Surat ut Tehreem

Surah: 66

Verse: 10

سورة التحريم

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ ؕ کَانَتَا تَحۡتَ عَبۡدَیۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَیۡنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمۡ یُغۡنِیَا عَنۡہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا وَّ قِیۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیۡنَ ﴿۱۰﴾

Allah presents an example of those who disbelieved: the wife of Noah and the wife of Lot. They were under two of Our righteous servants but betrayed them, so those prophets did not avail them from Allah at all, and it was said, "Enter the Fire with those who enter."

اللہ تعالٰی نے کافروں کے لئے نوح کی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی یہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو ( شائستہ اور ) نیک بندوں کے گھر میں تھیں ، پھر ان کی انہوں نے خیانت کی پس وہ دونوں ( نیک بندے ) ان سے اللہ کے ( کسی عذاب کو ) نہ روک سکے اور حکم دے دیا گیا ( اے عورتو ) دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی چلی جاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا ... Allah sets forth an example for those who disbelieve, meaning, the disbelievers who live together in this life with Muslims, their mixing and mingling with Muslims will not help the disbelievers, nor will it avail them with Allah, until and unless they gain faith in their hearts. Then Allah mentioned the parable, saying, ... اِمْرَأَةَ نُوحٍ وَاِمْرَأَةَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ ... the wife of Nuh and the wife of Lut. They were under two of our righteous servants, means, they were the wives of two of Allah's Messengers and were their companions by day and night, eating with them and sleeping with them, as much as any marriage contains of interaction between spouses. However, ... فَخَانَتَاهُمَا ... they both betrayed them. meaning, in the faith, they did not adhere to the faith sent through their husbands nor accepted their message. Therefore, all the intimate knowledge of their husbands neither helped them nor prevented punishment, hence Allah's statement, ... فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْيًا ... So, they availed them not against Allah. means, because their wives were disbelievers, ... وَقِيلَ ... and it was said, meaning, to these wives, ... ادْخُلَ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ Enter the Fire along with those who enter! The part of the Ayah that reads, فَخَانَتَاهُمَا (but they both betrayed them) does not pertain to committing illegal sexual intercourse, but to refusing to accept the religion. Surely, the wives of the Prophets were immune from committing illegal sexual intercourse on account of the honor that Allah has granted His Prophets, as we explained in Surah An-Nur. Al-`Awfi reported from Ibn Abbas, "They betrayed them by not following their religion. The wife of Prophet Nuh used to expose his secrets, informing his oppressive people whenever any person embraced the faith with Nuh. As for the wife of Prophet Lut, she used to inform the people of the city (Sodom), who committed the awful sexual act (sodomy), whenever a guest was entertained by her husband." Ad-Dahhak reported that Ibn Abbas said, "No wife of a Prophet ever committed adultery and fornication. Rather, they betrayed them by refusing to follow their religion." Similar was said by Ikrimah, Sa`id bin Jubayr, Ad-Dahhak and others.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 مثل کا مطلب ہے کسی ایسی حالت کا بیان کرنا جس میں ندرت و غرابت ہوتا کہ اس کے ذریعے سے ایک دوسری حالت کا تعارف ہوجائے جو ندرت و غرابت میں اس کے مماثل ہو مطلب یہ ہوا کہ ان کافروں کے حال کے لیے اللہ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے جو نوح اور لوط (علیہما السلام) کی بیوی کی ہے۔ 10۔ 2 یہاں خیانت سے مراد ہے کہ یہ اپنے خاوندوں پر ایمان نہیں لائیں نفاق میں مبتلا رہیں اور ان کی ہمدردیاں اپنی کافر قوموں کے ساتھ رہیں چناچہ نوح (علیہ السلام) کی بیوی، حضرت نوح (علیہ السلام) کی بابت لوگوں سے کہتی کہ یہ مجنون ہے اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی اپنی قوم کو گھر میں آنے والے مہمانوں کی اطلاع پہنچاتی تھی بعض کہتے ہیں کہ یہ دونوں اپنی قوم کے لوگوں میں اپنے خاوندوں کی چغلیاں کھاتی تھیں۔ 10۔ 3 یعنی نوح اور لوط (علیہما السلام) دونوں، باوجود اس بات کے کہ وہ اللہ کے پیغمبر تھے، جو اللہ کے مقرب ترین بندوں میں سے ہوتے ہیں، اپنی بیویوں کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکے 10۔ 4 یہ انہیں قیامت والے دن کہا جائے گا یا موت کے وقت انہیں کہا گیا کافروں کی یہ مثال بطور خاص یہاں ذکر کرنے سے مقصود ازواج مظہرات کو تنبیہ کرنا ہے کہ وہ بیشک اس رسول کے حرم کی زینت ہیں جو تمام مخلوق میں سب سے بہتر ہے لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر انہوں نے رسول کی مخالفت کی یا انہیں تکلیف پہنچائی تو وہ بھی اللہ کی گرفت میں آسکتی ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر کوئی ان کو بچانے والا نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] یہ خیانت نہ مال کی خیانت تھی اور نہ عصمت کی کیونکہ حدیث میں یہ صراحت موجود ہے کہ کسی نبی کی کوئی بیوی کبھی بدکاری کی مرتکب نہیں ہوئی۔ بلکہ یہ ایمان اور اس کے تقاضوں کی خیانت تھی۔ نبیوں کی راہ اور تھی اور ان بیویوں کی راہ دوسری تھی۔ سیدنا نوح کی بیوی بھی کافر تھی اور اپنے خاوند یعنی سیدنا نوح کو دیوانہ سمجھتی اور کہتی تھی۔ سیدنا لوط کی بیوی کی بھی ساری ہمدردیاں اپنے خاوند کے بجائے کافروں کے ساتھ تھیں۔ کیونکہ وہ انہی کی قوم سے تھی۔ جب کوئی مہمان گھر میں آتا تو وہ اپنے ہمسایوں کو مخبری کردیتی تھی۔ [٢٢] یعنی نہ تو ان عورتوں کو پیغمبروں کی بیوی ہونا یا پیغمبروں کی صحبت میں رہنا کچھ فائدہ دے سکا۔ اور نہ ہی پیغمبر انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔ سیدنا نوح کی بیوی بھی غرق ہونے والوں کے ساتھ ڈوب کر مرگئی اور سیدنا لوط کی بیوی بھی قوم کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوئی۔ یہ تو ان کا دنیا میں انجام ہوا۔ آخرت میں بھی یہ پیغمبر اپنی بیویوں کو اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اللہ اور اس کے رسول پر صحیح ایمان نہ ہو تو قریبی سے قریبی رشتے بھی نہ دنیا میں کام آسکتے ہیں اور نہ آخرت میں۔ نبوت زادگی یا سید زادگی کوئی ایسا شرف نہیں جس پر تکیہ یا ناز کیا جاسکے۔ اور یہ مرض اہل کتاب میں عام تھا اور مسلمانوں میں بھی موجود ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ ضَرَبَ اللہ ُ مَثَـلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ۔۔۔: کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کے حکم کے بعد کفر کی نحوست اور ایمان کی برکت بیان فرمائی کہ قیامت کے دن کافر کو کسی مسلمان کے ساتھ کسی طرح کی قرابت کام نہیں آئے گی ، حتیٰ کہ اگر پیغمبر کی بیوی کافر ہے تو وہ پیغمبر اسے بھی جہنم میں جانے سے نہیں بچا سکے گا ۔ اس سے پہلے قرآن مجید میں نوح (علیہ السلام) کے بیٹے اور ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کی صورت میں نسبی قرابت کی مثالیں گزر چکی ہیں ۔ یہاں نوح (علیہ السلام) کی بیوی اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی کو کافر لوگوں کی مثال کے طور پر ذکر فرمایا ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ قصہ مطہرات کو سنایا گیا ہے ، مگر یہ بات غلط ہے اور بےدلیل ہے ، کیونکہ اس آیت میں کافر عورتوں کا ذکر ہے جن کے کفر کی وجہ سے ان کے خاوند ان کے کچھ کام نہ آسکے اور انہیں آگ میں داخل کردیا گیا ۔ امہات المومنین کو ان پر کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے جن کے ایمان ، تقویٰ اور پاکیزگی کی شہادت قرآن مجید نے دی ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ازواج مطہرات کا قصہ اوپر ختم ہوچکا ہے اور اس آیت کے مضمون کا تعلق ” یایھا الذین امنوا قوا انفسکم “ کے ساتھ ہے ، کیونکہ ایمان والوں کا اپنے ایمان والے قرابت داروں کو فائدہ پہنچانا قرآن مجید (طور : ٢١) اور احادیث شفاعت میں ثابت ہے۔ ٢۔ کتب تفاسیر میں نوح اور لوط (علیہما السلام) کی ان بیویوں کے نام مختلف آئے ہیں ، مگر صحیح سند سے کوئی بھی ثابت نہیں ۔ ٣۔” فخانتھما “: اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ خیانت کیا تھی اور نہ ہی کسی صحیح طریق سے اس خیانت کا ذکر آیا ہے ۔ اگر اس کی ضرورت ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور ذکر فرما دیتے ، اسے مبہم رکھنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ بندہ ہر قسم کی خیانت سے ڈرتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

ضَرَ‌بَ اللَّـهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ كَفَرُ‌وا امْرَ‌أَتَ نُوحٍ ( Allah has cited for the disbelievers the example of the wife of Nuh (علیہ السلام) and the wife of Lut (علیہ السلام) ...66:10). Towards the end of this Surah, Allah has set forth examples of four women. The first example comprises two women who were the wives of two Holy Prophets (علیہما السلام) . They, in matters of religion, opposed their husbands and secretly sided with the unbelievers and pagans. As a result, they ended up in the abyss of Hell, and their marital relation with the prophets could not save them from the punishment. The name of the wife of Nuh (علیہ السلام) is said to be Waghilah, while the name of the wife of Lut (علیہ السلام) is said to be Walihah. [ Qurtubi ] Some scholars have attributed other names to them. The third woman is the one who was the wife of the Pharaoh, the worst disbeliever and claimant of godhead, but she believed in Musa (علیہ السلام) . She was given such a high rank by Allah that she was shown her place in the Paradise, right here in this world, and the infidelity of her husband did not prove to be an impediment in her achieving this high rank. The fourth woman is Maryam (علیہا السلام) . She was not wife of anyone, but her faith and virtuous deeds earned for her such a high degree that she was invested with perfections of the prophets, even though she was not a prophet according to the majority of scholars. Verse [ 11] serves as a warning to the unbelievers who think that they will attain salvation merely by their companionship with believers, the good company will not rescue them in the Hereafter if they persist in their disbelief. So likewise, a disbeliever&s disbelief will not harm a believing relative. Therefore, the auliyas& and ambiyas& wives should not carelessly take for granted that they will attain salvation on account of their husbands nor should the wife of a disbeliever think that his disbelief will harm her. Every person, man or woman, should be concerned about his/her own faith and action.

ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ الآیة آخر سورت میں حق تعالیٰ نے چار عورتوں کی مثالیں بیان فرمائی ہیں، پہلی دو عورتیں دو پیغمبروں کی بیویاں ہیں جنہوں نے دین کے معاملے میں اپنے شوہروں کی مخالفت کی، کفار و مشرکین کی امداد وموافقت خفیہ کرتی رہیں اس کے نتیجہ میں جہنم میں گئیں، اللہ کے مقبول و برگزیدہ پیغمبروں کی زوجیت بھی ان کو عذاب سے نہ بچا سکی، ان میں ایک حضرت نوح (علیہ السلام) کی بی بی ہے جن کا نام واغلہ بیان کیا گیا ہے اور دوسری حضرت لوط (علیہ السلام) کی بی بی جس کا نام والہ کہا گیا ہے (قرطبی) ان کے ناموں میں اور بھی مختلف اقوال ہیں۔ تیسری وہ عورت ہے جو سب سے بڑے کافر خدائی کے مدعی فرعون کی بیوی تھی مگر موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی، اس کو اللہ تعالیٰ نے یہ درجہ دیا کہ دنیا ہی میں اس کو جنت کا مقام دکھلا دیا، شوہر کو فرعونیت اس کی راہ میں کچھ حائل نہیں ہوسکی چوتھی حضرت مریم ہیں جو کسی کی بی بی نہیں مگر ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ درجہ دیا کہ ان کو نبوت کے کمالات عطا فرمائے، اگرچہ جمہور امت کے نزدیک نبی نہیں۔ ان سب مثالوں سے یہ واضح کردیا کہ ایک مومن کا ایمان اسکے کسی کا فرعزیز کے کام نہیں آسکتا اور ایک کافر کا کفر اس کے کسی مومن عزیز کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، اس لئے انبیاء و اولیا کی بیویاں اس پر بےفکر نہ ہوں کہ ہمیں ہمارے شوہروں کی وجہ سے نجات ہو ہی جائے گی اور کسی کافر فاجر کی بیوی یہ فکر نہ کرے کہ اس کا کفر میرے لئے کسی مضرت کا سبب بن جائے گا بلکہ ہر ایک مرد و عورت کو اپنے ایمان وعمل کی فکر خود کرنا چاہئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ۝ ٠ ۭ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَيْــــًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ۝ ١٠ ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ لوط لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له . ( ل و ط ) لوط ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔ تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ خون الخِيَانَة والنّفاق واحد، إلا أنّ الخیانة تقال اعتبارا بالعهد والأمانة، والنّفاق يقال اعتبارا بالدّين، ثم يتداخلان، فالخیانة : مخالفة الحقّ بنقض العهد في السّرّ. ونقیض الخیانة : الأمانة وعلی ذلک قوله : لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، ( خ و ن ) الخیانۃ خیانت اور نفاق دونوں ہم معنی ہیں مگر خیانت کا لفظ عہد اور امانت کا پاس نہ کرنے پر بولا جاتا ہے اور نفاق دین کے متعلق بولا جاتا ہے پھر ان میں تداخل ہوجاتا ہے پس خیانت کے معنی خفیہ طور پر عہد شکنی کرکے حق کی مخالفت کے آتے ہیں اس کا ضد امانت ہے ۔ اور محاورہ میں دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو ۔ غنی( فایدة) أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (فخانتا ھما مگر انہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی) حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ یہ دونوں عورتیں منافق تھیں، خیانت کا یہ مفہوم نہیں کہ انہوں نے بدکاری کی تھی کیونکہ کسی نبی کی بیوی نے بدکاری نہیں کی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کی خیانت یہ تھی کہ وہ لوگوں سے کہا کرتی تھی کہ نوح دیوانے ہیں اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کی خیانت تھی کہ وہ لوگوں کو گھر آنے والے مہمان کی اطلاع دے دیتی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

حضرت لوط اور حضرت نوح کی بیوی کے بارے میں جو حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ نے رسول اکرم کو ایذا پہنچائی تھی اب اللہ تعالیٰ اس سے متنبہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کافروں کی عبرت کے لیے دو کافر عورتوں کا یعنی حضرت نوح کی بی بی اور لوط کی بی بی کا واقعہ بیان کرتا ہے یہ دونوں ہمارے دو رسولوں کے نکاح میں تھی اور اس کے علاوہ ان سے اور کسی خیانت کا اظہار نہیں ہوا کیونکہ نبی کی بیوی ہرگز اور کوئی خیانت نہیں کرسکتی تو عذاب خداوندی کے مقابلہ میں وہ دونوں نیک بندے ان کے کچھ کام نہ آسکے اور دونوں عورتوں کو حکم ہوگیا کہ تم دوزخ میں داخل ہوجاؤ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

ان آیات میں عورتوں کا معاملہ ایک اور پہلو سے زیربحث آ رہا ہے۔ واضح رہے کہ ان دونوں سورتوں (الطلاق اور التحریم) کی ایک مشترک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان دونوں میں عورتوں کے معاملات بیان ہوئے ہیں۔ چناچہ اب عورتوں پر واضح کیا جا رہا ہے کہ وہ خود کو اپنے شوہروں کے تابع سمجھتے ہوئے آخرت کے حساب سے نچنت نہ ہوجائیں۔ اسلام میں عورت اور مرد کا درجہ انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہے۔ لہٰذا عورتیں اپنے دین و ایمان اور اعمال و فرائض کی خود ذمہ دار ہیں۔ اگر ان کا ایمان درست ہوگا اور اعمال صالحہ کا پلڑا بھاری ہوگا تبھی نجات کی کوئی صورت بنے گی۔ ان کے شوہر خواہ اللہ کے کتنے ہی برگزیدہ بندے کیوں نہ ہوں اس معاملے میں وہ ان کے کچھ کام نہیں آسکیں گے۔ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے ان آیات میں چار خواتین کی مثالیں دی گئی ہیں : آیت ١٠{ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ } ” اللہ نے مثال بیان کی ہے کافروں کے لیے نوح (علیہ السلام) کی بیوی اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی کی۔ “ { کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ } ” وہ دونوں ہمارے دو بہت صالح بندوں کے عقد میں تھیں “ { فَخَانَتٰــھُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْھُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا } ” تو انہوں نے ان سے خیانت کی ‘ تو وہ دونوں اللہ کے مقابل میں ان کے کچھ بھی کام نہ آسکے “ وہ جلیل القدر پیغمبر (علیہ السلام) اپنی بیویوں کو اللہ کے عذاب سے نہ تو دنیا میں بچاسکے اور نہ ہی آخرت میں بچا سکیں گے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی سیلاب میں غرق ہوگئی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ پتھرائو کے عذاب سے ہلاک ہوئی۔ واضح رہے کہ یہاں جس خیانت کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد کردار کی خیانت نہیں ہے ‘ اس لیے کہ کسی نبی (علیہ السلام) کی بیوی کبھی بدچلن اور بدکار نہیں رہی ہے۔ ان کی خیانت اور بےوفائی دراصل دین کے معاملے میں تھی کہ وہ دونوں اپنے شوہروں کی جاسوسی کرتی تھیں اور ان کے راز اپنی قوم کے لوگوں تک پہنچاتی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک شادی شدہ عورت کی عصمت اس کے شوہر کی عزت و ناموس ہے جس کی حفاظت کرنا شوہر کی طرف سے اس پر فرض ہے ‘ لیکن اس کے علاوہ ایک بیوی اپنے شوہر کے رازوں اور اس کے مال وغیرہ کی محافظ بھی ہوتی ہے۔ سورة النساء کی آیت ٣٤ میں نیک اور مثالی بیویوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں ایک صفت حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بھی ہے ۔ اس کا مفہوم یہی ہے کہ نیک بیویاں اپنے شوہروں کی غیر حاضری میں ان کے گھر بار اور حقوق کی محافظ ہوتی ہیں۔ اب ظاہر ہے اس حفاظت میں شوہر کی عزت و ناموس کے ساتھ ساتھ اس کے مال اور اس کے رازوں وغیرہ کی حفاظت بھی شامل ہے۔ چناچہ یہاں خیانت سے صرف عزت و ناموس ہی کی خیانت مراد لینا درست نہیں۔ { وَّقِیْلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ ۔ } ” اور (آخرت میں) کہہ دیاجائے گا کہ تم دونوں داخل ہوجائو آگ میں دوسرے سب داخل ہونے والوں کے ساتھ۔ “ ان دو عبرت انگیز مثالوں سے یہ حقیقت واضح ہوجانی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے وہ اولوا العزم پیغمبر (علیہ السلام) جنہوں نے ساڑھے نو سو سال اللہ تعالیٰ کے پیغام کی دعوت میں صرف کیے وہ اگر اپنی بیوی کو برے انجام سے نہیں بچا سکے تو اور کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے کسی عزیز رشتے دار کی سفارش کرسکے گا ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دعوت کے آغاز میں قبیلہ قریش بالخصوص اپنے قریبی عزیز و اقارب کو جمع کر کے فرمایا تھا : (یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ! اشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ مِنَ اللّٰہِ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ‘ یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ! لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ! لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ! لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ! سَلِیْنِیْ بِمَا شِئْتِ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا) (١) ” اے قریش کے لوگو ! اپنے آپ کو اللہ (کی گرفت) سے بچانے کی کوشش کرو ‘ میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ اے بنی عبدالمطلب ! میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ اے صفیہ ‘ اللہ کے رسول کی پھوپھی ! میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ اے فاطمہ ‘ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی ! تم مجھ سے (میرے مال میں سے) جو چاہو طلب کرلو ‘ لیکن میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ “ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں : (یَافَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ ‘ فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا) (١) ” اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لخت جگر فاطمہ (رض) ! اپنے آپ کو آگ سے بچائو ‘ کیونکہ مجھے تمہارے بارے میں اللہ کے ہاں کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24 This betrayal" was not in the sense that they had committed an indecency but in the sense that they did not follow the Prophets Noah and Lot on the way of faith but sided with their enemies against them. Ibn 'Abbas say: °No Prophet's wife has ever been wicked and immoral The betrayal of these two women in fact was in the matter of faith and religion: they did not acknowledge the religion of the Prophets Noah and Lot. The Prophet Noah's wife used to convey news about the believers to the wicked of her people, and the Prophet Lot's wife used to inform the immoral people about those who visited him in his house. "(Ibn Jarir) .

سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :24 یہ خیانت اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ بد کاری کی مرتکب ہوئی تھیں بلکہ اس معنی میں ہے کہ انہوں نے ایمان کی راہ میں حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کا ساتھ نہ دیا بلکہ ان کے مقابلہ میں دشمنان دین کا ساتھ دیتی رہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کسی نبی کی بیوی کبھی بدکار نہیں رہی ہے ۔ ان دونوں عورتوں کی خیانت دراصل دین کے معاملہ میں تھی ۔ انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علی السلام کا دین قبول نہیں کیا ۔ حضرت نوح علی السلام کی بیوی اپنی قوم کے جباروں کو ایمان لانے والوں کی خبریں پہنچایا کرتی تھی ۔ اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اپنے شوہر کے ہاں آنے والے لوگوں کی اطلاع اپنی قوم کے بد اعمال لوگوں کو دےدیا کرتی تھی ۔ ( ابن جریر )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی لوگوں سے اپنے مقدس شوہر کو مجنون کہا کرتی تھی، اور حضرت نوح علیہ السلام کے راز اُن کے دُشمنوں کو بتادیا کرتی تھی، اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بھی آپ کے دُشمنوں کی مدد کیا کرتی تھی۔ (روح المعانی) یہ مثال دے کر اﷲ تعالیٰ متنبہ فرمارہے ہیں کہ کسی قریب ترین رشتہ دار کا اِیمان بھی اِنسان کو فائدہ نہیں دے سکتا جب تک وہ خود ایمان نہ لائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠۔ ١٢۔ اوپر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اہل و عیال کا اور عام مسلمانوں کے اہل و عیال کا جدا جدا ذکر تھا اس ذکر کے پورا ہوجانے کے لئے ان آیتوں میں تمثیل کے طور پر چار عورتوں کا ذکر فرمایا جن میں دو عورتیں حضرت نوح اور حضرت لوط دو پیغمبروں کی بیبیاں تھیں لیکن ان دونوں عورتوں کے ذاتی اعمال اچھے نہ تھے اس واسطے پیغمبروں کی رشتہ دار ان کے کچھ کام نہیں آئی بلکہ ان کے ذاتی عملوں کی خرابی کے سبب سے ان کی عقبیٰ برباد ہوگئی۔ تفسیر ابن ١ ؎ جریر میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ کسی نبی کی بی بی سے بدکاری کا گناہ سرزد نہیں ہوا۔ کہ اللہ کے نبی کی کسر شان نہ ہو اس قول کے موافق حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیبیوں کی خیانت اور چوری کے معنی بےدینی کے ہیں بدکاری کے نہیں ہیں۔ فرعون کی بی بی کا نام آسیہ بنت مزاحم تھا۔ حضرت موسیٰ کا جادوگروں پر غالب ہونے کا قصہ دیکھ کر جب آسیہ نے اللہ کے وحدہ لاشریک ہونے کی دل سے تصدیق کی اور زبان سے اس تصدیق کا اقرار بھی کیا تو فرعون نے یہ حال سن کر ان پر طرح طرح کا عذاب شروع کیا لیکن آسیہ اپنے ایمان پر قائم رہیں اور اسی عذاب کی حالت میں انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسیہ کی یہ دعا قبول فرمائی اور بہت جلدی فرعون کے ظلم سے ان جنتی بی بی کو نجات دے کر عقبیٰ میں بہت بڑا درجہ انہیں عنایت فرمایا۔ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم میں ابو موسیٰ اشعری کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مردوں میں تو بہت کامل لوگ ہوئے مگر عورتوں میں آسیہ بنت مزاحم اور مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کاملین کا درجہ ہے اس مضمون کی اور بھی صحیح روایتیں ہیں جن میں حضرت فاطمہ (رض) کا بھی ذکر ہے حاصل اس تمثیل کا یہ ہے کہ جس مرد یا عورت کے دل میں حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیبیوں کی طرح بالکل نور ایمانی نہیں ہے ان کی نجات کے لئے اللہ کے پیغمبروں کی قرابت داری بھی کافی نہیں ہوسکتی اور جن کے دل میں حضرت مریم اور آسیہ کی طرح کا نور ایمان ہے ان کو فرعون جیسے بد قرابتدار کی بدی بھی کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی ‘ اور جو لوگ حضرت نوح اور لوط کی بیبیوں کی طرح ایمان سے بالکل بےبہرہ نہیں ہیں بلکہ ان کے دل میں اگر ذرہ برابر بھی ایمان ہے تو ایسے لوگوں کی نجات کامل الایمان قرابتداروں کی اجنبی مسلمانوں کی شفاعت سے ممکن ہے۔ چناچہ ابو سعید خدری کی صحیح بخاری ٣ ؎ و مسلم کی روایت میں اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٩٣ ج ٤۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری فضل عائشہ (رض) ص ٥٣٢ ج ١ و صحیح مسلم باب من فضائل خدیجۃ (رض) ص ٢٨٤ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری کتاب الردعلی الجھمیۃ ص ١١٠٧ ج ٢ و صحیح مسلم باب اثبات رویۃ المومنین فی الاخرۃ ربہم الخ ص ١٠٢ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(66:10) ضرب اللہ مثلا للذین کفروا امرأت نوح وامرأت لوط : ضرب فعل اللہ فاعل۔ مثلا مفعول اول ۔ امرأت نوح مضاف مضاف الیہ مل کر معطوف علیہ واؤ عاطفہ امرأت لوط مضاف مجاف الیہ مل کر معطوف ، ہر دو مفعول اول فعل ضرب کے، مفعول اول کو مؤخر اس لئے کیا گیا کہ وہ اور اس کی تفسیر متصل رہیں اور ان کے معنی کی وضاحت بھی ساتھ ہی رہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امرأت نوح وامرأت لوط بدل ہے مثلا سے۔ ضرب کا معنی ایک چیز کو دوسری پر مارنا ہے۔ مختلف اعتبارات سے یہ لفظ بہت سے معانی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً (1) فضرب الرقاب (47:4) ان کی گردنیں اڑا دو ۔ (2) واذا ضربتجم فی الارض (4:101) اور جب تم سفر کو جاؤ۔ اور ضربت علیہم الذلۃ اور (آخر کار) ذلت ان سے چمٹا دی گئی۔ وغیرہ ذلک۔ ضرب المثل کا محاورہ ضرب الدراہم (دراہم کو ڈھالنا) سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ ضرب اللہ مثلا : اللہ تعالیٰ ایک مثال بیان فرماتا ہے :۔ للذین کفروا۔ متعلق مثلا۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ہے کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین جملہ مستانفہ ہے اور ضرب المثل (نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال ) کی تفسیر ہے۔ عبادنا صالحین موصوف وصفت (وہ دونوں عورتیں ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کے ماتحت تھیں یعنی ان کی بیویاں تھیں) ۔ فخانتھما : خاتنا ماضی تثنیہ مؤنث غائب خیانۃ (باب نصر) مصدر۔ ان دو عورتوں نے خیانت کی۔ ھما ضمیر مفعول تثنیہ مذکر گا ئب ان دو مردوں کی، یعنی ان ہر دو عورتوں نے اپنے خاوندوں سے بےوفائی کی) دغا کی۔ فلم یغنیا عنھما من اللہ شیئا : ف تعقیب کا ۔ لم یغنیا مضارع نفی جحد بلم صیغہ تثنیہ مذکر غائب اغناء (افعال) مصدر۔ وہ دونوں (مرد) کام نہ آسکے۔ وہ دونوں (مرد) دفع نہ کرسکے۔ عنھما میں ھما ضمیر تثنیہ مؤنث غائب کے لئے ہے (یعنی وہ دونوں عورتیں) ۔ من اللہ۔ اللہ (کے عذاب) سے۔ اللہ کے مقابلہ میں۔ شیئا کچھ بھی۔ مگر وہ اللہ کے مقابلہ میں ان دونوں عورتوں کے کچھ کام نہ آسکے، (یعنی ان کے عذاب الٰہی سے نہ بچا سکے) ۔ وقیل النار : ای وقیل لہما ادخلا۔ اور ان دونوں عورتوں کو کہا گیا (دونوں کو حکم دیا گیا) تم دونوں عورتیں داخل ہوجاؤ جہنم میں۔ الداخلین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ داخل ہونے والوں کے ساتھ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 خیانت (چوری) سے مراد دینی خیانت ہے نہ کہ اخلاقی خیانت عکرمہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ وہ کافر ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت نوح کی بیوی لوگوں سے کہا کرتی تھی کہ یہ (حضرت نوح) دیوانہ ہیں اور حضرت لوط کی بیوی قوم کو اپنے گھر آنے والے مہمانوں کی خبر دیا کرتی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ منافق تھیں الغرض اس پر اجماع ہے کہ کسی نبی کی بیوی نے بدکاری کا ارتکاب نہیں کیا۔ یہی چیز ان عاسکر کی ایک مرفوع روایت میں بھی آئی ہے۔ (شوکانی)4 اس مثال سے مقوصد کافروں کو یہ بتانا ہے کہ کفر کے ساتھ کوئی نیک کام نہیں آتی حتی کہ پیغمبر کی رشتہ داری بھی فاء نہیں دیتی۔ اس سے امہات المومنین (حضرت عائضہ و حفصہ) کو تنبیہ کرنا ہے۔ (شوکانی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یہ دعوی کرنا کہ یہ قصہ ازواج مطہرات کو سنایا گیا ہے محض دعوائے بلا دلیل ہے کیونکہ یہ قصہ مضمون ازواج کے متعلق نہیں، بلکہ مضمون آیت قوا انفسکم واھلیکم کے متعلق ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار، مشرکین اور منافقین کو ان کے انجام سے ڈرانے کے لیے دو عظیم انبیاء کی بیویوں کی مثال دی گئی ہے۔ مشرک اپنے شرک، کفار، اپنے کفر اور منافق اپنی منافقت کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ قیامت کے دن ہمیں کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا زعم ختم کرنے کے لیے دو عظیم انبیاء کی بیویوں کی مثال بیان فرمائی ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی نے برادری کو مقدم جانا اور اپنے کفر پر قائم رہی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی نے رشتہ داری کو عزیز سمجھا اور اپنے خاوند حضرت لوط (علیہ السلام) کے بارے میں منافقت اپنائے رکھی۔ رب ذوالجلال نے نوح اور لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل کیا تو نہ صرف ان عورتوں کو ان کی برادری نہ بچا سکی بلکہ عظیم پیغمبر بھی اپنی بیویوں کو عذاب الٰہی سے نہ بچا سکے۔ اس مثال میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین، کفار اور منافقین پر یہ بات کھول دی ہے کہ قیامت کے دن کوئی اپنے رشتے داروں اور بزرگوں کی وجہ سے جہنم کے عذاب سے نجات نہیں پاسکے گا، اس بات کی مزید وضاحت کے لیے قرآن مجید نے نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقیقی چچا ابولہب کا نام لے کر یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ دوسرے انبیائے کرام تو اپنے مقام پر سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنے رشتہ داروں کو جہنم سے نہیں بچاسکیں گے۔ (تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ وَّتَبَّ مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ وَامْرَأَتُہٗ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ فِیْ جِیْدِہَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ ) (سورۃ اللہب) ” ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ تباہ ہوگیا۔ جو اس نے مال کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ ضرور وہ بھٹکنے والی آگ میں ڈالا جائے گا اور اس کی بیوی کو بھی جو لکڑیاں اٹھانے والی ہے۔ اس کی گردن میں مونجھ کی رسی ہوگی۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ (وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ ) قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِيْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَابَنِيْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِيْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِيْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِيْ مَاشِءْتِ مِنْ مَالِيْ لَآأُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) (رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو ! اپنے لیے کچھ کرلو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے صفیہ ! رسول کی پھوپھی ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد ! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں مگر تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان اور ایثار کی خاطر فرعون جیسے ظالم اور نافرمان کی بیوی کو جنت میں داخل فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مظلوم کی دعا قبول کرتا ہے اس لیے اس نے فرعون کے مظالم سے اس کی بیوی کو نجات عطا فرمائی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی ظالموں سے نجات دینے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کو ظالموں سے نجات دی۔ ( الشعراء : ١١٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کو فرعون کے مظالم سے نجات عطا فرمائی۔ (الشعراء : ٦٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو بےحیا قوم سے نجات عطا فرمائی۔ (الشعراء : ١٧٠) ٤۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے ظالموں سے نجات عطا فرمائی۔ (ہود : ٩٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود اور ان کے ساتھیوں کو ظالموں سے نجات دی۔ (ہود : ٥٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو ظالموں سے نجات دی۔ (ہود : ٦٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد اب تیسرا دور آتا ہے۔ اس سورت کا یہ آخری دور ہے۔ اور یہ تیسرا دور بھی پہلے کا تکمیلی دور ہے۔ یہ انبیاء کے گھروں میں کافر عورتوں اور کفار کے گھروں میں مومن عورتوں کی بات کرتا ہے۔ ضرب اللہ ................................ من القنتین حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیویوں کے بارے میں جو یہ آیا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی ، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے خاوندوں کی دعوت کے خلاف کام کیا۔ یہ نہ تھا کہ وہ کسی فحاشی کی مرتکب ہوئی تھیں۔ نوح (علیہ السلام) کی بیوی بھی دوسرے مزاح کرنے والوں کے ساتھ اپنے شوہر کے ساتھ مزاح کرتی تھی۔ اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی نے ان کے مہمانوں کو اطلاع اوباشوں کو دی ، حالانکہ اس کو معلوم تھا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) اس بدفعلی کے خلاف ہیں۔ فرعون کی عوتر کے بارے میں یہ بات منقول ہے کہ یہ مومنہ تھی۔ شاید یہ ایشیائی ہوگی اور دین موسیٰ کو ماننے والی ہوگی۔ تاریخ میں آتا ہے کہ بادشاہ مصر امنخوتب چہارم کی والدہ ایشیائی تھیں اور یہ مصریوں کے دین پر نہ تھیں۔ یہ وہی بادشاہ تھا ، جس نے مصریوں کے لئے ایک خدا تجویز کیا اور سورج کی ٹکیہ کو اس کے لئے رمز بنایا اور اس نے اپنے آپ کو اخناتون کا لقب دیا۔ بہرحال یہ عورت مراد ہے ، یا موسیٰ (علیہ السلام) کا جو فرعون تھا اس کی بیوی مراد ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون امنخوتب نہ تھا۔ یہاں ہمیں فرعون کی عورت کی تاریخی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن کریم نے جو اشارہ کردیا ہے وہ کافی ہے۔ نام یا اشخاص تو اصولوں کے لئے مثال ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نام اور اشخاص اکثر ترک کرتا ہے۔ یہ حکم دینے کے بعد کہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو بچانے کی سعی کرو ، یہ اصول بہرحال دہرایا جاتا ہے کہ ہر شخص اپنے کیے کا ذمہ دار خود ہے۔ ازواج مطہرات اور ازواج مومنین سے کہا جاتا ہے ، اپنے انجام کی فکر کرو ، محض اس لئے کسی کو نہ چھوڑاجائے گا کہ وہ نبی کا بیٹا ہے یا وہ نبی کی بیوی ہے یا کسی صالح شخص کا بیٹا ہے یا بیوی ہے۔ ذرا دیکھو نوح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کی بیویوں کو۔ کانتا ........................ الداخلین (٦٦ : ٠١) ” وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں ، مگر انہوں نے اپنے ان شوہروں سے خیانت کی اور وہ اللہ کے مقابلہ میں ان کے کچھ بھی نہ کام آسکے۔ دونوں سے کہہ دیا گیا کہ جاﺅ آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جاﺅ “۔ کفر کے معاملے میں کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہے اور نہ کفر و ایمان میں کوئی سفارش چلتی ہے۔ اگر اسلامی نظریہ حیات کے ساتھ کوئی خیانت کرے گا تو وہ نبی کی بیوی کیوں نہ ہو ، جہنم رسید ہوگی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت نوح و لوط ( علیہ السلام) کی بیویاں کافر تھیں اور فرعون کی بیوی اور سیّدہ مریم مومنات میں سے تھیں ان آیات میں دو ایسی عورتوں کا تذکرہ فرمایا ہے جو نبیوں کے نکاح میں ہوتے ہوئے کافرہ تھیں اور کفر پر جمی رہیں اور دو ایمان والی عورتوں کا تذکرہ فرمایا۔ جن کافر عورتوں کا تذکرہ ان میں سے ایک حضرت نوح (علیہ السلام) کی اور دوسری حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی ہے (یہ شرائع سابقہ کی بات ہے ان کی شریعتوں میں کافر عورت سے نکاح جائز تھا ہماری شریعت میں صرف مسلمہ اور کتابی عورت سے نکاح جائز ہے کافر غیر کتابیہ سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے) ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا جیسے ایک بیٹا کافر تھا سمجھانے بجھانے اور طوفان کا عذاب نظروں سے دیکھنے کے باوجود ایمان نہ لایا اسی طرح سے آپ کی بیوی نے بھی ایمان قبول نہ کیا۔ اللہ کے ایک نبی کے ساتھ رہتی رہی لیکن مومن ہونا گوارہ نہ کیا۔ معالم التنزیل میں حضڑت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہ عورت یوں کہا کرتی تھی کہ یہ شخص دیوانہ ہے۔ دوسری کافر عورت جس کا ذکر فرمایا حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی تھی قرآن مجید میں کئی جگہ یہ بتایا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ غیر فطری عمل کرتے تھے اور مردوں سے شہوت پوری کرتے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے بار ہا انہیں سمجھایا لیکن وہ لوگ نہ مانے۔ معالم التنزیل میں یہ لکھا ہے کہ ان کی بیوی قوم کے لوگوں کی مدد کرتی تھی اور جب کوئی مہمان حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آتا تو لوگوں کو گھر میں آگ جلا کر بتا دیتی تھی کہ اس وقت تمہارا مقصد پور اہو سکتا ہے (آگ جلانے کو اس نے مہمانوں کی آمد کا نشان بنا رکھا تھا قوم کے لوگ دھواں یا روشنی دیکھ کر سمجھ جاتے تھے کہ مہمان آئے ہیں اور پھر ان سے خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے) روح المعانی میں بھی ﴿ فَخَانَتٰهُمَا ﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے ان دونوں باتوں کو لکھا ہے یعنی یہ کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی آپ کو دیوانہ بتاتی تھی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی مہمانوں کی خبر دے دیتی تھی۔ (ثم قال رواہ جمع و صححہ الحاکم عن ابن عباس) ان دونوں میں سے ہر عورت، اللہ کے نبی کی بیوی تھی لیکن دونوں کفر پر قائم رہیں اور اسی پر موت آئی، لہٰذا اس کی سزا میں ان کو دوسرے دوزخیوں کے ساتھ دوزخ میں جانا پڑا، ان کے شوہروں کا نبی ہونا ان کے کچھ کام نہ آیا۔ صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ شانہ نے ہر ایسے شخص کی امید کو قطع کردیا جو خود گناہگار ہو (کفر کی معصیت ہو یا فسق کی) اور امید یہ رکھتا ہو کہ جن نیک بندوں سے میرا تعلق ہے ان کی نیکی اور خوبی میرے تعلق کی وجہ سے مجھے نفع دے گی، خود گناہگار ہوتے ہوئے اپنے متعلقین کا نیک ہونا کام نہیں آسکتا، اپنی نجات کی خود فکر کریں، جو لوگ نسبتوں پر بھروسہ کر کے ایمان سے اور اعمال صالحہ سے دور رہتے ہیں اور یوں سمجھتے ہیں کہ کسی کی بیوی یا بیٹا یا پوتا یا نواسہ ہونے سے ہماری نجات ہوجائے گی یہ ان کی غلطی ہے۔ قطع اللہ بھذہ الآیة طمع کل من یرکب المعصیة ان ینفعہ صلاح عیرہ۔ (صفحہ ٢٣٦٨: ج ٤) جن دو مومن عورتوں کا تذکرہ فرمایا ان میں ایک فرعون کی بیوی تھی وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی تھی۔ جو لوگ ایمان لے آئے تھے فرعون انہیں بڑی تکلیفیں پہنچاتا تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اہل ایمان کو زمین پر لٹا کر ہاتھوں میں کیلیں گاڑ دیتا تھا اور اس وجہ سے اس سے سورة ٴ ص اور سورة ٴ والفجر میں ذوالاوتاد (کیلوں والا) بتایا ہے۔ تفسیر روح المعانی میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ فرعون نے اپنی بیوی کے ہاتھوں اور پاؤں میں کیلیں گاڑ دی تھیں جب کیلیں گاڑنے والے جدا ہوگئے تو فرشتوں نے اس پر سایہ کردیا اس وقت اس نے یہ دعا کی ﴿ رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ﴾ (اے میرے رب میرے لیے اپنے پاس جنت میں گھر بنا دیجئے) یعنی مقرب بندوں کے مقامات عالیہ میں جگہ نصیب فرمایئے۔ دعا کی تو ان کا جنت والا گھر اسی وقت منکشف ہوگیا۔ جنت میں بلند مرتبوں کی درخواست کرنے کے بعد یوں دعا کی کہ ﴿ وَ نَجِّنِيْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهٖ ﴾ (کہ یا رب مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے نجات دیدے) اور ساتھ ہی یوں بھی دعا کی ﴿ وَ نَجِّنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَۙ٠٠١١﴾ (کہ مجھے ظالم قوم سے نجات دے دیجئے) ان ظالموں سے فرعون کے کارندے انصار و اعوان مراد ہیں جو فرعون کے حکم سے اہل ایمان کو تکلیفیں پہنچایا کرتے تھے۔ (روح المعانی صفحہ ١٦٣، ١٦٤: ج ٢٨) معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ جب فرعون نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ اس کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا جائے۔ جب پتھر لے کر آئے تو انہوں نے مذکورہ بالا دعا کی، انہوں نے اپنا گھر جنت میں دیکھ لیا جو موتیوں کا گھر تھا اور اسی وقت روح پرواز کرگئی جب لوگوں نے پتھر رکھا تو بلا روح کا جسم تھا انہیں اس پتھر سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی اور حضرت حسن اور ابن کیسان (رح) سے نقل کیا ہے کہ اللہ نے فرعون کی بیوی کو جنت میں اوپر اٹھا لیا وہ وہاں کھاتی پیتی ہیں۔ (واللہ اعلم بالصواب) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن عورتوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے ان میں حضرت خدیجہ (رض) ، حضرت مریم (علیہ السلام) ، سیدہ فاطمہ، سیّدہ عائشہ صدیقہ اور حضرت آسیہ (رض) کی فضیلت کا ذکر ملتا ہے (روح المعانی) ۔ آسیہ فرعون کی بیوی کا نام تھا۔ صحیح بخاری صفحہ ٥٣٢: ج ١ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مردوں میں بہت کامل ہوئے اور عورتوں میں سے کامل نہیں ہیں مگر مریم (علیہ السلام) (حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ) اور آسیہ (رض) (فرعون کی بیوی) اور عائشہ (رض) کی فضیلت لوگوں پر ایسی ہے جیسی فضیلت ہے ثرید کی باقی کھانوں پر۔ اہل ایمان کو سیّدہ مریم بنت عمران (علیہ السلام) کا حال بھی بتایا ان کا تذکرہ سورة آل عمران رکوع ٤، ٥ میں اور سورة مریم رکوع ٢ اور سورة الانبیاء رکوع ٦ میں پہلے گزر چکا ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی والدہ تھیں چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اس لیے بنی اسرائیل نے حضرت مریم پر تہمت دھری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی برات اور پاکبازی بیان فرمائی۔ ارشاد فرمایا ﴿ وَ مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِيْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا ﴾ (اور اللہ نے اہل ایمان کے لیے مریم بنت عمران کی مثال بیان فرمائی جس نے اپنی ناموس کو محفوظ رکھا) ۔ ﴿ فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا ﴾ (سو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی) ۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیجا جنہوں نے سیّدہ مریم (علیہ السلام) کے گریبان میں پھونک دیا اسی سے حمل قرار پا گیا اور کچھ وقت گزرنے کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوگئے۔ جس کی تفصیل سورة مریم میں گزر چکی ہے۔ حضرت مریم (علیہ السلام) کی پاکدامنی بیان فرمانے کے بعد ان کی دو صفات بیان فرمائیں۔ ارشاد فرمایا ﴿ وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهٖ﴾ (اور اس نے اپنے رب کے کلمات کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی) یہ مضمون تمام ایمانیات کو شامل ہے۔ نیز فرمایا ﴿وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ (رح) ٠٠١٢﴾ (اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی) یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں لگی رہتی تھی، عربی قواعد کے اعتبار سے بظاہر وکانت من القانتات ہونا چاہیے (جو صیغہ تانیث ہے) ﴿ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ (رح) ٠٠١٢﴾ جو فرمایا اس کے بارے میں بعض مفسرین نے یوں کہا ہے کہ یہاں لفظ القوم محذوف ہے یعنی ﴿ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ (رح) ٠٠١٢﴾۔ بعض علماء نے فرمایا کہ یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ ایسے کنبہ اور قبیلہ سے تھیں جو اہل اصلاح تھے اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے اور بعض علماء نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ صیغہ تذکیر تغلیب کے لیے ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت کرنے میں ان مردوں کے شمار میں آگئیں جو عبادت وطاعت میں ہی لگے رہتے تھے چونکہ عموماً عبادات میں مرد ہی پیش پیش ہوتے ہیں اس لیے حضرت مریم (علیہ السلام) کو عبادت میں مشغول رہنے والے مردوں میں شمار فرما دیا۔ حدیث شریف میں جو : كمل من الرجال کثیر ولم یکمل من النساء الا مریم بنت عمران وآسیة امراة فرعون فرمایا ہے اس سے اس طرف اشارہ ملتا ہے۔ وھذ آخر تفسیر سورة التحریم والحمدللہ العلی الکریم العظیم والصلٰوة علی نبی محمد المصطفی الذی ھدیٰ الی الطریق المستقیم وعلی الہ وصحبہ الذین امنو بہ بقلب سلیم ودعوا الی الدین القویم

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” ضرب اللہ مثلاً “ یہ کافروں کے لیے تمثیل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت نوح اور لوط (علیہما السلام) دونوں جلیل القدر پیغمبر تھے اور ان کی بیویاں کافرہ اور مشرکہ تھیں اور اپنے خاوندوں کی مخالفت میں در پردہ کافروں کی ہمنوا تھیں تو پیغمبروں کی پیغمبر اور ان کے اعمال صالحہ ان کی کافرہ بیویوں کو کوئی فائدہ نہ ہنچا سکے۔ اور آخر کار ان کو دوزخیوں کے ساتھ دوزخ میں داخل ہونے کا حکم دیدیا گیا خیانت سے مخالفت میں کافروں کی ہمنوائی اور اپنے خاوندوں کے رازوں کا کافروں پر افشاء مراد ہے خیانت سے بدکاری مراد نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہما السلام) کی بیویوں کو اس فعل سے محفوط رکھا ہے۔ ولیس المراد بقولہ (فخانتاھما) فی فاحشۃ بل فی الدین فان نساء الانبیاء معصومات عن الوقوع فی الفاحشۃ الحرمۃ الانبیاء (ابن کثیر ج 4 ص 393) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) اللہ تعالیٰ کافروں کے لئے نوح (علیہ السلام) کی بیوی اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی کی حالت بیان فرماتا ہے وہ دونوں عورتیں ہمارے بندوں میں سے دو خاص بندوں کے نکاح میں تھیں یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) پھر ان عورتوں نے ان دونوں بندوں کے حق میں خیانت کی لہٰذا وہ دونوں نیک بندے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان عورتوں کے کچھ کام نہ آسکے اور ان دونوں عورتوں کو حکم دیا گیا کہ تم دونوں بھی اور جانے والوں کے ہمراہ آگ میں داخل ہوجائو۔ یعنی حضرت لوط اور حضرت نوح (علیہ السلام) (علیہما السلام) اللہ تعالیٰ کے پیغمبر شائستہ اور مخصوص بندے تھے مگر دونوں کی گھر والیاں منافق جو کافروں کے ساتھ ساز باز رکھتی تھیں یہی ان دونوں کی خیانت اور بےایمانی تھی چونکہ ان کا اپنا حال درست نہ تھا اس لئے صلحا کا تلبس ان کے حق میں نافع نہ ہوا اور ان کو دو سے دوزخیوں کے ساتھ جہنم میں دھکیل دیا گیا اور کہا گیا تم دونوں بھی دوسرے داخل ہونے والوں کے ساتھ آگ میں داخل ہوجائو۔