Surat us Saff

Surah: 61

Verse: 11

سورة الصف

تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾

[It is that] you believe in Allah and His Messenger and strive in the cause of Allah with your wealth and your lives. That is best for you, if you should know.

اللہ تعالٰی پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم میں علم ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

That you believe in Allah and His Messenger, and that you strive hard and fight in the cause of Allah with your wealth and your lives, that will be better for you, if you but know! this is better than the trade of this life and striving hard for it and amassing it. Allah the Exalted said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تُؤْمِنُوْنَ بِ اللہ ِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ ۔۔۔۔: یہ اس تجارت کی تفسیر ہے ، یعنی وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔” تُؤْمِنُوْنَ بِ اللہ ِ وَرَسُوْلِہٖ “ فعل مضارع فعل امر کے معنی میں ہے ، اسے مضارع لانے سے امر کی تاکید مقصود ہے ، جیسا کہ کسی کام کی تاکید مقصود ہو تو یہ کہنے کے بجائے کہ یہ کام کرو ، کہا جاتا کہ تم یہ کام کرو گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ( ...you believe in Allah and His Messenger, and carry out jihad in His way with your riches and your lives....61:11) This verse refers to &faith and jihad (struggle) in Allah&s way with one&s wealth and life& as a trade, because when man invests wealth in trade and works hard, he gains profit. Likewise, when man believes in Allah and invests his life and wealth in His cause, he incurs Allah&s pleasure and attains the eternal blessings of the Hereafter, which is mentioned in the forthcoming verse that whoever carries out this trade, Allah will forgive his sins and provide him with dwellings in the Gardens of Eternity with all sorts of luxuries and comforts, as is mentioned by the Holy Prophet in explanation of &pleasant dwellings&. Alongside the blessings of the Hereafter, the next verse promises some blessings of this world too:

معارف و مسائل تُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ، اس آیت میں ایمان اور مجاہدہ بالمال والنفس کو تجارت فرمایا ہے، کیونکہ جس طرح تجارت میں کچھ مال خرچ کرنے اور محنت کرنے کے صلہ میں منافع حاصل ہوتے ہیں ایمان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جان و مال خرچ کرنے کے بدلے میں اللہ کی رضا اور آخرت کی دائمی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں، جس کا ذکر اگلی آیت میں ہے کہ جس نے یہ تجارت اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دے گا اور جنت میں اس کو پاکیزہ و بہترین مساکن و مکانات عطا فرما دے گا، جن میں ہر طرح کے آرام و عیش کے سامان ہوں گے جیسا کہ حدیث میں مساکن طیبہ کی تفسیر میں اس کا بیان آیا ہے، آگے آخرت کی نعمتوں کے ساتھ کچھ دنیا کی نعمتوں کا بھی وعدہ فرماتے ہیں :۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ۝ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝ ١١ ۙ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» «1» . والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» «2» . ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ ١{ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ } ” (وہ یہ کہ) تم ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور جہاد کرو اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ۔ “ یعنی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسے ایمان لائو جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے۔ سورة النساء کی یہ آیت بھی اسی مفہوم میں اہل ایمان کو ایمان لانے کا حکم دے رہی ہے : { یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ…} (آیت ١٣٦) ” اے ایمان والو ! ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر… “ گویا یہ ایمان کے دعوے داروں کے لیے ایسا مومن بننے کی دعوت ہے جو سورة الحجرات کی اس آیت کے معیار پر پورے اترتے ہوں : { اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِط } (آیت ١٥) ” مومن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ‘ پھر شک میں ہر گز نہیں پڑے اور انہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں۔ “ { ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّــکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ } ” یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15 When the believers are asked to believe, it automatically gives the meaning that they should become sincere Muslims: they should not rest content with oral profession of the Faith but should be ready and willing to make every sacrifice in the cause of their Faith. 16 That is, this bargain is far superior for them to every worldly bargain.

سورة الصَّف حاشیہ نمبر :15 ایمان لانے والوں سے جب کہا جائے کہ ایمان لاؤ ، تو اس سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں کہ مخلص مسلمان بنو ۔ ایمان کے محض زبانی دعوے پر اکتفا نہ کرو بلکہ جس چیز پر ایمان لائے ہو اس کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ سورة الصَّف حاشیہ نمبر :16 یعنی یہ تجارت تمہارے لیے دنیا کی تجارتوں سے زیادہ بہتر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(61:11) تؤمنون باللہ۔ مضارع واحد مؤنث غائب ایمان (افعال) مصدر۔ تم ایمان لاؤ گے۔ یا لاتے ہو۔ اللہ کے ساتھ۔ ویجاھدون واؤ عاطفہ۔ تجاھدون صیغہ جمع مذکر مضارع معروف۔ مجاھدۃ (مفاعلۃ) مصدر ۔ بمعنی دشمن کی مدافعت میں مقدور بھر کوشش و طاقت صرف کرنا۔ تم جہاد کرتے ہو۔ جہاد کی تین قسمیں ہیں :۔ (1) ظاہری دشمن سے جہاد۔ (2) شیطان سے جہاد۔ (3) نفس سے جہاد۔ تجاھدون کا عطف تؤمنون پر ہے۔ جملہ تؤمنون باللہ ۔۔ وانفسکم استیناف بیانیہ ہے۔ جیسا کہ کہا جائے ما ھذہ التجارۃ ؟ ولنا علیہا۔ اور جواب میں کہا جائے : تؤمنون باللہ ۔۔ الخ۔ ہر دو مواقع پر (تؤمنون ، وتجاھدون) مضارع بمعنی امر ہے ۔ پوچھا جائے وہ کونسی تجارت ہے جو ہمیں عذاب الیم سے نجات دے گی ؟ اور جواب دیا جائے کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے۔ ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون ۔ ان کنتم تعلمون جملہ شرط ہے ۔ شرط مؤخر۔ ذلکم خیر لکم جواب شرط مقدم ہے۔ ذلکم : ذا اسم اشارہ کم ضمیر جمع مذکر حاضر خطاب کے لئے ہے۔ یہ یہی۔ اس میں ایمان باللہ ایمان بالرسول و جہاد فی سبیل اللہ مشار الیہ ہے۔ خیر افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ یعنی خواہشات کی پیروی کرنے اور جان و مال کو راہ خدا میں خرچ نہ کرنے سے بہتر ہے۔ ان کنتم تعلمون : اگر تم کچھ سمجھ رکھتے ہو تو سمجھو اور یہ تجادت کرو اس کو نہ چھوڑو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تومنون ................ ورسولہ (١٦ : ١١) ” ایمان لاﺅ اللہ اور اس کے رسول پر “۔ وہ تو اللہ اور رسول پر ایمان لاچکے تھے۔ اور وہ جب جواب سنتے ہیں تو ان کے دل روشن ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ جواب شرط تو پہلے سے ان کے اندر موجود ہے۔ وتجاھدون ........................ وانفسکم (١٦ : ١١) ” اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے “۔ اور یہی اس صورت کا مضمون اور محور ہے۔ اس انداز میں یہ آتارہا ہے ، بار بار تکرار کے ساتھ ، اس طرح اسے مضمون کے اندر بار بار دہرایا جاتا ہے۔ یہ اس لئے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ انسان کو تربیت دینے کے لئے بار بار کی یاددہانی کی ضرورت ہے۔ مختلف انواع و دلائل اور مختلف قسم کی تائید وتاکید کے ساتھ تاکہ اس قدر پر مشقت فرائض کی ادائیگی کے لئے نفس انسانی تیار ہوجائے۔ کیونکہ اس قسم کے پر مشقت فرائض کی ادائیگی کے بغیر نہ اسلامی منہاج یہاں زندہ رہ سکتا ہے اور نہ اس کو بچایا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد اس تجارت پر مزید تبصرہ کیا جاتا ہے اور اس تجارت کی تعریف وتحسین کی جاتی ہے۔ ذلکم .................... تعلمون (١٦ : ١١) ” یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو “۔ اس لئے کہ انسان کسی بھلائی کی طرف تب ہی لپکتا ہے جب اسے علم ہو کہ بھلائی یہ ہے۔ اس کے بعد اگلی آیات میں اس بھلائی اور تجارت کی مزید تفصیلات دی جاتی ہیں۔ کیونکہ اجمال کے بعد تفصیلات کا اثر بہت ہوتا ہے۔ اس طرح بات احساس میں مسقلا بیٹھ جاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) وہ یہ کہ تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرو۔ یعنی اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانیں لڑادو۔ یہ ایمان اور جہاد تمہارے لئے بہت بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ یعنی یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا اور اپنے مال اور اپنی جانوں کی پروانہ کرنا یہ تمہاری بقا اور تحفظ کے لئے بہت ہی بہتر ہے بشرطیکہ م کو کچھ سمجھ ہو اور جہاد کے منافع اور فوائد تمہارے پیش نظر ہوں۔