Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 61

سورة الأنعام

وَ ہُوَ الۡقَاہِرُ فَوۡقَ عِبَادِہٖ وَ یُرۡسِلُ عَلَیۡکُمۡ حَفَظَۃً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ تَوَفَّتۡہُ رُسُلُنَا وَ ہُمۡ لَا یُفَرِّطُوۡنَ ﴿۶۱﴾

And He is the subjugator over His servants, and He sends over you guardian-angels until, when death comes to one of you, Our messengers take him, and they do not fail [in their duties].

اور وہی اپنے بند وں کے اوپر غالب ہے برتر ہے اور تم پر نگہداشت رکھنے والےبھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آپہنچتی ہے ، اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کر لیتے ہیں اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ... He is the Qahir over His servants. The Qahir means, the one who controls everything, all are subservient to His supreme grace, greatness and majesty, ... وَيُرْسِلُ عَلَيْكُم حَفَظَةً ... and He sends guardians over you, angels who guard mankind. In another Ayah, Allah said; لَهُ مُعَقِّبَـتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ For each (person), there are angels in succession, before and behind him. They guard him by the command of Allah. (13:11), watching his deeds and recording them. Allah said, وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَـفِظِينَ But verily, over you (are appointed angels in charge of mankind) to watch you. (82:10) and, إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلاَّ لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (Remember!) that the two receivers (recording angels) receive, one sitting on the right and one on the left. Not a word does he utter, but there is a watcher by him, ready. (50:17-18) Allah's statement, ... حَتَّىَ إِذَا جَاء أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ... until when death approaches one of you... refers to, when one's life span comes to an end and he is dying, ... تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا ... Our messengers take his soul... meaning, there are angels who are responsible for this job. Ibn Abbas and several others said that; the Angel of Death has angels who pull the soul from its body and when it reaches the throat, the Angel of Death captures it. Allah said; ... وَهُمْ لاَ يُفَرِّطُونَ and they never neglect their duty. They guard the soul of the dead person and take it to wherever Allah wills, to Illiyyin if he was among the righteous, and to Sijjin if he was among the wicked (disbelievers, sinners, etc.), we seek refuge with Allah from this end. Allah said next,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61۔ 1 یعنی اپنے اس مفوضہ کام میں اور روح کی حفاظت میں بلکہ وہ فرشتہ، مرنے والا اگر نیک ہوتا ہے تو اس کی روح عِلِّیِّیْنَ میں اور اگر بد ہے تو سِجِّیْنَ میں بھیج دیتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا && تم میں دن اور رات کے فرشتے ایک دوسرے کے بعد باری باری آتے رہتے ہیں۔ عصر اور فجر کی نماز کے وقت وہ جمع ہوجاتے ہیں پھر وہ فرشتے جو رات کو تمہارے پاس رہے تھے اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ && تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ && حالانکہ وہ تم سے خوب واقف ہوتا ہے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں && ہم نے جب انہیں چھوڑا وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ && اور && جب انکے پاس گئے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ && (بخاری۔ کتاب مواقیت الصلٰوۃ۔ باب فضل صلٰوۃ العصر۔ بخاری کتاب التوحید۔ باب قول اللہ تعرج الملئکۃ والروح الیہ ) خ حفاظت کرنے والے اور اعمال لکھنے والے فرشتے :۔ اس حدیث میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو انسان کا نامہ اعمال مرتب کرتے ہیں۔ رات کے فرشتے الگ ہیں اور دن کے الگ۔ ان کے علاوہ کچھ فرشتے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس کی جان کی حفاظت کرتے ہیں۔ بسا اوقات ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں جب انسان اپنی موت اپنے سامنے کھڑی دیکھ لیتا ہے۔ لیکن حالات کا رخ ایسا پلٹا کھاتا ہے کہ اس کی جان بچ جاتی ہے اور وہ خود یہ اعتراف کرتا ہے کہ && اس وقت اللہ ہی تھا جس نے اس کی جان بچا لی۔ && یا یہ کہ && ابھی زندگی باقی تھی ورنہ بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ && اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ابھی اس انسان کی موت کا معین وقت آیا نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر ان الفاظ میں بیان فرمایا (قُلْ مَنْ يَّـكْلَـؤُكُمْ بالَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ ۭ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ 42؀) 21 ۔ الأنبیاء :42) خ انسانی زندگی اور موت کے سب مراحل اضطراری ہیں :۔ اس آیت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ 18؀) 6 ۔ الانعام :18) یعنی تمام مخلوقات اور انسان اللہ تعالیٰ کے طبعی قوانین کے سامنے بالکل بےکس اور مجبور محض ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رحم مادر میں ہر شخص کی شکل و صورت جیسے خود چاہی ویسی ہی بنادی۔ اس میں اس کا اپنا کچھ عمل دخل نہ تھا۔ پھر جب پیدا ہوا اور ماں کے پیٹ سے باہر آیا تو اس وقت بھی اس کی اپنی مرضی کو کچھ عمل دخل نہ تھا۔ پھر پیدا ہو کر وہ کھانے پینے پر مجبور ہے تاکہ اس کی تربیت اور پرورش ہو۔ اسی طرح وہ بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے مراحل طے کرنے پر بھی مجبور ہے اور جنسی ملاپ پر بھی مجبور ہے لیکن اولاد پیدا کرنے میں اس کا کچھ عمل دخل نہیں۔ چاہے تو کسی نادار کو کثیر الاولاد بنادے اور چاہے تو کسی امیر کبیر کو اولاد سے محروم کر دے۔ پھر وہ اپنے مرنے پر بھی مجبور ہے اور زندگی کے دن پورے کرنے پر بھی جب تک اس کی موت کا متعین وقت نہ آئے خواہ وہ کیسے ہی حوادث سے دو چار ہو فرشتے اس کی جان کی حفاظت کرتے رہتے ہیں اور جب وہ معین وقت آجاتا ہے کوئی حکیم، کوئی ڈاکٹر یا اس کا مال و دولت اور اس کے نہایت قریبی رشتہ دار اسے موت کے منہ سے بچا نہیں سکتے۔ پھر رزق کے حصول میں بھی بہت حد تک مجبور ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ امیر کبیر بن جائے لیکن اسے رزق ملتا اتنا ہی ہے جو اس کے مقدر میں ہوتا ہے اور جو مقدر میں ہوتا ہے وہ مل کے رہتا ہے۔ بعینہ انسان موت کے بعد کی منازل یعنی دوبارہ زندہ ہوجانے، اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے اللہ کے حضور پیش ہوجانے اور ان اعمال کی جزا و سزا پانے پر مجبور ہے اور کوئی چیز اسے ان نتائج سے نہ بچا سکتی ہے، نہ آڑے آسکتی ہے اور ان تمام معاملات میں اس کی اپنی مرضی کو کچھ بھی عمل دخل نہیں ہوگا اور یہی اس جملہ کا مطلب ہے۔ [٦٧] یعنی وہ اپنی ڈیوٹی میں کسی طرح کی غفلت نہیں کرتے۔ انسان کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا فعل یا عمل یا قول ایسا نہیں ہوتا جسے فرشتے اس کے نامہ اعمال میں لکھ نہ لیتے ہوں۔ یا جس شخص کی ابھی موت نہ آئی ہو اس کی حفاظت نہ کریں اور وہ معینہ وقت سے پہلے مرجائے۔ یا کسی کا معینہ وقت آچکا ہو لیکن اس کی روح کو قبض نہ کریں۔ یا موت تو زید کی معین ہو اور وہ اس کے بجائے بکر کی روح قبض کرلیں۔ ان میں سے کوئی صورت بھی ممکن نہیں ہوتی۔ وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے حکم میں کسی طرح کی کمی بیشی کر ہی نہیں سکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ : ” َهُوَ “ اس جملے میں مبتدا ہے، ” الْقَاهِرُ “ خبر پر الف لام آنے کی وجہ سے ترجمہ ” وہی “ کیا ہے۔ ” الْقَاهِرُ “ کے معنی غالب ہیں اور یہ ” اَلْقَادِرُ “ سے زائد صفت ہے، یعنی خود قادر ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے کو مراد حاصل کرنے سے روک دینے والا بھی ہے۔ (بغوی) اللہ تعالیٰ کی صفت قہاریت یہ ہے کہ وہ کائنات کو عدم سے وجود میں لایا، پھر وجود پر فنا اور خرابی طاری کرتا رہتا ہے، تو کائنات میں جس قدر بھی پیدا کرنے اور فنا کرنے کا کام ہو رہا ہے سب اللہ تعالیٰ کی قہاریت کا مظہر ہے۔ سورة آل عمران کی آیات (٢٦، ٢٧) اس صفت کی پوری تشریح کر رہی ہیں۔ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ۭ: حفاظت کرنے والے کچھ فرشتے تو وہ ہیں جو انسان کی آفات سے حفاظت کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ۭ ) [ الرعد : ١١ ] ” اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے کئی پہرے دار ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ “ اور کچھ وہ ہیں جو انسان کا عمل لکھتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِين، كِرَامًا كَاتِبِيْنَ ، يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ) [ الانفطار : ١٠ تا ١٢ ] ” حالانکہ بلاشبہ تم پر یقیناً نگہبان ( مقرر) ہیں۔ جو بہت عزت والے لکھنے والے ہیں۔ وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔ “ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ۔۔ : فوت کرنے والے فرشتے کا نام عزرائیل مشہور ہے، لیکن شیخ البانی (رض) نے ایسی تمام روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [ أحکام الجنائز، باب بدع الجنائز، حاشیہ بدعۃ، رقم : ٩٢ ] قرآن مجید میں اسے ملک الموت کہا گیا ہے، فرمایا : (قُلْ يَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ ) [ السجدۃ : ١١ ] ” کہہ دے تمہیں موت کا فرشتہ قبض کرلے گا۔ “ ” تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا “ سے معلوم ہوتا ہے کہ موت والے کئی فرشتے ہیں اور کئی آیات میں اللہ تعالیٰ کے روح قبض کرنے کا ذکر ہے، جیسے فرمایا : (اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا ) [ الزمر : ٤٢ ] ” اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے۔ “ ان تمام آیات کو مد نظر رکھیں تو صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، جس کے حکم سے سب کچھ ہوتا ہے، پھر ملک الموت ہے، جو اکثر علماء کے نزدیک ایک ہی ہے، البتہ اس کے معاون رحمت اور عذاب کے فرشتے کئی ہیں، جیسا کہ زیر تفسیر آیت اور براء بن عازب (رض) کی حدیث میں آیا ہے کہ ملک الموت کے ساتھ رحمت اور عذاب کے فرشتے بھی ہوتے ہیں۔ وَهُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ : یعنی جس کی جان قبض کرتے ہیں اللہ کے حکم سے اس کے مقررہ وقت پر کرتے ہیں، نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the third verse, this subject has been further enlarged by saying that Allah Ta` ala has absolute subduing power over all His servants. As long as He wills to have them living, He assigns angels to protect them as a result of which no one dares harm them. And when one has reached the appointed limit of one&s age, these very guardian angels become the agents of one&s death without ever falling short in provid¬ing the relevant causes leading to one&s death. Then, death is not all, for the matter is still not closed. Instead of that, there is the next phase, that of: رُ‌دُّوا إِلَى اللَّـهِ ; (Then they are returned to Allah - 62). It means that they will be made to rise again and be presented before Allah Ta` ala. If, at this point, one were to think of having to appear before the greatest Judge of judges and stand before Him to account for a whole life-time of deeds, one cannot even dare to imagine to come out unscathed and hope to escape punishment. Therefore, along with it, it was said: إِلَى اللَّـهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ to Allah, their real Master - 62). It means that Allah Ta` ala is not only the Sovereign and the Judge of judges, He is also the Master and Guardian of His servants who reaches out to help them at all times of their need. After that, it was said: أَلَا لَهُ الْحُكْمُ (Beware, to Him alone belongs the judgement). This certainly leaves no doubt that He is the best in His decision and decree. However, one may be inclined to think how it will be possible for Allah who is One alone to take care of the reckoning of age-long deeds of billions and billions of human beings? Therefore, after that, it was said: أَسْرَ‌عُ الْحَاسِبِينَ (and He is the swiftest reckoner). It means that taking what is done by Allah on the analogy of what is done by human beings is ignorance. He shall do that in no time. (When His servants at the Mainframe factories of Cray and IBM can churn billions and bil¬lions of data in seconds, why anyone in his senses would ever doubt the power of the Maker of all makers ! -Tr.)

تیسری آیت میں اسی مضمون کی مزید تفصیل اس طرح بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں پر ایک قوت قاہرہ رکھتا ہے، جب تک اس کو ان کا زندہ رکھنا منظور ہوتا ہے تو حفاظت کرنے والے فرشتے ان کی حفاظت کے لئے بھیج دیتا ہے، کسی کی مجال نہیں جو اس کو نقصان پہنچائے اور جب کسی بندہ کا مقررہ وقت عمر کا پورا ہوجاتا ہے تو یہی حفاظت کرنے والے فرشتے اس کی موت کا ذریعہ بن جاتے ہیں، اور اب اس کی موت کے اسباب فراہم کرنے میں ذرا کمی نہیں کرتے، اور پھر مر کر ہی معاملہ ختم نہیں ہوجاتا۔ بلکہ ردوا الی اللّٰہ، یعنی دوبارہ زندہ ہو کر پھر اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر کئے جائیں گے، اس جگہ احکم الحاکمین کے سامنے پیشی اور عمر بھر کے حساب کا جب خیال کیا جائے تو کسی کی مجال ہے جو پورا اتر سکے، اور عذاب سے بچ نکلے، اس لئے اس کے ساتھ ہی ارشاد فرمایا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ یعنی اللہ تعالیٰ صرف حاکم اور احکم الحاکمین ہی نہیں وہ اپنے بندوں کے مولیٰ بھی ہیں جو ہر موقع پر ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا اَلَا لَهُ الْحُكْمُ ، بیشک فیصلہ اور حکم صرف اسی کا ہے، یہاں یہ خیال ہوسکتا تھا کہ ایک ذات اور اربوں انسانوں کی پوری پوری عمروں کا حساب نمٹے گا کسی طرح ؟ اس لئے اس کے بعد فرمایا وَهُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ یعنی اللہ تعالیٰ کے کاموں کو اپنے کاموں پر قیاس کرنا جہالت ہے، وہ بہت جلد سب حساب پورا فرما لیں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَۃً۝ ٠ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ۝ ٦١ قهر القَهْرُ : الغلبة والتّذلیل معا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقال : وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد/ 16] ، فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ، فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلا تَقْهَرْ [ الضحی/ 9] أي : لا تذلل، وأَقْهَرَهُ : سلّط عليه من يقهره، والْقَهْقَرَى: المشي إلى خلف . ( ق ھ ر ) القھر ۔ کے معنی کسی پر غلبہ پاکر اسے ذلیل کرنے کے ہیں اور ان دنوں ( یعنی غلبہ اور تذلیل ) میں ستے ہر ایک معنی میں علیدہ علیدہ بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد/ 16] اور وہ یکتا اور زبردست ہے ۔ ۔ فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلا تَقْهَرْ [ الضحی/ 9] تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرو اسے ذلیل نہ کرو ۔ اقھرہ ۔ کسی پر ایسے شخص کو مسلط کرنا جو اسے ذلیل کردے ۔ القھقری پچھلے پاؤں لوٹنا ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ ( حفظة) ، جمع حافظ اسم فاعل من حفظ الثلاثيّ ، وزنه فاعل، ووزن حفظة فعلة بفتحتین . حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینب مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے ( فرط) تَّفْرِيطُ ، افراط والْإِفْرَاطُ : أن يسرف في التّقدّم : تَّفْرِيطُ : أن يقصّر في الفَرَط، يقال : ما فَرَّطْتُ في كذا . أي : ما قصّرت . قال تعالی: ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ [ الأنعام/ 38] ، ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر/ 56] الافراط کے معنی حد سے بہت زیادہ تجاوز کر جانے کے ہیں ۔ اور تفریط کے معنی فرط یعنی تقدم میں کوتاہی کرنے کے ہیں اور تفریط کے معنی فرط یعنی تقدم میں کوتاہی کرنے کے چناچہ محاورہ ہے : ۔ مافرطت فی کذا میں نے فلاں معاملہ میں کوتاہی نہیں کی ۔ قرآن میں ہے : ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ [ الأنعام/ 38] ہم نے کتاب ( یعنی لوح محفوظ میں ) کسی چیز ( کے لکھنے میں کوتاہی نہیں کی ۔ ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر/ 56] اس تقصیر پر ( افسوس ہے ) جو میں نے خدا کے حق میں کی ۔ ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف/ 80] تم یوسف کے بارے میں قصؤر کرچکے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦١) وہی اپنے بندوں پر غالب ہیں اور وہ ہر ایک شخص کے لیے دو فرشتے رات کو اور دو دن کو تمہاری نیکیاں اور برائیاں لکھنے کے لیے بھیجتے ہیں، جب موت کا وقت آئے گا تو ملک الموت اور اس کے ساتھی تمہاری روح قبض کرلیں گے اور وہ آنکھ جھپکنے کے بقدر بھی دیر نہیں کریں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ (وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً ط) ۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے انسان کو اپنی اجل معیّن تک بہر صورت زندہ رہنا ہے ‘ اس لیے ہر انسان کے ساتھ اللہ کے مقرر کردہ فرشتے اس کے باڈی گارڈز کی حیثیت سے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ چناچہ کبھی انسان کو ایسا حادثہ بھی پیش آتا ہے جب زندہ بچ جانے کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہوتا ‘ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے ہاتھ دے کر اسے بچایا لیاہو۔ بہر حال جب تک انسان کی موت کا وقت نہیں آتا ‘ یہ محافظ اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ (حَتّٰیٓ اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لاَ یُفَرِّطُوْنَ ) اب یہاں پھر لفظ تَوَفّٰی شعور اور جان دونوں کے جانے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ فرشتے جان نکالنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔ انہیں جو حکم دیا جاتا ہے ‘ جب دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

40. The angels who keep watch and maintain a record of everything, i.e. all their movements, deeds and so on.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :40 یعنی ایسے فرشتے جو تمہاری ایک ایک جنبش اور ایک ایک بات پر نگاہ رکھتے ہیں اور تمہاری ہر ہر حرکت کا ریکارڈ محفوظ کرتے رہتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: نگہبان فرشتوں سے مراد وہ فرشتے بھی ہوسکتے ہیں جو انسان کے اعمال لکھتے ہیں اور وہ بھی جو ہرانسان کی جسمانی حفاظت پر مقررہیں۔ اور جن کا ذکر سورۂ رعد (١١: ١٣) میں آیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:61) حفظۃ۔ حافظ کی جمع۔ نگہبان۔ حفاظت کرنے والے۔ توفتہ رسلنا۔ (فرشتوں کی جماعت) اس کو اٹھا لیتی ہے۔ اس کی روح کو قبض کرلیتے ہیں۔ لا یفرطون۔ وہ (اس میں) کوتاہی نہیں کرتے ۔ یعنی اللہ کے فرستادے اس کے حکم کی بجاآوری میں کوتاہی نہیں کرتے۔ ملاحظہ ہو 6:31 ۔ 6:38

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے جیسا کہ قرآن کی متعد آیات اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے تاہم اللہ تعالیٰ کی قاھر فق عبادہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے بندوں پر کامل غلبہ اور اقتدار رکھت ہے جنانچہ امام رازی لکھتے ہیں کہ یہاں فوقیتہ سے مراد قہر و قدرۃ ہے نہ کہ فوقیت بمعنی الجھتہ کیوں کہ مکان کی بلندی قہر اور غلبہ کو مستلز م نہیں ہے بغوی لکھتے ہیں کہ : القاھر الغالب وفی القھر زیادۃ معنی القدرۃ وھو منع غیرہ عن بلوغ المررام المراد ( معالم) یعنی قاہر کے معنی لکھتے ہیں کہ یہاں فوقیتہ سے مراد قہر وقدرت ہے یعنی خود قادر ہونے کے لیے ساتھ دوسرے کو مراد حاصل کرنے سے روک دینے والا۔ اللہ تعالیٰ کی صفت قہاریت یہ ہے کہ کائنات کو عدم سے وجود بخشا اور پھر وجود پر قنا اور فساد طاری کرتا رہتا ہے۔ پس ممکنات میں جس قدر بھی کون دفساد ہورہا ہے سب اللہ تعالیٰ کی صفت قہاریت کا مظہر ہے اور آیت قل اللھم مالک الملک الخ۔ صفت قہاریت کے پوری طرح تشیریح کر رہی ہے۔ (کبیر) جو تمہاری آفات سے حفاظت کرتے ہیں نیز تمہارے اعمال کو محفوظ کرتے ہیں علما کے نزدیک یہاں حٖظتہ سے اعمال لکھنے والے فرشتے مراد ہیں۔ ( کبیر) نیز دیکھئے (انفطار آیت 10 ق 18)3 یعنی جس کی جان قبض کرتے ہیں اللہ کے حکم سے اس کے مقررہ وقت پر کرتے ہیں نہ اس سے پہلے نہ اسکے بعد اصل میں جان تو ملک الموت قبض کرتا ہے مگر اس کے ساتھ رحمت اور عذاب کے فرشتے ہوتے ہیں۔ حضرت انس (رض) سے لوگوں نے دریافت کیا کہ آیا موت کا فرشتہ ایک ہے یا بہت سے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ہی جواب دیا اور دلیل میں یہ آیت تلاوت کی (المنار) نیز دیکھئے سورت سجدہ آیت 11 درحقیقت موت وحیاۃ تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ( حج 66) مگر فرشتے چونکہ اس کی طرف سے مامور ہیں اس لیے ان کی طرف بھی روح قبض کرنے کی نسبت کردی گئی ہے۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 8 ۔ آیات 61 تا 70 ۔ اسرار و معارف : نگراں فرشتے : اسے اپنے بندوں پہ پورا اختیار اور غلبہ حاصل ہے بلکہ بندہ تو ہر حال میں کمزور اور محتاج ہے اللہ نے اس پر نگران فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو اس کی ہر طرح سے حفاظت کرتے ہیں بیماریوں سے بھی اور حادثات سے بھی نیز ایسے فرشتے بھی مقرر ہیں جو اس کے ہر عمل کو محفوظ کرتے رہتے ہیں اور اس طرح حفاظت الہیہ میں انسان اپنی عمر بسر کرتا ہے جب موت کا وقت آتا ہے تو وہ محافظ بھی موت کے فرشتوں سے تعاون کرتے ہیں اور یوں کبھی کوتاہی نہیں کرتے مگر انسان کا معاملہ موت پہ بس نہیں ہوجاتا موت در اصل مالک حقیقی کی بارگاہ کی طرف واپسی کا عمل ہے جو قدم قدم پر انسان کی مدد اور ہر لمحہ اس پر مہربانی فرماتا رہا اب یہاں آ کر سب واضح ہوجائے گا کہ حکم دینے کا حق یعنی فیصلہ کرنا یہ اسی کا کام ہے اور کوئی اس کی بارگاہ میں دم نہیں مار سکتا۔ یہ بھی یاد رکھو کہ اسے حساب لینے میں کوئی دیر نہیں لگے گی ، کوئی دشواری پیش نہیں آئے بلکہ ساری مخلوق کا حساب جب چاہیں گے تو بڑے کم وقت میں نمٹا لیں گے۔ ان سے کہئے تم ہی کہو جب تم مصائب میں گھر جاتے ہو بعض اوقات سمندروں کی پھری موجوں پہ یا صحراؤں کی وسعتوں میں کھوجاتے ہو تو کون تمہیں اس مصیبت سے نجات بخشتا ہے کیا تم گڑگڑا گڑگڑا کر اور چپکے چپکے اللہ ہی کو نہیں پکارتے نہ صرف پکارتے ہو کہہ دیتے ہو کہ ہمیں اس مصیبت سے بچا لے ہم ساری زندگی تیری اطاعت میں بسر کردیں گے تیرے شکر گذار بندے بن جائیں گے۔ اللہ کا تصور : مشرکین عرب میں یہ بات عام تھی کہ سمندری طوفان میں گھر جاتے یا کسی ویرانے میں پھنس جاتے تو اللہ کو پکارا کرتے تھے اور اس لمحے بتوں وگیرہ سے بھروسہ اٹھ جاتا تھا کہہ دیتے کہ بتوں کی پوجا کسی کام نہ آئی اب اگر اللہ نے بچا لیا تو کبھی دوبارہ ایسا نہ کریں گے دوسری بات اور غالباً اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تصور ایک ایسی غیبی طاقت کا تصور جو انسان کے ہر حال سے ہر وقت واقف ہو اور ہر جگہ اس کی مدد کرسکتی ہو یہ انسانی مزاج کا حصہ ہے اگر کسی کا مزاج بالکل مسخ نہ ہوچکا ہو تو وہ ویسے نہ سہی مگر جب کبھی مصیبت آ لے ضرور اور بےساختہ اسے پکار اٹھتا ہے اور وہ طاقت اللہ ہی تو ہے لہذا یہ بھی خوب جانتا ہے کہ جب اس سے مدد چاہتا ہوں تو مجھے اس کی اطاعت کرنا ہوگی بھلا نافرمانی کرکے مدد مانگنا کب زیب دیتا ہے اور اطاعت کرنا ہی بہترین شکر گذاری ہے یہ سب سمجھتے ہوئے آدمی بےساختہ کہہ اٹھتا ہے اللہ میری مدد فرما میں تیرا شکر گذار بندہ بن کر رہوں گا۔ امراض کا علاج : یہ ہمارے عہد کی مصیبت ہے کہ لوگ اپنے دعوی اسلام کے باوجود اللہ کریم کو مصیبت میں پکارنا بھی بھول چکے ہیں اور زمانہ حال ایجادات کی چکاچوند نے انسانوں کو پاگل کردیا ہے ذرا سی تکلیف ہو تو ان کا ملجا و ماوی ڈاکٹر یا سیاستدان اور بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی سائنسدان یا صاحب اقتدار سے آگے انہیں کچھ نظر نہیں آتا حالانکہ ہر بیماری بھی تب اثر کرتی ہے جب محافظ فرشتے اسکے لیے راستہ چھورتے ہیں ورنہ کوئی حادثہ یا بیماری انسان کے قریب نہیں آسکتی اب اس کی دوا کرنے کے دو پہلو ہیں اول توبہ اور رجوع الی اللہ سب سے پہلے اللہ کو پکارے گناہ اور کوتاہیوں کی معافی طلب کرے آئندہ کے لیے نیکی کی توفیق طلب کرے تاکہ محافظوں کو پھر سے چوکس رہنے کا حکم ہو اور بیماری کو بھگا دیں دوسرے اسباب ظاہری اختیار کرے دو لے علاج کرے اچھے طبیب بہتر ڈاکٹر کو دکھائے مگر اللہ کا حکم جان کر اور یہ یقین رکھتے ہوئے کہ شفا دینا اس کا کام ہے ورنہ داؤں کی تاچیر الٹ جاتی ہے مگر ہماری حالت قابل رحم حد تک بگڑ چکی ہے کہ جس چیز کو اولیت دینی چاہئے تھی ہم فراموش کرچکے ہیں اور جو دوسرے درجے میں تھی صرف وہ ہمارا مقصد بن چکی ہے حالانکہ ہر دکھ ہر بیماری اول تو کسی نہ کسی گناہ کا اثر ہوتا ہے اور بہت کم لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے گناہ سرزد نہیں ہوتا محض درجات بلند کرنے کے لیے کوئی مصیبت بھیج دی جاتی ہے لہذا سب سے زیادہ ضروری ہے کہ اللہ کریم کی بارگاہ میں عاجزی کی جائے ورنہ یہ بات تو سامنے ہے جب یہ مادی ترقی نہ تھی یہ اسباب نہ تھے یہ مشینیں نہ تھیں تو لوگ نسبتاً زیادہ صحت مند تھے اور آج سے پچاس برس پہلے کے لوگ آج کے انسان سے طاقت صحت عمر ہر لحاظ میں بہتر تھے جیسے جیسے جدید ٹیکنالوجی آ رہی ہے امراض بھی ایسے پیچیدہ تر پیش آ رہے ہیں کہ جن سے گلو خلاصی کی کوئی تدبیر انسان کو میسر نہیں آ رہی جہاں جسمانی امراض بڑھیں وہاں اخلاقیات میں بھی تباہی آئی اور ہر قسم کی برائی روز افزوں ترقی پر ہے ایمان تباہ ہوگئے یہ سب اللہ کریم سے بیگانگی اور اس کی یاد کو پس پشت ڈالنے کا وہ معمولی نتیجہ اور اثر ہے جو اس مادی دنیا میں محسوس ہورہا ہے ابدی اور دائمی زندگی میں کیا ہوگا اس اللہ ہی کی پناہ مانگنا چاہئے لہذا انہیں بتائیے کہ مصائب سے نکلنے کا راستہ اللہ کی اطاعت ہے اور وہی ایک ذات ہے جو تمہیں ہر بیماری سے صحت اور سختی سے پناہ دیتا ہے مگر انسان ایسا ناشکر گذار اور ناسپاس ہے کہ جب اپنے ماحول میں پلٹ کر آتا ہے تو وہ سب کچھ بھول کر پھر سے شرک وکفر اور نافرمانی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اور یہ بات اگر تنہائی میں بیٹھ کر سوچے تو دنیا کا ہر آدمی اپنی زندگی میں محسوس کرسکے گا اس پر ضرور ایسے لمحات آئے ہوں گے جب اس نے اپنی تنہائیوں میں اللہ کو پکارا ہوگا اطاعت کے وعدے کئے ہوں گے مگر پریشانی دور ہوگئی تو سب کچھ بھول گیا۔ گناہ کا اثر : انہیں بتا دیجئے کہ اللہ ہر چیز پہ قادر ہے اگر تم کفر و معصیت پر مصر رہے مسلسل برائی کرتے رہے تو تم پر اوپر سے عذاب مسلط کردے گا یا پاؤں کے نیچے سے مصیبت پیدا کردے گا یا پھر تمہیں ایسے گروہوں میں بانٹ دے گا جو ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے اور آپس میں ایک دوسرے کے لیے عذاب بن جائیں گے۔ لفظ شیعہ : اوپر کے عذاب کی مثالیں بھی قوموں کی تاریخ میں موجود ہیں جیسے بارش یا پانی کا بےحساب برس کر غرق کا سبب بن جانا ، بعض قوموں پر آگ برسی اور بعض پر آسمان سے پتھر برسائے گئے یا ابرہہ کے لشکر پر ابابیل مسلط کردئیے کوئی بھی ایسا طوفان جو تباہ کردے نیچے کے عذاب کے حالات بھی تاریخ کا حصہ ہیں قوم نوح (علیہ السلام) پر آسمان سے پانی برسا اور زمین نے بھی پانی چھوڑ دیا یا فرعون کا لشکر کہ غرق ہو کر تباہ ہوا یا لوط (علیہ السلام) کی قوم کہ بستیاں الٹ کر غرق ہوگئیں یا قارون کی مثال مفسرین کرام نے نقل فرمائی ہے جو زمین میں دھنس گیا اس کے ساتھ ائمہ تفسیر نے ایک اور تفسیر بھی ارشاد فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس طرح بیج اگتا ہے درخت بنتا ہے پھر پھل دیتا ہے اسی طرح ہر عمل بھی جلد یا بدیر اپنا پھل دیتا ہے کفر یا گناہ اور نافرمانی بھی اگر مسلسل کی جائے تو اس پر یقیناً پھل آتا ہے جو ان متذکرہ صورتوں میں سے کوئی ایک یا سب صورتیں بھی ممکن ہوسکتی ہیں اور اس کی یہ صورت بھی ہوتی ہے کہ اوپر سے عذاب مسلط کرنے کے لیے ظالم اور بےرحم حاکم مسلط کردئیے جائیں جن کے پاس فریاد لے کر جاؤ تو بجائے انصاف کے ٹھوکریں کھانے کو ملیں نیز پاؤں تلے سے عذاب یا نیچے سے عذاب کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ اپنے ملازم اور نوکر ہوں یا حکومت یا ملازم طبقہ ، کام چور خائن اور بد دیانت ہوجائیں اس طرح عذاب جمع ہوگئے اور تیسری صورت فرمایا اللہ تمہیں گروہوں میں بانٹ دے ایسے گروہ جو ایک دوسرے کے گلے کاٹتے پھریں ایک دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہیں اور ایک دوسرے کو ایذا دیتے رہیں شیعہ کے معنی بھی مطلق گروہ کے ہیں اور قرآن حکیم نے اسے آٹھ مقامات پر ان گروہوں کے حق میں استعمال فرمایا جو فسادی اور اہل نار ہیں نویں جگہ اسی سے تشیع الفاحشۃ برائی پھیلانے کے معنوں میں لیا ایک جگہ ان میں ، ان من شیعتہ لابراھیم ، ارشاد فرمایا یہاں بھی اگر وہ قوم مراد لی جائے جس میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو ہی معنی درست ہوسکتے ہیں کہ کتاب اللہ نے اس لفظ کو ہر جگہ بدکردار گروہ پر ہی استعمال فرمایا جیسے یہاں بطور عذاب شیعہ یعنی گروہوں میں بانٹ دینے کی سزا ارشاد فرمائی اور پھر وہ گروہ ایک دوسرے کو مبتلائے عذاب رکھیں۔ اگر آج ہم اپنی حالت پہ غور کریں تو شاید ہمارے گناہوں اور اللہ کریم سے دوری کی وجہ سے یہ تینوں سزائیں ہم پر بیک وقت مسلط ہیں یو تو دنیا میں کوئی قوم اور کوئی ملک ایسا نہیں جو آج مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا نہ ہو ابھی کینسر کا علاج دریافت نہ کرسکے تھے کہ پوری کافر دنیا کو ایڈز کے عذاب میں مبتلا کردیا یہ ایسا دہشتناک عذاب ہے کہ صرف امریکہ میں ان لوگوں کی تعداد پانچ لاکھ سے بڑھ چکی ہے جو اس مرض میں مبتلا ہو کر ہسپتالوں میں موت کا انتظار کر رہے ہیں پوری جدید تحقیق کے پاس ان کا کوئی علاج نہیں آپ اندازہ کرسکتے ہیں ایسے شخص کے لمحات کس قدر اذیت ناک ہوں گے اب انہیں ان لوگوں کی فکر ہے جن کو یہ مرض لاحق ہوچکا ہے مگر پتہ نہیں چل رہا اس کا پتہ ہی تب چلتا ہے جب مریض بےبس ہوجاتا ہے یہ تو ایک پہلو ہے اخلاقی تباہی ذہنی اذیت اور آسمانی آفتیں آئے دن ان پہ نازل ہوتیہی رہتی ہیں یہ سب ان کے کفر کے منطقی نتیجے ہیں مر ہم جو اسلام کے مدعی ہیں کیا اللہ کے ساتھ ہمارا معاملہ بھی اتنا ہی بگڑ چکا ہے کہ حکومت کی طرف سے آج کوئی تحفظ نہیں ماتحت رشوت طلب کرتے ہیں اور لے کر بھی کام نہیں کرتے اس کے ساتھ پوری قوم متعدد قومی ، لسانی صوبائی ، اور مذہبی گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہے مساجد میں جاؤ تو میدان جنگ کا منظر ہے سیاسی پلیٹ فارم پر کرسیاں برسائی جا رہی ہیں ہر طرف فساد بپا ہے کہ بجز اللہ کوئی جائے پناہ نہیں اور ہمارے دانشور جلتی پر سوشلزم کا تیل چھڑک رہے ہیں مگر یاد رکھئے اللہ کے عذابوں سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ توبہ کا راستہ ہے خلوص دل کے ساتھ خلوص نیت کے ساتھ اللہ کریم کی بارگاہ میں واپسی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غلامی کو تازہ کیا جائے گذشتہ پر اظہار ندامت کے ساتھ آئندہ کمر ہمت اطاعت و غلامی پہ باندھ لی جائے تو آج بھی حالات بدل سکتے ہیں۔ فرمایا ہم تو اسی طرح باتوں کی وضاحت کردیتے ہیں کوئی بات کسی سے ڈھکے چھپے انداز میں بیان نہیں کی جاتی اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ لوگ سمجھ سکیں اور بات کی اصلیت کو پالیں۔ اصولی باتوں میں اختلاف پیدا کرنے سے روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے اختلافات کی بات چلی تو تھوڑا سا اشارہ اس طرف بھی ہوجائے کہ ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے۔ اختلاف امتی رحمۃ۔ میری امت کا اختلاف رحمت ہے یہ وہ اختلاف ہے جو اصطلاحاً تو ایسا کہلاتا ہے مگر درحقیقت اختلاف نہیں ہوتا بلکہ کتاب اللہ کو سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روشنی میں خلوص نیت سے سمجھنے کی کوشش ہے ظاہر ہے ایسے میں اصولی باتوں میں جن کا فیصلہ کردیا گیا کبھی اختلاف نہیں ہوسکتا صرف ان تشریحات میں جن میں اجتہاد کی گنجائش ہوگی وہاں بھی محض رائے کا اختلاف اور اس درجہ کا ہوگا کہ غلط دوسرے کو بھی نہیں کہا جائے گا ہاں اپنی رائے کو اس کی نسبت راجح یعنی معنی کے زیادہ قریب جانتے ہیں فقہا اور علماء میں اسی قسم کا اختلاف ہوتا ہے اس میں کسی لڑائی بھڑائی کی ضرورت نہیں کہ سرے سے ایک دوسرے کو غلط سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اس سے تو بات کے تمام پہلو نکھر کر سامنے آجاتے ہیں اسی لیے اسے رحمت قرار دیا گیا ہے رہ گیا اکتلاف جس نے فرقہ بندی کردی تو علیحدہ فرقہ کہلانے کے لیے اصول میں اختلاف پیدا ہوگا ظاہر ہے دونوں فریق کبھی حق پر نہیں ہوسکتے جیسے شیعہ اور مسلمان کہ توحید ، رسالت ، آخرت ، حشر نشر۔ جنت و دوزخ سے لے کر حرام و حلال اور کتاب و سنت تک حتی کہ کلمہ اور نماز تک الگ الگ ہے اسی طرح قادیانی کہ عقیدہ نبوت میں امت سے علیحدہ ہوگئے اب اس کام سے حکماً روکنا یا خلاف اسلام عقیدے اور عمل کو اسلام کہنے سے منع کرنا ارباب اختیار کے ذمہ ہے ہر شخص کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ قانون کو ہاتھ میں لے لے ہاں یہ ضروری ہے کہ مسلمان ایسے لوگوں سے الگ ہوجائیں ان امور کی وجہ سے انہیں قتل کرنا یا ان کا مال لوٹنا یا آبرو لوٹنا جائز نہ ہوگا مگر یہ ازحد ضروری ہوگا کہ ان سے علیحدگی اختیار کی جائے حکومت پر فرض ہے کہ ہر ایسے آدمی یا ادارے کا احتساب کرے جو اسلام کے نام پر غیر اسلامی چیزوں یا امور کو رواج دینا چاہتا ہے علاوہ ازیں دیوبندی ، بریلوی یا مقلد غیر مقلد کا اختلاف محض آراء کا اختلاف ہے اسے کفر و اسلام کا معرکہ بنانا جائز نہیں۔ ہماری بد نصیبی ہے کہ ایک بہت بڑا ایسا طبقہ وجود میں آ چکا ہے جن کا رزق مساجد سے وابستہ ہے اور ضروریات زندگی مدارس کی محتاج یا آباؤ اجداد کی گدیوں سے حاصل ہونے والے رزق پہ بسر کرنا ان کی زندگی ہے لہذا جب سے مذہب ذریعہ معاش کے طور پر اپنایا گیا ہے اس میں رقابت ایک دوسرے پر الزام تراشی اپنی اہمیت کو اجاگر کرنے اور اپنی ضرورت کا احساس زندہ رکھنے پہ پوری کوشش صرف ہو رہی ہے برصغیر میں انگریز کی سو سالہ غلامی میں دیگر مصائب کے ساتھ یہ بیماری بھی امت مسلمہ کے گلے پڑی ہے ورنہ قبل ازیں علما جرنیل اور سیاستدان امرا وزراء نظر آتے ہیں انگریز نے عمداً حکومت کے دروازے علما پر بند کردئیے اس کے دو نتیجے سامنے آئے قابل لوگ دینی تعلیم سے بےبہرہ رہ گئے وار ان علوم کی طرف چل پڑے جن سے دنیا میں کوئی مقام مل سکے ک دین کی طرف ایک محدودے چند اچھے لوگ آئے تو عہ علمی گھرانوں کے چشم و چراغ تھے اکثریت رطب و یابس ہی بھر گئی اور دوسرے حکمران طبقہ دینی معلومات سے بےبہرہ ہوگیا صد افسوس کہ آزادی کے بعد بھی نصاب تعلیم درست نہ کیا گیا مگر کون کرتا ارباب اختیار تو دین کو اہمیت دینے ہی سے بیزار بیٹھے تھے لہذا ساری قوم اس کے نتائج بھگت رہی ہے اللہ ہمیں معاف فرمائے اور پھر سے دل زندہ عطا کرے آمین۔ فرمایا اگر آپ کی قوم نے اسلام کا کتاب اللہ اور ان حقائق کا انکار بھی کردیا تو کیا کسی کا انکار حقیقت الامر کو بدل سکتا ہے ہرگز نہیں انہیں انکار کرکے دیکھ لینے دیں اس کی حقانیت کا تجربہ بھی انہیں ہوتا چلا جائے گا۔ ہاں آپ یہ واضح فرم ادیجئے کہ میں تم لوگوں کا ٹھیکے دار نہیں ہوں تم پر بطور وکیل مقرر نہیں ہوں کہ تم جو چاہو کرو میں بچا لوں گا یا تمہاری اصلاح مجھ پر فرض ہے ہرگز نہیں ہاں تم اللہ کریم کے دروازے پر آنا چاہو تو تمہاری راہنمائی میرا کام ہے تمہاری سفارش میں کروں گا لیکن اگر تم اللہ کا در چھوڑ دوگے تو میں تمہاری ذمہ داری سے آزاد ہوں یہ خوب سمجھ لو۔ رہی یہ بات کہ یہ سب کچھ کب واقع ہوگا انسان کا مزاج ایسا ہے کہ جب دل تاریک ہوجائے تو مکمل تباہی تک جو کچھ اس پہ گزرتی ہے وہ اس کی سمجھ میں نہیں آتی اور اسے عذاب نہیں جانتا جیسے آج ہم پر بحیثیت قوم تینوں طرح کا عذاب مسلط ہے مگر ہم اس کے مختلف دنیوی علاج دریافت کرتے پھر رہے ہیں توبہ کرکے اور اپنی اصلاح کرکے اس سے جان بچانے کا سوچ بھی نہیں رہے ایسے ہی کفار مکہ اگرچہ مختلف شداید میں مبتلا تھے مگر آخری تباہی کا انتظار کرتے اور سوال کرتے کہ اگر آپ کی بات سچ ہے تو پھر وہ تباہی کب آئے گی عذاب کہاں ہے۔ فرمایا انہیں بتا دیجئے کہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے ایک حد معین ہوتی ہے جیسے ہر پھل اپنا عرصہ پورا کرکے پکتا ہے اسی طرح ہر کام کا نتیجہ بھی اپنے وقت پہ ضرور سامنے آتا ہے اگر تم باز نہ آئے تو وہ وقت بھی آجائے گا اور تم کھلی آنکھوں دیکھ لوگے۔ بے دین لوگوں سے الگ رہنا چاہئے : ان آیات مبارکہ میں ایک بہت اچھا اصول ارشاد فرما دیا گیا ہے یوں تو دین کا تمسخر اڑانا بہت بڑا ظلم ہے اور مسلمانوں کو اس سے روکنے کے لیے ہی جہاد جیسی نعمت عطا ہوئی ہے مگر یہ حکومت اور حکومتی اداروں کا کام ہے ہر فرد قانون کو نافذ کرنے کے اختیارات نہیں رکھتا لہذا انفرادی حیثیت سے قاعدہ یہ ہوگا کہ اے مکاطب اگر ایسے لوگوں کو پاؤ جو امور دینیہ میں نکتہ چینی کرتے ہیں یا خواہ مخواہ کی بحثیں کرکے دین کے احکام بگاڑتے ہیں یا ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو ان سے کنارہ کشی اور علیحدگی اختیار کرو۔ اس کی دو صورتیں پہلی صورت مشرکین مکہ اور یہودو نصاری کی طرف سے پیش آتی کہ احکام الہی کا مذاق اڑاتے اور انہیں غلط بتاتے تھے اس لیے کہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اقرار نہیں کیا تھا۔ دوسری صورت غالباً سب سے پہلے مسیلمہ کذاب کی طرف سے پیش آئی جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اقرار بھی کیا اور ساتھ اپنی نبوت کا دعوی بھی۔ اس نے اعلان تو عہد نبوی میں کیا کذاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی نے اسے فرمایا تھا مگر اس کا فیصلہ عہد صدیقی میں ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بہت جلد وصال ہوگیا۔ پہلا طریقہ بھی سخت گستاخی ہے حکومت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگوں سے جہاد کرے حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ۔ کہ اس قسم کی خرافات مٹ جائیں اور خالص اللہ کے لیے دین رہ جائے مگر انفرادی طور پر افراد کا کام یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے اور ایسی جگہوں سے اجتناب کریں رہی دوسری قسم کہ کفریہ عقائد و اعمال گھڑ کر انہیں اسلام کہا جائے یہ بہت بڑا ظلم ہے اور خلافت صدیقی کے بعد دوسرا اجماع صحابہ کرام کا اسی بات پر ہوا تھا کہ کوئی دین میں بہت بڑی تبدیلی کرتا ہے جیسے مسیلمہ کذاب کا دعوی نبوت یا نسبتاً چھوٹی جیسے زکوۃ ادا کرنے سے بعض قبائل کا انکار سب کے خلاف ریاست اسلامی کو جہاد کرنا ہوگا چناچہ ایسا ہی کیا گیا اور ان کا قلع قمع کردیا گیا نہ صرف مسیلمہ بلکہ سات کے قریب اشخاص نے جن میں دو عورتیں بھی تھیں عہد صحابہ میں نبوت کے دعاوی کیے سب کا ایک فیصلہ کیا گیا جہاد۔ چناچہ ایک آدھ مرد اور ایک خاتون کو توبہ نصیب ہوئی باقی اپنے انجام کو پہنچے یہ کام یہ کام تو ریاست کا تھا۔ افراد دوسرے درجے کے لوگوں سے بھی لڑ تو نہیں سکتے مگر ان سے الگ ضرور ہوجائیں اور کبھی ان کا ساتھ نہ دیں خصوصاً اس وقت جب وہ دین سے مذاق یا غیر دین کو دین بتا رہے ہوں تو الگ رہنا اور بھی زیادہ ضروری ہے جیسے ہمارے یہاں اہل تشیع یا روافض نے دین کے نام پر بیشمار رسومات ایجاد کرلی ہیں ہر سال اس پر فساد ہوتے ہیں مگر اس کا صحیح حل یہ ہے کہ تمام اہل اسلام اس سے الگ ہوجائیں خصوصاً ان کی عبادات وغیرہ میں اصلاً کوئی دلچسپی نہ لیں ایسے ہی قادیانی کہ مسیلمہ کذاب کی طرح الگ نبوت کے قائل ہوگئے تو ان دونوں میں سے اگر کوئی دین میں کج بحثی شروع کردیتا ہے یا رسومات کو دین بتانے پہ مصر ہے تو انفرادی طور پر ہر مسلمان کو چاہئے کہ ان سے الگ رہے خصوصاً جب وہ اس امر میں مشغول ہوں تو قطعا ان کی مجالس میں نہ جائے اگر کوئی دنیا کا کام یا مجبوری بھی ہو تو اس وقت بات کرے جب وہ یہ کام نہ کر رہے ہوں اور دوسرے امور میں مشغول ہوں یہ ایسا حکیمانہ علاج ہے کہ اگر مسلمان اس پر عمل پیرا ہوں تو رفض کی ساری تحریک کی قوت ختم ہوجائے اور اس میں کوئی دم خم نہ رہے کہ اس کی رونق صرف دیکھنے والوں کے دم سے ہے۔ اگر کوئی غلطی سے چلا بھی جائے اور شیطان اسے یہ نصیحت فراموش کرا دے تو جیسے یاد آجائے فوراً الگ ہوجائے اور بدکاروں کے پاس بیٹھنا حرام ہے لہذا اسے چھوڑ ہی دینا ضروری ہے محض مجلس کے لیے یا وقت کاٹنے کے لیے کسی بدکار کی محفل میں نہ بیٹھے ہاں اگر مجبوراً جانو ہو جیسے کسی کے ہاں ملازم ہے تو کام کرنے جائے گا یا کسی سے لین دین ہے تو حساب چکانے جائے گا تو صرف بقدر ضرورت جائے اس میں اگر جانے والا کود نیک ہے تو کوئی حرج نہیں یا پھر ایسے لوگ جاسکتے ہیں جو انہیں بھی تبلیغ کرسکیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات پہنچا سکیں تاکہ وہ بھی سنبھل سکیں ان سے بھی کوشش تو کی جائے کہ ان کی اصلاح ہو ورنہ ایسے لوگوں کو جنہوں نے مذہب کو کھیل سمجھا ہے چھوڑ دیا جائے انہیں مطلق کوئی اہمیت نہ دی جائے کہ ایسے نالائق ہیں کہ چند روزہ دنیا کی لذت نے انہیں اپنا بنا لیا اور یہ اس کا دھوکا کھا گئے یہ اسی پر خوش ہیں انہیں یہ بات ضرور یاد دلاتے رہئے کہ جو کوئی بھی جیسا عمل کرے گا نتیجہ بھی اسی کو بھگتنا ہوگا اور یہ جان لو کہ اللہ کے مقابلے میں کسی کو نہ کوئی دوست مل سکے گا نہ سفارشی کہ سفارش تو اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہوگی ان لوگوں کے لیے ہوگی جو اطاعت کے لیے کوشاں رہے مگر بتقاضائے بشریت غلطیاں بھی سرزد ہوئیں یا اعمال اس درجہ کے نہ کرسکے جو مطلوب تھا جن لوگوں نے انکار کی راہ اپنائی بھلا ان کی مدد یاسفارش کون کرسکتا ہے ان کو تو اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی جو پینے کے لیے کھولتے ہوئے پانی اور رہنے کے لیے دردناک عذابوں کی صورت کے ٹھکانے ہوں گے اور یہ سب اس کفر کا پھل اور نتیجہ ہے جو زندگی میں ان لوگوں نے اختیار کیا ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 61 تا 62 : حفظۃ ( نگہبان۔ نگراں) ‘ لایفرطون ( وہ کمی نہیں کرتے ہیں) ردوا ( وہ لوٹائے گئے) ‘ اسرع ( وہ جلدی کرتا ہے) ۔ تشریح : آیت نمبر 61 تا 62 : کوئی اللہ کی گرفت سے چھوٹ کر بھاگ نہیں سکتا۔ نہ آج نہ کل۔ نہ موجودہ زندگی میں آئندہ زندگی میں۔ جب تک اللہ کا حکم ہے فرشتے انسانی جان کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ اور جس جان کی وہ حفاظت کرتے رہے تھے دوسرا حکم الٰہی آتے ہی اسے نکا لنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ اور کام یہیں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ یہی فرشتے قیامت کے دن اسے گھیر کر لائیں گے اور سزا و جزا کے لئے مالک حقیقی کے پاس حاضر کردیں گے۔ فرمایا ” مولھم الحق “۔ مولیٰ کا لفظ قدرت اور رحمت دونوں کو سمیٹتا ہے۔ اس کے انصاف میں قوت قاہر ہ بھی ہوگی۔ اور رحمت فاضلہ بھی اور اس کا انصاف بالکل حق پر مبنی ہوگا۔ دیکھا جائے گا کس نے حق کا راستہ اختیار کیا ‘ کس نے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کیئے ؟ فرمایا گیا ” الا لہ لحکم “۔ اس کا مطلب یہ ہے ہوشیار ہو جائو۔ فیصلہ اور حکم اسی کا ہے اس سے اوپر کوئی اپیل نہیں۔ کوئی نظر ثانی نہیں۔ ارشاد ہے ” اسرع الحاسبین “۔ اس کے دو معنی ہیں۔ وقت تیز رفتار ہے۔ بہت جلد تم اس کے سامنے حساب و کتاب کے لئے پیش ہونے والے ہو۔ دوسرے قیامت کے دن لاتعداد بیشمار انسانوں کے حساب بہت جلد نمٹا دیئے جائیں گے اور ذرا دیر نہیں لگے گی اس کے ہاں لال فیتہ نہیں ہے بلکہ اس کی قدرت یہ ہے کہ وہ جب بھی کسی کام کو کرنا چاہتا ہے اسے کن کا اشارہ ہوتا ہے اور وہ کام ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح حساب و کتاب میں بھی کوئی دیرنہ ہوگی بلکہ ہر انسان کا پورا پورا حساب کتاب بہت جلد لیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ غرض مدت نہیں لگتی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ جس طرح نیند اور بیداری پر اختیار رکھتا ہے۔ اسی طرح ہی انسان کی موت کے بعد اسے زندہ کرکے اپنی بارگاہ میں حاضر کرنے پر قوت و اختیار رکھتا ہے۔ وہ بندوں پر مکمل اختیار رکھنے کے باوجود ہدایت کے بارے میں جبر اختیار نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، قدرت، علم، حکمت اور ہر لحاظ سے اپنے بندوں پر قادر اور قاہر ہے۔ وہی ہر چیز کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور ایک مدت معینہ کے بعد اس کے وجود کو ناپید کردیتا ہے۔ پھر قیامت کے دن ہر چیز کو وجود میں لائے گا۔ وہ ظلمت پر روشنی کو اور روشنی پر ظلمت کو غالب کرتا ہے۔ وہی ہر نعمت دینے والا ہے۔ اور جب چاہتا ہے اسے واپس لے لیتا ہے۔ زمین و آسمان میں کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کے اقتدار اور اختیار، قدرت و سطوت کے سامنے دم مار سکے۔ وہ ہر وقت اور ہر لحاظ سے اپنے بندوں پر غالب اور قادر ہے۔ وہی بندوں کے اجسام اور اعمال کی حفاظت کرتا ہے۔ اس نے انسان کی جان اور اعمال محفوظ رکھنے کے لیے ملائکہ مقرر کر رکھے ہیں۔ جو آدمی کی آخروقت تک حفاظت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ موت کا فرشتہ اپنے عملے کے ساتھ آدمی کی جان اچک لیتا ہے۔ پھر وہ اسے پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا تے ہیں۔ جو انسان کا حقیقی مالک ہے۔ یہاں مَوْلٰہُمُ الْحَقِّ کا لفظ استعمال فرما کر یہ حقیقت باور کروائی ہے کہ دنیا میں کافر اور مشرک بیشمار جھوٹے مولیٰ بنائے پھرتے ہیں جو آدمی کی موت کے ساتھ ہی اس سے الگ ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا انسان کو یہ حقیقت جان لینی چاہیے حقیقی مولیٰ اور حاکم مطلق اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ اس لیے انسان کی انسانیت یہ ہے کہ وہ اللہ کو سچا مولیٰ اور حاکم مطلق تصور کرے جو بہت جلد حساب چکا دینے والا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَتَعَاقَبُون فیکُمْ مَلَاءِکَۃٌ باللَّیْلِ وَمَلَاءِکَۃٌ بالنَّہَارِ وَیَجْتَمِعُونَ فِی صَلَاۃِ الْفَجْرِ وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِینَ بَاتُوا فیکُمْ فَیَسْأَلُہُمْ وَہُوَ أَعْلَمُ بِہِمْ کَیْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِی فَیَقُولُونَ تَرَکْنَاہُمْ وَہُمْ یُصَلُّونَ وَأَتَیْنَاہُمْ وَہُمْ یُصَلُّونَ ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رات اور دن کے فرشتے تمہارے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔ وہ فجر اور عصر کی نماز کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں پھر آسمان کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ کہتے ہیں جب ہم ان کے پاس سے آئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے ہاں گئے تو بھی وہ نماز ہی پڑھ رہے تھے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر بندے پر حفظ وضبط کے لیے فرشتے مقرر فرمارکھے ہیں۔ ٢۔ وقت مقررہ سے فرشتے ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہونے دیتے۔ ٣۔ اللہ ہی مالک حقیقی ہے۔ ٤۔ فیصلہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کا چلتا ہے۔ تفسیر بالقرآن موت کے وقت مہلت نہیں دی جاتی : ١۔ ہر امت کے لیے ایک اجل ہے جب آجائے تو ایک منٹ آگے پیچھے نہیں ہوتی۔ (یونس : ٤٩) ٢۔ جب لوگوں کی اجل آجائے تو ایک منٹ بھی آگے پیچھے نہیں ہوتی۔ (النحل : ٦١) ٣۔ اللہ تعالیٰ ہرگز کسی جان کو مہلت نہیں دیتا جب اس کی اجل آجائے۔ (المنافقون : ١٠ تا ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٦١ تا ٦٢۔ (آیت) ” وھو القاھر فوق عبادہ “۔ (٦ : ٦١) ” اپنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے ۔ “ یعنی وہ صاحب قوت بادشاہ ہے اور تمام انسان اس کی ایسی رعایا ہیں جو اس کے مکمل کنٹرول میں ہیں ۔ اس بادشاہ کی حقیقی قوت اور لوگوں کی قوت کی درمیان کوئی نسبت نہیں ہے ۔ اس کے بالمقابل نہ صرف یہ کہ ان کی کوئی قوت نہیں ہے بلکہ ان کے لئے کوئی معاون و مددگار بھی نہیں ہے سب پوری طرح اس کے غلام ہیں اور پوری طرح اس کے تابع اور زیر قبضہ ہیں ۔ یہ ہے انسان کی جانب سے ایک قاہر اور مکمل طور پر حاوی خدا کی مکمل غلامی اور یہی وہ حقیقی تصور ہے جو لوگوں کی عملی زندگی میں حقیقی تبدیلی پیدا کرتا ہے چاہے اللہ لوگوں کو مکمل آزادی اور اختیارات عطا کر دے ‘ ان کو وافر مقدار میں علم ومعرفت دے دے اور ان کو وافر مقدار میں قوت دے دے تاکہ وہ اس کرہ ارض پر فریضہ خلافت ارضی کے تقاضے پورے کرسکیں ۔ لیکن ان باتوں کے باوجود انسانی زندگی کے تمام سانس اللہ کے ہاں مقرر ہیں اور انسان کی تمام حرکات و سکنات اللہ کے اس قانون قدرت کے مطابق ہیں جو اس نے خود انسانوں کے وجود میں جاری اور ساری کردیئے ہیں اور انسان خود اپنے وجود کے ان قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا ۔ اور یہ قوانین بھی نفس انسانی اور حرکات انسانی کے اندر متعین اور مقرر ہیں ۔ (آیت) ” ویرسل علیکم حفظۃ “۔ (٦ : ٦١) ” اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کرکے بھیجتا ہے ۔ “ یہاں آیت میں ان نگرانوں کی نوعیت کو متعین نہیں کیا گیا ۔ دوسرے مقامات پر بتایا گیا ہے کہ یہ نگرانی کرنے والے فرشتے ہیں جو انسانوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور وہ تمام اعمال ریکارڈ کر رہے ہیں جو انسانوں سے صادر ہوتے ہیں ۔ یہاں صرف اس امر پر روشنی ڈالنا مقصود ہے کہ ہر انسان براہ راست اللہ کی نگرانی میں ہے اور انسانی سوچ میں یہ شعور ڈالنا ہے کہ نفس انسانی کو ایک لحظہ کے لئے بھی آزاد نہیں چھوڑا جاتا اور نہ ہی وہ کسی وقت تنہا ہوتا ہے ۔ ہر وقت اس کے ساتھ ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو اس کی تمام حرکات و سکنات کو ریکارڈ کرتے رہتے ہیں اور اس قدر مکمل اور جامع ریکارڈ تیار کرتے ہیں کہ ان کی نظروں سے کوئی بات بچ کر نہیں رہتی ۔ یہ ایک ایسا تصور اور ایسی سوچ ہے جس کے نتیجے میں مکمل انسانی شخصیت بیدار ہوجاتی ہے اور وہ ہر بات کو محسوس کرتی ہے ۔ (آیت) ” حتی اذا جآء احدکم الموت توفتہ رسلنا وھم لا یفرطون “۔ (٦ : ٦١) ” یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔ “ یہ اسی ربانی نگرانی کا رنگ ہے ‘ لیکن مختلف شیڈز میں ‘ یعنی ہر انسان کے لئے اس دنیا میں سانس لینے کی تعداد مقرر ہے ۔ اس کے ان سانسوں کے رک جانے کا بھی ایک وقت مقرر ہے لیکن اس کو وہ جانتا نہیں ہے ۔ انسانی زاوے سے اجل مقرر ہے ۔ لیکن اس کو وہ جانتا نہیں ہے ۔ انسانی زوایے سے اجل مقرر ہے جو اس کے لئے غیب ہے اور اس کا علم اسے کسی ذریعے سے بھی نہیں ہو سکتا ۔ لیکن اللہ کے علم میں وہ پہلے سے تحریری طور پر ثبت ہے اور ایک سیکنڈ آگے پیچھے نہیں ہو سکتی ۔ ہر شخص زندگی کے سانس پورے کر رہا ہے ۔ اس دنیا سے اس کے جانے کا وقت دور نہیں ہے بلکہ بالکل قریب ہے ‘ اس کے اندر کوئی تغیر ممکن نہیں ہے ۔ نہ اس میں بھول چوک ممکن ہے ۔ اللہ کے نمائندے تیار کھڑے ہوتے ہیں ‘ یہ فرشتے ہوتے ہیں اور ان کا نظام نہایت ہی محفوظ ہوتا ہے ۔ ہر شخص کی موت کا وقت تحریری طور ثبت ہے لیکن انسان سخت غفلت میں ہوتا ہے ۔ یہ نمائندے اپنا فرض نہایت ہی باریک بینی سے ادا کرتے ہیں ۔ وہ اپنا پیغام وقت پر پہنچاتے ہیں ۔ یہ سوچ اور یہ عقیدہ ہی ایک غافل انسان کو جھنجوڑنے کے لئے کافی اور شافی ہے ۔ اس عقیدے کا حامل انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ کے فیصلے اسے پوری طرح گھیرے ہوئے ہیں ۔ ہر وقت وہ یہ یقین کے ساتھ جانتا ہے کہ اگلے ہی لمحے میں اس کی روح قبض ہو سکتی ہے اور اگلے ہی سانس میں اس کی حرکت قلب رک سکتی ہے ۔ (آیت) ” ثم ردوا الی اللہ مولھم الحق “۔ (٦ : ٦٢) ” پھر سب کے سب اللہ ‘ اپنے حقیقی آقا کی طرف واپس لائے جاتے ہیں ۔ “ حقیقی آقا وہی ہے جس نے انہیں یہاں اس کرہ ارض پر زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کئے اور ان پر یہاں ان کی پوری زندگی کا ریکارڈ تیار کرنے کے لئے اپنے نگران مقرر کئے جو بالکل کوئی کمی بیشی نہیں کرتے ۔ اس کے بعد وہی آقا ہے کہ جب چاہتا ہے ان انسانوں کو اپنے پاس بلا لیتا ہے تاکہ وہ ان کے بارے میں اپنی مرضی سے فیصلہ کرے اور اس کے فیصلے پر کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ۔ (آیت) ” الالہ الحکم وھو اسرع الحسبین “۔ (٦ : ٦٢) ” خبردار ہوجاؤ ‘ فیصلہ کے سارے اختیارات اسی کو حاصل ہیں اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے ۔ “ صرف وہی فیصلہ کرتا ہے ‘ وہ خود ہی حساب لیتا ہے ۔ وہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرتا ۔ اور نہ جزاوسزا میں تاخیر کرتا ہے ۔ جلدی فیصلہ کرنے کے اثرات بھی انسانی زندگی پر نہایت ہی گہرے ہوتے ہیں ۔ انسان سوچتا ہے کہ اللہ کے ہاں نہ حساب میں دیر لیتا ہے اور نہ فیصلہ کرنے میں ۔ ایک مسلمان کی یہ سوچ کہ اللہ اس کا خالق ہے اور ایک دن اسے مرنے ہے اور اللہ کے سامنے اپنی پوری زندگی کا حساب و کتاب پیش کرنا ہے اسے ایک لمحہ کے لئے غافل نہیں ہونے دیتی ۔ اس سوچ کے مطابق اس کے عقائد کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ وہ صرف اللہ وحدہ کو حقیقی حاکم سمجھنے لگتا ہے اور اس کا یہ منطقی عقیدہ ہوجاتا ہے کہ اس کرہ ارض پر بندوں کے تمام امور اللہ کے حکم کے مطابق طے ہونے چاہئیں ۔ آخرت کا حساب و کتاب اور آخرت میں سزا وجزاء کے فیصلے بہرحال اس دنیا میں کیے گئے اعمال پر مرتب ہوتے ہیں اور لوگ اس دنیا میں اس وقت تک صحیح طرز عمل اختیار نہیں کرسکتے جب تک ان کے لئے کسی شریعت کی شکل میں مربوط ضابطہ عمل موجود نہ ہو جس میں ان کے لئے حلال و حرام کی حد بندی کردی گئی ہو اور جس کے اوپر ان کا اخروی حساب و کتاب ہو۔ اس طرح اس تصور حیات کے مطابق یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ اس دنیا میں بھی حاکم اللہ ہے اور آخرت میں بھی حاکم اللہ ہے ۔ اگر طے یہ کردیا جائے کہ دنیا میں اللہ کی شریعت کے سوا کوئی اور قانون رائج ہوگا تو پھر آخرت میں ان سے مؤاخذہ اور حساب و کتاب کس ضابطہ عمل پر ہوگا ؟ کیا ان کے اعمال کا موازنہ قیامت کے روز ان قوانین کے مطابق ہوگا جو دنیا میں عملا نافذ نہ تھی اور نہ یہ لوگ اپنے فیصلے اس شریعت کے مطابق کراتے تھے ؟ یہ صورت حال ہر گز ممکن نہیں ہے ۔ لوگوں کو چاہئے کہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں اور اس بات کا یقین کرلیں کہ اللہ ان سے حساب و کتاب خود اپنی شریعت کے مطابق لے گا ۔ اگر انہوں نے اپنی پوری زندگی کو اور اپنے معاملات کو اللہ کی شریعت کے مطابق نہ ڈھالا ‘ جس طرح وہ اپنے مراسم عبودیت شریعت کے مطابق بجا لاتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان سے حساب لیتے وقت سب سے پہلے اس بات کا حساب لیا جائے گا کہ انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا اور یہ کہ کیوں انہوں نے اللہ کے سوا کئی دوسرے الہوں کو حاکم اور شارع مقرر کیا اور تسلیم کیا ۔ صرف اللہ وحدہ لا شریک ہی کو حاکم اور رب قرار کیوں نہ دیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ ان سے پہلا حساب یہ لیا جائے گا کہ انہوں نے اللہ کے حق حاکمیت کا انکار کیوں کیا یا انہوں نے اللہ کی شریعت کے ساتھ ساتھ دوسرے شرائع کا اتباع کرکے اور اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگی کر کے شرک کا ارتکاب کیوں کیا ؟ انہوں نے اپنی اجتماعی زندگی میں اپنے اقتصادی اور سیاسی نظام میں ‘ اپنے معاملات اور سوشل روابط میں اللہ کے سوا دوسروں کی پیروی کرکے شرک کا ارتکاب کیوں کیا جو ایک ناقابل معافی جرم ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ شرک کو معاف نہیں کرتا اور شرک کے سوا سب کوتاہیوں سے درگزر کرتا ہے ‘ اگر چاہے ۔ اب اللہ تعالیٰ انہیں عدالت فطرت میں پیش فرماتے ہیں ‘ کیونکہ خود فطرت انسانی کو حقیقت الہیہ کا شعور ہوتا ہے ۔ فطرت انسانی کا یہ خاصہ ہے کہ وہ مشکل لمحات میں بارگاہ الہیہ میں پناہ لیتی ہے ۔ قرآن ایسے بعض شدید لمحات کی تصویر کشی بڑی سرعت سے ہوتی ہے اور یہ منظر اسکرین پر آکر چلا جاتا ہے ۔ لیکن یہ منظر نہایت ہی دو ٹوک ‘ فیصلہ کن ‘ موثر اور حیران کن ہوتا ہے ۔ یہ ہولناک اور کربناک صورت حال ہمیشہ قیامت کے لئے مؤخر نہیں کردی جاتی ، کبھی کبھار اس دنیا میں بھی انسان ایسے حالات سے دوچار ہوتا ہے ۔ مثلا بحری سفر میں انسان کو جو مشکلات پیش آتی ہیں تو ان میں مشرکین بھی ہمیشہ اللہ جل شانہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ ہی پھر لوگوں کو نجات دیتے ہیں ۔ لیکن جب وہ اس مشکل اور خوفناک صورت حالات سے بخیریت نکل آتے ہیں اور نارمل زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو پھر شرک کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ غالب ہے وہ نگرانی کرنے والے فرشتوں کو بھیجتا ہے اور ہر مصیبت سے نجات دیتا ہے ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر غالب ہے اسے کوئی عاجز نہیں کرسکتا وہ اپنے بندوں کے بارے میں جو کچھ ارادہ فرمائے اس سے کوئی روک نہیں سکتا۔ پھر فرمایا (وَ یُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً ) اور وہ تم پر اپنے نگران بھیجتا ہے۔ اس سے اعمال لکھنے والے فرشتے مراد ہیں جیسا کہ سورة الانفطار میں فرمایا (وَ اِنَّ عَلَیْکُمْ لَحَافِظِیْنَ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ) (اور تمہارے اوپر نگران ہیں جو عزت والے کاتب ہیں وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو) بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے کاتبین کے علاوہ دوسرے فرشتے مراد ہیں جو آگے پیچھے آتے جاتے رہتے ہیں۔ اور بندوں کی حفاظت کرتے ہیں جیسے سورة رعد میں فرمایا (لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ ) اگر عموم لفظ سے دونوں قسم کے فرشتے مراد لیے جائیں تو اس میں بھی کوئی بُعد نہیں۔ اعمال لکھنے والے فرشتے حسنات اور سیئات لکھتے ہیں۔ جس میں اقوال و اعمال سب آجاتے ہیں۔ سورة ق میں فرمایا (مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیدٌ) (انسان جو بھی کسی بات کا تلفظ کرتا ہے تو اس کے پاس نگران موجود ہے تیار) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ تمہارے پاس رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے آگے پیچھے آتے جاتے ہیں۔ اور فجر اور عصر کی نماز میں ان کا اجتماع ہوجاتا ہے پھر وہ فرشتے جو رات کو تمہارے پاس رہے تھے اوپر چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ ان سے دریافت فرماتے ہیں حالانکہ وہ اپنے بندوں کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ جواب میں عرض کرتے ہیں کہ ہم نے ان کو نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس گئے تو اس وقت بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ج ١ ص ٦٢ از بخاری و مسلم) پھر فرمایا : (حَتّآی اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا) (یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کے پاس موت آجاتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے قاصد اس کو اٹھا لیتے ہیں) یعنی زندگی بھر جو فرشتے بندوں کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں وہ کار مفوضہ انجام دیتے رہتے ہیں پھر جب زندگی کی مدت ختم ہوجاتی ہے اور مقرر اجل آپہنچتی ہے تو وہ فرشتے روح قبض کرلیتے ہیں جو اس کام پر مقرر ہیں۔ صاحب روح المعانی نے ج ٧ ص ١١٦ حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہاں رُسُلُنَا سے ملک الموت کے اعوان یعنی مددگار مراد ہیں۔ (وَ ھُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ ) (اور یہ فرشتے جو روح قبض کرنے پر مقرر ہیں کچھ بھی کوتاہی نہیں کرتے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

68 یہ تخویف دنیوی ہے تَوَفَّتہُ رُسُلُنَا سے اہل بدعت اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ایک فرشتہ عزرائیل ایک وقت میں ہزاروں جگہ حاضر و ناظر ہو کر ہزاروں انسانوں کی جانیں قبض کرلیتا ہے تو کیا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں ہوسکتے۔ اس آیت سے ان کا اعتراض باطل ہوگیا کیونکہ یہاں رُسُلُنَا جمع کے صیغہ سے معلوم ہوا کہ قبض ارواح پر صرف ایک فرشتہ ہی مقرر نہیں بلکہ اس کے ماتحت ہزاروں لاکھوں فرشتے ہیں جو اس کام پر مقرر ہیں ان کو ملائکۃ الموت یا ملک الموت (بارادہ اسم جنس) کہتے ہیں اس لیے صرف ایک فرشتہ ہی تمام انسانوں کی جانیں نہیں قبض کرتا بلکہ وہ تو صرف حکم خداوندی کے ماتحت اپنے ماتحتوں کو حکم دیتا ہے لہذا اہل بدعت کا دعویٰ باطل ہے۔ اس کی تائید اور کئی آیتوں سے ہوتی ہے۔ مثلاً سورة اعراف ع 4 میں فرمایا حتّٰی اِذَا جَا ءَتْھُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَہُمْ ۔ اہل بدعت سورة سجدہ کی ایک آیت سے استدلال کرتے ہیں۔ قُلْ یَتَوَفّٰکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ ۔ وہ کہتے ہیں یہاں ملک الموت واحد کا صیغہ ہے جس سے ایک فرشتہ مراد ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واحد کا صیغہ نہیں بلکہ اسم جنس ہے جو قلیل اور کثیر دونوں کے استعمال ہوتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

61 اور وہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ہر اعتبار سے پوری طرح غالب ہے اور وہ تمہاری نگہداشت کرنے کو تم پر نگہبان فرشتے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے وہ فرشتے جو اس کام کے لئے مقرر ہیں اس شخص کی روح قبض کرلیتے ہیں اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے یعنی روح قبض کرنے کے متعلق ان کو جو حکم ہوتا ہے اس کی بجا آوری میں ان سے کوتاہی سر زد نہیں ہوتی۔