Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 33

سورة القلم

کَذٰلِکَ الۡعَذَابُ ؕ وَ لَعَذَابُ الۡاٰخِرَۃِ اَکۡبَرُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿٪۳۳﴾  3

Such is the punishment [of this world]. And the punishment of the Hereafter is greater, if they only knew.

یوں ہی آفت آتی ہے اور آخرت کی آفت بہت ہی بڑی ہے کاش انہیں سمجھ ہوتی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

كَذَلِكَ الْعَذَابُ ... Such is the punishment, meaning, such is the punishment of whoever opposes the command of Allah, is stingy with what Allah has given him and favored him with, withholds the right of the poor and needy, and responds to Allah's blessings upon him with ungratefulness (or disbelief). وَلَعَذَابُ الاْخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ but truly, the punishment of the Hereafter is greater if they but knew. meaning, this is the punishment in this life, as you have heard, and the punishment of the Hereafter is even harder.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

یعنی اللہ کے حکم کی مخالفت اور اللہ کے دیے مال میں بخل کرنے والوں کو ہم دنیا میں اسی طرح عذاب دیتے ہیں۔ 33۔ 1 لیکن افسوس وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے، اس لئے پروا نہیں کرتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] یعنی یہ عذاب تو باغ والوں کو اس دنیا میں ملا۔ اور جو آخرت میں اس طرح کے بخل سے عذاب ہوگا وہ اس سے بہت بڑا ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

کٰذَلِکَ الْعَذَابُ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ۔۔۔: اہل مکہ کو یاد دلایا جارہا ہے کہ نعمت کی ناشکری پر عذاب اس طرح ہوتا ہے جس طرح باغ والوں پر آیا اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں بڑا ہے، کیونکہ دنیا کے عذاب کے بعد تو توبہ و استغفار کی گنجائش ہے، جیسا کہ اس باغ والوں نے توبہ کرلی اور توبہ کے بعد عذاب سے ہونے والے نقصان کی تلافی کی بھی امید ہے، جیسا کہ باغ ملنے کی امید رکھی، مگر آخرت کے عذاب کے بعد ان میں سے کسی چیز کی گنجائش نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

كَذَٰلِكَ الْعَذَابُ (In this way the punishment comes. And, of course, the punishment of the Hereafter is even greater, if they but realize!....68:33). After a brief reference to the famine faced by the Makkans and a detailed account of the People of the Garden whose garden was burnt as a punishment, the present verse sets down a general rule. When a Divine punishment visits, it visits in this way, and this kind of punishment in the mortal world does not serve as an expiation for the punishment in the Hereafter. The punishment of the Hereafter is greater and more severe. The following verses give a description of the reward of the righteous, followed by refutation of another false claim of the pagans of Makkah. They denied that Resurrection will ever occur. They thought the story of Resurrection and accountability is fiction. Even if that does happen, they thought, they will get the same type of blessings and wealth as they have in this world. Several verses respond to their false belief. In verse [ 35] Allah poses the rhetorical question to the disbelievers: &Shall We make the obedient like the sinners? [ 35] This is a strange sort of assertion for which they have no authority, nor proof nor any celestial book. Nor is there any promise from Allah that they will get the same type of blessings. A Rational Proof of Resurrection These verses give a solid proof to the necessity of the Day of Judgment, because accountability, rewarding the righteous and punishing the evil are all rationally necessary. It is witnessed by every person in this mortal world, and no one can deny, that the wicked, the evil, the unjust, the thieves and the bandits generally lead a comfortable and enjoyable life in the mortal world. A thief or a bandit sometimes in one night gains so much of wealth that a righteous person might not gain as much in his entire life. The former has no fear of Allah or the Hereafter, nor does he have any sense of shame. He fulfills his selfish desires as he likes - by hook or by crook. The latter fears Allah, and if he does not have that, his sense of shame among his brotherhood overwhelms him. In short, in the mortal world the wicked and the evil ones seem to be successful, and the good people seem to be unsuccessful. If there does not arise an occasion where fair play and justice is established - where the good people would be rewarded and the evil ones would be punished? It would be meaningless to refer to evil as evil. There would be no reason to stop a person from fulfilling his selfish desires and doing the evil acts. On the other hand, justice will have no meaning or significance. How will the believers in God&s existence respond to the following question: Where is God&s justice? One may argue that a criminal is apprehended, he is exposed to disgrace and is punished. This distinguishes the innocent persons from the evil ones right here in this world. Laws and statutes of a government’ s establish standards of justice and fair play. But this is incorrect, because it is not possible for a government to keep an eye on every one, everywhere and in all circumstances. Wherever it does happen, it is not an easy task to gather the necessary judicial evidence, so that the guilty person may be convicted and punished. And even if the judicial evidence could be gathered, there are several escape doors through which the guilty person could get away, such as force, bribery, intercession and pressure. If we review the punishment history of the present-day governments and courts, it would appear that nowadays only those people are punished who are fools, brainless and helpless or without support. They are not cunning enough to find a loophole in the legal system, or an escape route, nor do they have enough money to pay for bribery, nor do they have an influential person to back them or intercede on their behalf or they cannot use these things because of their foolishness. The rest of the criminals are moving freely.

كَذٰلِكَ الْعَذَابُ ۔ اہل مکہ کے عذاب قحط کا اجمالی اور باغ والوں کے کھیت جل جانے کا تفصیلی ذکر فرمانے کے بعد عام ضابطہ ارشاد فرمایا کہ جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو اسی طرح آیا کرتا ہے اور دنیا میں عذاب آجانے سے بھی ان کے آخرت کے عذاب کا کفارہ نہیں ہوتا بلکہ آخرت کا عذاب اس کے علاوہ اور اس سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔ اگلی آیات میں اول نیک متقی بندوں کی جزاء کا ذکر ہے اور اس کے بعد مشرکین مکہ کے ایک اور باطل دعوے کا رد ہے۔ وہ یہ کہ کفار مکہ کرتے تھے کہ اول تو قیامت آنے والی نہیں اور دوبارہ زندہ ہو کر حساب کتاب کا قصہ سب افسانہ ہے اور اگر بالفرض ایسا ہو بھی گیا تو ہمیں وہاں بھی ایسی ہی نعمتیں اور مال و دولت ملے گا جیسا دنیا میں ملا ہوا ہے، اس کا جواب کئی آیتوں میں میں دیا گیا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نیک بندوں اور مجرمین کو برابر کردیں گے یہ کیسا عجیب و غریب فیصلہ ہے جس پر نہ کوئی سند نہ دلیل نہ کسی آسمانی کتاب سے اس کا ثبوت نہ اللہ کی طرف سے کوئی وعدہ وعید کہ وہاں بھی تمہیں نعمت دے گا۔ قیامت کی ایک عقلی دلیل :۔ ان آیات مذکورہ سے ثابت ہوا کہ قیامت آنا اور حساب کتاب ہونا اور نیک و بد کی جزا و سزاء یہ سب عقلاً ضروری ہے کیونکہ اس کا تو دنیا میں ہر شخص مشاہدہ کرتا ہے اور کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا میں جو عموماً فساق فجار بدکار ظالم چورا اور ڈاکو ہیں نفع میں رہتے اور مزے اڑاتے ہیں، ایک چور اور ڈاکو ایک رات میں بعض اوقات اتنا کمال یتا ہے کہ شریف نیک آدمی عمر بھر میں بھی نہ کما سکے۔ پھر وہ نہ خوف خدا و آخرت کو جانتا ہے نہ کسی شرم و حیا کا پابند ہے اپنے نفس کی خواہشات کو جس طرح چاہے پورا کرتا ہے اور نیک شریف آدمی اول تو خدا سے ڈرتا ہے وہ بھی نہ ہو تو برادری کی شرم و حیا سے مغلوب ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے کارخانے میں تو بدکار بدمعاش کامیاب اور نیک شریف آدمی ناکام نظر آتا ہے اب اگر آگے بھی کوئی ایسا وقت نہ آئے جس میں حق و ناحق کا صحیح انصاف ہو نیک کو اچھا بدلہ ملے بد کو سزا ملے تو پھر اول تو کسی برائی کو برائی اور گناہ کو گناہ کہنا لغو و بےمعنے ہوجاتا ہے کہ وہ ایک انسان کو بلاوجہ اس کی خواہشات سے روکنا ہے دوسرے پھر عدل و انصاف کے کوئی معنے باقی نہیں رہتے جو لوگ خدا کے وجود کے قائل ہیں وہ اس کا کیا جواب دیں گے کہ خدا تعالیٰ کا انصاف کہاں گیا۔ رہا یہ شبہ کو دنیا میں بسا اوقات مجرم پکڑا جاتا ہے اس کی رسوائی ہوتی ہے سزا پاتا ہے شریف آدمی کا امتیاز اس سے یہیں واضح ہوجاتا ہے اور عدل و انصاف حکومتوں کے قوانین سے قائم ہوجاتا ہے۔ یہ اسلئے غلط ہے کہ اول تو ہر جگہ اور ہر حال میں حکومت کی نگرانی ہو ہی نہیں سکتی، جہاں ہوجاوے وہاں عدالتی ثبوت ہر جگہ بہم پہنچنا آسان نہیں جس کے ذریعہ مجرم سزا پا سکے اور جہاں ثبوت بھی بہم پہنچ جائے تو زور و زر اور رشوت ہر جگہ بہم پہنچنا آسان نہیں جس کے ذریعہ مجرم سزا پا سکے اور جہاں ثبوت بھی بہم پہنچ جائے تو زور و زر اور رشوت و سفارش اور دباؤ کے کتنے چور دروازے ہیں جن سے مجرم نکل بھاگتا ہے اور اس زمانے کی حکومتی اور عدالتی جرم و سزا کا جائزہل یا جائے تو اس وقت تو سزا صرف وہ بیوقوف بےعقل یا بےسہارا آدمی پاتا ہے جو ہوشیاری سے کوئی چور دروازہ نہ نکال سکے اور جس کے پاس نہ رشوت کے لئے پیسے ہوں نہ کوئی بڑا آدمی اس کا مددگار ہو یا پھر وہ اپنی بےوقوفی سے ان چیزوں کو استعمال نہ کرسکے۔ باقی سب مجرم آزاد پھرتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَذٰلِكَ الْعَذَابُ۝ ٠ ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَكْبَرُ۝ ٠ ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۝ ٣٣ ۧ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث . - وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع . وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔ تَّكْبِيرُ ، اکبر، کبار والتَّكْبِيرُ يقال لذلک، ولتعظیم اللہ تعالیٰ بقولهم : اللہ أَكْبَرُ ، ولعبادته واستشعار تعظیمه، وعلی ذلك : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة/ 185] ، وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء/ 111] ، وقوله : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر/ 57] فهي إشارة إلى ما خصّهما اللہ تعالیٰ به من عجائب صنعه، وحکمته التي لا يعلمها إلّا قلیل ممّن وصفهم بقوله : وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران/ 191] فأمّا عظم جثّتهما فأكثرهم يعلمونه . وقوله : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] فتنبيه أنّ كلّ ما ينال الکافر من العذاب قبل ذلک في الدّنيا وفي البرزخ صغیر في جنب عذاب ذلک الیوم . والْكُبَارُ أبلغ من الْكَبِيرُ ، والْكُبَّارُ أبلغ من ذلك . قال تعالی: وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح/ 22] . التکبیر ( تفعیل ) اس کے ) ایک معنی تو کسی کو بڑا سمجھنے کے ہیں ۔ اور دوم اللہ اکبر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو ظاہر کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی عظمت کا احساس ر کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة/ 185] اور اس احسان کے بدلے کو خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو ۔۔ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء/ 111] اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو ۔ اور آیت : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر/ 57] آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کر نا لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے ۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ میں اکبر کا لفظ سے قدرت الہی کی کاریگری اور حکمت کے ان عجائب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ جو آسمان اور زمین کی خلق میں پائے جاتے ہیں ۔ اور جن کو کہ وہ خاص لوگ ہی جان سکتے ہیں ۔ جن کی وصف میں فرمایا ۔ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران/ 191] اور آسمان اور زمین پیدا ئش میں غور کرتے ہیں ۔ ور نہ ان کی ظاہری عظمت کو تو عوام الناس بھی سمجھتے ہیں ( اس لئے یہ معنی یہاں مراد نہیں ہیں ) اور آیت : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ روز قیامت سے پہلے دنیا یا علم برزخ میں کافر کو جس قد ر بھی عذاب ہوتا ہے عذاب آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ۔ الکبار ۔ اس میں کبیر کے لفظ سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اور کبار ( بتشدید یاء ) اس سے بھی زیادہ بلیغ ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح/ 22] اور وہ بڑی بڑی چالیں چلے ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣{ کَذٰلِکَ الْعَذَابُط وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ٧} ” اسی طرح آتا ہے عذاب ! اور آخرت کا عذاب تو یقینا بہت ہی بڑا ہے ۔ “ اس واقعے میں تو دنیا کے عذاب کا ذکر ہے۔ لیکن یاد رکھو دنیا کے عذاب تو نسبتاً چھوٹے اور وقتی ہوتے ہیں اور توبہ کرنے پر ٹل بھی جاتے ہیں۔ مثلاً ایک سال اگر پکی پکائی فصل برباد ہوگئی تو اللہ کی طرف رجوع کرنے سے ہوسکتا ہے اگلے سال اس کی تلافی ہوجائے ‘ لیکن آخرت کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ آخرت کا عذاب بہت بڑا ہوگا اور اس وقت پلٹنے کا راستہ اور توبہ کا دروازہ بھی بند ہوچکا ہوگا۔ { لَــوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۔ } ” کاش کہ یہ لوگ (اس حقیقت کو) جانتے ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:33) کذلک العذاب : العذاب : مبتدا مؤخر۔ کذلک اس کی خبر مقدم : ک تشبیہ کا ذلک : وہ (عذاب ) جس کا اوپر ذکر ہوا۔ جو باغ والوں کو ان کی سرکشی کے بدلے میں ملا۔ مطلب یہ ہے کہ جو باغی ہوتا ہے اس کو ہم ایسا عذاب دیتے ہیں (اور آخرت کا عذاب اس دنیاوی عذاب سے بہت سخت ہے) ۔ لو کانوا یعلمون : لو حرف تمنائی ہے کاش وہ اسے جانتے ۔ لو شرطیہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور لوکانوا یعلمون جملہ شرطیہ۔ اس صورت میں گزشتہ کلام کا مفہوم ہی جزاء پر دلالت کرتا ہے جدید جزاء کی ضرورت نہیں ۔ ای ما فعلوا ذلک اگر وہ جانتے تو ایسا کام کیوں کرتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ” جیسے وہ مکہ والوں پر یا ان باغ والوں پر اترا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی اے اہل مکہ تم بھی ایسے ہی عذاب کے مستحق ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ کے کیونکہ عذاب مذکور تو محض معصیت پر تھا، تم تو کفر کرتے ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کذلک .................... یعلمون (٨٦ : ٣٣) ” ایسا ہوتا ہے عذاب۔ اور آخرت کا عذاب اس سے بڑا ہے ، کاش یہ لوگ اس کو جانتے “۔ یوں ہوتی ہے نعمتوں میں بھی آزمائش۔ اس لئے اہل مکہ کو معلوم ہونا چاہئے۔ انا بلونھم ................ الجنة (٨٦ : ٧١) ” ہم نے ان کو اسی طرح آزمائش میں ڈال دیا ہے جس طرح باغ والوں کو آزمایا تھا “۔ لہٰذا ان کو دیکھنا چاہئے کہ ان کی بھلائی کس میں ہے۔ اور یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ دنیا کی آزمائش اور عذاب تو مختصر ہوتا ہے۔ اس کی تلافی ہوجاتی ہے۔ ولعذاب ................ یعلمون (٨٦ : ٣٣) ” لیکن آخرت کا عذاب اس سے بہت بڑا ہے ، کاش یہ لوگ جانتے “۔ یوں قریشی کے سامنے خود ان کے بدوی معاشرے کا ایک مشہور واقعہ رکھا جاتا ہے۔ چناچہ بتایا جاتا ہے کہ یہ پرانا واقعہ پھر دہرایا جاسکتا ہے۔ ان کو چاہئے کہ اپنی دولت کو دین اسلام پر ظلم کے لئے استعمال نہ کریں۔ ورنہ اللہ اس کو ضائع کرسکتا ہے۔ اور اہل ایمان کو یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ کبراء قریش کو جو مال و دولت اور جاہ و مرتبہ دیا گیا ہے اور وہ اسے غلط استعمال کررہے ہیں ، یہ سخت آزمائش میں ہیں۔ بہت جلد نتائج سامنے آجائیں گے۔ اور اگر یہ باز آجائیں تو ان کے لئے بہتر ہے ، کاش کہ وہ ہوش کے ناخن لیتے۔ والعذاب .................... یعلمون (٨٦ : ٣٣) ” لیکن آخرت کا عذاب اس سے بہت بڑا ہے ، کاش یہ لوگ جانتے “۔ رہے وہ لوگ جو ڈرنے والے ہیں اور چوکنے ہیں تو ان کے لئے درجات ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا ﴿ كَذٰلِكَ الْعَذَابُ ١ؕ﴾ (اسی طرح عذاب ہے) جو شخص ہماری حدود سے آگے بڑھتا ہے اور حکم کی مخالفت کرتا ہے ہم اسے اسی طرح عذاب دیتے ہیں۔ ﴿ وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ ١ۘ﴾ اور البتہ آخرت کا عذاب بہت بڑا ہے۔ ﴿ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ (رح) ٠٠٣٣﴾ تاکہ یہ لوگ جانتے ہوتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” کذلک العذاب “ یہ اہل مکہ کو تنبیہ ہے یعنی دنیا کا عذاب ایسا ہے جس میں تم کو مبتلا کیا گیا ہے اور آخرت کا عذاب ایسا ہے جس میں تم کو مبتلا کیا گیا ہے اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ سخت اور ہولناک ہے۔ اگر وہ اس کو حقیقت کو جان لیں تو کفر و شرک اور تکذیب و انکار سے باز آجائیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) یوں عذاب آیا کرتا ہے اور آخرت کا عذاب یقینا دنیا کے عذاب سے کہیں بڑھ کر ہے کاش یہ کافر سمجھتے ہوتے اور کاش یہ لوگ جانتے ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا کا عذاب تھا اس کو کوئی نہیں ٹال سکا اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں بڑا ہے اور وہاں کی آفت تو سب سے بڑی ہے کاش یہ لوگ اتنی بات کو جان لیتے۔ کفار مکہ کی حالت بھی یہی ہے کہ یہ اپنی آسودگی اور دولت کے غرور میں اندھے ہورہے ہیں اور نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت پر آمادہ ہیں ان کو نہ قحط کی خبر ہے نہ جنگ بدر کی ، یہ سب عذاب ان پر آنے والے ہیں اور جب آخری عذاب ان کی تباہی کا آئے گا اور مکہ فتح ہوجائے گا تب باغ والوں کی طرح آنکھیں کھلیں گی اس وقت توبہ کریں گے اور اسلام میں داخل ہوں گے ابھی ان کو ان باغ والوں کی طرح ہم آزما رہے ہیں جب سرکشی حد سے تجاوز ہوجائے گی اور عذاب آجائے گا اس وقت ان کا سب غرور ڈھل جائے گا اور ان کے سب کس بل نکل جائیں گے۔ آگے اللہ تعالیٰ پرہیزگار اور اہل تقویٰ کا ذکر فرماتا ہے اور کفار مکہ کے بعض بےدلیل اعتراضات کا جواب دیتا ہے۔ آخر میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر فرما کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تاکید فرماتا ہے بیچ میں حشر کی بعض باتوں کا ذکر ہے اور اس امر کا اظہار ہے کہ میں ظالموں کو مہلت دیتا رہتا ہوں لیکن جب گرفت کرتا ہوں تو میری گرفت سخت ہوتی ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔