Surat ul Haaqqaa

Surah: 69

Verse: 13

سورة الحاقة

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ نَفۡخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ﴿ۙ۱۳﴾

Then when the Horn is blown with one blast

پس جبکہ صور میں ایک پھونک پھونکی جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A Mention of the Horrors of the Day of Judgement Allah informs, فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ Then when the Trumpet will be blown with one blowing, Allah informs of the horrors that will take place on the Day of Judgement. The first of these events is the blowing of fright (into the Trumpet), which will be followed by the blowing of destruction when everyone in the heavens and the earth will be struck down except whoever Allah wills. Then, after this will be the blowing of standing before the Lord of all that exists, and the resurrection, and the gathering. And this is that blowing. It is emphasized here that it is one blowing, because the command of Allah cannot be opposed or prevented, and it does not need to be repeated or stressed. Thus, Allah goes on to say, وَحُمِلَتِ الاَْرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً

آواز کا بم صور اسرافیل قیامت کی ہولناکیوں کا بیان ہو رہا ہے جس میں سب سے پہلے گھبراہٹ پیدا کرنے والی چیز صور کا پھونکا جانا ہو گا جس سے سب کے دل ہل جائیں گے پھر نفخہ پھونکا جائے گا جس سے تمام زمین و آسمان کی مخلوق بیہوش ہو جائے گی مگر جسے اللہ چاہے پھر صور پھونکا جائے گا جس کی آواز سے تمام مخلوق اپنے رب کے سامنے کھڑی ہو جائے گی یہاں اسی پہلے نفخہ کا بیان ہے ۔ یہاں بطور تاکید کے یہ بھی فرمایا کہ یہ اٹھ کھڑے ہونے کا نفخہ ایک ہی ہے اس لئے کہ جب اللہ کا حکم ہو گیا پھر نہ تو اس کا خلاف ہو سکتا ہے نہ وہ ٹل سکتا ہے نہ دوبارہ فرمان کی ضرورت ہے اور نہ تاکید کی ، امام ربیع فرماتے ہیں اس سے مراد آخری نفخہ ہے لیکن ظاہر قول وہی ہے جو ہم نے کہا ، اسی لئے یہاں اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ زمین و آسمان اٹھا لئے جائیں گے اور کھال کی طرح پھیلا دیئے جائیں گے اور زمین بدل دی جائے گی اور قیامت واقع ہو جائے گی ۔ حضرت علی فرماتے ہیں آسمان ہر کھلنے کی جگہ سے پھٹ جائے گا ، جیسے سورہ نبا میں ہے آیت ( وَّفُتِحَتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا 19؀ۙ ) 78- النبأ:19 ) یعنی آسمان کھول دیا جائے گا اور اس میں دروازے کھول دیے جائیں گے ، ابن عباس فرماتے ہیں آسمان میں سوراخ اور غاریں پڑ جائیں گی اور شق ہو جائے گی عرش اس کے سامنے ہو گا فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے جو کنارے اب تک ٹوٹے نہ ہوں گے اور دوازوں پر ہوں گے آسمان کی لمبائی میں پھیلے ہوئے ہوں گے اور زمین والوں کو دیکھ رہے ہوں گے ۔ پھر فرمایا قیامت والے دن آٹھ فرشتے اللہ تعالیٰ کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے ، پس یا تو مراد عرش عظیم کا اٹھانا ہے یا اس عرش کا اٹھانا مراد ہے جس پر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کے فیصلوں کے لئے ہو گا واللہ اعلم بالصواب ۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ فرشتے پہاڑی بکروں کی صورت میں ہوں گے ، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی آنکھ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا ایک سو سال کا راستہ ہے ، ابن ابی حاتم کی مرفوع حدیث میں ہے کہ مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں تمہیں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک کی نسبت خبر دوں کہ اس کی گردن اور کان کے نیچے کے لَو کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ اڑنے والا پرندہ سات سو سال تک اڑتا چلا جائے ، اس کی اسناد بہت عمدہ ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں ، اسے امام ابو داؤد نے بھی اپنی سنن میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا ، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس سے مراد فرشتوں کی آٹھ صفیں ہیں اور بھی بہت سے بزرگوں سے یہ مروی ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اعلیٰ فرشتوں کے آٹھ حصے ہیں جن میں سے ہر ایک حصہ کی گنتی تمام انسانوں جنوں اور سب فرشتوں کے برابر ہے ۔ پھر فرمایا قیامت کے روز تم اس اللہ کے سامنے کئے جاؤ گے جو پوشیدہ کو اور ظاہر کو بخوبی جانتا ہے جس طرح کھلی سے کھلی چیز کا وہ عالم ہے اس طرح چھپی سے چھپی چیز کو بھی وہ جانتا ہے ، اسی لئے فرمایا تمہارا کوئی بھید اس روز چھپ نہ سکے گا ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے لوگو اپنی جانوں کا حساب کر لو اس سے پہلے کہ تم سے حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندازہ کر لو اس سے پہلے کہ ان اعمال کا وزن کیا جائے تاکہ کل قیامت والے دن تم پر آسانی ہو جس دن کو تمہارا پورا پورا حساب لیا جائے گا اور بڑی پیشی میں خود اللہ تعالیٰ جل شانہ کے سامنے تم پیش کر دیئے جاؤ گے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن لوگ تین مرتبہ اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے پہلی اور دوسری بار تو عذر معذرت اور جھگڑا بحث کرتے رہیں گے لیکن تیسری پیشی جو آخری ہو گی اس وقت نامہ اعمال اڑائے جائیں گے ، کسی کے دائیں ہاتھ میں آئے گا اور کسی کے بائیں ہاتھ میں ، یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے حضرت عبداللہ کے قول سے بھی یہی روایت ابن جریر میں مروی ہے اور حضرت قتادہ سے بھی اس جیسی روایت مرسل مروی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 مکذبین کا انجام بیان کرنے کے بعد اب بتلایا جارہا ہے کہ یہ الحاقہ کس طرح واقع ہوگی اسرافیل کی ایک ہی پھونک سے یہ برپا ہوجائے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فاذا نفخ فی الصور نفخۃ واحدۃ…: قرآن مجید میں بعض مقامات پر پہلے نفخہ کے وقت پیش آنے والے واقعات ذکر کئے گئے ہیں، بعض پر دوسرے نفخہ کے وقتا ور بعض مقامات پر انہیں اکٹھا ہی ذکر کردیا گیا ہے۔ ان آیات میں بھی پہلے نفخہ سے لے کر دوسرے نفخہ کے بعد تک کے حالات بیان ہوئے ہیں، زمین اور پہاڑوں کے ٹوٹنے کا سلسلہ تو پہلے نفخہ کے وقت کا ہے اور آسمان کا پھٹنا، فرشتوں کا اس کے کناروں پر ہونا، عرش الٰہی کو آٹھ فرشتوں کا اٹھائے ہوئے ہونا، اللہ تعالیٰ کا میدان محشر میں نزول فرمانا اور سب بندوں کا حساب کتاب کے لئے پیش کیا جانا، یہ سب کچھ دوسرے نفخہ کے بعد کا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ‌ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ (Then, when the Trumpet will be blown for the first time…69:13). Tirmidhi records a Hadith on the authority of Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar (رض) that صور sur &trumpet& is a horn- like object which will be blown on Doomsday. نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ (&for the first time…69:13). It means that it will be a sudden and a single continuing sound that will last until all die. The texts of Qur&an and Sunnah show that the trumpet will be blown twice on the Day of Judgment. The first trumpet is called nafkhat-us-sa` aq &the trumpet of swoon&, in connection with which the Qur&an says: فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْ‌ضِ And all those in the heavens and all those in the earth will faint... [ 39:68] With this trumpet all angels residing in the heavens and all Jinns and human beings and animals residing on earth will become unconscious and fall to the ground. Whilst they are in the state of unconsciousness, they will die. The second trumpet is called nafkhat-ul-ba` th &trumpet of Resurrection&. The word bath means &to rise&. With this trumpet all the dead will rise from death and stand up. The Qur&an describes this situation thus: ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَ‌ىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُ‌ونَ Thereafter, it will be blown once again, and suddenly they will stand up, looking around. [ 39:68] In other words, then the trumpet will be blown a second time and at once they will be standing upright looking on. According to some narratives, a third &trumpet& will also be blown before the two trumpets, which is referred to as nafkhat-ul-faza` (&the trumpet of fright or panic). By a careful analysis of all the narratives and texts, it appears that the first trumpet in its initial stage is nafthat-ul-faza& and in its final stage it will become sa` aq &the trumpet of swoon or death&. [ Mazhari ]

(آیت) فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمر کی مرفوع حدیث ہے کہ صور کوئی سینگ (کی شکل کی کوئی چیز) ہے جس میں قیامت کے روز پھونکا جائے گا۔ نفختہ واحدة سے مراد یہ ہے کہ یکبارگی اچانک یہ صورت کی آواز ہوگی اور ایک آواز مسلسل رہے گی یہاں تک کہ اس آواز سے سب مر جائیں گے۔ قرآن و سنت کی نصوص سے قیامت میں صور کے دو نفخے ہونا ثابت ہیں پہلے نفخہ کو نفخہ صعق کہا جاتا ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں (آیت) فصعق من فی السموت ومن فی الارض ہے یعنی اس نفخہ سے تمام آسمان والے فرشتے اور زمین پر بسنے والے جن وانس اور تمام جانور بیہوش ہوجائیں گے (پھر اسی بیہوشی میں سب کو موت آجائے گی) دوسرے نفخہ کو نفخہ بعث کہا جاتا ہے بعث کے معنے اٹھنے کے ہیں اس نفخہ کے ذریعہ سب مردے پھر زندہ ہو کر کھڑے ہوجائیں گے جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے (آیت) ثم نفخ فیہ اخری فاذاھم قیام ینظرون، یعنی پھر صور دوبارہ پھونکا جائے گا جس سے اچانک سب کے سب مردے زندہ ہو کر کھڑے ہوجاویں گے اور دیکھنے لگیں گے۔ بعض روایات میں جو ان دونوں نفخوں سے پہلے ایک تیسرے نفخہ کا ذکر ہے جس کا نام نفخہ فزع بتلایا گیا ہے۔ مجموعہ روایات و نصوص میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلا نفخہ ہی ہے اسی کو ابتدا میں نفخہ فزع کہا گیا ہے اور انتہا میں وہی نفخہ صعق ہوجائے گا۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۝ ١٣ ۙ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ نفخ النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ( ن ف خ ) النفخ کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر/ 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔ صور الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران/ 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» وقوله تعالی: فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع . ( ص و ر ) الصورۃ : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣۔ ١٤) اور پھر جب صور میں ایک ہی بار پھونک مار دی جائے گی یعنی نفخہ اولی ہوگا تو اس وقت زمین پر جو عمارتیں اور پہاڑ ہیں وہ اپنی جگہ سے اٹھائے جائیں گے پھر دونوں ایک ہی دفعہ میں ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ { فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ۔ } ” تو جب صور میں پھونکا جائے گا یکبارگی۔ “ یعنی اس وقت کو یاد رکھو جب ایک ہی بار صور میں پھونک مار دی جائے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10 While reading the following verses one should keep in mind that at some places in the Qur'an the three stages of Resurrection which will occur one after the other at different times have been mentioned separately, and at others all the three have been combined and mentioned as a single event. For example, in Surah An-Naml: 87 the first blowing of the Trumpet has been mentioned, when everyone will be suddenly struck with terror. At that time they will witness the general confusion and the upsetting of the order of the universe, as described in Al-Hajj: 1-2, Ya Sin 49-50 and At-Takvir: 1-6. In Surah Az-Zumar: 67-70, mention has been made of the second and third blowing of the Trumpet. On the second blowing of it everyone will fall down dead, and when it is blown for the third time, all dead men will rise back to life and present themselves before Allah. In Ta Ha: 102-112, AI-Anbiya': 101-103, Ya Sin: 51-53 and Qaf: 20-22, only the third sounding of the Trumpet has been mentioned. (For explanation, see E.N. 78 of Ta Ha, E.N. 1 of AI-Hajj. E.N.'s 46, 47 of Ya Sin) . But here and at many other places in the Qur'an all the events of Resurrection, from the blowing of the first Trumpet till the people's entry into Heaven and Hell, have been described as a single event.

سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :10 آگے آنے والی بات کو پڑھتے ہوئے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید میں کہیں تو قیامت کے تین مراحل الگ الگ بیان کیے گئے ہیں جو یکے بعد دیگرے مختلف اوقات میں پیش آئیں گے ، اور کہیں سب کو سمیٹ کر پہلے مرحلے سے آخری مرحلے تک کے واقعات کو یکجا بیان کر دیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر سورہ نمل آیت 87 میں پہلے نفخ صور کا ذکر کیا گیا ہے جب تمام دنیا کے انسان یک لخت ایک ہولناک آواز سے گھبرا اٹھیں گے ۔ اس وقت نظام عالم کے درہم برہم ہونے کی وہ کیفیات ان کی آنکھوں کے سامنے پیش آئیں گی جو سورہ حج آیات 1 ۔ 2 ، سورہ یٰسین آیات 49 ۔ 50 اور سورہ تکویر آیات 1 ۔ 6 میں بیان ہوئی ہیں ۔ سورہ زمر آیات 67 تا 70 میں دوسرے اور تیسرے نفخ صور کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ایک نفخ پر سب لوگ مر کر گر جائیں گے اور اس کے بعد جب پھر صور پھونکا جائے گا تو سب جی اٹھیں گے اور خدا کی عدالت میں پیش ہو جائیں گے ۔ سورہ طٰہٰ آیات 102 تا 112 ، سورہ انبیاء آیات 101 تا 103 ، سورہ یٰسین آیات 51 تا 53 ، اور سورہ ق آیات 20 تا 22 میں صرف تیسرے نفخ صور کا ذکر ہے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، طٰہٰ ، حاشیہ 78 ۔ الحج ، حاشیہ 1 ۔ جلد چہارم ، یٰسین ، حواشی 46 ۔ 47 ) ۔ لیکن یہاں اور بہت سے دوسرے مقامات پر قرآن میں پہلے نفخ صور سے لے کر جنت اور جہنم میں لوگوں کے داخل ہونے تک قیامت کے تمام واقعات کو ایک ہی سلسلے میں بیان کر دیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٣۔ ١٨۔ یہ پہلے صور سے لے کر دوسرے صور سے بعد تک کا حال ہے زمین اور پہاڑوں کے ٹوٹنے پھوٹنے کا حال تو پہلے صور کے وقت کا ہے اور آسمان میں دروازے ہو کر اللہ تعالیٰ کا محشر کے میدان میں نزول فرمانا اور اس نزول کے وقت آٹھ فرشتوں کا عرش کو اٹھانا اور اس نزول کے بعد لوگوں کا حساب و کتاب کے لئے حاضر کیا جانا یہ دوسرے صور کے بعد کا حال ہے۔ معتبر سند سے طبرانی ١ ؎ میں حضرت عائشہ (رض) کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسرافیل اپنا ایک گھٹنا ٹیک کر اور دوسرا گھٹنا کھڑا کرکے صور پھونکنے کی حالت میں ہر وقت تیار اور حکم کے منتظر رہتے ہیں مستدرک حاکم میں صحیح سند سے حضرت عبد اللہ بن عباس کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کا عرش چار فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں اور قیامت کے دن چار اور بڑھا کر آٹھ فرشتے عرش اٹھائیں گے۔ ان فرشتوں کی صورت جنگلی بکرے جیسی ہے ‘ عرش ان کے کندھوں پر ہے اور ان کے پاؤں ساتویں زمین پر ہیں۔ دوسرے صور پر جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا ہے وہ سب بھولے ہوئے ہوں گے اس لئے اعمال کے یاد دلانے کی غرض سے پہلے ان کو ان کے اعمال نامے اس طرح دیئے جائیں گے کہ نیکوں کے دائیں ہاتھ میں اور بدوں کے پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں اور پھر حساب و کتاب کے لئے ان سب کو خدا تعالیٰ کے رو برو پیش کیا جائے گا۔ اسی پیشی کا ذکر ان آیتوں میں ہے اس دن امی اور پڑھے ہوئے سب اپنا اعمال نامہ پڑھ سکیں گے۔ صحیح ٢ ؎ مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ کے جن گناہوں کو دنیا میں لوگوں پر ظاہر نہیں فرمایا تاکہ لوگوں میں اس بندہ کی رسوائی نہ ہو اس کی ذات پاک سے امید ہے کہ وہ اپنے ایسے بندوں کو حساب کے وقت بھی رسوا نہ کرے گا۔ آیت و ما کان اللہ معذبھم وھو یستغفرون سے معلوم ہوتا ہے کہ کثرت استغفار اس طرح کی رحمت الٰہی کا بڑا سبب ہے۔ (١ ؎ الترغیب و الترہیب فصل فی النفخ فی الصور ص ٧٢٦ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب فی سعۃ رحمۃ اللہ للمومنین ص ٣٦٠ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(69:13) فاذا نفخ فی الصور نفخۃ واحدۃ : ف عاطفہ ، اذا ظرف زمان ہے، پھر جب۔ نفخ ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ نفخ (باب نصر) مصدر۔ بمعنی پھونکنا، پھونک مارنا۔ نفیخ۔ ڈھولچی، وہ شخص جس کے ذمہ پھونکنے کی خدمت ہو۔ نفخۃ ایک بار پھونک مارنا۔ الصور ترسنگہا۔ سینگ۔ شاخ۔ وہ چیز کہ جس کو حضرت اسرافیل (علیہ السلام) خلق کو مارنے اور جلانے کے لئے پھونکیں گے۔ نفخۃ واحدۃ مفعول مالم یسم فاعلہ۔ ترجمہ ہوگا :۔ پھر جب صور میں ایک بار پھونک مار دی جائے گی۔ فائدہ : آیات 5:20، 36:51، 18:99، میں نفخ سے مراد نفخۂ دوم ہے آیت 39:68: ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض میں نفخہ اول مراد ہے اور اسی آیت میں ثم نفخ فیہ اخری میں نفخہ دوم مراد ہے آیت زیر مطالعہ 69:13 میں نفخہ اول مراد ہے آیت 23:101 مختلف فیہ ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ نفخہ دوم مراد ہے۔ سعید بن جبیر (رح) تعالیٰ کی روایت میں حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک نفخہ اول مراد ہے اور عطاء کی روایت میں حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک نفخۃ دوم مراد ہے۔ (لغات القرآن)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 جیسا کہ پچھلیآیات کے تحت بیان کیا جا چکا ہے۔ صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا۔ پہلی مرتبہ اس وقت جب تمام مخلوقات فنا ہوجائے گی اور دوسرا اس وقت جب تمام لوگ زندہ ہو کر اپنی قبروں سے نکلیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم ثمود، قوم عاد اور آل فرعون کی ذلّت اور انجام ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ جو لوگ قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات اور نصائح توجہ کے ساتھ سنتے ہیں انہیں اس دن سے پہلے نصیحت حاصل کرنی چاہیے جس دن ایک ہی دفعہ صور پھونکنے سے ہر چیز الٹ پلٹ ہوجائے گی اور اس دن مجرموں کو زنجیروں کے ساتھ جکڑ دیا جائے گا۔ اس سورت کی ابتدا اس فرمان سے ہوئی ہے کہ قیامت ہر صورت واقع ہو کر رہے گی اور اس کے لیے ” اَلْحَاقَّۃُ “ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا ایک معنٰی یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کو ٹکرا کر ریزہ ریزہ کردینے والی۔ اب اسی کی تھوڑی سی تفصیل بیان کی جاری ہے۔ اسرافیل کے صورپھونکنے کی وجہ سے قیامت واقع ہوگی۔ جب اسرافیل پہلی مرتبہ صورپھونکے گا تو زمین میں اس قدر زلزلے واقع ہوں گے کہ پہاڑ آپس میں ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ یہاں قیامت کو ” اَلْحَاقَّۃُ “ کہا گیا ہے اور یہ ہر صورت واقع ہو کررہے گی۔ آسمان کے بندھن ٹوٹ جائیں گے اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیچے گرپڑے گا۔ دوسرے مقام پر قیامت کے پہلے مرحلے کے بارے میں یوں بیان کیا ہے۔ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کب واقع ہوگی ؟ فرمادیں اس کا علم میرے رب کے پاس ہے اسے اس کے وقت پر ” اللہ “ کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا قیامت آسمانوں اور زمین پر بھاری واقع ہوگی اور تم پر اچانک ہی آئے گی۔ “ (الاعراف : ١٨٧) ” لوگو ! اپنے رب سے ڈرو حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑا ہولناک ہے۔ اس دن تم دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو پھینک دے گی ہر حاملہ کا حمل گرجائے گا اور دیکھنے والے دیکھیں کہ لوگ مدہوش نظر آئیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اس دن اللہ کا عذاب بہت سخت ہوگا۔ “ (الحج : ١، ٢) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ ، فَذَلِکَ حینَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ ، أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہِ وَلاَ یَطْوِیَانِہِ ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہِ فَلاَ یَطْعَمُہُ ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَہْوَ یَلِیطُ حَوْضَہُ فَلاَ یَسْقِی فیہِ ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أُکْلَتَہُ إِلَی فیہِ فَلاَ یَطْعَمُہَا) (رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ کَہَاتَیْنِ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت نہیں قائم ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کر سب کے سب لوگ ایمان لے آئیں گے لیکن اس وقت ان کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جو اس سے قبل نہ ایمان لایا اور نہ اس نے نیک اعمال کیے۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا دکاندار کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، حوض پر پہنچنے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، انسان اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ “ مسائل ١۔ اسرافیل جب پہلا صورپھونکے گا تو زمین میں زلزلے ہوں گے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ ٢۔ آسمان کے بندھن ڈھیلے ہوجائیں گے اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرپڑے گا۔ ٣۔ قیامت ہر صورت واقع ہوگی اور پہاڑریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور آسمان پھٹ جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن اسرافیل کے پہلے صور کے بعد ہونے والے واقعات کی ایک جھلک : ١۔ پہلے نفخہ سے لوگ بےہوش ہوجائیں گے، اور دوسرے نفخہ سے تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ (الزّمر : ٦٨) ٢۔ ایک چیخ سے ہی تمام لوگ ہمارے سامنے حاضر ہوجائیں گے۔ (یٰس : ٥٣) ٣۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تم گروہ در گروہ چلے آؤ گے۔ (النبا : ١٨) ٤۔ جس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو نیلی پیلی آنکھوں کے ساتھ گھیر لائیں گے۔ (طہٰ : ١٠٢) (النّمل : ٨٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ہمارا ایمان ہے کہ ایک دن صور پھونکا جائے گا اور اس کے بعد پھر علی الترتیب یہ واقعات ہوں گے۔ ان واقعات کی تفصیلات اور ان کی کیفیات کو ہم یہاں قلم بند نہیں کرسکتے۔ کیونکہ یہ واقعات عالم غیب میں ہونے والے ہیں۔ اور ہمارے پاس چونکہ یہ آیات ہی ہیں جو مجمل ہیں اور کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے جس میں تفصیلات دی گئی ہوں۔ اور ان نصوص میں اگر تفصیلات دے بھی دی جاتیں تو اصل مقصد جو یہاں دینا مقصود تھا ، اس میں کوئی اضافہ نہ ہوتا تھا۔ لہٰذا ان تفصیلات کے پیچھے پڑنا ایک عبث بات ہے۔ محض ظنوں اور قیاسات سے شریعت نے منع کیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن صور پھونکا جائے گا، زمین اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے عرش الٰہی کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے ان آیات میں روز قیامت کے مناظر ذکر فرمائے ہیں پہلے تو یوں فرمایا کہ جب صور پھونکا جائے گا اور زمین اور پہاڑ اپنی جگہ سے اٹھا دیئے جائیں گے اور وہ دونوں ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے تو اس دن واقع ہونے والی واقع ہوجائے گی یعنی قیامت آجائے گی اور آسمان پھٹ پڑے گا سو وہ اس دن ضعیف ہوگا اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور آپ کے رب کے عرش کو اس دن اپنے اوپر آٹھ فرشتوں نے اٹھا رکھا ہوگا۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ عرش کو آٹھ فرشتوں کا اٹھانا نفخہ ثانیہ کے بعد ہوگا اس کے بعد قیامت کے دن کی پیشی کا تذکرہ فرمایا اور فرمایا ﴿ يَوْمَىِٕذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ٠٠١٨﴾ (اس دن تم پیش کیے جاؤ گے اس دن تمہاری کوئی چیز پوشیدہ نہ ہوگی) یوں تو اللہ تعالیٰ کو سب کچھ علم ہے لیکن اس نے فرشتوں سے سب کے اعمال لکھوا بھی رکھے ہیں سورة الجاثیہ میں فرمایا : ﴿هٰذَا كِتٰبُنَا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بالْحَقِّ ١ؕ اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٠٠٢٩﴾ (یہ ہماری کتاب جو تمہارے اوپر حق کے ساتھ بولتی ہے بلاشبہ ہم لکھوا لیتے تھے جو تم کرتے تھے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” فاذا نفخ “ یہ تخویف اخروی ہے نفخہ سے نفخہ اولی مراد ہے جس میں سارا نظام کائنات درہم برہم ہوجائیگا یہی وہ قت ہے جب قیامت قائم ہوگی، زلزلہ قیامت اس قدر شدید ہوگا کہ زمین اور پہاڑ اپنی اپنی جگہوں سے ہٹ جائیں گے اور قدرت الٰہیہ سے دونوں کو یکبارگی ایک زبردست جھٹکے سے ایک دوسرے پر اس شدت سے مار دیا جائیگا کہ زمین کے تمام نشیب و فراز کوہ و دریا اور بحر و بر بالکل ہموار اور برابر ہوجائیں گے اور کہیں بلندی و پستی نظر نہیں آئے گی۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا ” فیذرھا قاعا صفصفا، لا تری فیھا عوجا ولا امتا “ (طہ رکوع 6) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) پھر جب صور میں پھونکاجائے ایک بار پھونکنا۔