Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 8

سورة الأنعام

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ مَلَکٌ ؕ وَ لَوۡ اَنۡزَلۡنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الۡاَمۡرُ ثُمَّ لَا یُنۡظَرُوۡنَ ﴿۸﴾

And they say, "Why was there not sent down to him an angel?" But if We had sent down an angel, the matter would have been decided; then they would not be reprieved.

اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اور اگر ہم کوئی فرشتہ بھیج دیتے تو سارا قصہ ہی ختم ہو جاتا ۔ پھر ان کو ذرا مہلت نہ دی جاتی

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالُواْ لَوْلا أُنزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ... And they say: "Why has not an angel been sent down to him!" to convey the Message with admonition along with him. Allah replied, ... وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الامْرُ ثُمَّ لاَ يُنظَرُونَ Had We sent down an angel, the matter would have been judged at once, and no respite would be granted to them. Consequently, even if the angels descend, while the disbelievers still had the same attitude, then the torment will surely befall them from Allah as a consequence. Allah said in other Ayat, مَا نُنَزِّلُ الْمَلَـيِكَةَ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَا كَانُواْ إِذًا مُّنظَرِينَ We send not the angels down except with the truth (i.e. for torment, etc.), and in that case, they (the disbelievers) would have no respite! (15:8) and, يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَـيِكَةَ لاَ بُشْرَى يَوْمَيِذٍ لِّلْمُجْرِمِينَ On the Day they will see the angels, no glad tidings will there be for the criminals that day. (25:22) Allah's statement, وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنَاهُ رَجُلً وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِم مَّا يَلْبِسُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جتنے بھی انبیاء و رسل بھیجے وہ انسانوں میں سے ہی تھے اور ہر قوم میں اسی کے ایک فرد کو وحی و رسالت سے نواز دیا جاتا تھا۔ یہ اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی رسول فریضہ تبلیغ و دعوت ادا ہی نہیں کرسکتا تھا، مثلاً اگر فرشتوں کو اللہ تعالیٰ رسول بنا کر بھیجتا تو ایک تو وہ انسانی زبان میں گفتگو ہی نہ کر پاتے اور دوسرے وہ انسانی جذبات سے عاری ہونے کی وجہ سے انسان کے مختلف حالات میں مختلف کیفیات و جذبات کے سمجھنے سے بھی قاصر رہتے۔ ایسی صورت میں ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ کس طرح انجام دے سکتے تھے۔ ؟ اس لئے اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر ایک بڑا احسان ہے کہ اس نے انسانوں کو ہی نبی اور رسول بنایا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے بطور احسان ہی قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے (لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ ) 003:164 اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان فرمایا جب کہ انہی کی جانوں میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا لیکن پیغمبروں کی بشریت کافروں کے لیے حیرت واستعجاب کا باعث رہی وہ سمجھتے تھے کہ رسول انسانوں میں سے نہیں فرشتوں میں سے ہونا چاہیے گویا ان کے نزدیک بشریت رسالت کے شایان شان نہیں تھی جیسا کہ آج کل کے اہل بدعت بھی یہی سمجھتے ہیں۔ تشابھت قلوبھم اہل کفر و شرک رسولوں کی بشریت کا تو انکار کر نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ ان کے خاندان حسب نسب ہر چیز سے واقف ہوتے تھے لیکن رسالت کا وہ انکار کرتے رہے جبکہ آج کل کے اہل بدعت رسالت کا انکار تو نہیں کرتے لیکن بشریت کو رسالت کے منافی سمجھنے کی وجہ سے رسولوں کی بشریت کا انکار کرتے ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرما رہا ہے کہ اگر ہم کافروں کے مطالبے پر کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے یا اس رسول کی تصدیق کے لئے ہم کوئی فرشتہ نازل کردیتے جیسا کہ یہاں یہی بات بیان کی گئی ہے اور پھر وہ اس پر ایمان نہ لاتے تو انھیں مہلت دیئے بغیر ہلاک کردیا جاتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] یہ کفار کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرشتہ اپنی اصلی شکل میں کیوں نازل نہیں ہوتا۔ جسے ہم دیکھ سکیں اور ہمیں یقین آجائے۔ اور پیغمبر جو یہ کہتا ہے کہ مجھ پر فرشتہ نازل ہوتا ہے وہ سچ کہتا ہے ؟ اس اعتراض کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر فرشتہ اپنی اصلی شکل میں آتا تو یہ دہشت کے مارے فوراً مرجاتے انہیں ایمان لانے یا انکار کرنے کی مہلت ہی کہاں ملتی۔ فرشتہ کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنے کے متحمل انبیاء ہی ہوسکتے ہیں۔ چناچہ آپ نے جبریل فرشتہ کو اس کی اصلی شکل میں دو بار دیکھا تھا۔ آپ نے بتایا کہ && اس کے چھ سو پر تھے اور اس کی جسامت سے تمام افق بھر گیا تھا۔ && (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ باب قول اللہ فاوحیٰ الیٰ عبدہ ما اوحیٰ ) کسی دوسرے نبی کا جبریل فرشتہ کو اپنی اصلی شکل میں دیکھنا احادیث سے ثابت نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ : یہ نبوت کے منکرین کا ایک اور اعتراض ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی طرف رسول بھیجنا ہی تھا تو وہ انسان کے بجائے فرشتہ ہونا چاہیے تھا، یا فرشتہ اس کے ساتھ ساتھ پھرتا اور کہتا کہ یہ اللہ کا رسول ہے، اس پر ایمان لے آؤ، ورنہ تمہیں سزا دی جائے گی۔ وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْاَمْرُ ۔۔ : یہ پہلا جواب ہے۔ (رازی) کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ چلا آیا ہے کہ جب کوئی قوم اپنے نبی سے معجزہ طلب کرے اور وہ اسے دکھا دیا جائے، لیکن اس کے بعد بھی وہ ایمان نہ لائے تو اسے ہلاک کردیا جاتا ہے، اس لیے اگر فرشتے اصل صورت میں نازل ہوتے تو ان کے پاس عذاب لے کر آتے اور ان کا قصہ ہی تمام ہوجاتا۔ دیکھیے سورة حجر (٦ تا ٨) اور سورة فرقان (٢١، ٢٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The third verse (8) was also revealed because of an event which con¬cerns this very ` Abdullah ibn Abi Umaiyyah who, accompanied by Nadr ibn al-Harith and Nawfal ibn Khalid (رض) ، came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . This time their demand was: ` We shall believe in you only when you go and bring a book from the heavens and let four angels come along with it to testify that the book was from none but Allah and that you are the Messenger of Allah.& One answer Allah gave to them was that by making such demands, these heedless people were inviting their own destruction, because the Divine law is that, should a people ask their prophet to show a miracle of their choice, and as a result of their demand, such miracle is shown by the power and will of Allah, then, should they, even then, remain reluctant to believe and accept faith any longer, they are destroyed by a mass general punishment. These particular people of Makkah were really not making their demands as based on any good intentions, which may have at the least given some hope of their accepting the truth. Therefore, it was said: وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْأَمْرُ‌ ثُمَّ لَا يُنظَرُ‌ونَ (And had We sent down an angel, the whole matter would have been finished). In other words, it means ` If We do send the miracle they demand, that is, send an angel, then, these people who are not the kind who would accept truth will still act contrary and hostile even after having seen the miracle, then, the Divine command to have them destroyed would stand activated. Since they would be given no respite after that hap-pens, therefore, they should understand that the fact of not showing the miracle demanded by them spells out real good for them, without which they would be nowhere. The second answer to this problem with them was given in the fourth verse (9) in a different manner where it was said that people asking such questions were certainly strange people who were de¬manding that angels should come down to them. This is so because there are only two ways angels can come down. Firstly, an angel may come as he is, in his form and state of being. If so, no human being can stand before his real awe - in fact, he is more likely to die at the never imagined sight. The second form in which the angel could come down is that the angel comes in human shape and form, as Sayyidna Jibra&il al-Amin (علیہ السلام) has come to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) several times in the shape of a human being. In this situation too, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is told, this questioner will have the same objection against this ` angel& as he has against you - because he would take him to be nothing but human. After having answered all these hostile questions, solace has been given to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in the fifth verse (10) by saying that this attitude of mockery and injury directed against him by his people is not something particular to him. Other prophets and mes¬sengers before him had to face similar heart-breaking experiences, but they did not lose hope. Finally, what happened was that those who used to mock were overtaken by the punishment which they mocked at. In short, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been assured that his mission is to convey the commandments of Allah. Once he feels he has done that, let his heart be at rest. Whether someone is affected by the message or not, that is not for him to worry about - for it is not a part of his duty as a Messenger of Allah. So, let this concern bring no sor¬row to his heart.

تیسری آیت کے نزول کا بھی ایک واقعہ ہے کہ یہی عبداللہ بن ابی امیہ اور نضر بن حارث اور نوفل بن خالد ایک مرتبہ جمع ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ مطالبہ پیش کیا کہ ہم تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب ایمان لائیں گے جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان سے ایک کتاب لے کر آئیں، اور اس کے ساتھ چار فرشتے آئیں جو اس کی گواہی دیں کہ یہ کتاب اللہ ہی کی طرف سے آئی ہے اور یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اس کا جواب حق تعالیٰ نے اہک تو یہ دیا کہ یہ غفلت شعار ایسے مطالبات کرکے اپنی موت و ہلاکت کو دعوت دے رہے ہیں، کیونکہ قانون الٓہی یہ ہے کہ جب کوئی قوم کسی پیغمبر سے کسی خاص معجزہ کا مطالبہ کرے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا مانگا ہوا معجزہ دکھلا دیا جائے، تو اگر وہ پھر بھی مانیں اور اسلام لانے میں ذرا تاخیر کریں تو پھر ان کو عذاب عام کے ذریعہ ہلاک کردیا جاتا ہے، یہ قوم اہل مکہ بھی یہ مطالبہ کسی نیک نیتی سے تو کر نہ رہی تھی، جس سے مان لینے کی توقع کی جاتی، اس لئے فرمایا : وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُوْنَ یعنی اگر ہم ان کا مانگا ہوا معجزہ دکھلا دیں کہ فرشتہ بھیج دیں اور یہ قوم ماننے والی تو ہے نہیں، تو معجزہ کے دیکھنے کے بعد بھی جب خلاف ورزی کرے گی تو اللہ کا حکم ان کے ہلاک کرنے کے لئے جاری ہوجائے گا، اور اس کے بعد ان کو ذرا بھی مہلت نہ دی جائے گی، اس لئے ان کو سمجھنا چاہئے کہ ان کی مانگی ہوئی کوئی نشانی اگر ظاہر نہیں کی گئی تو اس میں ان کی خیر ہے۔ اسی بات کا ایک دوسرا جواب چوتھی آیت میں دوسرے انداز سے دیا گیا کہ یہ سوال کرنے والے عجیب بیوقوف ہیں کہ فرشتوں کے نازل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، کیونکہ فرشتوں کے نازل ہونے کی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ فرشتہ اپنی اصلی ہیئت و صورت میں سامنے آجائے تو اس کی ہیت کو تو کوئی انسان برداشت نہیں کرسکتا، بلکہ ہول کھا کر فوراً مرجانے کا خطرہ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ فرشتہ بشکل انسانی آئے، جیسے جبریل امین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بہت مرتبہ بشکل انسانی آئے ہیں، تو اس صورت میں اس سوال کرنے والے کو جو اعتراض آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہے وہی اس فرشتہ پر بھی ہوگا، کہ یہ اس کو ایک انسان ہی سمجھے گا۔ ان تمام معاندانہ سوالات کے جواب دینے کے بعد پانچویں آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے ارشاد فرمایا کہ یہ استہزاء و تمسخر اور ایذاء رسانی کا معاملہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم آپ کے ساتھ کر رہی ہے کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے ساتھ مخصوص نہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بھی سب رسولوں کو ایسے دلدوز اور ہمت شکن واقعات سے سابقہ پڑا ہے، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری، اور انجام یہ ہوا کہ استہزاء و تمسخر کرنے والی قوم کو اس عذاب نے آپکڑا جس کا تمسخر کیا کرتے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام تبلیغ احکام ہے، وہ کرکے آپ اپنے قلب کو فارغ فرما لیں اس کا اثر کسی نے کچھ لیا یا نہیں، اس کی نگہداشت آپ کے ذمہ نہیں، اس لئے اس میں مشغول ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قلب کو مغموم نہ کریں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ مَلَكٌ۝ ٠ۭ وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُوْنَ۝ ٨ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ فرشته الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج/ 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك . ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا } ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨۔ ٩) اور یہ عبداللہ بن امیہ اور دیگر کافر یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جاتا جسے ہم دیکھ سکیں اور اس کی باتیں بھی سنیں تو اگر ان کی درخواست کے مطابق ہی معاملہ ہوتا تو ان پر عذاب نازل ہوجاتا اور ان کی روحیں قبض ہوجاتیں اور ان کا خاتمہ ہوجاتا اور پھر ان کو مہلت بھی نہ دی جاتی اور اگر ہم رسول کسی فرشتہ کو کرکے بھیجتے تب بھی اسے انسانی شکل میں ہی میں بھیجتے تاکہ لوگ ان اس کو دیکھ سکیں تو پھر فرشتوں کے بارے میں بھی ان کے وہی اشکال اور اشتباہ ہوتے جو ان کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی صفت کے بارے میں شک ہو رہا ہے

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌط وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لاَ یُنْظَرُوْنَ ) یعنی اس دنیا کی زندگی میں یہ جو ساری آزمائش ہے وہ تو غیب کے پردے ہی کی وجہ سے ہے۔ اگر غیب کا پردہ اٹھ جائے تو پھر امتحان ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد تو پھر نتیجے کا اعلان کرنا ہی باقی رہ جاتا ہے

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5. The unbelievers were saying that if Muhammed (peace be on him) had indeed been endowed with prophethood, an angel should have been sent down from heaven to announce that he was the Messenger of God, and that that people would be punished if they did not follow his directives. It was atonishing to these ignorant objectors that the Creator of the heavens and the earth should appoint someone as His Messenger and then leave him without protection against the physical hurts and insults that were flung at him. They would have expected the envoy of a Sovereign as great as the Creator of the universe to be accomplied by at least some heavenly constable, if not a large retinue, to protect him! 6. The unbelievers' objection is refuted by this remark. it warns them that the time available for accepting the true faith and bringing about the required reform in their lives will last only as long as Ultimate Reality remains concealed from human perception by the wheel of the Unseen. Once that wheel is removed, there will be no more respite: the summons to God's rekoning will have come. This earthly life is a test of whether a man is able to recognize the Ultimate Reality - even though it lies hidden from his sence perception - by the correct excecise of his reason and intelect and of whether, having once recognized it, he is able to behave in conformity with that Reality by exercising control over his animal self and its lusts. This test necessarily requires that the Reality should remain concealed. Thereafter man will be confronted with the result of the test rather than by any further test. Until God has decided to bring the term of their test to a close, it is not possible to respond to such requests by sending angels to them in their true form. (See also Towards Understanding the Qur'an, vol. I, Surah 2, n.228.)

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :5 یعنی جب یہ شخص خدا کی طرف سے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے تو آسمان سے ایک فرشتہ اترنا چاہیے تھا جو لوگوں سے کہتا کہ یہ خدا کا پیغمبر ہے ، اس کی بات مانو ورنہ تمہیں سزا دی جائے گی ۔ جاہل معترضین کو اس بات پر تعجب تھا کہ خالق ارض و سماء کسی کو پیغمبر مقرر کرے اور پھر اس طرح اسے بے یار و مددگار ، پتھر کھانے اور گالیاں سننے کے لیے چھوڑ دے ۔ اتنے بڑے بادشاہ کا سفیر اگر کسی بڑے اسٹاف کے ساتھ نہ آیا تھا تو کم از کم ایک فرشتہ تو اس کی اردلی میں رہنا چاہیے تھا تا کہ وہ اس کی حفاظت کرتا ، اس کا رعب بٹھاتا ، اس کی ماموریت کا یقین دلاتا اور فوق الفطری طریقے سے اس کے کام انجام دیتا ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :6 یہ ان کے اعتراض کا پہلا جواب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لینے کے لیے جو مہلت تمہیں ملی ہوئی ہے یہ اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت پردہ غیب میں پوشیدہ ہے ۔ ورنہ جہاں غیب کا پردہ چاک ہوا ، پھر مہلت کا کوئی موقع باقی نہ رہے گا ۔ اس کے بعد تو صرف حساب ہی لینا باقی رہ جائے گا ۔ اس لیے کہ دنیا کی زندگی تمہارے لیے ایک امتحان کا زمانہ ہے ، اور امتحان اس امر کا ہے کہ تم حقیقت کو دیکھے بغیر عقل و فکر کے صحیح استعمال سے اس کا ادراک کرتے ہو یا نہیں ، اور ادراک کرنے کے بعد اپنے نفس اور اس کی خواہشات کو قابو میں لا کر اپنے عمل کو حقیقت کے مطابق درست رکھتے ہو یا نہیں ۔ اس امتحان کے لیے غیب کا غیب رہنا شرط لازم ہے ، اور تمہاری دنیوی زندگی ، جو دراصل مہلت امتحان ہے ، اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک غیب ، غیب ہے ۔ جہاں غیب شہادت میں تبدیل ہوا ، یہ مہلت لازماً ختم ہو جائے گی اور امتحان کے بجائے نتیجہ امتحان نکلنے کا وقت آپہنچے گا ۔ لہٰذا تمہارے مطالبہ کے جواب میں یہ ممکن نہیں ہے کہ تمہارے سامنے فرشتے کو اس کی اصلی صورت میں نمایاں کر دیا جائے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ابھی تمہارے امتحان کی مدت ختم نہیں کرنا چاہتا ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۲۸ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: یہ دنیا چونکہ انسان کے امتحان کے لیے بنائی گئی ہے، اس لیے انسان سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر اللہ تعالیٰ پر اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں پر ایمان لائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب کوئی غیبی حقیقت آنکھوں سے دکھا دی جاتی ہے تو اس کے بعد ایمان لانا معتبر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص موت کے فرشتوں کو دیکھ کر ایمان لائے تو اس کا ایمان قابل قبول نہیں۔ کفار کا مطالبہ یہ تھا کہ اگر کوئی فرشتہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی لے کر آتا ہے تو وہ اس طرح آئے کہ ہم اسے دیکھ سکیں۔ قرآن کریم نے اس کا پہلا جواب تو یہ دیا ہے کہ اگر فرشتے کو انہوں نے آنکھ سے دیکھ لیا تو پھر مذکورہ بالا اصول کے مطابق ان کا ایمان معتبر نہیں ہوگا اور پھر انہیں اتنی مہلت نہیں ملے گی کہ یہ ایمان لا سکیں دوسرا جواب اگلے جملے میں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:8) لقضی الامر۔ پھر تو فیصلہ ہی ہوگیا ہوتا۔ پھر تو سارا قصہ ہی ختم ہوگیا ہوتا۔ (ان کی) ہلاکت کا فیصلہ ہوگیا ہوتا۔ لاینظرون۔ مضارع منفی مجہول۔ جمع مذکر غائب۔ ان کو مہلت نہیں دی جائے گی۔ لو انزلنا سے لا ینظرون تک۔ اگر ہم فرشتہ اتارتے تو بات ختم ہی ہوگئی ہوتی۔ قصہ ہی ختم ہوگیا ہوتا۔ پھر ان کو مہلت نہ دی جاتی قضی الامر۔ کے مختلف معانی کے پیش نظر اس فقرے کے مختلف معانی مفسرین نے لئے ہیں۔ (1) اگر فرشتہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اتارا جاتا تو فرشتہ کو اس کی اصلی صورت میں دیکھ کر معترضین یا تو ہلاک ہوگئے ہوتے یا مخبوط الحواس ہوجاتے۔ لیکن ان دونوں صورتوں میں پھر ان کو مہلت دینے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ (2) اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ فرشتہ ان کی تصدیق رسالت کے لئے یا لوگوں کو ڈرانے اور تبلیغ کے لئے اتارا جاتا تو پھر ان کے ایمان لانے یا نہ لانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا اس صورت میں حقیقت آشکار ہوگئی ہوتی اور سوائے اس حقیقت کے اعتراف کرنے کے کوئی چارہ کار ہی نہ ہوتا۔ اور نہ ہی مزید مہلت کی ضرورت رہتی۔ پھر تو صرف حساب لینا ہی باقی رہے جاتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 نبوت کے منکرین کا یہ تیسرا شبہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی طرف کوئی رسول ہی بھیجنا تھا تو وہ انسان کی بجائے فرشتہ ہونا چاہیے تھا یا فرشتہ آپ کے ساتھ ساتھ پھرتا اور کہتا ہے کہ اللہ کا پیغمبر ہے اس پر ایمان لے آو ورنہ تمہیں سزا دی جائے گی، (ابن کثیر، کبیر)7 یہ پہلا جواب ہے (رازی) کیونکہ سنت الہیہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے نبی سے معجزہ طلب کرے اور وہ اسے دکھا دیا جائے لیکن اس کے بھی وہ ایمان نہ لائے تو اسے ہلاک کردیا جاتا ہے۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کا دوسرا مطالبہ : سورۂ یونس آیت ٢ میں بیان ہوا ہے کہ لوگوں نے ہمیشہ اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے انبیاء کو کیوں مبعوث کیا ہے ؟ سورة الفرقان کی آیت ٧ میں کفار کے اس تعجب کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح کھاتا پیتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایک فرشتہ نازل کرتا جو ہر مقام پر اس کی تائید کرتا۔ یہاں بھی کفار کے اسی مطالبہ کا اعادہ کیا گیا ہے۔ جس کے دو جواب دیے گئے ہیں کہ اگر ہم اپنے رسول کی تائید میں فرشتہ نازل کرتے اور اسکے مقابلہ میں لوگ انکار کرتے تو ان کو کبھی مہلت نہ دی جاتی۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر فرشتہ کو رسول بنایا جاتا تو وہ بھی انسان کی شکل میں ہی رسول ہوتا اگر ہم ایسا کرتے تو یہ لوگ یہی یاوا گوئی کرتے کہ ہم انسان ہیں اور ہمارے لیے ہمارے جیسا انسان ہی رسول ہونا چاہیے تھا۔ انسانوں میں رسول بنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ انسانوں کی طرح اپنی حاجات کو پورا کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے بہترین نمونہ ثابت ہوں، تاکہ لوگ یہ بہانہ نہ بنا سکیں کہ تم تو فرشتے ہو جبکہ ہم حاجات میں پھنسے ہوئے انسان ہیں لہٰذا ہم شریعت پر کس طرح عمل پیراہو سکتے ہیں ؟ اس بہانے کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء ( علیہ السلام) مبعوث فرمائے وہ سارے بنی نوع انسان میں سے تھے تاکہ لوگوں کے لیے کوئی حجت باقی نہ رہے۔ افسوس آج مسلمانوں میں کئی لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرشتہ یعنی نوری مخلوق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو صریح طور پر قرآن مجید کی آیات کے الٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت سے نوازے۔ آمین (أَکَان للنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَیْنَا إِلٰی رَجُلٍ مِّنْہُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِینَ اٰمَنُواْ أَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عندَ رَبِّہِمْ قَالَ الْکَافِرُونَ إِنَّ ہٰذَا لَسٰاحِرٌ مُّبِینٌ)[ یونس : ٢] ” کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ انہیں میں سے ایک آدمی پر ہم نے وحی کی کہ وہ لوگوں کو ڈرائے اور ایمان لانے والوں کو یہ خوشخبری دے کہ ان کے رب کے ہاں ان کی حقیقی عزت اور مرتبہ ہے تو کافروں نے کہہ دیا کہ یہ صاف جادو ہے۔ “ (وَقَالُوا مالِ ہٰذَا الرَّسُولِ یَأْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِی فِی الْأَسْوَاقِ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُونَ مَعَہُ نَذِیرًا) [ الفرقان : ٧] ” وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھر تا ہے اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور لوگوں کو ڈرایا کرتا ؟ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے ہی رسول منتخب فرماتا رہا ہے۔ ٢۔ اللہ کی آیات آجانے کے بعد لوگوں پر حجت تمام ہوجاتی ہے۔ ٣۔ کھلے معجزے کا انکار کرنا عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے۔ تفسیر با لقرآن تمام انبیاء (علیہ السلام) بشر اور بندے تھے۔ ١۔ انبیاء ( علیہ السلام) کا اقرار کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١) ٢۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے وہ بشر ہی تھے۔ (النحل : ٤٣) ٣۔ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہوں۔ (الکہف : ١١٠، حٰم السجدۃ : ٦) ٤۔ ہم نے آدمیوں کی طرف وحی کی۔ (یوسف : ١٠٩) ٥۔ کسی بشر کو ہمیشگی نہیں ہے۔ (الانبیاء : ٣٤) ٦۔ کفار کو ان کے رسولوں نے کہا ہم تمہاری طرح بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١) ٧۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا کہ تو ہماری طرح بشر ہے اور ہم تجھے جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (الشعراء : ١٨٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٨ تا ٩ ۔ یہ تجویز مشرکین کی طرف سے تھی اور ان مشرکین سے پہلے بھی کئی اقوام نے یہ تجویز پیش کی ۔ ہر قوم نے اپنے رسول سے نزول فرشتگان کا مطالبہ کیا ۔ دوسری جگہ قرآن کریم نے ایسے مطالبے پیش کئے ہیں اور یہاں اس تجویز کو دلائل کے ساتھ رد کردی جاتا ہے ۔ اس تجویز کے بارے میں ‘ مناسب ہے ہم تمام حقائق یہاں پیش کردیں حتی الامکان ۔ اس کے متعلق پہلی حقیقت یہ ہے کہ مشرکین عرب اللہ کا انکار نہ کرتے تھے بلکہ وہ اس بارے میں ایک بین دلیل طلب کرتے تھے سے معلوم ہوجائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی مرسل ہیں اور آپ جو کتب ان کے سامنے پڑھتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے ۔ اس سلسلے میں دوسری تجاویز دیتے تھے ۔ یہ تجاویز قرآن کریم نے متعدد مقامات پر ذکر فرمائی ہیں ۔ مثلا سورة اسراء میں یہ تجاویز مذکور ہیں ۔ اس میں اس تجویز کے ساتھ ساتھ دوسری تجاویز بھی دی گئی ہیں جن سے ان لوگوں کی ہٹ دھرمی اور عناد کا اظہار ہوتا ہے ۔ عناد کے علاوہ ان کی کج فہمی پر بھی خود ان کی تجویز دلیل بین ہے ۔ اس لئے کہ یہ لوگ نہ اس نظام کائنات کو اچھی طرح سمجھے ہیں اور نہ حقیقی اقدار کو سمجھتے ہیں ۔ سورة اسراء میں آتا ہے ۔ (آیت) ” وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَکَ حَتَّی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الأَرْضِ یَنبُوعاً (90) أَوْ تَکُونَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّن نَّخِیْلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنْہَارَ خِلالَہَا تَفْجِیْراً (91) أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْْنَا کِسَفاً أَوْ تَأْتِیَ بِاللّہِ وَالْمَلآئِکَۃِ قَبِیْلاً (92) أَوْ یَکُونَ لَکَ بَیْْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَی فِیْ السَّمَاء وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتَّی تُنَزِّلَ عَلَیْْنَا کِتَاباً نَّقْرَؤُہُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنتُ إَلاَّ بَشَراً رَّسُولاً (93) وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن یُؤْمِنُواْ إِذْ جَاء ہُمُ الْہُدَی إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّہُ بَشَراً رَّسُولاً (94) قُل لَّوْ کَانَ فِیْ الأَرْضِ مَلآئِکَۃٌ یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْْہِم مِّنَ السَّمَاء ِ مَلَکاً رَّسُولاً (95) ” اور انہوں نے کہا ” ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لئے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے ۔ یا تیرے لئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کر دے ۔ یا تو آسمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعوی ہے یا خدا اور فرشتوں کو رو در رو ہمارے سامنے لے آئے ۔ یا تیرے لئے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں ۔۔۔۔۔ اے نبی ان سے کہو ” پاک ہے میرا پروردگار ‘ کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں ؟ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے ان کو کسی چیز نے نہیں روکا مگر ان کے اسی قول نے کہ ” کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا ۔ ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہیں تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لئے بنا کر بھیجتے ۔ یہ تجاویز اور مطالبے ایسے ہیں کہ ان سے ایک طرف ان کی ہٹ دھرمی کا اظہار ہوتا اور دوسری جانب ان کی جہالت کا ۔ اس لئے کہ ان کے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کتاب اخلاق کھلی تھی ‘ وہ طویل تیرن تجربے سے آپ کو اچھی طرح جانتے تھے اور آپ کے اخلاق سے ان کو معلوم تھا کہ آپ سچے اور امین ہیں اور ان ہی لوگوں نے ان کو امین کا لقب دیا ہوا تھا ۔ آپ کے ساتھ انکے شدید نظریاتی اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی یہ لوگ اپنی امانتیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رکھتے تھے ۔ جب آپ نے ہجرت فرمائی تو آپ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی (رض) کو امانتیں ادا کردیں جو ابھی تک آپ کی تحویل میں تھیں ۔ لیکن ان کو ان کے ساتھ اس قدر اختلاف تھا کہ ہو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کے تدابیر کر رہے تھے ۔ آپ کی امانت ودیانت جس طرح مسلم تھی اسی طرح آپ کی سچائی بھی مسلم تھی اس لئے کہ جب آپ نے سب سے پہلے کوہ صفا پر انہیں علی الاعلان دعوت دی ۔ یہ اس وقت ہوا جب اللہ کا حکم آگیا کہ آپ علی الاعلان دعوت کا آغاز کردیں ۔ اس موقعہ پر آپ نے ان سے سوال کیا کہ اگر میں آپ لوگوں کو کوئی اہم خبر دوں تو آپ لوگ تصدیق کردیں گے ؟ تو سب نے مل کر جواب دیا کہ آپ تو نہایت ہی سچے آدمی ہیں ۔ اگر یہ لوگ صرف یہ جاننا چاہتے کہ آپ سچے ہیں یا نہیں تو آپ کے ماضی ہیں ان کے لئے دلیل وبرہان تھی ۔ وہ جانتے تھے کہ آپ تو نہایت ہی سچے آدمی ہیں ۔ اسی سورة میں یہ مضمون آنے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ اللہ کو جھٹلاتے ہیں ۔ (آیت) ” قَدْ نَعْلَمُ إِنَّہُ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُولُونَ فَإِنَّہُمْ لاَ یُکَذِّبُونَکَ وَلَکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بِآیَاتِ اللّہِ یَجْحَدُونَ (33) ” جانتے ہیں کہ آپ کو ان لوگوں کی باتیں بہت پریشان کرتی ہیں ‘ دراصل یہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے لیکن یہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ۔ “ ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ وہ انکار کردیں ۔ یہ انکار محض عناد اور کبر کی وجہ سے تھا ۔ جہاں تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی کا تعلق ہے تو اس میں کسی کو شک نہ تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ عربوں کے لئے خود قرآن کریم کے اندر ایک عظیم شہادت موجود تھی ۔ یہ شہادت ان شہادتوں سے زیادہ دقیع تھی جو وہ طلب کرتے تھے ۔ قرآن بذات خود شاہد تھا ۔ قرآن کا طرز تعبیر اور اس کے مضامین بھی اس بات پر شاہد تھے کہ وہ من جانب اللہ ہے ۔ یہ لوگ ذات باری کے تو منکر نہ تھے اور قرآن کی اندرونی شہادت کا انہیں بھی احساس تھا ۔ وہ جس قدر ادبی اور لسانی ذوق رکھتے تھے اس کے ذریعے وہ جانتے تھے کہ انسانوں کی ادبی اور لسانی صلاحیت کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ قرآن کریم انسانی حدود سے ماوراء ہے ۔ جو لوگ فنی اور ادبی ذوق رکھتے ہیں وہ اس حقیقت کو ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ جانتے ہیں جو ادبی ذوق نہیں رکھتے ۔ دنیا میں جو لوگ اسالیب کلام کے اندر کچھ بھی ذوق رکھتے ہی۔ (چاہے مسلم ہوں یا غیر مسلم) وہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم کا اسلوب انسان کی قدرت سے بہت ہی اونچا ہے ۔ انسان اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اس حقیقت کا انکار صرف ایساشخص ہی کرسکتا ہے جو معاند ہو ‘ جو ایک حقیقت کو پا رہا ہو لیکن اسے اپنے عناد کی وجہ سے دل میں چھپا رہا ہو ۔ نیز اس بہترین اسلوب کے اندر قرآن کریم نے جو تصورات پیش کئے ہیں ‘ ان تصورات اور اعتقادات کو جس اسلوب میں نفس انسانی کے اندر ادا اور انسانی نفسیاتی اسلوب اظہار سے قرآن کا اسلوب نہایت ہی مختلف اور معجز ہے عربوں کے گہرے شعور اور ان کی نفسیات کی اندرونی حالت یہ تھی کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے ۔ ان کے حالات اور ان کے اقوال سے بھی یہ بات اچھی طرح عیاں ہے کہ وہ اس بات میں کسی شک میں مبتلا نہ تھے کہ یہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے ۔ یہ بھی اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو مطالبے کئے تھے ‘ وہ اس لئے نہ تھے کہ وہ تسلیم کے لئے کسی دلیل وبرہان کے طالب تھے بلکہ یہ ان کی ہٹ دھرمی تھی ۔ یہ ایک ایسا انداز تھا جس کے ذریعے وہ یہ جتلانا چاہتے تھے کہ وہ ہٹ کے پکے ہیں اور یہ مطالبے تو وہ محض عناد اور نہ ماننے کی وجہ سے کر رہے تھے ۔ اللہ نے فرمایا ۔ (آیت) ” وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْْکَ کِتَاباً فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوہُ بِأَیْْدِیْہِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِنْ ہَـذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(7) ” اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ عرب ملائکہ کو تو مانتے تھے اور مطالبہ یہ کرتے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک فرشتہ نازل ہو اور جب آپ تبلیغ کریں تو وہ ساتھ ساتھ آپ کی تصدیق و تائید کرے ۔ لیکن ان کے ذہن میں یہ بات نہ تھی کہ ملائکہ کی حقیقت اور ماہیت کیا ہے ؟ وہ اس مخلوق کے بارے میں اپنے عقیدے اور تصور میں نہایت ہی مخبوط الحواس تھے ۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ ملائکہ کا اپنے رب کے ساتھ تعلق کیا ہوتا ہے ۔ اس زمین اور اس کے باسیوں کے ساتھ ان کا تعلق کیا ہوتا ہے ؟ قرآن کریم نے عربوں کی فکری ژولیدگی کی کئی مثالیں بیان کی ہیں اور ملائکہ کے بارے میں ان کے جو بت پرستانہ خیالات تھے وہ بھی قرآن نے بیان کئے ہیں ۔ قرآن کریم نے ان تمام فکری غلطیوں کی اصلاح کی ہے تاکہ یہ لوگ پاک وصاف عقیدے کے حامل بن جائیں اور صحیح راہ پر گامزن ہوں ۔ کائنات اور اس میں بسنے والی مخلوق کے بارے میں بھی قرآن نے صحیح فکر دی ہے ۔ اس زاویے سے اسلام نے جس طرح عقل و شعور کو غذا فراہم کی اسی طرح دل اور ضمیر کو بھی صحیح سوچ دی اور اس درست فکر کی اساس پر لوگوں کے اعمال واطوار کو بھی درست کیا ۔ قرآن کریم نے عربوں کی توہم پرستیوں اور باطل نظریات کے کئی پہلوؤں پر بحث کی ہے کہ وہ کس قدر باطل نظریات کے حامل تھے ۔ مثلا یہ کہ وہ سمجھتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں حالانکہ اللہ اس تصور سے پاک اور برتر ہے ۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ان فرشتوں کو ناقابل استراداد سفارش کے اختیارات بھی حاصل ہیں ۔ صحیح بات یہ ہے کہ عربوں کے اندر مروج بتوں میں اکثر ان فرشتوں کے تصور پر بنائے گئے تھے اور انکے اس تصور اور مطالبے سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک موید اور مصدق فرشتہ اترے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے ۔ قرآن کریم نے سورة نجم میں ان کی اس کج فکری کی اصلاح اس طرح کی ہے ۔ (آیت) ” أَفَرَأَیْْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّی (19) وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْأُخْرَی (20) أَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْأُنثَی (21) تِلْکَ إِذاً قِسْمَۃٌ ضِیْزَی (22) إِنْ ہِیَ إِلَّا أَسْمَاء سَمَّیْْتُمُوہَا أَنتُمْ وَآبَاؤُکُم مَّا أَنزَلَ اللَّہُ بِہَا مِن سُلْطَانٍ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْأَنفُسُ وَلَقَدْ جَاء ہُم مِّن رَّبِّہِمُ الْہُدَی (23) أَمْ لِلْإِنسَانِ مَا تَمَنَّی (24) فَلِلَّہِ الْآخِرَۃُ وَالْأُولَی (25) وَکَم مِّن مَّلَکٍ فِیْ السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُہُمْ شَیْْئاً إِلَّا مِن بَعْدِ أَن یَأْذَنَ اللَّہُ لِمَن یَشَاء ُ وَیَرْضَی (26) إِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ لَیُسَمُّونَ الْمَلَائِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْأُنثَی (27) وَمَا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْْئاً (28) (٥٣ : ١٩ تا ٢٨) ” اب ذرا بتاؤ تم نے کبھی اس لات ‘ اور عزی ۔ اور تیسری ایک دیوی منات کی حقیقت پر کچھ غور کیا ہے ؟ کیا بیٹے تمہارے لئے ہیں اور بیٹیاں خدا کے لئے ؟ یہ تو پھر بڑی دھاندلی کی تقسیم ہوئی ۔ دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں ۔ اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے ۔ کیا انسان جو کچھ چاہے اس کے لئے وہی حق ہے ۔ دنیا وآخرت کا مالک تو اللہ ہی ہے ۔ آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں ۔ ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آسکتی جب تک کہ اللہ کسی شخص کے حق میں اس کی اجازت نہ دے دے جس کے لئے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے ۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ فرشتوں کی دیویوں کے ناموں سے موسوس کرتے ہیں ‘ حالانکہ اس معاملے کا علم بھی انہیں حاصل نہیں ہے ۔ وہ محض گمان کی پیروں کر رہے ہیں اور گمان حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔ “ مزیدیہ کہ ان دو آیات میں قرآن کریم نے فرشتوں کی ماہیت کے بارے میں ان کی دوسری کج فکری کی اصلاح بھی کردی ہے ۔ اس سورة کے علاوہ دوسری سورتوں کے اندر بھی ان کی فکری اصلاح کی گئی : (آیت) ” وَقَالُواْ لَوْلا أُنزِلَ عَلَیْْہِ مَلَکٌ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَکاً لَّقُضِیَ الأمْرُ ثُمَّ لاَ یُنظَرُونَ (8) ۔ ” کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ۔ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ‘ پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ “ اللہ کی مخلوقات میں سے جن لوگوں کی یہ سوچ ہے ‘ یہاں ان کے بارے میں وضاحت کردیں گئی ۔ یہ لوگ یہ تجویز کرتے ہیں کہ اللہ قرآن کے ساتھ فرشتہ بھی اتارے ۔ لیکن فرشتوں کے اترنے کے بارے میں اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب وہ اترتے ہیں تو وہ اس قوم کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں جس نے کسی نبی کی تکذیب کی ہوتی ہے اور وہ پھر تباہی و بربادی کے بارے میں اللہ کے احکامات پر عمل کرتے ہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ مشرکین عرب کی اس تجویز اور مطالبے کو تسلیم کرلیتے تو بات کا فیصلہ ہوجاتا اور وہ تباہ کردیئے گئے ہوتے ۔ اس کے بعد انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں ایک عظیم تباہی اور عذاب سے بچایا رہا ہے ۔ یوں سیاق کلام میں ان کو یہ بات براہ راست جتا دی جاتی ہے کہ اللہ انہیں مہلت دے کر ان کے ساتھ نہایت ہی رحمت اور درگزر سے کام لے رہا ہے ۔ یہ اس لئے کہ وہ خود اپنی مصلحت کو بھی نہیں سمجھتے اور سنت الہیہ سے بالکل بیخبر ہیں ۔ وہ اس جہالت میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح ان کی زندگی ہی تباہ ہوجائے ۔ اس جہالت کی وجہ سے وہ بدستور اللہ کی رحمت سے انکار کر رہے ہیں ‘ ہدایت سے دور بھاگے جا رہے ہیں ‘ دلائل ومعجزات اور فرشتے اترنے کے مطالبے کر رہے ہیں ۔ ان کی کج فہمی کو درست کرنے کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے (آیت) ” وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکاً لَّجَعَلْنَاہُ رَجُلاً وَلَلَبَسْنَا عَلَیْْہِم مَّا یَلْبِسُونَ (9) ” اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں اتارتے اور اس طرح انہیں اسی شبہ میں مبتلا کردیتے جس میں اب وہ مبتلا ہیں ۔ “ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر ایک فرشتہ نازل کریں اور یہ فرشتہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت کی تصدیق کرے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فرشتے تو انسانوں سے بالکل جدا مخلوق ہیں ۔ ان کا اپنا ایک خاص مزاج اور ماہیت ہے جس کے بارے میں صرف اللہ تعالیٰ کا علم ہے ۔ یہ فرشتے (جس طرح ان کے بارے میں ان کا خالق ہمیں معلومات فراہم کرتا ہے) اپنی موجودہ ماہئیت کے ساتھ اس زمین پر نہیں چل سکتے کیونکہ وہ اس کرہ ارض کے باشندے نہیں ہیں تاہم اگر وہ اس کرہ ارض کے باشندے نہیں ہیں ۔ تاہم اگر وہ اس کرہ ارض پر انسانوں کے حوالے سے کوئی ڈیوٹی سرانجام دیں تو وہ انسانوں کی شکل اختیار کرکے یہاں آتے ہیں مثلا تبلیغ رسالت اور مکذبین کو ہلاک کرنے کی ڈیوٹی وغیرہ ۔ یا مسلمانوں کی تسلی اور حوصلہ افزائی کی ڈیوٹی یا مسلمانوں کے دشمنوں کو قتل کرنے کی ڈیوٹی یا اس قسم کی دوسری ڈیوٹیاں جن کی بابت انہیں اللہ ہدایت کر دے وہ انکے سرانجام دینے میں اللہ کی ہدایت کی ذرہ برابر نافرمانی نہیں کرتے ۔ اگر اللہ تعالیٰ رسول کی تصدیق کے لئے کوئی فرشتہ بھیج بھی دے تو وہ لوگوں کے سامنے ایک انسان کی شکل اختیار کر کے ہی ظاہر ہوگا ۔ وہ فرشتوں کی اصل صورت میں ہر گز نہ آئے گا ۔ اور جب فرشتہ انسان کی شکل میں آئے گا تو وہ پھر بھی اسی شب ہے کا شکار ہوں گے اور انہیں وہی تردد لاحق ہوگا ۔ وہ پہلے بھی اس تردد کا شکار ہیں حالانکہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ جو بات کرتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ” میں محمد ہوں ‘ تم مجھے خوب جانتے ہو ۔ مجھے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں برے انجام سے خبردار کروں اور اچھے انجام کی خوشخبری دوں ۔ “ لیکن اگر کوئی فرشتہ آئے اور وہ ایسے انسان کی شکل میں آئے جسے وہ نہیں جانتے اور وہ یوں گویا ہو : ” میں فرشتہ ہوں اور مجھے اللہ نے بھیجا ہے کہ میں رسول خدا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کروں ۔ “ تو وہ دیکھیں گے کہ یہ شخص تو ان ہی جیسا ایک آدمی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں بھی انہیں ویسا ہی شبہ لاحق ہوگا غرض اگر کوئی فرشتہ آدمی کی شکل میں آتا تو بھی وہ اسی شب ہے کا شکار ہوتے جسے کا وہ پہلے سے شکار تھے اور کوئی یقینی بات نہ کرسکتے ۔ اس طرح ان آیات میں اللہ تعالیٰ یہ بتاتے ہیں کہ یہ لوگ حقائق کائنات کے بارے میں کس قدر جاہل ہیں اور سنت الہیہ سے کس قدر ناواقف ہیں جبکہ اپنی جگہ نہایت ہی معاند اور بغیر علم وجواز کے ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں ۔ بالکل بلا دلیل ۔ تیسری حقیقت جو یہ آیات انسانی سوچ کے اندر پیدا کرتی ہیں ‘ وہ یہ ہے کہ اسلامی تصور حیات اور اس کے اساسی عناصر ترکیبی کیا ہیں ؟ ان عناصر میں وہ تمام مظاہر فطرت شامل ہیں جن کے بارے میں اسلام ایک مسلمان کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ ان کا ادراک کرے اور اپنی زندگی کو ان مظاہر فطرت کے ساتھ ہم آہنگ کرلے ۔ نیز عالم غیب بھی ان اساسی عناصر میں شامل ہے جس میں ملائکہ بھی شامل ہیں ۔ اسلام نے ایمان کے بنیادی عناصر میں اس بات کو شامل کیا ہے کہ تم فرشتوں پر بھی ایمان لاؤ گے ۔ فرشتوں پر ایمان کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا ۔ اللہ پر ایمان ‘ ملائکہ پر ایمان ‘ کتابوں پر ایمان ‘ رسولوں پر ایمان ‘ یوم آخرت پر ایمان اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان ۔ ظلال القرآن کی جلد اول میں جب ہم نے سورة بقرہ کی بتدائی آیات کی تشریح کی تھی تو اس میں ہم نے اس موضوع پر بات کی تھی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان بالغیب کی وجہ سے انسانی زندگی میں ایک بہت بڑا انقلاب رونما ہوجاتا ہے ۔ انسان محض عالم محسوسات کے محدود دائرے سے نکل جاتا ہے اور وہ اس بات پر ایمان لاتا ہے کہ ایک عالم اور بھی ہے جو ہمیں معلوم نہیں ہے ۔ ہم اگرچہ اس کا تصور نہیں کرسکتے لیکن وہ بلاشک اور لاریب آنے والا ہے ۔ یہ تصور انسان کو حیوانات کے محسوس دائرے سے نکال کر انسانی ادراک کے دائرے میں داخل کردیتا ہے اور جو لوگ انسان کے لئے محسوسات سے اوپر جانے کا دروازہ بند کرتے ہیں وہ انسان کو مقام انسانیت سے گرا کر اسے پیچھے حیوانی دائرے میں لے جاتے ہیں اور اس کا نام ترقی پسندی رکھتے ہیں ۔ اس سورة میں جب ہم عالم غیب کے بارے میں بات کریں گے تو اس نکتے کی مزید وضاحت کریں گے ۔ آیت عندہ مفاتح الغیب کے ذیل میں ۔ انشاء اللہ ۔ عالم غیب کے بارے میں جو اسلامی تصور ہے اس میں یہ بات موجود ہے کہ عالم غیب میں ایک مخلوق ایسی ہے جو نظر نہیں آتی اور وہ فرشتے ہیں ۔ قرآن کریم نے اس مخلوق کی بعض صفات کا تذکرہ کیا ہے ‘ جو ان کے بارے میں ایک مجمل تصور کے لئے کافی ہے اور انسان اپنے حدود کے اندر فرشتوں کے ساتھ جو برتاؤ کرے گا اس کی بنیاد اسی بات پر ہونی چاہئے ۔ فرشتے اللہ کو مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں وہ رہ وقت اللہ کی اطاعت اور بندگی پر کمر بستہ ہیں ۔ مطلق مطیع ہیں وہ اللہ کے قریب رہتے ہیں ۔ وہ اللہ کے کس طرح مقرب ہیں اس کی کیفیت کا ہمیں پوری طرح علم نہیں ہے ۔ (آیت) ” وقالوا اتخذ الرحمن ولدا سبحنہ بل عباد مکرمون ‘، (٢٦) لا یسبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون (٢٧) یعلم مابین ایدیھم وما خلفھم ولا یشفعون الا لمن ارتضی وھم من خشیتہ مشفقون (٢٨) (٢١ : ٢٦ تا ٢٨) (یہ کہتے ہیں رحمن اولاد رکھتا ہے ‘ سبحان اللہ ‘ وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے ۔ اس کے حضور بڑھ کر نہیں بولتے اور بس اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں ۔ جو کچھ ان کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے وہ باخبر ہے ‘ وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے کہ جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو ‘ اور وہ اس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں) (آیت) ” ومن عندہ لا یستکبرون عن عبادتہ ولا یستحسرون یسبحون اللیل والنھار لا یفترون “۔ (اور جو فرشتے اس کے پاس ہیں وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملول ہوتے ہیں ۔ شب وروز اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں دم نہیں لیتے) یہ فرشتے اللہ کے تخت کو بھی اٹھائے ہوئے ہیں اور قیامت کے دن بھی اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ اس کی کیفیت کا ادراک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اس غیبی حقیقت کے بارے میں ہمارا ادراک اسی حد تک محدود ہے جس حد تک اللہ نے انکشاف فرمایا ہے ۔ (آیت) ” الذین یحملون العرش ومن حولہ یسبحون بحمد ربھم ویومنون بہ (٤٠ : ٧) ” عرش الہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش الہی کے گردوپیش حاضر رہتے ہیں ‘ پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ “ (آیت) ” وتری الملئکۃ حافین من حول العرش یسبحون بحمد ربھم وقضی بینھم بالحق وقیل الحمد للہ رب العلمین “۔ (٣٩ : ٧٥) ” اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد وتسبیح کر رہے ہوں گے اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جائے گا اور پکار دیا جائے گا کہ حمد ہے اللہ رب العالمین کے لئے ۔ “ وہ اللہ کے خزانوں کے بھی نگران ہیں اور آگ اور جہنم کے داروغے بھی وہی ہوں گے ۔ اہل جنت کو سلام اور دعاء کے ساتھ استقبال کریں گے اور اہل جہنم کو وہ سخت عذاب کی دھمکی دیتے ہوئے لیں گے ۔ “ (آیت) ” وسیق الذین کفروا الی جھنم زمرا حتی اذا جآء وھا فتحت ابوابھا وقال لھم خزنتھا الم یاتکم رسل منکم یتلون علیکم ایت ربکم وینذرونکم لقآء یومکم ھذا قالوا بلی ولکن حقت کلمۃ العذاب علی الکفرین (٧١) قیل ادخلوا ابواب جھنم خلدین فیھا فبئس مثوی المتکبرین (٧٢) وسیق الذین اتقوا ربھم الی الجنۃ زمرا حتی اذا جآء وھا وفتحت ابوابھا وقال لھم خزنتھا سلم علیکم طبتم فادخلوھا خلدین (٨٣) (٣٩ : ٧١ تا ٧٣) ” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا ‘ جہنم کی طرف گروہ درگروہ ہانکے جائیں گے ‘ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے اور اس کے کارندے ان سے کہیں گے ” کیا تمہارے پاس تمہارے اپنے لوگوں میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے جنہوں نے تم کو تمہارے رب کی آیات سنائی ہوں اور تمہیں اس بات سے ڈرایاہو کہ ایک وقت تمہیں یہ دن بھی دیکھنا ہوگا ۔ “ وہ جواب دیں گے ” ہاں آئے تھے ‘ مگر عذاب کا فیصلہ کافروں پر چپک گیا ۔ “ کہا جائے گا داخل ہوجاؤ جہنم کے دروازوں میں ‘ یہاں اب تمہیں ہمیشہ رہنا ہے ‘ بڑا ہی بڑا ٹھکانا ہے یہ متکبروں کے لئے ۔۔۔۔۔ اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا ۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے تو اس کے منتظمین ان سے کہیں گے ” سلام میں تم پر ‘ بہت اچھے رہے ‘ داخل ہوجاؤ اس میں ہمیشہ کے لئے ۔ “ اور دوسری جگہ آتا ہے : (آیت) ” وما جعلنا اصحب النار الاملئکۃ “۔ اور ہم نے آگ کا نگران بھی صرف ملائکہ کو بنایا ہے ۔ “ ایک اہم سوال یہ ہے کہ یہ فرشتے اہل زمین کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل زمین کے ساتھ ان کا معاملہ مختلف شکلوں میں ہوتا ہے ۔ وہ خدا کے حکم سے اہل زمین کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور ان کے اعمال کا مکمل ریکارڈ بھی تیار کرتے ہیں اور جب ان کا مقررہ وقت پورا ہوتا ہے تو وہ ان کی روح قبض کرلیتے ہیں ۔ (آیت) ” وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَیُرْسِلُ عَلَیْْکُم حَفَظَۃً حَتَّیَ إِذَا جَاء أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لاَ یُفَرِّطُونَ (61) ” پنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کر کے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دیتے ہیں اور ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔ (آیت) ” لہ معقبت من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ “۔ (١٣ : ١١) ” ہر شخص کے آگے پیچھے اس کے مقرر کئے ہوئے نگران لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں ۔ “ (آیت) ” مایلفظ من قول الالدیہ رقیب عتید “۔ (٥ : ١٨) ” کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا ہے جسے محفوظ کرنے کے لئے ایک حاضر باش نگران نہ ہو۔ “ ان فرشتوں کے فرائض میں یہ بات بھی شامل ہے کہ یہ رسولوں کے اوپر وحی لے کر آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ ان میں سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) یہ کام سرانجام دیتے ہیں ۔ (آیت) ” ینزل الملئکۃ بالروح من امرہ علی من یشآء من عبادہ ان انذروا انہ لا الہ الا انا فاتقون “۔ (١٦ : ٢) ” وہ اس روح کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے (اس ہدایت کے ساتھ کہ) لوگوں کو آگاہ کر دو ‘ میرے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے لہذا تم مجھ ہی سے ڈرو۔ “ (آیت) ” قل من کان عدوا الجریل فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ “۔ (٢ : ٩٧) ” ان سے کہو کہ جو کوئی جبرائیل سے عداوت رکھتا ہو ‘ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبرائیل نے اللہ ہی کے اذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے ۔ “ (آیت) ” وَالنَّجْمِ إِذَا ہَوَی (1) مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَی (2) وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَی (3) إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَی (4) عَلَّمَہُ شَدِیْدُ الْقُوَی (5) ذُو مِرَّۃٍ فَاسْتَوَی (6) وَہُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَی (7) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی (8) فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ أَوْ أَدْنَی (9) فَأَوْحَی إِلَی عَبْدِہِ مَا أَوْحَی (10) مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَی (11) أَفَتُمَارُونَہُ عَلَی مَا یَرَی (12) وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرَی (13) عِندَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہَی (14) عِندَہَا جَنَّۃُ الْمَأْوَی (15) إِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشَی (16) مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی (17) لَقَدْ رَأَی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَی (18) (٥٣ : ١ تا ١٨) ” قسم ہے تارے کی جب وہ غروب ہوا ‘۔ تمہارا رفیق نہ بھٹکا ہے ‘ نہ بہکا ہے ۔ وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا ۔ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے ۔ اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے ‘ جو بڑا صاحب حکمت ہے ۔ اور وہ سامنے آکھڑا ہوا جبکہ ہو بالائق افق پر تھا ‘ ۔ پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگا ۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا ۔ تب اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو اس نے پہنچانی تھی ۔ نظر نے جو کچھ دیکھا دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا ۔ اب کیا تم اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔ اور ایک دفعہ پھر اس نے سدرۃ المنتہی کے پاس اترتے دیکھا ‘ ۔ جہاں پاس ہی جنت الماوی ہے ۔ اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھ ۔ نگاہ نہ چندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی ۔ اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔ اور جب مسلمانوں کی طاغوت کے ساتھ نہایت ہی اہم اور بڑی جنگ ہوتی ہے تو اس معرکے میں وہ بطور تائید اور امداد ثابت قدمی پیدا کرنے کے لئے اترتے ہیں : (آیت) ” ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملئکۃ الا تخافوا ولا تحزنوا وابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون “۔ (٣٠) (٤١ : ٣٠) ” جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے ‘ اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں ۔ ” نہ ڈرو نہ غم کرو ‘ اور خوش ہوجاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ “ (آیت) ” اذ تقول للمومنین الن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلثۃ الف من الملئکۃ منزلین (١٢٤) بلی ان تصبروا وتتقوا ویاتوکم من فورھم ھذا یمددکم ربکم بخمسۃ الف من الملئکۃ مسومین (١٢٥) وما جعلہ اللہ الابشری لکم ولتطمئن قلوبکم بہ وما النصر الامن عند اللہ العزیزالحکیم (١٣٦) (٣ : ١٢٤ تا ١٢٦) ” اے نبی یاد کرو جب تم مومنوں سے کہہ رہے تھے ” کیا تمہارے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ اللہ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کرے ؟ “ بیشک اگر تم صبر کرو اور خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو تو جس آن دشمن تمہارے اوپر چڑھ آئیں گے ‘ اسی آن تمہارا رب (تین ہزار نہیں) پانچ ہزار صاحب نشان فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا ۔ یہ بات اللہ نے تمہیں اس لئے بتا دی ہے تاکہ تم خوش ہوجاؤ اور تمہارے دل مطمئن ہوجائیں ۔ فتح ونصرت جو کچھ بھی ہے اللہ کی طرف سے ہے جو بڑی قوت والا اور دانا اور بینا ہے ۔ “ (آیت) ” اذ یوحی ربک الی الملئکۃ انی معکم فثبتوا الذین امنوا سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فاضربوا فوق الاعناق واضربوا منھم کل بنان (٨ : ١٢) ” اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ‘ تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو ‘ میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہوں ‘ پس تم ان کی گردنوں پر ضرب لگاؤ اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ۔ “ یہ فرشتے اہل ایمان کے کاموں میں بھی مصروف رہتے ہیں ‘ وہ اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے ہر وقت مغفرت کی دعا کرتے ہیں جو اہل ایمان ہیں اور وہ ان مومنین کے لئے اس قدر شغف کے ساتھ دعا کرتے ہیں کہ جس طرح ایک نہایت ہی محبت کرنے والا شخص اپنے محبوب کے لئے دعا کرتا ہے ۔ (آیت) ” الذین یحملون العرش ومن حولہ یسبحون بحمد ربھم ویومنون بہ ویستغفرون للذین امنوا ربنا وسعت کل شیء رحمۃ وعلما فاغفر للذین تابوا واتبعوا سبیلک وقھم عذاب الجحیم (٧) ربنا وادخلھم جنت عدن التی وعدتھم ومن صلح من ابآئھم وزواجھم وذریتھم انک انت العزیز الحکیم (٨) وقھم السیات ومن تق السیات یومئذ فقد رحمتہ وذلک ھو الفوز العظیم (٩) (٤٠ : ٧ تا ٩) ” عرش الہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش الہی کے گردوپیش حاضر رہتے ہیں ‘ پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : اے ہمارے رب تو اپنی رحمت اور علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے ‘ پس معاف کر دے اور عذاب دوزخ سے بچا لے ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کرلیا ہے ۔ اے ہمارے رب اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے والدین ‘ اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (ان کو بھی وہاں ان کے ساتھ ہی پہنچا دے) تو بلاشبہ قادر مطلق ہے اور حکیم ہے ۔ اور بچا دے ان کو برائیوں سے جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اس پر تو نے رحم کیا یہی بڑی کامیابی ۔ “ جب فرشتے روح قبض کرتے ہیں تو اس وقت اہل ایمان کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں اور ان کا استقبال خوشخبری سے کرتے ہیں اور آخرت میں وہ ان کو سلام وآداب سے عزت افزائی کریں گے ۔ (آیت) ” الذین تتوفھم الملئکۃ طیبین یقولون سلم علیکم ادخلوا الجنۃ بما کنتم تعملون “۔ (١٦ : ٣٢) ” ان متقیوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں ” سلام ہو تم پر ‘ جاؤ جنت میں اپنے اعمال کے بدلے ۔ “ (آیت) ” جنت عدن یدخلونھا ومن صلح من ابآئم وازواجھم وذریتھم والملئکۃ یدخلون علیھم من کل باب (٢٣) سلم علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار “۔ (٢٤) (١٣ : ٢٣۔ ٢٤) ” ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے ۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویاں اور ان کی اولاد میں سے جو صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے ۔ ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لئے آئیں گے اور کہیں گے تم پر سلامتی ہے ‘ تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہو ۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر ۔ ان کے فرائض میں یہ بات بھی داخل ہے کہ وہ اہل کفر کا استقبال آخرت میں توہین آمیز رویے کے ساتھ کریں گے اور دنیا میں کفر واسلام کے معرکے میں وہ کفار کے مقابلے میں لڑتے ہیں اور جب کفار کی روح قبض کرتے ہیں تو وہ سختی اذیت اور توہین آمیز انداز میں قبض کرتے ہیں ۔ (آیت) ” وَلَوْ تَرَی إِذِ الظَّالِمُونَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِکَۃُ بَاسِطُواْ أَیْْدِیْہِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللّہِ غَیْْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِہِ تَسْتَکْبِرُونَ (93) ” کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ” لاؤ“ نکالو اپنی جان ‘ آج تمہیں ان باتوں کی پاداش مین ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرتے تھے ۔ “ (آیت) ” فکیف اذا توفتھم الملئکۃ یضربون وجوھھم وادبارھم (٤٧ : ٢٧) ” پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے ۔ “ جب سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے باوا آدم کو پیدا کیا اس وقت سے فرشتوں کا انسانوں کے ساتھ ایک خاص تعلق رہا ہے اور یہ سلسلہ طول حیات تک میں جاری رہا ہے اور قیامت تک جاری رہے گا جیسا کہ مذکور بالا قرآنی آیات کے اقتباسات سے اچھی طرح معلوم ہوا ہے ۔ فرشتوں اور عالم بشریت کے باہم تعلق پر بھی قرآن کریم کے متعدد مقامات پر بحث کی گئی ہے اور سورة بقرہ میں اس کی پوری تفصیل دی گئی ہے ۔ (آیت) ” وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَۃِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ (30) وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَۃِ فَقَالَ أَنبِئُونِیْ بِأَسْمَاء ہَـؤُلاء إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ (31) قَالُواْ سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ (32) قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّیْ أَعْلَمُ غَیْْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ (33) وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ (34) ۔ ” پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ” میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ “ انہوں نے عرض کیا ” کیا آپ زمین میں کسی زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے نظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا ؟ آپ کے حمد وثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں ۔ “ فرمایا : ” میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے ۔ ‘ اس کے بعد اللہ نے آدم کو سارے چیزوں کے نام سکھائے ۔ پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا :” اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے نظام بگڑ جائے گا) تو بتاؤ ان چیزوں کے نام کیا ہیں ؟ ‘ انہوں نے عرض کیا ” نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ۔ ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں ‘ جتنا آپ نے ہم کو دیا ہے ۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ۔ “ پھر اللہ نے آدم سے کہا : ” تم انہیں ان چیزوں کے نام بتاؤ جب اس نے ان کو ان سب کے نام بتا دیئے تو اللہ نے فرمایا : ” میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں ‘ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو ‘ وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اسے بھی میں جانتا ہوں۔ ‘ پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکار کیا ۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا ۔ ‘ ” یہ ایک وسیع میدان ہے جس میں انسانی زندگی اور عالم بالا کی زندگی کا باہم اتصال ہوتا ہے اور اس اتصال کی وجہ سے انسانی سوچ میں ایک وسعت سی پیدا ہوجاتی ہے اور انسان اس کائنات کے حقائق کا ادراک ایک وسیع زاویے سے کرسکتا ہے ۔ اس کا نفسیاتی شعور وسیع اور اس کے ذہن کی جو لانی کا دائرہ کھل جاتا ہے اور فکر ونظر کی یہ وسعت ایک مسلمان کو ایک ہمہ گیر اسلامی تصور عطا کرتی ہے ۔ قرآن کریم انسان کے سامنے اس وسیع اور مشہود کائنات کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ اس کا آخری اتصال عالم غیب کے اس وسیع میدان سے ہوتا ہے ۔ عالم غیب کا ایک وسیع عالم اور ایک کھلا میدان ہے ۔ جو لوگ انسان پر عالم غیب کے دروازے بند کرنا چاہتے ہیں وہ انسان کے ساتھ نہایت ہی قبیح عداوت کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ وہ انسان کی دنیا کو اس کے نہایت ہی محدود تصور بلکہ عالم محسوسات کے اندر محدود کردینا چاہتے ہیں اور اسے عالم حیوانات میں داخل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ نے انسان کو عزت اور شرافت اس طرح بخشی کہ اسے غور وفکر کی قوت عطا کی ۔ اس غور وفکر کی قوت سے انسان ان چیزوں کا ادراک کرسکتا ہے جس سے جانور اور بہائم محروم ہیں ۔ انسان اپنی اس صلاحیت کی وجہ سے علم ومعرفت کی فراوانی پاتا ہے اور اس کا شعور نہایت ہی وسیع ہوجاتا ہے ۔ وہ اپنی عقل اور اپنے دل کی وجہ سے عالم بالا کی وسعتوں تک پہنچ جاتا ہے وہ اخلاق پاکیزہ حاصل کرتا ہے اور اپنے وجود کے ساتھ نورانی عالم بالا کی سیر کرتا ہے ۔ عرب اپنی اس جاہلیت کے باوجود جس میں وہ غرق تھے اور جس میں ان کا تصور حیات نہایت ہی غلط اصولوں پر قائم تھا ‘ دور جدید کی سائنسی جاہلیت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھے ۔ یہ جدید جاہلیت کے پیروکار عالم غیب کے ساتھ مذاق کرتے ہیں اور ایسے غیبی امور پر ایمان لانے کو غیر علمی اور غیر سائنسی تصور سمجھتے ہیں ۔ وہ عالم غیب کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالتے ہیں اور عالم سائنس کو دوسرے میں جو ایک نہایت ہی غلط تقابل ہے ۔ اس تصور کی تردید میں آیت (عنداہ مفاتح الغیب) کے ضمن میں کروں گا اس لئے کہ جاہلیت جدیدہ کا یہ وہ دعوی ہے جس کے اوپر سائنس کے اصولوں کے مطابق کوئی دلیل نہیں لائی جاسکتی نہ دین میں اس کے اوپر کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے ۔ یہاں ہم صرف فرشتوں کے وجود کے بارے میں ایک مختصر بات کریں گے ۔ سائنس دانوں سے ہم صرف یہ بات پوچھتے ہیں کہ وہ جو فرشتوں کا انکار کرتے ہیں اس پر ان کے پاس سائنسی اصولوں کے مطابق کیا دلیل ہے ؟ وہ فرشتوں کے وجود کو تصور اور تصدیق کے دائرے سے کیوں نکالتے ہیں ؟ ذرا وہ کوئی سائنسی فارمولا بتائیں جس کی رو سے وہ ایسا عقیدہ رکھنے پر مجبور ہوں کہ فرشتوں کا وجود نہیں ہے ۔ ان کی سائنس کی حالت تو یہ ہے کہ وہ دوسرے کر ات سماوی کے اندر ایسی موجودات کے اقرار اور انکار سے بھی عاجز ہے جو اس کرہ ارض پر موجود ہیں ۔ کجا کہ وہ کر ات جن کی فضا اور جن کی کیمیاوی اور طیعیاتی ترکیب اور مسافت زمین سے مختلف ہے اور جن کی فضائیں مختلف ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ وہ ان دوسرے جہانوں کا انکار کس اصول پر کرتے ہیں جبکہ ان کے پاس فرشتوں کے وجود کی نفی پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔ ہم ان سے اپنے عقائد کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں چاہتے اور نہ ہم اللہ کے کلام کے بارے میں ان سے کوئی استدلال چاہتے ہیں ۔ ہم ان سے خود ان کے اس علم اور سائنس کے بارے میں محاکمہ چاہتے ہیں جس کو انہوں نے الہ بنا لیا ہے ۔ اس سوال کے جواب میں ان کے پاس مکابرہ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اس ان کی یہ سائنس جو انہیں عالم غیب اور ملائکہ کے انکار پر آمادہ کرتی ہے ‘ اس سوال سے لاجواب ہوجاتی ہے ، انکار محض اس لئے کہ یہ جہان پردہ غیب میں مستور ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس سائنس کی وجہ سے وہ عالم غیب اور فرشتوں کا انکار کرتے ہیں وہی بالجزم عالم غیب کو ثابت کرتی ہے بلکہ اس سائنس نے عالم غیب کو ایک طرح سے عالم شہادت میں بدل دیا ہے اور کئی ایسے انکشاف کردیئے ہیں جو پہلے عالم مغیبات میں تھے ۔ ان مغیبات کو آج ہم دیکھ رہے ہیں ۔ اس موج کا اختتام اس انجام کے تذکرے سے ہوتا ‘ جس سے انسانی تاریخ میں وہ تمام لوگ دو چار ہوئے جنہوں نے رسولوں کا مذاق اڑایا ۔ پھر جھٹلانے والوں کو دعوت دی گئی کہ ذرا وہ انسانی تاریخ میں ان مقتل گاہوں کا مطالعہ کریں جن میں ان کے اسلاف پر عذاب آئے ۔ ذرا اس کرہ ارض پر چل پھر کر جھٹلانے والوں کے انجام کو دیکھیں ۔ یہ واقعات زبان حال سے گویا ہیں کہ جھٹلانے والوں اور مذاق کرنے والوں کا انجام کیا ہوا ہے ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکوں کی اس بات کا جواب کہ فرشتوں کو کیوں مبعوث نہیں کیا گیا اس کے بعد مشرکین کے ایک مطالبہ کا تذکرہ فرمایا، ارشاد فرمایا (وَ قَالُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ) (اور انہوں نے کہ کہ کیوں نہ نازل ہوا فرشتہ) مشرکین مکہ یہ بھی مطالبہ کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فرشتہ آتا اور ان کی تصدیق کرتا تو ہم ایمان لے آتے۔ اس کے جواب میں فرمایا۔ (وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ ) (کہ اگر ہم کوئی فرشتہ بھیج دیتے تو فیصلہ ہوجاتا اور پھر انکو ذرا مہلت نہ دی جاتی) کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عادت یہ ہے کہ جو لوگ اپنی طرف سے کوئی معجزہ تجویز کر کے طلب کرتے ہیں اور پھر وہ معجزہ ظاہر ہوجاتا ہے اور اس کے بعد بھی ایمان نہیں لاتے تو پھر ان کے کو ڈھیل نہیں دی جاتی اور بغیر مہلت عذاب دیا جاتا ہے۔ قال صاحب معالم التنزیل قال قتادۃ لواَنْزَلْنَا ملکالًا یومنو العجل لھم العذاب ولم یوخروا طرفۃ عین اور بعض مفسرین نے (لَقُضِیَ الْاَمْرُ ) کا یہ مطلب بتایا ہے کہ اگر ہم فرشتہ بھیج دیتے اور وہ اپنی صورت میں ہوتا تو یہ لوگ اس کو دیکھنے کی تاب نہ لاسکتے اور اسے دیکھ کر مرجاتے۔ نقلہ فی معالم التنزیل عن الضحاک۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10 یہ دوسرا شبہ ہے۔ مشرکین کہتے تھے کہ پیغمبر کے ساتھ ایک فرشتہ بھی آنا چاہئے تھا جو اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا اور اس کے دعوی کے تصدیق کرتا جیسا کہ الفرقان رکوع 1 میں لَوْلَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْراً تو اس کا جواب دیا وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَایُنْظَرُوْنَ یعنی اگر پیغمبر (علیہ السلام) کے ساتھ فرشتہ آتا اور مشرکین اس کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیتے اور اس کے بعد اگر وہ پیغمبر کا انکار کردیتے تو انہیں فوراً ہلاک کردیا جاتا اور کچھ سوچنے کی انہیں ہرگز مہلت نہ دی جاتی۔ 11 یہ تیسرے شبہ کا جواب ہے۔ مشرکین کہتے تھے کہ اگر اللہ کو پیغمبر بھیجنا منظور تھا تو کسی فرشتے کو پیغمبر بنا کر بھیج دیتا۔ بشر کو اس نے پیغمبر کیوں بنایا ہے تو اس کو جواب دیا کہ اگر فرشتے کو پیغمبر بنا کر بھیجتے تو لا محالہ انسانی اور بشری شکل میں ہی بھیجتے تو اس صورت میں بھی اس کے بارے میں ان کے دلوں میں وہ شبہات ہوتے جو اب ہیں کہ یہ تو بشر ہے فرشتہ نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8 اور یہ منکرین حق یوں کہتے ہیں کہ اس پیغمبر کی مدد کے لئے کوء فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا اور اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترا یعنی جس کو ہم بھی دیکھتے اور اگر ہم کوئی فرشتہ نازل کردیتے یعنی فرشتہ تو اب بھی آتا ہے مگر اس طرح کا فرشتہ جس کو یہ بھی دیکھتے اور وہ ان سے گفتگو کرتا تو پھر سب قصہ ہی ختم ہوجاتا اور پھر ان کو بالکل ڈھیل نہ دی جاتی کیونکہ یہ اپنی ہٹ دھرمی کے باعث جب بھی ایمان نہ لاتے اور منہ مانگا نشان دیکھنے کے بعد ایمان نہ لانا عذاب کا موجب ہے۔