Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 52

سورة القلم

وَ مَا ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۵۲﴾٪  4 الرّبع

But it is not except a reminder to the worlds.

در حقیقت یہ ( قرآن ) تو تمام جہان والوں کے لئے سراسر نصیحت ہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But it is nothing else but a Reminder to all the creatures (`Alamin). This is the end of the Tafsir of Surah Al-Qalam, and all praise and blessing belong to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 جب واقعہ یہ ہے کہ یہ قرآن جن و انس کی ہدایت و رہنمائی کے لئے آیا ہے تو پھر اس کو لانے والا اور بیان کرنے والا مجنون (دیوانہ) کس طرح ہوسکتا ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] یعنی جو قرآن تم انہیں پڑھ کر سنا رہے ہو نہ اس میں کوئی دیوانگی کی بات ہے اور نہ آپ میں ہے۔ بلکہ یہ کتاب تو تمام اہل عالم کی ہدایت کے لیے نازل کی جارہی ہے۔ اس سے بنی نوع انسان کی کایا پلٹ اصلاح ہوگی۔ عنقریب یہ کتاب معاشرہ میں انقلاب بپا کردے گی۔ اس وقت سب کو معلوم ہوجائے گا کہ اصل دیوانے کون تھے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وما ھو الا ذکر للعلمین : یعنی قرآن کی آیات میں تو وہ نصیحتیں ہیں جن کے اثر سے ایک دو نہیں بلکہ بیشمار جہان راہ راست پر آنے والے ہیں، ایسی نصیحت کے سنانے والے کو جو دیوانہ بتاتا ہے وہ خود دیوانہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ۝ ٥٢ ۧ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما وقال العالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] . العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢{ وَمَا ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔ } ” اور نہیں ہے وہ ‘ مگر ایک یاد دہانی تمام جہان والوں کے لیے۔ “ یہاں پر ھُوَکی ضمیر قرآن کے لیے بھی ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بھی۔ قرآن مجید کے ذکر (یاد دہانی اور نصیحت) ہونے کا تذکرہ تو قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے ‘ جبکہ اپنی ذات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی قیامت تک کے لوگوں کے لیے یاد دہانی ہیں ‘ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات میں مجسم قرآن ہیں۔ جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) کا فرمان ہے : (کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ ) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اخلاق قرآن ہی تو تھا۔ “ ] بعض مترجمین نے یہاں ” ذِکْر “ کا ترجمہ ” شرف “ بھی کیا ہے۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سارے جہانوں کے لیے وجہ عزو شرف ہیں۔ (مرتب) [

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:52) وما ھو الا ذکر للعالمین : جملہ حالیہ ہے۔ حال یہ ہے کہ یہ قرآن تمام دنیا کے لئے صرف نصیحت ہے۔ ما نافیہ ھو کا اشارہ قرآن مجید کی طرف ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مشار الیہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات والا صفات ہو۔ کیونکہ آپ سارے جہان کے لئے پیغام ہدایت دینے والے اور ناصح ہیں۔ اس صورت میں ذکر اگرچہ مصدر ہے لیکن بطور مبالغہ بمعنی اسم فاعل ہے جیسے ذید عدل زید انصاف ہے یعنی اتنا انصاف کرنے والا ہے گویا خود مجسم انصاف ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ” پھر جو شخص ایسا کلام سنائے بھلا بائو لا ہوسکتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما ھوا ................ للعلمین (٨٦ : ٢٥) ” حالانکہ یہ تجہان والوں کے لئے ایک نصیحت ہے “۔ صرف مکہ والوں کے لئے نہیں ہے اور پھر یہ جو الزام لگاتے ہیں وہ کس قدر احمقانہ ہے کہ کیا دیوانے عالمی اصلاح کا کوئی پروگرام پیش کرتے ہیں۔ صدق اللہ العظیم ! یہاں مناسب ہے کہ لفظ العالمین پر بات ہوجائے۔ ابھی یہ دعوت مکہ میں ہے ، چند ماننے والے ہیں اور رسول کو خشمگیں نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ اور مشرکین مکہ اس کے خلاف جنگ میں اپنے پورے وسائل استعمال کررہے ہیں۔ اس ابتدائی دور میں ، اس مشکل وقت میں بھی اعلان کردیا جاتا ہے کہ یہ عالمی تحریک ہے۔ جس طرح کہ اس کی حقیقت تھی۔ لہٰذا مدینہ میں جب اس تحریک نے عالمی انداز اختیار کیا تو یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ جس طرح آج کل مغربی افتراء پرداز یہ الزام لگاتے ہیں کہ دعوت اسلامی نے عالمی رنگ صرف مدینہ کی کامیابی کے بعد اختیار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ پہلے دن سے ایک عالمی دعوت تھی۔ یہی اللہ کا ارادہ تھا اور یونہی یہ دعوت زمانہ آخر تک رہے گی۔ یہ اللہ کا ارادہ ہے۔ یہ دعوت اللہ کی ہے اور وہی اس کا محافظ ہے۔ وہ اس کا حامی اور ناصر ہے۔ وہی اس کی جانب سے لڑنے والا ہے۔ اور اس کے حاملین کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اس پر جم جائیں۔ وہ سب سے اچھے فیصلے کرنے والا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ ” وما ھو “ حالانکہ یہ قرآن تمام دنیا جہان والوں کے لیے نصیحت ہے اور اس میں ان کے تمام ضروری امور کا بیان ہے اور اس کی تعلیمات ان کے لیے فلاح دارین کی ضامن ہیں، تو کیا ایسی عظیم الشان کتاب کے حامل کو اس کی تبلیغ سے روکنا اور اسے دیوانگی کا طعن دینا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ سورة القلم کی خصوصیت : مسئلہ توحید کے بیان میں نرمی اور مداہنت سے ممانعت اور توحید کی خاطر تکلیفیں برداشت کرنے اور صبر و تحمل اختیار کرنے کی تلقین۔ سورة القلم ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(52) حالانکہ وہ قرآن نہیں ہے مگر اقوام عالم کے لئے نصیحت ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی گھور گھور کر دیکھتے ہیں کہ ڈر کر چھوڑ دے۔ خلاصہ : یہ کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں قرآن سنتے ہیں تو آپ پر تیز اور قہر آلود نگاہیں ڈالتے ہیں اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہماری خشم آلود نگاہوں سے گھبرا کر قرآن کی تبلیغ چھوڑ دے اور قرآن پڑھنا بند کردے اور اس طرح تیز تیز نگاہوں سے گھورتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دماغ کو بےکار کردیں گے نگاہوں کے ساتھ ساتھ زبان سے بائولا اور دیوانہ کہتے ہیں۔ حضرت حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس قرآن میں دیوانگی کی بات کیا ہے یہ تو اقوام عالم بلکہ تمام جہان والوں کے لئے ایک ذکر اور نصیحت ہے فرشتے بھی اس لذت اور حظ حاصل کرتے ہیں جن بھی اس پر ایمان لاتے ہیں بلکہ غیر مسلم بھی اس کی نصائح اور اس کے غیر فانی قوانین سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ اگرچہ اس پر ایمان نہیں لاتے تو اس ہمہ گیر نصیحت میں کون سی دیوانگی کی بات ہے جو اس نبی کو دیوانہ کہتے ہو۔ بعض حضرات نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہ آیت بعض نظر لگانے والوں کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے چناچہ قبیلہ بنی اسد نظر لگانے میں مشہور تھا اس قبیلے کے ایک شخص کو کافر بلا لائے کہ تو اس پیغمبر کو نظر لگا دے اور نظر لگا کر ہلاک کردے۔ چنانچہ وہ آیا اور تین دن کا فاقہ کیا پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ کو قرآن شریف پڑھتے ہوئے دیکھا تھوڑی دیر کے بعد اس نے آپ کو گھور گھور کر دیکھنا شروع کیا اور کہا میں نے آپ جیسا خوش گلو اور خوش لہجہ آدمی کوئی نہیں دیکھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ۔ غرض جب وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھورتا اور آپ کی تعریف کرتا تو آپ یہی فرماتے۔ ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کافر نظر بدمحفوظ رکھا ۔ حضرت حسن بصری (رض) سے منقول ہے کہ جس شخص پر نظر بد کا اثر ہو یا نظر لگ جانے کا اندیشہ ہو تو وہ اس آیت وان یکاوالذین کفروا کو پڑھ کر پھونک لیا کرے اپنی اولاد پر یا اپنے مال پر یا اپنے پر دم کرلیا کرے مزید تفصیل عزیزی میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے نظر میں ایک طاقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے حضرت عارف شیرازی فرماتے ہیں۔ حضور مجلس انس است ودوستاں جمع اند وا ں یکاد بخوایند ودرفراز کنید تم تفسیر سورة القلم