Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 20

سورة الملك

اَمَّنۡ ہٰذَا الَّذِیۡ ہُوَ جُنۡدٌ لَّکُمۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ الرَّحۡمٰنِ ؕ اِنِ الۡکٰفِرُوۡنَ اِلَّا فِیۡ غُرُوۡرٍ ﴿ۚ۲۰﴾

Or who is it that could be an army for you to aid you other than the Most Merciful? The disbelievers are not but in delusion.

سوائے اللہ کے تمہارا وہ کون سا لشکر ہے جو تمہاری مدد کر سکے کافر تو سراسر دھو کے ہی میں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

No One will help You and No One can grant Sustenance except for Allah Allah addresses the idolators who worship others besides Him, seeking help and sustenance from them. Allah rebukes them for what they believe, and He informs them that they will not attain that which they hope for. Allah says, أَمَّنْ هَذَا الَّذِي هُوَ جُندٌ لَّكُمْ يَنصُرُكُم مِّن دُونِ الرَّحْمَنِ ... Who is it besides the Most Gracious that can be an army to you to help? meaning, there is no protector or helper for you besides Him. This is the reason that Allah says, ... إِنِ الْكَافِرُونَ إِلاَّ فِي غُرُورٍ The disbelievers are in nothing but delusion. Then Allah says,

رزاق صرف رب قدیر ہے اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس عقیدے کی تردید کر رہا ہے جو وہ خیال رکھتے تھے کہ جن بزرگوں کی وہ عبادت کرتے ہیں وہ ان کی امداد کر سکتے ہیں اور انہیں روزیاں پہنچا سکتے ہیں فرماتا ہے کہ سوائے اللہ کے نہ تو کوئی مدد دے سکتا ہے نہ روزی پہنچا سکتا ہے نہ بچا سکتا ہے ، کافروں کا یہ عقیدہ محض ایک دھوکہ ہے ۔ اگر اب اللہ تبارک و تعالیٰ تمہاری روزیاں روک لے تو پھر کوئی بھی انہیں جاری نہیں کر سکتا ، دینے لینے پر ، پیدا کرنے اور فنا کرنے پر ، رزق دینے اور مدد کرنے پر صرف اللہ عزوجل وحدہ لا شریک لہ کو ہی قدرت ہے ۔ یہ لوگ خود اسے دل سے جانتے ہیں ، تاہم اعمال میں اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کفار اپنی گمراہی کج روی گناہ اور سرکشی میں بہے چلے جاتے ہیں ان کی طبیعتوں میں ضد تکبر اور حق سے انکار بلکہ حق کی عداوت بیٹھ چکی ہے ، یہاں تک کہ بھلی باتوں کا سننا بھی انہیں گوارا نہیں عمل کرنا تو کہاں؟ پھر مومن و کافر کی مثال بیان فرماتا ہے کہ کافر کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی شخص کمر کبڑی کر کے سر جھکائے نظریں نیچی کئے چلا جا رہا ہے نہ راہ دیکھتا ہے نہ اسے معلوم ہے کہ کہاں جا رہا ہے بلکہ حیران ، پریشان ، راہ بھولا اور ہکا بکا ہے ۔ اور مومن کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص سیدھی راہ پر سیدھا کھڑا ہوا چل رہا ہے راستہ خود صاف اور بالکل سیدھا ہے یہ شخص خود اسے بخوبی جانتا ہے اور برابر صحیح طور پر اچھی چال سے چل رہا ہے ، یہی حال ان کا قیامت کے دن ہو گا کہ کافر تو اوندھے منہ جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے اور مسلمان عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ 22؀ۙ ) 37- الصافات:22 ) ترجمہ ظالموں کو اور ان جیسوں کو اور ان کے ان معبودوں کو جو اللہ کے سوا تھے جمع کر کے جہنم کا راستہ دکھا دو ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگ منہ کے بل چلا کر کس طرح حشر کئے جائیں گے ، آپ نے فرمایا جس نے پیروں کے بل چلایا ہے وہ منہ کے بل چلانے پر بھی قادر ہے ، بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے ۔ اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پہلی مرتبہ جب کہ تم کچھ نہ تھے پیدا کیا تمہیں کان آنکھ اور دل دیئے یعنی عقل و ادراک تم میں پیدا کیا لیکن تم بہت ہی کم شکر گذاری کرتے ہو یعنی اپنی ان قوتوں کو اللہ تعالیٰ کی حکم برداری میں اور اس کی نافرمانیوں سے بچنے میں بہت ہی کم خرچ کرتے ہو ۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا ، تمہاری زبانیں جدا ، تمہارے رنگ روپ جدا ، تمہاری شکلوں صورتوں میں اختلاف ۔ اور تم زمین کے چپہ چپہ پر بسا دیئے گئے ، پھر اس پرا گندگی اور بکھرنے کے بعد وہ وقت بھی آئے گا کہ تم سب اس کے سامنے کھڑے کر دیئے جاؤ گے اس نے جس طرح تمہیں ادھر ادھر پھیلا دیا ہے ، اسی طرح ایک طرف سمیٹ لے گا اور جس طرح اولاً اس نے تمہیں پیدا کیا دوبارہ تمہیں لوٹائے گا ۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ کافر جو مر کر دوبارہ جینے کے قائل نہیں وہ اس دوسری زندگی کو محال اور ناممکن سمجھتے ہیں اس کا بیان سن کر اعتراض کرتے ہیں کہ اچھا پھر وہ وقت کب آئے گا جس کی ہمیں خبر دے رہے ہو اگر سچے ہو تو بتا دو کہ اس پراگندگی کے بعد اجتماع کب ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان کو جواب دو کہ اس کا علم مجھے نہیں کہ قیامت کب قائم ہو گی اسے تو صرف وہی علام الغیوب جانتا ہے ہاں اتنا مجھے کہا گیا ہے کہ وہ وقت آئے گا ضرور ، میری حیثیت صرف یہ ہے کہ میں تمہیں خبردار کر دوں اور اس دن کی ہولناکیوں سے مطلع کر دوں ، میرا فرض تمہیں پہنچا دینا تھا جسے بحمد للہ میں ادا کر چکا ، پھر ارشاد باری ہوتا ہے کہ جب قیامت قائم ہونے لگی اور کفار اسے اپنی آنکھوں دیکھ لیں گے اور معلوم کرلیں گے کہ اب وہ قریب آگئی کیونکہ ہر آنے والی چیز آ کر ہی رہتی ہے ، گو دیر سویر سے آئے ، جب اسے آیا ہوا پالیں گے ، جسے اب تک جھٹلاتے رہے تو انہیں بہت برا لگے گا کیونکہ اپنی غفلت کا نتیجہ سامنے دیکھ لیں گے اور قیامت کی ہولناکیاں بدحواس کئے ہوئے ہوں گی ، آثار سب سامنے ہوں گے اس وقت ان سے بطور ڈانٹ کے اور بطور تذلیل کرنے کے کہا جائے گا یہی ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 جس میں انہیں شیطان نے مبتلا کر رکھا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] کافر جو بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے ہیں کہ اگر ہمیں جہنم کے عذاب سے دوچار ہونا بھی پڑا تو ہم دوزخ کے فرشتوں سے نمٹ لیں گے۔ یہ باتیں وہ محض اس لیے کرتے ہیں کہ نہ انہیں مر کر جی اٹھنے کا یقین ہے اور نہ جہنم کے عذاب کا۔ وہ بڑے سخت دھوکے میں مبتلا ہوچکے ہیں اور موت سے پہلے ان کو لگا ہوا یہ دھوکا ان کے ذہن سے نکل نہیں سکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِيْ ہُوَ جُنْدٌ لَّکُمْ ۔۔۔۔: بھلا یہ تو بتاؤ کہ اگر اتنی قدرتوں والا رحمان تمہیں پکڑنے پر آجائے تو وہ کون ہے جو تمہارا لشکر بن کر اس کے مقابلے میں تمہاری مدد کرسکے ؟ کوئی نہیں ، بالکل نہیں ۔ کافر لوگ جن کے دلوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ فلاں ہستی اور فلاں مشکل کشا اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کی مدد کریں گے اور زبردستی سفارش کر کے چھڑا لیں گے ، محض دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں ، جس میں انہیں شیطان نے مبتلا کر رکھا ہے۔ ” من دون الرحمن “ کا ایک معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رحمان کے علاوہ وہ کون ہے جو کسی مصیبت میں لشکر بن کر تمہاری مدد کرسکے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَمَّنْ هَـٰذَا الَّذِي هُوَ جُندٌ لَّكُمْ يَنصُرُ‌كُم مِّن دُونِ الرَّ‌حْمَـٰنِ ۚ إِنِ الْكَافِرُ‌ونَ إِلَّا فِي غُرُ‌ورٍ‌ (Now, who is there to become a force for you to help you, except the Rahman? The disbelievers are in nothing but delusion...67:20). Then the next verse warns the disbelievers that the sustenance Allah grants them by sending down rain from the clouds and by growing plants/ vegetation in the earth is not their personal property. It is a gift and bounty from Allah. If He wills, He can withhold it. This is the import of the following verse:

چناچہ ارشاد فرمایا۔ (آیت) اَمَّنْ هٰذَا الَّذِيْ هُوَ جُنْدٌ لَّكُمْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ ۭ اِنِ الْكٰفِرُوْنَ اِلَّا فِيْ غُرُوْرٍ ۔ اس کے بعد اس کے ڈرایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا جو رزق تم کو آسمان سے پانی برسنے و اور زمین سے نباتا اگانے کے ذریعہ مل رہا ہے یہ کوئی تمہاری ذاتی جاگیر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا و بخشش ہے وہ اس کو روک بھی سکتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِيْ ہُوَجُنْدٌ لَّكُمْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ۝ ٠ ۭ اِنِ الْكٰفِرُوْنَ اِلَّا فِيْ غُرُوْرٍ۝ ٢٠ ۚ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ جند يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات/ 173] ( ج ن د ) الجند کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات/ 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ غرر يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ». والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها . ( غ ر ر ) غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ کے سوا وہ کون ہے جو عذاب خداوندی سے تمہاری حفاظت کرے، کافر تو دنیاوی جھوٹ اور بڑے دھوکا میں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠{ اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِیْ ہُوَ جُنْدٌ لَّــکُمْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ } ” بھلا وہ کون ہے جو تمہارا لشکر بن کر تمہاری مدد کرے رحمن کے مقابلہ میں ؟ “ { اِنِ الْکٰفِرُوْنَ اِلَّا فِیْ غُرُوْرٍ ۔ } ” نہیں ہیں یہ کافر مگر دھوکے میں مبتلا ہیں۔ “ حقیقت یہ ہے کہ یہ منکرین صرف دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31 Another translation can be: "Who is there beside the Merciful, who comes to your rescue as your army?" The translation that we have adopted in the text above has relevance to the following sentence, and this second to the preceding discourse.

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :31 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رحمان کے سوا وہ کون ہے جو تمہارا لشکر بنا ہوا تمہاری دستگیری کرتا ہو ۔ ہم نے متن میں جو ترجمہ کیا ہے وہ آگے کے فقرے سے مناسبت رکھتا ہے ، اور اس دوسرے ترجمہ کی مناسبت پچھلے سلسلہ کلام سے ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: یعنی یہ کافر لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے من گھڑت معبود ہماری مدد کریں گے، وہ خالص دھوکے میں ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٠۔ ٢٧۔ اوپر ذکر تھا کہ قریش اپنی سرکشی کو نہ چھوڑیں گے تو جس طرح ان سے پہلے کی قومیں عذاب الٰہی میں گرفتار ہو کر ہلاک اور غارت ہوچکی ہیں وہی انجام قریش کا ہوگا ان آیتوں میں جو فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ جند فوج کو کہتے ہیں مشرکین مکہ نے تین سو ساٹھ کے قریب بتوں کو اپنا معبود ٹھہرا رکھا تھا ان بتوں کا نام جند رکھ کر یہ ارشاد ہے کہ ان مشرکین کے دلوں میں یہ بات جو بسی ہوئی ہے کہ وقت پڑنے پر ان کے بت کچھ ان کی مدد کریں گے یہ فقط شیطان کا دھوکا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے برا وقت پڑے تو سواء اللہ تعالیٰ کے اور کسی میں یہ قدرت کہاں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے برے وقت ڈالے ہوئے کو ٹال سکے پچھلی امتیں بھی اسی شیطانی دھوکے میں تھیں مگر وقت پڑے پر اس دھوکے سے انہیں پچھتانا پڑا۔ اس وقت کا پچھتانا کچھ ان کے کام نہ آیا آخر ایک دم میں سب ہلاک ہو کر دونوں جہان سے گئے پھر قحط کے عذاب کی مثال دے کر سمجھایا کہ اگر ایک برس آسمان سے مینہ نہ برسے تو بھلا سوا اللہ کے کسی میں قدرت ہے کہ اس مصیبت کو ٹال سکے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اور عذاب آجائے گا تو اس کو پھر وہی ٹالے گا تو ٹلے گا اس کے سوا برے وقت پر کوئی کام نہ آئے گا صحیحین ١ ؎ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ جب قریش اپنی سرکشی سے باز نہ آئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بددعا کی اور مکہ میں اس طرح کا قحط پڑا کہ لوگ مردار جانور تک کھا گئے اور قریش سب بت پرستی بھول گئے اور کوئی بت کام نہ آیا۔ آخر جب اللہ کے رسول نے ہی دعا کی تو خدا کے ٹالنے سے وہ بلا ٹلی۔ ان آیتوں میں جس مثال سے اللہ تعالیٰ نے مکہ کے مشرک لوگوں کو سمجھایا ہے یہ حدیث اس مثال کی گویا تفسیر ہے اس قحط کے ذکر میں یہ بھی فرمایا کہ اتنی بڑی تنبیہ کا اثر جو ان لوگوں پر کچھ نہیں ہوا اس کا سبب یہی ہے کہ اپنی شرارت سے یہ لوگ قرآن کی نصیحت کے سننے سے بدکتے ہیں اور بدکنے کے سبب سے وہ شرارت ان کے دلوں میں گھس گئی ہے اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد قریش نے جب قرآن کی نصیحت سے وہ اپنا بدکنا کم کردیا تو پھر ان کی وہ شرارت بھی نہ رہی اور فتح مکہ تک سب قصہ طے ہوگیا۔ قرآن شریف میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے اسی لئے اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ مشرک لوگ اس بات کو سمجھیں کہ جب نعمتیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں کسی کا اس میں کچھ دخل نہیں ہے اور کوئی مصیبت آ کر ان نعمتوں کو کچھ زوال پہنچا جائے تو اس زوال کی مصیبت کو بھی سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی دفع نہیں کرسکتا تو پھر یہ مشرک لوگ اوندھا راستہ چل رہے ہیں کہ خدا کی عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں اسی پر یہ مثال فرمائی ہے کہ خدا کے معبود ٹھہرانے والے لوگ اپنے پیروں سے سیدھی چال چلتے ہیں اور مشرک لوگ ایسے جیسے کوئی پیروں سے چلنا چھوڑ کر منہ کے بل چلنے لگے پھر فرمایا کہ جس اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے اس نے تو نصیحت کے سننے کے لئے کافی قدرت کے نمونے مثلاً دیکھنے کے لئے آنکھیں ہر بات پر غور کرنے کے لئے ان کے دل میں عقل سب کچھ کردیا ہے اس پر یہ اوندھا راستہ چلیں گے تو قیامت کے دن اس اوندھی چال کی سزا بھی ان لوگوں کو اسی طرح کی دی جائے گی کہ جب حشر کے دن یہ لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو منہ کے بل اٹھیں گے جس کا ذکر قرآن شریف اور صحیحین وغیرہ کی حدیث میں اوپر گزر چکا ہے۔ قل ھو الذی ذراکم فی الارض والیہ تحشرون کی تفسیر وہی ہے جو اوپر گزری کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کھیل کے طور پر بےفائدہ نہیں پیدا کیا بلکہ انسان کے پیدا کرنے کا نتیجہ وہی ہے جو کئی جگہ قرآن میں بیان کردیا گیا ہے کہ چند روزہ زیست میں انسان سے جو نیک و بد ہو سکے وہ کرلے اور دنیا سے اٹھ جائے۔ بعد اس کے سب دنیا کے ختم ہونے کے بعد اس کو پھر دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اس کے عمر بھر کے نیک و بد کی جزا و سزا ہوگی تاکہ انسان کا پیدا کرنا رائیگاں نہ ہو اس نصیحت کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اب تو یہ مشرک لوگ سرکشی سے یہ کہتے ہیں کہ قرآن کی نصیحت نہ ماننے پر جس عذاب سے ڈرایا جاتا ہے آخر وہ عذاب کب آئے گا اے اللہ کے رسول اس کے جواب میں ان مشرکوں سے کہہ دیا جائے کہ عذاب کے آنے کا وقت تو اللہ کو معلوم ہے لیکن اتنا یاد رہے کہ جب عذاب کا وقت آئے گا تو یہ سرکشی سب نکل جائے گی اور بڑے بڑے سرکشوں کی صورت نہ پہچانی جائے گی۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے بدر کی لڑائی والے دن اور مکہ کے قحط کے وقت دنیا میں تو یہ حال گزر چکا ‘ عقبیٰ کے عذاب کا وقت مرنے کے بعد آئے گا اور اس وقت قائل کرنے کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ جس عذاب کی دنیا میں تم جلدی کرتے تھے اب اس کا مزہ چکھو۔ (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الدخان ص ٧١٤ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:20) امن ھذا الذی ھو جند لکم ینصرکم من دون الرحمن : امن مبتداء ھذا، اس کی خبر۔ الذی ھو جند لکم ھذا سے بدل ینصرکم من دون الرحمن صفت ہے جند کی۔ مشارالیہ، جند سے مراد غیر اللہ کی مدد ہے۔ (مدارک التنزیل) امن : ام بمعنی کیا، خواہ، بھلا، من استفہامیہ سے مرکب ہے، استفہام انکاری ہے جند فوج، واحد، جنود جمع۔ من دون الرحمن خدا کو چھوڑ کر، خدا کے سوا۔ خدا سے ورے، خدا کے مقابلہ میں۔ ترجمہ از شاہ عبد القادر (رح) :۔ بھلا وہ کون ہے جو فوج ہے تمہاری ، مدد کرے گی تمہاری ، رحمان کے سوا۔ مطلب یہ کہ تمہارا کوئی لشکر یا فوج نہیں کہ رحمان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرسکے۔ ان الکفرون الا فی غرور : ان نافیہ ہے۔ غرور (باب نصر) مصدر۔ بمعنی فریب، فریب دینا۔ کچھ نہیں کافر لوگ مگر محض دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 دوسرا یہ بھی ہے کہ وہ کون سا لشکر ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرسکتا اور اس کے عذاب سے تمہیں بچا سکتا ؟13 جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بت اور جھوٹے معبود اللہ تعالیٰ کے مقابل ہمیں ان کی مدد کرسکیں گے اور اسی کے حضور سفارش کر کے انہیں اس کی پکڑ سے نجات دلا سکیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی مزید قدرتوں کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ اپنی بڑی بڑی قدرتوں کا تذکرہ فرما کر منکرین حق کو دعوت فکر دیتے ہوئے سوال کرتا ہے کہ بتاؤ ! اگر ” اللہ “ تمہاری گرفت کرنے پر آئے تو کون ہے جو اللہ کے سوا تمہاری مدد کرسکے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے سوا کوئی بھی تمہاری مدد نہیں کرسکتا لیکن اس کے باوجود کافر دھوکے میں مبتلا ہیں۔ اگر ” اللہ “ تمہارا رزق بند کرلے تو پھر کون تمہیں رزق دینے والا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی نہیں۔ لیکن پھر بھی کافر اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کی توحید سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اپنے رب پر حقیقی ایمان لانے والا شخص یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے اور کم کرنے والا ہے، اگر وہ کسی کی گرفت کا فیصلہ کرلے تو زمین و آسمانوں میں کوئی نہیں جو کسی کی مدد کرسکے۔ یہاں مومن اور کافر کے عقیدہ اور کردار کے فرق کو واضح کرنے کے لیے یہ مثال دی ہے کہ ایک وہ شخص ہے جو منہ کے بل چلتا ہے اور دوسرا وہ ہے جو اپنے پاؤں پر سیدھا ہو کر سیدھے راستے پر چلتا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ بتاؤ کہ ان میں سے کس کی سوچ اور انداز بہتر ہے اور کون ان میں منزل مقصود پر پہنچنے والا ہے ؟ کھلی حقیقت ہے کہ جو سر کے بل چلنے والا ہے وہ ذلّت و رُسوائی اٹھانے کے باوجود اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا اور جو صحیح فکر اور سیدھا ہو کر چلتا ہے وہ بالآخر منزل مقصود پانے والا ہے۔ اس مثال سے یہ ثابت کیا ہے کہ کافر، مشرک اور اللہ کے باغی کی سوچ بھی ہے الٹی ہے اور اس کا کردار بھی الٹا ہے۔ اللہ کا حکم ہے کہ مجھے ہر اعتبار سے ایک مانو ! کافر اس بات کا انکار کرتا ہے اور مشرک اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتا ہے۔ باغی انسان اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے کی بجائے اس کی نافرمانی کرتا ہے۔ جس طرح دونوں کے عقیدہ اور کردار میں فرق ہے اسی طرح ان کے انجام میں فرق ہوگا اسی لیے اس کا ارشاد ہے : ” بھلا یہ ہوسکتا ہے کہ جو شخص مومن ہے وہ اس شخص کی طرح کردیا جائے جو فاسق ہے دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کے اعمال کے بدلے ان کی ضیافت کے لیے جنتوں کی قیام گاہیں ہیں اور جنہوں نے نافرمانی اختیار کی ہے ان کا ٹھکاناآگ ہے، جب اس سے نکلنا چاہیں گے تو اسی میں دھکیل دیے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا کہ اب آگ کے عذاب کا مزا چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ “ (السجدۃ : ١٨ تا ٢٠) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی کا رزق بند یا تنگ کردے تو کوئی اسے رزق دینے والا نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتیں جاننے کے باوجود کافر اور مشرک ” اللہ “ کو بلا شرکت غیرے حقیقی داتا اور مددگار ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ٤۔ کفار اور مشرکین کی مثال منہ کے بل چلنے والے کی طرح اور موحِّد کی مثال پاؤں کے بل سیدھا ہو کر راستے پر چلنے والے کی طرح ہے۔ تفسیر بالقرآن کافر، مشرک، منافق اور مومن کے درمیان فرق : ١۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے۔ (السجدۃ : ١٨) ٢۔ جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہوسکتے۔ (الحشر : ٢٠) ٣۔ سیدھا اور الٹا چلنے والا برابر نہیں ہوتا۔ (الملک : ٢٢) ٤۔ اندھا اور بینا برابر نہیں ہوتا۔ (الانعام : ٥٠) ٥۔ روشنی اور اندھیرے برابر نہیں ہوتے۔ (فاطر : ٢٠) ٦۔ مجاہد اور غیر مجاہد برابر نہیں (النساء : ٩٥) ٧۔ مومن اور کافر برابر نہیں ہیں۔ (الانعام : ١٢٢) ٨۔ مومن کافروں سے سربلند ہیں۔ (آل عمران : ٥٥) ٩۔ متقین قیامت کو سربلند ہوں گے۔ (البقرۃ : ٢١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

امن ھذا ................................ فی غرور ” اللہ نے اس سے پہلے انسانوں کو خسف سے ڈرایا ، جبکہ اس سے قبل کئی مکذبین کو یہ سزا دی گئی ، پھر سنگباری سے ڈرایا جبکہ کئی پر سنگباری کی گئی۔ اور اسی طرح دوسرے مکذبین کی مختلف ہلاکتوں سے ڈرایا تھا۔ یہاں دوبارہ ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کون ہے جو ان کی امداد کرتا ہے اور اس قسم کی مختلف ہلاکتوں سے تمہیں بچاتا ہے ؟ اللہ کو پکڑ کر رحمن کے سوا کون روکے ہوئے ہیں ؟۔ ان الکفرون الا فی غرور (٧٦ : ٠٢) ” حقیقت یہ ہے کہ یہ منکرین دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں “۔ یہ دھوکہ ان کو اس بات پر مطمئن کردیتا ہے کہ وہ امن میں ہیں۔ کسی کی ضمانت اور اطمینان میں ہیں ، حالانکہ وہ اللہ کے غضب اور عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ کیونکہ وہ نہ ایمان لائے ہیں اور نہ عمل صالح کررہے ہیں ، جن کی وجہ سے اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور اللہ کا عذاب واقع نہیں ہوتا ہے۔ اور ایک چٹکی پھر دوبارہ ، ان کو احساس دلایا جاتا ہے کہ یہ رزق الٰہی جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے اگر اللہ کی طرف سے بند کردیا جائے تو پھر کون ہے جو اس قدر عظیم انتظام کرسکتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رحمٰن کے سوا تمہارا کون مددگار ہے ؟ اگر وہ اپنا رزق روک لے تو تم کیا کرسکتے ہو ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کے مدد فرمانے اور رزق عطا فرمانے کا اور کافروں کے غرور اور نفور میں اور سرکشی میں بڑھتے چلے جانے کا ذکر ہے۔ ان آیتوں کا سبب نزول بعض مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جو کافر دعوت حق قبول کرنے سے گریز کرتے تھے اور عناد پر تلے ہوئے تھے انہیں دو چیزوں پر گھمنڈ تھا اول تو یوں کہتے اور سمجھتے تھے کہ ہمارے اموال اور ہمارے افراد قوم اور قبیلہ کے لوگ ہماری حفاظت کرلیں گے، دوم وہ بتوں سے نفع وضرر کی امید رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی دونوں باتوں کی تردید فرمائی اول تو یہ فرمایا کہ بتاؤ تمہارے وہ کون سے لشکر ہیں جو رحمن جل مجدہ کے علاوہ تمہاری مدد کردیں گے، یعنی اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عذاب آجائے تو اسے دفع کرنے والا اور تمہاری مدد کرنے والا کون ہے ؟ یعنی کوئی بھی نہیں ہے، تم جھوٹی خام خیالیوں میں مبتلا ہو شیطان نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور یہ سمجھا رکھا ہے کہ کوئی عذاب آگیا تو ہمارے جو کثیر افراد ہیں وہ حفاظت کرلیں گے، پھر فرمایا کہ یہ بھی بتاؤ کہ رازق مطلق جو تمہیں رزق دیتا ہے اگر وہ اپنے رزق کو روک لے تو بتاؤ وہ کون ہے جو تمہیں رزق دیدے ؟ یعنی اس کے علاوہ تمہیں کوئی بھی رزق دینے والا نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” امن ھذا “ یہ تخویف دنیوی ہے اور یہ دونوں آیتیں ماقبل کا ثمرہ ہے۔ یہ تباؤ کہ تمہارے یہ خود ساختہ معبود جن کو تم برکات دہندہ سمجھتے ہو کیا یہ خدائے رحمن کے سوا تمہاری مدد کرسکتے ہیں یا اس سکے عذاب سے تم کو پناہ دے سکتے ہیں ؟ استفہام انکار ہے یعنی وہ مدد نہیں کرسکتے۔ یہ مشرکین جو ان عاجزوں کو مددگار اور برکات دہندہ سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ ان معبودوں کے حفظ وامان میں ہیں، وہ بہت بڑے دھوکہ میں ہیں، وھو استفہام انکار ای لاجند لکم یدع عنکم عذاب اللہ (قرطبی ج 18 ص 218) ۔ ای ماھم فی زعمہم انھم محفوظون فی النوائب بحفظ الھتہم لا بحفظہ تعالیٰ فقط وان الہتہم تحفظہم من باس اللہ تعالیٰ الا فی غرور عظیم وضلال فاحش الخ (روح ج 29 ص 18) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) بھلا رحمان کے سوا وہ کون ہے جو تمہارا لشکر بن کر تمہاری مدد کرے یہ دین حق کے منکر محض دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا وہ کون ہے جو آفات و مصائب میں تمہاری فوج اور تمہارا لشکر بن کر تمہاری مدد کرے اور تمہاری خواہش کے مطابق تمہاری حفاظت کرے اگر تم نے یہ خیال کررکھا ہے کہ یہ تمہارے جھوٹے اور باطل معبود کسی آفت کے وقت تمہارے کام آجائیں گے یا تمہارے سپاہی بن کر تمہاری مدد کریں گے تو ایسا خیال کرنا محض دھوکا اور فریب ہے۔ اسی کو فرمایا ان الکافرون الافی غرور۔