Surat ul Haaqqaa

Surah: 69

Verse: 35

سورة الحاقة

فَلَیۡسَ لَہُ الۡیَوۡمَ ہٰہُنَا حَمِیۡمٌ ﴿ۙ۳۵﴾

So there is not for him here this Day any devoted friend

پس آج اس کا نہ کوئی دوست ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلاَ طَعَامٌ إِلاَّ مِنْ غِسْلِينٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هَاهُنَا حَمِيمٌ وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ (So, he has no friend here today, nor any food except from that which flows from wounds when washing...69:35-36]. The word hamim means &a sincere or bosom friend&. The word ghislin with &gh& bearing the kasrah [= i ] refers to the water with which the pus and blood of the wounds of the inmates of Hell will be washed. The verses signify that on the Day of Resurrection he will have no friend that will support him or save him from punishment, nor will he have anything to eat except the filthy water with which pus exuding from the wound of the inmates of Hell might have been washed. The words &nor any food& mean that they will not have any delectable food to eat. This statement does not negate things like ghislin which are distasteful and reprehensible. Therefore, it does not contradict another verse which states that the inmates of Hell will eat zaqqum.

فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هٰهُنَا حَمِيْمٌ وَّلَا طَعَامٌ اِلَّا مِنْ غِسْلِيْن، حمیم مخلص اور گہرے دوست کو کہا جاتا ہے اور غسلین بکسر غین وہ پانی ہے جس میں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ وغیرہ دھوئی جاوے گی۔ مطلب آیات کا یہ ہے کہ آج اس کا کوئی دوست عزیز اس کی حمایت نہ کرسکے گا اور اس کو عذاب سے نہ بچا سکے گا اور اس کے کھانے کے لئے سوائے اس گندے پانی کے جس میں اہل جہنم کی پیپ اور پس پڑی ہوگی اور کچھ نہ ہوگا اور کچھ نہ ہونے کا مفہوم اوپر خلاصہ تفسیر میں یہ بتلایا گیا ہے کہ مرغوب کھانوں میں سے کچھ نہ ہوگا غسلین کی طرح کی کوئی اور مکروہ بد ذائقہ چیز کی نفی نہیں ہے اس لئے دوسری آیت میں جو اہل جہنم کا زقوم کھانا آیا ہے وہ اسکے منافی نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَيْسَ لَہُ الْيَوْمَ ہٰہُنَا حَمِيْمٌ۝ ٣٥ ۙ حم الحمیم : الماء الشدید الحرارة، قال تعالی: وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ، إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] ، وقال تعالی: وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] ، وقال عزّ وجل : يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19] ، ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] ، هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] ، وقیل للماء الحارّ في خروجه من منبعه : حَمَّة، وروي : «العالم کالحمّة يأتيها البعداء ويزهد فيها القرباء» «6» ، وسمي العَرَق حمیما علی التشبيه، واستحمّ الفرس : عرق، وسمي الحمّام حمّاما، إمّا لأنه يعرّق، وإمّا لما فيه من الماء الحارّ ، واستحمّ فلان : دخل الحمّام، وقوله عزّ وجل : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] ، وقوله تعالی: وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] ، فهو القریب المشفق، فكأنّه الذي يحتدّ حماية لذويه، وقیل لخاصة الرّجل : حامّته، فقیل : الحامّة والعامّة، وذلک لما قلنا، ويدلّ علی ذلك أنه قيل للمشفقین من أقارب الإنسان حزانته أي : الذین يحزنون له، واحتمّ فلان لفلان : احتدّ وذلک أبلغ من اهتمّ لما فيه من معنی الاحتمام، وأحمّ الشّحم : أذابه، وصار کالحمیم، وقوله عزّ وجل : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] ، للحمیم، فهو يفعول من ذلك، وقیل : أصله الدخان الشدید السّواد ، وتسمیته إمّا لما فيه من فرط الحرارة، كما فسّره في قوله : لا بارِدٍ وَلا كَرِيمٍ [ الواقعة/ 44] ، أو لما تصوّر فيه من لفظ الحممة فقد قيل للأسود يحموم، وهو من لفظ الحممة، وإليه أشير بقوله : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ، وعبّر عن الموت بالحمام، کقولهم : حُمَّ كذا، أي : قدّر، والحُمَّى سمّيت بذلک إمّا لما فيها من الحرارة المفرطة، وعلی ذلک قوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الحمّى من فيح جهنّم» «4» ، وإمّا لما يعرض فيها من الحمیم، أي : العرق، وإمّا لکونها من أمارات الحِمَام، لقولهم : «الحمّى برید الموت» «5» ، وقیل : «باب الموت» ، وسمّي حمّى البعیر حُمَاماً «6» بضمة الحاء، فجعل لفظه من لفظ الحمام لما قيل : إنه قلّما يبرأ البعیر من الحمّى. وقیل : حَمَّمَ الفرخ «7» : إذا اسودّ جلده من الریش، وحمّم ( ح م م ) الحمیم کے معنی سخت گرم پانی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا ۔ إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] مگر گرم پانی اور یہی پیپ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] اور جو کافر ہیں ان کے پینے کو نہایت گرم پانی ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19]( اور ) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی دالا جائیگا ۔ ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] پھر اس ( کھانے ) کے ساتھ ان کو گرم پانی ملا کردیا جائے گا ۔ هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] یہ گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ ( ہے ) اب اس کے مزے چکھیں ۔ اور گرم پانی کے چشمہ کو حمتہ کہا جاتا ہے ایک روایت میں ہے ۔ کہ عالم کی مثال گرم پانی کے چشمہ کی سی ہے جس ( میں نہانے ) کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں ( اور شفایاب ہوکر لوٹتے ہیں ) اور قرب و جوار کے لوگ اس سے بےرغبتی کرتے ہیں ( اس لئے اس کے فیض سے محروم رہتے ہیں ) اور تشبیہ کے طور پر پسینہ کو بھی حمیم کہا جاتا ہے اسی سے استحم الفرس کا محاورہ ہے جس کے معنی گھوڑے کے پسینہ پسینہ ہونے کے ہیں اور حمام کو حمام یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پسینہ آور ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ اس میں گرم پانی موجود رہتا ہے ۔ استحم فلان ۔ حمام میں داخل ہونا ۔ پھر مجازا قریبی رشتہ دار کو بھی حمیم کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی حمایت میں بھٹرک اٹھتا ہے اور کسی شخص کے اپنے خاص لوگوں کو حامتہ خاص وعام کا محاورہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] تو ( آج ) نہ کوئی ہمارا سفارش کرنے والا ہے اور نہ گرم جوش دوست نیز فرمایا ۔ وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] اور کوئی دوست کسیز دوست کا پر سان نہ ہوگا ۔ اور اس کی دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کے قریبی مہر بانوں کو حزانتہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ احتم فلان لفلان فلاں اس کے لئے غمگین ہوا یا اس کی حمایت کے لئے جوش میں آگیا ۔ اس میں باعتبار معنی اھم سے زیادہ زور پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش اور گرمی کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ۔ احم الشحم چربی پگھلا ۔ یہاں تک کہ وہ گرم پانی کی طرح ہوجائے اور آیت کریمہ : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] اور سیاہ دھوئیں کے سایے میں ۔ میں یحموم حمیم سے یفعول کے وزن پر ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی سخت سیاہ دھوآں کے ہیں اور اسے یحموم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں شیت حرارت پائی جاتی ہے جیسا کہ بعد میں سے اس کی تفسیر کی ہے اور یا اس میں حممتہ یعنی کوئلے کی سی سیاہی کا تصور موجود ہے ۔ چناچہ سیاہ کو یحموم کہا جاتا ہے اور یہ حممتہ ( کوئلہ ) کے لفظ سے مشتق ہے چناچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ان کے اوپر تو اگ کے سائبان ہوں گے اور نیچے ( ان ) کے فرش پونگے اور حمام بمعنی موت بھی آجاتا ہے جیسا کہ کسی امر کے مقدر ہونے پر حم کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور بخار کو الحمی کہنا یا تو اس لئے ہے کہ اس میں حرارت تیز ہوجاتی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا : کہ بخار جہنم کی شدت ست ہے اور یا بخار کو حمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں پسینہ اترتا ہے اور یا اس لئے کہ یہ موت کی علامات میں سے ایک علامت ہے ۔ جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں الحمی بریدالموت ( کہ بخار موت کا پیغام پر ہے ) اور بعض اسے باب الموت یعنی موت کا دروازہ بھی کہتے ہیں اور اونٹوں کے بخار کو حمام کہا جاتا ہے یہ بھی حمام ( موت ) سے مشتق ہے کیونکہ اونٹ کو بخار ہوجائے تو وہ شازو نادر ہی شفایاب ہوتا ہے ۔ حمم الفرخ پرندے کے بچہ نے بال وپر نکال لئے کیونکہ اس سے اس کی جلد سیاہ ہوجاتی ہے ۔ حمم وجھہ اس کے چہرہ پر سبزہ نکل آیا یہ دونوں محاورے حممتہ سے موخوز ہیں ۔ اور حمحمت الفرس جس کے معنی گھوڑے کے ہنہنانے کے ہیں یہ اس باب سے نہیں ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٥۔ ٣٧) سو اس شخص کو فائدہ پہنچانے کے لیے نہ آج اس کا کوئی قریبی رشتہ دار ہے اور نہ دوزخ میں اس کو کھانے کی کوئی چیز نصیب ہے ماسوا دوزخیوں کے زخموں کی پیپ اور خون کے جس کو مشرکین کے علاوہ اور کوئی نہ کھائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(69:35) فلیس لہ الیوم ھھنا حمیم : ف سببیہ ہے یعنی بہ سبب اس بات کے کہ وہ نہ عظمت والے اللہ پر ایمان رکھتا تھا اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی کسی کو ترغیب دیتا تھا۔ (از خود کھانا تو درکنا) آج کے دن اس کا کوئی یارو مددگار نہ ہوگا۔ الیوم بوجہ ظرفیت منصوب ہے۔ ھھنا حرف ھا حرف تنبیہ ہے۔ ھنا اسم ظرف یہاں۔ اس جگہ۔ حمیم دوست : مددگار۔ یار۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلیس لہ ............ الخاطون اس بدبخت شخص کے انجام بد کا یہ تکمیلی بیان ہے۔ یہ اللہ عظیم پر ایمان نہ لاتا تھا۔ مساکین کی ضروریات بھی فراہم نہ کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب قیامت میں اس کا کوئی دوست نہیں ہے۔ فلیس ................ حمیم (٩٦ : ٥٣) ” لہٰذا آج یہاں اس کا کوئی غم خوار نہیں ہے “ اور اس کے وہاں کھانے کا انتظام مساکین سے بھی بدتر ہے۔ ولا طعام ............ غسلین (٩٦ : ٦٣) ” زخموں کے دھو ون کے سوا اس کے لئے کوئی کھانا نہیں ہے “۔ غسلین سے مراد اہل جہنم کی پیپ اور زخموں کے پانی اور اس پانی کو کہتے ہیں جو زخموں کے دھونے سے نکلتا ہے۔ ایسے گندہ لوگوں کے لئے ، اب ایسی ہی گندی خوراک موزوں ہے۔ کیونکہ اس شخص کا دل مساکین پر رحم سے خالی تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مجرمین غِسْلِيْنٍ كھائیں گے : ﴿فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هٰهُنَا حَمِيْمٌۙ٠٠٣٥ وَّ لَا طَعَامٌ اِلَّا مِنْ غِسْلِيْنٍۙ٠٠٣٦ لَّا يَاْكُلُهٗۤ اِلَّا الْخَاطِـُٔوْنَ (رح) ٠٠٣٧﴾ (سو آج اس کے لیے یہاں کوئی دوست نہیں اور نہ غِسْلِيْنٍ کے علاوہ اس کے لیے کوئی کھانا ہے جسے صرف خطاکار ہی کھائیں گے) ۔ لفظ غِسْلِيْنٍ فعلین کے وزن پر ہے جو لفظ غسل سے ماخوذ ہے غسل دھونے کو کہتے ہیں۔ علماء تفسیر نے اس کا ترجمہ زخموں کے دھو ون سے کیا ہے غِسْلِيْنٍ کا معنی اگرچہ زخموں کا دھو ون ہے اور زخموں کو اس وقت دھویا جاتا ہے جب مرہم پٹی کی جائے اور صاف کر کے مرہم لگایا جائے لیکن دوزخیوں کے زخموں کا دھو ون خود ان کے جسموں کی پیپ ہی ہوگی جو اوپر سے نیچے تک بہتی رہے گی علاج اور شفا کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اسی لیے حضرت ابن عباس (رض) غِسْلِيْنٍ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : انہ الدم والماء الذی یسیل من لحوم اھل النار (یعنی غسلین سے وہ خون اور پانی مراد ہے جو دوزخیوں کے گوشتوں سے بہتا رہے گا) ۔ (ذكرہ صاحب الروح صفحہ ٥٨: ج ٢٩)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(35) سو آج اس کا نہ یہاں کوئی ہمدردی کرنے والا دوست ہے۔