Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 25

سورة الملك

وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۵﴾

And they say, "When is this promise, if you should be truthful?"

۔ ( کافر ) پوچھتے ہیں کہ وہ وعدہ کب ظاہر ہوگا اگر تم سچے ہو ( تو بتاؤ؟ )

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They say: "When will this promise come to pass if you are telling the truth" meaning, `when will this gathering after separation that you are informing us of, occur'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 یہ کافر بطور مذاق قیامت کو دور دراز کی باتیں سمجھتے ہوئے کہتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨] کافر جب بھی یہ بات پوچھتے ہیں از راہ تمسخر اور مذاق ہی پوچھتے تھے۔ اور اس سوال سے ان کا اصل مقصد اللہ کی کتاب، اللہ کے رسول اور قیامت سب کی تکذیب ہوتی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ ۔۔۔۔۔: ان کا یہ پوچھنا معلوم کرنے کے لیے نہیں تھا، وہ تو ماننے کو تیار ہی نہ تھے کہ ایساہو سکتا ہے ۔ مسلمانوں سے ان کا یہ پوچھنا صرف طنز و استہزاء کے لیے تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ٢٥ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ متی مَتَى: سؤال عن الوقت . قال تعالی: مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس/ 48] ، ( م ت ی ) متی ۔ یہ اسم استفہام ہے اور کسی کام کا وقت دریافت کرنے کے لئے بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس/ 48] یہ وعدہ کب ( پورا ہوگا ) وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور کفار مکہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ جس کا آپ ہم سے وعدہ کرتے ہیں کب ہوگا اگر آپ سچے ہیں تو بتائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35 They did not ask this question in order to know the time and date of Resurrection so that if they were told the Year, the month, the day and time of its occurrence, they would accept it. But, in fact, they thought that Resurrection was impossible, and its occurrence remote from reason, and they asked this question in order to have an excuse for denying it. They meant to say, "When will this strange story of Resurrection and gathering together, that you are telling us, materialize? What for has it been put off? Why don't you make it appear forthwith so that we are assured of it?" In this connection, one should understand that one can be certain of Resurrection only by rational arguments, and these have been elaborated at many places in the Qur'an. As for the date of its occurrence only an ignorant person could raise such a question about it, for even if it is told, it does not make any difference. The unbeliever would say: "Well, when it dces occur on the date you tell, I shall then believe in it; how can I believe today that it will actually occur on that very day?" (For further explanation, see E.N. G3 of Surah Luqman, E.N. 116 of Al-Ahzab? E.N.'s 5, 48 of Saba' E.N. 45 of Ya Sin) .

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :35 یہ سوال اس غرض کے لیے نہ تھا کہ وہ قیامت کا وقت اور اس کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے اور اس بات کے لیے تیار تھے کہ اگر انہیں اس کی آمد کا سال ، مہینہ ، دن اور وقت بتا دیا جائے تو وہ اسے مان لیں گے ۔ بلکہ دراصل وہ اس کے آنے کو غیر ممکن اور بعید از عقل سمجھتے تھے اور یہ سوال اس غرض کے لیے کرتے تھے کہ اسے جھٹلانے کا ایک بہانہ ان کے ہاتھ آئے ۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ حشر و نشر کا یہ عجیب و غریب افسانہ جو تم ہمیں سنا رہے ہو آخر کب ظہور میں آئے گا ؟ اسے کس وقت کے لیے اٹھا رکھا گیا ہے؟ ہماری آنکھوں کے سامنے لا کر اسے دکھا کیوں نہیں دیتے کہ ہمیں اس کا یقین آ جائے؟ اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کوئی شخص اگر قیامت کا قائل ہو سکتا ہے تو عقلی دلائل سے ہو سکتا ہے ، اور قرآن مجید میں جگہ جگہ وہ دلائل تفصیل کے ساتھ دے دیے گئے ہیں ، رہی اس کی تاریخ ، تو قیامت کی بحث میں اس کا سوال اٹھانا ایک جاہل آدمی ہی کا کام ہو سکتا ہے کہ جب وہ تمہاری بتائی ہوئی تاریخ پر آ جائے گی تو مان لوں گا ، آج آخر میں کیسے یقین کر لوں کہ وہ اس روز ضرور آ جائے گی ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، لقمان ، حاشیہ 63 ، الاحزاب ، حاشیہ 116 ۔ سبا ، حواشی 5 ۔ 48 ۔ یسین ، حاشیہ 45 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: کافر لوگ بار بار آخرت کا مذاق اُڑاتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ اگر آخرت کا عذاب برحق ہے تو اس میں دیر کیوں ہورہی ہے، ابھبی کیوں نہیں آجاتا؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:25) ویقولون : واؤ عاطفہ، یقولون، مضارع جمع مذکر غائب، وہ کہتے ہیں یعنی کافر عتو اور نفور کی بنا پر مسلمانوں سے سوال کرتے ہیں۔ پوچھتے ہیں حجت کے طور پر۔ متی ھذا الوعد : الوعد سے مراد وعدہ حشر ہے۔ یعنی کافر پوچھتے ہیں کہ وعدہ حشر کب پورا ہوگا ؟ ان کنتم صدقین : ان شرطیہ ہے یہ جملہ شرطیہ ہے ۔ جواب شرط محذوف ہے ای ان کنتم صدقین فیما تحبرونہ من مجی الساعۃ والحشر فبینوا وقتہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی از راہ مذاق کہتے ہیں کہ جس قیامت کی تم ہمیں دھمکی دیتے رہے ہو وہ کب آئے گی ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ زلفۃ۔ قریب۔ سئیت۔ بگڑ گئی ( بگڑ گئے) ۔ اھلکنی۔ وہ مجھے ہلاک کردے۔ یجیر۔ وہ پناہ دیتا ہے۔ غورا۔ نیچے چلے جاتا۔ معین۔ صاف پانی۔ تشریح : جب کفار کے سامنے قیامت اور میدان حشر کا ذکر کیا جاتا تو وہ ایمانلانے کے بجائے مذاق اڑاتے ہوئے کہتے کہ اللہ نے جس قیامت کا وعدہ کیا ہے آخر وہ قیامت کب آئے گی اور یہ وعدہ کب پورا ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ یہ تو اللہ کو معلوم ہے کہ وہ کب اور کیسے آئے گی۔ اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ میرا کام تو یہ ہے کہ میں اللہ کے احکامات جو بالکل واضح اور کھلے ہوئے ہیں ان کو اس کے بندوں تک پہنچا دوں اور لوگوں کو اللہ کی نافرمانی سے ڈراؤں۔ قیامت کا مجھے علم نہیں ہے لیکن جب وہ آئے گی اور ہر شخص کھلی آنکھوں سے اس کو دیکھے گا تو اس وقت حق و صداقت اور قیامت کا انکار کرنے والوں کے چہرے اور شکلیں بگڑ جائیں گی اور عذاب الٰہی کو دیکھ کر ان کے ہوش اڑ جائیں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہی وہ عذاب ہے جس کا تم بڑی شدت سے مطالبہ کرتے تھے اور قیامت کی جلدی مچایا کرتے تھے۔ کفار و مشرکین جب ان سچائیوں کے سامنے اپنے آپ کو بےبس اور مجبور محسوس کرتے تو بددعاؤں پر اتر آتے اور کہتے کہ یہ لوگ مر کیوں نہیں جاتے تاکہ ہماری جان چھوٹ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ہمارے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے پوچھئے کہ اگر اللہ ہم سب کو ہلاک کردے یا ہم پر رحم و کرم فرما دے تو ان دونوں حالتوں میں تم ہمارے انجام سے کیوں پریشان ہوتے ہو۔ ہماری فکر چھوڑو تم یہ بتائو کہ تمہیں اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا کیونکہ ہم تو اللہ رحمن و رحیم پر ایمان رکھتے ہوئے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں ہے جب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کھلی گمراہی میں کون پڑا ہوا تھا اور ہدایت کی روشنی کس کو نصیب تھی۔ ہمارا تو اس بات پر مکمل یقین ہے کہ اسی نے ہر نعمت عطا فرمائی ہے وہی چاہے تو اس کو چھین سکتا ہے مثلاً پانی کا وجود، اللہ کا بہت بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے کنوؤں، دریاؤں، نہروں اور زمین کے سوتوں سے ہمیں پانی عطا کیا ہے۔ اگر وہ پانی زمین کے اندر اتر جائے اور اس قدر گہرائی تک پہنچ جائے جہاں سے انسانی پانی حاصل نہ کرسکے تو اللہ کے سوا اور کون ہے جو اس پانی کو دوبارہ زمین کی سطح پر لے آئے گا ؟ لہٰذا وہ لوگ جو اللہ کو چھوڑ کر اور دوسروں کو اس کے برابر مانکر ان کی عبادت و بندگی کرتے ہیں کیا وہ بےبس اور مجبور معبود وہ پانی دوبارہ رواں دواں کرسکتے ہیں۔ فطرت انسانی کا جواب یہی ہوگا کہ اس کائنات میں ساری قدرت و طاقت اللہ ہی کی ہے وہی ہر نعمت کو دیتا ہے اور چھین بھی سکتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة الملک کی اس آخری آیت کی تلاوت کرتے تو فرماتے۔ اللہ یا تینا بہ وھو رب العالمین۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اس بڑے معاملے میں تم شک میں پڑے ہو ؟ اور سوالات کرتے ہو ؟ ویقولون .................... صدقین ” یہ ایک خلجان آلود سوال ہے اور اس کے اندر ہٹ دھرمی اور تکبر کی بو بھی۔ اس وعدے اور قیام قیامت کے وقت کا علم ہمیں اس قدر ہے کہ وہ اپنے وقت سے مقدم وموخر نہیں ہوسکتا۔ اس کا وقت ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ یہ یوم الجزاء ہے۔ ہمارے لئے اس میں کیا فرق ہے کہ وہ کل آجائے یا کئی ملین سال بعد آجائے ، ہماری زندگی تو مختصر زندگی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ آنے والی ہے اور اس کے لئے تیاری کرنا ضروری ہے۔ تمہیں اس میں بہرحال اٹھایا جائے گا اور جزاء وسزا ہوگی۔ اس لئے اللہ نے اس کے وقت کی اطلاع کسی کو نہیں دی ۔ کیونکہ قیامت کا وقت کسی کو معلوم ہوجانے میں کوئی فائدہ ہی کیا ہے۔ انسان کی عملی زندگی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ان احکامات کے ساتھ اس کا تعلق ہے ، جو انسان کو دیئے گئے ہیں۔ بلکہ مصلحت تو اس میں ہے کہ عام لوگوں کو اس کے وقوع کے وقت کا پتہ نہ ہو ، صرف اللہ کو پتہ ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منکرین کا سوال کہ قیامت کب آئے گی اور ان کا جواب منکرین کے سامنے جب قیامت آنے اور وہاں پیشی ہونے کی باتیں آتی تھیں اور انہیں وعید سنائی جاتی تھی تو مذاق کے طور پر انکار کے پیرایہ میں سوال کرتے تھے کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو تو اس کی تاریخ بتادو، ان کے جواب میں فرمایا ﴿قُلْ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ ١۪﴾ (آپ فرما دیجئے کہ علم صرف اللہ کے پاس ہے) ﴿وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ٠٠٢٦﴾ (اور میں تو صرف واضح طور پر ڈرانے والا ہوں) میر اکام بتانا سمجھانا واضح طور پر بیان کرنا ہے (اگر مجھے قیامت کے واقع ہونے کا وقت معلوم ہوتا تو تمہیں بتادینا) لیکن یہ بھی نہ سمجھو کہ اس کے وقوع کی تاریخ معلوم نہ ہوسکی تو وہ آنے والی ہی نہیں۔ جب قیامت آنے لگے گی اور اس کا وقوع قریب ہوجائے گا تو کافروں کا برا حال ہوگا۔ عذاب نظر آئے گا تو ان کے چہرے بگڑ جائیں گے ان پر ذلت سوار ہوگی، سورة ٴ زمر میں فرمایا ﴿وَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تَرَى الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلَى اللّٰهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ﴾ (اور اے مخاطب تو قیامت کے دن دیکھے گا کہ جنہوں نے اللہ پر جھوٹ بولا ان کے چہرے سیاہ ہوں گے) اور سورة ٴ عبس میں فرمایا ﴿وَ وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌۙ٠٠٤٠ تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌؕ٠٠٤١ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ (رح) ٠٠٤٢﴾ (اور بہت سے چہروں پر اس روز سیاہی ہوگی ان پر کدورت چھائی ہوگی۔ یہ لوگ کافر و فاجر ہوں گے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ ” ویقولون “ یہ شکوی ہے۔ مشرکین ازراہ تعنت وعناد سوال کرتے ہیں کہ وہ (قیامت کا یا عذاب کا) وعدہ کب پورا ہوگا ؟ اگر تم سچے ہو تو اس کی متعین تاریخ بتاؤ۔ ” قل انما العلم عند اللہ “ جواب شکوی ہے۔ آپ جواب میں فرما دیں اس کے معین وقت کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے۔ میں تو اس کی خبر دینے والا ہوں۔ میں نے جو خبر دی ہے۔ اور اس کے مطابق اللہ کا عذاب ضرور آئیگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(25) اوریہ منکر کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو بتائو کہ آخر یہ وعدہ کب پورا ہوگا۔