Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 47

سورة القلم

اَمۡ عِنۡدَہُمُ الۡغَیۡبُ فَہُمۡ یَکۡتُبُوۡنَ ﴿۴۷﴾

Or have they [knowledge of] the unseen, so they write [it] down?

یا کیا ان کے پاس علم غیب ہے جسے وہ لکھتے ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Or is it that you ask them for a wage, so that they are heavily burdened with debt Or that the Unseen is in their hands, so that they can write it down? the explanation of these two Ayat preceded in Surah At-Tur. The meaning of it is, `you, O Muhammad, call them to Allah without taking any wages from them. rather, you hope for the reward with Allah. Yet, they reject that which you have brought to them simply due to ignorance, disbelief and obstinacy.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 یعنی کیا غیب کا علم ان کے پاس ہے لوح محفوظ ان کے تصرف میں ہے کہ اس میں سے جو بات چاہتے ہیں نقل کرلیتے ہیں اس لیے یہ تیری اطاعت اختیار کرنے اور تجھ پر ایمان لانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] یعنی انہوں نے غیب کے پردہ کو ہٹا کر دیکھ لیا ہے کہ یہ اللہ کا بھیجا ہوا رسول نہیں ہے۔ یا ان کی طرف اللہ کے ہاں سے وحی آتی ہے کہ جو کچھ ان کا دین ہے وہی درست اور برحق ہے۔ آخر ان کی اس شدید مخالفت کی کوئی تو معقول وجہ ہونی چاہئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ام عندھم الغیب …: یا یہ عذر ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس غیب کا علم ہے اور وہ خود کتاب الٰہی لکھ سکتے ہیں تو انہیں آپ پر ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے ؟ یا انہوں نے غیب سے معلوم کر کے لکھ دیا ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول نہیں ہیں، یا انہوں نے اپنے متعلق غیب سے معلوم کر کے لکھ رکھا ہے کہ انہیں آخرت میں بھی دنیا جیسی نعمتیں ملتی رہیں گی، ظاہر ہے کہ ایسا بھی ہرگز نہیں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ عِنْدَہُمُ الْغَيْبُ فَہُمْ يَكْتُبُوْنَ۝ ٤٧ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پوشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے كتب ( لکھنا) الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] . ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧{ اَمْ عِنْدَہُمُ الْغَیْبُ فَہُمْ یَکْتُبُوْنَ ۔ } ” یا ان کے پاس غیب کا علم ہے جسے یہ لکھ رہے ہیں ؟ “ یہ دونوں آیات (٤٦ ‘ ٤٧) جوں کی توں سورة الطور میں (آیات ٤٠ اور ٤١ کے طور پر) بھی آچکی ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 This second question also appears to be directed to the Holy Prophet, but, in fact, its audience are his opponents. It means: "Have you, O people, peered behind the unseen and found that the Messenger, in fact, is not a Messenger sent by God, and the truths that he is presenting before you are also false; that is why you are being so stubborn in belying what he says?" (For explanation, see E.N. 32 of At-Tur) .

سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :30 یہ دوسرا سوال بھی بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر دراصل آپ کے مخالفین اس کے مخاطب ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ کیا تم لوگوں نے پردہ غیب کے پیچھے جھانک کر دیکھ لیا ہے کہ یہ رسول فی الواقع خدا کا بھیجا ہوا رسول نہیں ہے اور جو حقیقتیں یہ تم سے بیان کر رہا ہے وہ بھی غلط ہیں ، اس لیے تم اس کو جھٹلانے میں اتنی شدت برت رہے ہو؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سورۃ طور ، حاشیہ 32 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:47) ام عندھم الغیب : ام حرف عطف۔ یا۔ کیا۔ (استفہام کے لئے آتا ہے) الغیب سے یہاں مراد لوح محفوظ امور غیبیہ ہیں۔ مطلب یہ کہ :۔ کیا ان کے پاس لوح محفوظ یا امور غیبیہ کا علم ہے۔ فھم : ف عاطفہ ہے۔ یکتبون مضارع جمع مذکر غائب کتابۃ (باب نصر) مصدر وہ لکھتے ہیں۔ یکتبون ای ینقلون منہ ویحکمون، اور وہ اس سے نقل کرتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں۔ جملہ استفہامیہ انکاریہ ہے یعنی ان کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اس لئے یہ آپ کے اتباع کی ضرورت نہیں سمجھتے ؟ ظاہر ہے کہ ایسا بھی ہرگز نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ام عندھم .................... یکتبون (٨٦ : ٧٤) ” یا ان کے پاس غیب کا علم ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں ؟ “ ان کو یقین ہے کہ وہ سچی راہ پر ہیں۔ اور وہ ڈرتے نہیں۔ ان کو یہ غیبی تائید حاصل ہے اور یہ علم انہوں نے لکھ رکھا ہے اور ان کو یقین ہے یا انہوں نے خودا سے لکھ لیا ہے اور ان کو یقین ہے کہ یہ درست ہے۔ کچھ بھی ان کے پاس نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان کو کوئی یقین حاصل ہے اور نہ ہی آپ کوئی فیس طلب کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا ﴿ اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُوْنَ ٠٠٤٧﴾ کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے جسے وہ لکھ لیا کرتے ہیں۔ یہ بھی استفہام انکاری کے طور پر ہے مطلب یہ ہے کہ ان کو کسی طریقے سے خود احکام خداوندی معلوم ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ صاحب وحی یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع سے بےنیاز ہیں ؟ خلاصہ یہ ہے کہ ان کے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے احکام خود ہی معلوم کرلیا کریں حالانکہ اپنے خالق کے احکام جاننا ضروری ہے جب اور کوئی ذریعہ اللہ کے احکام معلوم کرنے کا نہیں ہے اور آپ کی نبوت کا انکار کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے تو اس کا انکار کرنا ان کی ناسمجھی، بیوقوفی اور حماقت ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(47) یا ان کے پاس مغیبات الٰہیہ کا علم ہے جسے لکھ لیتے ہیں۔ یعنی لوح محفوظ یا مغیبات الٰہیہ کا ان کو علم ہے جس کو یہ محفوظ رکھنے کی غرض سے لکھ لیا کرتے ہیں اور ان کو اس علم سے معلم ہوجاتا ہے کہ مسلمان اور دین حق کے منکروں کے ساتھ مساوی سلوک ہوگا جس سے یہ آپ سے مستغنی ہوگئے اور صاحب وحی کی اتباع اور پیروی کو ضروری نہیں سمجھتے۔ آگے آپ کو تسلی دی جاتی ہے اور صبر وسہار کی تلقی کی جاتی ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔