Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 48

سورة القلم

فَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ وَ لَا تَکُنۡ کَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ ۘ اِذۡ نَادٰی وَ ہُوَ مَکۡظُوۡمٌ ﴿ؕ۴۸﴾

Then be patient for the decision of your Lord, [O Muhammad], and be not like the companion of the fish when he called out while he was distressed.

بس تو اپنے رب کے حکم کا صبر سے ( انتظار کر ) اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جا جب کہ اس نے غم کی حالت میں دعا کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to be Patient and to refrain from being Hasty like Yunus was Allah says, فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ ... So wait with patience for the decision of your Lord, `O Muhammad, persevere against the harm your people cause you and their rejection. For verily, Allah will give you authority over them, and make the final victory for you and your followers in this life and the Hereafter.' ... وَلاَ تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ ... and be not like the Companion of the Fish, meaning, Dhun-Nun, who was Yunus bin Matta, when he went off angry with his people. Various things happened to him, such as riding on a ship at sea, being swallowed by a (large) fish, the fish carrying him off into the ocean, being in the darkness and depth of the sea and hearing the sea's and its dwellers glorification of the Most High, the Most Able (Allah). For He (Allah) is the One Whose execution of divine decree cannot be resisted. After all of this, he (Yunus) called out from the layers of darkness, أَن لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ أَنتَ سُبْحَـنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ الظَّـلِمِينَ "That none has the right to be worshipped but You (O Allah), Glorified (and Exalted) are You! Truly, I have been of the wrongdoers." (21:87) Then Allah said concerning him, فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَـهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذلِكَ نُنجِـى الْمُوْمِنِينَ So We answered his call, and delivered him from the distress. And thus We do deliver the believers. (21:88) Allah also says, فَلَوْلاَ أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ لَلَبِثَ فِى بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ Had he not been of them who glorify Allah, he would have indeed remained inside its belly (the fish) till the Day when they are resurrected. (37:143,144) So here (in this Surah), Allah says, ... إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظُومٌ when he cried out (to Us) while he was Makzum. Ibn Abbas, Mujahid and As-Suddi, all said, "while he was distressed." لَوْلاَ أَن تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِّن رَّبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاء وَهُوَ مَذْمُومٌ

مصائب سے نجات دلانے والی دعا, نظر ، فال اور شگون اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی ایذاء پر اور ان کے جھٹلانے پر صبر و ضبط کرو عنقریب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہونے والا ہے ، انجام کار آپ کا اور آپ کے ماتحتوں کا ہی غلبہ ہو گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیکھو تم مچھلی والے نبی کی طرح نہ ہونا اس سے مراد حضرت یونس بن متی علیہ السلام ہیں جبکہ وہ اپنی قوم پر غضب ناک ہو کر نکل کھڑے ہوئے پھر جو ہوا سو ہوا ، یعنی آپ کا جہاز میں سوار ہونا مچھلی کا آپ کو نگل جانا اور سمندر کی تہہ میں بیٹھ جانا اور ان تہ بہ تہ اندھیروں میں اس قدر نیچے آپ کا سمندر کو اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرتے ہوئے سننا اور خود آپ کا بھی پکارنا اور آیت ( لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 87؀ښ ) 21- الأنبياء:87 ) پڑھنا پھر آپ کی دعا کا قبول ہونا اس غم سے نجات پانا وغیرہ جس واقعہ کا مفصل بیان پہلے گزر چکا ہے ۔ جس کے بیان کے بعد اللہ سبحان و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم اسی طرح ایمانداروں کو نجات دیا کرتے ہیں اور فرماتا ہے کہ اگر وہ تسبیح نہ کرتے تو قیامت تک اسی کے پیٹ میں پڑے رہتے ، یہاں بھی فرمان ہے کہ جب اس نے غم اور دکھ کی حالت میں ہمیں پکارا ، پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یونس علیہ السلام کی زبان سے نکلتے ہی یہ کلمہ عرش پر پہنچا ، فرشتوں نے کہا یا رب اس کمزور غیر معروف شخص کی آواز تو ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے پہلے کی سنی ہوئی ہو ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کیا تم نے اسے پہچانا نہیں؟ فرشتوں نے عرض کیا نہیں ، جناب باری نے فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے فرشتوں نے کہا پروردگار پھر تو تیرا یہ بندہ وہ ہے جس کے اعمال صالحہ روز آسمانوں پر چڑھتے رہے جس کی دعائیں ہر وقت قبولیت کا درجہ پاتی رہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا سچ ہے ، فرشتوں نے کہا پھر اے ارحم الراحمین ان کی آسانیوں کے وقت کے نیک اعمال کی بنا پر انہیں اس سختی سے نجات عطا فرما ، چنانچہ فرمان باری ہوا کہ اے مچھلی تو انہیں اگل دے اور مچھلی نے انہیں کنارے پر آ کر اگل دیا ، یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ اللہ نے اسے پھر برگزیدہ بنا لیا اور نیک کاروں میں کر دیا ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو حضرت یونس بن متی سے افضل بتائے ۔ بخاری و مسلم میں بھی یہ حدیث ہے ، اگلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ تیرے بغض و حسد کی وجہ سے یہ کفار تو اپنی آنکھوں سے گھور گھور کر تجھے پھسلا دینا چاہتے ہیں اگر اللہ کی طرف سے حمایت اور بچاؤ نہ ہوتا تو یقیناً یہ ایسا کر گذرتے ، اس آیت میں دلیل ہے اس امر پر کہ نظر کا لگنا اور اس کی تاثیر کا اللہ کے حکم سے ہونا حق ہے جیسا کہ بہت سی احادیث میں بھی ہے جو کئی کئی سندوں سے مروی ہے ، ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دم جھاڑا صرف نظر کا اور زہریلے جانوروں کا اور نہ تھمنے والے خون کا ہے ، بعض سندوں میں نظر کا لفظ نہیں یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے اور صحیح مسلم شریف میں بھی ایک قصہ کے ساتھ موقوفاً مروی ہے ، بخاری شریف اور ترمذی میں بھی ہے ، ایک غریب حدیث ابو یعلی میں ہے کہ نظر میں کچھ بھی حق نہیں سب سے سچا شگون فال ہے ، یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے غریب کہتے ہیں اور روایت میں ہے کہ کوئی ڈر ، خوف ، الو اور نظر نہیں اور نیک فالی سب سے زیادہ سچا فال ہے اور روایات میں ہے کہ نظر حق ہے ، نظر حق ہے ، وہ بلندی والے کو بھی اتار دیتی ہے ( مسند احمد ) صحیح مسلم میں ہے نظر حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر کر جاتی جب تم سے غسل کرایا جائے تو غسل کر لیا کرو ، عبدالرزاق میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن اور حضرت حسین ان الفاظ کے ساتھ پناہ میں دیتے دعا ( اعیذ کما بکلمات اللہ التامتہ من کل شیطان وھامتہ ومن کل عین لامتہ ) یعنی تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے بھرپور کلمات کی پناہ میں سونپتا ہوں ہر شیطان سے اور ہر ایک زہریلے جانور سے اور ہر ایک لگ جانے والی نظر سے اور فرماتے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو انہی الفاظ سے اللہ کی پناہ دیا کرتے تھے ، یہ حدیث سنن میں اور بخاری شریف میں بھی ہے ، ابن ماجہ میں ہے کہ سہل بن حنیف غسل کر رہے تھے عامر بن ربیعہ کہنے لگے میں نے تو آج تک ایسا بدن کسی پردہ نشین کا بھی نہیں دیکھا بس ذرا سی دیر میں وہ بیہوش ہو کر گر پڑے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خبر لیجئے یہ تو بیہوش ہوگئے آپ نے فرمایا کسی پر تمہارا شک بھی ہے لوگوں نے کا کہاں عامر بن ربیعہ پر ، آپ نے فرمایا تم میں سے کیوں کوئی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی کسی ایسی چیز کو دیکھے کہ اسے بہت اچھی لگے تو اسے چاہئے کہ اس کے لئے برکت کی دعا کرے پھر پانی منگوا کر عامر سے فرمایا تم وضو کرو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ اور گھٹنے اور تہمبد کے اندر کا حصہ جسم دھو ڈالو ۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا برتن کو اس کی پیٹھ کے پیچھے سے اوندھا دو ، نسائی وغیرہ میں بھی یہ روایت موجود ہے ، حضرت ابو سعید فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنات کی اور انسانوں کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے ، جب سورہ معوذتیں نازل ہوئیں تو آپ نے انہیں لے لیا اور سب کو چھوڑ دیا ( ابن ماجہ ترمذی نسائی ) مسند وغیرہ میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اے نبی صاحب صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ بیمار ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں تو جبرائیل صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا دعا ( بسم اللہ ارقیک من کل شئی یوذیک من شر کل نفس وعین واللہ یشفیک بسم اللہ ارقیک ) بعض روایات میں کچھ الفاظ کا ہیر پھیر بھی ہے ، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ یقیناً نظر کا لگ جانا برحق ہے ، مسند کی ایک حدیث میں اس کے بعد یوں بھی ہے کہ اس کا سبب شیطان ہے اور ابن آدم کا حسد ہے ، مسند کی اور روایت میں ہے حضرت ابو ہریرہ سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ شگون تین چیزوں میں ہے گھر گھوڑ اور عورت تو حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا پھر تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کہوں گا جو آپ نے نہیں فرمایا ہاں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا سب سے سچا شگون نیک فالی ہے اور نظر کا لگنا حق ہے ، ترمذی وغیرہ میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جعفر کے بچوں کو نظر لگ جایا کرتی ہے تو کیا میں کچھ دم کرا لیا کروں آپ نے فرمایا ہاں اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کر جانے والی ہوتی تو وہ نظر تھی ، حضرت عائشہ کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نظر بد سے دم کرنے کا حکم مروی ہے ( ابن ماجہ ) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نظر لگانے والے کو حکم کیا جاتا تھا کہ وہ وضو کرے اور جس کو نظر لگی ہے اسے اس پانی سے غسل کرایا جاتا تھا ( احمد ) اور حدیث میں ہے ، نہیں ہے الو اور نظر حق ہے اور سب سے سچا شگون فال ہے مسند احمد میں بھی حضرت سہل اور حضرت عامر والا قصہ جو اوپر بیان ہوا قدرے تفصیل کے ساتھ مروی ہے ، بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ یہ دونوں بزرگ غسل کے ارادے سے چلے اور حضرت عامر پانی میں غسل کے لئے اترے اور ان کا بدن دیکھ کر حضرت سہل کی نظر لگ گئی اور وہ وہیں پانی میں خرخراہٹ کرنے لگے میں نے تین مرتبہ آوازیں دیں لیکن جواب نہ ملا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ سنایا آپ خود تشریف لائے اور تھوڑے سے پانی میں کھچ کھچ کرتے ہوئے تہمبد اونچا اٹھائے ہوئے وہاں تک پہنچے اور ان کے سینے میں ہاتھ مارا اور دعا کی ( اللھم اصرف عنہ حشرھا و بردھا و وصبھا ) اے اللہ تو اس سے اس کی گرمی اور سردی اور تکلیف دور کر دے ۔ مسند بزار میں ہے کہ میری امت کی قضاء و قدر کے بعد اکثر موت نظر سے ہو گی ، فرماتے ہیں نظر حق ہے انسان کو قبر تک پہنچا دیتی ہے اور اونٹ کو ہنڈیا تک میری امت کی اکثر ہلاکی اسی میں ہے ، ایک اور صحیح سند سے بھی یہ روایت مروی ہے ، فرمان رسالت ہے کہ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور نہ الو کی وجہ سے بربادی کا یقین کر لینا کوئی واقعیت رکھتا ہے اور نہ حسد کوئی چیز ہے ، ہاں نظر سچ ہے ، ابن عساکر میں ہے کہ جبرائیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ اس وقت غمزدہ تھے جب پوچھا تو فرمایا حسن اور حسین کو نظر لگ گئی ہے ، فرمایا یہ سچائی کے قابل چیز ہے نظر واقعی لگتی ہے ، آپ نے یہ کلمات پڑھ کر انہیں پناہ میں کیوں نہ دیا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ فرمایا یوں کہو اللھم ذا السلطان العظیم ذا المن القدیم ذا الوجہ الکریم ولی الکلمات التامات والدعوت المستجابات عاف الحسن والحسین من انفس الجن واعین الانس یعنی اے اللہ اے بہت بڑی بادشاہی والے اے زبردست قدیم احسانوں والے ، اے بزرگ تر چہرے والے اے پورے کلموں والے اور اے دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دینے والے تو حسن اور حسین کو تمام جنات کی ہواؤں سے اور تمام انسان کی آنکھوں سے اپنی پناہ دے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی وہیں دونوں بچے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے سامنے کھیلنے کودنے لگے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا لوگو اپنی جانوں کو اپنی بیویوں کو اور اپنی اولاد کو اسی پناہ کے ساتھ پناہ دیا کرو ، اس جیسی اور کوئی پناہ کی دعا نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ جہاں یہ کافر اپنی حقارت بھری نظریں آپ پر ڈالتے ہیں وہاں اپنی طعنہ آمیز زبان بھی آپ پر کھولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو قرآن لانے میں مجنون ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے قرآن تو اللہ ان کی طرف سے تمام عالم کے لئے نصیحت نامہ ہے ۔ الحمد للہ سورہ نون کی تفسیم ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 جنہوں نے اپنی قوم کی روش تکذیب کو دیکھتے ہوئے عجلت سے کام لیا اور رب کے فیصلے کے بغیر ہی از خود اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ جس کے نتیجے میں انہیں مچھلی کے پیٹ میں، جب کہ وہ غم واندوہ سے بھرے ہوئے تھے اپنے رب کو مدد کے لئے پکارنا پڑا۔ جیسے کہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے،

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] یعنی جس طرح سیدنا یونس (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی مخالفت سے تنگ آکر بےصبری کا مظاہرہ کیا تھا۔ انہیں وحی الٰہی کا انتظار کیے بغیر خود ہی عذاب کی دھمکی دے دی تھی اور پھر وہاں سے چل دیئے تھے۔ آپ کو ایسا نہ کرنا چاہیے بلکہ قوم کی ایذاؤں، مذاق و تمسخر اور مخالفت کو صبر کے ساتھ برداشت کیجئے۔ اور اس وقت تک صبر کیجئے جب تک کہ آپ کو یہاں سے ہجرت کا حکم نہ مل جائے۔ [٢٥] سیدنا یونس کو کون کون سی پریشانیاں لاحق تھیں جن سے وہ گلے تک بھرے ہوئے تھے :۔ مَکْظُوْمٍ ۔ کظم سانس کی نالی کو کہتے ہیں اور کظم السقاء بمعنی مشک کو پانی سے لبالب بھر کر اس کا منہ بند کردینا۔ اور کظیم اور مکظوم اس شخص کو کہتے ہیں جو غم یا غصہ سے سانس کی نالی تک بھرا ہوا ہو مگر اس کا اظہار نہ کرے اور اسے دبا جائے۔ خ مچھلی کے پیٹ میں وظیفہ :۔ اس آیت میں سیدنا یونس (علیہ السلام) کی وہ کیفیت بیان کی گئی ہے جب وہ مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تھے۔ اس وقت آپ کئی قسم کے غموں کا مجموعہ بنے ہوئے تھے۔ مثلاً قوم کے ایمان نہ لانے کا غم۔ آپ کے بتاتے ہوئے وعدہ عذاب پر عذاب نہ آنے کا غم، اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کے بغیر قوم کو چھوڑ کر چلے آنے کا غم، پھر مچھلی کے پیٹ میں چلے جانے کا غم، ان تمام پریشانیوں اور غموں سے نجات کی واحد صورت آپ کو یہی نظر آئی کہ اللہ کی تسبیح و تہلیل کریں اور اپنے گناہوں کی اللہ سے معافی طلب کریں۔ چناچہ آپ جب تک مچھلی کے پیٹ میں رہے (لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 87؀ښ) 21 ۔ الأنبیاء :87) پڑھتے رہے۔ تاآنکہ اللہ نے آپ کو اس مصیبت سے نجات دے دی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فاصبر لحکم ربک …: مچھلی والے سے مراد یونس (علیہ السلام) ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین کی جا رہی ہے کہ آپ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار صبر سے کریں، عذاب آنے میں دیر سے پریشان نہ ہوں اور انہیں دی ہوئی مہلت کو لمبا سمجھ کر جلد بازی اور اکتاہٹ میں کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھیں جیسا مچھلی والے (یونس علیہ السلام) سے سر زد ہوا کہ وہ اجازت کے بغیر قوم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ یونس (علیہ السلام) کے واقعہ کے لئے دیکھیے سورة یونس (٩٨) ، انبیاء (٨٧، ٨٨) اور صافات (١٣٩ تا ١٤٨) ۔ یونس (علیہ السلام) کی ندا یہ تھی :(لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین) (الانبیائ : ٨٨)” تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں، تو پاک ہے، یقینا میں ظلم کرنے والوں میں سے تھا۔ “” وھو مکظوم “ (غم سے بھرے ہوئے ہونے ) کا مطلب یہ ہے کہ اس دن ان کے دل میں کئی غم اور صدمے اکٹھے ہوگئے تھے، ایک قوم کے ایمان نہ لانے کا غم، دوسرا صریح اجازت کے بغیر اپنے چلے آنے کا، تیسرا سمندر میں پھینک دیئے جانے کا اور چوتھا مچھلی کے پیٹ میں قید ہوجانے کا۔ ان سب غموں اور صدموں کا علاج انہوں نے بار گاہ الٰہی میں دعا تسبیح اور استغفار سے کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر غم سے نجات عطا فرما دی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ (So, remain patient with your Lord&s judgment, and be not like the Man of the Fish...68:48). It refers to Sayyidna Yunus (علیہ السلام) . He is named here as &Man of Fish& because he was devoured by a fish and remained in its belly for some time.

(آیت) وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ یہاں حضرت یونین (علیہ السلام) کو صاحب حوت اسی مناسبت سے کہا گیا کہ وہ کچھ عرصہ مچھلی کے پیٹ میں رہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ۝ ٠ ۘ اِذْ نَادٰى وَہُوَمَكْظُوْمٌ۝ ٤٨ ۭ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ حوت قال اللہ تعالی: نَسِيا حُوتَهُما[ الكهف/ 61] ، وقال تعالی: فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ [ الصافات/ 142] ، وهو السّمک العظیم، إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف/ 163] ، وقیل : حاوتني فلان، أي : راوغني مراوغة الحوت . ( ح وت ) الحوت بڑی مچھلی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ نَسِيا حُوتَهُما[ الكهف/ 61] تو اپنی مچھلی بھول گئے فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ [ الصافات/ 142] پھر مچھلی نے ان کو نگل لیا ۔ اس کی جمع حیتان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف/ 163] اس وقت کے ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں ۔ اور مچھلی چونکہ رخ بدلتی رہتی ہے اس لئے کہا جاتا ہے حاوتنی فلان اس نے مجھے مچھلی کی طرح ہو کا دیا ۔ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر : 435- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال : فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف . ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔ كظم الْكَظْمُ : مخرج النّفس، يقال : أخذ بِكَظَمِهِ ، والْكُظُومُ : احتباس النّفس، ويعبّر به عن السّكوت کقولهم : فلان لا يتنفّس : إذا وصف بالمبالغة في السّكوت، وكُظِمَ فلان : حبس نفسه . قال تعالی: إِذْ نادی وَهُوَ مَكْظُومٌ [ القلم/ 48] ، وكَظْمُ الغَيْظِ : حبسه، قال : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران/ 134] ( ک ظ م ) الکظم اصل میں مخروج النفس یعنی سانس کی نالي کو کہتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ احذ بکظمہ اس کی سانس کی نالي کو پکڑ لیا یعنی غم میں مبتلا کردیا ۔ الکظوم کے معنی سانس رکنے کے ہیں اور خاموش ہوجانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ انتہائی خا موشی کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے فلان لا یتنفس کہا جاتا ہے ۔ فلاں سانس نہین لیتا یعنی خا موش ہے ۔ کظم فلان اس کا سانس بند کردیا گیا ( مراد نہایت غمگین ہونا ) چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِذْ نادی وَهُوَ مَكْظُومٌ [ القلم/ 48] کہ انہوں نے خدا کو پکارا اور وہ غم) غصہ میں بھرے تھے ۔ اور کظلم الغیظ کے معنی غصہ روکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران/ 134] اور غصے کو در کتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تو آپ تبلیغ رسالت پر ثابت قدم رہیے، یا یہ کہ آپ اپنے رب کی اس تجویز پر صبر سے بیٹھے رہیے، یا یہ کہ آپ اور حکم اللہ پر تنگ دلی میں حضرت یونس کی طرح نہ ہوئے جبکہ یونس نے مچھلی کے پیٹ میں اپنے پروردگار سے دعا کی اور وہ غم سے گھٹ رہے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨{ فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ } ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ انتظار کیجیے اپنے رب کے حکم کا “ { وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ ٧ } ” اور دیکھئے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مچھلی والے کی طرح نہ ہوجایئے گا ! “ ” مچھلی والے “ سے یہاں حضرت یونس (علیہ السلام) مراد ہیں۔ آپ (علیہ السلام) کی قوم پر جب عذاب کا فیصلہ ہوگیا تو آپ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کیے بغیر ہی اپنی قوم کا علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اس کا ذکر سورة الانبیاء کی آیت ٨٧ میں اس طرح آیا ہے : { اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا } ” جب وہ چل دیا غصے میں بھرا ہوا “۔ آپ (علیہ السلام) کا یہ غصہ حمیت حق میں تھا اور قوم کی طرف سے مسلسل ہٹ دھرمی اور کفر کی وجہ سے تھا۔ لیکن اس میں خطا کا پہلو یہ تھا کہ آپ (علیہ السلام) نے ہجرت کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار نہ کیا۔ { اِذْ نَادٰی وَہُوَ مَکْظُوْمٌ ۔ } ” جب اس نے پکارا (اپنے رب کو) اور وہ اپنے غم کو اندر ہی اندرپی رہا تھا۔ “ حضرت یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ میں انتہائی رنجیدہ حالت میں اللہ سے فریاد کر رہے تھے : { لآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَق اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ } (الانبیاء) ” تیرے سوا کوئی معبود نہیں ‘ تو پاک ہے اور یقینا میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31 That is, "The time when Allah will issue His decree about your success and victory and your opponents' defeat, is yet far off. Till then you should go on enduring with patience whatever hardships and afflictions you may have to face in the way of preaching the Faith. " 32 That is, "Do not behave impatiently as did the Prophet Jonah (peace be on him) , who an account of his impatience was driven into the fish's belly." Immediately after exhorting the Holy Prophet (upon whom be peace) to have patience until Allah issued forth His decree, to tell him not to behave like the Prophet Jonah by itself gives the meaning that the latter had shown some kind of impatience before Allah gave His decision and thus had incurred His wrath. (For explanation, see Yunus; 98, and E.N, 99 on it; Al-Anbiya': 87-88 and E.N.'s 82 to 85; As-Saaffat: 139-148 and E.N.'s 78 to 85) . 33 In Surah Al-Anbiya' it has been explained thus: "From inside the fish's belly and the darkness of the sea, the Prophet Jonah invoked Allah, saying: La ilaha ills ants subhanaka inni kuntu min-az-zalimin: `There is no god but You; glory be to You: I had indeed committed a wrong.' Thereupon Allah heard his prayer and delivered him from this affliction." (vv. 87-88) .

سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :31 یعنی وہ وقت ابھی دور ہے جب اللہ تعالی تمہاری فتح و نصرت اور تمہارے ان مخالفین کی شکست کا فیصلہ فرما دے گا ۔ اس وقت کے آنے تک جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی اس دین کی تبلیغ میں پیش آئیں انہیں صبر کے ساتھ برداشت کرتے چلے جاؤ ۔ سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :32 یعنی یونس علیہ السلام کی طرح بے صبری سے کام نہ لو جو اپنی بے صبری کی وجہ سے مچھلی کے پیٹ میں پہنچا دیے گئے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا فیصلہ آنے تک صبر کی تلقین کرنے کے بعد فوراً ہی یہ فرمانا کہ یونس علیہ السلام کی طرح نہ ہو جاؤ ، خود بخود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے اللہ کا فیصلہ آنے سے پہلے بے صبری سے کوئی کام کیا تھا جس کی بنا پر وہ عتاب کے مستحق ہو گئے تھے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، یونس ، آیت 98 ، حاشیہ 99 ۔ جلد سوم ، الانبیا ، آیات 87 ۔ 88 حواشی 82 تا 85 ، جلد چہارم ، الصافات آیات 139 تا 149 حواشی 78 تا 85 ) ۔ سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :33 سورہ انبیاء میں اس کی تفصیل یہ بیان کی گئی ہے کہ مچھلی کے پیٹ اور سمندر کی تاریکیوں میں حضرت یونس علیہ السلام نے پکارا تھا لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین ، کوئی خدا نہیں تیری پاک ذات کے سوا ، میں واقعی خطا وار ہوں ۔ اس پر اللہ تعالی نے ان کی فریاد سن لی اور ان کو غم سے نجات دی ( آیات 87 ۔ 88 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: اس سے مراد حضرت یونس علیہ السلام ہیں جن کا واقعہ سورۃ یونس (۱۰:۹۸) اور سورۃ انبیاء (۲۱:۸۷) اور سورۃ صافات (۲۷:۱۴۰) میں گذر چکا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٨۔ ٥٢۔ اوپر ذکر تھا کہ قرآن کی آیتوں کو جو لوگ جھٹلاتے ہیں انہیں اللہ نے کچھ دنوں ڈھیل دے رکھی ہے ان آیتوں میں فرمایا اے رسول اللہ کے اس ڈھیل کی مدت میں تم کو صبر اور اللہ کے حکم کا انتظار ضرور ہے ایسا نہ ہو کہ بلا انتظار اللہ کے حکم کے یونس (علیہ السلام) کا سا تم کوئی جلدی کا کام کر بیٹھو۔ یونس (علیہ السلام) کا قصہ سورة یونس انبیاء اور الصافات میں گزر چکا ہے انہوں نے بلا انتظار اللہ کے حکم کے جلدی کا کام کیا وہ یہ تھا کہ جب ان کی قوم یونس پر عذاب کے آنے کا حال معلوم ہوگیا تو وہ بستی کو چھوڑ کر جنگل میں چلے گئے اور ادھر قوم یونس کے رونے گڑگڑانے اور راہ راست پر آجانے سے وہ عذاب ٹل گیا غرض وقت مقرہ گزر جانے پر عذاب کے نازل ہونے کی خبر جو یونس (علیہ السلام) کو کچھ نہ لگی تو بلا انتظار اللہ کے حکم کے یہ وہاں سے چل دیئے یہی انہوں نے گویا خود مختاری اور جلدی کی۔ اب آگے باقی کا قصہ ہے کہ یہ وہاں سے ایک دریا پر جا کر کشتی میں بیٹھے وہ کشتی وہیں تھم گئی۔ کشتی والوں نے قرعہ ڈالا کہ کس کے روکنے کے لئے یہ کشتی اڑی ہے قرعہ میں ان کا نام نکلا۔ انہوں نے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا۔ اور ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا اور انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں یہ دعامانگی لا الہ الا انت سبحنک ان کنت من الظلمین اور اللہ کے حکم سے اس مچھلی نے ایک چٹیل میدان میں ان کو اگل دیا اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک کدو کی بیل پیدا کی اور اس میں ان کو رکھا تاکہ مچھلی کے پیٹ کی گرمی سے ان کے جسم کی کھال اڑ کر جگہ جگہ جو زخم پر گئے تھے سخت زمین پر لیٹنے سے وہ زخم اور زیادہ نہ چھل جائیں۔ اسی کو فرمایا کہ اس چٹیل میدان میں اللہ ان کو نہ سنبھالتا تو وہاں زخموں کا جلدی اچھا ہونا ممکن نہ تھا اور پھر جب یہ تندرست ہوگئے تو اسی قوم کی ہدایت کے لئے ان کو بھیجا۔ بعض مفسروں نے فاجتباہ ربہ فجعلہ من الصالحین کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یونس (علیہ السلام) کا سارا قصہ ان کی نبوت سے پہلے کا تھا پھر قصہ کے بعد اس آیت کے مضمون کے موافق اللہ تعالیٰ نے ان کو پیغمبر کیا۔ لیکن امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ وہ پہلے ہی سے پیغمبر تھے۔ اجتبا کے یہ معنی ہیں کہ قصے کہ دنوں میں وحی جو منقطع ہوگئی تھی وہ پھر جاری ہوگئی یہ تفسیر والصافات کی آیت وان یونس لمن المرسلین اذا بق الی الفلک المشحون کے موافق ہے کیونکہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یونس (علیہ السلام) جب کشتی میں بیٹھ گئے تو اس وقت وہ پیغمبر تھے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کے لوگوں کو قرآن کی آیتیں سناتے اور بت پرستی کی مذمت کرتے تو یہ لوگ غصہ ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیوانہ کہتے اور آپ کی طرف قہر کی نگاہ سے دیکھتے کہ گویا نگاہ کے تیرکلیجہ کے پار کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام تمام کردیں یا بس چلے تو حملہ کر بیٹھیں اور قرآن کی آیتوں کا پڑھنا بند کردیں چناچہ سورة حج میں ہے یکادون یسطون باذین یتلون علیھم ایتنا بعض مفسروں نے یہ لکھا ہے کہ بعض قبیلے ایسے تھے کہ جن کی نظر بہت جلد لگ جاتی تھی اس لئے وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بری نگاہ سے دیکھتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نظر لگ جائے اگرچہ نظر کا حق ہونا صحیح حدیثوں سے ثابت ١ ؎ ہوتا ہے لیکن یہاں اس تفسیر کا موقع نہیں ہے کیونکہ کسی چیز کو ٹوکنے کے طور پر اچھا کہہ کر آدمی دیکھے تو نظر لگا کرتی ہے غصہ کی نگاہ سے نظر نہیں لگتی اس لئے آیت کی تفسیر جو آیت سے کی گئی ہے وہی اولے ہے پھر فرمایا کہ قرآن کی آیتوں میں تو وہ نصیحتیں ہیں کہ جن کے اثر سے ایک وہ نہیں بلکہ ایک عالم راہ راست پر آنے والا ہے ایسی نصیحت کے سنانے والے کو جو دیوانہ بتاتا ہے وہ خود دیوانہ ہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٠٩ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:48) فاصبر لحکم ربک۔ یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان مشرکین کی ایذاء رسانی پر صبر کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ابھی ڈھیل دے رکھی ہے۔ ان کے لئے اس تکلیف دہی کے بدلے جو سزا مقدر ہوچکی ہے اس کے لئے جلدی نہ کریں ڈھیل کے بعد ان کی ضرور گرفت ہوگی۔ اور ان کو اپنے کئے کی سزا پوری پوری ملے گی۔ آپ اس فیصلہ خداوندی پر صبر کریں اور انتظار کریں۔ ولاتکن کصاحب الحوت واؤ عاطفہ ہے لاتکن فعل نہی واحد مذکر حاضر کون (باب نصر) مصدر سے۔ تو مت ہو۔ آپ مت ہو ویں۔ ک تشبیہ صاحب الحوت مضاف مضاف الیہ۔ مچھلی والا۔ مراد حضرت یونس (علیہ السلام) ہیں۔ مطلب یہ کہ آپ حضرت یونس (علیہ السلام) کی طرح تنگ دلی اور عجلت پسندی کا اظہار مت کریں۔ علامہ پانی پتی (رح) اپنی تفسیر مظہری میں اس آیت کی تفسیر میں یوں رقمطراز ہیں ! ولاتکن کصاحب الحوت۔ تنگ دلی اور عجلت پسندی میں (حضرت) یونس کی طرح نہ ہوجاویں۔ حضرت ابن مسعود کے مطابق حضرت یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ میں چالیس رات رہے پھر پتھریوں کی تسبیح کی آواز سن کر اندھیروں کے اندر ہی پکار اٹھے :۔ لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین۔ (اگلی آیت میں اسی نداء کا بیان ہے) ۔ اذ نادی وھو مکظوم : الحوت أ پر م علامے وقف ہے یہ علامت وقف لازم کی ہے جہاں ضرور ٹھیرنا چاہیے۔ اس سے اگلا جملہ الگ جملہ ہے لہٰذا اذ کا تعلق لاتکن نہی سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اذکر فعل محذوف سے ہے ولا تکن کصاحب الحور پر بات ختم ہوگئی ہے ۔ کہ جس طرح حضرت یونس (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے عذاب میں عجلت پسندی کی تھی۔ آپ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) بھی ایسا خیال دل میں نہ لاویں۔ ان کفار اور مشرکین کی کرتوتوں پر عذاب ان کا مقدر بن چکا ہے جلد یا بدیر ان کو مل کر رہے گا۔ (آیات 44 45 متذکرۃ الصدر) اذ نادی ۔۔ ای اذکر اذ نادی (بلکہ) یاد کرو جب اس (حضرت یونس علیہ السلام) نے جب کہ وہ غم و اندوہ سے بھرا ہوا تھا (اپنے پروردگار کو) پکارا۔ اذ اسم ظرف ہے نادی ماضی واحد مذکر غائب نداء (مفاعلۃ) مصدر۔ اس نے پکارا ۔ یہاں پکارنے سے مراد حضرت یونس کا لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین پڑھ کر خداوند تعالیٰ سے دعا مانگنا ہے۔ ترجمہ :۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے اور بیشک میں قصور وار ہوں (ملاحظہ ہو 21:87) وھو مکظوم جملہ حالیہ ہے ضمیر نادی سے ھو کی ضمیر کا مرجع حضرت یونس (علیہ السلام) ہیں۔ مکظوم اسم مفعول واحد مذکر کظم (باب ضرب) مصدر سے۔ غم آگیں، غم کی وجہ سے دم گھٹا ہوا۔ کا ظم غم کو پی جانے والا۔ غصہ کو روک لینے والا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے وانکاظمین الغیظ (3:134) اور غصہ کو روکنے والے ہیں کظم کے اصل معنی ہیں سانس کا رک جانا۔ برتن کا بھر جانا۔ جب انسان رنج و غم سے بھر جائے تو اس کو بھی کا ظم کہتے ہیں۔ بھرنے کے معنی میں قرآن مجید میں آیا ہے :۔ وانذرھم یوم الازفۃ اذالقلوب لدی الحناجر کا ظمین (40:18) اور ان کو قریب آنے والے دن سے ڈراؤ جب کہ دل غم سے بھر کر گلوں تک آرہے ہوں گے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کن کن غمون سے اور صدموں میں گھٹ رہے تھے۔ مولانا عبد الماجد دریا آبادی (رح) اپنی تفسیر ماجدی میں یوں فرماتے ہیں :۔ (1) ایک رنج قوم کے ایمان نہ لائے کا۔ (2) وقت پر عذاب موعود کے ٹل جانے کا۔ (3) بلا اذن صریح اپنے مقام سے چل پڑنے کا۔ (4) شکم ماہی میں محبوس ہوجانے کا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی استقلال اور تن دہی سے دعوت و تبلیغ کے کام میں لگے رہئے عنقریب اللہ تعالیٰ خود حکم نازل فرمائے گا کہ ان کفار سے کیا معاملہ کرنا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یہ غم مجموعہ تھا کئی غموں کا ایک قوم کے ایمان نہ لانے کا، ایک عذاب کے ٹل جانے کا، ایک بلا اذن صریح حق تعالیٰ کے وہاں سے چلے آنے کا، ایک مچھلی کے پیٹ میں محبوس ہوجانے کا، اور وہ دعا یہ ہے : لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین، جس سے مقصود استغفار اور طلب نجات عن الحبس ہے، چناچہ اس پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا، اور مچھلی کے پیٹ سے نجات ہوئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاصبر ........................ من الصلحین مچھلی والے حضرت یونس (علیہ السلام) ہیں۔ ان کے واقعہ کی تفصیلات سورة صافات میں گزر گئی ہیں ۔ ان کے تجربہ کا خلاصہ یہ ہے جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بطور نمونہ پیش کیا جاتا ہے ، کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو اللہ نے ایک گاﺅں کی طرف بھیجا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ موصل کے قریب نینویٰ نامی گاﺅں تھا۔ ان لوگوں نے ایمان لانے میں دیر کردی۔ آپ کو ان کی یہ حرکت ناگوار گزری۔ غصے میں آپ نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ اپنے دل میں کہا کہ اللہ نے مجھ پر یہ لازم نہیں کیا کہ ان ہٹ دھرموں اور معاندین کے درمیان بیٹھا رہوں جبکہ یہ نہیں مان رہے ہیں ، تو میں کسی دوسری قوم میں کام کرسکتا ہوں یا اللہ مجھے دوسری جگہ بھیج سکتا ہے۔ اس غصے کی حالت میں آپ ساحل کے کنارے تک چلے گئے۔ ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ جب یہ سمندر کے درمیان گئے تو کشتی بھاری ہوگئی اور غرق ہونے لگی۔ انہوں نے قرعہ پھینکا کہ کشتی کو ہلکا کرنے کے لئے ایک آدمی کو کم کیا جائے۔ قرعہ آپ کا نکلا۔ لوگوں نے آپ کو سمندر میں پھینک دیا۔ مچھلی نے نگل لیا۔ اس وقت حضرت یونس (علیہ السلام) نے اللہ کو پکارا جب کہ وہ سخت مشکل میں تھے اور قریب المرگ تھے۔ سمندر کے اندر مچھلی کے پیٹ میں تھے۔ تاریکیوں پر تاریکیاں تھیں۔ اور موجوں پر موجیں تھیں۔ یہاں انہوں نے پکارا۔ لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین ” نہیں ہے کوئی الٰہ مگر تو ، تو پاک ہے اور میں ظالموں میں سے تھا “۔ اس وقت اللہ کا فضل وکرم آپہنچا ، مچھلی نے انہیں حکم الٰہی کے مطابق ساحل پر اگل دیا۔ اور اس وقت ان کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ وہ گوشت کالوتھڑا رہ گئے تھے۔ مچھلی کے معدے کی کیمیاوی عمل ان کی جلد کو رقیق بنا دیا تھا جبکہ ابھی تک اللہ نے ان کو زندہ رکھا۔ معجزانہ انداز میں اور اللہ خود اپنے بنائے ہوئے قوانین حیات کا پابند نہیں ہے۔ یہاں اللہ فرماتا ہے کہ اللہ کا فضل وکرم نہ ہوتا تو مچھلی انہیں اس حالت میں پھینکتی کہ وہ مذموم ہوتے۔ یعنی رب تعالیٰ کی طرف سے مذموم ہوتے۔ کہ وہ اپنے مقام دعوت سے ذرا جلدی چلے گئے۔ اللہ نے ان کی اس تسبیح کو قبول کیا اور ان کے اعتراف اور عذر کو قبول کرلیا اور ان پر رحم وکرم کردیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آپ صبر کیجئے اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جائیں ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر فرمانے کا حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کے مخاطبین منکرین کو مہلت دی ہے ان پر جلد عذاب نہیں آیا اور آپ کو صبر کی تلقین فرمائی ہے اس پر عمل کیجئے اور مچھلی والے کی طرح نہ ہوجائے۔ مچھلی والے سے حضرت یونس (علیہ السلام) مراد ہیں جب وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے تھے (جس کا ذکر سوہٴ یونس اور سورة ٴ الانبیاء اور سورة ٴ الصافات میں گزر چکا ہے) تو انہیں مچھلی نے نگل لیا۔ مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے رہے، اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں انہوں نے دعا کی کہ وہ غم سے گھٹ رہے تھے، یہ غم مجموعہ تھا کئی غموں کا ایک قوم کے ایمان نہ لانے کا، ایک بلا اذن صریح حق تعالیٰ کے وہاں سے چلے آنے کا ایک مچھلی کے پیٹ میں محبوس ہوجانے کا، اور وہ دعا یہ ہے : ﴿لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ١ۖۗ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَۚۖ٠٠٨٧﴾ جس سے مقصود استغفار اور طلب نجات عن الحبس ہے۔ (كذا فی بیان القرآن)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ ” فاصبر “ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلیہ ہے۔ آپ مشرکین کی تکذیب اور ایذاء سے تنگ آ کر کوئی اقدام نہ کریں بلکہ صبر و تحمل سے سب کچھ برداشت کریں اور اللہ کے حکم کا انتظار کریں اور مچھلی والے (حضرت یونس علیہ السلام) کی مانند نہ ہوں، ورنہ کسی اور مصیبت میں گرفتار ہوجائیں گے۔ جس طرح یونس (علیہ السلام) نے عجلت سے کام لیا اور احوال و قرائن سے ہجرت کا جواز سمجھ کر اللہ کے حکم کا انتظار کیے بغیر ہی شہر سے نکل کھڑے ہوئے تو ہم نے بطور تنبیہ ان کو مچھلی کے پیٹ میں قید کردیا، جہاں انہوں نے کرب والم کی حالت میں ہم سے فریاد کی اور اپنی لغزش کا اعتراف کیا تو ہم نے محض اپنی رحمت سے ان کو رنج والم سے نجات دی ” مکظوم “ مغموم و مکروب۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(48) پس اے پیغمبر آپ اپنے پروردگار کے حکم اور اس کی تجویز پر صبر سے بیٹھے رہیے اور مچھلی والے یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) کی طرح نہ ہوجائیے جبکہ اس نے اللہ تعالیٰ کو پکارا اور وہ غم وغصہ میں بھرا ہوا تھا اور غم کے مارے گھٹ رہا تھا۔