Surat ul Haaqqaa

Surah: 69

Verse: 1

سورة الحاقة

اَلۡحَآقَّۃُ ۙ﴿۱﴾

The Inevitable Reality -

ثابت ہونے والی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Warning concerning the Greatness of the Day of Judgement Allah says, الْحَاقَّةُ مَا الْحَاقَّةُ

حاقہ قیامت کا ایک نام ہے اور اس نام کی وجہ یہ ہے کہ وعدے وعید کی عملی تعبیر اور حقیقت کا دن وہی ہے ، اسی لئے اس دن کی ہولناکی بیان کرتے ہوئے فرمایا تم اس حاقہ کی صحیح کیفیت سے بےخبر ہو ، پھر ان لوگوں کا ذکر فرمایا جن لوگوں نے اسے جھٹلایا اور خمیازہ اٹھایا تھا تو فرمایا ثمودیوں کو دیکھو ایک طرف سے فرشتے کے دہاڑے اور کلیجوں کو پاش پاش کر دینے والی آواز آتی ہے تو دوسری جانب سے زمین میں غضبناک بھونچال آتا ہے اور سب تہ و بالا ہو جاتے ہیں ، پس بقول حضرت قتادہ ( طاغیہ ) کے معنی چنگھاڑ کے ہیں ، اور مجاہد فرماتے ہیں اسے مراد گناہ ہیں یعنی وہ اپنے گناہوں کے باعث برباد کر دیئے گئے ، ربیع بن انس اور ابن زید کا قول ہے کہ اس سے مراد ان کی سرکشی ہے ۔ ابن زید نے اس کی شہادت میں یہ آیت پڑھی ( كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَآ 11۝۽ ) 91- الشمس:11 ) یعنی ثمودیوں نے اپنی سرکشی کے باعث جھٹلایا ، یعنی اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں اور قوم عاد کی ٹھنڈی ہواؤں کے تیز جھونکوں سے دل چھید دیئے اور وہ نیست و نابود کر دیئے گئے ، یہ آندھیاں جو خیر و برکت سے خالی ھیں اور فرشتوں کے ہاتھوں سے نکلتی تھیں برابر پے درے پے لگاتار سات راتیں اور آٹھ دن تک چلتی رہیں ، ان دنوں میں ان کے لئے سوائے نحوست و بربادی کے اور کوئی بھلائی نہ تھی اور جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْٓ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيْقَهُمْ عَذَابَ الْخِــزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَهُمْ لَا يُنْصَرُوْنَ 16؀ ) 41- فصلت:16 ) حضرت ربیع فرماتے ہیں جمعہ کے دن سے یہ شروع ہوئی تھیں بعض کہتے ہیں بدھ کے دن ، ان ہواؤں کو عرب اعجاز اس لئے بھی کہتے ہیں کہ قرآن نے فرمایا ہے قوم عاد کی حالت اعجاز یعنی کھجوروں کے کھوکھلے تنوں جیسی ہو گئی ، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ عموماً یہ ہوائیں جاڑوں کے آخر میں چلا کرتی ہیں اور عجز کہتے ہیں آخر کو ، اور یہ وجہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ قوم عاد کی ایک بڑھیا ایک غار میں گھس گئی تھی جو ان ہواؤں سے آٹھویں روز وہیں تباہ ہو گئی اور بڑھیا کو عربی میں عجوز کہتے ہیں ، واللہ اعلم ، ( خاویہ ) کے معنی ہیں خراب ، گلا ، سڑا ، کھوکھلا ، مطلب یہ ہے کہ ہواؤں نے انہیں اٹھا اٹھا کر الٹا ان کے سر پھٹ گئے سروں کا چورا چورا ہو گیا اور باقی جسم ایسا رہ گیا جیسے کھجور کے درختوں کا پتوں والا سرا کاٹ کر صرف تنا رہنے دیا ہو ، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں صبا کے ساتھ میری مدد کی گئی یعنی مشرقی ہوا کے ساتھ اور عادی ہلاک کئے گئے دبور سے یعنی مغربی ہوا سے ، ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں عادیوں کو ہلاک کرنے کے لئے ہواؤں کے خزانے میں سے صرف انگوٹھی کے برابر جگہ کشادہ کی گئی تھی جس سے ہوائیں نکلیں اور پہلے وہ گاؤں اور دیہات والوں پر آئی ان تمام مردوں عورتوں کو چھوٹے بڑوں کو ان کے مالوں اور جانوروں سمیت لے کر آسمان و زمین کے درمیان معلق کر دیا ، شہریوں کو بوجہ بہت بلندی اور کافی اونچائی کے یہ معلوم ہونے لگا کہ یہ سیاہ رنگ بادل چڑھا ہوا ہے خوش ہونے لگے کہ گرمی کے باعث جو ہماری بری حالت ہو رہی ہے اب پانی برس جائے گا اتنے میں ہواؤں کو حکم ہوا اور اس نے ان تمام کو ان شہریوں پر پھینک دیا یہ اور وہ سب ہلاک ہوگئے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس ہوا کے پر اور دم تھی ۔ پھر فرماتا ہے بتاؤ کہ ان میں سے یا ان کی نسل میں سے کسی ایک کا نشان بھی تم دیکھ رہے ہو؟ یعنی سب کے سب تباو و برباد کر دیئے گئے کوئی نام لینے والا پانی دینے والا بھی باقی نہ رہا ۔ پھر فرمایا فرعون اور اس سے اگلے خطا کار ، اور رسول کے نافرمان کا یہی انجام ہوا ، ( قَبلَہ ) کی دوسری قرأت ( قِبَلَہ ) بھی ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ فرعون اور اس کے پاس اور ساتھ کے لوگ یعنی فرعونی ، قبطی ، کفار ، ( مؤتفکات ) سے مراد بھی پیغمبروں کی جھٹلانے والی اگلی امتیں ہیں ، ( خاطہ ) سے مطلب معصیت اور خطائیں ہیں ، پس فرمایا ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے زمانے کے رسول کی تکذیب کی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( اِنْ كُلٌّ اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ 14؀ۧ ) 38-ص:14 ) یعنی ان سب سنے رسولوں کی تکذیب کی اور ان پر عذاب نازل ہوئے اور یہ بھی یاد رہے کہ ایک پیغمبر کا انکار گویا تمام انبیاء کا انکار ہے جیسے قرآن نے فرمایا آیت ( كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ ١٠٥؁ښ ) 26- الشعراء:105 ) اور فرمایا آیت ( كَذَّبَتْ عَادُۨ الْمُرْسَلِيْنَ ١٢٣؀ښ ) 26- الشعراء:123 ) اور فرمایا آیت ( كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِيْنَ ١٤١؀ښ ) 26- الشعراء:141 ) یعنی قوم نوح نے عادیوں نے ثمودیوں نے رسولوں کو جھٹلایا ، حالانکہ سب کے پاس یعنی ہر ہر امت کے پاس ایک ہی رسول آیا تھا ، یہی مطلب یہاں بھی ہے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامبر کی نافرماین کی ، پس اللہ نے انہیں سخت تر مہلک بڑی درد ناک المناک پکڑ میں پکڑ لیا ۔ بعد ازاں اپنا احسان جتاتا ہے کہ دیکھو جب نوح علیہ السلام کی دعا کی وجہ سے زمین پر طوفان آیا اور پانی حد سے گذر گیا چاروں طرف ریل پیل ہو گئی نجات کی کوئی جگہ نہ رہی اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ جب قوم نوح نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور ان کی مخالفت اور ایزاء رسانی شروع کی اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے لگے اس وقت حضرت نوح علیہ السلام نے تنگ آ کر ان کی ہلاکت کی دعا کی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا اور مشہور طوفان نوح نازل فرمایا جس سے سوائے ان لوگوں کے جو حضرت نوح کی کشتی میں تھے روئے زمین پر کوئی نہ بچا پس سب لوگ حضرت نوح علیہ السلام کی نسل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہیں ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پانی کا ایک ایک قطرہ بہ اجازت اللہ پانی کے داروغہ فرشتہ کے ناپ تول سے برستا ہے اسی طرح ہوا کا ہلکا سا جھونکا بھی بےناپے تولے نہیں چلتا لیکن ہاں عادیوں پر جو ہوائیں چلیں اور قوم نوح پر جو طوفان آیا وہ تو بیحد ، بیشمار اور بغیر ناپ تول کے تھا اللہ کی اجازت سے پانی اور ہوا نے وہ زور باندھا کہ نگہبان فرشتوں کی کچھ نہ چلی اسی لئے قرآن میں آیت ( اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ 11۝ۙ ) 69- الحاقة:11 ) اور آیت ( وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِيْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ Č۝ۙ ) 69- الحاقة:6 ) کے الفاظ ہیں اسی لئے اس اہم احسان کو اللہ تعالیٰ یاد دلا رہا ہے کہ ایسے پُر خطر موقعہ پر ہم نے تمہیں چلتی کشتی پر سوار کرا دیا تاکہ یہ کشتی تمہارے لئے نمونہ بن جائے چنانچہ آج بھی ویسی ہی کشتیوں پر سوار ہو کر سمندر کے لمبے چوڑے سفر طے کر رہے ہو ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ 12۝ۙ ) 43- الزخرف:12 ) ، یعنی تمہاری سواری کے لئے کشتیاں اور چوپائے جانور بنائے تاکہ تم ان پر سواری کرو اور سوار ہو کر اپنے رب کی نعمت یاد کرو اور جگہ فرمایا آیت ( وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ 41؀ۙ ) 36-يس:41 ) یعنی ان کے لئے ایک نشان قدرت یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری کشتی میں چڑھا لیا اور بھی ہم نے اس جیسی ان کی سواریاں پیدا کر دیں ۔ حضرت قتادہ نے اوپر کی اس آیت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ وہی کشتی نوح باقی رہی یہاں تک کہ اس امت کے اگلوں نے بھی اسے دیکھا ، لیکن زیادہ ظاہر مطلب پہلا ہی ہے ، پھر فرمایا یہ اس لئے بھی کہ یاد رکھنے اور سننے والا کان اسے یاد کرے اور محفوظ رکھ لے اور اس نعمت کو نہ بھولے ، یعنی صحیح سمجھ اور سچی سماعت والے عقل سلیم اور فہم مستقیم رکھنے والے جو اللہ کی باتوں اور اس کی نعمتوں سے بےپرواہی اور لا ابالی نہیں برتتے ان کی پندو نصیحت کا ایک ذریعہ یہ بھی بن گیا ، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت مکحول فرماتے ہیں جب یہ الفاظ اترے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ وہ علی ( کرم اللہ وجہ ) کو ایسا ہی بنا دے ، چنانچہ حضرت علی فرمایا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز سن کر پھر میں نے فراموش نہیں کی ، یہ روایت ابن جریر میں بھی ہے لیکن مرسل ہے ۔ ابن ابی حاتم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا مجھے حکم کیا گیا ہے کہ میں تجھے نزدیک کروں دور نہ کروں اور تجھے تعلیم دوں اور تو بھی یاد رکھے اور یہی تجھے بھی چاہئے اس پر یہ آیت اتری ، یہ روایت دوسری سند سے بھی ابن جریر میں مروی ہے لیکن وہ بھی صحیح نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اس میں امر الٰہی ثابت ہوگا اور خود یہ بھی بہر صورت وقوع پذیر ہونے والی ہے، اس لئے اسے الْحَاَقَّۃُ سے تعبیر فرمایا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(الحآقۃ ، ماالحاقۃ…:” الحآقۃ “” حق یحق “ (ض ، ن) (ثابت ہونا، واجب ہونا) سے ” فاعلۃ “ کے وزن پر ہے، ہو کر رہنے والی، واجب ہونے والی، جس کا ہونا حق ہے۔ مراد قیامت ہے، کیونکہ وہ ہو کر رہ گی، اس لئے اس کا نام ” الواقعۃ ‘(واقع ہونے والی) بھی ہے۔ (دیکھیے حاقہ : ١٥) قیامت کا ذکر استفہامیہ فقروں سے شروع کیا گیا ہے، یہ اہل بلاغت کا خاص اسلوب ہے۔ اس سے ایک تو سننے والے کو متوجہ کرنا اور شوق دلانا مقصود ہوتا ہے، دوسرا قیامت کی عظمت اور ہولناکی بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ اتنی عظیم الشان ہے کہ نہ تمہاری سمجھ میں پوری طرح آسکتی ہے اور نہ کوئی اور ایسا ہے جو تمہیں معلوم کروا سکے کہ وہ کیا ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary This Surah is almost wholly devoted to the subject of inevitability of the Resurrection, its horrors, the punishment of unbelievers and the reward of believers. The Day of Judgment is variously referred to in the Qur&an, and in this Surah we encounter the following three names: الْحَاقَّةُ Al-Haqqah &Imminent Happening&, الْقَارِ‌عَةِ Al-Qari&ah &Shocking Event& and الْوَاقِعَةُ -waqi` ah &Happening&. The word الْحَاقَّةُ Al-haqqah means an &established fact, or inevitable event, reality or truth&. The word Al-haqqah also means &Something that provide evidence that something is true.& It can be applied to the Day of Judgment in both senses of the word, because in the first sense the Day of Judgment itself is an established truth, and its occurrence is a certainty. And in the other sense the Day of Judgment will prove to the believers the reality of Paradise and to the unbelievers the reality of Hell. This name of the Day of Judgment is followed by two questions regarding it. The questions have been put to make the readers realise how horrifying the experience would be - beyond normal experience or even imagination. The word الْقَارِ‌عَةِ Al-Qari&ah, literally, means &rumbling&. The Day of Judgment is so called because there will be rumbling sound which will cause agitation or terror in the hearts of people, and will dreadfully destroy the heavenly and earthly bodies and scatter them apart. The word الطَّاغِيَةِ At-Taghiyah is derived from tughyan which means &to exceed the limit&, signifying an extremely severe punishment, that is, &it would be such high pitched sound which would exceed the limit of any of the sounds of the mortal world, and the human heart or brain would not be able to bear&. When Thamud exceeded the limit in denying the Day of Judgment, they were destroyed by that dreadful cry which exceeded all limits. It was a combination of most high pitched sound of thunderbolt together with a flash of lightning that struck them which rent their hearts.

خلاصہ تفسیر وہ ہونے والی چیز کیسی کچھ ہے وہ ہونے والی چیز اور آپ کو کچھ خبر ہے کہ کیسی کچھ ہے وہ ہونے والی چیز (مقصود اس سے قیامت کی عظمت اور ہولناک ہونیکا بیان ہے یہ استفہامات تہویل کے لئے ہیں) ثمور اور عاد نے اس کھڑکھڑانے والی چیز (یعنی قیامت) کی تکذیب کی سو ثمود تو ایک زور کی آواز سے ہلاک کردیئے گئے اور عاد جو تھے سو وہ ایک تیز و تند ہوا سے ہلاک کئے گئے جس کو اللہ تعالیٰ نے ان پر سات رات اور آٹھ دن متواتر مسلط کردیا تھا سو (اے مخاطب اگر) تو (اس وقت وہاں موجود ہوتا تو) اس قوم کو اس طرح گرا ہوا دیکھتا کہ گویا وہ گری ہوئی کھجوروں کے تنے (پڑے) ہیں (کیونکہ وہ بہت دراز قد تھے) سو کیا تجھ کو ان میں کا کوئی بچا ہوا نظر آتا ہے (یعنی کوئی نہیں بچا کقولہ تعالیٰ ھل تحس منھم من احد او تسمع لھم برکزا) اور (اسی طرح) فرعون نے اور اس سے پہلے لوگوں نے (جن میں قوم نوح و عاد وثمود سب آگئے) اور (قوم لوط کی) ملی ہوئی بستیوں نے بڑے بڑے قصور کئے (یعنی کفر و شرک اس پر ان کے پاس رسول بھیجے گئے) سو انہوں نے اپے ن رب کے رسول کا (جوان کی طرف بھیجا گیا تھا) کہنا نہ مانا اور کفر و شرک سے باز نہ آئے جس میں تکذیب قیامت بھی داخل ہے) تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت سخت پکڑا (جن میں سے عاد و ثمور کا قصہ تو ابھی آ چکا ہے اور قوم لوط اور قوم فرعون کی عقوبت بہت سی آیتوں میں پہلے آ چکی ہے اور قوم نوح کی عقوبت آگے بضمن امتنان مذکور ہے یعنی) ہم نے جبکہ (نوح (علیہ السلام) کے وقت میں) پانی کو طغیانی ہوئی تم کو (یعنی تمہاری بزرگوں کو جو مومن تھے اور ان کی نجات تمہارے وجود کا سبب ہوئی) کشتی میں سوار کیا (اور بقایوں کو غرق کردیا) تاکہ ہم اس معاملہ کو تمہارے لئے ایک یادگار (اور عبرت) بنادیں اور یاد رکھیں (کان کو یاد رکھنے والا مجازاً کہہ دیا۔ حاصل یہ کہ اس کو یاد رکھ کر سزا کے اسباب سے بچیں یہ قصے تو مکذبین قیامت کے ہوئے، آگے قیامت کے ہول و خوف کا بیان ہے یعنی) پھر جب صور میں یکبارگی پھونک مار دی اجوے گی (مراد نفخہ اولی ہے) اور (اس وقت) زمین اور پہاڑ (اپنی جگہ سے) اٹھا لئے جاویں گے (یعنی اپنی چیز سے ہٹا دیئے جاویں گے) پھر دونوں ایک ہی دفعہ میں ریزہ ریزہ کردیئے جاویں گے تو اس روز وہ ہونے والی چیز ہو پڑے گی اور آسمان پھٹ جاوے گا اور وہ (آسمان) اس روز بالکل بودا ہوگا (چنانچہ پھٹ جانا دلیل ضعف ہے یعنی جیسا اس وقت وہ مضبوط ہے اور اس میں کہیں فطور و شقوق نہیں، اس روز اس میں یہ بات نہ رہے گی بلکہ ضعف و انشقاق ہوجاوے گا) اور فرشتے (جو آسمان میں پھیلے ہوئے ہیں جس وقت وہ پھٹنا شروع ہوگا) اس کے کناروں پر آجاویں گے ( اس سے ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ آسمان بیچ میں سے پھٹ کر چاروں طرف سمیٹنا شروع ہوگا اسلئے فرشتے بھی بیچ میں سے کناروں پر آرہیں گے۔ پھر آیت ضعق من فی السموت ومن فی الارض الخ کے مطابق ان فرشتوں پر بھی موت مسلط ہوجاوے گی۔ (کذا فی الکبیراحد الوجھین) اور یہ سب واقعات تو نفخہ اولی کے وقت کے ہیں) اور (آگے نفخہ ثانیہ کے وقت کے واقعات ہیں کہ) آپ کے پروردگار کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے (حدیث میں ہے کہ اب عرش کو چار فرشتے اھٹائے ہوئے ہیں قیامت کو آٹھ فرشتے اٹھاویں گے (کذا فی الدرمر فوعا) غرض آٹھ فرشتے عرش کو اٹھا کر میدان قیامت میں لاویں گے اور حساب شروع ہوگا جس کا آگے یان ہے یعنی) جس روز تم (خدا کے روبرو حساب کے واسطے) پیش کئے جاؤ گے (اور) تمہاری کوئی بات (اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہ ہوگی پھر (نامہ اعمال اڑا کر ہاتھ میں دیئے جاویں گے تو) جس شخص کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جاوے گا وہ تو (خوشی کے مارے آس پاس والوں سے) کہے گا کہ میرا نامہ اعمال پڑھ لو میرا (تو پہلے ہی سے) اعتقاد تھا کہ مجھ کو میرا حساب پیش آنے والا ہے (یعنی میں قیامت اور حساب کا معتقد تھا، مطلب یہ کہ میں ایمان اور تصدیق رکھتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کی برکت سے آج مجھ کو نوازا) غرض وہ شخص پسندیدہ عیش یعنی بہشت بریں میں ہوگا جس کے میوے (اسقدر) جھکے ہوں گے ( کہ جس حالت میں چاہیں گے لے سکیں گے اور حکم ہوگا کہ) (کھاؤ اور پیومزے کے ساتھ ان اعمال کے صلہ میں جو تم نے با امید صلہ گزشتہ ایام (یعنی زمانہ قیام دنیا) میں کئے ہیں اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جاوے گا سو وہ (نہایت حسرت سے) کہے گا کیا اچھا ہو تاکہ مجھ کو میرا نامہ اعمال ہی نہ ملتا اور مجھ کو یہ ہی خبر نہ ہوتی کہ میرا حساب کیا ہے کیا اچھا ہوتا کہ (پہلی) موت ہی خاتمہ کر چکتی (اور دوبارہ زندہ نہ ہوتے جس پر یہ حساب کتاب مرتب ہوا افسوس) میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا، میرا جاہ (بھی) مجھ سے گیا گزرا (یعنی مال و جاہ سب بےسود ٹھہرے ایسے شخص کے لئے فرشتوں کو حکم ہوگا کہ) اس شخص کو پکڑو اور اس کے گلے میں طوق پہنا دو پھر دوزخ میں اس کو داخل کرو، پھر ایک ایسی زنجیر میں جس کی پیمائش ستر گز ہے اس کو جکڑ دو (اس گز کی مقدار خدا کو معلوم ہے کیونکہ یہ گز وہاں کا ہوگا اس عذاب کی وجہ بتلاتے ہیں کہ) یہ شخص خدائے بزرگ پر ایمان نہ رکھتا تھا (یعنی جس طرح ایمان لانا حسب عتلیم انبیاء ضروری تھا وہ ایمان نہ رکھتا تھا) اور (خود تو کسی کو کیا دیتا اوروں کو بھی) غریب آدمی کے کھلانے کی ترغیب نہ دیتا تھا۔ (حاصل یہ کہ خدا کی عظمت اور مخلوق کی شفقت جو اصل عبادات متعلقہ حقوق اللہ وحقوق العباد ہیں یہ دونوں کا تارک اور منکر تھا اس لئے مستحق عذاب ہوا) سو آج اس شخص کا نہ کوئی دوستدار ہے اور نہ اس کو کوئی کھانے کی چیز نصیب ہے بجز زخموں کے ھو ون کے (یعنی بجز ایک ایسی چیز کے جو کراہت و صورت میں مثل غسلین کے ہوگا جس سے زخم دھوئے گئے ہوں اور یہ حصر اضافی ہے اور مقصو د اس سے نفی ہے مرغوب کھانوں کی ورنہ زقوم کی غذا ہونا خود آیات سے ثابت ہے کہ غرض ان کا طعام غسلین ہوگا) جس کو بجز بڑے گناہگاروں کے کوئی نہ کھاوے گا (آگے قرآن کی حقانیت ارشاد فرمائی جاتی ہے جس میں قیامت میں جزاء و سزا ہونے کا بیان ہے۔ اس کی تکذیب موجب تعذیب مذکور ہے) پھر (بعد بیان مضمون مجازاة کے) میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی بھی جن کو تم دیکھتے ہو اور ان چیزوں کی بھی جن کو تم نہیں دیکھتے (کیونکہ بعض مخلوقات بالفعل یا بالقوہ آنکھوں سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور بعض مخلوقات بالفعل یا بالقوہ یہ صلحایت نہیں رکھتیں، اس قسم کو مقصود سے ایک خاص مناسبت ہے کہ قرآن مجید کا لانیوالا نظر نہ آتا تھا اور جن پر قرآن آتا تھا وہ نظر آتے تھے مراد یہ کہ تمام مخلوق کی قسم ہے) کہ یہ قرآن (اللہ کا) کلام ہے ایک معزز فرشتہ کا لایا ہوا (پس جس پر یہ کلام نازل ہوا وہ ضرور رسول ہے) اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے ( جیسا کہ کفار آپ کو شاعر کہتے تھے مگر) تم بہت کم ایمان لاتے ہو (یہاں قلت سے مراد عدم ہے) اور یہ نہ کسی کا ہن کا کلام ہے (جیسا بعض کفار آپ کو کہتے تھے مگر) تم بہت کم سمجھتے ہو (یہاں بھی قلت سے مراد عدم ہے غرض یہ نہ شعر ہے نہ کہانت ہے بلکہ) رب العالمین کی طرف سے بھیجا ہوا (کلام) ہے اور (آگے اس کی حقاینت کی ایک دلیل عقلی ارشاد ہوتی ہے کہ) اگر یہ (پیغمبر) ہمارے ذمہ کچھ (جھوٹی) باتیں لگا دیتے (یعنی جو کلام ہمارا نہ ہوتا اس کو ہمارا کلام کہتے اور جھوٹا دعویٰ نبوت کا کرتے) تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑتے پھر ہم ان کی رگ دل کاٹ ڈالتے پھر تم میں کوئی ان کا اس سزا سے بچانے والا بھی نہ ہوتا (رگ دل کاٹنے سے آدمی مر جاتا ہے مراد اس سے قتل ہے) اور بلاشبہ یہ قرآن متقیوں کے لئے نصیحت ہے (یعنی فی نفسہ حق ہونا اس کی صفت کمالیہ ذاتیہ ہے اور موجب نصیحت ہونا اس کی صفت کمالیہ اضافیہ ہے) اور (آگے مکذبین کی وعید ہے کہ ہم کو معلوم ہے کہ تم میں سے بعض تکذیب کرنے والے بھی ہیں (پس ہم ان کو اس کی سزا دیں گے) اور (اس اعتبار سے) یہ قرآن کافروں کے حق میں موجب حسرت ہے (کیونکہ ان کے لئے بوجہ تکذیب کے سبب عذاب ہوگیا) اور یہ قرآن تحقیقی یقینی بات ہے سو (جس کا یہ کلام ہے) اپنے (اس) عظیم الشان پروردگار کے نام کی تسبیح (وتحمید) کیجئے۔ معارف ومسائل اس سورت میں قیامت کے ہولناک واقعات اور پھر وہاں کفار و فجار کی سزا اور مؤمنین و متقین کی جزاء کا ذکر ہے قیامت کے نام قرآن کریم میں بہت سے آئے ہیں۔ اس سورت میں قیامت کو حاقہ کے لفظ سے، پھر قارعہ کے پھر واقعہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور یہ سب قیامت کے نام ہیں۔ لفظ حاقہ کے معنی حق اور ثابت کے بھی آتے ہیں اور دوسری چیزوں کو حق ثابت کرنے والی چیز کو بھی حاقہ کہتے ہیں۔ قیامت پر یہ لفظ دونوں معنے کے اعتبار سے صادق آتا ہے کیونکہ قیامت خود بھی حق ہے اور اس کا وقوع ثابت اور یقینی ہے اور قیامت مومنین کے لئے جنت اور کفار کے لئے جہنم ثابت اور مقرر کرنے والی بھی ہے۔ یہاں قیامت کے اس نام کے ساتھ سوال کو مکرر کر کے اس کے مافوق القیاس اور حیرت انگیز ہولناک ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ قارعہ کے لفظی معنے کھڑکھڑانے والی چیز کے ہیں۔ قیامت کے لئے یہ لفظ اس لئے بولا گیا کہ وہ سب لوگوں کو مضطرب اور بےچین کرنے والی اور تمام آسمان و زمین کے اجسام کو منتشر کرنے اولی ہے۔ طاغیہ طغیان سے مشتق ہے جس کے معنے حد سے نکل جانے کے ہیں۔ مراد ایسی سخت آواز ہے جو تمام دنیا کی آوازوں کی حد سے باہر ہے اور زیادہ ہے جس کو انسان کا قلب و دماغ برداشت نہ کرسکے۔ قوم ثمود کی نافرمانی جب حد سے بڑھ گئی تو ان پر اللہ کا عذاب اسی سخت آواز کی صورت میں آیا تھا جس میں تمام دنیا کی بجلیوں کی کڑک اور دنیا بھر کی سب سخت آواز کی صورت میں ایٓا تھا جس میں تمام دنیا کی بجلیوں کی کڑک اور دنیا بھر کی سب سخت آوازوں کا مجموعہ تھا جس سے ان کے دل پھٹ گئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْحَاۗقَّۃُ۝ ١ ۙ مَا الْحَاۗقَّۃُ۝ ٢ ۚ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْحَاۗقَّۃُ۝ ٣ ۭ احقاق ( حاقة) فإحقاق الحقّ علی ضربین . أحدهما : بإظهار الأدلّة والآیات، كما قال تعالی: وَأُولئِكُمْ جَعَلْنا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطاناً مُبِيناً [ النساء/ 91] ، أي : حجة قوية . والثاني : بإکمال الشریعة وبثّها في الکافّة، کقوله تعالی: وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكافِرُونَ [ الصف/ 8] ، هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] ، وقوله : الْحَاقَّةُ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة/ 1] ، إشارة إلى القیامة، كما فسّره بقوله : يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ [ المطففین/ 6] ، لأنه يحقّ فيه الجزاء، ويقال : حَاقَقْتُهُ فَحَقَقْتُهُ ، أي خاصمته في الحقّ فغلبته، وقال عمر رضي اللہ عنه : (إذا النساء بلغن نصّ الحقاق فالعصبة أولی في ذلك) وفلان نَزِقُ الحِقَاق : إذا خاصم في صغار الأمور، ويستعمل استعمال الواجب واللازم والجائز نحو : كانَ حَقًّا عَلَيْنا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ [ الروم/ 47] احقاق حق دوطرح ہوسکتا ہے (1) اولہ اور آیات کے اظہار سے جیسے فرمایا :۔ وَأُولئِكُمْ جَعَلْنا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطاناً مُبِيناً [ النساء/ 91] ، یعنی ہم نے تمہیں ان پر حجت قویہ عطا فرمائی (2) شریعت حقہ کی تکمیل اور لوگوں میں اس کی نشرد اشاعت کے ذریعہ جیسے فرمایا :۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكافِرُونَ [ الصف/ 8] حالانکہ خدا پنی روشنی کو پورا کرے رہے گا ۔ خواہ کافرناخوش ہی ہوں ۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تا کہ اسے اور سب دینوں پر غالب کرے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ الْحَاقَّةُ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة/ 1] سچ مچ ہونے والی ، وہ سچ مچ ہونے والی کیا ہے ۔ میں قیامت کی طرف اشار ہے ۔ جیسا کہ سے اسکی تفسیر کی گئی ہے اور قیامت کے حاقۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں جزائے اعمال واقع ہوگی ۔ کہا جاتا ہے ۔ حاققتہ فحققتہ میں نے حق کے متعلق اس سے جھگڑا کیا اور اس پر غالب رہا ۔ حضرت عمر کا فرمان ہے ۔ (90) ، ، اذا النساء بلغن نص الحقاق فالعصبۃ اولٰی فی ذالک ، ، جب عورتیں بالغ ہوجائیں تو عصبہ زیادہ حقدار ہیں ۔ فلان نزق الحقاق فلان معمولی باتوں میں جھگڑا کرتا ہے اور کبھی لفظ حق واجب ، لازم اور لائق کے معنی استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ كانَ حَقًّا عَلَيْنا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ [ الروم/ 47] اور مومنوں کی مدد ہم پر لازم تھی ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ دری الدّراية : المعرفة المدرکة بضرب من الحیل، يقال : دَرَيْتُهُ ، ودَرَيْتُ به، دِرْيَةً ، نحو : فطنة، وشعرة، وادَّرَيْتُ قال الشاعر : وماذا يدّري الشّعراء منّي ... وقد جاوزت رأس الأربعین والدَّرِيَّة : لما يتعلّم عليه الطّعن، وللناقة التي ينصبها الصائد ليأنس بها الصّيد، فيستتر من ورائها فيرميه، والمِدْرَى: لقرن الشاة، لکونها دافعة به عن نفسها، وعنه استعیر المُدْرَى لما يصلح به الشّعر، قال تعالی: لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] ، وقال : وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 111] ، وقال : ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری/ 52] ، وكلّ موضع ذکر في القرآن وما أَدْراكَ ، فقد عقّب ببیانه نحو وما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة/ 10- 11] ، وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر/ 2- 3] ، وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة/ 3] ، ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار/ 18] ، وقوله : قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس/ 16] ، من قولهم : دریت، ولو کان من درأت لقیل : ولا أدرأتكموه . وكلّ موضع ذکر فيه : وَما يُدْرِيكَ لم يعقّبه بذلک، نحو : وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس/ 30] ، وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری/ 17] ، والدّراية لا تستعمل في اللہ تعالی، وقول الشاعر : لا همّ لا أدري وأنت الدّاري فمن تعجرف أجلاف العرب ( د ر ی ) الدرایۃ اس معرفت کو کہتے ہیں جو کسی قسم کے حیلہ یا تدبیر سے حاصل کی جائے اور یہ دریتہ ودریت بہ دریۃ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ( یعنی اس کا تعدیہ باء کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ اور باء کے بغیر بھی جیسا کہ فطنت وشعرت ہے اور ادریت بمعنی دریت آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ع اور شعراء مجھے کیسے ہو کہ دے سکتے ہیں جب کہ میں چالیس سے تجاوز کرچکاہوں قرآن میں ہے ۔ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے کے بعد کوئی ( رجعت کی سبیلی پیدا کردے ۔ وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 111] اور میں نہیں جانتا شاید وہ تمہارے لئے آزمائش ہو ۔ ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری/ 52] تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة/ 10- 11] اور تم کیا سمجھتے کہ ہاویہ ) کیا ہے ؟ ( وہ ) دھکتی ہوئی آگ ہے ۔ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر/ 2- 3] اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة/ 3] اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا چیز ہے ؟ ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار/ 18] اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس/ 16] یہ بھی ) کہہ و کہ اگر خدا چاہتا تو ( نہ تو ) میں ہی یہ کتاب ) تم کو پڑھکر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا ۔ میں سے ہے کیونکہ اگر درآت سے ہوتا تو کہا جاتا ۔ اور جہاں کہیں قران میں وما يُدْرِيكَآیا ہے اس کے بعد اس بیان مذکور نہیں ہے ( جیسے فرمایا ) وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس/ 30] اور تم کو کیا خبر شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے ۔ وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری/ 17] اور تم کیا خبر شاید قیامت قریب ہی آپہنچی ہو یہی وجہ ہے کہ درایۃ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال نہیں ہوتا اور شاعر کا قول ع اے اللہ ہی نہیں جانتا اور تو خوب جانتا ہے میں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے بےسمجھ اور اجڈ بدر دکا قول ہے ( لہذا حجت نہیں ہوسکتا ) الدریۃ ( 1 ) ایک قسم کا حلقہ جس پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہے ۔ ( 2 ) وہ اونٹنی جسے شکار کو مانوس کرنے کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ اور شکار اسکی اوٹ میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ شکا کرسکے ۔ المدوی ( 1 ) بکری کا سینگ کیونکہ وہ اس کے ذریعہ مدافعت کرتی ہے اسی سے استعارہ کنگھی یا بار یک سینگ کو مدری کہا جاتا ہے جس سے عورتیں اپنے بال درست کرتی ہیں ۔ مطعن کی طرح مد سر کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بہت بڑے نیزہ باز کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے وہ ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٣) ظیع شان قیامت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قیامت کس طرح کی ہے اور اے نبی کریم آپ کو کچھ معلوم ہے کہ قیامت کس طرح کی ہے۔ اور قیامت کو حاقہ کہا گیا ہے۔ حاقہ حقائق امور بنا پر کہا گیا ہے کیونکہ اس میں مومن کے لیے اس کے ایمان کی وجہ سے جنت اور کافر کے لیے اس کے کفر کی وجہ سے دوزخ ثابت ہوجائے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ { اَلْحَآقَّۃُ ۔ } ” وہ حق ہوجانے والی ! “ یعنی قیامت جس کا وقوع پذیر ہونا حق ہے ‘ اس کا واقع ہونا ایک مسلمہ ّصداقت اور اٹل حقیقت ہے جس میں قطعاً کوئی شک نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 The word al-Haaqqah as used in the Text means an event which has inevitably to take place and the occurrence of which in the future is so certain as to admit of no doubt or suspicion. To use this word for Resurrection and to begin the discourse with it by itself shows that the people were denying its occurrence. They are being told: "That which you are denying is inevitable: your denial will not prevent its occurrence. "

سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :1 اصل میں لفظ الحاقہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں وہ واقعہ جس کو لازماً پیش آ کر رہنا ہے ، جس کا آنا برحق ہے ، جس کے آنے میں کسی شک کی گنجائش نہیں ۔ قیامت کے لیے یہ لفظ استعمال کرنا اور پھر کلام کا آغاز ہی اس سے کرنا خود بخود یہ ظاہر کرتا ہے کہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو اس کے آنے کو جھٹلا رہے تھے ۔ ان کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ جس چیز کی تم تکذیب کر رہے ہو وہ ہونی شدنی ہے ، تمہارے انکار سے اس کا آنا رک نہیں جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ١٢۔ قیامت کی جس سزا و جزا کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے قیامت کے دن وہ سزا و جزا سب کی آنکھوں کے سامنے آجائے گی اور پھر اس کا کوئی منکر باقی نہ رہے گا سب اس کا حق ہونا مان لیں گے اس لئے قیامت کا نام حاقہ ہے جس کے معنی حق ثابت ہونے والی۔ حضرت نوح سے لے کر حضرت موسیٰ تک جتنی قوموں نے قیامت کی سزا و جزا اور اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور اس جرم میں طرح طرح کے عذابوں سے وہ قومیں ہلاک ہوئی تھیں ان سب کا ذکر ان آیتوں میں فرمایا ہے تاکہ یہ قصے اس بات کی ایک یادگار اور نصیحت ہوجائیں کہ اب بھی جو لوگ ان لوگوں کے سے کام کریں گے قیامت کو قیامت کے عذاب کو اللہ کے رسول کو جھٹلائیں گے اللہ کے حکم کی نافرمانی کریں گے ان کا بھی وہی انجام ہوگا جو پچھلے سرکش لوگوں کا ہوچکا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ان قصوں کے انجام کے اثر کو سوچا کہ نافائدہ کی بات ہے اسی واسطے حضرت نوح کے قصہ میں فرمایا کہ یہ قصہ ایسے لوگوں کے حق میں نصیحت نہیں جو لوگ نصحیت کی بات کو اس کان سے سن کر اس کان سے اڑا دیتے ہیں بلکہ یہ قصہ ایسے لوگوں کے حق میں نصیحت ہے جو نصیحت کی بات کو سن کر اس نصیحت کو یاد رکھتے ہیں اور اس نصیحت کے موافق عمل کرتے ہیں۔ ترمذی ١ ؎‘ ابن ماجہ ‘ مسند امام احمد میں حضرت ابودرداء سے بسند معتبر روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیامت کے قریب کچھ بےدینی کی باتیں جوں ہوں گی ان کا ذکر فرما کر یہ فرمایا کہ ایسی باتیں دنیا میں اس وقت ہوں گی جب علم دین دنیا سے اٹھ جائے گا اس پر زیاد بن لبید انصاری نے کہا ہم نے قرآن پڑھا اور اپنی اولاد کو پڑھایا اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا پھر علم دین اور کلام الٰہی کی نصیحت کا اثر دنیا سے کیونکر اٹھ جائے گا آپ نے اس کا جواب دیا کہ زیاد کیا تم نے یہود اور نصاریٰ کو توراۃ اور انجیل پڑھتے نہیں دیکھا مگر جو نصحت توراۃ اور انجیل میں ہے اس کے موافق وہ لوگ عمل نہیں کرتے۔ یہی حال آخری زمانہ میں امت محمدیہ کا ہوگا جس قدر پڑھیں گے اس قدر عمل نہ کریں گے۔ ابو داؤود ١ ؎‘ ابن ماجہ ‘ مسند امام احمد میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص علم دین کو دنیا کی عزت کے لئے حاصل کرے گا اس کا جنت میں داخل ہونا تو درکنار قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک ایسے شخص کی ناک میں نہ آئے گی۔ حاکم ٢ ؎ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے غرض ان آیتوں اور حدیثوں اور اسی قسم کی اور بہت سی حدیثوں کا حاصل مطلب یہ ہے کہ قرآن اور حدیث کی نصیحت ان ہی لوگوں کے کام آئے گی جن کے دل پر اس نصیحت کا اثر ہوتا ہے جس اثر کے سبب سے وہ لوگ اس نصیحت کے موافق خالص دل سے ثواب آخرت کی نیت سے عمل کرتے ہیں اس زمانہ کے قریش کی طرح جو لوگ بالکل نصیحت قرآن و حدیث کے منکر ہیں یا جو لوگ اسلام منکر تو نہیں لیکن ان کا عمل خالص نیت سے نہیں ہے۔ دنیا کی کسی غرض کا اس عمل میں میل جول ہے یا بعض لوگ کسی خواہش نفسانی کے بعض وقت پابند ہو کر نصیحت خدا اور رسول پر عمل نہیں کرتے۔ یہ سب عادتیں اپنے اپنے درجہ کے موافق مواخذہ آخرت کی عادتیں ہیں اسی مطلب کے سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں کے بعد ایسا ذکر فرمایا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ بالکل منکروں کا انجام تو وہ ہے جو حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک کے لوگوں کا بیان ہوا ہے اس کے بعد ایک انجام حشر کا ہے جس میں ذرہ ذرہ کا حساب ہونے والا ہے اور ہر طرح کی خلاف شریعت عادت کی سزا اس دن ہوگی۔ طافیہ کے معنی چنگھاڑ ‘ عاتیہ کے معنی حد سے زیادہ ‘ حسوما کے معنی پے درپے ‘ صرعیٰ کے معنی لاشیں ‘ اعجاز کے معنی درختوں کی جڑیں ‘ خاویہ کے معنی کھوکھلی ‘ موتفکات کے معنی قوم لوط کی الٹی ہوئی بستیاں ‘ رابیہ کے معنی سخت ‘ طغی الماء کے معنی قوم عاد کی ہوا کی طرح حد سے گزرا ہوا پانی ‘ معتبر مفسروں ٣ ؎ نے لکھا ہے کہ دنیا کے اونچے اونچے پہاڑوں سے وہ پانی پندرہ گزر اونچا تھا۔ حملنا کم فی الجاریہ کے یہ معنی ہیں کہ تمہارے بڑوں کو کشتی میں بٹھا کر طوفان سے بچایا۔ اس وقت تم ان اپنے بڑوں کو پشت میں نطفہ کی حالت میں موجود تھے اور یہ اس لئے کیا گیا کہ پشت در پشت پچھلوں سے اگلے یہ طوفان کا قصہ اور قوموں کے اس طرح کے قصے سن کر عبرت پکڑیں ‘ یہ سب قصے کئی جگہ گزر چکے ہیں اس لئے پھر پہاں ان کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں خیال کی گئی۔ (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی ذھاب العلم ص ١٠٥ ج ٢۔ ) (١ ؎ ابو داؤود کتاب العلم۔ باب فی طلب العلم لغیر اللہ ج ٢۔ ) (٢ ؎ الترغبو والترہیب الترھیب من تعلم العلم لغیر وجہ اللہ ص ١٢٨ ج ١۔ ) (٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢٦٠ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(69:1) الحاقۃ : حق ہونے والی، ثابت ہونے والی۔ حق باب ضرب، نصر۔ مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث یہاں روز قیامت مراد ہے۔ قیامت کو الحاقۃ اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا واقع ہونا ایک مسلمہ حقیقت اور اٹل صداقت ہے۔ مبتدا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 مراد قیامت ہے اسے ” حق ہونیوالی “ اس لئے فرمایا گیا کہ اس کا اور اس میں جزا و سزا کا واقع ہونا حقیقت ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الحاقہ۔ آیات ١ تا ٣٧۔ اسرار ومعارف۔ دنیا کا عذاب آخرت کا پرتو ہے۔ کیاخبر بھی ہے کہ وہ ہونے والی چیز یعنی قیامت کس قدر ہولناک ہے اور اس میں کفار کے ساتھ کیا سلوک ہوگاجب کہ انکار وکفر کے سبب ثمود اور عاد جیسی مضبوط اور طاقتور قوموں پر دنیا میں ایسے سخت عذاب آئے۔ ثمود پر ایسی ہولناک آواز مسلط کی گئی جس نے انہیں تباہ کردیا اور عاد پر تند ہوا جو سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی اور سخت ٹھنڈی بھی تھی اس نے انہیں پٹک پٹک کر ہلاک کردیا پس ان کی لاشیں بکھری پڑی تھی جیسے کھجوروں کے تناور تنے گرے پڑے ہوتے ہیں اور ان میں کوئی بھی باقی نہ بچا۔ دنیاکا عذاب دراصل آخرت کے عذاب کا پر توہوتا ہے اگر وہ اس قدر شدید ہے تو اصل عذاب جو آخرت میں واقع ہوگا کیسا ہوگا۔ اسی طرح فرعون نے اور اس سے پہلے لوط (علیہ السلام) کی بستیوں میں رہنے والوں اور دیگراقوام نے غلط راستہ اختیار کیا کہ جب ان کے پاس اللہ کے رسول آئے تو ان کی اطاعت سے انکار کردیا لہذا اللہ نے ان پر بہت سخت عذاب نازل فرمایا اور وہ تباہ وبرباد ہوگئے مگر ایمان کی برکات اور اطاعت رسول کا اثر ہر مقام پر نظر آیا کہ یہ لوگ محفوظ رہے حتی کہ نوح (علیہ السلام) کا طوفان آیاساری دنیاغرق ہوگئی مگر اللہ کے رسول (علیہ السلام) کے اطاعت گزاروں کو ہی نے کشتی میں ہم نے سوار کردیا کہ بعد والوں کے لی عبرت اور نصیحت کا سبب ہو اور اسے یادرکھاجائے۔ صورپھونکنا۔ جب قیامت کے قیام کے لیے صور پھونکاجائیگا تو اس کی شدت کا یہ حال ہوگا کہ زمین اپنی جگہ سے اٹھ اٹھ جائے گی اور پہاڑ الگ ہوہوکر زمین سے ٹکرائیں گے اور یوں ہر شے ریزہ ریزہ ہوجائے گی ۔ احادیث مبارکہ کے مطابق یہ دوبارہوگانفخہ اولی جس سے اول ہر ذی روح مرجائے گا ، پھر زمین آسمان پھٹ جائیں گے اور دوبارہ نفخہ ثانی جس سے ہر کوئی زندہ ہوکرمیدان حشر میں جمع ہوگا۔ تب یہ روز قیامت کا ہوگا اور اس کے واقع ہونے کا کہ آسمان پھٹ پڑیں گے اور زمین آسمان کی ہر شے تباہ ہوجائے گی اب آسمان جس قدر مضبوط ہیں اس روز اتنے ہی کمزور نظر آئیں گے کہ پھٹ کر تباہ ہوجائیں گے اور فرشتے کناروں تک بڑھتے چلے جائیں گے کہ جیسے جیسے پھٹتا جائے گا اور بالآخر سب تباہ ہو کر فرشتوں پر بھی موت آجائے گی۔ عرش کیا ہے اور کیا کیفیت ہوگی۔ اور پھر نفخہ ثانیہ کی بات ہے کہ عرش الٰہی کو آٹھ فرشتے اٹھائیں ہوئے ہوں گے مخلوق زندہ ہوکر پیش ہوگی عرش الٰہی کیسا ہوگا اور کس طرح فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اس کی کیفیات میدان حشر میں پتہ چلیں گے یہاں مادی دنیا میں عقل کی رسائی سے بالاتر ہے لہذا سلف صالحین کا طریقہ یہ ہے ایمان لایاجائے کہ جو اس سے مراد ہے وہ حق ہے۔ اطاعت کی برکات۔ اور پھر سب کے اعمال کو جانچاجائے گا کوئی بھی کچھ چھپانہ سکے گا ہاں جس کو اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں پکڑا گیا کہ اطاعت گزاروں کو دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا ، تو وہ بہت خوش ہوں گے یعنی اطاعت رسول کی برکت کا کمال کہ قیامت کی ہولناکی میں بھی اسے پر مسرت لمحات نصیب ہوں گے اور وہ خوشی سے دوسروں کو دکھاتاپھرے گا کہ لوپڑھو یہ میرا اعمال نامہ ہے مجھے تو امید تھی کہ مجھے بہت کچھ ملنے والا ہے یعنی اسی امید پر تو دنیا میں دین قائم رہا اور اس شخص کو من پسند عیش جنت میں حاصل ہوں گے جہاں ہمیشہ شاخیں پھلوں سے جھکی رہتی ہیں کہ ہمیشہ ہمیشہ بہار ہے اور کہاجائے گا کہ جس قدر دنیا میں مجاہدہ کیا اور اطاعت کی اب یہاں موج سے رہو اور کھاؤ پیو یہ سب تمہاری خاطر ہے دوسری طرف جس کو اس کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا گیا کہ نافرمانوں کو بائیں ہاتھ میں تھمادیاجائے گا تو وہ حسرت سے کہے گا کہ اے کاش کبھی یوم حساب نہ آتا اور مجھے اعمال نامہ نہ ملتا اور مجھے میرے انجام کا پتہ ہی نہ ملتا اے کاش موت عدم کا نام ہوتا کہ مر کرہرشے ختم ہوجاتی ، آج میرا مال وزر جس کی خاطر اطاعت سے محروم رہا یا میرے کام نہ آیا اور میری طاقت اور شان و شوکت سب برباد ہوگئی۔ باطل نظام معیشت کا اثر۔ حکم ہوگا کہ اسے پکڑ کر اس کی گردن میں طوق ڈال دو اور اسے دوزخ میں پھینک کر دوزخ کی زنجیروں میں پرو دو کہ یہ اللہ کی عظمت پہ ایمان نہ لاتا تھا اور اس کی دنیا میں اپنی پسند نافذ کیے ہوئے تھا ، اسے ان غرباکاخیال تک نہ تھا جو اس کے ماتحت آگئے تھے لہذا آج یہاں کسی کو اس کی پرواہ نہیں نہ کوئی اس کادوست ہے اور آج اس کے دوزخیوں کے زخموں سے بہنے والی پیپ کھانے کو ملے گی دنیا میں غرباء کا حق کھاتا تھا لہذا خطاکاروں اور ایسے مالی نظام کے چلانے والوں کو جس سے غریب کے حق پہ عیش کرتے ہیں دوزخ میں یہی غذا ملے گی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ الحاقۃ۔ سچ مچ ہونے والی۔ یقینی۔ القارعۃ۔ کوٹنے والی۔ اھلکوا۔ ہلاک کئے گئے۔ الطاغیۃ۔ زلزلہ۔ صرصر۔ زبردست آندھی۔ عاتیۃ۔ قابو سے باہر۔ سبع لیال۔ سات رات۔ ثمینۃ آیام۔ آٹھ دن۔ حسوما۔ متواتر۔ مسلسل۔ صرعی۔ اوندھے پڑے ہوئے۔ اعجاز نخل ۔ تنے کھجور کے۔ خاویۃ۔ کھوکھلے۔ تشریح : قرآن کریم میں قیامت کے بتہ سے نام آئے ہیں ” حاقہ “ بھی قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ قیامت کفار کے لئے ایک ہولناک دن بھی ہے اس لئے اس کی طرف پوری توجہ دلانے کے لئے سوالیہ انداز اختیار فرمایا۔ حاقہ ایک ایسی سچائی ہے جس کا آنا اور واقع ہونا یقینی ہے۔ قیامت کے دن پر یقین رکھنے والا ذہنی پستی، اخلاقی بگاڑ اور گناہوں کی دلدل میں نہیں پھنس سکتا۔ آخرت کا یقین، انسان کے کردار کی بلندی اور اس کی نجات کی ضمانت ہے۔ جس قوم نے بھی آخرت اور قیامت کا انکار کیا اس نے اپنی دنیا کو اپنے ہاتھوں برباد کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بہت زبردست اور ترقی یافتہ قوموں قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے جب اللہ و رسول اور آخرت کو جھٹلایا اور نافرمانیوں کی انتہا کردی تو ان پر اس طرح عذاب آیا کہ آج وہ صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ قوم عاد جس نے دنیا پر سیکڑوں سال بڑی شان سے حکومت کی۔ ہر طرف خوش حالی، سرسبزی و شادابی، تجارتی پھیلائو، مال و دولت کی ریل پیل، سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال، اعلیٰ ترین رہائش گاہیں تھیں ان چیزوں نے انہیں غرور وتکبر کا مجسمہ بنا کر رکھ دیا تھا وہ کہتے تھے کہ ہم سے زیادہ طاقت ور کوئی نہیں ہے۔ لیکن ان کی ذہنی پستی اور کفرو شرک کا یہ حال تھا کہ وہ بےحقیقت معبودوں کو اپنا مشکل کشا مان کر اسن کے سامنے جھک کر اپنی مرادوں کو مانگتے تھے۔ عیاشی اور گناہوں کی زندگی اختیار کرنے کی وجہ سے وہ اخلاقی بگاڑ کی انتہاؤں تک پہنچ چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی اصلاح کے لئے اپنے پیغمبر حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا۔ جنہوں نے نے غرور وتکبر اور گناہوں میں مبتلا قوم کو بتایا کہ اس کائنات میں ساری طاقت و قوت اللہ رب العالمین کی ہے۔ وہی اس کائنات کا خالق ومالک ہے۔ وہ اپنی ذات میں یکتا اور واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب اس پورے جہان کو توڑ دیا جائے گا اور پھر میدان حشر میں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کی باتیں سن کر وہ مذاق اڑاتے اور ان کی اطاعت سے انکار کرتے۔ ان کو طرح طرح سے ستاتے۔ جب اس قوم نے نافرمانی کی انتہا کردی تب اللہ نے ان پر عذاب مسلط کردیا۔ سات رات اور آٹھ دن تک ایسی زبردست طوفانی ہوائیں بھیجیں جن سے ان کی بنیادوں کو اکھاڑ کر رکھ دیا۔ اس قوم اور اس کی ترقیات کو اس طرح مٹا دیا گیا کہ پھر کوئی چیز باقی نہ بچ سکی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ بدھ کے دن سے اگلے بدھ کی شام تک ایک مسلسل طوفان تھا جس نے ان کے مکانات اور ترقیات کو ریزہ ریزہ کردیا اور کھجور کے کھوکھلے تنوں کی طرح ان کی لاشیں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں۔ اسی طرح قوم ثمود جنہوں نے پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر اس زمانہ میں بیس بیس منزلہ عمارتیں بنائیں جس زمانہ میں دو منزلہ مکان بنانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انہوں نے دنیاوی اسباب اور تہذیب و تمدن کے بنانے میں زبردست محنتیں کیں لیکن وہ قوم بھی کفر وشرک میں مبتلا ہو کر آخر کے ہر تصور سے محروم تھی۔ ان کی اصلاح کے لئے اللہ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو بھیجا۔ انہوں نے دن رات اس قوم کو سمجھایا مگر وہ کھلی ا انکھوں سے معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے۔ جب حضرت صالح کو اور آخرت کو جھٹلایا تو قوم ثمود کو تیز بارشوں، ہیبت ناک کڑکے اور زلزلے سے تباہ و برباد کردیا گیا۔ اللہ کا نظام اور دستور یہ ہے کہ جو بھی اللہ ورسول کی نافرمانی کرتا ہے وہ دنیاوی طاقت و قوت میں کتنی بھی ترقی کیوں نہ کرلے آخر کار اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے تباہ و برباد کردیا جاتا ہے اور جو اللہ پر اس کے رسول پر ایمان لا کر عمل صالح اختیار کرتا ہے اور آخرت پر اس کا یقین ہے تو اللہ اس کو دنیا میں سربلندی اور آخرت میں نجات کی خوش خبری عطا فرماتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس سورة میں مجازات کی تحقیق اور اس کا وقت اور واقعات مذکور ہیں، اور ختم پر حقانیت قرآن کا بیان ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : سورة القلم کے آخر میں قیامت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس دن منکرین کے لیے ذلّت اور رسوائی ہوگی۔ سورة الحاقہ کی ابتدا میں قوم ثمود، قوم عاد اور آل فرعون کی ذلّت کا ذکر کرنے کے بعد قیامت کی ہولناکیوں کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جس طرح یہ لوگ دنیا میں ذلیل ہوئے اس سے بڑھ کر آخرت میں ذلیل ہوں گے۔ ” اَلْحَاقَّۃُ “ ہر صورت واقع ہونے والی ہے، واقع ہونے والی کیا ہے ؟ آپ نہیں جانتے کہ واقعہ ہونے والی کیا ہے ؟ ” اَلْحَاقَّۃُ “ کا لفظ حق سے نکلا ہے۔ اس سے مراد قیامت ہے جس کا معنٰی ہے کہ اس کا واقع ہونا ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے۔ اس لیے وہ یقین بالیقین اپنے وقت پر واقع ہوکر رہے گی مفسرین نے ” اَلْحَاقَّۃُ “ کا یہ بھی مفہوم لیا ہے کہ اس دن حساب و کتاب کا ہونا برحق ہے جس میں سچ اور جھوٹ، حق اور باطل نیک اور بد کی جزا و سزا کا فیصلہ ہونا شک وشبہ سے بالا تر ہے اس لیے اسے ” اَلْحَاقَّۃُ “ کہا گیا ہے کیونکہ اس کا واقع ہونا یقینی ہے۔ وہ کب واقع ہوگی ؟ اس کا علم عام لوگوں کو تو درکنار انبیاء اور نبی آخر الزّمان (علیہ السلام) کو بھی نہیں تھا کہ وہ کب اور کس سال واقع ہوگی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب یہ سوال کیا گیا کہ قیامت کب قائم ہوگی تو آپ نے یہی فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ قیامت کب واقع ہوگی یعنی کون سے سال، کس مہینے اور اس کے کون سے جمعہ کو واقع ہوگی انسان کا کام اس کی تیاری کرنا ہے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سائل کے جواب میں اسے توجہ دلائی کہ قیامت کی تاریخ جاننے کی بجائے اس کے حساب و کتاب کی فکر کرو۔ ” حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے۔ ہمارے پاس ایک ایسا شخص آیا کہ جس کا لباس بالکل سفید اور بال نہایت ہی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کے اثرات دکھائی نہیں دیتے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی اسے پہچان نہ سکا وہ آتے ہی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھٹنوں کے ساتھ گھٹنے ملاکر اور اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں پر رکھتے ہوئے آپ سے استفسار کرنے لگا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے قیامت کے بارے میں بتلایا جائے۔ آپ نے فرمایا جس سے قیامت کے متعلق پوچھا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا پھر اس نے کہا مجھے اس کی نشانیوں سے ہی آگاہ فرمائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب لونڈی اپنے آقا کو جنم دے گی، تم دیکھو گے ننگے پاؤں ننگے جسم نہایت غریب بکریوں کے چرواہے بڑے بڑے محلات بنانے پر فخر کریں گے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں جب وہ چلے گئے تو میں کچھ دیر آپ کے پاس ٹھہرا رہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے سے پوچھا اے عمر ! آپ جانتے ہیں کہ یہ سوال کرنے والا کون تھا ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا یہ جبریل امین تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھلانے کے لیے آئے تھے۔ (رواہ البخاری : باب سُؤَالِ جِبْرِیل النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الإِیمَانِ وَالإِسْلاَمِ وَالإِحْسَانِ وَعِلْمِ السَّاعَۃِ ) (وَعَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَجُلاً قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَتَی السَّاعَۃُ قَالَ وَیْلَکَ وَمَا اَعْدَدْتَ لَھَا قَالَ مَا اَعْدَدْتُّ لَھَا اِلَّا اَنِّیْ اُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ قَالَ اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ قَالَ اَنَسٌ فَمَا رَاَیْتُ الْمُسْلِمِیْنَ فَرِحُوْا بِشَیءٍ بَعْدَ الْاِسْلَامِ فَرَحَھُمْ بِھَا .) (رواہ البخاری : باب مَنَاقِبُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِی حَفْصٍ الْقُرَشِیِّ الْعَدَوِیِّ ، رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ قیامت کب آئے گی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تجھ پرا فسوس تو نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں تو صرف اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تو اسی کے ساتھ ہوگا، جس سے محبت کرے گا۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں میں نے مسلمانوں کو دیکھا، وہ اسلام لانے کے بعد کسی بات پر اتنے خوش نہیں ہوئے جتنے اس بات پر خوش ہوئے تھے۔ “ ” حضرت ابوہریرۃ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ دنوں میں سب سے بہتر دن جمعہ کا دن ہے اس دن آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا اسی دن ان کو جنت میں داخلہ ملا اور جمعہ کو ہی دن ان کا جنت سے اخراج ہوا۔ اور اسی دن قیامت برپا ہوگی۔ “ (رواہ مسلم : باب فَضْلِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ ) مسائل ١۔ قیامت اپنے وقت پر ہر صورت واقع ہوگی۔ ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی نہیں جانتے تھے کہ قیامت کون سے سال اور اس کے کون سے مہینے میں اور کونسے جمعہ کو واقع ہوگی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا قیامت کے وقت کو کوئی نہیں جانتا : ١۔ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ (الزخرف : ٦٨) (الاعراف : ١٨٧) (الزخرف : ٨٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس سورت کا موضوع اور محور ہولناک مشاہد قیامت ہیں۔ آغاز بھی قیامت کے ایک نام سے ہے اور نام بھی اس سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ نام قیامت کے واقعات کا اظہار اپنے تلفظ اور مفہوم دونوں سے کرتا ہے۔ الحاقہ اس آفت کو کہا جاتا ہے جس کا آنا ٹھہر گیا ہو۔ وہ حق ہوچکی ہو اور اس کا نزول لازمی ہوگیا ہو اور جس نے ہونا ہو اور اٹل ہو۔ یہ سب مفہوم ایسے ہیں کہ جن کے اندر قطعیت ، جزم ، شدنی کا مفہوم ہے۔ لہٰذا قیامت کے لئے اس لفظ کا استعمال سورت کے موضوع اور مضمون کے ساتھ نہایت ہی مناسب ہے۔ پھر اس لفظ کے تلفظ کے اندر بھی وہ اشارہ موجود ہے ، جو بات اس کے مفہوم میں ہے اور آگے سورت میں جو فضا بیان ہوئی ہے اس کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے۔ نیز تکذیب کرنے والوں کا دنیا وآخرت میں جو انجام ہونے والا ہے اس کے لئے لفظ الحاقہ حق ہے اور برحق ہے۔ پوری سورت کی فضا نہایت سنجیدہ اور قطعیت کی فضا ہے اور خوفناک فضا ہے۔ ایک طرف تو اس میں قدرت الٰہیہ کی ہیبت ناکیاں ہیں۔ اور دوسری جانب اس میں اس انسان کی ، اس قدرت الٰہیہ کے سامنے بےبسیاں ہیں اور پھر ان کے ساتھ اس کی خرمستیاں ہیں اور جب وہ اللہ کی شدید گرفت میں آتا ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت کے مناظر میں بھی ، اس دنیا میں اس وقت جب یہ اسلامی نظام کو رد کرکے رسولوں کی تکذیب کرتا ہے ، تو اللہ کی شدید پکڑ میں آتا ہے اور اس گرفت اور پکڑ کے پھر کئی رنگ ہیں اور ہر رنگ دوسرے سے خوفناک ہے۔ اس لئے کہ یہ اس دنیا میں شتر بےمہار نہیں چھوڑا گیا تھا۔ نہ اس لئے کہ یہاں یہ کچھ اور بن جائے۔ بلکہ اس کا فریضہ یہ تھا کہ رسولوں کا احترام کرے اور ان کی اطاعت کرے۔ اس پوری سورت کے الفاظ ، اپنے تلفظ ، ترنم ، اپنے مفہوم ، اپنے اجتماع اور ترکیب کے لحاظ سے یہ فضا بنانے میں شریک ہیں۔ سورت کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ ایک مفرد کلمہ لایا جاتا ہے۔ یہ متبدا ہے اور اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔ الحاقة (٩٦ : ١) اس کے بعد اس عظیم حادثہ کے بارے میں ایک بھر پور خوفناک اور ہولناک سوال اور استفہام ہے۔ ما الحاقة (٩٦ : ٢) ” کیا ہے ، یہ واقعہ “ تمہیں اس کا کیا پتہ ہے کہ یہ کس قدر ہولناک ہوگا۔ اس کے بعد خود ہی بتادیا جاتا ہے کہ تمہیں کچھ پتہ نہیں ہے کہ یہ کس قدر ہیبت ناک واقعہ ہوگا ؟ مخاطب کو لاعلم اور جاہل بنا کر اور بتا کر اس کے ہول اور خوف کو دوچند کردیا گیا اور اس کے بعد مزید خوفناک بات یہ ہے کہ کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔ کوئی وضاحت ابھی نہیں کی جاتی تاکہ خوف اور ہراس کی یہ فضا ذرا دیر تک قائم رہے۔ انسان سوچے کہ کوئی بہت بڑا واقعہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں ہے اور نہ بتایا جارہا ہے۔ کیا ہی محیرالعقول انداز ہے ! اس سوال کو یہاں چھوڑ کر مکذبین کو لیا جاتا ہے۔ جن پر اس دنیا میں قیامت گزر گئی جو پیس کر رکھ دیئے گئے۔ بہت ہی ناقابل انکار ، سنجیدہ واقعات ، کوئی شخص ان واقعات کی تکذیب پر اصرار نہیں کرسکتا۔ الحاقة (٩٦ : ١) کے بعد قیامت کا دوسرا نام آتا ہے القارعة۔ یہ نام الحاقة (٩٦ : ١) سے بھی سخت۔ الحاقہ تو وہ واقعہ جو ہونی شدنی ہے اور القرع کے معنی ہیں۔ ایک سخت چیز کو دوسری اس قسم کی سخت چیز پر مارنا اور قیامت کے قیام کو القارعة اسی لئے کہا گیا ہے ، اس کی وجہ سے دلوں پر ہولناک اور خوفناک ضربات پڑیں گی اور یہ پوری کائنات توڑ پھوڑ کر شکار ہوجائے گی۔ لفظ القارعة بھی اپنے تلفظ ، اپنی سخت آواز کی وجہ سے ٹکراتا ، مارتا اور دلوں کے اندر جزع وفزع پیدا کرتا ہے۔ عاد اور ثمودنے اس ہونی شدنی کا انکار کیا ، اس کھڑکھڑاکر ٹوٹ پڑنے والی آفت یعنی قیامت کا انکار کیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کھڑکھڑانے والی چیز (یعنی قیامت) کو جھٹلانے والوں کی ہلاکت یہاں سے سورة الحاقۃ شروع ہو رہی ہے الحاقۃ حق یحق سے اسم فاعل ہے جس کا ترجمہ ہے واقع ہونے والی چیز یعنی جس کا وجود میں آجانا ضروری ہے وہ ٹل نہیں سکتی، اس سے قیامت مراد ہے قرآن مجید میں اس کے کئی نام آئے ہیں ان میں سے ایک القارعۃ بھی ہے جو اس سورت کی چوتھی آیت میں مذکورہ ہے علماء نحو نے فرمایا ہے الحاقة مبتدا ہے اور ما الحاقة خبر ہے۔ طرز بیان ایسا اختیار فرمایا ہے جس سے قیامت کی اہمیت ظاہر ہوجائے ارشاد فرمایا کہ کیسی چیز ہے وہ ہوجانے والی اور اے مخاطب تجھے کیا خبر ہے کہ وہ ہوجانے والی چیز کیا ہے ؟ یعنی وہ بڑی چیز ہے اس دن کی پیشی کے لیے فکر مند ہونا لازم ہے۔ جتنے بھی انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لائے ان کی بنیادی دعوت تین چیزوں پر ایمان لانے کی تھی : (١) توحید (٢) رسالت (٣) معاد یعنی وقوع قیامت قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) اور قوم عاد کی طرف ھود (علیہ السلام) معبوث ہوئے تھے ان لوگوں نے اپنے اپنے پیغمبر کی دعوت کو نہیں مانا، وقوع قیامت کو جھٹلایا لہٰذا عذاب میں پکڑے گئے اور ہلاک کیے گئے اسی کو فرمایا ﴿ كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَ عَادٌۢ بِالْقَارِعَةِ ٠٠٤﴾ (ثمود اور عاد نے کھڑکھڑانے والی چیز یعنی قیامت کو جھٹلایا) ﴿ فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا بالطَّاغِيَةِ ٠٠٥﴾ (سو قوم ثمود کے لوگ طاغیہ یعنی سخت چیخ کے ذریعے ہلاک کیے گئے جو اپنی شدت میں حد سے بڑھی ہوئی تھی (یہ سخت ترین چیخ تھی جس کے ذریعہ ہلاک کیے گئے) ۔ ﴿ وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِيْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍۙ٠٠٦﴾ (اور عاد کو ٹھنڈی تیز ہوا سے ہلاک کیا گیا) ﴿سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَّ ثَمٰنِيَةَ اَيَّامٍ ١ۙ حُسُوْمًا ﴾ (اللہ تعالیٰ نے اس تیز ہوا کو ان پر سات رات اور آٹھ دن لگاتار مسلط رکھا) ۔ اسی کو سورة ٴ حم السجدہ میں یوں بیان فرمایا ہے ﴿فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْۤ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيْقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ١ؕ وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَ هُمْ لَا يُنْصَرُوْنَ ٠٠١٦﴾ (سو ہم نے ان پر ایک سخت تیز ہوا منحوس دنوں میں بھیج دی تاکہ ہم انہیں دنیا والی زندگی کی ذلت کا عذاب چکھائیں اور البتہ آخرت کا عذاب بہت زیادہ رسوا کرنے والا ہے اور ان کی مدد نہیں کی جائے گی) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” الحاقہ “ وہ آفت جو سچ مچ آنے والی ہے اور اس پر آنے والی ہے جو اس کا مستحق ہے اور جس کے آنے میں کوئی شک نہیں، وہ کیا ہے ؟ اور تجھے کون بتائے وہ کس قدر ہولناک ہے ؟ اس کے بعد تخویف دنیوی کے نمونے ذکر کیے گئے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) روز قیامت۔