Commentary Background of the revelation Tirmidhi has recorded, on the authority of Sayyidna ` Abdullah Ibn Salam (رض) ، that a group of Companions discussed among themselves that if we come to know which is the dearest of actions in the sight of Allah, we shall act upon it. Hakim reported this Tradition and graded its chain as sahib&. Baghawi in his citation added the following words: |"If we come to know which is the dearest of actions in the sight of Allah, we shall dedicate our lives and wealth to it.|" [ Mazhari ]. Ibn Kathir, with reference to Musnad of Ahmad, reports that some of the Companions gathered and wanted someone to go to Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and ask him about the action that is dearest to Allah, but no one dared to do so. Whilst this discussion was going on, the Holy Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) sent a man to call each one of them by name. When they all arrived, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited the entire Surah As-Saff which had been revealed just then. This Surah shows that the &dearest action& they were looking for was jihad in the cause of Allah& and their statement that &if we come to know about it, we shall dedicate our lives in acting upon it& was a sort of claim of having ability to do it. At this, they are admonished that it is not proper for any believer to make such a claim, because no one can for sure know whether he will be able to implement his intentions when the time arrives. It is not in his power that all the causes of action are made effective and all impediments are removed. Nor are the abilities and strengths of his hands or arms or limbs or organs altogether in his power. Nor is his determination or intention completely in his control. Therefore, even the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been instructed in the Qur&an, thus: وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ |"And never say about anything, &I am going to do this tomorrow, unless [ you say - &if ] Allah wills.) [ 18: 23-24] Although the intention of the blessed Companions was not to make a boastful claim, it did seem apparently as a claim, which Allah dislikes. If a person makes a commitment to do something in the future, he needs to surrender it to the Divine will and affirm it by saying &If Allah wills&. The following verses are revealed to admonish the believers.
خلاصہ تفسیر سب چیزیں اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں (قالاً یا حالاً ) جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں ہیں اور وہی زبردست حکمت والا ہے (پس جو ایسا باعظمت و شان ہو اس کی اطاعت ہر حکم میں ضروری ہے، جن میں سے ایک حکم جہاد کا ہے، جو اس سورت میں مذکور ہے، جس کے نزول کا سبب یہ ہے کہ ایک بار بعض مسلمانوں نے باہم تذکرہ کیا کہ اگر ہم کو کوئی ایسا عمل معلوم ہو جو حق تعالیٰ کے نزدیک نہایت محبوب ہے تو ہم اس کو عمل میں لاویں اور اس سے قبل جنگ احد میں بعضے جہاد سے بھاگ چکے تھے جس کا قصہ سورة آل عمران میں ہے اور نیز وقت نزول حکم جہاد کے بعض کو وہ حکم گراں گزرا تھا، جس کا قصہ سورة نساء میں ہے اس پر یہ ارشاد نازل ہوا) اے ایمان والو ! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو، خدا کے نزدیک یہ بات بہت ناراضی کی ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں، اللہ تعالیٰ تو ان لوگوں کو ( خاص طور پر) پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک عمارت ہے جس میں سیسہ پلایا گیا ہے (یعنی جس طرح یہ عمارت مستحکم ناقابل شکست ہوتی ہے، اسی طرح وہ مجاہدین دشمن کے مقابلہ سے ہٹتے نہیں، مطلب یہ ہوا کہ تم جو کہتے ہو کہ ہم کو وہ کام معلوم ہوتا .... جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے تو یہ عمل تو جہاد ہے پھر اس کے نزول کے وقت گرانی کیوں ہوئی تھی اور احد میں کیوں بھاگ گئے تھے، باوجود ان تمام امور کے پیش نظر ہونے کے نہایت نازیبا بات اور خدا کو ناپسند ہے، ایسے دعویٰ کی باتیں کرنا جس کا خلاف ہونا معلوم بھی ہوچکا ہے تو اس میں لاف زنی اور غلط دعویٰ پر زجر کیا گیا، وعظ بےعمل اس کے مفہوم سے خارج ہے) اور (آگے کفار کے مستحق قتل و قتال ہونے کی علت یعنی ایذاء رسانی، تکذیب، مخالفت رسول کا بیان فرمانا مقصود ہے اور اسی کی مناسبت سے موسیٰ (علیہ السلام) و عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ ذکر فرماتے ہیں پس ارشاد ہے کہ وہ وقت قابل ذکر ہے) جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم مجھ کو کیوں ایذا پہنچاتے ہو حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں (وہ ایذا میں مختلف طور پر تھیں جن میں سے بعض بعض قرآن مجید میں بھی خصوص سورة بقرہ میں مذکور ہیں اور حاصل ان سب کا سرکشی اور مخالفت ہے) پھر جب (اس فہمائش پر بھی) وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے (اور راہ پر نہ آئے) تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اور (زیادہ) ٹیڑھا کردیا (یعنی مادہ مخالفت اور عصیان کا اور زیادہ بڑھ گیا جیسا کہ قاعدہ ہے کہ گناہ پر مداومت کرنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف قلب کا میلان اور اس کی اطاعت کا جذبہ کم ہوتا چلا جاتا ہے) اور اللہ تعالیٰ (کا معمول ہے کہ وہ) ایسے نافرمانوں کو ہدایت (کی توفیق) نہیں دیتا (اسی طرح یہ لوگ رسول اللہ کو انواع مخالفت سے ایذائیں پہنچاتے ہیں، اس لئے ان کا ٹیڑھا پن اور فسق زیادہ ہوتا جاتا ہے کہ امید اصلاح کی نہیں رہی، پس ان کا فساد مٹانے کے لئے قتال کا حکم دینا مصلحت ہوا) اور (اسی طرح وہ وقت بھی قابل تذکرہ ہے) جبکہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے (ارشاد) فرمایا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو توراة (آ چکی) ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد جو ایک رسول آنے والے ہیں جن کا نام (مبارک) احمد ہوگا، میں ان کی بشارت دینے والا ہوں (اور اس بشارت کا عیسیٰ (علیہ السلام) سے منقول ہونا خود اہل کتاب کے بیان سے حدیثوں میں ثابت ہے، چناچہ خازن میں بروایتہ ابو داؤد بخاشی بادشاہ حبشہ کا جو کہ نصاریٰ کے عالم بھی تھے، یہ قول آیا ہے کہ واقعی آپ ہی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دی تھی اور خازن ہی میں تزمذی سے عبداللہ بن سلام کا قول جو کہ علماء یہود میں سے تھے آیا ہے کہ تورات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صف لکھی ہے اور یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) آپ کے ساتھ مدفون ہوں گے اور چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) تورات کے مبلغ تھے، اس لئے توراة میں اس بشارت کا ہونا نیز عیسیٰ (علیہ السلام) سے منقول کہا جاوے گا اور مولانا رحمت اللہ صاحب نے اظہار الحق میں خود توراة کے موجودہ نسخوں سے متعدد بشارتیں نقل کی ہیں جلد دوم صفحہ 164 مطبوعہ قسطنطنیہ اور ان مضامین کا نا جیل موجودہ میں نہ ہونا اس لئے مضر نہیں کہ حسب تحقیق علماء محققین انا جیل کے نسخے محفوظ نہیں رہے، مگر تاہم جو کچھ موجودہ ہیں ان میں بھی اس قسم کا مضمون موجود ہے، چناچہ یوحنا کی انجیل مترجمہ عربی مطبوعہ لندن سن 1831 ء و سن 1833 ء کے چودہویں باب میں ہے کہ ” تمہاری لئے میرا جانا ہی بہتر ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو فارقلیط تمہارے پاس نہ آوے، پس اگر میں جاؤں تو اس کو تمہارے پاس بھیج دوں گا “ فارقلیط ترجمہ احمد کا ہے، اہل کتاب کی عادت ہے کہ وہ ناموں کا بھی ترجمہ کردیتے ہیں، عیسیٰ (علیہ السلام) نے عبرانی میں احمد فرمایا تھا، جب یونانی میں ترجمہ ہوا تو بیرکلوطوس لکھ دیا جس کے معنی ہیں احمد یعنی بہت سراہا گیا، بہت حمد کرنے والا، پھر جب یونانی سے عبرانی میں ترجمہ کیا تو اس کو فارقلیط کردیا اور بعض عبرانی نسخوں میں ایک تک نام مبارک احمد موجود ہے، دیکھو پادری پار کہرست کی یہ عبارت دباد حمدہ خل ہکوٹیم از حمایت الاسلام مطبوعہ بریلی سن 1873 ء ص 8481 ترجمہ اپالوجی گاؤ فری ہینگنس مطبوعہ لندن سن 1829 ء اور اس فارقلیط کی نسبت اس انجیل یوحنا میں یہ الفاظ ہیں ” وہ تمہیں سب چیزیں سکھا دے گا “ یہ ہیں وہ الفاظ جو نبی مستقل ہونے پر دال ہیں اور پوری بحث اس مقام کی تفسیر حقانی میں ہے اس کا ایک شمہ نقل کیا گیا ہے، غرض عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ ارشاد فرمایا) پھر جب (یہ تمام مضامین ارشاد فرما کر اپنی نبوت کے اثبات کے لئے) وہ (عیسیٰ علیہ السلام) ان لوگوں کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو وہ لوگ (ان دلائل یعنی معجزات کی نسبت) کہنے لگے کہ یہ صریح جادو ہے (اور جادو بتا کر نبوت کی تکذیب کی، کمافی الماتدة واذکففت بنی اسرآئیل عنک اذ جئتہم بالبینت الخ اسی طرح بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور رسالت میں کفار موجودین نے آپ کی تکذیب کی اور مخالفت کی اور یہ ظلم عظیم ہے، پس اس ظلم کا تعدیہ مٹانے کے لئے قتال کا حکم دینا مصلحت ہوا) اور (واقعی) اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے، حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہو اور اللہ ایسے ظالم لوگوں کو ہدایت (کی توفیق) نہیں دیا کرتا (اللہ پر جھوٹ باندھنا یہ ہے کہ نبوت کی تکذیب کی، اثبات المنفی اور نفی المثبت یعنی جو چیز اللہ کی طرف سے نہ ہو اس کو اللہ کی طرف منسوب کرنا اور جو اللہ کی طرف سے واقع میں ہو اس کی نفی کرنا، دونوں افتراء علی اللہ ہیں اور وہو یدعی اس لئے بڑھایا کہ اس سے زیادہ تقبیح ہوگئی، یعنی خود تو متنبہ کرنے سے بھی متنبہ نہ ہوا اور واللہ لایہدی اس لئے بڑھایا کہ ان کی حالت موجودہ اصلاح سے بعید ہوگئی اس لئے سزائے قتال ہی تجویز کیا جانا مصلحت ہوا، چناچہ جس کو اب بھی اسلام کی خبر نہ پہنچی ہو اول اس کو دعوت اسلام کرنا چاہئے جس اس سے انکار کرے جو کہ ظاہراً علامت ناامیدی کی ہے تب جہاد مشروع ہے، آگے ترغیب جہاد کیلئے وعدہ نصرت و غلبہ حق اور مغلوبیت باطل ارشاد ہے کہ) یہ لوگ یوں چاہتے ہیں کہ اللہ کے تور (یعنی دین اسلام) کو اپنے منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں (یعنی تدبیرعملی کے ساتھ منہ سے بھی رد و اعتراض کی باتیں اس غرض سے کرتے ہیں کہ دین حق کو فروغ نہ ہو اور بعض اوقات قولی شبہات موثر ہوجاتے ہیں، یا یہ تمثیل ہے کہ ان کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی منہ سے نور الٰہی کو بجھانا چاہتا ہو یعنی ایسے طریقہ سے بجھاوے جس میں ناکام رہے) حالانکہ اللہ اپنے نور (مذکور) کو کمال تک پہنچا کر رہے گا گو کافر لوگ کیسے ہی ناخوش ہوں (چنانچہ) وہ اللہ ایسا ہے جس نے (اسی اتمام نور کے لئے) اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت ( کا سامان یعنی قرآن) اور سچا دین (یعنی اسلام) دے کر (دنیا میں) بھیجا ہے تاکہ اس (دین) کو (کہ وہ نورمذکور ہے) تمام (بقیہ) دینوں پر غالب کر دے (کہ یہی اتمام ہے) گو مشرک کیسے ہی ناخوش ہوں (وقد مر تفسیر الاتمام و الظہور فی سورة البراة فی مثل ہذہ الآیة) معارف و مسائل شان نزول : ترمذی نے حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کو روایت کر کے سند کو صحیح قرار دیا ہے کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے آپس میں یہ مذاکرہ کیا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے تو ہم اس پر عمل کریں، بغوی نے اس میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ ان حضرات میں سے بعض نے کچھ ایسے الفاظ بھی کہے کہ اگر ہمیں احب الاعمال عنداللہ معلوم ہوجائے تو ہم اپنی جان و مال سب اس کے لئے قربان کردیں (مظہری) ابن کثیر نے بحوالہ مسند احمد روایت کیا ہے کہ ان چند حضرات نے آپس میں جمع ہو کر یہ مذاکرہ کیا اور چاہا کہ کوئی صاحب جا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا سوال کریں مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی ابھی یہ لوگ اسی حالت پر تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب لوگوں کو نام بنام اپنے پاس بلایا ( جس سے معلوم ہوا کہ آپ کو بذریعہ وحی ان کا اجتماع اور ان کی گفتگو معلوم ہوگئی تھی) جب یہ سب لوگ حاضر خدمت ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوری سورة صف پڑھ کر سنائی جو اسی وقت آپ پر نازل ہوئی تھی۔