تعارف سورة الصف سورة نمبر 61 کل رکوع 2 آیات 14 الفاظ و کلمات 223 حروف 991 مقام نزول مدینہ منورہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے فرمایا ہے کہ تم دنیا کی جس تجارت میں لگے ہوئے ہو اس سے بہتر یہ ہے کہ تم اپنے جان و مال کو اللہ کے راستے میں لگا دو اور وہ یہ ہے کہ تم پوری طرح اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر اس پر مضبوطی سے صراط مستقیم پر قائم رہو اور اپنی جانوں اور مال سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اس کے بدلے اللہ تمہیں دنیا میں فتح و نصرت اور آخرت میں جنت کی راتیں عطا فرمائے گا وہ جنت جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہوگی۔ ٭ حضرت عیسیٰ کے حواریوں کا قصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو دین اسلام کی طرف بلایا اور ان سے کہا کہ تم اللہ کے لئے اس کے دین کے مددگار بن جائو۔ دعوت دینے کے بعد جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں سے پوچھا کہ تم میں سے اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے کون کون میرا ساتھ دے گا ؟ تو ان سب نے کہا کہ ہم سب اللہ کے دین کے مددگار ہیں۔ ان حواریوں کی محنت سے اس زمانہ میں دین اسلام کو فروغ حاصل ہوا۔ کچھ لوگ ایمان لے آئے اور کچھ نے انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں زبردست تائید کی اور وہی غالب ہو کر رہے۔ ٭اللہ کی حمدو ثنا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس کی حمدو ثنا اور تسبیح نہ کرتی ہو۔ ذرہ ذرہ اس کی تسبیح میں لگا ہوا ہے۔ ٭اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آدمی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جو کچھ زبان سے کہتا ہے اس کو پورا کرتا ہے لیکن یہ ایک بدترین عادت ہے کہ آدمی جس بات کو زبان سے کہہ رہا ہے اس پر اسی طرح عمل نہیں کرتا۔ منافقین کی عادت ہے کہ وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ اللہ کو یہ بات قطعاً ناپسند ہے۔ ٭اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اہل ایمان جب کسی سے جنگ کرتے ہیں تو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں یعنی اپنی صفوں کو درست رکھتے ہیں۔ ٭حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم مجھے اپنی باتوں سے اذیت اور تکلیف کیوں پہنچاتے ہو ؟ جب کہ میں خود اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں۔ بنی اسرائیل نے ان کی باتوں کو ماننے کے بجائے اپنے دلوں کو اوندھا کرلیا تو اللہ نے بھی ان کے مزاجوں کو اس طرح الٹ دیا کہ سیدھی بات بھی ان کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔ ٭حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کا ذکر خیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ انہوں نے بھی اپنی قوم بنی اسرائیل سے یہی فرمایا کہ میں اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں۔ مجھ سے پہلے اللہ نے تمہاری ہدایت کے لئے توریت نازل کی تھی میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور میرے بعد جو رسول تشریف لانے والے ہیں ان کا نام ” احمد “ ہوگا۔ ابنی اسرائیل نے ان کی تمام باتوں کو سن کر اور معجزات کو دیکھ کر ایک بےحقیقت جادو قرار دیا۔ ٭فرمایا کہ اللہ کے دین کا انکار کرنے والے ظالم لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے جس روشنی یعنی دین اسلام کو بھیجا ہے یہ اس کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ ان کی تو یہی خواہش ہے کہ یہ چراغ بجھ جائے اور دین اسلام کی ترقی کو روک دیں لیکن یہ محض ان کی تمنا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ وہ ہے جو ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے وہ اس روشنی کو مکمل کرکے رہے گا اگرچہ یہ کافر کتنے ہی ناراض کیوں نہ ہوں۔ وہ اللہ اپنی قدرت سے ان کے سارے ارادوں اور عزائم کو ناکام بنا کر رکھ دے گا۔ ٭اللہ نے اپنے نبی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی لئے بھیجا ہے کہ وہ دین اسلام کو ہر مذہب پر پوری طرح غالب کردیں اور وہ غالب ہو کر رہے گا۔ ٭اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے کہ تم دنیا کی جس تجارت میں لگے ہوئے ہو اس سے بہتر ہے کہ تم اپنی جان اور اپنے مال کو اللہ کے راستے میں لگا دو اور وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پوری طرح ایمان لائو۔ مضبوطی سے صراط مستقیم پر قائم رہو اور اپنی جانوں اور مالوں کو اللہ کے راستے میں جہاد پر لگا دو ۔ اگر تم غور کرو گے تو یہ سودا اور لین دین تمہیں مہنگا نہیں پڑے گا۔ اسی میں تمہارے لئے بہتری ہے۔ کیونکہ تمہیں آخرت میں اتنا کچھ نفع عطا کیا جائے گا جس کا تم اس دنیا میں رہ کر تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ تمہاری ان قربانیوں کے بدلے میں ایسی جنتیں دی جائیں گی جن کی ہر چیز کو بقا ہے اور تم ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہو گے۔ فرمایا کہ تمہاری قربانیوں کا صلہ آخرت میں جنت اور اس کی راحتیں ہیں اور دنیا میں فتح و نصرت اور کامیابیاں ہیں جو تمہیں بہت جلد دیدی جائیں گی۔
سورة الصف کا تعارف یہ سورت بھی مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی اس کا نام اس کی چوتھی آیت سے لیا گیا ہے اس کی چودہ آیات ہیں جو دو رکوع پر مشتمل ہیں۔ اس سورت میں سب سے پہلے یہ بات بتلائی اور سمجھائی گئی ہے کہ زمینوں اور آسمانوں کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہے اور اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ اس کے فرمان کی حکمت کا تقاضا ہے کہ اے ایمان والوں ایسا دعوہ نہ کرو جس پر تم عمل نہیں کرتے ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا گناہ ہے، یقیناً اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو سیسہ پلائی دیوار کی طرح کفار کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں۔ تمہیں موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی طرح نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تکلیف دی جب انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی نافرمانی کی وجہ سے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نافرمانوں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ نہ ہی تمہیں بنی اسرائیل کی طرح ہونا چاہیے جنھیں حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس رسول کی خوشخبری دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوگا۔ ان حقائق اور دلائل کے باوجود بنی اسرائیل کی غالب اکثریت نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا اور کہا یہ تو کھلا جادو ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار بتانے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور دعوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس شخص سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہوسکتا جو ” اللہ “ پر جھوٹ بولتا ہے۔ حالانکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ اور ظالم لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور جو الاسلام کی صورت میں نازل ہوا ہے اسے اپنی پھونکوں سے بجھا دیں ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نور بجھنے والا نہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اپنی رہنمائی اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تاکہ دین حق تمام ادیان پر غالب آجائے بیشک مشرکین کو یہ بات کتنی ہی ناگوار لگتی ہو۔ یہود و نصاریٰ کا منفی کردار اور دین حق کا روشن مستقبل بتلانے کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو اگر تم اس کی حقیقت جانتے ہو تو تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے۔ ایمان اور جہاد کے بدلے تمہارے گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں اور تمہیں اعلیٰ جنت میں بہترین محلّات میں بسایا جائے گا یہی بڑی کامیابی ہے۔ اس کے ساتھ جو چیز تم چاہتے ہو وہ دشمن کے مقابلے میں کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں بہت جلد فتح عطاء فرمائے گا یہ اس کی طرف سے مومنوں کے لیے خوشخبری ہے۔ اے مسلمانوں ! تمہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے ان حواریوں کی طرح ہونا چاہیے جنہیں مشکل وقت میں عیسیٰ (علیہ السلام) نے مدد کے لیے پکارا تو انہوں نے کہا کہ ہم ” اللہ “ کے لیے آپ کی مدد کرنے والے ہیں۔
سورة الصف ایک نظر میں اس سورت کے پیش نظر دو باتیں ہیں۔ یہ نہایت اساسی باتیں اور پوری سورت میں بہت ہی واضح طور پر کہی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بعض اشارات ہیں لیکن یہ سب اشارات بھی انہی دوامور کے ساتھ ملحق ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ تمام اہل ایمان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ دین اسلام دراصل اللہ کا آخری دین ہے ، یہی دین مختلف شکلوں میں ، انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں اس وقت کے حالات کے مطابق جاری اور نافذ رہا ہے۔ رسولوں اور ان کے ساتھ اٹھنے والی جماعتوں کی زندگیوں میں اسے کے تجربے ہوتے رہے ہیں۔ اس دین کی تمام سابقہ شکلیں دراصل اس آخری دین اور نظام کے لئے تمہید اور تیاری تھیں۔ کیونکہ اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ نبی صلی للہ علیہ وسلم کی رسالت آخری رسالت ہو ، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین آخری دین ہو۔ اور اسے تمام دینوں پر غالب کردیا جائے۔ اس سلسلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کا ذکر کیا جانا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جن لوگوں کی طرف بھیجا گیا تھا انہوں نے ان کو اذیت دی ، رسالت کا انکار کیا ، گمراہ ہوگئے اور یہ لوگ اللہ کے دین کے امین اور محافظ نہ بنے۔ واذقال……………الفسقین (5:61) ” اور یاد کرو موسیٰ کی وہ بات جو اس نے اپنی قوم سے کہی تھی کہ ” اے میری قوم کے لوگو ! تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو ، حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں “۔ پھر جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کردیئے ، اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا “۔ یوں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بھی اس دین کی قیم نہ رہی ، اور اس امانت کو سنبھالنے سے انہوں نے انکار کردیا ، ان کے دل ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے بھی ان کو مزید ٹیڑھا کردیا۔ چونکہ انہوں نے بالا ارادہ گمراہی اختیار کرلی ، اس لئے اللہ نے بھی ان کو گمراہ کردیا اور اللہ فاسقین کو کبھی ہدایت نہیں دیتا۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کا تذکرہ ہوتا ہے اور یہ رسالت بھی دراصل موسیٰ (علیہ السلام) ہی کی رسالت کی وسیع شکل تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی تورات کی تصدیق کی۔ اور آپ نے آخری نبی کے آنے کے لئے راہ ہموار کی۔ اور آخری رسول کے آنے کی بشارت دی۔ آپ نے پہلے کتابی دین ، دین موسیٰ اور آخری دین ، دین محمد صلی للہ علیہ وسلم کو آپس میں ملادیا۔ واذ قال……………احمد (6:61) ” اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ ” اے بنی اسرائیل ، میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ، تصدیق کرنے والا ہوں اس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے اور بسارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا “۔ گویا عیسیٰ (علیہ السلام) اس لئے تشریف لائے تھے کہ دین الٰہی کی امانت جو تورات کی شکل میں تھی ، اسے نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی للہ علیہ وسلم کے سپرد کردیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں خوشخبری بھی دیں۔ اور اللہ کے علم اور تقدیر میں یہ بات مقرر تھی کہ ان تمام مراحل اور مدارج سے گزر کر ، اس کا دین ایک مستقل اور مکمل شکل میں زمین پر غالب آجائے اور یہ رسول آخرالزمان صلی للہ علیہ وسلم کے ہاتھوں۔ ھوالذی……………المشرکون (9:61) ” اللہ وہی تو ہے ، جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے ، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو “۔ یہ اس سورت کا پہلا ہدیف ہے اور اسی کے اوپر دوسرا ہدف مبنی ہے۔ وہ یہ کہ جب ایک مومن کے اندر یہ شعور پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ دین اس کے ہاتھ میں ایک امانت ہے اور اس امانت کے بارے میں اللہ کا حکم یہ ہے کہ اسے تمام ادیان پر غالب کرتا ہے ، تو ایک مسلم کا یہ شعور پھر اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ اٹھے اور اس کو غالب کرنے کے لئے ، اس دین کی راہ میں جدوجہد کرے۔ جیسا کہ اللہ کا ارادہ ہے کہ اسے غالب کیا جائے۔ اور اس سلسلے میں پھر ایک مومن کے قول اور فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہئے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ بڑی بری بات ہے کہ پہلے تو تم جہاد کی خواہش کرتے تھے اور جب جہاد فرض ہوگیا تو تم منہ موڑ رہے ہو۔ جیسا کہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض مسلمانوں پر یہ حالت طاری ہوگئی تھی اور اس سلسلے میں بعض روایات بھی ہیں۔ چناچہ سورت کے آغاز میں پوری کا نئات کی طرف سے تسبیح کے ذکر کے بعد یہ آتا ہے کہ اللہ یہ چاہتا ہے : یایھا الذین…………مرصوص (2:61 تا 4) ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں “۔ اس کے بعد سورت کے وسط میں ان کو کہا جاتا ہے۔ دنیا وآخرت میں نفع بخش تجارت کیا ہے۔ یا یھا الذین ……………المئومنین (10:61 تا 13) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچائے ؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو ، وہ بھی تمہیں دے گا ، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی حاصل ہوجانے والی فتح ۔ اے نبی اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو “۔ سورت کا خاتمہ ایک پکار پر ہوتا ہے جو اہل ایمان کو ہے کہ وہ اللہ کے مددگار بن جائیں ، جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں کو پکارا تھا کہ کون ہے تم میں سے میرا مددگار ، باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل نے تکذیب کردی تھی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دشمنی پر اتر آئے تھے۔ یایھا الذین……………ظھرین (14:61) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ کے مددگار بنو ، جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا : ” کون ہے اللہ کی طرف دعوت میں میرا مددگار ؟ “ حواریوں نے جواب دیا :” ہم ہیں اللہ کے مددگار “۔ اس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہوکر رہے “۔ یہ دونوں لائنیں اس سورت میں بالکل واضح ہیں۔ اور تمام آیت کا مقصد یہی ہے۔ اب صرف یہ بات رہ جاتی ہے کہ رسالت کی تکذیب کرنے والوں پر تنقید اور تنبیہہ آجائے اور اس قسم کی تنبیہات ہمیشہ قرآن میں آتی رہتی ہیں۔ یہاں کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت کے بعد بھی ان لوگوں نے تکذیب کی ، حالانکہ رسول کے مقصد ، رسالت کی تاریخ اور طریقہ کار سب کی وضاحت کردی گئی۔ فلما جاء ھم……………الکفرون (6:61 تا 8) ” مگر جب وہ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انہوں نے کہا یہ تو صریح دھوکہ ہے ، اب بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتاباندھے حالانکہ اسے اسلام کی دعوت دی جارہی ہو۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ یہ لوگ اپنیمنہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو “۔ ان ہدایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا یہ دین اس کرہ ارض پر اللہ کا آخری دین ہے۔ اور انسانوں کو درست عقیدہ عطا کرنا ، اور درست فکر ونظر دینا اب دین اسلام کے حوالے کردیا گیا ہے۔ جب کسی مسلم کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ وہ اس فریضے کا مکلف ہے۔ اس کا فرض ہے کہ دعوت و جہاد کے ذریعہ لوگوں تک اس آخری دین کو پہنچائے ۔ اور اسی بات کو اللہ پسند کرتا ہے۔ پھر مسلم کا یہ بھی فرض ہے کہ اس کے دین میں اس کا راستہ بالکل واضح ہو اور اپنے دین اور اس کے قیام کے لئے جہاد کے معاملے میں اس کے افکار گنجلک نہ ہوں اور وہ شف شف نہ کرتا ہو۔ نہ وہ اس سیدھے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے اختیار کرتا ہو۔ کیونکہ اللہ نے یہی راستہ اختیار کیا ہے کہ اللہ کے دین کے قیام کے لئے صف بستہ ہوجائو اور جہاد کرو۔ اسی دوران مسلمانوں کے اخلاق ، ان کے مزاج اور ان کے ضمیر اور سوسائٹی میں ان کے طرز عمل کی طرف بھی توجہ دی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے ہرگز وہ بات نہیں کہنا چاہئے جو وہ کر نہیں سکتا۔ اور نہ اس کے قول اور عمل میں تضاد ہو ، نہ ان کے ظاہروباطن میں فرق ہو ، اس کی گھر کے اندر اور بار کی زندگی یکساں ہو ، اور اپنے ہر حال میں اسے اللہ کے لئے خالص ہونا چاہئے۔ اپنے قول اور فعل میں سچا ہو ، اس کے قدم اور اس کا راستہ صاف ہو۔ وہ اپنے دوسرے بھائیوں کا ہمدرد ہو اور سب لوگ اس طرح ہوں جس طرح بنیان مرصوص۔