceptions that he has entertained will be peeled away, and he will be shown the true worth of his belief and actions.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :20 اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی زندگی میں کوئی سنجیدگی نہیں ہے اور یہ محض کھیل اور تماشے کے طور پر بنائی گئی ہے ۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی حقیقی اور پائیدار زندگی کی مقابلہ میں یہ زندگی ایسی ہے جیسے کوئی شخص کچھ دیر کھیل اور تفریح میں دل بہلائے اور پھر اصل سنجیدہ کاروبار کی طرف واپس ہو جائے ۔ نیز اسے کھیل اور تماشے سے تشبیہ اس لیے بھی دی گئی ہے کہ یہاں حقیقت کے مخفی ہونے کی وجہ سے بے بصیرت اور ظاہر پرست انسانوں کے لیے غلط فہمیوں میں مبتلا ہونے کے بہت سے اسباب موجود ہیں اور ان غلط فہمیوں میں پھنس کر لوگ حقیقت نفس الامری کے خلاف ایسے ایسے عجیب طرز عمل اختیار کرتے ہیں جن کی بدولت ان کی زندگی محض ایک کھیل اور تماشا بن کر رہ جاتی ہے ۔ مثلاً جو شخص یہاں بادشاہ بن کر بیٹھتا ہے اس کی حیثیت حقیقت میں تھیئٹر کے اس مصنوعی بادشاہ سے مختلف نہیں ہوتی جو تاج پہن کر جلوہ افروز ہوتا ہے اور اس طرح حکم چلاتا ہے گویا کہ وہ واقعی بادشا ہے ۔ حالانکہ حقیقی بادشاہی کی اس کو ہوا تک نہیں لگی ہوتی ۔ ڈائرکٹر کے ایک اشارے پر وہ معزول ہوجاتا ہے ، قید کیا جاتا ہے اور اس کےقتل تک کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے ۔ ایسے ہی تماشے اس دنیا میں ہر طرف ہو رہے ہیں ۔ کہیں کسی ولی یا دیوی کے دربار سے حاجت روائیاں ہو رہی ہیں ، حالانکہ وہاں حاجت روائی کی طاقت کا نام و نشان تک موجود نہیں ۔ کہیں کوئی غیب دانی کے کمالات کا مظاہرہ کر رہا ہے ، حالانکہ غیب کے علم کا وہاں شائبہ تک نہیں ۔ کہیں کوئی لوگوں کا رزاق بنا ہوا ہے ، حالانکہ بیچارہ خود اپنے رزق کے لیے کسی اور کا محتاج ہے ۔ کہیں کوئی اپنے آپ کو عزت اور ذلت دینے والا ، نفع اور نقصان پہنچانے والا سمجھے بیٹھا ہے اور یوں اپنی کبریائی کے ڈنکے بجا رہا ہے گویا کہ وہی گردو پیش کی ساری مخلوق کا خدا ہے ، حالانکہ بندگی کی ذلت کا داغ اس کی پیشانی پر لگا ہوا ہے اور قسمت کا ایک ذرا سا جھٹکا اسے کبریائی کے مقام سے گرا کر انہی لوگوں کے قدموں میں پامال کرا سکتا ہے جن پر وہ کل تک خدائی کر رہا تھا ۔ یہ سب کھیل جو دینا کی چند روزہ زندگی میں کھیلے جارہے ہیں ، موت کی ساعت آتے ہی یکلخت ختم ہو جائیں گے اور اس سرحد سے پار ہوتے ہی انسان اس عالم میں پہنچ جائے گا جہاں سب کچھ عین مطابق حقیقت ہوگا اور جہاں دنیوی زندگی کی ساری غلط فہمیوں کے چھلکے اتار کر ہر انسان کو دکھا دیا جائے گا کہ وہ صداقت کا کتنا جوہر اپنے ساتھ لایا ہے جو میزان حق میں کسی وزن اور کسی قدر و قیمت کا حامل ہو سکتا ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: یہ بات کفروں کے اس بیان کے جواب میں کہی گئی ہے جو آیت نمبر 29 میں اوپر گذرا ہے کہ ’’ جو کچھ ہے بس یہی دنیوی زندگی ہے‘‘ جواب میں فرمایا گیا ہے کہ آخرت کی ابدی زندگی کے مقابلے میں چند روز کی دنیوی زندگی جسے تم سب کچھ سمجھ رہے ہو، کھیل تماشے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پروا کیے بغیر دنیا میں زندگی گذارتے ہیں تو جس عیش و آرام کو وہ اپنا مقصد زندگی بناتے ہیں، آخرت میں جا کر ان کو پتہ لگ جائے گا کہ اس کی حیثیت کھیل تماشے کی سی تھی۔ ہاں ! جو لوگ دنیا کو آخرت کی کھیتی بنا کر زندگی گذارتے ہیں، ان کے لیے دنیوی زندگی بھی بڑی نعمت ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 دنیا کے سریع الزوال ہونے کے اعتبار سے اس کو لہو ولعب فرمای ہے رازی یعنی آخرت کی حقیقی اور ابدی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی اور لذتیں ایسی ہی ہیں جیسے بچوں کا کھیل تماشا جو تھوڑی دیر میں ختم ہوجاتا ہے حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کا حساب لیا اور موت کے بعد آنے والی زندگی کے لیے عمل کیا اور عاجز (احمق) و ہے جس نے اپنے نفس کو اپنے خواہشوں کے پیچھے لگادیا او پھر اللہ سے بخشش کی آرزو رکھی ترمذی) 8 یعنی ان لوگوں کے لیے جو اپنی زندگی میں۔ شرک کفر نفاق اور کبائر سے بچتے ہیں ورنہ کافر کے لیے تو دنیا کی زندگی ہی بہتر ہے جیسا کہ حدیث میں ہے الدینا سجن المو من وجنتہ اللکافر کہ مومن کے لیے تو دنیا قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے (کبیر) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب تک نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا آپ کی قوم کے تمام لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امین اور صادق کہتے تھے لیکن جونہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نبوت کا اعلان کیا اور انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات سنانا شروع کیں تو ان میں سے اکثر آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (نعوذ باللہ) جھوٹا قرار دینے لگے ابو جہل سے بڑھ کر آپ کا کون دشمن ہوگا۔ لیکن حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کرتے ہوئے کہ انا لا تکذبک ولکن نکذب ماجئت بہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو جھوٹا نہیں کہتے لیکن جو پیغام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے ہیں اسے جھوٹا قرار دیتے ہیں ایک دوسرے موقع پر اسی ابو جہل نے اخنس بن شریق سے تنہائی میں کہا اللہ کی قسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سچا انسان ہے اور ساری عمر میں اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن جب نوار، سقایت حجابت اور نبوت سب بنی قصی ہی کے حصہ میں آجائیں تو بتاو باقی قریش کے پاس کیا رہ گیا۔ ( حاکم، ابن ہشام) اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ یہ لوگ جو آپ کی تکذیب کر رہے ہیں وہ حقیقت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نہیں بلکہ ہماری آیات تکذیب ہے کیونکہ شخصی لحاظ سے تو یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر ہی نہیں سکتے اس سے مراد دراصل وہ کفار ہیں جو بشر کے نبی اور رسول ہونے کا محال سمجھتے ہیں (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ خود حیات دنیوی کو لہو ولعب فرمانا مقصود نہیں بلکہ اس کے ان اشغال و اعمال کو کہ آخرت کے لیے نہ موضوع ہیں نع معین ہیں تو اس قید سے طاعات اور مباھات معین طاعات سب نکل گئے اور مباھات لایعنی اور معاصی سب داخل رہ گئے گو ایسے مباحات میں گناہ نہ ہو لیکن بےسود فانی الاثر تو ہیں اور لہو ولعب کے معنی اہل لغت نے متقارب بلکہ متحد ہی لکھے جاتے ہیں صرف فرق اعتبار ہی سے ہوسکتا ہے وہ یہ کہ غیر مانع امر میں مشغول ہونے کے دواثر ہیں ایک خود اس کی طرف متوجہ ہونادوسرے اس توجہ کی وجہ سے نافع امور سے بےتوجہی ہوجانا وہ امر اول اعتبار سے لعب کہلاتا ہے اور دوسرے اعتبار سے لہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مجرم جس دنیا کو ہمیشہ کھیل تماشا تصور کرتے ہیں اس کی حقیقت۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین پر نازل کرنے کے وقت یہ حقیقت آشکار کردی تھی کہ اے آدم ! تم زمین پر اتر جاؤ لیکن یاد رکھنا زمین تیرے اور تیری اولاد کے لیے عارضی قیام گاہ ہے۔ وہاں تمہارا ایک مقررہ مدت تک ہی ٹھہرنا ہوگا۔ یہاں دنیا کی حقیقت بتلائی گئی ہے یہ دنیا کھیل تماشا کے سوا کچھ نہیں جس طرح کھیل اور تفریح زندگی کا مستقل حصہ نہیں کھیل مصروف کار رہنے کے بعد آدمی کے لیے دل بہلاوا اور عارضی راحت کا سبب ہوتا ہے۔ کافر کے لیے دنیا فقط اسی چیز کا نام ہے کہ وہ اس کے لہو و لعب میں مصروف ہو کر رہ جائے اس کے مقابلہ میں مومن دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہوتے ہوئے کھلاڑی کے وقفۂ آرام کی طرح آخرت کی تیاری کے لیے تازہ دم ہوجاتا ہے کیونکہ اس کا ایمان ہے دنیا عارضی اور آخرت دائمی ہے یہاں کی ہر چیز فنا ہوجانے والی ہے، آخرت کی زندگی اور نعمتوں کو دوام حاصل ہے۔ اس سوچ کے پیش نظر وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر زندگی بسر کرتا ہے اور یہی انسان کے عقل مند ہونے کی دلیل ہے۔ سر ور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ اضْطَجَعَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی حَصِیرٍ فَأَثَّرَ فِی جِلْدِہِ فَقُلْتُ بِأَبِی وَأُمِّی یَا رَسُول اللّٰہِ لَوْ کُنْتَ اٰذَنْتَنَا فَفَرَشْنَا لَکَ عَلَیْہِ شَیْءًا یَقِیکَ مِنْہُ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا أَنَا وَالدُّنْیَا إِنَّمَا أَنَا وَالدُّنْیَا کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا) [ رواہ ابن ماجۃ : کتاب الزہد، باب مثل الدنیا ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چٹائی پر لیٹے۔ اس کے نشان آپ کے جسم اطہر پر پڑگئے میں نے آپ کو دیکھ کر عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ! آپ حکم دیتے تو ہم آپ کے لیے بستربچھا دیتے جس سے آپ کا جسم اطہر تکلیف سے بچ جاتا۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری اور دنیا کی مثال اس طرح ہے جیسے کوئی سوار سایہ دار شجر کے نیچے استراحت کے لیے رکے اور پھر اس کو چھوڑ دے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ أَخَذَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِمَنْکِبِی فَقَالَ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیلٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے کندھے سے پکڑ تے ہوئے فرمایا دنیا میں اس طرح رہو جیسے اجنبی یا مسا فررہتے ہیں۔ “ عقل مند کون ؟ (عَنْ أَبِی یَعْلٰی شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہُ ہَوَاہَا ثُمَّ تَمَنَّی عَلَی اللّٰہِ )[ رواہ ابن ماجۃ : کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ ] ” حضرت ابو یعلی شداد بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچانتا ہے اور مرنیکے بعد فائدہ دینے والے اعمال سر انجام دیتا ہے اور نادان وہ ہے جس نے اپنے آپ کو اپنے نفس کے پیچھے لگایا اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ سے تمنا کرے۔ “ مسائل ١۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا محض کھیل تماشا ہے۔ ٢۔ متقین کے لیے آخرت میں جنت ہے۔ ٣۔ آخرت کی تیاری کرنا انسان کے عقل مند ہونے کی دلیل ہے۔ تفسیر بالقرآن دنیا کی حیثیت : ١۔ جو چیز تم دیے گئے ہو یہ تو دنیا کا سامان اور زینت ہے۔ (القصص : ٦٠) ٢۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر کھیل تماشا۔ (العنکبوت : ٦٤) ٣۔ دنیا آخرت کے مقابلہ میں بہت کمتر ہے۔ (التوبۃ : ٣٨) ٤۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔ (آل عمران : ١٨٥) ٥۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ (الکہف : ٤٦) ٦۔ مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہے۔۔ (التغابن : ١٥) ٧۔ آپ فرما دیں کہ دنیا کا سامان تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے۔ (النساء : ٧٧) ٨۔ وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے حالانکہ اس کی آخرت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں۔ (الرعد : ٢٦) ٩۔ آپ ان لوگوں کو چھوڑدیں جنہوں نے دین کو کھیل تماشہ بنالیا اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں مبتلا کردیا۔ (الانعام : ٧٠) ١٠۔ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو جبکہ آخرت اس سے بہتر ہے۔ (الاعلیٰ : ١٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَلَلدَّارُ الآخِرَۃُ خَیْْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُونَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ (32) ” دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے ‘ حقیقت میں آخرت کا مقام ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں ۔ پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لوگے ؟ “ اللہ کے پیمانے کے مطابق حیات دنیا اور حیات اخروی کا یہ وزن ہے اور یہ حقیقی وزن ہے ۔ اس چھوٹے سے کرے پر جس کا نام زمین ہے ۔ ایک گھنٹے کی زندگی کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے ۔ یہ لہو ولعب ہی ہو سکتا ہے ۔ خصوصا جب اس کا موازنہ عالم آخرت کی طویل اور ابدی زندگی سے کیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ عالم آخرت کے مقابلے میں اسے لہو ولعب ہی کہا جاسکتا ہے اس لئے کہ وہ ابدی اور دوامی زندگی ہے اور جنت بہت ہی کشادہ ہے ۔ یہ تو ہے اس دنیا کی حقیقی قدروقیمت بمقابلہ آخرت لیکن اسلامی تصور حیات نے اس مختصر دنیا کو بھی مہمل نہیں چھورا اور نہ ہی اس کے ساتھ منفی رویہ اختیار کیا ہے اور نہ ہی ترک دنیا کی تعلیم دی ہے ۔ تصوف اور زاہدانہ زندگی کے بعض مناظر میں جو ترک دنیا اور رہبانیت نظر آتی ہے اس کا سرچشمہ اسلامی تصور حیات نہیں ہے ۔ یہ چیزیں اسلامی تصور حیات میں کنیسہ اور رہبانیت کے راستے داخل ہوئی ہیں یا اہل فارس کے بعض اداروں سے در آئی ہیں یا بعض ہندوانہ اور یونانی تصورات کی وجہ سے آئی ہیں ۔ اس وقت جب دوسرے معاشروں کی ثقافتوں کو اسلامی معاشرے میں منتقل کیا گیا ۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق عملی زندگی کا مکمل نمونہ صحابہ کرام تھے ۔ انہوں نے دنیا کے حوالے سے کوئی منفی رویہ اختیار نہیں کیا اور نہ ہی ترک دنیا کا راستہ اختیار کیا ۔ انہوں نے اپنے نفوس کے اندر پائے جانے والے شیطانی نفس پر قابو پایا ۔ انہوں نے کرہ ارض پر غالب نظام جاہلیت کو مغلوب کیا۔ ان نظاموں میں حق حاکمیت خدا کے بجائے دوسرے سرداروں اور بادشاہوں کو حاصل تھا ۔ صحابہ کرام (رض) اجمعین میزان الہی کے مطابق اس دنیاوی زندگی کی اصل قدر و قیمت بھی سمجھتے تھے ۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی میں آخرت کے لئے کام کیا اور اس دنیا کے حوالے سے بھی مثبت رویہ کا اختیار کیا ۔ انہوں نے معاملات حیات میں سرگرمی سے حصہ لیا اور جوش و خروش کے ساتھ معاملات دنیا طے کئے اور دنیاوی زندگی کے ہر پہلو پر انہوں نے کام کیا ۔ لیکن صحابہ کرام (رض) اجمعین کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے دنیا کی حقیقت کی تعلیم نے بہت ہی فائدہ دیا ۔ اس لئے وہ دنیا ہی کے بندے نہ بنے بلکہ انہوں نے آخرت کے لئے بھی کام کیا ۔ وہ دنیا پر سوار تھے ‘ دنیا ان کے اوپر سوار نہ تھی ۔ انہوں نے دنیا کو اپنا غلام بنا کر اسے ذلیل کیا اور خود دنیا کے غلام بن کر انہوں نے دنیا کی سلطنت کی ماتحتی اختیار نہ کی ۔ وہ اس دنیا پر اللہ کی جانب سے نائب اور خلیفہ رہے انہوں نے حق خلافت خوب ادا کیا اور اس دنیا کی خوب تعمیر کی ۔ اس کی خوب اصلاح کی لیکن انہوں نے یہ سب رضائے الہی کے لئے کیا اور اجر اخروی کی امید پر کیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دنیا کے میدان میں بھی اہل دنیا پر ستوں سے سے آگے بڑھ گئے اور آخرت کے میدان میں تو وہ تھے ہی ان سے آگے ۔ آخرت بیشک پردہ غیب میں مستور ہے اس لئے جو شخص آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کی سوچ وسیع اور اس کا ادراک بلند ہوتا ہے اور جو لوگ عقل رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ اچھا ہے ۔ ” حقیقت میں آخرت ہی کا مقام ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں ۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہ لوگے ؟ “ جو لوگ آج کے دور میں آخرت کے منکر ہیں اور اس لئے منکر ہیں کہ وہ پردہ غیب میں مستور ہے ‘ وہ دراصل پرلے درجے کے جاہل ہیں حالانکہ وہ دعوی علم کا کرتے ہیں اور یہ لوگ جس علم کا دعوی کرتے ہیں وہ انسانی علم ہے اور انسانی علم میں آج تک کوئی ایسی حقیقت سامنے نہیں آئی ہے کہ اسے آخری حقیقت کہا جاسکے ۔ اگر کوئی حقیقت سامنے آئی ہے تو وہ یہ ہے کہ ہمیں علم نہیں ہے اور غیب ہم سے مخفی ہے ۔ درس نمبر ٥٩ ایک نظر میں : اس سورة کی پر تلاطم موجوں میں سے اس موج میں روئے سخن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دلجوئی فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس رویے سے پیریشان نہ ہوں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم نے اختیار کر رکھا ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صادق وامین مانتی ہے ‘ اس لئے یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا نہیں سمجھتے بلکہ وہ اصرار اس بات پر کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی آیات کو نہ مانیں گے اور ایمان نہ لائیں گے ۔ اس لئے نہیں کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا سمجھتے ہیں بلکہ اس لئے کہ کچھ دوسری وجوہات سے وہ اسلامی نظریہ حیات کا انکار کرتے ہیں ۔ آپ کی تسلی کے لئے آپ کے سابق بھائیوں اور رسولوں کے قصے اور واقعات کی طفف بھی اشارہ کیا جاتا ہے کہ ان کو آپ سے زیادہ اذیت دی گئی لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا اور مشکلات کو انگیز کیا ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح و کامرانی عطا فرمائی اور یہ سب کچھ سنت الہیہ کے اصولوں کے مطابق ہوا جس میں کبھی کوئی تبدیلی نہ ہوگی ۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور اطمینان دلایا جا چکا تو پھر آپ کے سامنے اللہ تعالیٰ دعوت اسلامی کے بارے میں ایک اہم حقیقت برائے غور رکھتے ہیں۔ وہ یہ کہ دعوت اسلامی کا کام سنت الہیہ کے مطابق اس جہاں میں چلتا رہتا ہے اور داعی کا کردار اس میں صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ دعوت کو مخاطبین تک پہنچائے اور بات کرتا چلا جائے ۔ تمام امور کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے ‘ وہ اس جہان کو جس طرف چاہے موڑ دے ۔ داعی کا کام بس صرف یہ ہے کہ وہ احکام الہی کے مطابق اپنی جدوجہد جاری رکھے اور ایک قدم بھی اپنی راہ سے ادھر ادھر نہ ہو اور خود اللہ کو تجاویز دینا نہ شروع کر دے ۔ اگر داعی بذات خود حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں تو انہیں بھی اس کی اجازت نہیں ہے ۔ نہ داعی کا یہ کام ہے کہ وہ مخالفین اور مکذبین کی تجاویز پر غور کرے نہ عوام الناس کے کام پر غور کرے کہ دعوت کا منہاج یہ ہونا چاہئے اور نہ ہی وہ انکی جانب سے دلائل ومعجزات کا مطالبہ مانے ۔ اس لئے کہ زندہ دل لوگ تو اس کی بات سنیں گے اور قبول کریں گے لیکن جن لوگوں کے دل مرچکے ہیں وہ ہر گز اس کی بات قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں گے ۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو اسی طرح مردہ رہنے دیتا ہے یا انہیں زندگی بخشتا ہے ۔ قیامت اور حشر تک اللہ کی یہ سنت جاری رہے گی ۔ یہ لوگ اقوام سابقہ کی طرح آیات ومعجزات طلب کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اگرچہ ہر قسم کے معجزات کے صدور پر قادر ہے ‘ لیکن وہ حکیم ہے ‘ اور وہ ان معجزات کا صدور اپنی حکمت کی بناء پر نہیں کرتا ۔ اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ پر یہ صورت حال شاق گزر رہی ہے تو پھر اگر آپ کے اندر کوئی طاقت ہے تو آپ خود کسی معجزے کا بندوبست کریں ۔ اللہ تو تمام مخلوقات کا خالق ہے ۔ وہ تمام مخلوق کے بھیدوں کا جاننے والا ہے ‘ ان کے مزاج اور صلاحیتوں کو خوب جانتا ہے ۔ وہ اپنی حکمت کے تحت جھٹلانے والوں کو اندھیروں میں چھوڑتا ہے جس طرح گونگے اور بہرے ہوتے ہیں ۔ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ضلالت میں چھوڑ دیتا ہے ۔ یہ سب امور اس کی حکمت کے تحت چلتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا کہ (وَ مَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَھْوٌ) (دنیا والی زندگی بس لعب و لہو ہے) یعنی باطل ہے اور غرور ہے نہ اس کو دوام ہے نہ اس کے منافع اور لذتوں کو بقا ہے، اس کے ذریعہ حقیقی حاجت پوری نہیں ہوتی۔ حقیقی حاجت آخرت کی حاجت ہے، دنیا میں جس طرح بچے آپس میں مل کر کھیلتے ہیں کھانے کی دکان بھی کھولتے ہیں اور جھوٹ موٹ کو کھاتے بھی ہیں پھر تھوڑی دیر میں ماں باپ سے کھانا مانگنے لگتے ہیں، اگر ان سے کہا جائے کہ تمہارا ہوٹل کھلا ہوا تھا اس میں سے کیوں نہیں کھاتے اس کا کیا ہوا ؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ وہ تو ایک کھیل تھا حقیقت نہیں تھی۔ پیٹ تو حقیقی کھانے سے بھرتا ہے، پیاس حقیقی پینے سے بجھتی ہے دنیا چونکہ لہو و لعب ہے اس لیے اس سے آخرت کی حاجتیں پوری نہ ہوں گی۔ وہاں تو مجرم شخص یہ کہے گا۔ (مَآ اَغْنیٰ عَنِّیْ مَالِیَہْ ۔ ھَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ ) (مجھے فائدہ نہ دیا میرے مال نے برباد ہوگیا میرا اقتدار) ہاں اسی دنیا میں جو حصہ اللہ کی رضا میں لگا دیا وہ حدود دنیا داری سے نکل گیا وہ آخرت میں کام دے گا۔ بشرطیکہ ایمان پر موت آئی ہو۔ پھر فرمایا (وَ لَلدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ ) (اور البتہ دار آخرت بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو شرک اور کفر سے بچتے ہیں) لہٰذا دار آخرت کے لیے کوشش کرنا لازم ہے یہاں فنا ہے وہاں بقا ہے یہاں ذرا سا مزہ ہے وہاں اہل تقویٰ کے لیے مستقل دائمی لذت اور آرام ہے۔ (اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) (کیا تم نہیں سمجھتے) کفر و شرک کو چھوڑ کر ایمان اور اعمال صالح کیوں اختیار نہیں کرتے ؟ سمجھ سے کام لیں تو کفر و شرک کی قباحت واضح ہوجائے اور ایمان اور اعمال صالح کا اخروی نفع سمجھ میں آجائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36 مشرکین چونکہ دنیا کی دولت اور شان و شوکت پر مغرور ہو کر حق کا انکار کرتے تھے اس لیے ان کی اصلاح کے لیے دنیا کی بےثباتی اور اس کے ساز و سامان کی حقارت اور قلت کا ذکر فرمایا کہ جس دنیا پر تم اس قدر مغرور ہو کر اس کی وجہ سے حق کا انکار کر رہے وہ تو چند روزہ نمائش ہے اور آخرت کے مقابلے میں بالکل ہیچ ہے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ (1) لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَاد (ال عمران ع 3) (2) فَلَا یَغُرَّنَّکَ تَقُلُّبُھُمْ فِی الْبِلَاد (مومن ع 1) ۔ ان دونوں آیتوں میں تقلب مصدر قلت و حقارت کیلئے ہے۔ (3) وَاضْرِبْ لَھُمْ مَّثَلَ الْحَیٰۃِ الدُّنْیَا کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰہُ الایۃ (کہف ع 6) ۔ (4) اِعْلَمُوْا اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَھْوٌ وَّ زِینَۃٌ (حدید ع 3) ۔ تیسری آیت میں دنیا کی تمثیل اور چوتھی آیت میں لھو ولعب کے الفاظ بھی قلت و حقارت پر دلالت کرتے ہیں۔ 37 اس کا مفعول الشرک مقدر ہے ای یتقون الشرک (خازن ج 2 ص 207 وجلالین) جو لوگ شرک سے بچتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں آخرت میں انہی کے لیے بہتری اور بھلائی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

32 اور دنیا کی زندگی تو محض ایک کھیل اور مشغلہ ہے اور البتہ آخرت کا گھر یقینا ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جوم حتاط متقی و پرہیز گار ہیں تو کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے یعنی جو شرک اور معاصی سے بچتے ہیں ان کے لئے آخرت کا گھر بہتر ہے۔