Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 62

سورة الأنعام

ثُمَّ رُدُّوۡۤا اِلَی اللّٰہِ مَوۡلٰىہُمُ الۡحَقِّ ؕ اَلَا لَہُ الۡحُکۡمُ ۟ وَ ہُوَ اَسۡرَعُ الۡحٰسِبِیۡنَ ﴿۶۲﴾

Then they His servants are returned to Allah , their true Lord. Unquestionably, His is the judgement, and He is the swiftest of accountants.

پھر سب اپنے مالک حقیقی کے پاس لائے جائیں گے خوب سن لو فیصلہ اللہ ہی کا ہوگا اور وہ بہت جلد حساب لے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ رُدُّواْ إِلَى اللّهِ مَوْلاَهُمُ الْحَقِّ ... Then they are returned to Allah, their Master, the Just Lord. Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah said that the Prophet said, إِنَّ الْمَيِّتَ تَحْضُرُهُ الْمَلَيِكَةُ فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ قَالُوا اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ اخْرُجِي حَمِيدَةً وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَ... رَيْحَانٍ وَرَبَ غَيْرِ غَضْبَانَ The angels attend the dying person. If he is a righteous person, the angels will say, `O pure soul from a pure body! Come out with honor and receive the good news of rest, satisfaction and a Lord Who is not angry.' فَلَ تَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ ثُمَّ يُعْرَجَ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ فَيَسْتَفْتَحُ لَهَا فَيُقَالُ مَنْ هَذَا The angels will keep saying this until the soul leaves its body, and they will then raise it up to heaven and will ask that the door be opened for the soul and it will be asked, `Who is this?' فَيُقَالُ فُلَنٌ It will be said, `(The soul of) so-and-so.' فَيُقَالَ مَرْحبًا بِالنَّفْسِ الطَّيِّبَةِ كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ ادْخُلي حَمِيدَةً وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَرَيْحَانٍ وَرَبَ غَيْرِ غَضْبَانَ It will be said, `Welcome, to the pure soul that inhabited the pure body. Enter with honor and receive the good news of rest, satisfaction and a Lord Who is not angry.' فَلَ تَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللهُ عَزَّ وَجَلَّ This statement will be repeated until the soul reaches the heaven above which there is Allah. وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السَّوْءُ قَالُوا اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ اخْرُجِي ذَمِيمَةً وَأَبْشِري بِحَمِيمٍ وَغَسَّاقٍ وَاخَرَ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاج فَلَإ تَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ If the dying person is evil, the angels will say, `Get out (of your body), O wicked soul from a wicked body! Get out in disgrace and receive the news of boiling fluid, a fluid dark, murky, intensely cold and other (torments) of similar kind - all together - to match them.' This statement will be said repeatedly until the evil soul leaves its body. ثُمَّ يُعْرَجَ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ فَيُسْتَفْتَحُ لَهًا فَيُقَالُ مَنْ هَذَا The soul will be raised up to heaven and a request will be made that the door be opened for it. It will be asked, `Who is this?' فَيُقَالُ فُلَنٌ It will be said, `(The soul of) so and so.' فَيُقَالُ لاَ مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الْخَبِيثَةِ كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ ارْجِعِي ذَمِيمَةً فَإِنَّهُ لاَ يُفْتَحُ لَكَ أَبْوَابُ السَّمَاءِ فَتُرْسَلُ مِنَ السَّمَاءِ ثُمَّ تَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ It will be said, `No welcome to the wicked soul from the wicked body. Return with disgrace, for the doors of heaven will not be opened for you.' So it will be thrown from heaven until it returns to the grave. فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَيُقَالُ لَهُ مِثْلُ مَا قِيلَ فِي الْحَدِيثِ الاَوَّلِ وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السَّوْءُ فَيُقَالُ لَهُ مِثْلُ مَا قِيلَ فِي الْحَدِيثِ الثَّانِي So the righteous person sits and similar is said to him as before. And the evil person sits and similar is said to him as before. It is also possible that the meaning of, ثُمَّ رُدُّوا (Then they are returned...), refers to the return of all creation to Allah on the Day of Resurrection, when He will subject them to His just decision. Allah said in other Ayat, قُلْ إِنَّ الاٌّوَّلِينَ وَالاٌّخِرِينَ لَمَجْمُوعُونَ إِلَى مِيقَـتِ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ Say: "(Yes) verily, those of old, and those of later times. All will surely be gathered together for an appointed meeting of a known Day." (56:49-50) and, وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا (And We shall gather them all together so as to leave not one of them behind... until, وَلاَ يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا (And your Lord treats no one with injustice). (18:47-49) Allah said here, ... مَوْلاَهُمُ الْحَقِّ أَلاَ لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ their Master, the Just Lord. Surely, His is the judgment and He is the swiftest in taking account.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 آیت میں ردوا (لوٹائے جائیں گے) کا مرجع بعض نے فرشتوں کو قرار دیا ہے۔ یعنی قبض روح کے بعد فرشتے اللہ کی بارگاہ لوٹ جاتے ہیں۔ اور بعض نے اس کا مرجع تمام لوگوں کو بنایا ہے۔ یعنی سب لوگ حشر کے بعد اللہ کی بارگاہ میں لوٹائے جائیں گے (پیش کئے جائیں گے) پھر وہ سب کا فیصلہ فرمائے گا۔ آیت میں روح قبض ک... رنے والے فرشتوں کو رسل (جمع کے صیغے کے ساتھ) بیان کیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے والا فرشتہ ایک نہیں متعدد ہیں۔ اس کی تشریح بعض مفسرین نے اسطرح کی ہے کہ قرآن مجید میں روح قبض کرنے کی نسبت اللہ کی طرف بھی ہے۔ (اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا) 039:042 اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے " اور اس کی نسبت ایک فرشتے (ملک الموت) کی طرف بھی کی گئی ہے (ـ قُلْ يَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِيْ وُكِّلَ بِكُمْ ) 032:011 ' کہہ دو تمہاری روحیں وہ فرشتہ موت قبض کرتا ہے جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے ' اور اس کی نسبت متعدد فرشتوں کی طرف بھی کی گئی ہے، جیسا کہ اس مقام پر ہے اور اسی طرح سورة نساء آیت 97 اور الانعام آیت 93 میں بھی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہی اصل امر (حکم دینے والا) بلکہ فاعل حقیقی ہے۔ متعدد فرشتوں کی طرف نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہ ملک الموت کے مددگار ہیں وہ رگوں شریانوں پٹھوں سے روح نکالنے اور اس کا تعلق ان تمام چیزوں سے کاٹنے کا کام کرتے ہیں اور ملک الموت کی طرف نسبت کے معنی یہ ہیں کہ پھر آخر میں وہ روح قبض کر کے آسمانوں کی طرف لے جاتا ہے (تفسیر روح المعانی جلد 5) حافظ ابن کثیر امام شوکانی اور جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ملک الموت ایک ہی ہے جیسا کہ سورة الم السجدہ کی آیت سے اور مسند احمد میں حضرت براء بن عازب (رض) کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے اور جہاں جمع کے صیغے میں ان کا ذکر ہے تو وہ اس کے اعوان و انصار ہیں اور بعض آثار میں ملک الموت کا نام عزرائیل بتلایا گیا ہے تفسیر ابن کثیر واللہ اعلم  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٨] موت کے بعد کے احوال اور قبر میں سوال و جواب :۔ اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہیں۔ مختصراً یہ کہ جب فرشتے انسان کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو فرشتوں کے رویہ سے ہی مرنے والے کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل جنت سے ہے یا اہل دوزخ سے۔ جنتی کی روح کو ریشم کے کپڑوں میں لپیٹ کر آسمان کی طرف جاتے ہیں تو اس ... روح کی خاصی پذیرائی ہوتی ہے اور آسمان کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے پھر اسے عزت و اکرام سے واپس بھیج دیا جاتا ہے اور یہ روح اپنی میت کے ساتھ ساتھ رہتی ہے اور پکارتی رہتی ہے کہ مجھے جلدی جلدی تدفین کے لیے لے چلو۔ پھر تدفین کے بعد قبر میں جب سوال و جواب ہو چکتے ہیں تو اسے مقام علیین پہنچا دیا جاتا ہے اور دوزخی کی روح کو فرشتے بدبودار کپڑوں میں لپیٹ کر آسمان کی طرف لے جاتے ہیں تو اس کے لیے دروازہ ہی نہیں کھلتا پھر اسے وہاں سے اپنی میت کی طرف پھینک دیا جاتا ہے اور وہ پکار پکار کر کہتی ہے کہ مجھے تدفین کے لئے نہ لے جاؤ۔ پھر جب تدفین کے بعد قبر میں سوال و جواب ہوتے ہیں اور وہ اس امتحان میں ناکام رہتا ہے تو مقام سجین میں قیامت تک کے لیے قید کردیا جاتا ہے۔ [٦٩] یعنی عذاب وثواب کا سلسلہ مرنے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے پھر قبر میں جنتی کے لیے جنت کی ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور وہ قیامت تک ایسے اکرام اور مسرت کی نیند سوتا ہے جیسے کوئی دلہن سوتی ہے اور دوزخی کے لیے دوزخ کی طرف کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے طرح طرح کا عذاب شروع ہوجاتا ہے اور یہ عذاب وثواب قیامت کے بعد کے عذاب وثواب کی نسبت بہت ہلکے ہوتے ہیں۔ قیامت کو حساب و کتاب کے بعد دوزخی کو جو عذاب ہوگا وہ اس سے شدید تر ہوگا۔ اسی طرح جنتی پر جو انعامات ہوں گے وہ قبر کے انعام سے بہت زیادہ ہوں گے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ ۭ پھر اللہ تعالیٰ جو ان کا سچا مالک ہے، جس نے اپنے حکم سے انھیں دنیا میں بھیجا تھا، اس کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَى اللہِ مَوْلٰىہُمُ الْحَقِّ۝ ٠ۭ اَلَا لَہُ الْحُكْمُ۝ ٠ۣ وَہُوَاَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ۝ ٦٢ ثمَ ثُمَّ حرف عطف يقتضي تأخر ما بعده عمّا قبله، إمّا تأخيرا بالذات، أو بالمرتبة، أو بالوضع حسبما ذکر في ( قبل) وفي (أول) . قال تعالی: أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُن... ْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] ، وقال عزّ وجلّ : ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة/ 52] ، وأشباهه . وثُمَامَة : شجر، وثَمَّتِ الشاة : إذا رعتها ، نحو : شجّرت : إذا رعت الشجر، ثم يقال في غيرها من النبات . وثَمَمْتُ الشیء : جمعته، ومنه قيل : كنّا أَهْلَ ثُمِّهِ ورُمِّهِ ، والثُّمَّة : جمعة من حشیش . و : ثَمَّ إشارة إلى المتبعّد من المکان، و «هنالک» للتقرب، وهما ظرفان في الأصل، وقوله تعالی: وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان/ 20] فهو في موضع المفعول ث م م ) ثم یہ حرف عطف ہے اور پہلی چیز سے دوسری کے متاخر ہونے دلالت کرتا ہے خواہ یہ تاخیر بالذات ہو یا باعتبار مرتبہ اور یا باعتبار وضع کے ہو جیسا کہ قبل اور اول کی بحث میں بیان ہپوچکا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] کیا جب وہ آو اقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤگے ( اس وقت کہا جائے گا کہ ) اور اب ( ایمان لائے ) اس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة/ 52] پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ ثمامۃ ایک قسم کی گھاس جو نہایت چھوٹی ہوتی ہے اور ثمت الشاۃ کے اصل معنی بکری کے ثمامۃ گھاس چرنا کے ہیں جیسے درخت چرنے کے لئے شجرت کا محاورہ استعمال ہوتا ہے پھر ہر قسم کی گھاس چرنے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ثمت الشئی اس چیز کو اکٹھا اور دوست کیا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ کنا اھل ثمہ ورمہ ہم اس کی اصلاح و مرمت کے اہل تھے ۔ الثمۃ خشک گھاس کا مٹھا ۔ ثم ۔ ( وہاں ) اسم اشارہ بعید کے لئے آتا ہے اور اس کے بالمقابل ھنالک اسم اشارہ قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ دونوں لفظ دراصل اسم ظرف اور آیت کریمہ :۔ وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان/ 20] اور بہشت میں ( جہاں آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت ۔۔۔ دیکھوگے ۔ میں ثم مفعول واقع ہوا ہے ۔ رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ ولي والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔ سرع السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو : أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ( س ر ع ) السرعۃ اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٢) پھر قیامت کے دن ان کا مالک حقیقی عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا یا یہ کہ ان کا معبود حقیقی مگر انہوں نے جیسا کہ معبود حقیقی کی عبادت کا حق تھا اس کی عبادت نہیں کی اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ جو بھی جس کے معبود ہیں وہ سب باطل ہیں، قیامت کے دن بندوں کے درمیان وہی فیصلہ فرمائے گا جس وقت وہ حساب ... لینا شروع فرمائے گا تو اس کا حساب بہت جلدی ہوجائے گا ،  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ ( ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ مَوْلٰٹہُمُ الْحَقِّ ط) (اَلاَ لَہُ الْحُکْمُقف وَہُوَ اَسْرَعُ الْحَاسِبِیْنَ ۔ ) حقیقی حاکمیت صرف اللہ ہی کی ہے۔ یہ بات یہاں دوسری دفعہ آئی ہے۔ اس سے پہلے آیت ٥٧ میں ہم پڑھ آئے ہیں : (اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ) کہ فیصلے کا اختیار کلیتاً اللہ کے ہاتھ می... ں ہے۔ مزید فرمایا کہ وہ سب سے زیادہ تیز حساب چکانے والا ہے۔ اسے حساب چکانے میں کچھ دیر نہیں لگے گی ‘ صرف حرف کن کہنے سے آن واحد میں وہ سب کچھ ہوجائے گا جو وہ چاہے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:62) ردوا۔ ماضی مجہول جمع مذکر غائب۔ رد سے۔ وہ واپس لائے گئے۔ وہ لوٹائے گئے۔ وہ پھیرے گئے۔ یعنی عبادہ۔ اس کے بندے موت کے بعد اس کے حضور لوٹائے جائیں گے۔ اسرع الحسبین۔ حساب کرنے والوں میں سب سے زیادہ جلد اور تیز حساب کرنے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

جس نے اپنے حکم سے انہیں دنیا میں بھیجا تھا،4 جس نے اپنے حکم سے انہیں دنیا میں بھیجا تھا ، 5 موت کے ساتھ ہی آن کی آن میں اعمال کے اثرات ظاہر ہوجائنیگے یالمحہ بھر میں انسان کی عمر بھر کی برائی واضح کردے گا۔ (رازی) یا جلد حساب ہونے والا ہے یعنی مرنے کے بعد (نیز دیکھئے سورت بقرہ۔ 606)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ ظاہر آیت سے اس مقام پر تین قسم کے فرشتوں کا ذکر ہے ایک اعمال لکھنے والے جن کا ذکر اس آیت میں ہے وان علیکم لحافظین کراما کاتبین دوسرے جان کی حفاظت کرنے والے جن کو مضرتوں سے حفاظت کرنے کا حکم ہو اور جب تک حکم ہو جن کا ذکر اس آیت میں ہے لہ معقبات من بین۔ تیسرے جان نکالنے والے اور ظاہرا دوسری آیت سے ... معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام ملک الموت کا ہے اس لیے علماء نے بنا بربعض روایات مذکورہ روح المعانی کے کہا ہے کہ یہ اعوان ملک الموت کے ہیں ملابستہ کی وجہ سے ان کی طرف اسناد کردی گئی واللہ اعلم۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ مَوْلٰھُمُ الْحَقِّ ) (پھر وہ واپس کیے جاتے ہیں اللہ کی طرف جو ان کا حقیقی اور واقعی مالک ہے) ۔ (اَلَا لَہُ الْحُکْمُ وَ ھُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِیْنَ ) (خبر دار ! اسی کے لیے حکم ہے وہی فیصلے فرمائے گا۔ وہ حساب لینے والوں میں سب سے جلدی حساب لینے والا ہے) جن لوگوں کا حس... اب لیا جائے گا۔ ان کے مختلف احوال اور مختلف اعمال ہوں گے۔ کسی کا حساب جلدی اور کسی کا دیر میں ختم ہوگا لیکن اگر اللہ تعالیٰ سب ہی کا حساب ذرا سی دیر میں فرمانا چاہیں تو فرماسکتے ہیں۔ فانہ لا یشغلہ حساب عن حساب و لا شان عن شان۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

62 پھر مرنے کے بعد یہ مرنے والے اپنے مالک حقیقی کی طرف لوٹائے جائیں گے یعنی آخرت میں مولائے حقیقی کے روبرو پیش کئے جائیں گے آگاہ رہو اور خوب سن لو اس دن حکم اسی کا ہے اور تمام حساب کرنے والوں سے بہت جلد حساب کرنے والا ہے یعنی آخرت میں اس کے حکم میں کسی کو دخل نہیں ہوگا اور وہ بیشمار مخلوق کا حساب بہ... ت جلد کر دے گا۔  Show more