Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 86

سورة الأنعام

وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ الۡیَسَعَ وَ یُوۡنُسَ وَ لُوۡطًا ؕ وَ کُلًّا فَضَّلۡنَا عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۸۶﴾

And Ishmael and Elisha and Jonah and Lot - and all [of them] We preferred over the worlds.

اور نیز اسماعیل کو اور یسع کو اور یونس کو اور لوط کو اور ہر ایک کو تمام جہان والوں پر ہم نے فضیلت دی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ayub, Yusuf, Musa, and Harun. Thus do We reward the good-doers. And Zakariyya, and Yahya and Isa and Ilyas, each one of them was of the righteous. And Ismail and Al-Yasa`, and Yunus and Lut, and each one of them We preferred above the Alamin (mankind and Jinns, of their times). Mentioning `Isa in the offspring of Ibrahim, or Nuh as we stated above, is proof that the grandchildren from a man's daughter's side are included among his offspring. `Isa is included among Ibrahim's progeny through his mother, although `Isa did not have a father. Ibn Abi Hatim recorded that; Abu Harb bin Abi Al-Aswad said, "Al-Hajjaj sent to Yahya bin Ya`mar, saying, `I was told that you claim that Al-Hasan and Al-Hussein are from the offspring of the Prophet, did you find it in the Book of Allah I read the Qur'an from beginning to end and did not find it.' Yahya said, `Do you not read in Surah Al-An`am, وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ (and among his progeny Dawud, Sulayman...) until, وَيَحْيَى وَعِيسَى (and Yahya and `Isa...). Al-Hajjaj said, `Yes.' Yahya said, `Is not `Isa from the offspring of Ibrahim, although he did not have a father!' Al-Hajjaj said, `You have said the truth."' For example, when a man leaves behind a legacy, a trust, or gift to his "offspring" then the children of his daughters are included. But if a man gives something to his "sons", or he leaves a trust behind for them, then that would be particular to his male children and their male children. Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٧۔ ا ] اس آیت میں فرمایا کہ یہ سب انبیاء (یعنی ١٨۔ انبیاء کا ان آیات میں ذکر آیا ہے) سب صالح لوگ تھے اور اس اگلی آیت میں فرمایا کہ ان میں ہر ایک کو ہم نے تمام اقوام عالم پر فضیلت دی تھی۔ قرآن کریم کی ان تصریحات سے انبیاء کی کمال عصمت ثابت ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر یہ تمام انبیاء معصوم عن الخطاء تھے جبکہ بائیبل ان انبیاء میں سے کئی انبیاء کی سیرت کو داغدار کر کے پیش کرتی ہے (تفصیل کے لیے دیکھئے سورة کی آیت نمبر ٤٨ کا حاشیہ نمبر ٥٤) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاء و رسل کا یک جا ذکر فرمایا اور قرآن میں کل ستائیس انبیاء و رسل کا ذکر آیا ہے ان میں سے سیدنا لقمان کی نبوت اختلافی ہے اور جن انبیاء کا یہاں ذکر نہیں آیا وہ یہ ہیں۔ سیدنا آدم، ادریس، ہود، صالح، شعیب، ذوالکفل، عزیر اور محمد رسول اللہ اور جن اٹھارہ انبیاء کا ذکر آیا ہے مناسب ہے کہ یہاں ترتیب زمانی کے لحاظ سے ان انبیاء کے مختصر حالات زندگی درج کردیئے جائیں۔ (١) سیدنا نوح (علیہ السلام) : آپ کی عمر ایک ہزار سال تھی۔ آپ کی بعثت تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار سال قبل مسیح ہوئی تھی۔ عراق میں دریائے دجلہ اور فرات کا درمیانی علاقہ آپ کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ آپ کی قوم بت پرست تھی اور پانچ بتوں ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کی پوجا کرتی تھی۔ اور اس معاملہ میں بہت ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئی تھی کہ آپ کی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے نتیجہ میں صرف چالیس آدمی ایمان لائے آخر آپ نے دل برداشتہ ہو کر ان کے حق میں بددعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بڑی کشتی تیار کرنے کا حکم دیا اور اس کو بنانے کے لیے ہدایات بھی دیں۔ جب کشتی تیار ہوگئی تو آپ نے سب ایمانداروں کو اس میں بیٹھنے کا حکم دیا۔ علاوہ ازیں سب جانوروں کا ایک ایک جوڑا بھی اس کشتی میں رکھ لیا گیا، اس کے بعد زمین سے پانی کے چشمے ابلنے شروع ہوگئے اور آسمان سے مسلسل اور موسلادھار بارش، زمین پر اتنا پانی جمع ہوگیا جس نے پہاڑوں کو بھی اپنے اندر چھپالیا۔ آپ کا نافرمان بیٹا یام بھی آپ کے دیکھتے دیکھتے اس طوفان کی نذر ہوگیا۔ چھ ماہ پانی چڑھتا رہا۔ پھر اترنا شروع ہوا۔ بارش بند ہوگئی۔ زمین نے پانی کو جذب کرنا اور سورج اور ہواؤں نے خشک کرنا شروع کردیا کشتی جودی پہاڑ پر ٹک گئی۔ چالیس دن بعد جب زمین خشک ہوگئی تو سب لوگ بسلامت اس کشتی سے اتر کر زمین پر آگئے۔ طوفان کے بعد آپ ٣٥٠ سال زندہ رہے اور تبلیغ کرتے رہے۔ (٢) سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) : آپ کی عمر ١٧٥ سال تھی۔ آپ کی بعثت کا زمانہ دو ہزار اور اکیس سو قبل مسیح کے درمیان ہے آپ کی قوم بت پرست اور نجوم پرست تھی۔ آپ کا باپ آزر نمرود شاہ عراق کی طرف سے شاہی بت خانہ کا مہنت اور منتظم تھا وہ بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔ آپ نے سب سے پہلے اپنے باپ ہی کو نہایت نرم الفاظ میں تبلیغ کرنا شروع کی۔ اس نے نمرود سے سیدنا ابراہیم کا ذکر کیا تو اس نے آپ کو دربار میں طلب کرلیا۔ سیدنا ابراہیم نے نمرود پر حجت قائم کر کے اسے مناظرہ میں لاجواب کردیا تو باپ اور بھی زیادہ مخالف ہوگیا۔ کیونکہ سیدنا ابراہیم کی بات ماننے سے اس کا عہدہ بھی جاتا تھا اور ذریعہ معاش بھی تباہ ہوتا تھا لہذا اس نے سیدنا ابراہیم کو یہاں تک کہہ دیا کہ میرے گھر سے نکل جاؤ ورنہ رجم کر دوں گا۔ باپ کے بعد آپ نے قوم کو بت پرستی سے منع کرنا شروع کردیا اور ایک دفعہ موقع پا کر ان کے بت توڑ دیئے۔ اس بات پر قوم نے سیخ پا ہو کر آپ کو آگ کے ایک بڑے الاؤ میں پھینک دیا۔ مگر اللہ نے آپ کو بال بال بچا لیا۔ آخر آپ ہجرت کر کے سیدنا لوط کے ہمراہ فلسطین کی طرف چلے گئے پھر وہاں سے مصر کی طرف ہجرت کی تو شاہی کارندے آپ کی بیوی سارہ کو پکڑ کرلے گئے جس سے بادشاہ کو کافی تکلیف پہنچی۔ بالآخر اس نے ہاجرہ کو سیدہ سارہ کی خادمہ بنا کر ہمراہ کردیا۔ اسی ہاجرہ سے سیدنا اسماعیل پیدا ہوئے۔ آپ نے ان ماں بیٹے کو اللہ کے حکم سے کعبہ شریف کے قریب لا بسایا۔ جب سیدنا اسماعیل جوان ہوئے تو ان کی قربانی کا معاملہ پیش آیا۔ اس امتحان میں دونوں باپ بیٹا پورے اترے۔ پھر ان دونوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کا فریضہ بھی سر انجام دیا۔ زندگی بھر آپ پر اللہ کی طرف سے کڑی سے کڑی آزمائشیں آئیں۔ ان سب میں آپ پورے اترے تو اللہ نے آپ کو اپنا خلیل قرار دیا اور رہتی دنیا کے لیے آپ کو سب کا امام اور پیشوا بنادیا۔ (٣) سیدنا لوط (علیہ السلام) : سیدنا ابراہیم کے چچا زاد بھائی ہیں عراق سے ہجرت کے وقت آپ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ہمراہ تھے بعد میں آپ کو بھی نبوت عطا ہوئی تو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے آپ کو تبلیغ کے لیے شرق اردن کی طرف بھیج دیا۔ بحر میت یا بحر لوط کے اردگرد سدوم کا شہر اور اردگرد عمورہ کی بستیاں آپ کی تبلیغ کا علاقہ تھا آپ کی قوم شرک اور دوسری بد اخلاقیوں کے علاوہ لواطت میں گرفتار بلکہ اس بدفعلی کی موجد بھی تھی۔ لوط کے سمجھانے پر بھی یہ لوگ اپنی کرتوتوں سے باز نہ آئے بلکہ الٹا سیدنا لوط (علیہ السلام) اور معدودے چند مسلمانوں کو اپنے شہر سے نکل جانے کی دھمکیاں دینے لگے۔ آخر فرشتے اس قوم پر قہر الٰہی ڈھانے کے لیے نازل ہوئے سیدنا جبریل نے ان کی بستیوں کو اکھاڑ کر اپنے پروں پر اٹھایا اور بلندی پر لے جا کر اور اٹھا کر نیچے پٹخ دیا۔ پھر اوپر سے پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ چناچہ یہ خطہ ئزمین سطح سمندر سے چار سو کلومیٹر نیچے چلا گیا اور اوپر پانی آگیا۔ اسی پانی کے ذخیرہ کو بحر مردار، بحر میت یا غرقاب لوطی کہا جاتا ہے۔ (٤) سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) : سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کے بڑے صاحبزادے مصر میں اقامت کے دوران ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے ان دونوں ماں بیٹے کو مکہ کی بےآب وگیاہ زمین میں لابسایا۔ اللہ تعالیٰ نے وہاں زمزم کا چشمہ جاری کردیا۔ آپ کی پرورش بنو جرہم نے کی۔ جب بالغ ہونے کو آئے تو ذبح عظیم کی آزمائش کا واقعہ پیش آیا۔ آپ اس میں کامیاب اترے تو ذبیح اللہ کا لقب پایا۔ بعد ازاں آپ نے اپنے باپ سیدنا ابراہیم کے تعاون سے خانہ کعبہ کو از سر نو تعمیر کیا اور اس کی خدمت پر مامور ہوئے۔ بنو جرہم میں ہی آپ کی شادی ہوئی اور یہی علاقہ آپ کی تبلیغ کا مرکز قرار پایا۔ آپ کی عمر ١٣٧ سال ہوئی۔ (٥) سیدنا اسحاق (علیہ السلام) : سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کے دوسرے صاحبزادے جو فرشتوں کی بشارت کے مطابق سیدہ سارہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ اس وقت سیدہ سارہ کی عمر نوے سال کے قریب اور سیدنا ابراہیم کی عمر سو سال سے زائد تھی۔ فلسطین کا علاقہ آپ کی تبلیغ کا مرکز اور بیت المقدس کی خدمت آپ کے سپرد تھی۔ نبی آخرالزماں کے سوائے باقی سب انبیاء بنی اسرائیل آپ کی اولاد سے ہوئے اور اسی علاقہ میں اپنے باپ سیدنا ابراہیم کے پہلو میں دفن ہوئے۔ آپ کی عمر ١٨٠ سال ہوئی۔ (٦) سیدنا یعقوب (علیہ السلام) : سیدنا اسحاق کے صاحبزادے ہیں۔ علاقہ کنعان کی طرف مبعوث ہوئے۔ بعد میں ہجرت کر کے قدان آئے۔ آپ کا دوسرا نام اسرائیل ہے۔ آپ کو اپنے بیٹے یوسف سے بہت محبت تھی۔ اللہ نے اسی میں آپ کی آزمائش کی۔ چناچہ آپ نے سیدنا یوسف کی گمشدگی کا صدمہ نہایت صبر و تحمل سے برداشت کیا۔ آخر عمر میں سیدنا یوسف کی دعوت پر مصر میں جا کر آباد ہوئے۔ لیکن آپ کی میت کو آپ کی وصیت کے مطابق قدس خلیل میں ہی لا کر سیدنا اسحاق اور سیدنا ابراہیم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آپ نے ١٤٧ سال کی عمر پائی۔ (٧) سیدنا یوسف (علیہ السلام) : آپ سیدنا یعقوب کے ہاں کنعان میں پیدا ہوئے۔ آپ کی داستان حیات زبان زد خاص و عام ہے۔ ١٧ سال کی عمر میں کنوئیں میں ڈالے گئے تقریباً سات سال عزیز مصر کے گھر میں رہے پھر ٧ سال قید میں۔ پھر مصر کے منتظم اعلیٰ بنے اور آٹھ سال بعد آپ کے قحط گزرنے کے بعد خوشحالی کے ایام میں اور دور بادشاہت میں اپنے والدین اور سب گھر والوں کو اپنے ہاں بلا لیا۔ والد محترم سے فرقت کا زمانہ ٢٣ سال ہے آپ نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ اسی مصر کی زمین میں ١١٠ سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور وصیت کی کہ جب بھی بنو اسرائیل واپس اپنے وطن کنعان جائیں تو آپ کی نعش کو وہاں لے جا کر دوبارہ دفن کریں۔ چناچہ جب سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) بنو اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے تو آپ کی قبر سے تابوت نکال کر ساتھ لے گئے اور مشہد خلیل میں آباء و اجداد کے ساتھ دفن کیا۔ (٨) سیدنا ایوب (علیہ السلام) : آپ کی بعثت کا زمانہ ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح ہے۔ آپ کثرت اموال و اراضی میں مشہور تھے۔ ستر سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ پھر آپ پر اللہ کی طرف سے آزمائش کا دور جو آیا تو ہر چیز ہاتھ سے نکل گئی۔ اور ایسے بیمار پڑے کہ ایک بیوی کے سوا سب نے ساتھ چھوڑ دیا۔ آپ نے اس بیماری میں اور مال و دولت کے چھن جانے پر صبر و استقامت کا ایسا بےمثال مظاہرہ کیا جو ضرب المثل بن چکا ہے۔ صحیح روایات کے مطابق آپ کا دور ابتلاء ١٣ سال ہے۔ جب آپ اس امتحان میں کامیاب اترے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری بھی دور کردی اور مال و دولت بھی پہلے سے دو گنا عطا فرمایا اور صابر کا لقب بھی عطا فرمایا۔ ١٤٠ سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ (٩۔ ١٠) سیدنا موسیٰ اور ہارون علیھما السلام : سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پہلے رسول ہیں جنہیں کتاب دی گئی اور مستقل شریعت عطا ہوئی۔ بڑے صاحب جلال تھے۔ آپ کی تربیت نہایت معجزانہ طور پر فرعون کے گھر میں اور اس کے اخراجات پر ہوئی اور ان ایام میں ہوئی جب فرعون مصر بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کو قتل کرا دیتا تھا۔ سیدنا یعقوب اور ان کی اولاد جو سیدنا یوسف کے عہد بادشاہی میں مصر میں آ کر آباد ہوئے تھے اب لاکھوں کی تعداد تک پہنچ چکے تھے اور محکومانہ اور مقہورانہ زندگی گزار رہے تھے۔ سیدنا یوسف اور سیدنا موسیٰ (علیہما السلام) کا درمیانی عرصہ تقریباً چار سو سال ہے۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا مشن یہ تھا کہ انہیں فرعون کی غلامی سے آزاد کرا کر واپس اپنے وطن فلسطین میں لے جائیں اور اس علاقہ میں وہ حاکمانہ حیثیت سے آباد ہوں۔ مگر صدیوں کی غلامی نے بنی اسرائیل کو اتنا بزدل بنادیا تھا کہ وہ بسا اوقات سیدنا موسیٰ سے الجھ پڑتے۔ اس مشکل ذمہ داری کو نبھانے کے لیے سیدنا موسیٰ نے اللہ سے دعا کی تھی کہ ان کے بڑے بھائی سیدنا ہارون کو بھی نبوت عطا کر کے بطور مددگاران کے ہمراہ فرعون کی طرف بھیجا جائے اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ کی یہ درخواست منظور فرما لی تھی۔ فرعون کے مظالم کو برداشت کرنا بنو اسرائیل کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ اہل مصر گائے بیل کی پرستش کرتے تھے۔ ان کی یہ ادا بھی بنو اسرائیل میں رچ بس گئی تھی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل کو فرعون سے نجات دی۔ اور سب فرعونیوں کو سمندر میں غرق کردیا۔ اب اگلا مرحلہ جہاد کر کے شام و فلسطین کے علاقہ پر قبضہ کرنا تھا۔ لیکن اس قوم نے روایتی بزدلی کی بنا پر جہاد سے صاف انکار کردیا۔ جس کی پاداش میں ٤٠ سال میدان تیہ میں بھٹکتے رہے۔ اسی ارض تیہ میں سیدنا ہارون اور سیدنا موسیٰ دونوں بھائیوں کی وفات ہوئی۔ سیدنا موسیٰ نے اپنی وفات سے پہلے یوشع بن نون کو اپنا خلیفہ مقرر کیا۔ یہی یوشع سیدنا خضر سے ملاقات کے دوران سیدنا موسیٰ کے ہم سفر تھے۔ انہی کی قیادت میں اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل کو موعودہ علاقہ پر اقتدار عطا فرمایا اور انہوں نے سب سے پہلے اریحاء کا علاقہ فتح کیا۔ ٤٠ سال کے دوران بنو اسرائیل کی پرانی بزدل نسل تو مر کھپ گئی اور نئی نسل کی تربیت جنگل کی بامشقت زندگی میں ہوئی تھی لہذا نئی نسل جرأت مند پیدا ہوئی جس نے جہاد کر کے موعودہ علاقہ کو فتح کیا۔ (١١) سیدنا الیاس (علیہ السلام) : الیاس اور الیاسین ایک ہی نام ہے جیسے طور سینا اور طُوْرِ سینِیْنَایک ہی نام ہے۔ آپ کی دعوت کا مرکز بعلبک تھا آپ کی قوم بعلنامی بت کی پوجا کرتی تھی۔ بعل کے لغوی معنیٰ مالک آقا، سردار اور خاوند ہے گویا یہ بت ان لوگوں کا خاص دیوتا یا مہا دیوتا تھا۔ بابل سے لے کر مصر تک پورے شرق اوسط میں بعل پرستی پھیلی ہوئی تھی۔ مصر سے بنی اسرائیل واپس آئے تو وہ بھی اس بعل پرستی کے مرض میں مبتلاء ہوگئے۔ بعل کے نام کا ایک مذبح بھی بنا ہوا تھا جس پر قربانیاں کی جاتی تھیں۔ آپ نے ان لوگوں کو بہت سمجھایا لیکن وہ اپنے شرکیہ کاموں سے باز نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ظالم حکمران ان پر مسلط کردیا اور سیدنا الیاس نے ہجرت کر کے بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ (١٢) الیسع (علیہ السلام) : آپ سیدنا الیاس کے نائب اور خلیفہ تھے۔ بعد میں نبوت بھی عطا ہوئی۔ آپ کا حلقہ تبلیغ شام کا علاقہ تھا۔ (١٣) سیدنا داؤد (علیہ السلام) : آپ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے پست قد تھے اور ماہر تیر انداز اور نشانہ باز تھے۔ طالوت کی فوج میں سپاہی کی حیثیت سے لڑے۔ اپنی فلاخن میں پتھر رکھ کر جالوت کو مارا جس سے وہ ہلاک ہوگیا اور حکومت بنو اسرائیل کے ہاتھ لگی۔ سیدنا داؤد کو ایک ممتاز عہدہ پر فائز کیا گیا اور طالوت کی بیٹی سے نکاح ہوا۔ طالوت کی وفات کے بعد خود مختار بادشاہ بنے اور نبوت بھی عطا ہوئی۔ آپ پر زبور نازل ہوئی۔ اتنے خوش الحان تھے کہ جب تسبیحات پڑھتے تو پوری فضا پر وجد طاری ہوجاتا۔ آپ کے ہاتھوں میں لوہا، تانبا موم کی طرح نرم ہوجاتا۔ بعض لوگ اسے معجزہ نہیں سمجھتے بلکہ کہتے ہیں کہ آپ لوہا اور تانبا کی ڈھلائی کے خوب ماہر تھے۔ اپنے ہاتھ سے زرہیں تیار کرنا آپ کا ذریعہ معاش تھا۔ اپنی زندگی میں بیت المقدس کی بنیاد رکھی جسے بعد میں سیدنا سلیمان نے پورا کیا۔ ستر سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ کا زمانہ ١٠١٥ ق م تا ٩٤٥ ق م ہے۔ (١٤) سیدنا سلیمان (علیہ السلام) : آپ سیدنا داؤد کے بیٹے تھے۔ آپ نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ بنی اسرائیل میں آپ کی شان کا کوئی بادشاہ نہیں ہوا۔ جن اور پرندوں پر بھی آپ کی حکومت تھی۔ جانوروں کی بولی سمجھتے ان کو حکم دیتے اور ان سے کام لیتے تھے۔ ہوا بھی آپ کی تابع فرمان تھی۔ آپ ایک ماہ کا سفر ہوائی سفر کے ذریعہ چند گھنٹوں میں طے کرلیتے تھے۔ ملکہ سبا آپ کی کوشش سے مسلمان ہوئی۔ بیت المقدس کو نہایت عالی شان طریقہ پر مکمل کیا۔ (١٥) سیدنا یونس (علیہ السلام) : آپ کا زمانہ بعثت نویں صدی قبل مسیح ہے اہل نینوا کی طرف مبعوث ہوئے قوم نے آپ کی دعوت کا انکار کیا تو از خود ہی چالیس دن بعد عذاب آنے کی انہیں وعید سنا دی۔ جب یہ مدت گزرنے کے قریب پہنچی اور آپ نے عذاب کی کوئی نشانی نہ دیکھی تو فرار ہوئے اور ایک بڑی مچھلی کا لقمہ بنے۔ مچھلی کے پیٹ میں تسبیحات پڑھتے رہے آخر اللہ نے اس مشکل سے نجات دی اور مچھلی نے انہیں صحیح وسالم برلب ساحل اگل دیا۔ جب ذرا طاقت آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسی قوم یعنی اہل نینوا ہی کی طرف آپ کو دوبارہ بھیجا۔ اب دوسری طرف صورت حال یہ بنی کہ جب سیدنا یونس مفرور ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے قول کو پورا کردیا۔ اہل نینوا کو وقت پر عذاب کے آثار نظر آنے لگے تو یہ سب لوگ اپنے بال بچوں سمیت کھلے میدان میں نکل آئے اور اللہ کے حضور گڑگڑائے اور سچے دل سے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ عذاب ٹال دیا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ میں ایک ہی استثناء ہے کہ آیا ہوا عذاب ٹل گیا ہو۔ اب اس قوم کی طرف جب سیدنا یونس دوبارہ آئے تو وہ پہلے ہی نرم ہوچکی تھی لہذا آپ کی تبلیغ نہایت موثر ثابت ہوئی۔ (١٦) سیدنا زکریا (علیہ السلام) : آپ سیدہ مریم بنت عمران (والدہ عیسیٰ علیہ السلام) کے حقیقی خالو تھے۔ چناچہ سیدنا زکریا ہی سیدہ مریم کے مربی اور کفیل قرار پائے۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) چونکہ محض اللہ کی قدرت سے بن باپ پیدا ہوئے تھے لہذا یہودیوں نے زکریا پر ہی سیدہ مریم سے (نعوذ باللہ) زنا کی تہمت لگا دی اور انہیں قتل کرنا چاہا۔ آپ نے انہیں بہت سمجھایا مگر وہ اس سے باز نہ آئے۔ آخر چند شیطان سیرت آدمیوں نے آپ کو شہید کردیا۔ (١٧) سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) : آپ کفیل مریم سیدنا زکریا کے فرزند ہیں۔ سیدنا زکریا بوڑھے ہوچکے تھے مگر بےاولاد تھے۔ سیدہ مریم کے پاس بےموسم پھل دیکھ کر بےاختیار پکار اٹھے کہ && یا اللہ اگر مجھے بھی بےموسم پھل یعنی لڑکا عطا فرما دے تو کیا عجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی، بچے کی بشارت بھی دی اور اس کا نام بھی یحییٰ خود ہی تجویز فرمایا۔ آپ کو بچپن ہی میں نبوت عطا ہوئی۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے خالہ زاد بھائی تھے۔ نہایت نرم دل اور ہر وقت اللہ کے ڈر سے اور اخروی محاسبہ سے روتے رہتے تھے۔ اس وقت کے ایک یہودی حاکم ذونو اس نے اپنی ایک رقاصہ کے مطالبہ اور دلجوئی کی خاطر آپ کا سر قلم کروا دیا۔ (١٨) سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) : آپ اللہ کے کلمہ سے بن باپ پیدا ہوئے۔ آپ کا لقب روح اللہ ہے۔ ماں کی طرف سے ٢٦ ویں پشت پر جا کر سیدنا سلیمان (علیہ السلام) سے سلسلہ نسب جا ملتا ہے۔ بنی اسرائیل کے سب سے آخری اور صاحب شریعت نبی ہیں۔ آپ کو بچپن میں نبوت مل گئی تھی اور انجیل آپ پر نازل ہوئی۔ آپ کی پیدائش ناصرہ کے مقام پر ہوئی۔ گود ہی میں کلام کر کے والدہ کی برئیت پر حجت قائم کی مگر یہودی تہمت تراشیوں سے باز نہ آئے آپ بڑے فصیح البیان مقرر اور وجیہ تھے کسی کو آپ کے منہ پر الزام دینے یا تہمت تراشی کی جرأت نہ ہوئی۔ آپ کو چند محیر العقول معجزات بھی عطا ہوئے تھے۔ جوں جوں آپ کی عزت اور شہرت بڑھتی گئی یہودیوں میں حسد کی آگ بھڑکتی گئی اور شاہ وقت کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ انہیں گرفتار کر کے سولی پر لٹکا دیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے عین وقت پر عیسیٰ (علیہ السلام) کو بجسد عنصری آسمان پر اٹھایا (اس وقت آپ کی عمر ٣٣ سال تھی) اور مخبری کرنے والے کی شکل و صورت سیدنا عیسیٰ کے مشابہ بنادی چناچہ وہی سولی دیا گیا اور اپنے کیے کی سزا پائی۔ آپ آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ دجال کو قتل کریں گے۔ شادی کریں گے اولاد ہوگی۔ بعد ازاں آپ کی طبعی وفات ہوگی۔ اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کا ذکر کر کے آخر میں فرمایا کہ یہ سب ہی اچھے لوگ تھے۔ اس طرح انبیاء کی حسن سیرت کا دائمی سرٹیفکیٹ عطا کردیا۔ جبکہ بائیبل بڑے بڑے انبیاء کی سیرت کشی کرتی اور ان میں کئی طرح کے عیوب کی نشاندہی کرتی ہے مثلاً : ١۔ یہود کے انبیاء پر اتہامات :۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) شراب پی کر بدمست اور بدحواس ہوئے کہ تمام ستر برہنہ ہوگیا اور ان کے بیٹوں نے ڈھانکا۔ (پیدائش باب ٩) ٢۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) نے شراب پی کر اپنی دونوں بیٹیوں سے زنا کیا اور یہ معاملہ دو بار وقوع میں آیا۔ (پیدائش باب ١٩) ٣۔ سیدنا یعقوب (علیہ السلام) نے بکری کے بچوں کی کھال ہاتھوں پر لپیٹ کر جھوٹ بولا اور اپنے باپ اسحاق کو دھوکا دینے کے لیے اپنا نام عیص بتایا۔ (پیدائش باب ٢٧) ٤۔ حمور کے بیٹے سکم نے سیدنا یعقوب کی بیٹی دینہ سے زنا کیا اور یعقوب کے بیٹوں نے اس سے یہ مکر کیا کہ تو اور تیری تمام قوم اگر ختنہ کرے تو دینہ کی شادی تجھ سے کردیں چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور ان نبی زادوں نے ایسا موقع پا کر اس کو اور اس کی تمام قوم بےگناہ کو نہایت بےرحمی سے تہ تیغ کیا اور مال و اسباب لوٹ لیا اور ان کی بیویوں اور بچوں کو غلام بنایا مگر سیدنا یعقوب نے منع کرنا تو درکنار اس نالائق حرکت پر اپنی ناراضگی بھی ظاہر نہ کی۔ (پیدائش باب ٣٤) ٥۔ بنی اسرائیل کے کہنے پر موسیٰ کی غیبت میں ہارون نے زیور کا ایک بت بنایا اور تمام بنی اسرائیل سے اس کو پجوایا اور اس کے لیے قربانیاں گزارنے کا حکم دیا۔ (کتاب خروج باب ٣٢) ٦۔ سیدنا داؤد (علیہ السلام) اپنے بام پر چڑھے۔ اتفاقاً اور یاہ کی جورو بت سبع کو نہاتے دیکھ کر اس پر فریفتہ ہوگئے اور آدمی بھیج کر اس کو بلوایا اور اس سے زنا کیا جس سے وہ عورت حاملہ ہوئی پھر اس کے خاوند کو ایک مکر و تدبیر کر کے مروا ڈالا۔ جس پر ناتن نبی کی معرفت داؤد پر بڑی زجر و توبیخ ہوئی (سموئیل کی دوسری کتاب باب ١١) ٧۔ سیدنا سلیمان نے باوجود سخت ممانعت کے موآبی اور عمونی وغیرہ بت پرست عورتوں کو بیوی بنایا۔ اور خواہش نفسانی کو یہ طغیانی ہوئی کہ سات سو بیگمات اور تین سو حرموں تک نوبت پہنچی اور پھر ان پر عاشق اور مرید زن ہوئے کہ بتوں کی طرف اور تعمیر بت خانوں میں مصروف اور شامل ہوگئے اور آخر عمر میں ایمان کو بھی سلام کر گئے (کتاب اول سلاطین باب ١١) ٨۔ یہ بات قرآن سے ثابت ہے کہ یہود کتاب الٰہی کی درس و تدریس کے بجائے جادو منتر وغیرہ میں ہمہ تن مصروف ہوگئے تھے۔ پھر ستم کی بات یہ تھی کہ وہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کو بہت بڑا جادو گر اور ان کی بادشاہی اور عروج کا ذریعہ جادو ہی کو سمجھتے تھے اور یہ تفصیل پہلے سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٠٢ کے حاشیہ میں گزر چکی ہے۔ ٩۔ سیدنا عیسیٰ اور سیدہ مریم صدیقہ کے متعلق یہود نے جس بد زبانی سے کام لیا تھا ان ناشائستہ کلمات کا ذکر کرنا بھی نامناسب ہے اور عیسائی خود بھی ان باتوں کا اقرار کرتے تھے نیز یہود یہ بھی کہتے تھے کہ بموجب بشارت عیسیٰ (علیہ السلام) اگر سچے نبی ہوتے تو قتل نہ کیے جاتے۔ حالانکہ وہ قتل کیے گئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكُلًّا فَضَّلْنَا : یعنی اپنے اپنے زمانے کے تمام لوگوں پر فضیلت بخشی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِسْمٰعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَيُوْنُسَ وَلُوْطًا۝ ٠ۭ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۝ ٨٦ۙ لوط لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له . ( ل و ط ) لوط ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 حضرت الیاس ( علیہ السلام) حضرت ہارون ( علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے، انجیل میں ان کا نام ایلیا مذکور ہے واللہ اعلم، (المنار)12 یعنی اخطوب بن عجوز جو انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے اور حضرت الیاس ( علیہ السلام) کے خلیفہ تھے۔ (المنار13 یعنی اپنے اپنے زمانہ کے تمام لوگوں پر ( وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سب سے بڑے صالحین حضرات انبیاء (علیہ السلام) ہیں۔ پھر فرمایا (وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًا) اگر اس کو (وَ مِنْ ذُرِّیَتِہٖ ) کے بعد ذکر کیے جانے والے حضرات پر معطوف کیا جائے تو یہ اشکال ہوتا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت میں سے نہیں تھے۔ نیز حضرت یونس (علیہ السلام) کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے نہیں تھے۔ اس اشکال کے رفع کرنے کے لیے یہاں اَرْسَلْنَا یا بَعَثْنَا یا ھَدَیْنَا محذوف مان لینے سے اشکال ختم ہوجاتا ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے تھے۔ اور ان کی نسل سے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ جن کے لیے حضرت ابراہیم و اسماعیل ( علیہ السلام) دونوں نے یوں دعا کی تھی (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مّنْھُمْ ) (الآیۃ) ۔ حضرت اسماعیل کے بعد اَلْیَسَعَ کا تذکرہ فرمایا۔ ان کو ابن اخطوب بن العجوز بتایا گیا ہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ کلمہ عجمی ہے اس پر الف لام خلاف قیاس داخل ہوا۔ وقرء حمزۃ و الکسائی اللَّیْسَعْ علیٰ وٖزنۃِ ضَیْغَم، اور ایک قول یہ ہے کہ یوشع کا معرب ہے۔ وَ اللہ تعالیٰ اَعلم حضرت یونس (علیہ السلام) کے والد کا نام متی تھا یہ نینویٰ علاقہ کے رہنے والے تھے اور وہاں کے رہنے والوں کی طرف میراث ہوئے تھے۔ ان کا تذکرہ سورة انبیاء (ع ٦) میں اور سورة صافات (ع ٥) میں اور سورة نون و القلم (ع ٢) میں قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ہم اس کو انشاء اللہ سورة صافات کی تفسیر میں بیان کریں گے۔ پھر حضرت لوط (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا آپ لوط بن ہاران بن آزر ہیں حضرت لوط (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھائی کے بیٹے تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت پر انہوں نے بھی لبیک کہا اور ان کے ساتھ اپنے وطن سے ہجرت کر کے ملک شام میں تشریف لے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی نبوت سے سر فراز فرمایا اور چند بستیوں کی طرف معبوث فرمایا جن کا تذکرہ سورة اعراف (رکوع نمبر ٩) میں اور سورة شعراء وغیرہ میں فرمایا ہے۔ تفصیل جاننے کے لیے سورة اعراف کا مطالعہ فرمائیں۔ پھر فرمایا (وَ کُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) اور ہم نے ان سب کو جہانوں پر فضیلت دی۔ چونکہ خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سب سے افضل ہیں اس لیے مفسرین لکھتے ہیں علی عالمی عصر ھم یعنی اپنے اپنے زمانہ کے لوگوں پر ان کو فضیلت دی۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت انبیاء (علیہ السلام) فرشتوں سے افضل ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

86 اور نیز ہم نے اس کی اولاد میں سے اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو ہدایت عطا فرمائی تھی اور ہم نے ان میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے زمانے میں اقوام عالم پر فضیلت اورب ڑائی عطا کی تھی۔