Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 6

سورة القلم

بِاَىیِّکُمُ الۡمَفۡتُوۡنُ ﴿۶﴾

Which of you is the afflicted [by a devil].

کہ تم میں سے کون فتنہ میں پڑا ہوا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

You will see, and they will see, which of you is afflicted with madness. then it means, `you will know, O Muhammad -- and those who oppose you and reject you, will know -- who is insane and misguided among you.' This is like Allah's statement, سَيَعْلَمُونَ غَداً مَّنِ الْكَذَّابُ الاٌّشِرُ Tomorrow they will come to know who is the liar, the insolent one! (54:26) Allah also says, وَإِنَّأ أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِى ضَلَـلٍ مُّبِينٍ And verily (either) we or you are rightly guided or in plain error. (34:24) Ibn Jurayj reported from Ibn Abbas, it means "You will know and they will know on the Day of Judgement." Al-`Awfi reported from Ibn `Abbas; بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ Which of you is Maftun (afflicted with madness) means which of you is crazy. This was also said by Mujahid and others as well. The literal meaning of Maftun is one who has been charmed or lured away from the truth and has strayed from it. Thus, the entire statement means, `so you will know and they will know,' or `you will be informed and they will be informed, as to which of you is afflicted with madness.' And Allah knows best. Then Allah says, إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] یعنی یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا نتیجہ جلد از جلد سامنے نہ آئے۔ ایک شخص جو حکم دیتا ہے وہ نیکی اور بھلائی پر مبنی ہوتا ہے پھر وہ خود سب سے پہلے اس حکم پر عمل کرکے دکھاتا ہے۔ ہر برے کام سے اسے طبعاً نفرت ہے۔ وہ انتقام کی صورت میں بھی کوئی بری بات اپنانے کو تیار نہیں۔ فیاضی اور سماحت اس کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس کے مقابلہ میں جو لوگ ہیں انہیں طعن وتشنیع، ایذارسانی اور انتقامی کارروائیوں کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں، جو بات وہ سوچتے ہیں بغض وعناد اور دوسروں کی جڑ کاٹ دینے کے لیے سوچتے ہیں۔ لہذا کوئی وجہ نہیں کہ جلد از جلد ان دونوں کا انجام ایک دوسرے کے سامنے نہ آجائے۔ اس وقت ہر ایک کو معلوم ہوجائے گا کہ دیوانگی اور پاگل پن کی حرکتیں کون کر رہا تھا ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بِاَىيِّكُمُ الْمَفْتُوْنُ۝ ٦ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦{ بِاَیِّکُمُ الْمَفْتُوْنُ ۔ } ” کہ تم میں سے کون فتنے میں مبتلا تھا ! “ بہت جلد دنیا پر واضح ہوجائے گا کہ تم دونوں فریقوں میں سے کون فتنے میں مبتلا ہوگیا تھا اور کون راہ راست پر تھا۔ کیا محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنون کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا (معاذ اللہ ! ) یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین جوشِ تعصب میں پاگل ہوگئے تھے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:6) بایکم المفتون : اس میں ب زائدہ ہے اور المفتون، فتون مصدر سے اسم مفعول کا صیغہ واحد مذکر، فتنۃ میں ڈالا ہوا۔ فتنہ میں پڑا ہوا۔ دیوانہ، فریفتہ، مصیبت زدہ، آزمایا ہوا۔ فتن یفتن (باب ضرب) فتون وفتنۃ مصدر۔ ایکم ای استفہامیہ، مضاف کم ضمیر جمع مذکر حاضر، مضاف الیہ، تم میں سے کون۔ ترجمہ :۔ تم میں سے کون دیوانہ (مجنون) ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی قیامت کے روز جب حق واضح ہوگا اور ان دیکھی حقیقتوں سے پردہ اٹھے گا تو پتا چل جائے گا کہ حقیقت میں دیوانہ کون تھا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی جنون کی حقیقت ہے زوال عقل، اور عقل کی غایت ہے ادراک نفع و ضرر، اور نفع و ضرر معتدبہ وہ ہے جو ابدی ہو، پس قیامت میں ان کو یہی معلوم ہوجاوے گا کہ عاقل اہل حق تھے جنہوں نے اس نفع کو حاصل کیا، اور مجنون یہ خود تھے جو اس نفع سے محروم رہ کر ضرر ابدی میں مبتلا ہوئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) کہ تم میں سے کون جنون میں مبتلا تھا۔ یعنی عذاب دنوی کے وقت یا مرنے کے بعد یا قیامت کے دن کا عذاب دیکھ کر یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ درحقیقت مجنون کون تھا اور جنون کے فتنے میں کون مبتلا تھا کیونکہ جنون موجب ہے زوال عقل کا اور زوال عقل کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ضرر سے بچتا نہیں اور نفع حاصل نہیں کرسکتا لہٰذا قیامت کے دن یہ بات آشکارا ہوجائے گی کہ کون نفع سے محروم رہ کر ضرر میں مبتلا ہوتا ہے اور اجروثواب سے محروم رہ کر عذاب میں گرفتار ہوتا ہے اس دن یہ بات آنکھوں سے بھی مجرم دیکھ لے گا اور دل سے بھی یقین کرلے گا جو اس دن کے ضرر سے محفوظ نہ رہ سکا اور اس دن کے نفع سے محروم رہا وہی دیوانہ تھا اور وہی جنون کے فتنے میں مبتلا تھا اگرچہ پیغمبر اسلام کو اس دنیا میں بھی یقین حاصل تھا کہ یہ منکر دیوانے ہیں لیکن منکروں کے مجنون کہنے سے آپ کی حیثیت ایک فریق کی بن گئی تھی اس لئے دونوں کو فرمایا کہ اے پیغمبر آپ بھی دیکھ لیں گے اور یہ بھی دیکھ لیں گے۔ آگے حق تعالیٰ نے اپنے علم کا اظہار فرمایا کہ آپ کے پروردگار کو تو معلوم ہی ہے اور وہ تو وقت پر ہر شخص کو اس کے مناسب سزا دے گا چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔