Surat us Saff

Surah: 61

Verse: 1

سورة الصف

سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾

Whatever is in the heavens and whatever is on the earth exalts Allah , and He is the Exalted in Might, the Wise.

زمین و آسمان کی ہر ہرچیز اللہ تعالٰی کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Chastising Those Who say what They do not do We mentioned in many a places before the meaning of Allah's statement, سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الاَْرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ Whatsoever is in the heavens and whatsoever is on the earth glorifies Allah. And He is the Almighty, the All-Wise. Therefore, we do not need to repeat its meaning here. Allah's statement, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لاَا تَفْعَلُونَ

ایفائے عہد ایمان کی علامت ہے اور صف اتحاد کی علامت پہلی آیت کی تفسیر کئی بار گذر چکی ہے اب پھر اس کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ پھر ان لوگوں کا ذکر ہوتا ہے جو کہیں اور نہ کریں ، وعدہ کریں اور وفا نہ کریں ، بعض علمائ ، سلف نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ وعدہ کا پورا کرنا مطلقاً واجب ہے جس سے وعدہ کیا ہے خواہ وہ تاکید کرے یا نہ کرے ، ان کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کی تین عادتیں ہوتی ہیں ( 1 ) جب وعدہ کرے خلاف کرے ( 2 ) جب بات کرے جھوٹ بولے ( 3 ) جب امانت دیا جائے خیانت کے ، دوسری صحیح حدیث میں ہے چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چار میں سے ایک ہو اس میں ایک خصلت نفاق کی ہے جب تک اسے نہ چھوڑے ۔ ان میں ایک عادت وعدہ خلافی کی ہے ، شرح صحیح بخاری کی ابتدا میں ہم نے ان دونوں احادیث کی پوری شرح کر دی ہے ۔ فالحمد اللہ ۔ اسی لئے یہاں بھی اس کی تاکید میں فرمایا گیا اللہ تعلیٰ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو ، مسند احمد اور ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا کھیل کود کے لئے جانے لگا تو میری والدہ نے مجھے آواز دے کر کہا ادھر آ کچھ دوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ دینا بھی چاہتی ہو؟ میری والدہ نے کہا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھجوریں دوں گی آپ نے فرمایا پھر تو خیر ورنہ یاد رکھو کچھ نہ دینے کا ارادہ ہوتا اور یوں کہتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھا جاتا ، حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وعدے کے ساتھ وعدہ پورا کرنے کی تاکید کا تعلق ہو تو اس وعدے کو فوا کرنا واجب ہو جاتا ہے ، مثلاً کسی شخص نے کسی سے کہہ دیا کہ تو نکاح کر لے اور اتنا اتنا ہر روز میں تجھے دیتا رہوں گا اس نے نکاح کر لیا تو جب نکاح باقی ہے اس شخص پر واجب ہے کہ اسے اپنے وعدے کے مطابق دیتا رہے اس لئے کہ اس میں آدمی کے حق کا تعلق ثابت ہو گیا جس پر اس سے باز پرس سختی کے ساتھ ہو سکتی ہے ۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ایفاء عہد مطلق واجب ہی نہیں ، اس آیت کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ جب لوگوں نے جہاد کی فرضیت کی خواہش کی اور فرض ہو گیا تو اب بعض لوگ دیکھنے لگے جس پر یہ آیت اتری ، جیسے اور جگہ ہے ۔ الخ یعنی کیا تو نے انہیں نہ دیکھا جن سے کہا گیا تم اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز و زکوٰۃ کا خیال رکھو ، پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں ایسے لوگ بھی نکل آئے جو لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرتے ہیں بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ کہنے لگے پروردگار تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا ؟ کیوں ہمیں ایک وقت مقرر تک اس حکم کو موخر نہ کیا جو قریب ہی تو ہے ۔ تو کہہ دے کہ اسباب دنیا تو بہت ہی کم ہیں ہاں پرہیز گاروں کے لئے آخرت بہترین چیز ہے ۔ تم پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا تم کہیں بھی ہو تمہیں موت ڈھونڈ نکالے گی گو تم مضبوط محلوں میں ہو ، اور جگہ ہے الخ ، یعنی مسلمان کہتے ہیں کیوں کوئی سورت نہیں اتاری جاتی؟ پھر جب کوئی محکمہ سورت اتاری جاتی ہے اور اس میں لڑائی کا ذکر ہوتا ہے تو دیکھے گا کہ بیمار دل والے تیری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے وہ دیکھتا ہے جس پر موت کی بیہوشی ہو ، اسی طرح کی یہ آیت بھی ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بعض مومنوں نے جہاد کی فرضیت سے پہلے کا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اللہ تعالیٰ ہمیں وہ عمل بتاتا جو اسے سب سے زیادہ پسند ہوتا تاکہ ہم اس پر عامل ہوتے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی کہ سب سے زیادہ پسندیدہ عمل میرے نزدیک ایمان ہے جو شک شبہ سے پاک ہو اور بے ایمانوں سے جہاد کرنا ہے تو بعض مسلمانوں پر یہ گراں گزرا جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ وہ باتیں زبان سے کیوں نکالتے ہو جنہیں کرتے نہیں ، امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں ، حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں کہ مسلمانوں نے کہا اگر ہمیں معلوم ہو جاتا کہ کس عمل کو اللہ تعالیٰ بہت پسند فرماتا ہے تو ہم ضرور وہ عمل بجا لاتے اس پر اللہ عزوجل نے وہ عمل بتایا کہ میری راہ میں صفں باندھ کر مضبوطی کے ساتھ جم کر جہاد کرنے والوں کو میں بہت پسند فرماتا ہوں پھر احد والے دن ان کی آزمائش ہو گئی اور لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے جس پر یہ فرمان الیشان اترا کہ کیوں وہ کہتے ہو جو کہ نہیں دکھاتے؟ بعض حضرات فرماتے ہیں یہ ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہیں ہم نے جہاد کیا اور حالانکہ جہاد نہ کیا ہو منہ سے کہیں کہ ہم زخمی ہوئے اور زخمی نہ ہوئے ہوں کہیں کہ ہم پر مار پڑی اور مار نہ پڑی ہو منہ سے کہیں کہ ہم قید کئے گئے اور قید نہ کئے گئے ہوں ، ابن زید فرماتے ہیں اس سے مراد منافق ہیں کہ مسلمانوں کی مدد کا وعدہ کرتے لیکن وقت پر پورا نہ کرتے ، زید بن اسلم جہاد مراد لیتے ہیں ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں ان کہنے والوں میں حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے جب آیت اتری اور معلوم ہوا کہ جہاد سب سے زیادہ عمدہ عمل ہے تو آپ نے عہد کر لیا کہ میں تو اب سے لے کر مرتے دم تک اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو وقف کر چکا چنانچہ اسی پر قائم بھی رہے یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہید ہوگئے ، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بصرہ کے قاریوں کو ایک مرتبہ بلوایا تو تین سو قاری ان کے پاس آئے جن میں سے ہر ایک قاری قرآن تھا ۔ پھر فرمایا تم اہل بصرہ کے قاری اور ان میں سے بہترین لوگ ہو سنو ہم ایک سورت پڑھتے تھے جو مسبحات کی سورتوں کے مشابہ تھی پھر ہم اسے بھلا دیئے گئے ہاں مجھے اس میں سے اتنا یاد رہ گیا ۔ ( آیت ) یعنی اے ایمان والو وہ کیوں کہو جو نہ کرو پھر وہ لکھا جائے اور تمہاری گردونوں میں بطور گواہ کے لٹکا دیا جائے پھر قیامت کے دن اس کی بابت باز پرس ہو ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے محبوب وہ لوگ ہیں جو صفیں باندھ کر دشمنان اللہ کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں تاکہ اللہ کا بول بالا ہو اسلام کی حفاظت ہو اور دین کا غلبہ ہو ، مسند میں ہے تین قسم کے لوگوں کی تین حالتیں ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور ہنس دیتا ہے رات کو اٹھ کر تہجد پڑھنے والے نماز کے لئے صفیں باندھنے والے ، میدان جنگ میں صف بندی کرنے والے ، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت مطرف فرماتے ہیں مجھے یہ روایت حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک حدیث پہنچی تھی میرے جی میں تھا کہ خود حضرت ابو ذر سے مل کر یہ حدیث آمنے سامنے سن لوں چنانچہ ایک مرتبہ جا کر آپ سے ملاقات کی اور واقعہ بیان کیا آپ نے خوشنودی کا اظہار فرما کر کہا وہ حدیث کیا ہے؟ میں نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ تین شخصوں کو دشمن جانتا ہے اور تین کو دوست رکھتا ہے فرمایا ہاں میں نے اپنے خلیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بول سکتا فی الواقع آپ نے ہم سے یہ حدیث بیان فرمائی ہے ، میں نے پوچھا وہ تین کون ہیں؟ جنہیں اللہ تعالیٰ محبوب جانتا ہے فرمایا ایک تو وہ جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے خالص خوشنودی اللہ کی نیت سے نکلے دشمن سے جب مقابلہ ہو تو دلیرانہ جہاد کرے تم اس کی تصدیق خود کتاب اللہ میں بھی دیکھ سکتے ہو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور پھر پوری حدیث بیان کی ، ابن ابی حاتم میں یہ حدیث اسی طرح ان ہی الفاظ میں اتنی ہی آئی ہے ہاں ترمذی اور نسائی میں پوری حدیث ہے اور ہم نے بھی اسے دوسری جگہ مکمل وارد کیا ہے ، فالحمد اللہ ۔ حضرت کعب احبار سے ابن ابی حاتم میں منقول ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے آپ میرے بندے متوکل اور پسندیدہ ہیں بدخلق بد زبان بازاروں میں شور و غل کرنے والے نہیں برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے بلکہ درگذر کر کے معاف کر دیتے ہیں ۔ آپ کی جائے پیدائش مکہ ہے ، جائے ہجرت طابہ ہے ، ملک آپ کا شام ہے ، امت آپ کی بکثرت حمد اللہ کرنے والی ہے ، ہر حال میں اور ہر منزل میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرتے رہتے ہیں ۔ صبح کے وقت ذکر اللہ میں ان کی پست آوازیں برابر سنائی دیتی ہیں جیسے شہد کی مکھیوں کی بھن بھناہٹ اپنے ناخن اور مچھیں کترتے ہیں اور اپنے تہمد اپنی آدھی پنڈلیوں تک باندھتے ہیں ان کی صفیں میدان جہاد میں ایسی ہوتی ہیں جیسی نماز میں ، پھر حضرت کعب نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا سورج کی نگہبانی کرنے والے جہاں وقت نماز آ جائے نماز ادا کر لینے والے گو سواری پر ہوں ، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ بنوا لیتے دشمن سے لڑائی شروع نہیں کرتے تھے ، پس صف بندی کی تعلیم مسلمانوں کو اللہ کی دی ہوئی ہے ایک دوسرے سے ملے کھڑے رہیں ، ثابت قدم رہیں اور ٹلیں نہیں تم نہیں دیکھتے کہ عمارت کا بنانے والا نہیں چاہتا کہ اس کی عمارت میں کہیں اونچ نیچ ہو ٹیڑھی ترچھی ہو یا سوراخ رہ جائیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے امر میں اختلاف ہو میدان جنگ میں اور بوقت نماز مسلمانوں کی صف بندی خود اس نے کی ہے پس تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو جو احکام بجا لائے گا یہ اس کے لئے عصمت اور بچاؤ ثابت ہے ۔ ابو بحریہ فرماتے ہیں مسلمان گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑنا پسند نہیں کرتے تھے انہیں تو یہ اچھا معلوم ہوتا تھا کہ زمین پر پیدل صفیں بنا کر آمنے سامنے کا مقابلہ کریں ، آپ فرماتے ہیں جب تم مجھے دیکھو کہ میں نے صف میں سے ادھر ادھر توجہ کی تو تم جو چاہو ملامت کرنا اور برا بھلا کہنا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] یہ اس سورة کے افتتاحی کلمات ہیں جن کی تشریح پہلے بہت سے مقامات پر گزر چکی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

سَبَّحَ ِﷲِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ۔۔۔۔: اس سورت کا مضمون اللہ کے راستے میں جہاد و قتال ہے ، ابتداء اس کی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ذکر سے کی گئی ہے ۔ اللہ کی تسبیح سے ابتداء کی سورت کے مضمون سے مناسبت یہ ہے کہ وہ ہستی جس کی تسبیح ہر وہ چیز کرتی ہے جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز بھی جو زمینوں میں ہے ، تو تمام مخلوق کی طرح انسان کے لیے بھی اس کی تسبیح کرنا لازم ہے ۔ پھر جو لوگ تسبیح کی بجائے اس کے ساتھ کفر و شرک کرتے ہیں تو ایمان والوں پر ان کے ساتھ لڑنا فرض ہے ، کیونکہ وہ ساری کائنات کے الٹ چل رہے ہیں اور تسبیح کے بجائے اللہ تعالیٰ کے لیے شریک بنا کر اس کے تمام عیوب و نقائص سے پاک ہونے کی نفی کر رہے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر توہین کیا ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ کو وحدہ لا شریک لہٗ اور تمام صفات کمال کا مالک ماننے کے بجائے اس کے لیے اولاد اور شریک بنا کر اسے عاجز و محتاج ثابت کر رہے ہیں اور اس اکیلے کی عبادت کے بجائے ان چیزوں کو اس کی عبادت میں شریک بنا رہے ہیں جن کا زمین و آسمان کی پیدائش یا بقاء میں کوئی حصہ ہی نہیں ۔ اسی طرح ان لوگوں پر بھی چوٹ ہے جو ایمان لانے اور اللہ کی راہ میں قتال کے وعدے اور دعوے کے باوجود اس کی راہ میں لڑنے سے گریز کرتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کی تسبیح کا حق عملاً ادا نہیں کیا۔ ” سَبَّحَ ِﷲِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ۔۔۔۔۔ “ کی تفسیر سورة حدید اور سورة ٔ حشر کی ابتداء گزر چکی ہے ، اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی صفت ” العزیز “ لانے میں اشارہ ہے کہ جب وہ ہر ایک پر غالب ہے تو تم اس کے دشمنوں کے ساتھ لڑنے سے کیوں ڈرتے ہو اور صفت ” الحکیم “ لانے میں اشارہ ہے کہ اس نے تمہیں جو حکم دیا ہے کہ کفار سے لڑو اور انہیں اور ان کے کفر و شرک کو کسی صورت غالب نہ آنے دو تو یہ حکم بےمقصد نہیں ، بلکہ کمال حکمت پر مبنی ہے اور دنیا و آخرت میں تمہاری عزت اور کامیابی کا ضامن ہے۔ ( ابن عاشور) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Background of the revelation Tirmidhi has recorded, on the authority of Sayyidna ` Abdullah Ibn Salam (رض) ، that a group of Companions discussed among themselves that if we come to know which is the dearest of actions in the sight of Allah, we shall act upon it. Hakim reported this Tradition and graded its chain as sahib&. Baghawi in his citation added the following words: |"If we come to know which is the dearest of actions in the sight of Allah, we shall dedicate our lives and wealth to it.|" [ Mazhari ]. Ibn Kathir, with reference to Musnad of Ahmad, reports that some of the Companions gathered and wanted someone to go to Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and ask him about the action that is dearest to Allah, but no one dared to do so. Whilst this discussion was going on, the Holy Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) sent a man to call each one of them by name. When they all arrived, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited the entire Surah As-Saff which had been revealed just then. This Surah shows that the &dearest action& they were looking for was jihad in the cause of Allah& and their statement that &if we come to know about it, we shall dedicate our lives in acting upon it& was a sort of claim of having ability to do it. At this, they are admonished that it is not proper for any believer to make such a claim, because no one can for sure know whether he will be able to implement his intentions when the time arrives. It is not in his power that all the causes of action are made effective and all impediments are removed. Nor are the abilities and strengths of his hands or arms or limbs or organs altogether in his power. Nor is his determination or intention completely in his control. Therefore, even the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been instructed in the Qur&an, thus: وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ |"And never say about anything, &I am going to do this tomorrow, unless [ you say - &if ] Allah wills.) [ 18: 23-24] Although the intention of the blessed Companions was not to make a boastful claim, it did seem apparently as a claim, which Allah dislikes. If a person makes a commitment to do something in the future, he needs to surrender it to the Divine will and affirm it by saying &If Allah wills&. The following verses are revealed to admonish the believers.

خلاصہ تفسیر سب چیزیں اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں (قالاً یا حالاً ) جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں ہیں اور وہی زبردست حکمت والا ہے (پس جو ایسا باعظمت و شان ہو اس کی اطاعت ہر حکم میں ضروری ہے، جن میں سے ایک حکم جہاد کا ہے، جو اس سورت میں مذکور ہے، جس کے نزول کا سبب یہ ہے کہ ایک بار بعض مسلمانوں نے باہم تذکرہ کیا کہ اگر ہم کو کوئی ایسا عمل معلوم ہو جو حق تعالیٰ کے نزدیک نہایت محبوب ہے تو ہم اس کو عمل میں لاویں اور اس سے قبل جنگ احد میں بعضے جہاد سے بھاگ چکے تھے جس کا قصہ سورة آل عمران میں ہے اور نیز وقت نزول حکم جہاد کے بعض کو وہ حکم گراں گزرا تھا، جس کا قصہ سورة نساء میں ہے اس پر یہ ارشاد نازل ہوا) اے ایمان والو ! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو، خدا کے نزدیک یہ بات بہت ناراضی کی ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں، اللہ تعالیٰ تو ان لوگوں کو ( خاص طور پر) پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک عمارت ہے جس میں سیسہ پلایا گیا ہے (یعنی جس طرح یہ عمارت مستحکم ناقابل شکست ہوتی ہے، اسی طرح وہ مجاہدین دشمن کے مقابلہ سے ہٹتے نہیں، مطلب یہ ہوا کہ تم جو کہتے ہو کہ ہم کو وہ کام معلوم ہوتا .... جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے تو یہ عمل تو جہاد ہے پھر اس کے نزول کے وقت گرانی کیوں ہوئی تھی اور احد میں کیوں بھاگ گئے تھے، باوجود ان تمام امور کے پیش نظر ہونے کے نہایت نازیبا بات اور خدا کو ناپسند ہے، ایسے دعویٰ کی باتیں کرنا جس کا خلاف ہونا معلوم بھی ہوچکا ہے تو اس میں لاف زنی اور غلط دعویٰ پر زجر کیا گیا، وعظ بےعمل اس کے مفہوم سے خارج ہے) اور (آگے کفار کے مستحق قتل و قتال ہونے کی علت یعنی ایذاء رسانی، تکذیب، مخالفت رسول کا بیان فرمانا مقصود ہے اور اسی کی مناسبت سے موسیٰ (علیہ السلام) و عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ ذکر فرماتے ہیں پس ارشاد ہے کہ وہ وقت قابل ذکر ہے) جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم مجھ کو کیوں ایذا پہنچاتے ہو حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں (وہ ایذا میں مختلف طور پر تھیں جن میں سے بعض بعض قرآن مجید میں بھی خصوص سورة بقرہ میں مذکور ہیں اور حاصل ان سب کا سرکشی اور مخالفت ہے) پھر جب (اس فہمائش پر بھی) وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے (اور راہ پر نہ آئے) تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اور (زیادہ) ٹیڑھا کردیا (یعنی مادہ مخالفت اور عصیان کا اور زیادہ بڑھ گیا جیسا کہ قاعدہ ہے کہ گناہ پر مداومت کرنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف قلب کا میلان اور اس کی اطاعت کا جذبہ کم ہوتا چلا جاتا ہے) اور اللہ تعالیٰ (کا معمول ہے کہ وہ) ایسے نافرمانوں کو ہدایت (کی توفیق) نہیں دیتا (اسی طرح یہ لوگ رسول اللہ کو انواع مخالفت سے ایذائیں پہنچاتے ہیں، اس لئے ان کا ٹیڑھا پن اور فسق زیادہ ہوتا جاتا ہے کہ امید اصلاح کی نہیں رہی، پس ان کا فساد مٹانے کے لئے قتال کا حکم دینا مصلحت ہوا) اور (اسی طرح وہ وقت بھی قابل تذکرہ ہے) جبکہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے (ارشاد) فرمایا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو توراة (آ چکی) ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد جو ایک رسول آنے والے ہیں جن کا نام (مبارک) احمد ہوگا، میں ان کی بشارت دینے والا ہوں (اور اس بشارت کا عیسیٰ (علیہ السلام) سے منقول ہونا خود اہل کتاب کے بیان سے حدیثوں میں ثابت ہے، چناچہ خازن میں بروایتہ ابو داؤد بخاشی بادشاہ حبشہ کا جو کہ نصاریٰ کے عالم بھی تھے، یہ قول آیا ہے کہ واقعی آپ ہی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دی تھی اور خازن ہی میں تزمذی سے عبداللہ بن سلام کا قول جو کہ علماء یہود میں سے تھے آیا ہے کہ تورات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صف لکھی ہے اور یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) آپ کے ساتھ مدفون ہوں گے اور چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) تورات کے مبلغ تھے، اس لئے توراة میں اس بشارت کا ہونا نیز عیسیٰ (علیہ السلام) سے منقول کہا جاوے گا اور مولانا رحمت اللہ صاحب نے اظہار الحق میں خود توراة کے موجودہ نسخوں سے متعدد بشارتیں نقل کی ہیں جلد دوم صفحہ 164 مطبوعہ قسطنطنیہ اور ان مضامین کا نا جیل موجودہ میں نہ ہونا اس لئے مضر نہیں کہ حسب تحقیق علماء محققین انا جیل کے نسخے محفوظ نہیں رہے، مگر تاہم جو کچھ موجودہ ہیں ان میں بھی اس قسم کا مضمون موجود ہے، چناچہ یوحنا کی انجیل مترجمہ عربی مطبوعہ لندن سن 1831 ء و سن 1833 ء کے چودہویں باب میں ہے کہ ” تمہاری لئے میرا جانا ہی بہتر ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو فارقلیط تمہارے پاس نہ آوے، پس اگر میں جاؤں تو اس کو تمہارے پاس بھیج دوں گا “ فارقلیط ترجمہ احمد کا ہے، اہل کتاب کی عادت ہے کہ وہ ناموں کا بھی ترجمہ کردیتے ہیں، عیسیٰ (علیہ السلام) نے عبرانی میں احمد فرمایا تھا، جب یونانی میں ترجمہ ہوا تو بیرکلوطوس لکھ دیا جس کے معنی ہیں احمد یعنی بہت سراہا گیا، بہت حمد کرنے والا، پھر جب یونانی سے عبرانی میں ترجمہ کیا تو اس کو فارقلیط کردیا اور بعض عبرانی نسخوں میں ایک تک نام مبارک احمد موجود ہے، دیکھو پادری پار کہرست کی یہ عبارت دباد حمدہ خل ہکوٹیم از حمایت الاسلام مطبوعہ بریلی سن 1873 ء ص 8481 ترجمہ اپالوجی گاؤ فری ہینگنس مطبوعہ لندن سن 1829 ء اور اس فارقلیط کی نسبت اس انجیل یوحنا میں یہ الفاظ ہیں ” وہ تمہیں سب چیزیں سکھا دے گا “ یہ ہیں وہ الفاظ جو نبی مستقل ہونے پر دال ہیں اور پوری بحث اس مقام کی تفسیر حقانی میں ہے اس کا ایک شمہ نقل کیا گیا ہے، غرض عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ ارشاد فرمایا) پھر جب (یہ تمام مضامین ارشاد فرما کر اپنی نبوت کے اثبات کے لئے) وہ (عیسیٰ علیہ السلام) ان لوگوں کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو وہ لوگ (ان دلائل یعنی معجزات کی نسبت) کہنے لگے کہ یہ صریح جادو ہے (اور جادو بتا کر نبوت کی تکذیب کی، کمافی الماتدة واذکففت بنی اسرآئیل عنک اذ جئتہم بالبینت الخ اسی طرح بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور رسالت میں کفار موجودین نے آپ کی تکذیب کی اور مخالفت کی اور یہ ظلم عظیم ہے، پس اس ظلم کا تعدیہ مٹانے کے لئے قتال کا حکم دینا مصلحت ہوا) اور (واقعی) اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے، حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہو اور اللہ ایسے ظالم لوگوں کو ہدایت (کی توفیق) نہیں دیا کرتا (اللہ پر جھوٹ باندھنا یہ ہے کہ نبوت کی تکذیب کی، اثبات المنفی اور نفی المثبت یعنی جو چیز اللہ کی طرف سے نہ ہو اس کو اللہ کی طرف منسوب کرنا اور جو اللہ کی طرف سے واقع میں ہو اس کی نفی کرنا، دونوں افتراء علی اللہ ہیں اور وہو یدعی اس لئے بڑھایا کہ اس سے زیادہ تقبیح ہوگئی، یعنی خود تو متنبہ کرنے سے بھی متنبہ نہ ہوا اور واللہ لایہدی اس لئے بڑھایا کہ ان کی حالت موجودہ اصلاح سے بعید ہوگئی اس لئے سزائے قتال ہی تجویز کیا جانا مصلحت ہوا، چناچہ جس کو اب بھی اسلام کی خبر نہ پہنچی ہو اول اس کو دعوت اسلام کرنا چاہئے جس اس سے انکار کرے جو کہ ظاہراً علامت ناامیدی کی ہے تب جہاد مشروع ہے، آگے ترغیب جہاد کیلئے وعدہ نصرت و غلبہ حق اور مغلوبیت باطل ارشاد ہے کہ) یہ لوگ یوں چاہتے ہیں کہ اللہ کے تور (یعنی دین اسلام) کو اپنے منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں (یعنی تدبیرعملی کے ساتھ منہ سے بھی رد و اعتراض کی باتیں اس غرض سے کرتے ہیں کہ دین حق کو فروغ نہ ہو اور بعض اوقات قولی شبہات موثر ہوجاتے ہیں، یا یہ تمثیل ہے کہ ان کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی منہ سے نور الٰہی کو بجھانا چاہتا ہو یعنی ایسے طریقہ سے بجھاوے جس میں ناکام رہے) حالانکہ اللہ اپنے نور (مذکور) کو کمال تک پہنچا کر رہے گا گو کافر لوگ کیسے ہی ناخوش ہوں (چنانچہ) وہ اللہ ایسا ہے جس نے (اسی اتمام نور کے لئے) اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت ( کا سامان یعنی قرآن) اور سچا دین (یعنی اسلام) دے کر (دنیا میں) بھیجا ہے تاکہ اس (دین) کو (کہ وہ نورمذکور ہے) تمام (بقیہ) دینوں پر غالب کر دے (کہ یہی اتمام ہے) گو مشرک کیسے ہی ناخوش ہوں (وقد مر تفسیر الاتمام و الظہور فی سورة البراة فی مثل ہذہ الآیة) معارف و مسائل شان نزول : ترمذی نے حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کو روایت کر کے سند کو صحیح قرار دیا ہے کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے آپس میں یہ مذاکرہ کیا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے تو ہم اس پر عمل کریں، بغوی نے اس میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ ان حضرات میں سے بعض نے کچھ ایسے الفاظ بھی کہے کہ اگر ہمیں احب الاعمال عنداللہ معلوم ہوجائے تو ہم اپنی جان و مال سب اس کے لئے قربان کردیں (مظہری) ابن کثیر نے بحوالہ مسند احمد روایت کیا ہے کہ ان چند حضرات نے آپس میں جمع ہو کر یہ مذاکرہ کیا اور چاہا کہ کوئی صاحب جا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا سوال کریں مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی ابھی یہ لوگ اسی حالت پر تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب لوگوں کو نام بنام اپنے پاس بلایا ( جس سے معلوم ہوا کہ آپ کو بذریعہ وحی ان کا اجتماع اور ان کی گفتگو معلوم ہوگئی تھی) جب یہ سب لوگ حاضر خدمت ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوری سورة صف پڑھ کر سنائی جو اسی وقت آپ پر نازل ہوئی تھی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

سَبَّحَ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۚ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ ١ سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تمام مخلوقات اور ہر ایک زندہ چیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہیں اور اس کا ذکر کرتی ہیں اور وہی زبردست حکمت والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 This is a brief introduction to this discourse. For its explanation, see E.N.'s 1,2 of Surah AI-Hadid. The discourse has been opened with this introduction so that before hearing or reading what is going to follow, one may well understand that Allah is free from and far above this that the fimctioning of His Godhead should depend on someone s faith and another one's help and sacrifices. If He exhorts the believers to adopt sincerity in Faith and urges them to exert their utmost for the success and victory of the Truth, that is for the sake of their own good; otherwise the will of AIIah is accomplished by His own power and by His own design, whether somebody makes no effort at all towards its implementation, and whether the whole world joins together to frustrate and resist it stubbornly.

سورة الصَّف حاشیہ نمبر :1 یہ اس خطبہ کی مختصر تمہید ہے ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورۂ الحدید ، حاشیہ ۱ ۔ ۲ کلام کا آغاز اس تمہید سے اس لیے کیا گیا ہے کہ آگے جو کچھ فرمایا جانے والا ہے اس کو سننے یا پڑھنے سے پہلے آدمی یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور اس سے بالاتر ہے کہ اس کی خدائی کا چلنا کسی کے ایمان اور کسی کی مدد اور قربانیوں پر موقوف ہو ۔ وہ اگر ایمان لانے والوں کو ایمان میں خلوص اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ صداقت کا بول بالا کرنے کے لیے جان و مال سے جہاد کرو ، تو یہ سب کچھ ان کے اپنے ہی بھلے کے لیے ہے ۔ ورنہ اس کے ارادے اس کے اپنے ہی زور اور اس کی اپنی ہی تدبیر سے پورے ہو کر رہتے ہیں ، خواہ کوئی بندہ ان کی تکمیل میں ذرہ برابر بھی سعی نہ کرے ، بلکہ ساری دنیا مل کر ان کی مزاحمت پر تل جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: یہ بات کہ کائنات کی ہر چیز اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے، پیچھے کئی مقامات پر گذر چکی ہے، مثلاً سورۃ نور(۲۴:۳۶ اور ۴۱) اور سورۃ حشر (۵۹:۲۴) اور سورۃ بنی اسرائیل (۱۷:۴۴) میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ان کی تسیح کو سمجھتے نہیں ہو۔ پیچھے سورۃ حدید (۵۷) اور سورۃ حشر (۵۹) کو اور آگے سورۃ جمعہ (۶۲) اور سورۃ تغابن (۶۴) کو اﷲ تعالیٰ نے اسی حقیقت کے بیان سے شروع فرمایا ہے، اور بظاہر اس بات پر تنبیہ مقصود ہے کہ اﷲ تعالیٰ اگر تمہیں اپنی توحید پر ایمان لانے اور اپنی عبادت کرنے کا حکم دے رہا ہے تو اس میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ اُس کی ذات بے نیاز ہے، تم اُس کی عبادت کرو یا نہ کرو، کائنات کی ہر چیز اُس کے آگے سر بہ خم ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٤۔ ترمذی ‘ مستدرک حاکم وغیرہ میں معتبر سند سے جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ لڑائی کے حکم کے نازل ہونے سے پہلے بعض لوگ لڑائی کی آرزو ظاہر کرتے تھے جب لڑائی کا حکم نازل ہوا تو لڑائی سے گھبرانے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت ناخوش ہے کہ منہ سے کوئی شخص ایک بات کہے اور اس کے موافق عمل نہ کرے۔ اور صحیحین ٢ ؎ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ زبان سے وعدہ کرکے اس کے موافق عمل نہ کرنا اور روز مرہ کی بات چیت میں جھوٹ بولنا اور امانت میں خیانت کرنا یہ منافق کی پہچان کی باتیں ہیں جو لوگ نیک کام کا ارادہ ظاہر کرکے پھر اس کے موافق عمل نہیں کرتے ان کے ذکر سے پہلے آسمان و زمین میں جو مخلوق اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے اس کا ذکر اس لئے فرمایا کہ جن کا فعل ان کے قول کے موافق نہیں ہے ان کو یہ معلوم ہوجائے کہ اگر یہ لوگ کسی نیک کام کے کرنے کا ارادہ ظاہر کرکے اس کے موافق پھر وہ نیک عمل نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ کو ان کے نیک عمل کی کچھ پرواہ نہیں ان کے سوا اللہ کی ایک بڑی مخلوق اللہ کی مرضی کے موافق نیک کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ علاوہ اس کے اللہ تعالیٰ کی بادشاہت تو ایسی بےپرواہ بادشاہت ہے کہ نہ کسی کے نیک کام سے اس کی بادشاہت میں کچھ بڑھتا ہے نہ برے کام سے کچھ کم ہوتا ہے۔ صحیح ٣ ؎ مسلم کی ابوذر کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ساری مخلوق نیک ہوجائے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں کچھ بڑھ نہ جائے گا اور بد ہوجائے تو کچھ گھٹ نہ جائے گا بلکہ جو نیک عمل کرے گا وہ اس کا اجر پائے گا اور جو برا کام کرے گا وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا یہ حدی آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے۔ آخر آیتوں میں فرمایا اللہ کے دین کو پھیلانے کی لڑائی وہ چیز ہے جس کی مضبوط صف بندی اللہ کو بہت پسند ہے اس میں جو لوگ اس لڑائی سے گھبراتے ہیں ان کو گویا یہ تنبیہ فرمائی کہ جو کام اللہ کو پسند ہے اس سے پہلو تہی کرنا ایمان دار آدمی کا کام نہیں ہے۔ (٣ ؎ صیح مسلم باب تحریم الظلم ص ٣١٩ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(61:1) سبح اللہ : سبح ماضی واحد مذکر غائب تسبیح (تفعیل) مصدر اس نے پاکی بیان کی۔ تسبیح بمعنی سبحان اللہ کہنا۔ اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا۔ ما فی السموت : ما موصولہ فی السموت اس کا صلہ ۔ جو کوئی چیز آسمانوں میں ہے (نیز ملاحظہ ہو 57:1) العزیز : غالب۔ زبردست، عذۃ سے (فعیل) کے وزن پر بمعنی فاعل۔ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ الحکیم : حکمت والا۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی زبان حال یا قال سے شہادت دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر عیب اور ہر نقص سے پاک ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١ تا ٩ اسرار ومعارف۔ آسمانوں اور زمین کی ہر شے اللہ کی پاکی بیان کرتی ہے قال سے بھی اور حال سے بھی اور اللہ غالب ہے اور حکیم ہے سو اے ایمان والو جس کام کے کرنے کا ارادہ نہ ہو اس کے کرنے کا اعلان بھی مت کرو کہ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ بات کہوجوتم کرنا نہیں چاہتے۔ گناہ کبیرہ اور تبلیغ۔ جس طرح آج کل کے لیڈر بہت بڑے دعوے نفاذ اسلام کے یاروٹی کپڑے مکان کے کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ان کا ارادہ قلبی ایسا کرنے کا نہیں ہوتا یہ گناہ کبیرہ ہے رہی تبلیغ کہ خود تو عمل میں کمزور ہے اور دوسروں کو دعوت دے رہا ہے تو دعوی اور دعوت میں فرق ہے مبلغ کو چاہیے کہ خود بھی عمل کرے لیکن اگر کمزوری سے نہ کرسکے تو نیکی طرف دعوت دینے اور بلانے میں کوتاہی نہ کرے یہ ایسا عمل ہے جواز خود توفیق عمل عطا کردیتا ہے۔ اور اللہ کی رضا تو ان لوگوں کے لیے جو اس کی راہ میں جہاد اور قتال کرتے ہیں بزور بازو ظالم کو مٹاتے ہیں اور ایسے جم کر لڑتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی دیواریں ہوں اور ایسے نہ ہوں جیسے موسیٰ کی قوم کو جہاد کے حکم پر انکار کردیا کہ آپ لڑو اور آپ کا رب ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو انہوں نے فرمایا تم جانتے ہو میں اللہ کا رسول ہوں کوئی حکم اپنی طرف سے نہیں دیتا اس کے باوجود مجھے ایذا دیتے ہو یہ کس قدر زیادتی کی بات ہے۔ ایذارسول قلب سے کیفیات ختم کردیتی ہے۔ وہ باز نہ آئے تو اللہ نے دل پھیر دیے کیفیات ایمانی کم کردیں کہ اللہ ایسے بدکاروں کو جو اپنے رسول کی اطاعت نہ کرکے اس کا دل دکھانے کا سبب بنیں ہدایت نہیں دیتا۔ اور یہی حال عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہوا کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں اور اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرتا ہوں کوئی انوکھی بات نہیں کہہ رہا وہی عقیدہ پیش کررہا ہوں جو مجھ سے پہلے اللہ کے رسولوں اور اللہ کی کتابوں نے کیا۔ عیسی (علیہ السلام) کی بشارت۔ بلکہ اس پر یہ زائد کہ میں اپنے سے بعد میں آنے والے اس عظیم رسول کی خوش خبری بھی دے رہا ہوں جو میرے بعد مبعوث ہوں گے اور ان کا نام نامی احمد ہوگا اور واضح دلائل ارشاد فرمائے مگر انہوں نے کہا یہ سب جادو کا اور سحر کا کرشمہ ہے کہ ان کے معجزات عجیبہ تھے مردوں کا زندہ کردینا مٹی کے پرندوں میں روح پیدا ہوجانا اس طرح کے بیشمار بیماروں کی شفا وغیرہ انہیں حاصل تھے آپ کے بارے بشارت کو انجیل کی تحریف میں اگرچہ مسخ کرنے کی بہت کوشش کی گئی مگر پھر بھی موجود ہیں اور مولانا رحمت اللہ کر انوی کی کتاب اظہارالحق جس کا ترجمہ مولانااکبرعلی صاحب اور مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے کراچی سے شائع کیا ہے قابل مطالعہ ہے۔ کفار کا ارادہ تو ہمیشہ یہ رہا کہ اپنی کوششوں اور پراپیگنڈے سے اللہ کا نور یعنی دین اسلام کی شمع بجھادیں لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتے کہ اللہ نے اپنے دین کی روشنی کو پورا کرنا ہے خواہ کافروں کو یہ بات ناگوار ہی گزرے۔ اور اللہ وہ عظیم ذات ہے جس نے اپنے رسول یعنی حضرت محمد کو مبعوث فرمایا جن کا عظیم معجزہ ہے کہ ایسی کتاب لائے جس میں ساری انسانیت کے لیے صحیح درست اور نفع بخش نظام حیات بھی ہے اور دین حق بھی اور اس لیے لائے کہ اسے دنیا میں پھیلے ہوئے تمام نظام ہائے حیات اور مذاہب جو سب باطل ہیں پر غلبہ حاصل ہو اور انسانیت عقیدے اور عمل کی تباہی سے بچ جائے اور ایساضرور ہوگا اگرچہ مشرکین کو یہ بات بہت ناگوار گزرے۔ بعثت نبوی اور عظیم معجزہ۔ بعثت نبوی کے وقت روئے زمین پر کوئی اللہ کا نام جاننے والا نہ تھا اور ہر طرف کفر وشرک کے ساتھ ظلم کا دور دورہ تھا نیز بیشمار اقوام میں الگ الگ ادیان کے ساتھ الگ الگ نظام بھی رائج تھے جو سب ظلم پر مبنی تھے آپ نے ساری انسانیت کے لیے ایک نظام حیات دیا جو سیاست معیشت ، عدالت ، اخلاقیات تک سب پر محیط تھا جبکہ اقوام عالم میں زبانیں غذائیں ، لباس ، موسم اوقات تک مختلف تھے اور روئے زمین پر کفار ومشرکین کی بڑی بڑی حکومتیں موجود تھیں مگر اللہ کی مدد سے مسلمان صحرائے عرب سے اٹھے اور تکمیل کتاب کے ربع صدی بعد روئے زمین پر اسلام نہ صرف پہنچا دیا بلکہ معلوم دنیا کے ایک چوتھائی حصے پر عملا نافذ کردیا اور آج تک روئے زمین پر ہر جگہ ہر موسم میں اس پر عمل ہورہا ہے اگر آج کے مسلم کی کمزوری نے نظام اسلام ختم کردیا جو مسلمانوں کے ذمے فرض ہے کہ جہاد کرکے اسے رائج کریں مگر اسلامی احکام پر عمل آج بھی ویسا ہی ممکن اور آسان ہے جیسا روز اول تھا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ لم تقولون۔ تم کیوں کہتے ہو۔ کبر مقتا۔ بڑی بری بات۔ صفا۔ ایک صف (باندھ کر) ۔ بنیان۔ دیواریں۔ مرصوص (رص) ۔ سیسہ پلائی گئی مضبوط۔ لم تو ذوننی۔ تم مجھے کیوں ستاتے ہو ؟ کیوں مجھے اذیت دیتے ہو ؟ ۔ زاغوا۔ وہ ٹیڑھے ہوگئے۔ ازاغ ۔ اس نے ٹیڑھا کردیا۔ مبشرا۔ خوش خبری دینے والا۔ یدعی۔ وہ بلاتا ہے۔ یطفئوا۔ وہ بجھاتے ہیں۔ ارسل۔ اس نے بھیجا۔ لیظھرہ۔ تاکہ وہ اس کو غالب کردے۔ تشریح : مومن اور منافق میں فرق یہ ہے کہ مومن جو کچھ زبان سے کہتا ہے اس پر پوری طرح عمل کرتا ہے۔ وہ دنیا کے فائدے حاصل کرنے کے لئے جھوٹ، وعدہ خلافی، بددیانتی نہیں کرتا اور لڑائی جھگڑے کے وقت اخلاق اور شرافت کی حدوں کو نہیں پھلانگتا۔ مومن جرأت مند اور سخت سے سخت حالات کے سامنے ڈٹ کر صبر اور برداشت کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔ اس کے برخلاف منافق کی پہنچان یہ ہے کہ وہ نماز، روزہ، زکوٰۃ دیتے ہوئے بھی ریاکاری کرتا ہے اور اس کی زبان اور اس کا عمل مختلف ہوتا ہے۔ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے ان کے سامنے ڈھیر ہوجاتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور گذشتہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے زمانے میں مخلص اور جرأت مند مسلمانوں میں کچھ ایسے منافق اور مفاد پرست بھی رہے ہیں جو دنیا کے معمولی اور وقتی فائدوں کے لئے جس بات کو زبان سے کہتے اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اسی طرف متوجہ کیا ہے کہ وہ اپنی زبان سے جو بات بھی نکالیں اسی پر اسی طرح عمل کریں جیسا کہ حکم دیا گی ا ہے۔ کیونکہ اللہ کو ایسے لوگ سخت ناپسند ہیں جن کے قول اور عمل میں مطابقت اور یکسانیت نہیں ہوتی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافقی کی چند علامتیں بتائی ہیں تاکہ تمام مومن ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں اور اپنے اندر ان جیسی بری عادتوں کو پروان نہ چڑھنے دیں۔ بخاری و مسلم میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بیان کی گئی ہے۔ فرمایا کہ منافقی کی تین نشانیاں ہیں اگر چہ وہ نماز پڑھتا اور روزے رکھتا ہو اور مسلمان ہونے کا دعوے دار بھی ہو (1) جب بھی بولتا ہے تو وہ بات جھوٹ ہوتی ہے (2) جب وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے (3) اور جب اس کے پاس کوئی امانت رکھوائی جاتی ہے تو وہ اس میں خیانت اور بددیانتی کرتا ہے۔ بخاری و مسلم ہی کی دوسری روایت میں منافقین کی چار صفات کو بیان کیا گیا ہے۔ اور فرمایا کہ جس میں چار خصلتیں پائی جاتی ہیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں کوئی ایک صفت پائی جائے تو اس میں منافقت کی ایک خصلت اور صفت ہے۔ (1) جب اس کو کوئی امانت سپرد کی جائے تو وہ اس میں خیانت کرتا ہے (2) جب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے (3) جب کوئی عہد یا وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے (4) اور جب لڑتا ہے تو اخلاق اور دیانت کی حدیں توڑ ڈالتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ جو لوگ صراط مستقیم کو چھوڑ کر گمراہی کے راستوں پر پڑجاتے ہیں اللہ ان کو اسی گمراہی کے راستے پر بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ سراسر انسان کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ ہدایت اور گمراہی میں سے کس راستے کو منتخب کرتا ہے۔ سیدھا راستہ اختیار کرکے اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارتا ہے یا غلط اور گمراہی کا راستہ منتخب کرکے اپنی دنیا اور آخرت کی ابدی زندگی کو تباہ وبرباد کرلیتا ہے۔ اہل مکہ اور قیامت تک آنے والے انسانوں سے کہا جا رہا ہے کہ جب اللہ کے آخری نبی اور رسول محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لا چکے ہیں تو اب آپ کے بعد کوئی نیا نبی یا نئی شریعت نہیں آئے گی لہٰذا وہ گمراہی کا راستہ اختیار نہ کریں بلکہ ہدایت کے راستے پر آجائیں۔ فرمایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ کی طرف سے شریعت لے کر آئے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے دامن سے وابستگی کی وہی کامیاب رہے لیکن جنہوں نے ان کی مخالفت کی یا ان کے بتائے ہوئے راستے کے برخلاف دوسرے راستے اختیار کئے ان کی نہ صرف دنیا تباہ و برباد ہوئی بلکہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی آخرت کو بھی برباد کر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرمایا دیا کہ اللہ کسی انسان کی عبادت، تسبیح اور حمد وثنا کا محتاج نہیں ہے کیونکہ اگر تمام انسان اللہ کی حمدو ثنا نہیں کرین گے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ہر وقت اور ہر آن اس کی حمدو ثنا میں لگا ہوا ہے اور جس کو جو حکم دیدیا گیا ہے اور اس کی تعمیل کر رہا ہے۔ ایمان والوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم بھی وہی کرو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ تمہاری زبان اور عمل میں ایسی مطابقت ہونی چاہیے کہ تم جو کچھ زبان سے کہتے ہو اس پر اسی طرح عمل کرو اور اگر ایمان کا دعویٰ ہے تو جب اہل ایمان اور دین پر مشکل وقت آجائے تو پھر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جائو تاکہ کفر کی مجال نہ ہو کہ وہ اہل ایمان کی آنکھون میں آنکھیں ڈال کر بات بھی کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا جنہیں ان کی قوم نے سخت اذیتیں پہنچائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا جیسا کہ تم جانتے ہو اور تم معجزات بھی دیکھ چکے ہو اور تمہیں معلو ہے کہ اللہ نے مجھے اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے پھر تم مجھے تکلیفیں کیوں پہنچاتے ہو ؟ مگر قوم اپنی گمراہی میں آگے ہی بڑھتی چلی گئی۔ آخر کار اللہ نے کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ انہیں ہر سیدھی بات الٹی نظر آنے لگی۔ اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کی گمراہ قوم کی ہدایت کے لئے بھیجا تھا۔ حضرت عیٰسی (علیہ السلام) نے توریت کی تصدیق کی اور بتایا کہ میرے بعد ایک ایسے پیغمبر تشریف لانے والے ہیں جن کا نام ” احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ ہوگا۔ تم میری بات بھی مانو اور ان کی بات بھی ماننا۔ ان کی قوم نے معجزات کو کھلی آنکھوں سے دیکھا لیکن ان کو تسلیم نہیں کیا اور وہ قوم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دشمنی میں اتنی آگے بڑھ گئی کہ اللہ کے پیغمبر کو سولی پر لٹکانے کے لئے تیار ہوگئی۔ اللہ نے اپنی قدرت سے ان کو آسمانوں پر اٹھا لیا اور اب وہ قیامت کے قریب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک امتی کی حیثیت سے دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودو نصاری سے فرمایا ہے کہ اگر تم نے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح اذیتیں پہنچائیں جس طرح تم نے اپنے پیغمبروں کو تکلیفیں پہنچائی تھیں تو پھر اب تمہاری ہدایت کا کوئی طریقہ باقی نہ بچے گا۔ لہٰذا تم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن سے وابستگی اختیار کرلو۔ دنیا اور آخرت کی ساری کامیابیاں اسی میں پوشیدہ ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ پس جو ایسا باعظمت و شان ہو، اس کی اطاعت ہر حکم میں ضرور ہے، جن میں ایک حکم جہاد کا ہے جو اس سورة میں مذکور ہے جس کے نزول کا سبب یہ ہے کہ ایک بار بعض مسلمانوں نے باہم تذکرہ کیا کہ اگر ہم کو کوئی ایسا عمل معلوم ہو جو حق تعالیٰ کے نزدیک نہایت محبوب ہو تو ہم اس کو عمل میں لاویں، اور اس کے قبل جنگ احد میں بعضے جہاد سے بھاگ چکے تھے، نیز وقت نزول حکم جہاد کے بعض کو وہ حکم گراں گزرا تھا اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : سورة الممتحنہ میں مسلمانوں کو کفار اور مشرکین کے ساتھ رشتہ داری کرنے اور قلبی محبت رکھنے سے منع کیا گیا۔ سورة الصف کی ابتدا میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اگر کفار اور مشرکین کی طرح ایماندار لوگ بھی اللہ کی ذات اور اس کے فرمان کا انکار کردیں تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اس کے تابع اور اس کی حمد وثناء بیان کرتی ہے۔ یہ سورت مسبّحات میں سے تیسری سورت ہے۔ اس کا آغاز بھی اسی پرجلال لفظ سے کیا گیا ہے جس سے سورة الحدید اور سورة الحشر کا آغاز ہوا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ جو چیز آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اللہ ذوالجلال کی تسبیح کرتی ہے اور زبان حال اور قال سے اس کا اعتراف کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے ہر چیز پر غلبہ رکھنے والا ہے۔ اس کی تخلیق، حکم اور کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ وہ ” اَلْعَزِیْرُ “ بھی اور ” اَلْحَکِیْمُ “ بھی۔ (عَنْ اَبِیْ مَالِکِ الْاَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِےْمَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاُ الْمِےْزَانَ وَسُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاٰنِ اَوْ تَمْلَأُ مَا بَےْنَ السَّمٰوٰتِ وَالاْرَضِ ) (رواہ مسلم : باب فَضْلِ الْوُضُوءِ ) حضرت ابومالک اشعری (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے، ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ کے الفاظ میزان کو بھر دیتے ہیں۔ ” َسُبْحَان اللّٰہِ “ اور ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ دونوں کلمے زمین و آسمان کو بھر دیتے ہیں۔ ” اللہ کی پاکی اس کی تعریف کے ساتھ اس کی مخلوق کی تعداد، اس کے نفس کی رضامندی، اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی مقدار کے برابر۔ “ (رواہ مسلم : باب التسبیح أول النھار وعند النوم)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ عزیز و حکیم کی تسبیح پوری کائنات کررہی ہے۔ سورت کے آغاز میں یہ بات لاکر اہل ایمان کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ تمہارا دین اس پوری کائنات کا دین ہے۔ اور یہ دین توحید ہے۔ اور تم اس کے امین ہو۔ اور کافرین اور مشرکین کا موقف غلط ہے اور وہ اس دین کی روشنی کو بجھانا چاہتے ہیں۔ اللہ تمہیں دعوت دے رہا ہے کہ اس دین اور اس رسول کی نصرت کرو اور اللہ نے اس دین کا غلبہ مقرر کر رکھا ہے۔ اگرچہ کافر اور مشرک تو اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں ، لیکن اللہ نے فیصلہ کردیا ہے کہ ان کے علی الرغم اسے غالب کرنا چاہتا ہے۔ اس آغاز کا مفہوم یہ ہے کہ یہ پوری کائنات کا دین ہے اور پوری کائنات کی امانت ہے۔ اور جس نظریہ کے لئے تم نے جہاد کرنا ہے وہ پوری کائنات کا نظریہ ہے اور اس دین کا ظہور اور غلبہ دراصل ایک قدرتی امر ہے ، اور اللہ عزیز و حکیم کی منشا اور تقدیر ہے۔ اس کے بعد بعض مومنین کی جانب سے کمزوری کے اظہار پر عتاب کیا جاتا ہے ، کہ دین کے معاملے میں جہاد سے جو شخص منہ موڑے گا ، اسے اللہ بہت ہی ناپسند کرتا ہے اور اسے قابل شرم قرار دیتا ہے ، خصوصاً ان لوگوں کی جانب سے جو ایمان لائے ہیں جب کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کو اللہ بہت پسند کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو کام نہیں کرتے ان کے دعوے کیوں کرتے ہو ؟ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) سے روایت ہے کہ ہم چند صحابہ بیٹھے ہوئے تھے آپس میں ہم نے (اچھے) اعمال کا تذکرہ کیا اور ہم نے کہا کہ اگر ہمیں پتہ چل جاتا کہ کون ساعمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے تو ہم اس عمل کو اختیار کرلیتے اس پر اللہ جل شانہ نے ﴿سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ٠٠١ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ٠٠٢﴾ نازل فرمائی۔ (سنن الترمذی ابواب التفسیر سورة الصف) اور معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ جب صحابہ نے کہا کہ اگر ہمیں معلوم ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے تو ہم اس عمل کو اختیار کرلیتے اور ہم اپنے جان و مال خرچ کرتے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ ﴾ نازل فرمائی پھر قریب ہی غزوہ احد کا واقعہ پیش آگیا جب اس میں ابتلا ہوا تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ٠٠٢﴾ نازل فرمائی کہ تم وہ بات کیوں کہتے ہو جسے کرتے نہیں۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ جب شہداء بدر کا ثواب سنا تو صحابہ نے کہا کہ اگر آئندہ ہم کسی جہاد کے موقعہ پر حاضر ہوئے تو پوری قوت کے ساتھ جنگ کریں گے پھر اگلے سال جب غزوہ احد کا موقع آیا تو بھاگ کھڑے ہوئے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وہ بات کیوں کہتے ہو جسے کرتے نہیں ہو۔ روح المعانی میں ابن زید (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جو وہ مسلمانوں سے جھوٹے وعدے کیا کرتے تھے کہ ہم مدد کریں گے پھر ساتھ نہیں دیتے تھے۔ مفسر قرطبی نے ایک اور بھی قصہ لکھا ہے کہ وہ یہ کہ ایک شخص مسلمانوں کو بہت ایذا دیتا تھا۔ حضرت صہیب (رض) نے اسے قتل کردیا قتل تو کیا انہوں نے لیکن ایک آدمی نے اس عمل کو اپنی طرف منسوب کرلیا اور خدمت عالی میں جاکر عرض کیا کہ فلاں شخص کو میں نے قتل کیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے قتل کی خبر سے خوشی ہوئی اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے حضرت صہیب (رض) کو توجہ دلائی کہ تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر کیوں نہ دی کہ میں نے قتل کیا ہے دوسرے شخص نے اسے اپنی طرف منسوب کرلیا۔ (اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غلط خبر دیدی) اس پر صہیب (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحیح صورت حال بتادی۔ اس پر آیت کریمہ ﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ٠٠٢﴾ نازل ہوئی۔ جس میں غلط خبر دینے والے آدمی کو تنبیہ فرمادی۔ آیت کریمہ کا سبب نزول اگر وہ سب امور ہوں جن کا مذکورہ بالا روایات میں تذکرہ کیا گیا ہے تو اس میں کچھ بعد نہیں ہے آیت میں مسلمانوں کو جو عمومی خطاب فرمایا ہے سب کو اس میں غور کرنا لازم ہے ہر شخص آیت کے مضمون کو سوچے اور اپنی جان پر نافذ کرے اور یہ دیکھے کہ زندگی میں کیا کیا جھول جھال ہیں اور قول اور فعل میں جو یکسانیت ہونی چاہئے وہ ہے یا نہیں، ہر مسلمان ایمان کے تقاضے پورے کرے اللہ تعالیٰ سے جو وعدے كئے ہیں ان کو پورا کرے جو نذر کرے اسے پوری کرے جس کسی سے جو وعدہ کرے اسے بھی پورا کرے۔ (بشرطیکہ گناہ کا وعدہ نہ ہو، گناہ کا وعدہ کرنا بھی گناہ ہے اور اسے پورا کرنا بھی گناہ ہے) جو کوئی کام خیر کا نہ کیا ہو اسے اپنی طرف منسوب نہ کرے، لوگوں کے سامنے دینی باتیں بیان کرے اور امرو نہی والی آیات اور احادیث پڑھ کر سنائے اور اس پر خود بھی عمل کرے۔ ﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ٠٠٢﴾كے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ﴿ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ٠٠٣ ﴾ (اللہ کے نزدیک یہ ناراضگی کی بات ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو) ۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کی ہر شخص کوشش کرے اور اپنے قول اور فعل میں یکسانیت رکھے۔ ان خطباء کی بد حالی جن کے قول وفعل میں یکسانیت نہیں : حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے سیر کرائی گئی اس رات میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں، میں نے جبرائیل سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب ہیں جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور اپنی جانوں کو بھول جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ آپ کی امت کے خطیب ہیں جو وہ باتیں کہتے ہیں جن پر خود عامل نہیں اور اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور عمل نہیں کرتے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٣٨) واضح رہے کہ آیت کریمہ کا مضمون یہ ہے کہ اپنے قول وفعل میں یکسانیت رکھو جو بات کرو تمہارا اپنا عمل بھی اس کے مطابق ہو اس میں دعوت و تبلیغ امر بالمعروف ونہی عن المنکر بھی آگیا۔ آیت کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ عمل نہیں کرتے تو دینی باتیں بھی نہ کرو بلکہ مطلب یہ ہے کہ خیر کی باتیں بھی کرو اور ان پر عمل بھی کرو، یہ بات اس لئے واضح کی گئی کہ بہت سے وہ لوگ جو بےعمل ہیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر نہیں کرتے اور یوں کہتے ہیں کہ جب ہم عمل نہیں کرتے تو ہم تبلیغ کر کے گناہگار کیوں بنیں یعنی کہ سورة الصف کی مخالف کیوں کریں۔ یہ ان لوگوں کی جہالت ہے اور نفس کی شرارت ہے۔ قرآن کریم نے یہ تو نہیں فرمایا کہ نہ حق کہو نہ عمل کرو، قرآن کریم کا مطلب تو یہ ہے کہ دونوں عمل کرو یہ بھی سمجھانا چاہئے کہ احکام شرعیہ پر چلنے کا مستقل حکم ہے اور حق بات کہنے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنے کا مستقل حکم ہے۔ ایک حکم چھوٹا ہوا ہے تو دوسرے حکم کو چھوڑ کر گناہگار کیوں ہوں جس جس موقع پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فرمان انجام دینے کا حکم ہے اسے پورا کریں دونوں حکموں کو چھوڑ کردوہرے گناہگار کیوں ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : كلكم راع وكلكم مسول عن رعیتہ کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے ان کے بارے میں سوال ہوگا جن کی نگرانی سپرد کی گئی ہے۔ (رواہ البخاری صفحہ ٧٨٣: ج ٢) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ( من رای منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ و ذلک اضعف الایمان۔ ) (تم میں سے جو کوئی شخص منکر یعنی خلاف شرع کام دیکھے تو اسے ہاتھ سے بدل دے سو اگر ہاتھ سے بدلنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے بدل دے سو اگر زبان سے بدلنے کی طاقت نہ ہو تو دل سے بدل دے یعنی دل سے خلاف شرع کام کو برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے) ۔ (رواہ مسلم صفحہ ٥١: ج ١) اس حدیث میں ہر شخص کو برائی سے روکنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ تبلیغ بھی کرو اور عمل بھی کرو۔ آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نہ عمل کرو نہ تبلیغ کرو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” سبح للہ “ ابتداء میں مضمون توحید کا عادہ کیا گیا تاکہ یہ بات ذہن میں رہے کہ جہاد و قتال اسی مسئلہ کی خاطر ہے۔ اس آیت کی تفسیر کئی بار گذر چکی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) ہروہ چیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور وہ کمال قوت و حکمت کا مالک ہے۔ مخلوق کی تسبیح کرنے کا ذکر سورة حشر میں ہوچکا ہے تمام مخلوق کی تسبیح اور پاکی بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز قالاً تسبیح کرتی ہو یا اس کے حال اور اس کی کیفیت سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کا اظہار ہوتا ہو۔