Surat ut Taghabunn

Surah: 64

Verse: 16

سورة التغابن

فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ وَ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا وَ اَنۡفِقُوۡا خَیۡرًا لِّاَنۡفُسِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۶﴾

So fear Allah as much as you are able and listen and obey and spend [in the way of Allah ]; it is better for your selves. And whoever is protected from the stinginess of his soul - it is those who will be the successful.

پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو اور سنتے اور مانتے چلے جاؤ اور اللہ کی راہ میں خیرات کرتے رہو جو تمہارے لئے بہتر ہے اورجو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ... So have Taqwa of Allah as much as you can; meaning, as much as you are able and can bear or endure. The Two Sahihs recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَايْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَمَا نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ فَاجْتَنِبُوه When I command you to do something, do as much as you can of it, and whatever I forbid for you, then avoid it. Allah's statement, ... وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا ... listen and obey, means, obey what Allah and His Messenger command you to do and do not stray from it to the right or left. Do not utter a statement or make a decision before Allah and His Messenger issue a statement or decision. Do not ignore what you were ordered to do, nor commit what you were forbidden from doing. Encouraging Charity Allah the Exalted said, ... وَأَنفِقُوا خَيْرًا لاَِّنفُسِكُمْ ... and spend in charity; that is better for yourselves. meaning, give from what Allah has granted you to your relatives, the poor, the needy and the weak. Be kind to Allah's creatures, just as Allah was and still is kind with you. This will be better for you in this life and the Hereafter. Otherwise, if you do not do it, it will be worse for you in this life and the Hereafter. Allah said; ... وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَيِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ And whosoever is saved from his own greed, then they are the successful ones. This was explained with a similar Ayah in Surah Al-Hashr, where we also mentioned the relevant Hadiths. Therefore, we do not need to repeat them here, all praise and gratitude is due to Allah. Allah the Exalted said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یعنی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں کو توجہ اور غور سے سنو اور ان پر عمل کرو۔ اس لئے کہ صرف سن لینا بےفائدہ ہے، جب تک عمل نہ ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] مؤاخذہ صرف اس حد تک ہوگا جہاں تک انسان کا اختیار ہے :۔ اس جملہ سے معلوم ہوا کہ انسان گناہوں سے اجتناب اور اوامر کی تکمیل میں اسی حد تک مکلف ہے جس قدر اس کی استطاعت ہے اسی مضمون کو سورة بقرہ میں یوں بیان فرمایا۔ (لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ٢٨٦؀ ) 2 ۔ البقرة :286) && یعنی جس مقام پر انسان مجبور ہوجائے وہاں اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ مواخذہ صرف اس صورت میں ہے کہ جہاں انسان استطاعت رکھنے کے باوجود اللہ کی اطاعت نہ کرے۔ رہی یہ بات کہ انسان اپنے متعلق کوئی غلط اندازہ قائم کرلے۔ مثلاً وہ یہ فرض کرلے کہ فلاں کلام میری استطاعت سے باہر ہے۔ حالانکہ وہ اسکی استطاعت میں ہو۔ تو ایسی بات پر اس کا ضرور مواخذہ ہوگا۔ کیونکہ اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔ [٢٥] اس کی تشریح کے لیے دیکھئے سورة حشر کی آیت نمبر ٩ کا حاشیہ۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ فَاتَّقُوا اللہ مَا اسْتَطَعْتُمْ ۔۔۔۔۔۔: مال و اولاد کے فتنے سے بچنے کے لیے چند چیزوں کی تاکید فرمائی ، جن میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا حسب استطاعت تقویٰ ہے ، پھر سمع و طاعت اور آخر میں فتنہ بننے والے اس مال کو خرچ کرنا ہے اور اس میں بخل سے گریز کرنا ہے۔ ٢۔ مَا اسْتَطَعْتُمْ : اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے لیے اللہ کے احکام پر اتنا عمل ہی فرض ہے جتنی اس میں طاقت ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(لَا یُکَلِّفُ اللہ ُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا) (البقرہ : ٢٨٦)” اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق “۔ جہاں آدمی بےبس ہوجائے وہاں مؤاخذہ نہیں۔ (دیکھئے بقرہ : ١٧٣۔ انعام : ١٩ ، نحل : ١٠٦) مؤاخذہ اسی صورت میں ہے جب آدمی استطاعت کے باوجود اللہ کی اطاعت نہ کرے۔ رہی یہ بات کہ آدمی بہانہ بنا لے اور فرض کو لے کر فلاں کام میری استطاعت سے باہر ہے ، حالانکہ وہ اس کی استطاعت میں ہو تو اس پر اس کا ضرور مؤاخذہ ہوگا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ہر بات کا علم ہے۔ ٣۔ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا : یعنی اللہ اور اس کے رسول کے احکام سنو اور ان کی اطاعت کرو ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام (رض) سے سمع و طاعت کی بیعت لیا کرتے تھے ، عبادہ بن صامت (رض) کی بیعت والی حدیث کے الفاظ ہیں :( بایعنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی السلمع والطاعۃ فی المشط والمکرہ) ( بخاری الاحکام ، باب کیف بیابع الامام الناس ؟ ٧١٩٩) ’ ’ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خوش دلی اور ناگواری (ہر حال) میں سننے اور فرماں برداری کرنے پر بیعت کی “۔ ٤۔ وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ :” خیرا “ ” یکن “ کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے جو یہاں ” انفقوا “ کے جواب میں مقدر ہے۔ یعنی خرچ کرو یہ تمہارے لیے بہترہو گا ۔ یہ مال کے فتنے کا تریاق ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ خرچ کیا جائے ، جمع کرکے نہ رکھا جائے۔ ابو ذر (رض) فرماتے ہیں ، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا ، آپ اس وقت کعبہ کے سائے میں تھے اور فرما رہے تھے :( ھم الاخسرون و رب الکعبۃ ھم الاخسرون و رب الکعبۃ) ” وہی سب سے زیادہ خسارے والے ہیں رب کعبہ کی قسم ! وہی سب سے زیادہ خسارے والے ہیں رب کعبہ کی قسم ! “ میں نے کہا :” میرا کیا معاملہ ہے ، کیا مجھ میں کوئی ( خسارے والی) چیز دکھائی دے رہی ہے ، میرا معاملہ کیا ہے ؟ “ خیر میں آپ کے پاس بیٹھ گیا اور آپ یہی فرماتے رہے ، مجھ میں خاموش رہنے کی سکنت نہ رہی ، اللہ کو جو منظور تھا ( یعنی بےقراری اور اضطراب) وہ مجھ پر طاری ہوگیا ، تو میں نے پوچھا :” وہ کو نہیں یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ھم الاکثرون اموالا الا من قال ھکذا وھکذا وھکذا) (بخاری ، الایمان والتذوا ، باب کیف کانت یمین النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟: ٦٦٣٨، مسلم : ٩٩٠)” وہ لوگ جو بہت زیادہ اموال والے ہیں ، سوائے اس کے جو اس طرح اور اس طرح اور اس طرح ( بےدریغ) خرچ کرے “۔ ٥۔َ ” اَنْفِقُوْا “ ( خرچ کرو) کا مصرف ذکر نہیں فرمایا، تا کہ عام رہے اور فرض و نفل ہر قسم کا خرچ کرتے رہنے کی تاکید ہوجائے ۔ اس میں اپنی ذات پر ، اہل و عیال پر اور ان لوگوں پر خرچ کرنا بھی شامل ہے جن کی پرورش اس کے ذمے ہے ۔ ضرورت کی دوسری جگہوں پر بھی ، صدقات کے ان آٹھ مصارف میں بھی جن کا سورة ٔ توبہ کی آیت (٦٠) ” اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ ۔۔۔ “ میں ذکر ہے اور ان میں سے بھی خاص طور پر ان لوگوں پر جو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف ہیں ۔ دیکھئے سورة ٔ بقرہ (٢٧٣) کی تفسیر۔ ٦۔ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ ۔۔۔۔۔۔: اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ حشر کی آیت (٩) کی تفسیر۔” شح “ سے بچنے کی تاکید سے ظاہر ہے کہ اہل و عیال پر خرچ بھی اللہ کے ساتھ قرض حسن کے معاملے میں شامل ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (So, observe taqwa [ total obedience to Allah in awe of Him ] as far as you can…64:16). When the verse اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ (…Observe taqwa as is His due…3:102] was revealed, the blessed Companions felt it very difficult, because it was impossible for anyone to observe taqwa of Allah ‘as is due to Him’. On that occasion, the present verse was revealed which clarified that no imposition is made on man more than he can bear. Taqwa too must be observed as far as it is possible for man to observe. If a person tries to obey Allah’ s due. [ Ruh – condensed ] Alhamdulillah The Commentary on Surah At-Taghabun Ends here

فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ” یعنی تقویٰ اختیار کرو مقدور بھر “ جب آیت اتقواللہ حق تقاتہ نازل ہوئی جس کے معنی یہ ہیں کہ ” اللہ سے ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اللہ کا حق ہے “ تو صحابہ کرام پر بہت بھاری اور شاق ہوا کہ اللہ کے حق کے مطابق تقویٰ کس کے بس میں ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس نے بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی طاقت اور مقدور سے زیادہ تکلیف نہیں دی، تقویٰ بھی اپنی طاقت کے مطابق واجب ہے، مقصد یہ ہے کہ حصول تقویٰ میں اپنی پوری توانائی اور کوشش کرلے تو اس سے اللہ کا حق ادا ہوجائے گا (روح ملخصاً ) تمت سورة التغابن وللہ احمد

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِيْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَيْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝ ١٦ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔ الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان/ 56] ، وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد/ 34] ، ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد/ 37] ، قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم/ 6] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان/ 56] اور خدا ان کو دوزخ کے عذاب سے بچالے گا ۔ وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد/ 34] اور ان خدا کے عذاب سے کوئی بھی بچانے والا نہیں ۔ ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد/ 37] تو خدا کے سامنے نہ کوئی تمہارا مدد گار ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا ۔ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم/ 6] اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش جہنم سے بچاؤ ۔ شح الشُّحُّ : بخل مع حرص، وذلک فيما کان عادة . قال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، وقال سبحانه : وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ [ الحشر/ 9] . يقال : رجل شَحِيحٌ ، وقوم أَشِحَّةٌ ، قال تعالی: أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ [ الأحزاب/ 19] ، أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ [ الأحزاب/ 19] . وخطیب شَحْشَح : ماض في خطبته، من قولهم : شَحْشَحَ البعیر في هديره «2» . وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبائع تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں ۔ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ [ الحشر/ 9] اور جو شخص حرص نفس سے بچالیا گیا ۔ رجل شحیح بخیل آدمی قوم اشحۃ بخیل لوگ قرآن میں ہے : أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ [ الأحزاب/ 19] مال میں بخل کریں ۔ ( یہ اس لئے کہ تمہارے بارے میں بخل کرتے ہیں ۔ خطیب شحیح خوش بیان ار بلیغ ۔ لیکچرار ۔ یہ شحشح البعیر فی ھدیرہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے مستی میں آواز کو پھرانے کے ہیں ۔ فلح الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَحُ أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ المجادلة/ 22] ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [ المؤمنون/ 1] ، لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ البقرة/ 189] ، إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ المؤمنون/ 117] ، فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ الحشر/ 9] ، وقوله : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه/ 64] ، فيصحّ أنهم قصدوا به الفلاح الدّنيويّ ، وهو الأقرب، وسمّي السّحور الفَلَاحَ ، ويقال : إنه سمّي بذلک لقولهم عنده : حيّ علی الفلاح، وقولهم في الأذان : ( حي علی الفَلَاحِ ) أي : علی الظّفر الذي جعله اللہ لنا بالصلاة، وعلی هذا قوله ( حتّى خفنا أن يفوتنا الفلاح) أي : الظّفر الذي جعل لنا بصلاة العتمة . ( ف ل ح ) الفلاح الفلح کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ المجادلة/ 22] ( اور ) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] بیشک وہ مراد کو پہنچ گیا جو پاک ہوا ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] جس نے اپنے نفس یعنی روح کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچ گیا ۔ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [ المؤمنون/ 1] بیشک ایمان والے رستگار ہوئے ۔ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ البقرة/ 189] تاکہ تم فلاح پاؤ ۔ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ المؤمنون/ 117] کچھ شک نہیں کہ کافر رستگاری نہیں پائیں گے ۔ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ الحشر/ 9] وہ تو نجات پانے والے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه/ 64] اور آج جو غالب رہا وہ کامیاب ہوا ۔ میں یہ بھی صحیح ہے کہ انہوں نے فلاح دنیوی مراد لی ہو بلکہ یہی معنی ( بلحاظ قرآن ) اقرب الی الصحت معلوم ہوتے ہیں ۔ اور سحور یعنی طعام سحر کو بھی فلاح کہا گیا ہے کیونکہ اس وقت حی علی الفلاح کی آواز بلند کی جاتی ہے اور اذان میں حی علی الفلاح کے معنی یہ ہیں کہ اس کامیابی کیطرف آؤ جو نما زکی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھی ہے ۔ اور حدیث (76) حتی خفنا ان یفوتنا الفلاح ( حتی کہ فلاح کے فوت ہوجانے کا ہمیں اندیشہ ہوا ) میں بھی فلاح سے مراد وہ کامیابی ہے جو صلاۃ عشا ادا کرنے کی وجہ سے ہمارے لئے مقدر کی گئی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تو جہاں تک ہوسکے اللہ تعالیٰ کی اعت کرو اور اس کے احکام کو سنو اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول جو تمہیں حکم دے اس کو مانو اور اپنے اموال کو اللہ تعالیٰ کے رستہ میں خیرات کرو یہ خیرات کرنا تمہارے لیے مال کے روکنے سے بہتر ہوگا۔ اور جو شخص نفسانی حرص سے محفوظ رہا یا یہ کہ جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی تو ایسے ہی لوگ غصہ اور ناراضگی سے بچنے والے ہیں۔ شان نزول : فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (الخ) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت اتَّقُوا اللّٰهَ حق تقاتہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام پر عمل کرنا شاق ہوگیا، چناچہ وہ نفلوں میں اس قدر کھڑے ہوتے کہ ان کے قدموں پر سوج آجاتی اور چہرے پھٹ جاتے تھے تب مسلمانوں پر تخفیف کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (الخ)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اس سورة مبارکہ کی آخری تین آیات ایمان کے عملی تقاضوں کو بالفعل ادا کرنے کی دعوت پر مشتمل ہیں۔ آیت ١٦{ فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا } ” پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اپنی حد ِامکان تک ‘ اور سنو اور اطاعت کرو “ گویا ایمان باللہ کا عملی تقاضا یہ ہے کہ انسان میں اللہ کا تقویٰ پیدا ہوجائے ‘ اور تقویٰ بھی تھوڑا بہت نہیں ‘ بلکہ امکانی حد تک ‘ جتنا اس کے حد ِاستطاعت میں ہے۔۔۔۔ - البتہ کسی انسان میں کتنی استطاعت و استعداد اور وسعت و طاقت ہے جس کے مطابق وہ مکلف اور جواب دہ ہے ‘ اس کا صحیح شعور و ادراک بسا اوقات اسے خود نہیں ہوتا اور وہ اپنے آپ کو دین کے عملی تقاضوں کے ضمن میں رعایتیں دیتا چلا جاتا ہے ‘ حالانکہ انسان کا خالق خوب جانتا ہے کہ اس نے اس میں کتنی استطاعت ‘ استعداد اور وسعت رکھی ہے۔ چناچہ وہ اسی کے مطابق ہر انسان کا محاسبہ اور مواخذہ فرمائے گا۔ ایمان کے بیان میں دوسرے نمبر پر ذکر تھا ایمان بالرسالت کا ‘ لہٰذا یہاں ایمان کا دوسرا عملی تقاضا ” سمع وطاعت “ کے حوالے سے بیان ہوا ‘ جس کا نقطہ آغاز عملی اعتبار سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات و شخصیت ہے۔۔۔۔ - - سمع وطاعت کا تعلق اصلاً ایمان باللہ سے ہے ‘ لیکن عملاً اس کا تعلق ایمان بالرسالت سے ہے ‘ اس لیے کہ اگرچہ مطاع حقیقی تو اللہ ہی ہے ‘ مگر اللہ کا نمائندہ اور اس کے اذن سے بالفعل ” مطاع “ بن کر رسول آتا ہے تو اس کی اطاعت گویا اللہ کی اطاعت ہی ہے۔ جیسے سورة النساء میں فرمایا گیا : { مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَج } (آیت ٨٠) ” جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی درحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ “ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں پر وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا کا حکم خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس حوالے سے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ قبل ازیں آیت ١٢ میں جب وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کا واضح حکم آچکا ہے تو اب یہاں کون سی اطاعت کے لیے بلایا جا رہا ہے ؟ اس مسئلے کو یوں سمجھئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی حیات مبارکہ میں مختلف مواقع پر مختلف امور کے لیے امیر مقرر فرمایا کرتے تھے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقرر کردہ امیر کی اطاعت بھی متعلقہ اہل ایمان پر اسی طرح لازم تھی جیسے کہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت۔ اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بہت واضح ہے : (مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ، وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ ، وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ، وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِی فَقَدْ عَصَانِی) (١) ” جس نے میری اطاعت کی اس نے اصل میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ‘ اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے میرے (مقرر کیے ہوئے) امیر کی اطاعت کی اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے میرے (مقرر کیے ہوئے) امیر کی نافرمانی کی اس نے گویا میری نافرمانی کی۔ “ غزوئہ احد میں تیر اندازوں کی جس نافرمانی پر سورة آل عمران کی آیت ١٥٢ میں بھی وعید آئی اور جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اجتماعی سزا بھی دی گئی وہ دراصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی براہ راست نافرمانی نہیں تھی بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقرر کردہ کمانڈر کے حکم کی نافرمانی تھی ۔ اسی حوالے سے یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ امیر کی اطاعت صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ہی لازم نہیں تھی بلکہ قیامت تک کے لیے لازم ہے اور آیت زیر مطالعہ میں دراصل اسی اطاعت کا ذکر ہے۔ مطلب یہ کہ دعوت و اقامت دین کی جدوجہد کے مشن کو تو قیامت تک زندہ رہنا ہے۔ ہر زمانے میں اللہ کی مشیت اور توفیق سے اللہ کے بندے اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے اٹھتے رہیں گے اور اہل ِ ایمان کو دعوت دیتے رہیں گے۔ چناچہ ہر دور کے اہل ایمان پر لازم ہے کہ جب بھی اللہ کا کوئی بندہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشن کا علمبردار بن کر اٹھے اور مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِکی صدا بلند کرے تو وہ اس کی بات سنیں۔ پھر اگر ان کا دل گواہی دے کہ اس کی دعوت خلوص و اخلاص پر مبنی ہے تو اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس کے اعوان و انصار بنیں اور اس کی اطاعت کریں۔ جیسے ماضی قریب میں سید احمد بریلوی (رح) ‘ حسن البناء شہید (رح) ‘ مولانا الیاس (رح) اور مولانا مودودی (رح) اپنے اپنے زمانے میں پورے خلوص کے ساتھ دعوت و اقامت ِدین کے علمبردار بن کر کھڑے ہوئے تھے اور بہت سے اہل ایمان نے اللہ کی توفیق سے ان کی آواز پر لبیک بھی کہا۔ یہ آیت آج ہم سے بھی تقاضا کرتی ہے کہ ہم ایسے ” داعی الی اللہ “ کی تلاش میں رہیں۔ پھر اگر ہمارا دل گواہی دے کہ اللہ کا فلاں بندہ واقعی خلوص نیت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشن کو لے کر کھڑا ہوا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی پکار پر لبیک کہیں ‘ تاکہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے سمع وطاعت کی بنیاد پر ایک مربوط و مضبوط و منظم جماعت وجود میں آسکے۔ ظاہر ہے اگر مسلمان خود کو ایک امیر کے تحت ایسی جماعت کی شکل میں منظم نہیں کریں گے تو ان کی حیثیت ایک ہجوم کی سی رہے گی۔ ذرا تصور کریں ! ہر سال حج کے لیے لاکھوں مسلمانوں کا جو ” ہجوم “ اکٹھا ہوتا ہے ‘ اگر یہ لوگ کسی ایک امیر کے تحت ایک جماعت کی شکل میں منظم ہوتے تو ایک عظیم الشان انقلاب برپا کردیتے۔ اس موضوع پر علامہ اقبال کا یہ شعر بہت بصیرت افروز ہے : ؎ عید ِآزاداں شکوہ ملک و دیں عید ِمحکوماں ہجوم مومنیں ! ایمانیات کے ضمن میں آخر میں ایمان بالآخرت کا ذکر تھا ‘ جس کا اہم ترین عملی مظہر انفاق فی سبیل اللہ ہے : { وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا ّلِاَنْفُسِکُمْ } ” اور خرچ کرو (اللہ کی راہ میں) یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ “ { وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ } ” اور جو کوئی اپنے جی کے لالچ سے بچالیا گیا تو ایسے ہی لوگ ہوں گے فلاح پانے والے۔ “ یعنی جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھا ہے وہ اس کے راستے میں نچھاور کر دو ۔ جیسا کہ سورة الحدید میں فرمایا گیا ہے : { اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَـکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا لَـھُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ ۔ } ” ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور خرچ کردو اس سب میں سے جس پر اس نے تمہیں خلافت عطا کی ہے۔ تو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے (اپنے مال و جان کو بھی) خرچ کیا ‘ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31 At another place in the Qur'an it has been said: "Fear Allah as He should actually be feared." (Al-'Imran: 102) . At still another place: °Allah dces not burden any one with a responsibility heavier than he can bear." (AI-Baqarah: 286) And here: "Fear Allah as far as you can." When these three verses are read together it appears that the first verse sets an ideal which every believer should try to attain. The second verse lays down the principle that no one has been required to exert himself. beyond his power and ability, for in Allah's Religion one has been made responsible only for what is within one's power and ability. This verse enjoins every believer to try to attain piety and consciousness of God as far as he can. He should carry out His Commands and avoid His disobedience as best as he possibly can. For if he shows laxity in this regard, he will not be able to escape punishment. However, one will not be held accountable for what was beyond one's power (and Allah alone can decide best what was really beyond a person's power and ability) . 32 For explanation, see E.N. 19 of Al-Hashr.

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :31 قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے : اِتَّقُوااللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ ، اللہ سے ایسا ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے ( آل اعمران 102 ) ۔ دوسری جگہ فرمایا لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا ، اللہ کسی متنفس کو اس کی استطاعت سے زیادہ کا مکلف قرار نہیں دیتا ( البقرہ ۔ 286 ) ۔ اور یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو ۔ ان تینوں آیتوں کو ملا کر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت وہ معیار ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے جس تک پہنچنے کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہیے ۔ دوسری آیت یہ اصولی بات ہمیں بتاتی ہے کہ کسی شخص سے بھی اس کی استطاعت سے زیادہ کام کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ اللہ کے دین میں آدمی بس اتنے ہی کا مکلف ہے جس کی وہ مقدرت رکھتا ہو ۔ اور یہ آیت ہر مومن کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ اپنی حد تک تقویٰ کی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے ۔ جہاں تک بھی اس کے لیے ممکن ہو اسے اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لانے چاہییں اور اس کی نافرمانی سے بچنا چاہیے ۔ اس معاملہ میں اگر وہ خود تساہل سے کام لے گا تو مواخذہ سے نہ بچ سکے گا ۔ البتہ جو چیز اس کی مقدرت سے باہر ہو گی ( اور اس کا فیصلہ اللہ ہی بہتر کر سکتا ہے کہ کیا چیز کس کی مقدرت سے واقعی باہر تھی ) اس کے معاملہ میں اس سے باز پرس نہ کی جائے گی ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :32 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، الحشر ، حاشیہ 19 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ واضح فرمادیا ہے کہ اِنسان کو جو تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے، وہ اس کی استطاعت کے مطابق ہے، یعنی کسی اِنسان کو اُس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا گیا۔ یہی مضمون سورۂ بقرہ (۲:۲۳۳،۲۸۶) سورۂ انعام (۶:۱۵۲)، سورۂ اعراف (۷:۴۲) سورۂ مومنون (۲۳:۶۲) میں گزرچکا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(64:16) فاتقوا اللہ میں ف سببیہ ہے۔ یعنی اوپر جو آیات 1415 میں ازواج و اولاد و دنیاوی معاملات بیان ہوئے ہیں ان سب کو ملحوظ رکھتے ہوئے جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔ ما استطعتم : ما موصولہ استطعتم : اس کا صلہ ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ استطاعۃ (افتعال) مصدر تم سے ہوسکے۔۔ تم کرسکو۔ ما استطعتم جو تم سے ہو سکے ، جو تم کرسکو۔ جہاں تک تم سے ہوسکے۔ جہاں تک تم کرسکو۔ ترجمہ ہوگا :۔ پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ ڈرتے رہو۔ واسمعوا۔ واؤ عاطفہ اسمعوا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ سمع باب سمع مصدر اور (اس کا حکم) سنو۔ واطیعوا۔ واؤ عاطفہ اطیعوا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اطاعۃ (افعال) مصدر اور (اس کی ) اطاعت کرو۔ وانفقوا۔ واؤ عاطفہ انفقوا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ انفاق (افعال) مصدر اور (اس کی راہ میں) خرچ کرو۔ خیرا لانفسکم اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں :۔ (1) اگر خیرا اور لانفسکم ایک ساتھ پڑھے جاویں تو اس صورت میں یہ جملہ اوامر متذکرہ بالا کے جواب میں کان مدرہ کی خبر ہے ترجمہ ہوگا :۔ پس جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو۔ اور (اس کے احکام کو) سنو (اور بجالاؤ) اور (اس کی) اطاعت کرو۔ اور (اس کی راہ میں) خرچ کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا۔ (2) خیرا مصدر محذوف کی صفت بھی ہوسکتی ہے ای انفقوا انفاقا خیرا۔ اس صورت میں انفاقا مفعول مطلق اور خیرا اس کی صفت ہوگی۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اچھا خرچ (یعنی اپنی قیمتی شے خرچ کرو یا دل کھول کر خرچ کرو) ۔ (3) خیرا بمعنی مالا بھی ہوسکتا ہے ۔ اس صورت میں یہ انفقوا کا مفعول بہ ہوگا۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور (اس کی راہ میں اپنا قیمتی مال) خرچ کرو۔ خیر بمعنی مال اور جگہ بھی آیا ہے مثلاً وانہ لحب الخیر لشدید (100:8) اور وہ مال کی سخت محبت کرنے والا ہے۔ نوٹ : نمبر ایک والی صورت زیادہ راجح ہے۔ ومن یوق شح نفسہ جملہ شرط ہے۔ من موصولہ یوق اس کا صلہ یوق تھا بوجہ شرط یوق ہوا۔ بمعنی بچایا گیا۔ بچا لیا گیا۔ شح : امام راغب لکھتے ہیں کہ :۔ شح وہ بخل ہے جس میں حرص ہو اور عادت بن گیا ہو۔ خود غرضی۔ یہ مصدر ہے اور اس کا فعل باب ضرب۔ نصر، علم تینوں سے آتا ہے۔ یہاں مضاف ہے اور نفسہ مضاف مضاف الیہ مل کر اس کا مضاف الیہ ہے۔ اور جو شخص اپنے طبعی بخل سے بچا لیا گیا۔ فاولئک ہم المفلحون : جملہ جواب شرط ہے ف جواب شرط ہے۔ اولئک اسم اشارہ بعید۔ جمع مذکر۔ وہی لوگ۔ المفلحون : اسم فاعل جمع مذکر۔ افلاح (افعال) مصدر۔ فلاح پانے والے۔ کامیاب لوگ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

10۔ غالبا اس کی تخصیص اس لئے ہے کہ یہ نفس پر زیادہ شاق ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بیوی، اولاد اور مال کی آزمائش سے سو فیصد بچنا آسان کام نہیں اس لیے ارشاد ہوا کہ اپنی طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے حکم کی پیروی کرو۔ ” اللہ “ کے بیشمار احسانات میں سے یہ بھی اس کا عظیم ترین احسان ہے کہ اس نے اپنے بندے پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا۔ اس کا ارشاد ہے کہ لوگو ! اللہ نے جو تمہیں صلاحیت اور استعداد عطا فرمائی ہے۔ اس کے مطابق اس کا حکم مانو اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے اس سے ڈرتے رہو اور اس کی راہ میں مال خرچ کرو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے جو لوگ بخل سے بچا لیے گئے وہی کامیاب ہوں گے۔ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ (رض) یَقُولُ قَالَ لَنَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَنَحْنُ فِی مَجْلِسٍ تُبَایِعُونِی عَلٰی أَنْ لَا تُشْرِکُوا باللّٰہِ شَیْءًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ وَلَا تَأْتُوا بِبُہْتَانٍ تَفْتَرُونَہُ بَیْنَ أَیْدِیکُمْ وَأَرْجُلِکُمْ وَلَا تَعْصُوا فِی مَعْرُوفٍ فَمَنْ وَفٰی مِنْکُمْ فَأَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْءًا فَعُوقِبَ فِی الدُّنْیَا فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَہُ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْءًا فَسَتَرَہُ اللّٰہُ فَأَمْرُہُ إِلَی اللّٰہِ إِنْ شَاءَ عَاقَبَہُ وَإِنْ شَاءَ عَفَا عَنْہُ فَبَایَعْنَاہُ عَلٰی ذٰلِکَ ) (رواہ البخاری : باب بَیْعَۃِ النِّسَاءِ ) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک مجلس کے دوران فرمایا کہ تم ان باتوں پر میری بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، چوری نہیں کرو گے، زنا سے بچ کر رہو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے، کسی پر من گھڑت بہتان نہیں باندھوگے، نہ ہی نیکی کے کاموں میں نافرمانی کرو۔ جس نے اس بیعت کی پاسداری کی اس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے جس نے ان باتوں کا ارتکاب کیا اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں سزا دے گا جو اس کے لیے کفارہ ہوگا۔ جس نے ان گناہوں کا ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ چاہے سزا دے اور چاہے تو اس سے درگزر فرمائے۔ حضرت عبادہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم سب نے ان باتوں پر بیعت کی۔ “ (عن عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ بَایَعْنَا رَسُول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ ) (مسند احمد، حدیث عبادۃ بن صامت، وقال ھذا حدیث صحیح) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس بات پر بیعت کی کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم تنگی اور خوش حالی دونوں صورتوں میں مانے گے۔ “ مسائل ١۔ ہر انسان کو اپنی طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرنا اور اس کا حکم ماننا چاہیے۔ ٢۔ ہر شخص کو اپنی مالی استعداد کے مطابق اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا انسان کے اپنے لیے بہتر ہے۔ ٣۔ جس شخص کو بخل سے بچا لیا گیا حقیقت میں وہی کامیاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے فوائد : ١۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا : ٣٩) ٢۔ مومنین اللہ کے راستے میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢٢) ٣۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١٣٤) ٤۔ منافق صدقہ کرنے کو جرمانہ سمجھتا ہے۔ (التوبہ : ٩٨) ٥۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ( التوبہ : ٩٩) ٦۔ ” اللہ “ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والوں کی مثال سدا بہار باغ جیسی ہے۔ (البقرۃ : ٢٦٥) ٧۔ ” اللہ “ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (البقرۃ : ٢٧٢) ٨۔ ” اللہ “ کی رضا کے لیے کیے گئے کام کا بڑا اجر ہے۔ (النساء : ١١٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اہل ایمان کو ان کی طاقت اور استطاعت کے مطابق ، اللہ سے ڈرنے اور سمع و اطاعت کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ فاتقوا .................... واطیعوا (٤٦ : ٦١) ” لہٰذاجہاں تک تمہارے بس میں ہو ، اللہ سے ڈرتے رہو اور سنو اور اطاعت کرو “۔ یہ شرط کہ ” جہاں تک تمہارے بس میں ہو “۔ یہ اللہ کی طرف سے اپنے بندوں پر بہت بڑا رحم وکرم ہے۔ اللہ کو علم ہے کہ بندے کے اندر کتنی طاقت ہے۔ کس قدر تقویٰ اور اطاعت وہ کرسکتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اس کی تعمیل اس حد تک کرو جس حد تک تمہارے بس میں ہو۔ لیکن میں جس بات سے منع کردوں تو پوری طرح رک جاﺅ“۔ اطاعت امر کی تو حدود نہیں اس لئے اس میں حکم بقدر استطاعت ہے۔ رہی نہی تو اس پر پورا پورا عمل کرنا ہوگا ، بغیر نقصان کے اور بغیر کمی کے۔ اس کے بعدان کو انفاق فی سبیل اللہ پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ وانفقوا خیر الا نفسکم (٤٦ : ٦١) ” اور اپنے مال خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے “۔ یہ جو کوئی خرچ کرتا ہے تو یہ دراصل اپنے لئے کرتا ہے۔ یہ حکم دیتا ہے کہ اس کام کو اپنے لئے کرو ، گویا وہ خود اپنے اوپر خرچ کرتے ہی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اس کا تمہیں اجر ملے گا۔ گویا یہ بھی تم اپنے اوپر خرچ کرتے ہو۔ اب اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو بتاتا ہے کہ انفاق کی راہ میں رکاوٹ بخیلی اور دل کی تنگی ہے اور یہ ایک ایسی مصیبت ہے جو انسان کے ساتھ لگی رہتی ہے۔ سعادت مند وہ ہے جو اس بخل سے نجات پا گیا۔ اور جو اس سے بچا لیا گیا وہ سمجھ جائے کہ اس پر فضل وکرم ہوگیا ہے اور وہ کامیاب ہوگیا ہے۔ ومن یوق شح نفسہ .................... المفلحون (٤٦ : ٦١) ” جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاں پانے والے ہیں “۔ اس کے بعدان کو انفاق اور اللہ کی راہ میں مزید خرچ کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے اور ان کے دلوں میں انفاق کو محبوب بنانے کے لئے ، انفاق کو قرض حسن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور قرض حسن بھی ایک غلام سے اس کا آقا مانگ رہا ہے۔ قرض لے کر وہ کئی گنا کرکے دیتا ہے۔ اور قرض دینے والے کا شکر بھی ادا کرتا ہے اور تمہاری کوتاہیوں کو بھی معاف کرتا ہے۔ اور اللہ انسان کو کوتاہیوں کو دیکھ کر بہت ہی حلم سے کام لیتا ہے۔ اس لئے کہ وہ اللہ ہی تو ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تقویٰ اور انفاق فی سبیل اللہ کا حکم : چھٹی نصیحت یہ ہے ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ (اللہ سے ڈرو جہاں تک تم سے ہو سکے) ﴿ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِيْعُوْا﴾ (اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سنو اور فرما نبرداری کرو) ﴿ وَ اَنْفِقُوْا خَيْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ ﴾ (اور اپنی جانوں کے لئے اچھا مال خرچ کرو) ۔ یہ نصیحت کئی نصیحتوں پر شامل ہے، اللہ تعالیٰ شانہ نے جو احکام بھیجے ہیں ان کی خلاف ورزی نہ کی جائے جہاں تک ہوسکتا ہو ہر عمل کو پورا کریں۔ فرائض واجبات پورے کریں اور گناہوں سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم ایسا نہیں دیا جو عمل کرنے والوں کے بس سے باہر ہو، ہاں بعض اعمال نفس پر شاق گزرتے ہیں ہمت کر کے اور نفس کو قابو میں کر کے اللہ تعالیٰ کی فرما نبرداری میں لگے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو سنیں اور فرمانبرداری کریں۔ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے کاموں میں مال خرچ کریں یہاں اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جو کچھ خرچ کرے گا وہ اپنے ہی کام آئے گا اس میں اپنی جانوں کا بھلا ہوگا۔ بخل سے پرہیز کرنے والے کامیاب ہیں : ﴿ وَ مَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ٠٠١٦﴾ (اور جو شخص اپنے نفس کی کنجوس سے بچالیا گیا سو یہ وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں) یہ مضمون سورة الحشر کے پہلے رکوع کے ختم کے قریب گزر چکا ہے۔ وہاں تفسیر اور تشریح دیکھ لی جائے۔ (انوارا لبیان جلد اول)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) پس جس قدر تم ڈر سکتے ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کا حکم سنو اور اس کی فرمانبرداری کرو اور خیرات کرتے رہو یہ خیرات کرتے رہنا تمہارے لئے بہتر ہے اور جو کوئی اپنے نفسانی بخل وحرص سے بچا لیا گیا تو یہی لوگ فلاں پانے والے ہیں اور مراد کو پہنچنے والے۔ سورہ آل عمران میں فرمایا اتقواللہ حق تقتہ یعنی اللہ تعالیٰ سے اتنا درو جو ڈرنے کا حق ہے لوگوں پر یہ بات شاق ہوئی کہ ڈرنے کا حق کون ادا کرسکتا ہے۔ یہاں ارشاد ہوا جس قدر ڈر سکتے ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یعنی استطاعت سے باہر اگر کوئی چیز ہو تو اس کا مطالبہ نہیں ہے یا وہ درجہ تجا مقربین کا اور یہ حکم ہے ابرار کا اور اس کے نصائح اور مواعظ سنو اور اس کے اوامربجا لائو یا احکام سنو اور مانو اور خیرات کرتے رہو خیرات سے مراد حقوق واجبہ جیسا کہ ابن عباس سے مروی ہے یا مراد عموم ہے صدقات نافلہ اور واجبہ شامل ہیں۔ اطیعوا کہنے کے بعد انفاق کا ذکر شاید اس لئے فرمایا کہ یہ نفوس پر شاق ہے یہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہے یعنی دنیا میں بھی نافع ہے اور آخرت میں بھی مفید ہے اور جو شخص اپنے نفس کے بخل آمیز حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیابی سے ہمکنار ہونے والے ہیں۔ شح کے معنی ہم سوروہ حشر میں عرض کرچکے ہیں ایسا بخل جس میں حرص شامل ہو یا ایسی حرص جس میں بخل شامل ہو، حضرت شاہ صاحب (رح) شح کا لالچ ترجمہ کرتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہترین معنی ہیں لالچ میں حرص اور بخل دونوں کا مفہوم آجاتا ہے ۔ کامیابی اور فلاح کا مطلب یہ ہے کہ جہنم سے بچ کر جنت میں داخل ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا قرب میسر ہوجائے۔