Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 36

سورة الأنعام

اِنَّمَا یَسۡتَجِیۡبُ الَّذِیۡنَ یَسۡمَعُوۡنَ ؕ ؔ وَ الۡمَوۡتٰی یَبۡعَثُہُمُ اللّٰہُ ثُمَّ اِلَیۡہِ یُرۡجَعُوۡنَ ﴿؃ ۳۶﴾

Only those who hear will respond. But the dead - Allah will resurrect them; then to Him they will be returned.

و ہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں اور مُردوں کو اللہ زندہ کر کے اٹھائے گا پھر سب اللہ ہی کی طرف لائے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ ... It is only those who listen, that will respond, means, only those who hear the speech, comprehend and understand it, will accept your call, O Muhammad! In another Ayah, Allah said; لِّيُنذِرَ مَن كَانَ حَيّاً وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَـفِرِينَ That it may give warning to him who is living, and that the Word may be justified against the disbelievers. (36:70) Allah's statement, ... وَالْمَوْتَى يَبْعَثُهُمُ اللّهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ but as for the dead, Allah will raise them up, then to Him they will be returned. refers to the disbelievers because their hearts are dead. Therefore, Allah resembled them to dead corpses as a way of mocking and belittling them, saying, وَالْمَوْتَى يَبْعَثُهُمُ اللّهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ (but as for the dead (disbelievers), Allah will raise them up, then to Him they will be returned (for their recompense).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 اور ان کافروں کی حیثیت تو ایسی ہے جیسے مردوں کی ہوتی ہے۔ جس طرح وہ سننے اور سمجھنے کی قدرت سے محروم ہیں یہ بھی چونکہ اپنی عقل فہم سے حق کو سمجھنے کا کام نہیں لیتے اس لئے یہ بھی مردہ ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١] جن لوگوں کو ہدایت مطلوب ہوتی ہے وہ تمہاری باتوں کو غور سے سنتے ہیں پھر وہ ہدایت قبول بھی کرتے ہیں مگر جن لوگوں کے دل اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے مرچکے ہیں وہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے یہ لوگ جیتے جی اپنے اختیار سے تو اللہ کی طرف رجوع کرنے والے نہیں۔ البتہ جب مرجائیں گے اور اللہ انہیں دوبارہ زندہ کرے گا تب انہیں اضطراری طور پر اللہ کے حضور پیش ہونا ہی پڑے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَا يَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کو مردوں کے مشابہ قرار دیا ہے جن کو جتنا بھی پکارا جائے وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے، یعنی ان کفار کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں اور ان مردوں کو اگر عقل آئے گی تو اسی وقت جب اللہ تعالیٰ ان کو دنیا سے اٹھائے گا اور ان کا محاسبہ کرے گا۔ سورة نمل کی آیات (٨٠، ٨١) اس کی ہم معنی ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا يَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ يَسْمَعُوْنَ۝ ٠ۭؔ وَالْمَوْتٰى يَبْعَثُہُمُ اللہُ ثُمَّ اِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَ۝ ٣٦۬ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ( ج و ب ) الجوب الاستاأبتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینو مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا پس بعث دو قمخ پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦) غزوہ بدر، احد، احزاب میں جو لوگے مرے یا یہ کہ ان کے دل مردہ ہیں، وہ سب مرنے کے بعد میدان حشر میں پیش کیے جائیں گے، پھر ان کے اعمال کی جزا وسزا ملے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25. 'Those who hear' refers to those whose consciences are alive, who have not atrophied their intellect and reason, and who have not closed their hearts to the Truth out of irrational prejudice and menta! inflexibility. In contrast to such people are those who are characterized as 'dead' - who blindly follow the old familiar beaten tracks, and can never deviate from the ways they have inherited, even when these ways are plainly at variance with the Truth.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:36) یستجیب۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ استجابۃ (استفعال) سے مصدر ج و ب حروف مادہ۔ دعوت قبول کرتے ہیں۔ الموتی۔ المیت کی جمع۔ مردے۔ یہاں الذین یسمعون کے مقابلہ میں الموتی واقع ہوا ہے سننے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ضمیر زندہ ہیں ۔ جو نیک و بد میں تمیز کرسکتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں مردہ وہ لوگ ہیں جو لکیر کے فقیر ہیں۔ اور اپنی ہٹ دھرمی اور تعصب کی وجہ سے کوئی اثر قبول نہیں کرتے۔ یبعثھم اللہ۔ یبعث مضارع واحد مذکر غائب۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ن کو اٹھائے گا۔ والموتی یبعثم اللہ۔ رہے مردے تو انہیں تو اللہ تعالیٰ بس قبروں ہی سے اٹھائیگا (تفہیم القرآن) یعنی جو مردہ دل اور مردہ ضمیر ہیں وہ تو ایمان نہیں لائیں گے ۔ اور روز محشر قبروں سے ہی اٹھیں گے۔ اور اپنے کئے کی سزا بھگتنے کے لئے خدا کے حضور لوٹائے جائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اس آیت میں آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کو مردوں سے مشابہ قرار دیا ہے جن کو جتنا پکارا جائے وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے یعنی ان کافروں کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں۔ اور ان میں فہم وفکر کی قوت ختم ہوچکی ہے ان کو اگر عقل آئے گی تو اس وقت جب اللہ تعالیٰ ان کو دنیا سے اٹھائے گا اور ان محاسبہ کرے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” إِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُونَ وَالْمَوْتَی یَبْعَثُہُمُ اللّہُ ثُمَّ إِلَیْْہِ یُرْجَعُونَ (36) عوت حق پر لبیک وہی کہتے ہیں جو سننے والے ہیں ‘ رہے مردے تو انہیں تو بس اللہ قبروں سے اٹھائے گا اور پھر وہ (اس کی عدالت میں پیش ہونے کے لئے) واپس لائے جائیں گے ۔ “ جب کوئی رسول دعوت حق لے کر لوگوں کے پاس آتا ہے تو اس دعوت کے مقابلے میں لوگ دو گروہ بن جاتے ہیں ۔ ایک فریق تو زندہ اور بیدار لوگوں کا ہوتا ہے ‘ جن کے اندر قبولیت حق کی استعداد ہوتی ہے ‘ یہ استعداد کام کر رہی ہوتی ہے اور ان لوگوں کے دل کے دریچے کھلے ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ ہدایت قبول کرلیتے ہیں اس لئے کہ ہدایت اور سچائی کے اندر ذاتی قوت ‘ نکھار اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی ہوتی ہے اور ایسے لوگ اسے پاتے ہی قبول کرلیتے ہیں ۔ (آیت) ” انما یستجیب الذین یسمعون “۔ (٦ : ٣٦) ” یعنی جن لوگوں کی قوت شنوائی کام کر رہی ہوتی ہے وہ حق کو قبول کرلیتے ہیں ۔ ایک دوسرافریق وہ ہوتا ہے جو دراصل مردہ ہوتا ہے ۔ اس کی فطرت معطل ہوجاتی ہے ۔ وہ نہ سنتا ہے اور نہ قبول کرتا ہے ۔ وہ نہ متاثر ہوتا ہے اور نہ ہی لبیک کہتا ہے ۔ یہ بات نہیں ہوتی کہ اس سچائی کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہوتی سچائی تو خود دلیل ہوتی ہے ‘ آفتاب آمد ولیل آفتاب ‘ اور جب بصیرت رکھنے والی فطرت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو وہ اس کے اندر سچائی دیکھ لیتی ہے ۔ فورا وہ آخری فیصلہ کرکے تسلیم کرلیتی ہے ۔ دوسری قسم کے لوگوں کے اندر جو کمی ہوتی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ان کی فطرت مر چکی ہوتی ہے اور ان کی استعداد قبولیت حق جاتی رہتی ہے لہذا ان کے اندر محض دعوت سنتے ہی قبولیت حق کی استعداد پیدا نہیں ہوتی ۔ ایسے لوگوں کا کوئی علاج خود رسول وقت کے پاس بھی نہیں ہوتا ۔ ان پر کوئی دلیل کارگر نہیں ہوتی ۔ ان کا معاملہ اللہ کی مشیت کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے ۔ اگر اللہ چاہے تو ایسے لوگوں کو زندہ کردیتا ہے اور اگر نہ چاہے تو یہ لوگ زندہ ہوں یا مردہ قیامت تک مردہ رہیں گے ۔ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں اٹھائے گا ۔ (آیت) ” والموتی یبعثھم اللہ ثم الیہ یرجعون “ (٦ : ٣٦) ” مردوں کو تو اللہ قبروں ہی سے اٹھائے گا اور وہ اس کی عدالت میں پیش ہوں گے ۔ یہ ہے کہانی قبولیت حق اور محرومیت کی ۔ اس سے ہدایت وضلالت کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے ۔ رسول کے فرائض متعین ہوجاتے ہیں اور تمام امور کا آخری فیصلہ اللہ کے سپرد ہوتا ہے ۔ وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس حقیقت کو آشکارا کرنے کے بعد ‘ اب روئے سخن اہل کفار اور مشرکین کے اس غلط مطالبے کی طرف پھرجاتا ہے جس میں وہ خوارق ومعجزات کے مطابلے کرتے تھے ۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کا یہ مطالبہ جہالت پر مبنی ہے اور یہ لوگ اس معاملے میں سنت الہیہ سے بالکل بیخبر ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب کوئی معجزہ صادر ہوتا ہے تو اس کے بعد نہ ماننے والوں بلکہ ماننے والوں کو بھی ایک عظیم بربادی سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔ لہذا اللہ تعالیٰ جو ان لوگوں کے مطالبے کو تسلیم نہیں کرتا تو اس لئے نہیں کرتا کہ وہ ان پر رحم کرکے انہیں اس عظیم تباہی سے بچانا چاہتا ہے ۔ اس موقعہ پر تمام زندہ مخلوقات کے بارے میں اللہ کی حکیمانہ تدابیر کو بھی بیان کردیا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ سنت تمام زندہ مخلوقات تک وسعت پزیر ہے ۔ یہاں وہ حکمت بتائی جاتی ہے جو ہدایت وضلالت کے فیصلوں کے پیچھے کام کرتی ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ کی بےقید مشیت کام کرتی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ ) (حق کو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو قبول کرنے کے ارادہ سے سنتے ہیں) (وَ الْمَوْتٰی یَبْعَثُھُمُ اللّٰہُ ) (اور مردہ لوگ یعنی کافر جن کے دل مردہ ہوچکے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن اٹھائے گا) (ثُمَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ ) (پھر اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے) اور اپنے عقیدہ اور عمل کی سزا پالیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42 یَسْمَعُوْنَ کے معنی یُنِیْبُوْنَ کے ہیں یعنی صرف وہی لوگ حق کو قبول کرتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کی طرف رغبت ہو بقرینہ وَ مَا یَتَذَّکَّرُ اِلَّا مَنْ یُّنِیْبُ (مومن ع 2) اور الموتی (مردے) سے یہاں کفار و مشرکین مراد ہیں کیونکہ ان کے ایمان و توحید سے خالی ہونے کی وجہ سے مردہ اور بےجان ہیں۔ والموتی ای الکفار کما قال الحسن ورواہ عنہ غیر واحد وفی اطلاق الموتی علی الکفار استعارۃ تبعیۃ مبنیۃ علی تشبیہ کفرھم وجھلھم بالموت (روح ج 7 ص 142)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

36 دعوت حق اور دعوت الٰہی کو تو بس وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو دل سے سنتے اور سننے کی صحیح صلاحیت رکھتے ہیں اور جو مردے ہیں اور جن کے دل مرچکے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ ان کی قبروں سے زندہ کر کے اٹھائے گا پھر وہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے اور حساب و کتاب کے لئے اسی کی طرف واپس کئے جائیں گے یعنی جن میں صلاحیت ہے وہی دین حق کو قبول کرتے ہیں اور جو منکر ہیں وہ ایسے ہی جیسے مردے کو اللہ تعالیٰ ان کو قیامت میں ہی اٹھائے گا اور وہ ان سے حساب لے گا اور ان کے کئے کی سزا دے گا۔