Surat ut Tehreem

Surah: 66

Verse: 12

سورة التحريم

وَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ صَدَّقَتۡ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہٖ وَ کَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِیۡنَ ﴿٪۱۲﴾  20

And [the example of] Mary, the daughter of 'Imran, who guarded her chastity, so We blew into [her garment] through Our angel, and she believed in the words of her Lord and His scriptures and was of the devoutly obedient.

اور ( مثال بیان فرمائی ) مریم بنت عمران کی جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی پھر ہم نے اپنی طرف سے اس میں جان پھونک دی اور ( مریم ) اس نے اپنے رب کی باتوں اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور عبادت گزاروں میں تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا ... And Maryam, the daughter of Imran who guarded her chastity (private part). meaning, who protected and purified her honor, by being chaste and free of immorality, ... فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا ... And We breathed into it (private part) through Our Ruh, meaning, through the angel Jibril. Allah sent the angel Jibril to Maryam, and he came to her in the shape of a man in every respect. Allah commanded him to blow into a gap of her garment and that breath went into her womb through her private part; this is how `Isa was conceived. This is why Allah said here, ... فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ ... And We breathed into it through Our Ruh, and she testified to the truth of her Lords Kalimat, and His Kutub, meaning His decree and His legislation. ... وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ and she was of the Qanitin. Imam Ahmad recorded that Ibn `Abbas said, "The Messenger of Allah drew four lines on the ground and said, أَتَدْرُونَ مَا هَذَا Do you know what these lines represent? They said, `Allah and His Messenger know best.' He said, أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ وَمَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ وَاسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْن The best among the women of Paradise are - Khadijah bint Khuwaylid, - Fatimah bint Muhammad, - Maryam bint `Imran and - Asiyah bint Muzahim, wife of Fir`awn. It is confirmed in the Two Sahihs from Abu Musa Al-Ash`ari that the Messenger of Allah said, كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيرٌ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ اسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ وَمَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ وَإِنَّ فَضْلَ عَايِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَايِرِ الطَّعَام Many men have reached the level of perfection, but none among women have reached this level except - Asiyah -- Fir`awn's wife, - Maryam--the daughter of `Imran, and - Khadijah--the daughter of Khuwaylid. And no doubt, the superiority of `A'ishah to other women is like the superiority of Tharid to other meals. In my book, Al-Bidayah wan-Nihayah, I have mentioned these Hadiths using their various chains of narration in relating the story of Prophet `sa and his mother Maryam, peace be upon them, all praise be to Allah. This is the end of the Tafsir of Surah At-Tahrim, all thanks and praise are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 حضرت مریم (علیہا السلام) کے ذکر سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ باوجود اس بات کے کہ وہ ایک بگڑی ہوئی قوم کے درمیان رہتی تھی، لیکن اللہ نے انہیں دنیا و آخرت میں شرف و کرامت سے سرفراز فرمایا اور تمام جہان کی عورتوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔ 12۔ 2 کلمات رب سے مراد شرائع الہی ہیں۔ 12۔ 3 یعنی ایسے لوگوں میں سے یا خاندان میں سے تھیں جو فرماں بردار عبادت گزار اور صلاح واطاعت میں ممتاز تھا حدیث میں ہے جنتی عورتوں میں سب سے افضل حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ، حضرت مریم اور فرعون کی بیوی آسیہ ہیں (رض) عنھن۔ (مسند احمد) ایک دوسری حدیث میں فرمایا مردوں میں تو کامل بہت ہوئے ہیں مگر عورتوں میں کامل صرف فرعون کی بیوی آسیہ مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد (رض) عنھن ہیں اور عائشہ (رض) کی فضلیت عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فضلیت حاصل ہے۔ صحیح بخاری۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] یعنی ان کا کوئی شوہر بھی نہیں تھا۔ گویا سیدہ مریم نے حلال اور حرام دونوں صورتوں سے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا اور پاکدامن رہیں۔ [٢٥] یعنی فرشتہ کے ذریعہ ایک روح پھونک دی۔ سیدنا جبرئیل نے آپ کے گریبان میں پھونک ماری جس کا نتیجہ استقرار حمل ہوا۔ اسی حمل سے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ سورة مریم کے دوسرے رکوع میں یہ قصہ بڑی تفصیل سے گزر چکا ہے۔ [٢٦] اس سے مراد وہ کلمات ہیں، جو فرشتوں نے سیدہ مریم سے کہے تھے۔ فرشتوں اور سیدہ مریم میں ہم کلامی کی یہ تفصیل پہلے سورة آل عمران کے پانچویں رکوع میں گزر چکی ہے۔ گویا اللہ نے انہیں جس کڑی آزمائش میں ڈالنے کا فیصلہ کرلیا تھا اس کے آگے انہوں نے سرتسلیم خم کردیا۔ اور اسی وجہ سے انہیں یہ عظیم مرتبہ ملا تھا۔ اور اللہ کی کتابوں سے مراد تورات بھی ہوسکتی ہے اور انجیل بھی اور سابقہ صحیفے بھی۔ گویا سیدہ مریم نے ان سب کتابوں کی تصدیق کی تھی۔ [٢٧] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ سیدہ مریم اللہ کی اطاعت و عبادت پورے خشوع و خضوع، کامل توجہ اور دل کی رضامندی کے ساتھ بجا لاتی تھیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کا سارا خاندان ہی ایسا تھا جس سے وہ تعلق رکھتی تھیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ ۔۔۔۔: یعنی اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے مثال کے طور پر فرعون کی بیو ی آسیہ اور مریم بنت عمران کا بیان فرمایا ہے کہ دونوں اعلیٰ درجے کے ایمان والی تھیں۔ قرآن مجید میں مریم بنت عمران کا نام صرف اس مقام پر نہیں بلکہ کئی جگہ آیا ہے اور یہ واحد قانون ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نام لیا ہے ۔ آیت کے اکثر الفاظ کی تشریح سورة ٔ انبیائ (٩١) میں اور دوسرے الفاظ کی تشریح مختلف آیات کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَ‌بِّهَا وَكُتُبِهِ (and she testified to the truth of the words of her Lord and His books, and she was one of the devout....66:12) The phrase &Words of her Lord& refers to scriptures that were revealed to the Holy Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The word kutub [ Books ] refers to the well-known celestial books - Injil, Zabur and Torah. The concluding statement وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ (and she was one of the devout....66:12) describes the quality of Sayyidah Maryam (علیہا السلام) . The word qanitin is the plural of qanit and signifies &devout and obedient&. Sayyidna Abu Musa (علیہ السلام) narrates that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Whilst many men have attained spiritual perfection, among women only Sayyidah ` Asiyah (رض) ، wife of Fir&aun, and Sayyidah Maryam, daughter of ` Imran (علیہما السلام) ، achieved this perfection.|" [ Bukhari and Muslim as quoted by Mazhari ]. Apparently, &perfection& in this context refers to &characteristics of Prophethood&. Despite being a woman, she achieved them. [ Mazhari ]. And Allah knows best! Al-hamdulillah The Commentary on Surah At-Tahrim Ends here

(آیت) وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهٖ ، کلمات رب سے مراد اللہ کے نزدل کردہ صحیفے ہیں جو انبیاء پر اترتے ہیں۔ اور کتب سے مراد معروف آسمانی کتابیں انجیل، زبور، تورات ہیں وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ قانت کی جمع ہے جس کے معنی عابد کے ہیں جو اپنی عبادت اور طاقت پر مداومت کرتا ہے۔ یہ حضرت مریم کی صفت ہے۔ حضرت ابوموسیٰ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مردوں میں سے بہت لوگ کامل ومکمل ہوئے ہیں مگر عورتوں میں سے صرف آسیہ فرعون کی بیوی اور مریم بنت عمران کامل ہوئیں (بخاری ومسلم، از مظہری) ظاہر یہ ہے کہ مراد کمالات نبوت ہیں کہ باوجود عورت ہونے کے ان کو حاصل ہوئے ( مظہری) واللہ اعلم تمت سورة التحریم بعون اللہ وحمدہ فی غرة رجب ١٩٣١ یوم الثلثائ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِيْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّہَا وَكُتُبِہٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ۝ ١٢ ۧ مریم مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» . حصن وتَحَصَّنَ : إذا اتخذ الحصن مسکنا، ثم يتجوّز به في كلّ تحرّز، وقوله تعالی: إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف/ 48] ، أي : تحرزون في المواضع الحصینة الجارية مجری الحصن ( ح ص ن ) الحصن تحصن کے اصل معنی نہ تو قلعہ کو مسکن بنا لینا کے ہیں مگر مجا زا ہر قسم کا بجاؤ حاصل کرنے پر لفظ بولا جاتا ہے ۔ اسی سے درع حصینۃ ( زرہ محکم ) اور فرس حصان ( اسپ نرو نجیب کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ زرہ بدن کے لئے اور گھوڑا اپنے سوار کے لئے ایک طرح سے بمنزلہ قلعہ کسے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف/ 48] صرف وہی تھوڑا سا رہ جائیگا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے ۔ میں تحصنون سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ قلعے جیسی محفوظ جگہوں میں حفا ظت سے رکھ چھوڑو ۔ فرج الفَرْجُ والفُرْجَةُ : الشّقّ بين الشّيئين کفرجة الحائط، والفَرْجُ : ما بين الرّجلین، وكنّي به عن السّوأة، وکثر حتی صار کالصّريح فيه . قال تعالی: وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء/ 91] ، لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون/ 5] ، وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور/ 31] ، واستعیر الفَرْجُ للثّغر وكلّ موضع مخافة . وقیل : الفَرْجَانِ في الإسلام : التّرک والسّودان «1» ، وقوله : وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق/ 6] ، أي : شقوق وفتوق، قال : وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات/ 9] ، أي : انشقّت، والفَرَجُ : انکشاف الغمّ. يقال : فَرَّجَ اللہ عنك، وقوس فَرْجٌ: انفرجت سيتاها، ورجل فَرْجٌ: لا يكتم سرّه، وفَرَجٌ: لا يزال ينكشف فرجه «2» ، وفَرَارِيجُ الدّجاج لانفراج البیض عنها، ودجاجة مُفْرِجٌ: ذات فراریج، والْمُفْرَجُ : القتیل الذي انکشف عنه القوم فلا يدری من قتله . ( ف ر ج ) & الفرج والفرجہ کے معنی دوچیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں ۔ جیسے دیوار میں شگاف یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی اور کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرمگاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء/ 91] اور ان ( مریم ) کو ( بھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ۔ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون/ 5] اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور/ 31] اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ اور استعارہ کے طور سر حد اور ہر خطرہ کی جگہ کو فرج کیا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اسلامی دور حکومت میں فرجان کا لفظ ترک اور سوڈان پر بولا جاتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق/ 6] اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں ۔ میں فروج بمعنی شگاف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات/ 9] اور جب آسمان پھٹ جائے ۔ میں فرجت بمعنی انشقت ہے یعنی جب آسمان شق ہوجائے گا ۔ الفرج کے معنی غم دور ہونیکے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فرج اللہ عنک اللہ تجھ سے غم کو دور کرے اور قوس فرج اس کمان کو کہتے ہیں جس کے دونوں گوشے کشادہ ہوں ۔ جیسا کہ تانت سے علیدہ ہونے کی حالت میں اور جو شخص اپنا بھید نہ چھپائے اس کو فرج کہا جاتا ہے اور فرج اس شخص کو کہتے ہیں جس کی شرمگاہ پر ستر یعنی پردہ نہ ہو ۔ فراریج الدجامرغی کے چوزے کیونکہ وہ انڈوں سے نکتے ہیں اور چوزوں والی مرغی کو مفرج کہا جاتا ہے المفروج وہ قتیل جس سے لوگ دور ہوجائیں اور اس کے قاتل کا علم نہ ہوسکے ۔ نفخ النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ( ن ف خ ) النفخ کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر/ 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔ روح الرَّوْحُ والرُّوحُ في الأصل واحد، وجعل الرّوح اسما للنّفس، وذلک لکون النّفس بعض الرّوح کتسمية النوع باسم الجنس، نحو تسمية الإنسان بالحیوان، وجعل اسما للجزء الذي به تحصل الحیاة والتّحرّك، واستجلاب المنافع واستدفاع المضارّ ، وهو المذکور في قوله : وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] ، وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وإضافته إلى نفسه إضافة ملك، وتخصیصه بالإضافة تشریفا له وتعظیما، کقوله : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] ، ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] ( رو ح ) الروح والروح دراصل ایک ہی ہیں ( روح کا اطلاق سانس پر ہوتا ہے اور سانس بھی چونکہ روح کا ایک جزء ہے اس لئے مجازا اسے روح کہہ دیا ہے جیسا کہ نوع کو اسم جنس سے تعبیر کرلیتے ہیں مثلا تسمیۃ الانسان بالحیوان اور کبھی روح کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ زندگی حرکت منافع کا حصوال ومضرات سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] اور تجھ سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ یہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] اور میں نے اس میں اپنی ( طرف سے ) روح پھونک دی ۔ میں روح کے یہی معنی مراد ہیں اور اللہ تعالٰیے کا اسے اپنی ذات کی طرف منسوب کرنا اضافت ملک کے طور پر ہے جس سے اس کی شرافت کا اظہار مقصود ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] میں بیت کیا اضافت اپنی ذات کی طرف کی ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] اے میرے بند و جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ۔ میں عباد کی نسبت بھی یا متکلم ( ذات باری تعالیٰ ) کی طرف اضافت تشریفی ہے ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو قنت القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة/ 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم/ 26] قيل : خاضعون، وقیل : طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه . وقال تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل/ 120] ، وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم/ 12] ، أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] ، اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران/ 43] ، وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب/ 31] ، وقال : وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب/ 35] ، فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء/ 34] . ( ق ن ت ) القنوت ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة/ 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم/ 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن منصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل/ 120] بت شک حضرت ابراھیم لوگوں کے امام اور خدا کے فرمابنرداری تھے ۔ اور مریم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم/ 12] اور فرمانبرداری میں سے تھیں ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] یا وہ جو رات کے وقتقں میں زمین پریشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران/ 43] اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا ۔ وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب/ 31] اور جو تم میں سے خدا اور اسکے رسول کی فرمنبردار رہے گی ۔ وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب/ 35] اور فرمانبرداری مرد اور فرمانبردار عورتیں ۔ فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء/ 34] تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور دوسری حضرت مریم (علیہا السلام) ہیں جنہوں نے اپنی ناموس کو حلال و حرام سے محفوظ رکھا تو ہم نے بواسطہ جبریل امین ان کے گریبان میں اپنی روح پھونک دی جس سے وہ حاملہ ہوگئیں اور جبریل امین نے ان سے جو فرمایا تھا انما انا رسول ربک الخ۔ انہوں نے اس کی اور تمام آسمانی کتب مثلا توریت و انجیل کی تصدیق کی یا یہ مطلب ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کی تصدیق کی کیونکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کا کلمہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کن فرمانے سے وہ پیدا ہوگئے اور انجیل کی تصدیق کی اور وہ خوش حال اطاعت والوں میں سے تھیں۔ یا یہ کہ وہ اس ذات کی جو کہ عظمت و بزرگیوں والا ہے اطاعت گزاروں میں سے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢{ وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا } ” اور عمران کی بیٹی مریم (علیہ السلام) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی “ یہ تیسری مثال ایسی خاتون کی ہے جو خود بھی نیک تھیں اور ان کی تربیت بھی انتہائی پاکیزہ ماحول میں ہوئی : { وَکَفَّلَھَا زَکَرِیَّا } (آل عمران : ٣٧) ۔ یعنی انہوں نے اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت زکریا (علیہ السلام) کی آغوش محبت میں پرورش پائی اور یوں ان کی سیرت نورٌ علیٰ نور کی مثال بن گئی۔ { فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا } ” تو ہم نے اس میں اپنی روح میں سے پھونکا “ { وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ } ” اور اس نے تصدیق کی اپنے رب کی تمام باتوں کی اور اس کی کتابوں کی “ حضرت مریم (سلامٌ علیہا) کو وحی کے ذریعے فرشتے جو کچھ بتاتے رہے انہوں نے وہ سب باتیں دل و جان سے تسلیم کیں۔ مثلاً یہ کہ اللہ نے تمہیں دنیا بھر کی عورتوں میں سے ُ چن لیا ہے اور یہ کہ اللہ کے حکم سے تمہارے ہاں بیٹا ہوگا۔ اسی طرح حضرت مریم نے زبور ‘ تورات اور عہد نامہ قدیم سمیت تمام الہامی کتب اور صحائف کی تصدیق بھی کی۔ { وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ ۔ } ” اور وہ بہت ہی فرمانبرداروں میں سے تھیں۔ “ ان تین مثالوں کے ذریعے خواتین کے حوالے سے تین ممکنہ صورتیں بیان کی گئی ہیں ‘ یعنی بہترین شوہر کے ہاں بدترین بیوی ‘ بدترین شوہر کے ہاں بہترین بیوی ‘ اور بہترین ماحول میں بہترین خاتون۔ چوتھی ممکنہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ شوہر بھی بدطینت ہو اور اس کی بیوی بھی بدطینت ہو۔ یعنی میاں بیوی دونوں کا ظاہر و باطن { ظُلُمٰتٌم بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍط } (النور : ٤٠) کا نقشہ پیش کرتا ہو اور فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے کہ ان دونوں میں کون زیادہ بدطینت اور بدسرشت ہے۔ اس ممکنہ صورت کی مثال سورة اللہب میں ابولہب اور اس کی بیوی (اُمّ جمیل) کی بیان ہوئی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 It may be that the name of Mary's father was °Imran, or she may have been called "daughter of 'Imran" because she belonged to the family of 'Imran. 27 This is a refutation of the accusation by the Jews that the birth of ,lesus was, God forbid, the result of a sin of his mother. Their same accusation has been called a monstrous calumny" in An-Nisa`: 156. (For explanation, see E.N. 190 of An-Niasa') . 28 That is, without her having any connection with a man, AIIah breathed into her womb a Spirit from Himself. (For explanation, see E.N.'s 212, 213 of An-Nisa' and E.N. 89 of Al-Anbiya') . 29 For the explanation of the object for which these three kinds of women have been cited as an example, see the Introduction to the Surah.

سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :26 ہو سکتا ہے کہ حضرت مریم کے والد ہی کا نام عمران ہو ، یا ان کو عمران کی بیٹی اس لیے کہا گیا ہو کہ وہ آل عمران سے تھیں ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :28 یعنی بغیر اس کے کہ ان کا کسی مرد سے تعلق ہوتا ، ان کے رحم میں اپنی طرف سے ایک جان ڈال دی ۔ ( تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اوّل ، النساء ، حواشی212-213 ۔ جلد سوم ، الانبیاء ، حاشیہ89 ) ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :29 جس مقصد کے لیے ان تین قسم کی عورتوں کو مثال میں پیش کیا گیا ہے اس کی تشریح ہم اس سورہ کے دیباچے میں کرچکے ہیں ، اس لیے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: اسی رُوح سے حضرت عیسی (علیہ السلام) پیدا ہوئے، اسی لئے ان کو روح اللہ کہا جاتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(66:12) ومریم ابنت عمران التی۔ واؤ عاطفہ۔ مریم ابنت عمران معطوف ، جس کا عطف امرات فرعون پر ہے ای وضرب اللہ مثلا للذین امنوا مریم ابنت عمران اور اللہ تیعالیٰ نے بیان فرمائی ہے مومنوں (کی تسلی) کے لئے مثال مریم بنت عمران کی۔ التی : اسم موصول واحد مؤنث : جس نے، احصنت۔ ماضی واحد مؤنث غائب احصان (افعال) مصدر بمعنی عصمت وعزت کی حفاظت۔ اس عورت نے محافظت کی فرحھا : مضاف مضاف الیہ۔ اپنے فرج کی، الفرج والفرجۃ کے معنی دو چیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں۔ جیسے دیوار میں شگاف ، یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی، اور کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرم گاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ والذین ھم لفروجھم حفظون (23:5) اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ شگاف کے معنوں میں قرآن مجید میں ہے وما لہا من فروج (50:6) اور اس میں کوئی شگاف تک نہیں۔ التی احصنت فرجھا : جس نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا۔ فنفخنا فیہ : ف عاطفہ۔ بمعنی پس، پھر ، تو، نفخنا ماضی جمع متکلم۔ نفخ (باب نصر) مصدر فیہ میں ضمیر ہ واحد مذکر غائب کا مرجع فرج ہے۔ پھر ہم نے اس میں پھونک دیا۔ مطلب یہ ہے ہمارے حکم سے جبریل (علیہ السلام) نے پھونک مار دی۔ بندوں کے تمام افعال کا خالق اللہ ہی ہے اور اللہ کے حکم سے جبریل (علیہ السلام) نے پھونکا تھا ۔ پھونک کا خالق اللہ ہی تھا۔ اس لئے پھونکنے کی نسبت بجائے جبریل کے اپنی طرف کردی۔ من روحنا۔ اخفش کے نزدیک من زائدہ ہے۔ بغیر کسی توسط کے اللہ نے روح کو پیدا کیا پس تخلیق روح کا تعلق براہ راست اللہ سے ہوا۔ مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اس کے فرج میں اپنی روح کو پھونک دیا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ روح فی الواقع فرج میں ہی پھونکا جائے یا گریبان پر پھونکا جائے اور اس کا اثر شرم گاہ تک پہنچ کر حمل پر منیج ہو۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش ایک معجزہ ہے جس میں طبیعاتی جزئیات کو کوئی دخل نہیں پس خدا کی طرف سے اللہ کی خلق کردہ روح جسم میں حضرت مریم کے پھونک دی اور وہ حاملہ ہوگئی ۔ فائدہ : آیت ہذا میں حضرت مریم (علیہا السلام) کی چند صفات مذکور ہوئی ہیں :۔ (1) احصنت فرحھا۔ اس نے اپنی شرم گاہ کی مخالفت کی۔ (2) وصدقت بکلمات ربھا : اپنے رن کا کلام برحق سمجھتی تھیں۔ (3) وصدقت، بکتبہ اور اس کی کتابوں کی تصدیق کرنے والی تھیں۔ (4) وکانت من القنتین : اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھیں۔ صدقت۔ ماضی واحد مؤنث غائب تصدیق (تفعیل) مصدر اس نے تصدیق کی۔ اس نے سچ مانا۔ بکلمات ربھا : کلمت جمع کلمۃ کی بمعنی احکام۔ اس کے دیگر معانی میں قرآن مجید میں آئے ہیں۔ کلمات مضاف ربھا مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ ، اپنے رب کے احکام ۔ من القنتین : من تبعیضیہ ہے۔ القنتین اسم فاعل جمع مذکر۔ معرف باللام قنوت (باب نصر) مصدر بمعنی خضوع اور عاجزی کرنا۔ قانت خضوع اور عاجزی کرنے والا۔ خضوع کے ساتھ اطاعت کرنے والا۔ فرماں بردار۔ اطاعت کے فرائض کو ادا کرنے والا۔ اور وہ اطاعت کرنے والوں میں سے تھیں۔ حدیث مرفوع میں ہے کہ :۔ کل قنوت فی القران فھو الحالۃ (رواہ احمد فی مسندہ) ۔ قرآن مجید میں ہر قنوت (سے مراد) طاعت ہے۔ اس لئے قانت ہو یا قانتات ہو یا قانتون ہو۔ یا اس کا ماضی بالمضارع اس کے معنی میں اطاعت کا مفہوم ضرور ہوگا۔ خواہ قرینے کو دیکھ کر یا شان نزول کے تحت کوئی بھی ترجمہ کیا جائے۔ اسی لئے امام راغب (رح) نے المفردات میں لکھا ہے کہ :۔ قنوت کے معنی ہیں۔ اطاعت مع الخضوع۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 جس سے ان کو حمل ہوگیا اور پھر حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے۔7 یعنی ان فرشتوں کو سچ مانا جو پچھلے پیغمبروں پر اتریں بعض مفسرین کہتے ہیں کہ کلمات سے مراد حضرت جبرئیل کے یہ الفاظ ہیں ” الما انا رسول ربک نیز فرشتوں کے یہ الفاظ یا مریم ان اللہ اصطفاک آلایۃ8 دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” وہ شریف اور نیک خاندان میں سے تھی۔ “ صحیحین میں حضرت ابو موسیٰ شعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علیہ وسلم نی فرمایا : مردوں میں بہت سے کامل ہوئے ہیں لیکن عورتوں میں سے صرف چار کامل ہوئی ہیں اسٓیہ زوجہ فرعون مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد اور عائشہ کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کے دوسرے کھانوں پر مسند احمد میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” جنت کی تمام عورتوں میں سے افضل چار ہیں خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اس میں بیان ہے ان کی نزاہت مکتسبہ قصد وموہبہ غیر قصد یہ کہ اخلاق و احوال فاضلہ میں سے ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ کے لئے خالص ہوجانے کی یہ ایک نہایت ہی اعلیٰ مثال ہے ، کہ وہ تمام موثرات کا مقابلہ کررہی ہے۔ تمام تعلقات کا مقابلہ کررہی ہے ، تمام رکاوٹوں کو عبور کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی لازوال کتاب میں وہ اپنا نام لکھواگئی۔ اور جب اس کتاب کے نزول کے وقت اس عورت کا نام پکارا جارہا ہوگا کہ اس عظیم کائنات کی لامحدود وادیوں میں اس کی گونج مچی ہوگی۔ ومریم ابنت عمرن (٦٦ : ٢١) ” عمران کی بیٹی مریم “۔ یہ بھی آغاز ہی سے پارسا خاتون تھیں۔ قرآن کریم نے دوسری سورتوں میں ان کی تعریف کی ہے۔ یہاں ان کی پاکیزگی کی سیرت کی بات ہے۔ التی ............ فرجھا (٦٦ : ٢١) ” جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی “۔ یہودی آپ پر الزامات عائد کرتے تھے ، قرآن کریم آپ کی برات کا اعلان کرتا ہے۔ فنفخنا ............ روحنا (٦٦ : ٢١) ” پھر ہم نے اس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونکی “۔ اور اس روح کے نتیجے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے ، جیسا کہ سورة مریم میں اس کی تفصیلات گزر گئی ہیں۔ یہاں ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہاں مقصد صرف آپ کی طہارت اور آپ کے ایمان کامل کو ثابت کرنا ہے۔ وصدقت ................ من القنتین (٦٦ : ٢١) ” اور اس نے اپنے رب کے ارشادات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزار لوگوں میں سے تھی “۔ یہاں امراة فرعون کا علیحدہ ذکر کرنا ، پھر اس کو حضرت مریم (علیہ السلام) کے ساتھ برابری کی سطح پر ذکر کرنا ، اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے نزدیک فرعون کی بیوی کا مرتبہ بھی بہت بلند تھا ، کیونکہ وہ نہایت ہی مشکل حالات میں راہ ایمان پر جمی ہوئی تھی۔ بہرحال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کے سامنے یہ دو نمونے رکھے جاتے ہیں کہ آپ لوگوں کا کردار اس قدر بلند ہونا چاہئے اور اہل ایمان کو قیامت تک یہ بتایا جاتا ہے کہ اسلامی سوسائٹی کو قائم کرنا ہے تو اس کے لئے باکردار اور مسلم خواتین پیدا کرو۔ بہرحال آخر میں ہم دوبارہ اس طرف قارئین کی توجہ مبذول کراتے ہیں کہ یہ سورت اور یہ پورا پارہ بہترین اور زندہ مثال ہے نبی کریم کی سیرت کی۔ اور ان سورتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام اور صحابیات کی جو جماعت تیار کی ، تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ہے۔ پھر قرآن کریم نے سیرت النبی کے واقعات کو جس انداز میں بیان کیا ہے وہ قرآن کا منفرد انداز ہے۔ ایک جزوی واقعہ کو مخصوص حالات سے نکال کر اور زمان ومکان کا رنگ اڑاکر قرآن اس کو ایک ابدی اصول کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ کام قرآن ہی کرسکتا ہے۔ پڑھنے والا اسے ایک واقعہ کے پس منظر میں پڑھ کر سمجھتا ہے ، لیکن قرآن اس سے جو نتائج اخذ کرتا ہے ، وہ کلی ہوتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” ومریم ابنت عمران “ مومنوں کے لیے دوسری تمثیل ہے۔ حضرت مریم صدیقہ کا حال سنو جن کو پاکبازی، صلاح وتقوی اور عبادت و طات کی بدولت ایسا مرتبہ بلند عطا ہوا، مگر ان کے طاعنین کے کفر اور ان کے طعن سے ان کو کوئی ضرر نہ پہنچ سکا، وہ پاکدان تھی اور اللہ تعالیٰ کی تمام کتابوں اور صحیفوں پر ایمن رکھتی تھی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں نہایت فرمانبردار اور عبادت گذار تھی۔ ہم نے محض اپنی قدرت سے اس میں روح پھونک دی جس سے وہ مار دار ہوگئی اور اس طرح ہم نے خاوند کے بغیر ہی اس کو بیٹا عطا فرمادیا۔ سورة تحریم میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ یا ایہا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک الخ۔ تحلیل و تحریم کا اختیار اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں۔ 2 مسئلہ توحید کی انفاق اور جہاد فی سبیل اللہ کا حکم سورة تحریم ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) اورنیز مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ عمران کی بیٹی مریم (علیہ السلام) کا حال بیان فرماتا ہے جنہوں نے اپنی عفت اپنی پاکدامنی اور ناموس کو محفوظ رکھا پھر ہم نے اس کے گریبان میں اپنی ایک روح پھونک دی اور مریم (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کے پیغامات کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور سچ جانیں اس نے پروردگار کی باتیں اور اس کی کتابیں اور وہ فرماں بردار اور عبادت گزار لوگوں میں سے تھی۔ یعنی حضرت مریم (علیہ السلام) نے اپنی عفت اور اس ناموس کو ہر طرح محفوظ رکھا یعنی حرام سے بھی اور حلال سے بھی نہ کسی سے نکاح کیا اور نہ بغیر نکاح کے معاذ اللہ کسی سے تعلق ہوا۔ پھر بواسطہ جبرئیل ہم نے اپنی روح اس میں پھونک دی جیسا کہ سورة مریم میں گزر چکا ہے فرج عضو مخصوص کو بھی کہتے ہیں اور گریبان کے چاک کو بھی سوروہ قاف میں گزرا ہے ۔ ومالھا من فروج ہمارے بزرگوں میں سے کسی نے یہاں رحم ترجمہ کیا ہے کسی نے پیٹ کہا ہے کسی نے گریبان کا چاک کہا ہے ۔ گریبان پاک دامنی کے اعتیار سے محاورے کے زیادہ قریب ہے اس لئے ہم نے گریبان اختیار کرلیا ہے۔ اگرچہ اس روح کو پھونکنا حضرت روح الامین کے واسطے تھا لیکن حضرت حق جل مجدہ نے نفخ کی نسبت اپنی طرف فرمائی تو وہ حق تعالیٰ کے فاعل حقیقی اور موثر الاطلاق ہونے کی وجہ سے ے جن لوگوں نے یہاں فرج سے عضو مراد لیا ہے اور فیہ کی ضمیر کو فرج کی طرف راجع کیا ہے انہوں نے لغوی اعتبار سے کہ اے جیسا کہ آپ سورة قاف کی آیت سے معلوم کرچکے ہیں۔ کلمات رب سے شاید وہ باتیں مراد ہیں جو فرشتوں کی معرفت آپ کا پیام پہنچتے رہے جیسا کہ تیسرے پارے میں گزر چکا ہے۔ ان اللہ اصطفک وطھرک الخ یا شاید انبیاء (علیہم السلام) کے صحائف مراد ہوں کتب سے آسمانی کتابیں، توریت، انجیل، زبور یا جملہ کتب سماویہ جن میں فرقان بھی شامل ہے۔ بہرحال کئی اقوال ہیں حضرت مریم (علیہ السلام) کو جو پیام وقتاً فوقتاً ملائکہ کی معرفت موصول ہوئے یا پیغمبروں کو جو احکام صحیفوں کے ذریعے پہنچے ہوں وہ ہوں یہ سب کلمات میں داخل ہیں۔ کتبہ میں جملہ کتب سماویہ مراد لینا زیادہ انسب ہے قانت طاعت پر مواظبت اور مداومت کرنے والی۔ بعض حضرات نے اعتکاف کرنے والی ترجمہ کیا ہے چونکہ عام طور سے مسجد اقصیٰ میں حضرت مریم (علیہ السلام) معتکف رہا کرتی تھیں اس لئے قانتین کے معنی معتکفین کئے ہیں عبادت گزار ، ادب والی، غرض بہت سے معنی کئے ہیں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یوں کہاجائے کہ حضرت مریم (علیہ السلام) قانتین کے خاندانوں سے تھی۔ واللہ اعلم تم تفسیر سورة التحریم