Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 21

سورة الملك

اَمَّنۡ ہٰذَا الَّذِیۡ یَرۡزُقُکُمۡ اِنۡ اَمۡسَکَ رِزۡقَہٗ ۚ بَلۡ لَّجُّوۡا فِیۡ عُتُوٍّ وَّ نُفُوۡرٍ ﴿۲۱﴾

Or who is it that could provide for you if He withheld His provision? But they have persisted in insolence and aversion.

اگر اللہ تعالٰی اپنی روزی روک لے تو بتاؤ کون ہے جو پھر تمہیں روزی دے گا بلکہ ( کافر ) تو سرکشی اور بدکنے پر اڑ گئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَمَّنْ هَذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ ... Who is it that can provide for you if He should withhold His provision? meaning, who is it that can provide for you if Allah cuts off your sustenance There is no one who gives, withholds, creates, provides and helps other than Allah alone, Who has no partner. This proves that they know this, yet they still worship others beside... s Him. Thus, Allah says, ... بَل لَّجُّوا ... Nay, but they continue, meaning, they persist in their transgression, lying and misguidance. ... فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ to be in pride, and flee. meaning, they continue in obstinance, arrogance and fleeing away from the truth. They do not listen to it nor do they follow it. The Parable of the Disbeliever and the Believer Then Allah says, أَفَمَن يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّن يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی اللہ بارش نہ برسائے، یا زمین ہی کو پیداوار سے روک دے یا تیار شدہ فصلوں کو تباہ کر دے، جیسا کہ بعض بعض دفعہ وہ ایسا کرتا ہے، جس کی وجہ سے تمہاری خوراک کا سلسلہ موقوف ہوجائے، اگر اللہ تعالیٰ ایسا کر دے تو کیا کوئی اور ہے جو اللہ کی مشیت کے برعکس تمہیں روزی مہیا کر دے ؟ یعنی وعظ و نصیحت کی ا... ن باتوں کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ حق سے سرکشی اور اعراض ونفور میں ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں عبرت پکڑتے ہیں اور نہ ہی غور و فکر کرتے ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] رزق حاصل ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ آسمان سے نازل ہونے والی بارش ہے۔ بارش پڑنے سے ہی زمین سے نباتات اگتی ہے جو تمام جاندار مخلوق کے رزق کا ذریعہ بنتی ہے۔ اب دیکھئے کہ اس بارش کے جملہ اسباب اللہ تعالیٰ کے قبضہ ئقدرت میں ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ طویل مدت تک بارش نہ برسائے تو اللہ کے علاوہ اور کون ہستی ... ہے جو بارش برسا سکے۔ اللہ کی قدرتوں کو سمجھنے کے لیے نشانیاں تو بہت ہیں مگر ان کافروں نے اگر نہ ماننے پر اور سرکشی کی راہ اختیار کرنے پر ہی کمر باندھ رکھی ہو تو یہ ان باتوں سے کیسے عبرت حاصل کرسکتے ہیں ؟ [٢٤] لجَّ بمعنی ضد سے جھگڑنا۔ دشمنی میں مداو مت کرنا اور لُجّۃ بمعنی پانی کی گہرائی۔ پانی کا گہرا حصہ جہاں پانی سب سے زیادہ گہرا ہو۔ گویا اس لفظ کا معنی ضد کی وجہ سے کسی بات پر اڑ جانا بھی ہے اور کسی برے کام میں دور دراز تک چلے جانا بھی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِيْ یَرْزُقُکُمْ اِنْ اَمْسَکَ رِزْقَہٗ ۔۔۔۔: یعنی اگر اللہ تعالیٰ بارش ہی روک لے تو وہ کون ہے جو بارش برسا دے ؟ یا زمین کو پیداوار سے روک دے یا کسی بھی طریقے سے تمہاری روزی روک دے تو وہ کون ہے جو تمہیں روزی مہیا کر دے ؟ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ جب قریش...  مکہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں نافرمانی کی حد کردی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر یوسف (علیہ السلام) جیسی قحط سالی کی بد دعا فرمائی تو ان پر ایسا قحط آیا کہ وہ ہڈیاں تک کھا گئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ قحط اس وقت دور ہوا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی۔ ( دیکھئے بخاری ، التفسیر ، باب :( یغشی الناس ھذ ا عذاب الیم) : ٤٨٢١) لات و منات کے بت بلکہ ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کے جو بت انہوں نے بنائے ہوتے تھے ، ان کے کسی کام نہ آسکے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَمَّنْ هَـٰذَا الَّذِي يَرْ‌زُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِ‌زْقَهُ ۚ بَل لَّجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ‌ (Or, who is there to give you sustenance, if He withholds His sustenance? Still, they persist in rebellion and aversion. [ 67:21] &. The last sentence of the verse purports to express the unbelievers& sad state of affairs. They neither consider the Signs of Allah nor do they pay heed to ot... her people&s good advice. They obstinately persist in insolence and deviation from the Truth. Next, the conditions of non-believers and believers on the field of Resurrection are described. It is mentioned that the unbelievers will be brought to the field of Resurrection, crawling on their faces instead of walking on their feet. Bukhari and Muslim record on the authority of Sayyidna Anas that the noble Companions asked the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : |"How will the non-believers walk on their faces on the Day of Resurrection?|" The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied: |"Is Allah who made them walk on their feet not powerful enough to make them walk on their faces and their heads?|" The following verse depicts the scene of such crawling:  Show more

(آیت) اَمَّنْ هٰذَا الَّذِيْ يَرْزُقُكُمْ اِنْ اَمْسَكَ رِزْقَهٗ کا یہی مطلب ہے۔ آگے کفار کے حال پر افسوس ہے جو نہ آیات قدرت میں خود غور کرتے ہیں نہ دوسرے بتانے والوں کی بات سنتے ہیں ۚ بَلْ لَّجُّوْا فِيْ عُتُوٍّ وَّنُفُوْر یعنی یہ لوگ برابر اپنی سرکشی اور حق سے دوری میں بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ آگے میدا... ن قیامت میں کافرو مومن کا جو حال ہونا ہے اس کا ذکر ہے کہ قیامت کے میدان میں کفار اس طرح حاضر کئے جاویں گے کہ پاؤں پر چلنے کے بجائے سر کے بل چلیں گے۔ صحیح بخایر و مسلم میں حضرت انس کی روایت ہے کہ صحابہ کرام نے سوال کیا کہ کفار چہرے کے بل کیسے چلیں گے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سج ذات نے ان کو پیروں پر چلایا ہے کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ ان کو چہروں اور سروں کے بل چلا دے اسی کو اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِيْ يَرْزُقُكُمْ اِنْ اَمْسَكَ رِزْقَہٗ۝ ٠ ۚ بَلْ لَّجُّوْا فِيْ عُتُوٍّ وَّنُفُوْرٍ۝ ٢١ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ م... ا رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو مسك إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف/ 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف/ 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة/ 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال : هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر/ 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن . ( م س ک ) امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہستہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف/ 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف/ 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة/ 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر/ 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ لج اللَّجَاجُ : التّمادي والعناد في تعاطي الفعل المزجور عنه، وقد لَجَّ في الأمر يَلجُّ لَجَاجاً ، قال تعالی: وَلَوْ رَحِمْناهُمْ وَكَشَفْنا ما بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ المؤمنون/ 75] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] ومنه : لَجَّةُ الصّوت بفتح اللام . أي : تردّده، ولُجَّةُ البحر بالضّم : تردّد أمواجه، ولُجَّةُ اللیل : تردّد ظلامه، ويقال في كلّ واحد لَجَّ والْتَجَّ. قال : فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] منسوب إلى لجّة البحر، وما روي : ( وضع اللّجّ علی قفيّ ) ، أصله : قفاي، فقلب الألف ياء، وهو لغة فعبارة عن السّيف المتموّج ماؤه، واللَّجْلَجَةُ : التّردّد في الکلام وفي ابتلاع الطّعام، قال الشاعر : يُلَجْلِجَ مضغة فيها أنيض «5» أي : غير منضج، ورجل لَجْلَجٌ ولَجْلَاجٌ: في کلامه تردّد، وقیل : الحقّ أبلج والباطل لَجْلَجٌ. أي : لا يستقیم في قول قائله، وفي فعل فاعله بل يتردّد فيه . ( ل ج ج ) اللجاج ( مصدر ض س ) کے معنی کسی ممنوع کام کے کرنے میں بڑھتے چلے جاتے اور اس پر ضد کرنے کے ہیں اس سے فعل لج فی الامر استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ رَحِمْناهُمْ وَكَشَفْنا ما بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ المؤمنون/ 75] اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو تکلیفیں انہیں پہنچ رہی ہیں وہ دور کردیں تو اپنی سر کشی پر اڑے رہیں اور بھٹکے ( پھریں ) بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] لیکن یہ سرکشی اور نفرت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ اسی سے لجۃ الصوف مشہور ہے جس کے معنی اواز کے بار بار آنے جانے اور پلٹنے کے ہیں ۔ لجۃ البحر ( بضم اللام ) سمندر کی موجوں کا تلاطم ( ان کا بار بار آنا اور پلٹنا ) لجۃ اللیل ۔ رات کی تاریکی کا آنا جان اور سخت ہونا ۔ اور لجۃ و لجۃ میں ایک لغت لج ولج بھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] دریائے عمیق میں میں لجی بھی لجۃ البحر کی طرف منسوب ہے اور روایت اس نے میری گر دن پر تلوار رکھ دی ) میں لج کے معنی آبد ار تلوار کے ہیں اور قفی اصل میں قفای ہے الف یاء سے مبدل ہو کر یاء میں ادغام ہوگیا ہے ۔ اللجلجۃ کے معنی ہکلاپن کے ہیں اور نیز لقمہ کو بغیر چبائے منہ میں پھر انے کو بھی لجلجۃ کہتے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ( 392 ) یلجلج مضغۃ فیھا انیض یعنی منہ میں گوشت کا نیم پختہ ٹکڑا پھر ا رہا ہے ۔ رجل لجلج ہکلا رک رک کر بات کرنے والا ۔ الحق ایلج والباطل لجلج حق واضح ہے اور باطل مشتبہ یعنی کوئی شخص باطل کو نہ تو صاف طور پر بیان کرسکتا ہے اور نہ انشراح صدر کے ساتھ اسے انجام دے سکتا ہے ۔ بلکہ اس میں ہمیشہ متردور رہتا ہے ۔ عتو العُتُوُّ : النبوّ عن الطاعة، يقال : عَتَا يَعْتُو عُتُوّاً وعِتِيّاً. قال تعالی: وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان/ 21] ، فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات/ 44] ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها[ الطلاق/ 8] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] ، مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم/ 8] ، أي : حالة لا سبیل إلى إصلاحها ومداواتها . وقیل :إلى رياضة، وهي الحالة المشار إليها بقول الشاعر : 310 ۔ ومن العناء رياضة الهرم وقوله تعالی: أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا[ مریم/ 69] ، قيل : العِتِيُّ هاهنا مصدرٌ ، وقیل هو جمعُ عَاتٍ وقیل : العَاتِي : الجاسي . ( ع ت و ) عتا ۔ یعتوا ۔ عتوا ۔ عتیا ۔ حکم عدولی کرنا قرآن میں ہے : فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات/ 44] تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سر کشی کی ۔ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان/ 21] اور اسی بنا پر بڑے سر کش ہورہے ہیں ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها[ الطلاق/ 8] اپنے پروردگار کے امر سے سر کشی کی ۔ بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] لیکن یہ سر کشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم/ 8] کے معنی یہ ہیں کہ میں بڑھاپے کی ایسی حالت تک پہنچ گیا ہوں جہاں اصلاح اور مداوا کی کوئی سبیل نہیں رہتی یا عمر کے اس وجہ میں ریا ضۃ بھی بیکار ہوتی ہے اور لفظ ریا ضت سے وہی معنی مراد ہیں جن کی طرف شاعر نے اشارہ کیا ہے ( الکامل ) ( 302 ) امن العناء ریاضۃ الھرم اور انتہائی بڑھاپے میں ریاضت دینا سراسر تکلیف وہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا[ مریم/ 69] جو خدا سے سخت سر کشی کرتے تھے میں بعض نے کہا ہے کہ عتیا مصدر بعض نے کہا ہے کہ عات کی جمع ہے اور العانی کے معنی سنگ دل اور اجڈ بھی آتے ہیں ۔ نفر النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا [ التوبة/ 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] . ( ن ف ر ) النفر ( عن کے معنی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة/ 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ بھی بتاؤ کہ وہ کون ہے جو آسمان سے پانی برسا کر اور زمین سے پیداوار کر کے تمہیں روزی پہنچا دے اگر اللہ تعالیٰ اپنی روزی بند کرے، بلکہ یہ لوگ انکار حق پر جم رہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١{ اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِیْ یَرْزُقُـکُمْ اِنْ اَمْسَکَ رِزْقَہٗ } ” پھر بھلا کون ہے وہ جو تمہیں رزق دے سکے اگر اللہ اپنے رزق کو روک لے ؟ “ { بَلْ لَّجُّوْا فِیْ عُتُوٍّوَّنُفُوْرٍ ۔ } ” بلکہ یہ لوگ اپنی سرکشی اور حق سے گریز میں بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔ “ اگلی آیت فلسفہ و حکمت ِقرآن کے اعتبار سے ب... ہت اہم ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:21) امن ھذا الذی یرزکم ان امسک رزقہ : امن مبتدا۔ ھذا اس کی خبر۔ الذی یرزقکم بدل ہے ھذا سے۔ بھلا وہ کون ہے جو روزی دے گا تم کو اگر وہ رکھ چھوڑے (یعنی روکے رکھے) اپنی روزی استفہام انکاری ہے، مراد یہ کہ اگر پروردگار اپنی روزی کو بندے سے روک دے۔ تو اس کے مقابلہ میں کوئی نہیں جو بندے کو روزی دے سکے... ۔ ان شرطیہ ہے۔ امسک ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب امساک (افعال) مصدر ۔ بمعنی روکے رکھنا۔ روکنا۔ اگر وہ روکے رکھے اپنے رزق کو۔ بل حرف اضراب ہے۔ پہلے حکم کو برقرار رکھ کر اس کے مابعد کو اس حکم پر اور زیادہ کردیا گیا ہے یعنی کافرین نہ صرف شیطان کی طرف سے فریب و دھوکے میں ہیں بلکہ مزید برآں اس فریب خوردنی میں بڑھئے جاتے ہیں۔ لجوا۔ ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ، لجاج ولجاجۃ (باب سمع و ضرب) مصدر۔ بمعنی اڑے رہنا۔ لجاج کسی ممنوع فعل پر اڑے رہنے کو کہتے ہیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ ولو رحمنھم وکشفنا مابھم من ضر للجوا فی طغیانھم یعمھون (23:75) اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو تکلیفیں ان کو پہنچ رہی ہیں وہ دور کردیں تو بھی وہ اپنی سرکشی پر اڑے رہیں (اور) بھٹکتے (پھریں عتو : شرارت، سرکشی، نافرمانی، عتا یعتوا (باب نصر) سے مصدر ہے جس کے معنی اطاعت ست اکڑنے، تکبر کرنے اور حد دے بڑھ جانے کے ہیں۔ ونفور : واؤ عاطفہ اس کا عطف عتو پر ہے۔ نفور (باب نصر و ضرب) سے مصد رہے بمعنی بھاگنا ، دور ہونا، حق سے دور ہونا۔ رتبا عد عن الحق (خازن)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ خلاصہ یہ کہ تمہارے معبودات باطلہ نہ دفع مضار پر قادر ہیں اور نہ ایصال منافع پر قادر ہیں، پھر ان کی عبادت محض سفاہت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

امن ھذا ................ نفور ” جیسا کہ اوپر گزر گیا۔ ہر انسان اللہ کے پیدا کردہ اسباب کا مرہون منت ہے۔ اللہ ان اسباب میں سے کسی ایک سبب کو کھینچ لے تو بھول سے لوگ مرجائیں۔ اور یہ رزق اللہ نے اس کائنات کی اسکیم میں بطور سلسلہ اسباب رکھا ہوا ہے۔ یہ اسباب سب کے سب ایسے ہیں جو انسان کی قدرت میں نہیں ... ہیں۔ اور یہ تمام انسانوں کی دسترس میں ہیں۔ یہ سب اسباب انسان کے وجود سے بھی پہلے پیدا کردیئے گئے تھے۔ اور یہ اسباب اپنی طبیعی قوت اور طاقت کے اعتبار سے انسان سے بہت ہی بڑے ہیں اور ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک سبب بھی دست قدرت کی طرف سے محو کردیا جائے تو انسان سب کے سب صفحہ ہستی سے مٹ جائیں۔ اگر اللہ پانی ختم کردے ، ہوا کو بند کردے یا وہ عناصر ختم کردے جس سے اشیاء بنی ہیں ، تو کون ہے جو لاسکتا ہے۔ زمین سے ہزار گنا بڑے ستارے موجود ہیں لیکن حیات اور اسباب حیات سے خالی ہیں۔ اس گہرے وسیع اور عظیم مفہوم کے اندر لفظ رزق کے تمام مفہوم سما جاتے ہیں۔ جس رزق کے بارے میں انسان یہ زعم رکھتا ہے کہ اسے وہ کماتا ہے ، مثلاً محنت کرکے ایجاد کرکے ، پیداوار حاصل کرکے ، جبکہ یہ تمام کام بعض اسباب وعناصر پر موقوف ہیں اور دوسری جانب سے اللہ نے جن اقوام کو وہ اسباب دیئے ہیں ان پر بھی موقوف ہیں۔ کیونکہ ایک کام کرنے والا جو سانس بھی لیتا ہے اور جو حرکت بھی کرتا ہے ، وہ اللہ کے رزق ہی کی وجہ سے کرتا ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے اس عامل کو پیدا کیا۔ اسے قدرت اور طاقت بخشی۔ اسے ایک نفس دیا ، جو اس دنیا میں سانس لیتا ہے ، پھر اس کے جسم کے اندر جو مواد چلتا ہے ، اس کے ذریعہ اسے قوت حاصل ہوتی ہے اور وہ حرکت کرتا ہے ، اور جو عقلی کام وہ کرتا ہے وہ بھی اس عقلی قوت کی وجہ سے کرپاتا ہے جو اللہ نے اس کے دماغ میں رکھی ہے اور صانع اور موجد جو بھی ایجاد کرتا ہے اس میں اللہ ہی کا پیدا کردہ میٹریل استعمال کرتا ہے۔ اور اس عمل میں بھی انسان اور کائناتی اسباب استعمال کرتا ہے جو اللہ کا رزق اور عطیہ ہیں۔ امن ھذا ........................ رزقہ (٧٦ : ١٢) ” پھر بتاﺅ، کون ہے جو تمہیں رزق دے سکتا ہے۔ اگر رحمن اپنا رزق روک لے “۔ بل ............ ونفور (٧٦ : ١٢) ” دراصل یہ لوگ سرکشی اور حق سے گریز پر اڑے ہوئے ہیں۔ “ یہ طے کرنے کے بعد کہ رزق صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے ، یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ روگردانی اور سرکشی کرتے ہیں اور نہایت ہی تکبر میں دعوت اسلامی سے نفرت کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ کے رزق پر پل رہے ہیں ، لہٰذا اللہ کا رزق کھا کر سرکشی کرنا اور غرور میں دین سے گریز کرنا نہایت قبیح اور گھٹیا فعل ہے کیونکو ان کی تمام ضروریات اللہ کی طرف سے فضل وکرم پر مشتمل ہے۔ اور پھر یہ بھی روگردانی اور تکبر کرتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی تصویر ہے جو اللہ کی دعوت کا انکار کرتے ہیں ، کبروسرکشی کی حالت میں اور سخت تکبرانہ نفرت کے ساتھ ، یہ بھولے ہوئے ہیں کہ وہ اللہ کی مخلوق ہیں اور اللہ کے فضل وکرم پر زندہ رہے ہیں اور وہ اپنے وجود ، اپنی زندگی کی ضروریات کے مالک بھی نہیں ہیں۔ اپنے ان حالات کے باوجودالٹا وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کے بارے میں یہ دعویٰ کرتے تھے کہ یہ گمراہ لوگ ہیں۔ اور اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے تھے۔ اور ہر دور میں خدا کی طرف بلانے والوں کے بارے میں یہی سمجھا جاتا ہے ، چناچہ ایسے مدعیان اور اہل ایمان کی اصل حقیقت کو ایک تمثیل یا ایک منظر کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

طرح طرح کے دلائل سامنے آتے ہیں لیکن پھر بھی سرکشی میں اور نفور میں یعنی حق سے دور ہونے میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اسی کو فرمایا : ﴿ بَلْ لَّجُّوْا فِيْ عُتُوٍّ وَّ نُفُوْرٍ ٠٠٢١﴾ بلکہ وہ لوگ سرکشی اور نفرت پر جمے ہوئے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” امن ھذا الذی یرزقکم “ یہ بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ جو تمہیں روزی دیتا ہے اگر وہ روزی بند کردے تو پھر تمہیں کون روزی دے گا ؟ یعنی اس کے سوا کوئی روزی رساں نہیں اس لیے اس کے سوا برکات دہندہ بھی کوئی نہیں۔ ” بل لجو فی عتو “ یہ مقدر سے متعلق ہے۔ ای لم یتاثروا بذلک ولم یذعنوا للحق (روح) ۔ اس بیان سے وہ ... نہ متاثر ہوئے اور نہ حق کو قبول کیا، بلکہ سرکشی اور نفرت میں پوری قوت سے اور آگے بڑھ گئے ہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) اچھا اگر اللہ تعالیٰ اپنی روزی اور اپنے رزق کو تم سے روک لے تو بھلا وہ کون ہے جو پھر تم کو روزی پہنچائے اور تم کو رزق دے اصل بات یہ ہے کہ یہ کافر سرکشی اور نفرت پر اڑے ہوئے ہیں۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ اپنی روزی اور رزق رسانی کے دروازے اور وسائل و اسباب بند کرے تو بھلا وہ کون ہے جو تم کو رزق پہنچا...  سکے۔ ان تمام باتوں کو سن کر اور اس کی بےپناہ طاقت اور بےکراں قدرت کا حال سن کر بتوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں آتے تو اصل بات یہ ہے کہ سخت عناد سرکشی اور حد سے تجاوز کرنے اور حق بات سے بھاگنے ، نفرت کرنے اور بدکنے پر جمے ہوئے ہیں لجاج انتہائی عناد پر اڑنا اور جم جانا عقو حد سے تجاوز کرنا اور سرکشی میں بڑھ جانا نفور، نفرت کرنا، بھاگنا، بدکنا بےزار ہوکر چل دینا۔  Show more