Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 26

سورة القلم

فَلَمَّا رَاَوۡہَا قَالُوۡۤا اِنَّا لَضَآلُّوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

But when they saw it, they said, "Indeed, we are lost;

جب انہوں نے باغ دیکھا تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ بھول گئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But when they saw it, they said: "Verily, we have gone astray." meaning, when they arrived at it and came upon it, and it was in the condition which Allah changed from that luster, brilliance and abundance of fruit, to being black, gloomy and void of any benefit. They believed that they had been mistaken in the path they took in walking to it. This is why they said, إِنَّا لَضَالُّونَ (Verily, we have gone astray). meaning, `we have walked down a path other than the one we were seeking to reach it.' This was said by Ibn `Abbas and others. Then they changed their minds and realized with certainty that it was actually the correct path. Then they said, بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 یعنی باغ والی جگہ کو راکھ کا ڈھیر یا اسے تباہ برباد دیکھا۔ (1) یعنی پہلے پہل تو ایک دوسرے کو کہا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا رَاَوْہَا قَالُوْٓا اِنَّا لَضَآلُّوْنَ ۔۔۔۔: جب باغ نظر نہ آیا تو پہلے یہ سمجھے کہ ہم بھول گئے ہیں ، پھر جب یقین ہوگیا کہ یہ صاف زمین ہمارا ہی باغ ہے تو کہنے لگے ہماری قسم پھوٹ گئی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَلَمَّا رَ‌أَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ (But when they saw it [ the place of the ruined garden ], they said, |"We have missed the way.|"....68:26). In other words, when they did not find their garden on that spot, they first thought that they must have lost their way and gone to the wrong place. But when they saw the surroundings, they realized that it was the right place they have gone to, but the garden had been burnt up and destroyed. So, they exclaimed: بَلْ نَحْنُ مَحْرُ‌ومُونَ |"No, but we are deprived [ of the fruits ]....68:27)

(آیت) فَلَمَّا رَاَوْهَا قَالُوْٓا اِنَّا لَضَاۗلُّوْنَ مگر جب اس جگہ کھیت باغ کچھ نہ پایا تو اول تو یہ کہنے لگے کہ ہم جگہ کو بھول کر کہیں اور آگئے، یہاں تو نہ باغ ہے نہ کھیت، مگر پھر قریبی مقامات اور نشانات پر غور کیا تو معلوم ہوا جگہ تو یہی ہے اور کھیت جل کر ختم ہوچکا ہے تو کہنے لگے بل نحن محرومون یعنی ہم اس نعمت سے محروم کردیئے گئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا رَاَوْہَا قَالُوْٓا اِنَّا لَضَاۗلُّوْنَ۝ ٢٦ ۙ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦{ فَلَمَّا رَاَوْہَا قَالُوْٓا اِنَّا لَضَآلُّوْنَ ۔ } ” پھر جب انہوں نے اس (باغ) کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم تو کہیں بھٹک گئے ہیں۔ “ فوری طور پر تو وہ یہی سمجھے کہ وہ اندھیرے میں راستہ بھول کر کسی اور جگہ آگئے ہیں اور یہ ان کا باغ نہیں ہے۔ پھر جب انہیں اصل صورت حال کا ادراک ہوا تو کہنے لگے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: یعنی جب انہوں نے اپنے باغ کے پاس پہنچ کر دیکھا کہ وہاں درختوں کا نام و نشان ہی نہیں ہے تو شروع میں یہ سمجھے کہ وہ راستہ بھٹک کر کہیں اور پہنچ گئے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:26) فلما : ف تعقیب کا ہے۔ لما جب (حرف ظرف) پھر ، جب ۔ راوھا : راوا ماضی جمع مذکر غائب رؤیۃ (رای ، یری) باب فتح مصدر سے رای مادہ راوا اصل میں رأیوا تھا۔ ی متحرک ماقبل اس کا مفتوح اس کو الف سے بدلا۔ اب الف اور واؤ دو ساکن جمع ہوئے الف کو حذف کردیا۔ راوا ہوگیا۔ انہوں نے دیکھا۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث۔ الجنۃ کے لئے ہے۔ پھر جب انہوں نے اس کو (یعنی اپنے باغ کو) دیکھا۔ قالوا کہنے لگے ۔۔ لضالون : لام تاکید کا ہے ضالون گمراہ، بہکے ہوئے۔ راہ بھولے ہوئے۔ ضلال سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر۔ ہم ضرور راہ بھول گئے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 15 یعنی شاید ہم کسی دوسری جگہ آگئے ہیں۔ یہ باغ جو کٹا ہوا یا جلا ہوا ہے ہمارا نہیں ہے۔6 1 یعنی بعد میں جب انہوں نے غور کیا تو سمجھ گئے کہ نہیں یہ جگہ تو ہمارے ہی باغ کی ہے لیکن ہماری قسمت پھوٹ گئی اور ہم اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے دھتکار دیئے گئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلما .................... لضالون (٨٦ : ٦٢) ” مگر جب باغ کو دیکھا تو کہنے لگے ، ” ہم راستہ بھول گئے ہیں “۔ یہ تو ہمارا باغ ہی نظر نہیں آتا۔ ہمارا باغ تو پھل سے لدا تھا۔ شاید ہم راستہ بھول کر کسی دوسری جگہ آگئے ہیں۔ لیکن جب معلوم ہوتا ہے کہ راستہ تو نہیں بھولے وہی معروف راستہ ہے جس سے آئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” فلما راوھا “ جب وہ باغ کی جگہ پہنچے تو اسے اجڑا ہوا دیکھ کر بولے رات کے اندھیرے میں ہم راستہ بھول گئے ہیں اور اپنے باغ کے بجائے کسی دوسری جگہ پہنچ گئے۔ ” بل نحن محرومون “ لیکن جب انہوں نے آس پاس کے کھیتوں اور زمینوں کا بغور جائزہ لیا تو سمجھ گئے کہ یہ جگہ تو ہمارے ہی باغ کی ہے اور ہم راستہ نہیں بھولے بلکہ اللہ نے اس کو اجاڑ کر ہمیں اس کے پھل سے محروم کردیا ہے۔ قال اوسطھم، اب ان میں سے جو سب سے اچھا بھائی تھا، وہ بولا : کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم خدا کی تسبیح و تقدیس کیوں نہیں کرتے ہو اور برکات دینے میں اس کو وحدہ لا شریک کیوں نہیں سمجھتے ہو ؟۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) پھر جب اس باغ کو دیکھا تو کہنے لگے یقینا ہم راستہ بھول گئے۔