Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 30

سورة الملك

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَصۡبَحَ مَآؤُکُمۡ غَوۡرًا فَمَنۡ یَّاۡتِیۡکُمۡ بِمَآءٍ مَّعِیۡنٍ ﴿٪۳۰﴾  2

Say, "Have you considered: if your water was to become sunken [into the earth], then who could bring you flowing water?"

آپ کہہ دیجئے! کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ اگر تمہارے ( پینے کا ) پانی زمین میں اتر جائے تو کون ہے جو تمہارے لئے نتھرا ہوا پانی لائے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاوُكُمْ غَوْرًا ... Say: "Tell me! If your water were to sink away..." meaning, if it were to go away, disappearing into the lowest depths of the earth, then it would not be reachable with iron axes nor strong arms. غَوْرًا Gha'ir' (sinking) as used here in the Ayah, is the opposite of springing forth. This is why Allah says, ... فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاء مَّعِينٍ who then can supply you with flowing water? meaning, springing forth, flowing, running upon the face of the earth. This means that no one is able to do this except Allah. So, it is merely out of His favor and His grace that He causes water to spring forth for you, and He makes it run to the various regions of the earth in an amount that is suitable for the needs of servants, be it little or abundant. So Allah's is all the praise and thanks. This is the end of the Tafsir of Surah Al-Mulk and all praise and thanks are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 غَوْرًا کے معنی ہیں خشک ہوجانا یا اتنی گہرائی میں چلا جانا کہ وہاں سے پانی نکالنا ناممکن ہو۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ پانی خشک فرما دے کہ اس کا وجود ہی ختم ہوجائے یا اتنی گہرائی میں کر دے کہ ساری مشینیں پانی نکالنے میں ناکام ہوجائیں تو بتلاؤ ! پھر کون ہے جو تمہیں جاری، صاف اور نتھرا ہوا پانی مہیا کر دے ؟ یعنی کوئی نہیں ہے کہ تمہیں پانی سے محروم نہیں فرماتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

٣٣] زیر زمین پانی کے ذخیرے :۔ آسمان سے جو بارش برستی ہے اس کا کا ایک حصہ تو ندی، نالوں اور دریاؤں سے ہوتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے۔ اور ایک حصہ زمین میں جذب ہوجاتا ہے پھر کئی مقامات ایسے ہیں جہاں بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور کئی مقامات پر بہت کم۔ علاوہ ازیں اگر زمین نرم ہو تو بہت زیادہ پانی چوس لیتی ہے اور اگر سخت یا پتھریلی ہو تو بہت کم پانی جذب کرتی ہے۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ زمین کے نیچے پانی کے ذخیرے بھی موجود ہیں اور نیچے ہی نیچے اس پانی کے دریا بھی بہہ رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر علاقہ زیادہ بارشوں والا ہو اور زمین نرم ہو تو زمین کھودنے سے بیس پچاس فٹ کی گہرائی پر پانی مل جاتا ہے اور اگر علاقہ کم بارش والا اور زمین پتھریلی ہو تو ممکن ہے سینکڑوں فٹ کی گہرائی پر پانی نہ مل سکے۔ پھر ان زمین دوز پانی کے ذخیروں کے خواص بھی الگ الگ ہوتے ہیں کہیں گدلا، کھاری اور لیسدار پانی برآمد ہوتا ہے اور کہیں ٹھنڈا اور میٹھا پانی۔ بارش نہ ہونے کی صورت میں انسان بسا اوقات اپنی پانی پینے کی ضرورت اور کھیتوں کو آبپاشی کی ضرورت کو انہیں ذخیروں سے پورا کرلیتا ہے۔ نیز پانی کی گہرائی کا انحصار بعض دفعہ زمین میں موجود پتھریلی زمین کے بڑے بڑے قطعوں پر بھی ہوتا ہے اور یہ سب عوامل جن کا اوپر ذکر ہوا ہے صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ ئقدرت میں ہیں وہ خوب جانتا ہے کہ فلاں علاقے کے لوگوں کے لیے پانی کی ضروریات کس قسم کی ہیں۔ اسی بات کو ملحوظ رکھ کر اللہ تعالیٰ ہر مقام پر پانی کی گہرائی کا اہتمام فرماتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کافروں اور ناشکروں کے سامنے یہ سوال رکھتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پانی کے ان ذخیروں کو اتنی گہرائی تک لے جائے جہاں سے پانی نکالنا تمہاری دسترس سے باہر ہو یا ان ذخیروں کو کھاری اور لیسدار بنا دے تو بتاؤ کیا تم ایک دن بھی زندہ رہ سکتے ہو ؟ اللہ کے سوا تمہارے پاس کوئی اور ہستی ہے جو تمہیں ٹھنڈا اور میٹھا پانی مہیا کردے ؟ واضح رہے کہ لغوی لحاظ سے غور یا غار کا معنی نشیبی زمین کی طرف نیچے اور غار بمعنی کھوہ، معروف لفظ ہے اور غور بمعنی نشیبی زمین بھی اور زیر زمین گہرائی بھی۔ گویا اس میں گہرائی کے ساتھ مکان کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ نیز معین کا ایک معنی تو اوپر مذکور ہوا اس کا دوسرا معنی پانی کا سطح زمین پر نرم رفتار سے بہنا ہے۔ یعنی سیلاب کی طرح تندی اور تیزی سے نہیں بلکہ نرمی اور سہولت سے جاری ہونے والا پانی۔ یعنی جب زمینی گہرائی سے پانی کنوؤں، نلکوں یا مشینوں سے نکالا جاتا ہے اور آبپاشی کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس پانی کی رفتار سیلاب کی طرح تند و تیز نہیں ہوتی بلکہ نرم اور دھیمی ہوتی ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ جب کوئی شخص یہ آیت پڑھے تو اسے یوں کہنا چاہیے۔ اللّٰہُ یَاتِیْنَا بِہٖ وَھُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُکُمْ غَوْرًا ۔۔۔۔:” غورا “” غار یغور غورا “ ( ن) گہرا چلا جانا ۔ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے۔” معین “ کے لیے دیکھئے سورة ٔ صافات (٤٥) ۔ ٢۔ اس آیت سے تعلق رکھنے والا ایک عجیب واقعہ صاحب کشاف نے ذکر کیا ہے کہ ایک ملحد کے پاس یہ آیت پڑھی گئی تو اس نے کہا کہ (اگر وہ پانی گہرا چلا جائے تو) کسیاں اور بیلچے اسے نکال لائیں گے ، تو اس کی آنکھوں کا پانی خشک ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اور اپنی آیات کی گستاخی سے اپنی پناہ میں رکھے۔ ( آمین) پچھلی آیات میں فرمایا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنا رزق روک لے اور بارش نہ برسائے تو کون ہے جو تمہیں بارش عطاء فرمائے ؟ قحط کے وقت اپنے خداؤں کی بےبسی تم دیکھ ہی چکے ہو۔ اب حکم ہوتا ہے کہ ان سے پوچھو کہ یہی پانی جس پر تمہاری زندگی کا دارومدار ہے ، اگر گہرا ہوجائے اور تمہاری دسترس سے باہر ہوجائے تو کون ہے جو بہتا ہوا پانی تمہارے پاس لے آئے ؟ ظاہ رہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کے پاس یہ قوت نہیں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

قُلْ أَرَ‌أَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرً‌ا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ (Say, |"Tell me, Should your water vanish into the earth, who will bring you a flowing [ stream ] water?|"...(67:30). In other words, if all the water, which people draw from the wells easily, were to disappear into the depths of the earth, do they have any power through which they will be able to obtain pure running water? Obviously, the answer in negative. It is recorded in a Tradition that when a person recites this verse, he should say اللہُ رَبُّ العَالَمِینَ |"Allah, the Lord of the worlds|" That is, it is Allah alone who can bring it back to us. None of us has the power. Al-hamdulillah The Commentary on Surah Al-Mulk Ends here

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَاۗؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَّاْتِيْكُمْ بِمَاۗءٍ مَّعِيْنٍ ۔ یعنی آپ ان لوگوں کو بتلادیجئے کہ اس بات پر غور کریں کہ جو پانی کنوؤں کے ذریعہ با آسانی نکال کر پی رہے ہو اگر وہ پانی زمین کی گہرائی میں اتر جائے تو تمہاری کونسی طاقت ہے جو اس جاری پانی کو حاصل کر کسے۔ حدیث میں ہے کہ جب آدمی یہ آیت تلاوت کرے تو اس کو کہنا چاہے اللہ رب العاملین یعنی اللہ رب العالمین ہی پھر اس کو لا سکتا ہے ہماری کسی کی طاقت نہیں۔ تمت سورة الملک بحمد اللہ فی ثالث رجب 1391 ھ یوم الخمیس

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَاۗؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَّاْتِيْكُمْ بِمَاۗءٍ مَّعِيْنٍ۝ ٣٠ ۧ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ صبح الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے غور الغَوْرُ : المُنْهَبِطُ من الأرض، يقال : غَارَ الرجل، وأَغَارَ ، وغَارَتْ عينه غَوْراً وغُئُوراً «2» ، وقوله تعالی: ماؤُكُمْ غَوْراً [ الملک/ 30] ، أي : غَائِراً. وقال : أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً [ الكهف/ 41] . والغارُ في الجبل . قال : إِذْ هُما فِي الْغارِ [ التوبة/ 40] ، وكنّي عن الفرج والبطن بِالْغَارَيْنِ «3» ، والْمَغَارُ من المکان کا لغور، قال : لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغاراتٍ أَوْ مُدَّخَلًا [ التوبة/ 57] ، وغَارَتِ الشّمس غِيَاراً ، قال الشاعر : هل الدّهر إلّا ليلة ونهارها ... وإلّا طلوع الشّمس ثمّ غيارها«4» وغَوَّرَ : نزل غورا، وأَغَارَ علی العدوّ إِغَارَةً وغَارَةً. قال تعالی: فَالْمُغِيراتِ صُبْحاً [ العادیات/ 3] ، عبارة عن الخیل . ( غ ور ) الغور کے معنی نشیبی زمین کے ہیں محاورہ ہے غارالرجل اوغار یشبی زمین میں چلا جانا غارت عینہ غورا وغورورا آنکھ کا اندر پھنس جانا قرآن پاک میں ہے ؛ماؤُكُمْ غَوْراً [ الملک/ 30] تمہارا پانی بہت زیادہ زمین کے نیچے اتر جائے ۔ أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً [ الكهف/ 41] یا اس کا پانی زمین کے اندر اتر جائے ۔ الغار کے معنی غار کے ہیں ( ج اغوار وغیران ) قرآن پاک میں ہے : إِذْ هُما فِي الْغارِ [ التوبة/ 40] جب وہ دونوں غار ( ثور ) میں تھے : اور کنایہ کے طور پر فر ج و بطن یعنی پیٹ اور شرمگاہ کو غار ان ( تثبیہ ) کہاجاتا ہے اور مغار کا لفظ غور کی طرح اسم مکان کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ض ( جمع مغارات) قرآن پاک میں ہے : لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغاراتٍ أَوْ مُدَّخَلًا[ التوبة/ 57] اگر ان کو کوئی بچاؤ کی جگہ ( جیسے قلعہ ) یا رغار ومغاک یا زمین کے اندر ) کھسنے کی جگہ مل جائے ۔ اور غارت الشمس غیارا کے معنی سورج غروب ہوجانے کے ہیں ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (333) ھل الدھر الالیلۃ ونھارھا والا طلوع الشمس ثم غیارھا ( زمانہ دن رات کی گردش اور سورج ک طلوع و غروب ہونے کا نام ہے ) غور کے معنی پست زمین میں چلے جانے کے ہیں واغار علی الغدو ا اغارۃ وغارۃ کے معنی دشمن پر لوٹ مارنے کے قرآن پاک میں ہے ؛ فَالْمُغِيراتِ صُبْحاً [ العادیات/ 3] پھر صبح کو چھاپہ مارتے ہیں ۔ اور اس سے مراد گھوڑے ہیں ( جو صبح کو دشمن پر چھاپہ مارتے ہیں) أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم/ 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] . ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : {إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا } [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا[ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ ان سے فرما دیجیے کہ اچھا یہ تو بتلاؤ کہ اگر تمہارے زمزم کے کنوئیں کا پانی زمین کی تہ میں اتر جائے کہ ڈول وہاں تک نہ پہنچ سکیں سو وہ کون ہے جو تمہارے پاس سوت کر پانی لے کر آئے کہ ڈولوں کی وہاں تک رسائی ہوجائے یا یہ کہ نون و قلم کے خالص کے علاوہ کون سوت کر پانی لاسکتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠{ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُکُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْکُمْ بِمَآئٍ مَّعِیْنٍ ۔ } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے کہ ذرا سوچو ! اگر تمہارا پانی گہرائی میں اتر جائے تو کون ہے جو لائے گا تمہارے پاس صاف ‘ نتھرا ہواپانی ؟ “ آج کے دور میں اس آیت کا مفہوم واضح تر ہو کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ آج متعلقہ ماہرین بار بار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ پانی کے بڑھتے ہوئے استعمال اور بارشوں کی کمی کے باعث مستقبل قریب میں زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جاسکتی ہے۔ بیشتر علاقوں میں انسانی ‘ حیوانی اور نباتاتی زندگی کا زیادہ تر دار و مدار زیرزمین پانی پر ہی ہے جو عموماً آسانی سے دستیاب بھی ہے۔ صاف شفاف اور میٹھے پانی کا یہ عظیم الشان ذخیرہ ” زندگی “ کے لیے قدرت کا بہت بڑا عطیہ ہے۔ اگر یہ پانی واقعی ایسی گہرائی میں چلا جائے جہاں سے اس کا نکالنا ناممکن یا مشکل ہوجائے تو اس کے نتائج کا تصور بھی روح فرسا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

40 That is "Has another besides Allah the power to restore these springs of water to you? If none else has this power, and you know fully well that none has it, then who is worthy of worship: God or your false deities, who do not have the power to restore them? Then ask your own selves as to who is misled and misguided: those who believe in One God, or those who believe in many gods."

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :40 یعنی کیا خدا کے سوا کسی میں یہ طاقت ہے کہ ان سوتوں کو پھر سے جاری کر دے؟ اگر نہیں ہے ، اور تم جانتے ہو کہ نہیں ہے ، تو پھر عبادت کا مستحق خدا ہے ، یا تمہارے وہ معبود جو انہیں کاری کرنے کی کوئی قدرت نہیں رکھتے؟ اس کے بعد تم خود اپنے ضمیر سے پوچھو کہ گمراہ خدائے واحد کو ماننے والے ہیں یا وہ جو شرک کر رہے ہیں؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: جب یہ بات طے ہے کہ پانی سمیت ہر چیز اﷲ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے تو آخر اُس کے سوا کون ہے جو عبادت کا مستحق ہو، اور کونسی وجہ ہے جس کی بنا پر اُس کی اس قدرت کا انکار کیا جائے کہ وہ اِنسانوں کو زندہ کر کے انہیں جزا یا سزا دے گا؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:30) ارائیتم : ملاحظہ ہو 67:28 متذکرۃ الصدر۔ ان اصبح ماء کم غورا : ان شرطیہ جملہ شرطیہ ہے۔ اصبح : ماضی واحد مذکر غائب افعال ناقصہ میں سے ہے۔ اصباح (افعال) مصدر۔ اس نے صبح کی۔ اس کو صبح ہوئی۔ ہوگیا۔ ماء کم : مضاف مضاف الیہ ۔ تمہارا پانی، یعنی وہ پانی جو تمہارے استعمال کے لئے تمہیں جیا کہا جاتا ہے۔ جیسے پینے کا پانی ، فصلوں کی آبپاشی کے لئے مطلوبہ پانی۔ غورا : غور مصدر ہے بمعنی فاعل۔ غور کے معنی ہیں پانی کا زمین کے اندر گھس جانا۔ کسی چیز کا اندر کی طرف چلے جانا (باب نصر) ۔ یہاں آیت ہذا میں غور (مصدر) بمعنی غایر زمین میں گھس کر خشک ہوجانے والا پانی، جو ہاتھ یا ڈول وغیرہ کی دسترس سے باہر ہوگیا ہو۔ نشیبی جگہ یا گڑھا کو بھی غور کہتے ہیں۔ غورا بوجہ خبر اصبح کے منصوب ہے۔ فمن یاتیکم بماء معین : جملہ جواب شرط ہے ف جواب شرط کے لئے۔ من استفہامیہ انکاریہ، کون ؟ کوئی بھی نہیں۔ ماء معین : موصوف و صفت، جاری پانی۔ معین صیغہ صفت بروزن فعیل بمعنی جاری۔ معن مصدر۔ جاری ہونا۔ جاری کرنا۔ گھاس کا سیراب ہونا۔ بعض کے نزدیک معین میں میم زائد ہے عین کا معنی ہے ظہور۔ وہ جاری پانی جس کو سامنے ہونے کی وجہ سے ہر کوئی دیکھ لے۔ کہیں جھاڑیوں اور جنگلوں میں چھپا ہوا نہ ہو معین کہلاتا ہے۔ بغوی (رح) نے اس کے معنی لکھے ہیں : بالکل سامنے ، جس کو آنکھیں دیکھ سکیں اور ہاتھوں اور ڈولوں سے اس کو لیا جاسکے۔ (اللہ رب العلمین)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی کوئی نہیں۔ تفسیر جلالین میں ہے کہ اس آیت کو پڑھنے اور سننے والے کو ” اللہ رب العلمین “ کہنا مستحب ہے۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ پس جب خدا کے مقابلہ میں کسی کو اتنی بھی قدرت نہیں کہ معمولی طبعی واقعات میں تصرف کرسکے تو عذاب آخرت سے بچانے کی تو کیا قدرت ہوگی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دنیا اور آخرت کے عذاب کو ٹالنا تو درکنار انسان ” اللہ تعالیٰ “ کے سامنے اس قدر عاجز اور بےبس ہے کہ وہ اپنی زندگی کی اہم ترین ضرورت پانی پر بھی اختیار نہیں رکھتا۔ انسان کی بنیادی ضروریات میں پانی اس کی زندگی کا اہم ترین جز ہے، پانی کے بغیر انسان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ قدیم زمانے میں عرب میں پانی کی بہت زیادہ قلت ہوا کرتی تھی۔ پانی کی قلت کی وجہ سے عرب کے اکثر لوگ خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے بیشتر علاقوں میں پانی کا دارومدار صرف بارش پر تھا اگر ایک مدت تک بارش نہ ہوتی تو چشمے خشک ہوجاتے اور کنوؤں کا پانی اتنا گہرا ہوجاتا کہ اسے حاصل کرنا کسی کے بس میں نہیں تھا۔ پانی کی قلت کی وجہ سے جانور مرجاتے اور لوگوں کو اپنی جان کے لالے پڑجاتے تھے، بارش برستی تو لوگوں کو اس قدر خوشی ہوتی کہ جس طرح کسی کو دوبارہ زندگی حاصل جائے۔ قرآن مجید نے کئی بار اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ بارش نازل نہ کرے تو کون بارش برسانے والا ہے۔ ؟ علاقہ زرخیز ہو یا بنجر، پہاڑی ہو یا ہموار پانی کا انحصار بارش پر ہے اگر ایک مدّت تک بارش نہ ہو تو زمین کا پانی اتنا گہرا ہوجائے کہ عام آدمی تو درکنار بہت زیادہ وسائل رکھنے والی حکومت بھی زمین سے پانی حاصل نہ کرسکے۔ اس لیے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس پانی کو تم پیتے اور استعمال کرتے ہو اگر اسے زمین میں گہرا کردیا جائے تو کون ہے جو اسے حاصل کرسکے گا ؟ مسائل ١۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین کے پانی کو خشک کردے تو زمین و آسمانوں میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو پانی حاصل کرسکے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو پانی دینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن پانی کی اہمیت اور بارش کا نظام : ( الطارق : ٦) ( طٰہٰ : ٥٣) ( النساء : ٦٣) ( النحل : ٦٥) (البقرۃ : ٢٢) ( ق : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل ارءیتم .................... معین ” ماﺅکم غورا (٧٦ : ٠٣) ” کے معنی اس پانی کے ہیں جو زمین کی رگوں میں دور تک چلاجائے اور اسے واپس لانے کی کوئی سبیل نہ ہو۔ معین (٧٦ : ٠٣) وہ چشمہ جو زمین سے ابل کر پانی لارہا ہو۔ یہ مناظر وہ دیکھتے رہتے تھے۔ اگرچہ وہ اس دن اس میں شک کرتے تھے۔ لیکن زمین و آسمان کی بادشاہت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ، وہ جس وقت چاہے ان چشموں کو خشک کردے۔ اگر اللہ ان کی زندگی کے اس سبب کو ہی کشید کرلے تو نتائج کیا ہوں۔ اس کے بعد ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے ذرا اس پر بھی غور کرلو۔ یوں اس سورت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ یہ دلائل ، تاثرات ، ملکوت سماوات اور ارض کی سیر ، ہر آیت ایسی کہ بذات خود فکر انگیز ، قلب ونظر اور فکر و خیال کی جولانی۔ یہ بہت ہی زیادہ فکر انگیز سورت ہے۔ حجم اگرچہ کم ہے لیکن تصورات ، ہدایات آفاق کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ اشاراتی تیر ہیں جو بہت ہی دور تک فکر و خیال کو لے جاتے ہیں اور کائنات کی سیر کراتے ہیں۔ یہ سورت اسلامی تصور حیات کی بنیادیں رکھ دیتی ہے۔ یہ ضمیر کے اندر بٹھاتی ہے کہ تمام فیصلے ازل میں ہوچکے ہیں۔ تمام کائنات پر اللہ کا مکمل کنٹرول ہے ، انسانوں کو یہاں آزمائش اور امتحان کے لئے بھیجا گیا جس کا نتیجہ حشر ونشر کے دن نکلے گا۔ اللہ کی مخلوقات میں کمال و جمال انتہاﺅں پر ہے۔ اللہ کا علم ظاہر و باطن پر محیط ہے ، رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ مخلوقات کا محافظ ہے ، وہ مخلوقات کے ساتھ ہے ، ایک مسلم کا تصور اب کیا ہے ، پھر اس کائنات کا اللہ کے ساتھ کیا تعلق ہے ، یہ وہ مجموعہ تصورات ہے جس کے اوپر اسلامی نظام حیات کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ مومن کا تعلق اپنے رب کے ساتھ ، مومن کا تعلق اپنے نفس کے ساتھ ، مومن کا تعلق اپنے بھائیوں اور انسانوں کے ساتھ ، مومن کا تعلق تمام زندہ مخلوقات کے ساتھ ، مومن کا تعلق روئے زمین کے اشیاء کے ساتھ۔ یہ تصورات انسان کے ضمیر میں ان تعلقات کو اس تفصیلی کیفیات عطا کرتے ہیں۔ اس سے ایک مسلم کی زندگی کی اقدار اور پیمانے واضع ہوتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اگر پانی زمین میں واپس ہوجائے تو اسے واپس لانے والا کون ہے ؟ تیسری بات یہ فرمائی کہ آپ ان سے یوں فرما دیں کہ تم یہ بتاؤ کہ اگر تمہارا یہ پانی جو بارش کے ذریعہ تمہیں ملتا ہے اور جسے کنوؤں سے نکالتے ہو اور جسے میٹھی نہروں سے حاصل کرتے ہو یہ تمہارے پینے کھانے پکانے نہانے دھونے میں اور باغوں اور کھیتیوں کی آبپاشی میں کام آتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پانی کو ایسا کر دے کہ بالکل ہی زمین میں دور تک اترتا چلا جائے اور جہاں تک تمہاری رسائی نہ ہو وہاں تک پہنچ جائے تو بتاؤ وہ کون ہے جو پانی کو لے آئے۔ صاحب جلالین لکھتے ہیں کہ یہاں پہنچ کر تلاوت کرنے والا لفظ معین کے بعد یوں کہے کہ ﴿اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ (رح) ٠٠٢٩﴾ (اللہ رب العالمین ہی پانی لاسکتا ہے) یعنی اللہ اس نعمت عظیمہ کو غائب فرما دے تو اس کے علاوہ کوئی بھی کہیں سے پانی دینے والا نہیں۔ تفسیر جلالین شریف میں لکھا ہے کہ جب سورة الملک کی آخری آیت بعض متکبروں نے سنی تو ﴿ فَمَنْ يَّاْتِيْكُمْ بِمَآءٍ مَّعِيْنٍ (رح) ٠٠٣٠﴾ کے جواب میں اس نے کہا ناتی بہ بالفوس والمعاول (یعنی کدال اور پھاوڑہ کے ذریعہ پانی لے آئیں گے) اس کا یہ کہنا تھا کہ اس کی آنکھوں کا پانی خشک ہوگیا آنکھوں میں جو پانی ہے جس سے چمک دمک اور روشنی ہے وہ بھی تو اللہ تعالیٰ کا پیدا فرمودہ ہے، جسے کدال اور پھاوڑہ پر غرور ہے وہ اپنی آنکھ کا خشک شدہ پانی پھاوڑہ چلا کر کھدائی کر کے لے آئے۔ فضیلت احادیث شریفہ میں سورة الملک کی بڑی فضیلت آئی ہے، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ قرآن میں ایک سورت ہے جس کی تیس آیتیں ہیں اس نے ایک شخص کے لیے شفاعت کردی یہاں تک کہ وہ بخش دیا گیا وہ سورت تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ ہے۔ (رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد والنسائی و ابن ماجہ کما فی المشکوٰۃ صفحہ ١٨٢) اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے ایک جگہ اپنا خیمہ لگایا وہاں قبر تھی جس کا انہیں پتہ نہ تھا وہاں انہوں نے ایک شخص کی آواز سنی جو سورة ٴ تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ پڑھ رہا تھا اس نے پوری سورت ختم کرلی، یہ صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو پوری کیفیت سنائی، آپ نے فرمایا یہ سورت عذاب سے روکنے والی ہے قبر والے شخص کو اللہ کے عذاب سے نجات دینے والی ہے۔ (رواہ الترمذی کما فی المشکوٰۃ صفحہ ١٨٨) اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تک سورة ٴ الم تنزیل (جو اکیسویں پارہ میں ہے) اور سورة ٴ تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ نہیں پڑھ لیتے تھے اس وقت تک (رات کو) نہیں سوتے تھے۔ (رواہ احمد والترمذی والدارمی کما فی المشکوٰۃ صفحہ ١٨٨) وھذا آخر تفسیر سورة الملک بفضل اللہ الملیک العلام والحمد للہ علی التمام والصلٰوة علی البدر التمام وعلی الہ و اصحابہ البررة الکرام

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ ” قل ارایتم “ آٹھویں دلیل عقلی خاص۔ ” معین “ بروزن فعیل، معن سے ماخوذ ہے یعنی جاری اور بہتا ہوا یا یہ عین سے اسم مفعول ہے یعنی جو آنکھوں سے نظر آئے۔ عن ابن عباس (بماء معین) ای ظاھر تراہ العیون فھو مفعول وقیل ھو من معن الماء ای کثر، فھو علی ھذا فعیل (قرطبی ج 18 ص 222) ۔ یہ بتاؤ اگر یہ پانی زمین کی گہرائی میں چلا جائے، تو تازہ اور جاری پانی تمہیں کون لا کر دے گا ؟ وہ تعالیٰ ہی ہے جو تمہیں تازہ اور میٹھا پانی عطا فرماتا ہے تو کیا برکات دہندہ کوئی اور ہوگا ؟ یہ سب اللہ کی مہربانی ہے، تمہارے خود ساختہ معبود یہ کام نہیں کرسکتے۔ سورة ملک میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات۔” تبرک الذی بیدہ الملک “ چھ عقلی دلیلوں سے ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی برکات دہندہ نہیں۔ سوہ ملک ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) آپ فرمائییاچھا یہ تو بتائو کہ اگر تمہارا پانی زمین میں اتنا نیچے اتر جائے کہ حاصل نہ ہوسکے یعنی اتر کر غائب ہوجائے تو وہ کون ہے جو تمہارے لئے بہتا پانی لے آئے۔ یعنی ہماری بات تو صاف اور سیدھی ہے کہ ہم خدائے رحمان پر ایمان رکھتے ہیں ہم سب کا اسی پر بھروسہ ہے تمہارا نہ اس پر ایمان نہ اس پر بھروسہ لہٰذا عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا کہ کون کھلی اور صریح گمراہی میں مبتلا ہے یعنی تم یا ہم ۔ ہماری بات صحیح ہے یا تمہاری بات درست ہے مرتے کے ساتھ ہی سب حال معلوم ہوجائے گا۔ آخر میں حضرت حق جل مجدہ کی بادشاہی اس کی علی الاطلاق قدرت اور اس کے مختار کل ہونے کی طرف ایک اور بات فرمائی کہ اے پیغمبران سے دریافت کرو کہ بھلا یہ توبتائو اور اس بات پر تو غور کرو کہ تمہارا پانی اگر زمین میں اتر جائے خواہ کنویں کا پانی ہو یا دریا کا ہو یا نہر کا ہو وہ زمین کے اندر اس قدر نیچے چلا جائے کہ زمین کے اوپر نہ لایا جاسکے تو وہ کون ہے جو زمین کے نیچے اترے ہوئے پانی کو اوپر لے آئے۔ یعنی جہاں تمام اسباب معطل ہوجائیں تو وہ کون ہے جو صاف اور نتھرا پانی تمہارے لئے سطح زمین میں لے آئے۔ غور کے معنی ہیں بہت گہرائی میں پانی کا اتر جاناایسی گہرائی جہاں سے پانی حاصل نہ کیا جاسکے ہم نے پانی کو عام رکھا ہے جیسا کہ ہمارے بعض اکابر نے آنکھوں میں جو بینائی کا پانی ہوتا ہے اس کو بھی شامل کیا ہے ۔ معین یعنی صاف نتھر یا جاری ہم نے ترجمہ میں دونوں معنی کئے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اس آیت کی تلاوت فرماتے تو فرماتے۔ اللہ یاتینا بہ وھو رب العلمین۔ تم تفسیر سورة الملک