Surat us Saff

Surah: 61

Verse: 7

سورة الصف

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ وَ ہُوَ یُدۡعٰۤی اِلَی الۡاِسۡلَامِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۷﴾

And who is more unjust than one who invents about Allah untruth while he is being invited to Islam. And Allah does not guide the wrongdoing people.

اس شخص سے زیادہ ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ ( افتراء ) باندھے حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Most Unjust among all People Allah said, وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَى إِلَى الاِْسْلَمِ ... And who does more wrong than the one who invents a lie against Allah, while he is being invited to Islam? meaning, none is more unjust than he who lies about Allah and calls upon rivals and associates partners with Him, even while he is being invited to Tawhid and sincerely worshipping Him. This is why Allah said, ... وَاللَّهُ لاَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ And Allah guides not the people who are wrongdoers. Allah said,

سطوت و اتمام نور ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر جھوٹ افترا باندھے اور اس کے شریک و سہیم مقرر کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اگر یہ شخص بےخبر ہوتا جب بھی ایک بات تھی یہاں تو یہ حالت ہے کہ وہ توحید اور اخلاص کی طرف برابر بلایا جا رہا ہے ، بھلا ایسے ظالموں کی قسمت میں ہدایت کہاں؟ ان کفار کی چاہت تو یہ ہے کہ حق کو باطل سے رد کر دیں ، ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی سورج کی شعاع کو اپنے منہ کی پھونک سے بےنور کرنا ہے ، جس طرح اس کے منہ کی پھونک سے سورج کی روشنی کا جاتا رہنا محال ہے ۔ اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ اللہ کا دین ان کفار سے رد ہو جائے ، اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کر کے ہی رہے گا ، کافر برا مانیں تو مانتے رہیں ۔ اس کے بعد اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے دین کی حقانیت کو واضح فرمایا ، ان دونوں آیتوں کی پوری تفسیر سورہ برات میں گذر چکی ہے ۔ فالحمد اللہ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی اللہ کی اولاد قرار دے، یا جو جانور اس نے حرام قرار نہیں دیئے ان کو حرام باور کرائے۔ 7۔ 2 جو تمام دینوں میں اشرف اور اعلٰی ہے، اس لئے جو شخص ایسا ہو، اس کو کب یہ زیب دیتا ہے یہ وہ کسی پر بھی جھوٹ گھڑے، چہ جائیکہ اللہ پر جھوٹ باندھے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] نصاریٰ نے اللہ پر کیا کیا بہتان باندھے ؟ اس سے مراد عیسائیوں کے وہ مختلف قسم کے بہتان ہیں جو انہوں نے اللہ پر لگا رکھے تھے۔ کبھی کہتے کہ عیسیٰ ابن مریم اللہ کا بیٹا ہے۔ کبھی کہتے کہ یہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے اور کبھی کہتے کہ عیسیٰ ہی اللہ ہے۔ اور اللہ عیسیٰ کے جسم میں حلول کر آیا ہے۔ ان کے علاوہ ان کی بہتان بازیاں یہ تھیں کہ اناجیل کی عبارتوں میں خود ہی اپنی حسب پسند اضافے بھی کرلیتے تھے اور جو چیزیں موجود تھیں ان کی تاویل یا انکار بھی کردیتے تھے۔ اور ان سب باتوں سے بڑھ کر ظلم یہ کیا کہ جب نبی آخرالزمان نے انہیں اسلام لانے کی دعوت دی تو اپنے اختراع کردہ بہتانوں کو حقیقی بنیادبنا کر بنائے فاسد علی الفاسد کے مصداق اس نبی کو جھٹلا دیا۔ جو لوگ اللہ پر افترا کرنے میں بھی اتنے جری اور دلیر ہوگئے ہوں انہیں ہدایت کیسے نصیب ہوسکتی ہے ؟ اللہ کا یہ دستور نہیں کہ ایسے ظالموں کو زبردستی راہ ہدایت پر لے آئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہ ِ الْکَذِبَ وَھُوَ یُدْعٰٓی ۔۔۔۔۔: یعنی اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اسلام میں داخل ہونے کی اور اللہ کا فرماں بردار بن جانے کی دعوت دی جا رہی ہو تو وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ دے ۔ اللہ پر جھوٹ یہ ہے کہ اس کے بھیجے ہوئے رسول کو ، جس کی بشارت اس سے پہلے ان کے نبی عیسیٰ و موسیٰ (علیہما السلام) دے چکے تھے ، انہوں نے جادوگر اور اس کی لائی ہوئی بینات کو جادو کہہ دیا ۔ دیدہ و دانستہ جھوٹ باندھنے والے ایسے ظالم لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا ۔ یہی مضمون سورة ٔ انعام ( ٢٠، ٢١) میں بیان ہوا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَي اللہِ الْكَذِبَ وَہُوَ يُدْعٰٓى اِلَى الْاِسْلَام۝ ٠ ِۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ٧ ۚ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) القری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہودیوں سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر بہتان لگاتے ہیں حالانکہ رسول اکرم ان کو توحید کی طرف بلا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے یہودیوں کو ہدایت کی توفیق نہیں دیا کرتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧{ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ } ” اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ تراشے “ { وَہُوَ یُدْعٰٓی اِلَی الْاِسْلَامِ } ” درآں حالیکہ اسے بلایا جا رہاہو اسلام کی طرف ! “ یعنی اب اللہ کے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم لوگوں کو دعوت ایمان و اسلام دے رہے ہیں اور تم لوگ اس دعوت پر لبیک کہنے کے بجائے ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت اور قرآن کے بارے میں اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو۔ { وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ } ” اور اللہ ایسے ظالموں کو (زبردستی) ہدایت نہیں دیتا۔ “ اب اگلی آیت میں یہودیوں کی ان کوششوں اور سازشوں کا ذکر ہے جو انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے خلاف شروع کر رکھی تھیں۔ یہ آیت زیر مطالعہ مضمون کے کلائمکس کا درجہ رکھتی ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9 The word sehr here does not mean magic but deception and fraud, which is also a well known meaning of this word in Arabic. Thus, the verse means: "When the Prophet whose coming had been foretold by the Prophet Jesus came with the clear signs of his prophethood, the Israelites and the followers of Jesus,declared his claim to Prophet hood to be a deception and fraud." 10 "... forges ... against Allah": declares the Prophet sent by Allah to be a false prophet and regards the Revelations of Allah to His Prophet as forged by the Prophet himself. 11 That is, there could be no greater in justice than that besides calling a true Prophet a false prophet, one should start hurling abuses on him and employing all sorts of lies and false allegations and slanders to defeat his mission although the Prophet is calling him to Allah's worship and His obedience.

سورة الصَّف حاشیہ نمبر :10 یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے نبی کو جھوٹا مدعی قرار دے ، اور اللہ کے اس کلام کو جو اس کے نبی پر نازل ہو رہا ہو ، نبی کا اپنا گھڑا ہوا کلام ٹھہرائے ۔ سورة الصَّف حاشیہ نمبر :11 یعنی اول تو سچے نبی کو جھوٹا مدعی کہنا ہی بجائے خود کچھ کم ظلم نہیں ہے ، کجا کہ اس پر مزید ظلم یہ کیا جائے کہ بلانے والا تو خدا کی بندگی و اطاعت کی طرف بلا رہا ہو اور سننے والا جواب میں اسے گالیاں دے اور اس کی دعوت کو زک دینے کے لیے جھوٹ اور بہتان اور افترا پردازیوں کے ہتھکنڈے استعمال کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: جس شخص کو اِسلام کی دعوت دی جائے، اور وہ کسی پیغمبر کی رِسالت کا انکار کرے تو درحقیقت وہ اﷲ تعالیٰ پر یہ جھوٹ باندھتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو پیغمبر بنا کر نہیں بھیجا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧۔ ٨۔ اوپر یہود کی شرارتوں کا اور توراۃ میں ان سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق کا عہد جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی لیا گیا تھا اس کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا کہ ایسے شخص سے بڑھ کر ظالم اور ناانصاف دنیا میں کون ہوسکتا ہے جو تورات کو مانے اور تورات میں جو عہد ہے اس کو جھٹلائے اور صاحب اولاد ہونے کا بہتان تورات کے برخلاف اللہ تعالیٰ پر لگا گئے اور تورات کے عہد کے موافق عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو معجزے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آئے ان کو جادو بتائے۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے ظالم اور ناانصاف لوگوں کو راہ راست پر آنے کی کبھی توفیق نہ دے گا بلکہ کتاب آسمانی کی مخالفت کی حالت میں ایسے لوگوں کا حشر ہو کر ہمیشہ کے لئے ان کا ٹھکانا دوزخ قرار پائے گا اور دنیا میں ان کی مخالفت سے اللہ تعالیٰ کا وہ نور ہدایت کبھی مدھم نہ ہوگا جس کا دنیا میں پورے طور پر مخلوق الٰہی میں پھیلنا اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں قرار پا چکا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد میں نبوت کا سلسلہ چلنے کی دعا کی اور وہ دعاء قبول ہوئی اور اسی کے اثر سے ایک مدت دراز تک اسحاق بن ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان میں نبوت رہی اور آخر سلسلہ نبوت پر اسماعیل بن ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان میں نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے تورات اور انجیل میں نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو اوصاف ہیں ان سے اہل کتاب نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح ہر شخص اپنی اولاد کو پہچانتا ہے لیکن فقط اس ضد سے ان لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخالفت کی کہ نبوت کا خاتمہ بھی اسحاق (علیہ السلام) کے خاندان میں کیوں نہیں ہوا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کے خاندان کے ساتھ یہ ہمدردی اور دوسرے بیٹے کے خاندان کے ساتھ اس قدر پرلے درجہ کی دشمنی حددرجہ کی بےانصافی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو بےانصاف فرمایا۔ یہود میں عبد اللہ بن سلام کا قصہ اور نصاریٰ میں ہرقل بادشاہ روم کا قصہ اور اس قسم کے اور صحیح قصے اس بات کے پورے شاہد ہیں کہ یہود و نصاریٰ میں سے جن لوگوں نے اس بےانصافی کو تھوڑی دیر کے لئے بھی اپنے دل سے نکال ڈالا ان کو نبی اخر الزمان کی نبوت میں کوئی عذر باقی نہیں رہا اب اس ناانصافی کے ساتھ بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ جس تاریخ کی کتابوں کے راویوں کے ثقہ اور مسلسل ہونے کا ٹھکانا کچھ نہیں۔ ان تاریخ کی کتابوں پر تو پورا بھروسہ ہے اور صحیح بخاری جیسی کتاب جس کے ایک ایک راوی کے ثقہ ہونے کی حد سے زیادہ چھان بین کی گئی ہے اس میں عبد اللہ بن سلام جیسے عالم کے قصے کو کوئی یہود دیکھتا ہے نہ ہرقل جیسے بادشاہ اور اس بادشاہ کے دربار کے موجود پادریوں کی حالت پر کسی نصرانی کو کچھ عبرت ہوتی ہے یہ خرابی کیا ہے کہ اس ناانصافی پر گویا اور طرہ ہے اسلام کے مخالف اہل کتاب اور مشرکین مکہ دونوں گروہ تھے اس لئے ایک جگہ ولو کرہ الکفرون فرمایا دوسری جگہ ولو کرہ المشرکون فرمایا حاصل مطلب یہ ہوا کہ اہل کتاب یا مشرکین مکہ کسی کی مخالفت اسلام کی ترقی کو روک نہیں سکتی۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے باوجود طرح طرح کی مخالفتوں کے اسلام کی جو ترقی ہوئی وہ ظاہر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(61:7) ومن۔ واؤ عاطفہ۔ من استفہامیہ ہے۔ اظلم ظلم سے افعل التفضیل کا صیغہ ہے زیادہ ظالم۔ زیادہ حق سے تجاوز کرنے والا۔ ممن۔ مرکب ہے من حرف جار اور من اسم موصول سے۔ اس سے جو ۔۔ افتری : ماضی واحد مذکر غائب افتراء (افتعال) مصدر سے جس کے معنی ہیں بہتان باندھنا۔ افتری اس نے جھوٹ باندھا۔ اس نے بہتان باندھا۔ الکذب۔ جھوٹ کا۔ افتری کا مفعول ہے۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ اور اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ وھو یدعی الی الاسلام : جملہ حالیہ ہے۔ حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے۔ ھو سے مراد وہ شخص جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتا ہے۔ یدعی مضارع مجہول واحد مذکر غائب دعوۃ باب نصر مصدر۔ اس کو بلایا جاتا ہے۔ واللہ لا یھدی القوم الظلمین : اور اللہ ایسے ظالم (ناحق شناس) لوگوں کو ہدایت یاب نہیں کرتا۔ یہ جملہ مضمون سابق کی تاکید کے لئے آیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی شرک کرے اور اللہ کے لئے بیٹا یا بیوی قرار دے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اللہ پر جھوٹ باندھنا یہ کہ نبوت کی تکذیب ہے۔ 6۔ واللہ لا یھدی اس لئے بڑھایا کہ ان کی حالت موجودہ اصلاح سے بعید ہوگئی، اس لئے سزائے قتال ہی تجویز کیا جانا مصلحت ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزامات لگاتے ہیں درحقیقت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ” اللہ “ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں حالانکہ یہ لوگ اس نور کو کبھی بجھا نہیں سکیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے پھیلانے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ نبوت کا اعلان کرنے سے پہلے ہر کوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الصادق اور الامین کہتا تھا۔ تورات اور انجیل میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کا ذکر موجود ہے۔ اس لیے یہودی اور عیسائی اس انتظار میں تھے کہ جب نبی آخر الزّمان تشریف لائیں گے تو ہم ان کے ساتھ مل کر کافروں کو شکست دیں گے۔ (البقرۃ : ٨٩) لیکن جونہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو یہود و نصاریٰ اور اہل مکہ نے آپ کو جھوٹا اور جادو گر قرار دیا۔ جب کہ یہود و نصاریٰ اپنی کتابوں کے حوالے سے اور اہل مکہ اپنے دور کے دانشوروں سے جان چکے تھے کہ مکہ میں ایک رسول پیدا ہونے والا ہے لیکن پھر بھی انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی۔ حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے والے تھے اس کے باوجود لوگ آپ کو کذّاب اور جادو گر کہتے۔ اس موقع پر لوگوں کے الزامات کا صرف یہ جواب دیا گیا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوسکتا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتا ہے۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ پر جھوٹ نہیں بول رہے۔ ہاں الزام لگانے والے یادرکھیں ! کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا کہنا اور آپ پر الزامات لگانا درحقیقت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا اور الزام لگانا ہے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت کا اعلان اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے کیا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والے سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھادیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنا نور پورا کرکے رہے گا اگرچہ کافر اسے ناپسند کرتے ہیں۔ نور سے مراد اللہ کی توحید اور دین حق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پہلے تورات اور انجیل کی صورت میں نازل فرمایا اور اب قرآن مجید کی شکل میں لوگوں کے سامنے ہے جو لوگ توحید اور دین کو جھٹلاتے ہیں وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ لوگ ظالم ہیں اور ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہدایت سے سرفراز نہیں کرتا۔ یہاں دین کی قوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس کے خلاف کفار اور مشرکین کی کوششیں اس قدر حقیر اور بےحیثیت ہیں جس طرح کوئی نادان سورج کی طرف منہ کر کے تھوکتا ہے یا آنکھیں بند کر کے سمجھتا ہے کہ سورج کی روشنی ختم ہوگئی اس سے بڑھ کر کون احمق ہوگا ؟ یہ لوگ دین کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہاں واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ دین ہر صورت پھیل کر رہے گا۔ (یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ) (المائدۃ : ١٥) ” اے اہل کتاب ! بیشک تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے جو تمہارے لیے ان میں سے بہت سی باتیں کھول کر بیان کرتا ہے جو تم کتاب سے چھپاتے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔ یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔ “ (اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْ وَلَا یُعْلٰیٰ ) (ارواء الغلیل حدیث نمبر : ١٢٦٨) ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔ “ (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) (المائدۃ : ٥) ” آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کردیا ہے اور میں نے پوری کردی تم پر اپنی نعمت اور اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا، جو بھوک کی صورت میں مجبور ہوجائے اس حالت میں کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو تو بیشک اللہ بےحد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ “ مسائل ١۔ جو شخص اللہ پر جھوٹ بولتا ہے وہ سب سے بڑا ظالم ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ظالم شخص کی راہنمائی نہیں کرتا۔ ٣۔ کافر اور مشرک چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور یعنی دین اسلام کو ختم کردیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ اس کا دین ضرور غالب اور مکمل ہوگا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کا نور پورا ہو کر رہے گا اگرچہ کافروں کونا گوار ہو یہ تین آیات کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں ارشاد فرمایا ہے کہ جو کوئی شخص اللہ پر جھوٹ باندھے حالانکہ اسے اسلام کی دعوت دی جارہی ہے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ دوسری آیت میں یہ فرمایا کہ جنہیں اسلام قبول کرنا نہیں ہے یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کے پھونکوں سے بجھادیں ان کے ارادوں سے کچھ نہ ہوگا اسلام بڑھ چڑھ کر رہے گا، اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا فرما دے گا کافروں کو برا لگے لگتا رہے انہیں اسلام کی ترقی اور اس کا عروج گوارا نہیں ان کی اس ناگواری کا اسلام کی رفعت اور بلندی پر کچھ اثر نہیں پڑے گا۔ جب سے دنیا میں اسلام آیا ہے دشمنان اسلام نے اس کی روشنی کو بجھانے اور اس کی ترقی کو روکنے کے لئے کبھی بھی کوئی کسر اٹھا کر نہیں رکھی اور آج بھی کفار اعداء دین اسلام اور مسلمان کے مٹانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن الحمد للہ اسلام بڑھ رہا ہے خود دشمنوں کے ممالک میں اسلام پھیل رہا ہے اور ان کے افراد برابر مسلمان ہو رہے ہیں اپنی آنکھوں سے اسلام کا پھیلاؤ دیکھ رہے ہیں اور اسلام کو روکنے کے لئے کروڑوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں مگر اسلام بڑھتا چڑھتا چلا جارہا ہے۔ مفسر قرطبی نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کا سبب نزول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چالیس دن تک وحی نہیں آئی اس پر کعب بن اشرف یہودی نے کہا کہ اے یہودیو خوش ہوجاؤ اللہ نے محمد کا نور بجھا دیا اور اندازہ یہ ہے کہ ان کا یہ دین پورانہ ہوگا اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنج ہوا اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اس کے بعد وحی کا تسلسل جاری ہوگیا۔ مفسر قرطبی نے اس بارے میں پانچ قول نقل كئے ہیں کہ نور اللہ سے کیا مراد ہے ؟ 1 قرآن مراد ہے۔ 2 دین اسلام مراد ہے۔ 3 محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مراد ہے۔ 4 اللہ تعالیٰ کے دلائل مراد ہے۔ 5 جس طرح کوئی شخص اپنے منہ سے سورج کے نور کو بجھانا چاہے تو نہیں بجھا سکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے دین کو ختم کرنے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے والے اور اس کا ارادہ کرنے والے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ (وھذا راجع الی القول الثانی) تیسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجاتا کہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اللہ تعالیٰ نے جو ارادہ فرمایا ہے اس کے مطابق ہو کر رہے گا۔ مشرکین جو اس کے لئے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلام نہ پھیلے ان کی ناگواری کے باوجود اسلام پھیل کر رہے گا۔ مزید تفصیل اور تشریح کے لئے سورة توبہ رکوع نمبر ٥ کی تفسیر دیکھی جائے۔ (انوارا لبیان)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ افترا کرے حالانکہ اس ک واسلام کی طرف دعوت دی جائے اور اس کو اسلام کی طرف بلایا جاتا ہو اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا اور ایسے گناہ گاروں کو ہدایت کی توفیق نہیں دیتا۔ یعنی پیغمبر اسلام کی دعوت دے رہا ہے دین حق کی طرف بلارہا ہے اور وہ اس کو جادو گر اور مفتری علی اللہ کہتا ہے تو گویا جو چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثابت ہے اسکو نفی کرتا ہے اسی کو افترا علی اللہ الکذب فرمایا جھوٹ باندھنا اللہ پر یہی کہ مرسل من اللہ کی تکذیب کرے اس کو ساحر کہے اس قسم کے ظالموں سے توفیق ہدایت کی نفی فرمائی۔ کہتے ہیں کہ نضر بن حارث کی جانب اشارہ ہے اور اس کے حق میں نازل ہوئی ہے ہوسکتا ہے کہ آیت عام ہو اور ہر ظالم جو افترا کرنے والا ہو وہ مراد ہو۔