Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 12

سورة الأعراف

قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسۡجُدَ اِذۡ اَمَرۡتُکَ ؕ قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ۚ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ ﴿۱۲﴾

[ Allah ] said, "What prevented you from prostrating when I commanded you?" [Satan] said, "I am better than him. You created me from fire and created him from clay."

حق تعالٰی نے فرمایا تو جوسجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کون امر مانع ہے جب کہ میں تجھ کو حکم دے چکا ، کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں ، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells, قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ قَالَ أَنَاْ خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ (Allah) said: "What prevented you (O Iblis) that you did not prostrate, when I commanded you" Iblis said: "I am better than him (Adam), You created me from fire, and him You created from clay." ... مَا مَنَعَكَ أَلاَّ تَسْجُدَ ... (Allah) said: What prevented you (O Iblis) that you did not prostrate! According to Ibn Jarir, meaning, what stopped and hindered you from prostrating after I ordered you to do so, This meaning is sound, and Allah knows best. Iblis, may Allah curse him, said, أَنَاْ خَيْرٌ مِّنْهُ (I am better than him (Adam)), and this excuse is worse than the crime itself! Shaytan said that he did not obey Allah because he who is better cannot prostrate to he who is less. Shaytan, may Allah curse him, meant that he is better than Adam, "So how can You order me to prostrate before him!" Shaytan said that he is better than Adam because he was created from fire while, "You created him from clay, and fire is better." The cursed one looked at the origin of creation not at the honor bestowed, that is, Allah creating Adam with His Hand and blowing life into him. Shaytan made a false comparison when confronted by Allah's command, فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (Then you fall down prostrate to him) (38:72). Therefore, Shaytan alone contradicted the angels, because he refused to prostrate. He, thus, became `Ablasa' from the mercy, meaning, lost hope in acquiring Allah's mercy. He committed this error, may Allah curse him, due to his false comparison. His claim that the fire is more honored than mud was also false, because mud has the qualities of wisdom, forbearance, patience and assurance, mud is where plants grow, flourish, increase, and provide good. To the contrary, fire has the qualities of burning, recklessness and hastiness. Therefore, the origin of creation directed Shaytan to failure, while the origin of Adam led him to return to Allah with repentance, humbleness, obedience and submission to His command, admitting his error and seeking Allah's forgiveness and pardon for it. Muslim recorded that Aishah said that the Messenger of Allah said, خُلِقَتِ الْمَلَيِكَةُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ إِبْلِيسُ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ ادَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُم The angels were created from light, Shaytan from a smokeless flame of fire, while Adam was created from what was described to you. Iblis was the First to use Qiyas (Analogical Comparison) Ibn Jarir recorded that Al-Hasan commented on Shaytan's statement, خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ ("You created me from fire, and him You created from clay)." "Iblis used Qiyas (analogy), and he was the first one to do so." This statement has an authentic chain of narration. Ibn Jarir recorded that Ibn Sirin said, "The first to use Qiyas was Iblis, and would the sun and moon be worshipped if it was not for Qiyas" This statement also has an authentic chain of narration.

عذر گناہ بد تر از گناہ ( الا تسجد ) میں لا بقول بعض نحویوں کے زائد ہے اور بعض کے نزدیک انکار کی تاکید کیلئے ہے ۔ جیسے کہ شاعر کے قول ما ان رایت ولا سمعت بمثلہ میں ما نافیہ پر ان نفی کے لئے صرف تاکیداً داخل ہوا ہے اسی طرح یہاں بھی ہے کہ پہلے آیت ( لم یکن من الساجدین ) ہے پھر ( ما منعک الا تسجد ) ہے امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ ان دونوں قولوں کو بیان کر کے انہیں رد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں ( منعک ) ایک دوسرے فعل مقدر کا متضمن ہے تو تقریر عبارت یوں ہوئی ( ما احوجک والزمک وا ضطرک الا تسجد اذا مرتک ) یعنی تجھے کس چیز نے بےبس محتاج اور ملزم کر دیا کہ تو سجدہ نہ کرے؟ وغیرہ ۔ یہ قول بہت ہی قوی ہے اور بہت عمدہ ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ابلیس نے جو وجہ بتائی سچ تو یہ ہے کہ وہ عذر گناہ بد تر از گناہ کی مصداق ہے ۔ گویا وہ اطاعت سے اس لئے باز رہتا ہے کہ اس کے نزدیک فاضل کو مفضول کے سامنے سجدہ کئے جانے کا حکم ہی نہیں دیا جا سکتا ۔ تو وہ ملعون کہہ رہا ہے کہ میں اس سے بہتر ہوں پھر مجھے اس کے سامنے جھکنے کا حکم کیوں ہو رہا ہے ؟ پھر بہتر ہونے کے ثبوت میں کہتا ہے کہ میں آگ سے بنا یہ مٹی سے ۔ ملعون اصل عنصر کو دیکھتا ہے اور اس فضیلت کو بھول جاتا ہے کہ مٹی والے کہ اللہ عزوجل نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور اپنی روح پھونکی ہے ۔ پاس اس وجہ سے کہ اس نے فرمان الٰہی کے مقابلے میں قیاس فاسد سے کام لیا اور سجدے سے رک گیا اللہ کی رحمتوں سے دور کر دیا گیا اور تمام نعمتوں سے محروم ہو گیا ۔ اس ملعون نے اپنے قیاس اور اپنے دعوے میں بھی خطا کی ۔ مٹی کے اوصاف ہیں ، نرم ہونا ، حامل مشقت ہونا ، دوسروں کا بوجھ سہانا ، چیزوں کو اگانا ، بڑھانا ، پرورش کرنا ، اصلاح کرنا وغیرہ اور آگ کی صفت ہے جلدی کرنا ، جلا دینا ، بےچینی پھیلانا ، پھونک دینا ، اسی وجہ سے ابلیس اپنے گناہ پر اڑ گیا اور حضرت آدم نے اپنے گناہ کی معذرت کی ، اس سے توبہ کی اور اللہ کی طرف رجوع کیا ۔ رب کے احکام کو تسلیم کیا ، اپنے گناہ کا اقرار کیا ، رب سے معافی چاہی ، بخشش کے طالب ہوئے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں ، ابلیس آگ کے شعلے سے اور انسان اس چیز سے جو تمہاے سامنے بیان کر دی گئی ہے یعنی مٹی سے ( مسلم ) ایک اور روایت میں ہے فرشتے نور عرش سے جنت آگ سے ۔ ایک غیر صحیح حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ حور عین زعفران سے بنائی گئی ہیں ۔ امام حسن فرماتے ہیں ابلیس نے یہ کام کیا اور یہی پہلا شخص ہے جس نے قیاس کا دروازہ کھولا ۔ اس کی اسناد صحیح ہے ۔ حضرت امام ابن سیرین رحمتہ اللہ فرماتے ہیں سب سے پہلے قیاس کرنے والا ابلیس ہے ۔ یاد رکھو سورج چاند کی پرستش اسی کی بدولت شروع ہوئی ہے ۔ اس کی اسناد بھی صحیح ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 ان لا تسجدوا میں لا زائد ہے یعنی ان تسجد تجھے سجدہ کرنے سے کس نے روکا ؟ یا عبارت محذوف ہے یعنی تجھے کس چیز نے اس بات پر مجبور کیا کہ تو سجدہ نہ کرے، شیطان فرشتوں میں سے نہیں تھا بلکہ خود قرآن کی صراحت کے بموجب وہ جنات میں سے تھا (الکہف۔ 50) لیکن آسمان پر فرشتوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس سجدہ حکم میں شامل تھا جو اللہ نے فرشتوں کو دیا تھا۔ اس لئے اس سے باز پرس بھی ہوئی اور اس پر عتاب بھی نازل ہوا۔ اگر وہ اس حکم میں شامل یہ نہ ہوتا تو اس سے باز پرس ہوتی نہ وہ راندہ درگاہ قرار پاتا۔ 12۔ 2 شیطان کا یہ عذر ' عذر گناہ بدتر از گناہ ' جس کا آئینہ دار ہے۔ ایک تو اس کا سمجھنا کہ افضل کو مفعول کی تعظیم کا حکم نہیں دیا جاسکتا، غلط ہے۔ اس لئے کہ اصل چیز تو اللہ کا حکم ہے اس کے حکم کے مقابلے میں افضل وغیرہ افضل کی بحث اللہ سے سرتابی ہے۔ دوسرے، اس نے بہتر ہونے کی دلیل یہ دی کہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور یہ مٹی سے۔ لیکن اس نے اس شرف اور عظمت کو نظر انداز کردیا جو حضرت آدم (علیہ السلام) کو حاصل ہوا کہ اللہ نے انہیں اپنے ہاتھ سے بنایا اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونکی۔ اس شرف کے مقابلے میں دنیا کی کوئی بھی چیز ہوسکتی ہے ؟ تیسرا، نص کے مقابلے میں قیاس سے کام لیا، جو کسی بھی اللہ کو ماننے والے کا شیوا نہیں ہوسکتا اور یہ قیاس بھی فاسد تھا۔ آگ، مٹی سے کس طرح بہتر ہے ؟ آگ میں سوائے تیزی، بھڑکنے اور جلانے کے کیا ہے ؟ جب کہ مٹی میں سکون اور ثبات ہے، اس میں نبات و نمو، زیادتی اور اصلاح کی صلاحیت ہے۔ یہ صفات آگ سے بہرحال بہتر اور زیادہ مفید ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ شیطان کی تخلیق آگ سے ہوئی، جیسا کہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ ' فرشتے نور سے، ابلیس آگ کی لپیٹ سے اور آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] آگ اور مٹی کے خواص کا تقابل :۔ ابلیس کا گمان یہ تھا کہ آگ مٹی سے افضل ہے کیونکہ آگ لطیف ہوتی ہے اور مٹی کثیف۔ آگ نیچے سے اوپر کو اٹھتی ہے اور مٹی اوپر سے نیچے کو گرتی ہے آگ اپنی شکل اور رنگ بدل سکتی ہے مگر مٹی میں بغیر محنت شاقہ کے یہ صفت نہیں پائی جاتی اس ظاہری برتری کے بعد اگر نتیجہ دیکھیں تو آگ ہر چیز کو جلا کر فنا کردیتی ہے جبکہ مٹی سے نباتات یا ہر قسم کے پھل، غلے اور درخت پیدا ہوتے ہیں آگ کی طبیعت میں سرکشی ہے، مٹی کی طبیعت میں انکسار اور تواضع ہے۔ اسی آگ کی فطرت کی بنا پر ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کی اور تکبر کی راہ اختیار کی اور راندہ درگاہ الٰہی بن گیا اور آدم (علیہ السلام) سے اللہ کی نافرمانی ہوگئی تو اس نے گناہ کی معافی مانگ لی اور اللہ کے مقرب بن گئے۔ بعض علماء نے آگ اور مٹی کا تقابل کر کے انہیں وجوہ کی بنا پر مٹی کو آگ سے افضل قرار دیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ ۭ : یہاں ” الا “ زور اور تاکید کے لیے ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ سورة صٓ (٧٥) میں فرمایا : ( مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ ) ” تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا۔ “ اور یہاں ہے کہ تجھے کس نے روکا کہ اس کے روکنے کے باعث تو نے سجدہ نہ کیا۔ اس سے وہ مشکل حل ہوجاتی ہے کہ سجدے کا حکم تو فرشتوں کو تھا، ابلیس جنوں میں سے تھا، فرشتہ تھا ہی نہیں تو وہ نافرمان کیوں ٹھہرا ؟ اس کے عجیب و غریب جواب دیے گئے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کے علاوہ ابلیس کو بطور خاص مخاطب کر کے حکم دیا گیا تھا۔ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ : آگ مٹی سے افضل ہے اور افضل اپنے سے کم درجہ کو کیسے سجدہ کرسکتا ہے ؟ اس نے یہ نہ دیکھا کہ حکم کون دے رہا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کی موجودگی میں عقلی قیاس سے کام لیا، نتیجہ یہ ہوا کہ دھتکارا گیا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا، اسی لیے اہل علم فرماتے ہیں کہ پہلا شخص جس نے واضح حکم کی موجودگی میں قیاس کیا ابلیس تھا۔ ابن سیرین نے فرمایا کہ شرک کی بنیاد بھی قیاس ہی تھا۔ (طبری) اب بھی آیات و احادیث کے مقابلے میں جو شخص اسی طرح عقلی قیاس سے کام لے گا اس کا یہ کام شیطانی ہے، اس کا بھی وہی انجام ہوگا جو ابلیس کا ہوا۔ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ : یہاں شیطان نے متعدد غلطیاں کیں، ایک تو یہ بات ہی غلط ہے کہ افضل اپنے سے کم تر کو سجدہ نہیں کرسکتا۔ بات برتر یا کم تر کی نہیں، حکم کی ہے اور اللہ تعالیٰ جسے جو چاہے حکم دے سکتا ہے۔ دوسرا اس کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے بنانے کا اور عزت و تکریم بخشنے کا جو شرف عطا فرمایا وہ کسی بھی مخلوق کو نہیں بخشا اس لیے فرمایا : ( ُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۭ ) [ ص : ٧٥ ] ” تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس کے لیے سجدہ کرے جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔ “ اور تیسری یہ بات بھی غلط ہے کہ آگ مٹی سے بہتر ہے، کیونکہ آگ میں تیزی، چلانا اور بھڑکنا ہے جبکہ مٹی میں تواضع، ٹھکانابننے، اگانے اور بڑھانے کی خوبی موجود ہے۔ اب بھی جو لوگ قرآن و حدیث کے مقابلے میں قیاس کرتے ہیں اس پر تھوڑا سا غور کریں تو اس کا فاسد و باطل ہونا آسانی سے سمجھ میں آجائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The event relating to Sayyidna &Adam (علیہ السلام) and the Shaytan has appeared earlier in Section four of Surah Al-Baqarah (Ma` ariful-Qur&an, English Translation, under verse 34). Some aspects of the subject have been covered in comments given there. Answers to some others are being given here. How Long was the Respite given to Iblis? It was exactly at the time Iblis was under the wrath of Allah, he made a prayer, a strange prayer indeed. He asked for a lease of life un¬til the day of Resurrection. The words in which Allah Ta` ala answered the prayer, as they appear in this verse, are no more than: إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِ‌ينَ (Respite is given to you). From these words, given the nature of the question and the answer, it can be understood that this respite was given until the Resurrection as asked by him. But, what is not stated in this verse clearly is whether the giving of respite mentioned here is until the Resurrection as asked by Iblis, or is for some other duration. But, in another verse, the words: إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ﴿٣٨﴾ (Till the day of the ap¬pointed time - 15:38) appear at this place which, on the surface, seem to suggest that the respite till the day of Qiyamah as asked by Iblis was not given. Instead, given to him was a respite till a particular time which is preserved in Divine knowledge. The outcome is that the prayer of Iblis was answered - though not completely. He was given respite till a particular time and not till the day of Resurrection or Qiyamah. Reported in Tafsir Ibn Jarir is a narration from Suddiy which supports this view. The exact words of the report are: فلم ینظرہ الی یوم البعث و لکن انظرہ الی یوم الوقت المعلوم و ھو یوم ینفخ فی الصور النفخۃ الاولی فصعق من فی السموات و من فی الارض فمات، Allah Ta` ala did not give respite to Iblis till the day of Resur¬rection, instead, He has given him respite till a day the time of which is appointed and that is the day when the Horn will be blown the first time and whoever there is in the heavens or the earth shall be stunned, and dead. In summation, we can say that the Shaytan had actually asked for a respite in his prayer till the time when the second Horn will be blown and all the dead will be resurrected. This is what is called: یوم البعث (Yowm al-Ba’ th). If this prayer was answered as asked, it would have meant that Iblis was to be alive as based on his prayer while the facts on the ground would have been different: That would be a time when nothing will be alive except the One Being of the Eternally-Alive and the Self-Sustaining Hayy and Qaiyyum and that would be the time when the great promise of: كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ﴿٢٦﴾ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَ‌بِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَ‌امِ ﴿٢٧﴾ (All that is on it will perish and to remain there shall be the Face of your Lord, full of majesty, bounty and honour - 55:26-27) will stand im¬mensely manifested. On that basis, Iblis was not to live to see that time. Therefore, his one prayer for respite till the Yowm al-Ba’ th was not granted, instead of which, the time of the respite was changed to Yowma yunfakhu fi as-sur, till the day blown is the Horn, and granted at that. The effect would be that death shall be the order of the day for the whole creation. Iblis will have his death as well. When all others are resurrected, he too shall stand resurrected. These details remove the possible doubt that could arise from the verse: كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ﴿٢٦﴾ (All that is on it will perish -55:26) referred immedi¬ately above specially in relation with this prayer. The apparent contra-diction between the two thus stands resolved. The substance of this investigation is that Yowm al-Ba&th and Yowm al-Waqt al-Ma&lum are two separate days. Iblis had asked for respite till the Yowm al-Ba’ th. This was not granted wholly. Instead of that, a change was made and respite was given till the Yowm al-Waqt al-Ma&lum. Hadrat Maulana Ashraf ` Ali Thanavi (رح) ، in Bayan al-Qur&an, has preferred the view that these two are really two separate days. In fact, from the time of the blowing of the first Horn upto the entry into Paradise or Hell, it will be a long day with different things happening at different times in it. Based on these different happenings, that day could be attributed to every event which takes place therein. For instance, it could be called the day of the blowing of the Horn (صُور) and the day of perishing (فَنَا), as well as, the day of Resurrection (بعث) and the day of .Recompense (جزَا). This helps resolves all doubts and difficul¬ties فَللہِ الحَمد . Can the Prayer of a Disbeliever be Acceptable? The question comes from the verse: وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِ‌ينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ (And the prayer of disbelievers is but in vain - 13:14), it is usually taken that the prayer made by a disbeliever is not answered. But, from this event concerning Iblis and the statement in the verse, this difficulty becomes obvious. The answer is that, in this mortal world, even the prayer of a disbeliever can be answered - so much so, that even the prayer of the foremost disbeliever, Iblis, was answered. But, in the Hereafter, the prayer of a disbeliever will not be answered. The verse quoted above relates to the Hereafter (&Akhirah). It has nothing to do with this mor¬tal world. The Event of &Adam and Iblis: The Rationale of Different Words This story appears in the Holy Qur&an at several places. The words used in relevant questions and answers differ everywhere, though the event is the same. The reason is that the subject remains the same when the main event is described. That the words remain exactly the same everywhere is not necessary. A narration could be based on meaning too. If the unity of subject and sense exists, variations in words do not deserve consideration. What made Iblis speak the way he did before Allah? The place where Iblis dared to speak was in the Most August con¬ceivable Presence of the Master of all Honour where the awe and ma¬jesty of the occasion would not allow even angels and prophets and messengers to breathe. How did he do that? ` Ulama say that this was a somber and highly cutting manifestation of the Divine wrath that, because of the rejection of Iblis, his view was so obstructed (hijab) that he became blind to the grandeur and awe of Allah Ta` ala and irreverence came down to settle on him all over. (Abridged from Bayern al-Qur&an) The Assault of Shaytan is Multi-Dimensional, not simply Four-Sided In the present verse (17), Iblis is said to have identified four sides from which he planned to mislead the children of &Adam, that is, the front, the rear and the right and the left. But, the purpose here is not to set up any limits. Instead, the sense is that this will be from all sides and directions. Therefore, the probability of his leading people astray from above and beneath the feet does not contradict it. Similar¬ly, the saying of the Hadith that - Shaytan can enter the human body and move through the arteries and veins of blood and take command of the whole body - is also not contradictory to this. In the cited verses (13 & 18), the Shaytan has been commanded to leave the heavens twice. First, when it was said: فَاخْرُ‌جْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِ‌ينَ (So, go. You are of the low.) and then, when it was said: فَاخْرُ‌جْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِ‌ينَ (Get out of here, condemned ...). Here, the first saying is perhaps a proposal while the other is its implementation. (Abridged from Bayan a1-Qur&an)

معارف و مسائل حضرت آدم (علیہ السلام) اور شیطان کا یہ واقعہ جو یہاں مذکور ہے اس سے پہلے سورة بقرہ کے چوتھے رکوع میں بیان ہوچکا ہے، اس کے متعلقہ بہت سے تحقیق طلب امور کا بیان وہاں ہوا ہے، یہاں مزید چند امور تحقیق طلب کا جواب لکھا جاتا ہے۔ ابلیس کی دعاء قیامت تک زندگی کی قبول ہوئی یا نہیں، بصورت قبول دو آیتوں کے متعارض الفاظ کی تطبیق ابلیس نے عین اس وقت جب کہ اس پر عتاب و عقاب ہو رہا تھا اللہ تعالیٰ سے ایک دعا مانگی اور وہ بھی عجیب دعا کہ حشر تک کی زندگی کی مہلت عطا فرما دیجئے، اس کے جواب میں جو ارشاد حق تعالیٰ نے فرمایا اس کے الفاظ اس جگہ مذکورہ آیت میں تو صرف یہ ہیں (آیت) انک من المنظرین، ” یعنی تجھ کو مہلت دی گئی “۔ ان الفاظ سے بقرینہ دعا وسوال یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ مہلت حشر تک کی دی گئی، جیسا کہ اس نے سوال کیا تھا، مگر اس کی تصریح اس آیت میں نہیں ہے، کہ جس مہلت دینے کا ذکر یہاں فرمایا ہے وہ ابلیس کے کہنے کے مطابق حشر تک ہے یا کسی اور معیاد تک، لیکن دوسری آیت میں اس جگہ (آیت) الی یوم الوقت المعلوم کے الفاظ بھی آئے ہیں، جن کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس کی مانگی ہوئی مہلت قیامت تک نہیں دی گئی، بلکہ کسی خاص مدت تک دی گئی ہے جو علم الٓہی میں محفوظ ہے، تو حاصل یہ ہوا کہ ابلیس کی یہ دعا قبول تو ہوئی، مگر ناتمام کہ بجائے روز قیامت کے ایک خاص مدت تک کی مہلت دے دیگئی۔ تفسیر ابن جریر میں ایک روایت سدی رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے اس سے اسی مضمون کی تائید ہوتی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : فلم ینظرہ الی یوم البعث ، ” اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو یوم بعث تک مہلت نہیں دی بلکہ ایک معین دن تک مہلت دی ہے اور وہ دن وہ ہے جس میں پہلا صور پھونکا جائے گا، جس سے آسمان و زمین والے سب بیہوش ہوجائیں گے اور مر جائیں گے “۔ اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ شیطان نے تو اپنی دعا میں اس وقت تک کی مہلت مانگی تھی، جبکہ دوسرا صور پھونکنے تک تمام مردوں کو زندہ کیا جائے گا، اسی کا نام یوم البعث ہے، اگر یہ دعا بعینہ قبول ہوتی تو جس وقت ایک ذات حیّ وقیوم کے سوا کوئی زندہ نہ رہے گا، اور (آیت) کل من علیہا فان۔ کا ظہور ہوگا، اس دعا کی بنا پر ابلیس اس وقت بھی زندہ رہتا، اس لئے کہ ایک دعا کو یوم بعث تک کی مہلت کے بجائے (آیت) یوم ینفخ فی الصور تک کی مہلت سے تبدیل کرکے قبول کیا گیا، جس کا اثر یہ ہوگا کہ جس وقت سارے عالم پر موت طاری ہوگی، اس وقت ابلیس کو بھی موت آئے گی، پھر جب سب دوبارہ زندہ ہوں گے تو وہ بھی زندہ ہوجائے گا۔ اس تحقیق سے وہ شبہ بھی رفع ہوگیا جو (آیت) کل من علیہا فان سے اس دعا کے متعلق پیدا ہوتا ہے کہ بظاہر دونوں میں تعارض ہوگیا۔ لیکن حاصل اس تحقیق کا یہ ہے کہ یوم البعث اور یوم الوقت المعلوم دو الگ الگ دن ہیں ابلیس نے یوم البعث تک کی مہلت مانگی تھی وہ پوری قبول نہ ہوئی، اس کو بدل کر یوم الوقت المعلوم تک کہ مہلت دی گئی، سیدی حضرت حکیم الامة تھانوی رحمة اللہ علیہ نے بیان القرآن میں ترجیح اس کو دی ہے کہ در حقیقت یہ دونوں الگ الگ دن ہیں، بلکہ نفحہ اولیٰ کے وقت سے دخول جنت و تار تک ایک طویل دن ہوگا، اس کے مختلف حصوں میں مختلف واقعات ہوں گے، انہی واقعات مختلفہ کی بناء پر اس دن کی ہر واقعہ کی طرف نسبت کرسکتے ہیں، مثلاً اس کو یوم نفخ صور و یوم فناء بھی کہہ سکتے ہیں، اور یوم بعث اور یوم جزاء بھی، اس سے سب اشکالات رفع ہوگئے، فللّٰہ الحمد کیا کافر کی دعا بھی قبول ہو سکتی ہے یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ آیات قرآن وما دعوا الکفرین الا فی ضلل، سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کافر کی دعا قبول نہیں ہوتی، مگر اس واقعہ ابلیس اور آیت مذکورہ سے قبولیت دعا کا اشکال ظاہر ہے، جواب یہ ہے کہ دنیا میں تو کافر کی دعا بھی قبول نہ ہوگی، اور آیت مذکورہ (آیت) وما دعوا الکفرین آخرت کے متعلق ہے دنیا میں اس کا کوئی تعلق نہیں۔ واقعہ آدم (علیہ السلام) و ابلیس کے مختلف الفاظ قرآن مجید میں یہ قصہ کئی جگہ آیا ہے اس سوال و جواب کے الفاظ مختلف ہیں، حالانکہ واقعہ ایک ہی ہے، وجہ یہ ہے کہ اصل واقعہ میں تو سب جگہ ایک ہی مضمون ہے، اور نقل الفاظ ہر جگہ بعینہ ضروری نہیں، روایت بالمعنی بھی ہوسکتی ہے، اتحاد مضمون و مفہوم کے بعد اختلاف الفاظ قابل نظر نہیں۔ ابلیس کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ بارگاہ عزت و جلال میں ایسی بیباکانہ گفتگو کی رب العزت جل شانہ کی بارگاہ قدس میں فرشتوں اور رسولوں کو بھی ہیبت و جلال کی بناء پر مجال دم زدنی نہیں تھی، ابلیس کو ایسی جرأت کیسے ہوگئی، علما نے فرمایا کہ یہ قہر الٓہی کا انتہائی سخت مظہر ہے کہ ابلیس کے مردود ہوجانے کے باعث ایک ایسا حجاب حائل ہوگیا جس نے اس پر حق تعالیٰ کی عظمت و جلال کو مستور کردیا اور بےحیائی اس پر مسلط کردی (بیان القرآن ملخصاً و موضحاً ) شیطان کا حملہ انسان پر چار طرف میں محدود نہیں عام ہے قرآن عزیز کی مذکورہ آیت میں یہ مذکور ہے کہ ابلیس نے اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے لئے چار جانب کو بیان کیا ہے، آگے پیچھے، دائیں بائیں، لیکن یہاں در حقیقت کوئی تجدید مقصود نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ ہر سمت سے اور ہر پہلو سے، اس لئے اوپر کی جانب یا پاؤں تلے سے گمراہ کرنے کا احتمال اس کے منافی نہیں، اسی طرح حدیث میں جو یہ مذکور ہے کہ شیطان انسان کے بدن میں داخل ہو کر خون کی رگوں کے ذریعہ پورے بدن انسان پر تصرف کرتا ہے، یہ بھی اس کے منافی نہیں۔ آیات مذکورہ میں شیطان کو آسمان سے نکل جانے کا حکم دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے، پہلے (آیت) فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِيْنَ ۔ میں دوسرا قول (آیت) قال اخرج منھا مذءوما میں غالباً پہلا کلام ایک تجویز ہے اور دوسرے میں اس کی تنفیذ (بیان القرآن ملحضاً )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ۝ ٠ ۭ قَالَ اَنَا خَيْرٌ مِّنْہُ۝ ٠ ۚ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِيْنٍ۝ ١٢ منع المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ الْماعُونَ [ الماعون/ 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق/ 25] ، ويقال في الحماية، ومنه : مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء/ 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة/ 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف/ 12] أي : ما حملک ؟ وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟ يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل : مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ. ( م ن ع ) المنع ۔ یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون/ 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق / 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معین محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء/ 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة/ 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف/ 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ طين الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات/ 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص/ 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص/ 38] . ( ط ی ن ) الطین ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات/ 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص/ 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص/ 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) اللہ تعالیٰ نے شیطان سے فرمایا آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے تمہیں منع کیا وہ کہنے لگا کہ مجھے آپ نے آگ سے اور آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا اور آگ کو مٹی پر فوقیت اور برتری حاصل ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ج خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ ) اس نے اپنے استکبار کی بنیاد پر ایسا کہا۔ یہاں اس کا جو قول نقل کیا گیا ہے اس کے ایک ایک لفظ سے تکبر جھلکتا ہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

حسن بصری اور ابن سیرین اور اکثر بزرگان دین نے کہا ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو قبلہ ٹھہرا کر خدا تعالیٰ کا سجدہ کرنے کا حکم فرشتوں کے لئے اور ابلیس کے لئے ایک قطعی حکم تھا اور یہ ایسا حکم تھا کہ جس طرح کعبہ کو قبلہ ٹھہرا کر سجدہ کرنے نماز میں حکم ہے شیطان نے اس قطعی حکم کے مقابلہ میں جو قیاس کیا یہ پہلا قیاس ہے جو نص کے مقابلہ میں کیا گیا ہے اب بھی نص کے مقابلہ میں جو شخص اس طرح کی عقلی قیاس کرلے اس میں خصلت شیطانی کا اثر ہے اور ایسے شخص کا وہ انجام ہوگا جو شیطان کا انجام ہے ابن سیرین کہا کرتے تھے بتوں کی آگ کی سورج چاند کی غرض سوا اللہ تعالیٰ کے جس چیز کی پوجا زمین پر پھیلی ہے وہ سب قیاس عقلی سے پھیلی ہے۔ یہ محمد بن سرین حسن بصر کے طبقہ کے تابعی ثقہ ہیں حدیث کی صحیح کتابوں میں ان سے روایتیں ہیں قیاس عقلی سے مقصود وہ قیاس ہے جس کی بنا کسی شرعی حکم پر نہ ہو جس قیاس کی بنیاد کسی شرعی حکم پر ہو وہ قیاس فقہی کہلاتا ہے جب کسی مسئلہ کا صاف حکم قرآن اور حدیث میں نہ پایا جاوے تو قرآن اور حدیث میں موجود احکام کو نظر ٹھہرا کر یہ قیاس فقہی جائز ہے سلف میں اس کا وجود پایا جاتا ہے تفصیلی ذکر اس قیاس کا اصول فقہ کی کتابوں میں ہے۔ محمد بن سیرین نے یہ بات نہایت سچی کہی کہ سوائے اللہ کے جو چیزیں زمین پر پوجی جاتی ہیں وہ قیاس عقلی کے سبب سے پوجی جاتی ہیں۔ کیونکہ مثلا بت پر ستی کی بنیاد اس عقلی قیاس پر ہے کہ یہ مورتیں اچھے لوگوں کی ہیں ان مورتوں کی تعظیم اور پوجا کی جاوے گی تو وہ اچھے لوگ اپنے مورتوں کے پوجنے والوں کے برے وقت پر کام آویں گے اسی طرح اور چیزوں کا حال ہے ستارہ پرست کہتے ہیں کہ جس طرح انسان کی روح ہے اسی طرح ستاروں کی بھی اروحیں ہیں جن کو دنیا کے انتظام میں بڑا محل ہے ان کی پوجا سے انسان کا بھلا ہوسکتا ہے۔ آتش پرست سورج کو دنیا کا بادشاہ کہتے ہیں اور سورج کی مناسبت کے سبب سے آگ کی پوجا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آگ ایسی چیز ہے جس سے دنیا کی ضرورتیں متعلق ہیں صحیح بخاری ومسلم میں حضرت علی (رض) کی روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مخلوق اللہ کے علم ازلی میں نیک قرار پاچکی ہے اس کے دنیا میں نیک کام آسمان ہوجاتے ہیں اور جو مخلوق علم الٰہی میں بدقرار پاچکی ہے وہ نیک کاموں سے دور اور برے کاموں میں ہیمشہ گرفتار رہتی ہے یہ حدیث حضرت آدم اور شیطان کے قصے کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) علم الٰہی میں نیک قرار پائے تھے اس لئے گیہوں کھانے کے قصور کے بعد ان کو توبہ آسان ہوگئی اور شیطان علم الٰہی میں بدقرار پاچکا تھا اس لئے سجدہ نہ کرنے کے قصور سے اس کو توبہ مسمان نہیں ہوئی بلکہ اس نے اپنے قیاس عقلی سے اس قصور کو قصور نہیں جانا :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:12) طین۔ گارا ۔ خاک ۔ مٹی اور پانی دونوں کا آمیزہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اور آگ مٹی سے افضل ہے اور افضل اپنے سے کم درجہ کو کیسے سجدہ کرسکتا ہے خواہ اس کا حکم دینے ولا اس کا پر رو دگار ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح گویا شیطان نے واضح حکم کی موجوگی میں عقلی قیاس سے کام لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دھتکارا گیا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا حضرت حسن بصری (رح) نے فرمایا سب سے پہلے جس نے دین کے معاملے کو اپنی رائے سے قیاس کیا وہ ابلیس ہے یعنی اللہ تعالیٰ ن اسے آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کا حکم دیامگر اس نے کہا میں آدم ( علیہ السلام) سے بہتر ہوں۔ ابن سیرین نے فرمایا شرک کی بنیاد بھی قیاس ہی تھا۔ ( ابن جریر) اب بھی نصوص کے مقابلہ میں جو شخص اس طرح عقلی قیاس سے کام لے گا اس میں خصلت شیطانی کا اثر ہے۔ اس کا بھی وہی انجام ہوگا جو ابلیس کا ہوا۔ ( ا، ت )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ سجدہ کا حکم ہوتے ہی تمام ملائکہ آدم (علیہ السلام) کے حضور سر بسجود ہوئے لیکن شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کا احترام و مقام دیکھ کر حسد اور تکبر کی وجہ سے سجدہ ریز ہونے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ وہ جرم پر جرم اور گستاخی پر گستاخی کرتا چلا گیا۔ اس جگہ اجمال ہے جبکہ دوسرے مقامات پر شیطان کے انکار کی تفصیلات یوں بیان کی گئی ہیں۔ ( وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ط قَالَ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا)[ الاسراء : ٦١] ” اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا اور اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ “ ( اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ ) [ الاعراف : ١٢] ” میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” قَالَ مَا مَنَعَکَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُکَ قَالَ أَنَاْ خَیْْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِیْنٍ (12) ” پوچھا ” تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب میں نے تجھ کو حکم دیا تھا ۔ “ بولا : ” میں اس سے بہتر ہوں ‘ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے ۔ “ ابلیس کا قصور یہ تھا کہ نص صریح کے ہوتے بھی اس نے یہ سوچا کہ وہ اپنی رائے پر عمل کرسکتا ہے اور اگر حکم کے باوجود کوئی سبب اور علت اور علت ہو تو اس پر عمل کیا جاسکتا ہے ۔ حالانکہ جب نص صریح آجائے تو پھر فکر ونظر کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ اب صرف یہ صورت رہتی ہے کہ اطاعت کی جائے اور حکم کو نافذ کیا جائے ۔ اب حضرت ابلیس ملعون کو دیکھئے کہ باوجود اس بات کے علم کے کہ اللہ خالق ومالک ہے ‘ وہی رازق اور مدبر ہے اور اس دنیا میں کوئی بات اس کے علم اور اذن کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔ اس کے حکم کی اطاعت نہیں کرتا جو اس کے پاس پہنچ گیا ہے ۔ وہ اپنی منطق سامنے لاتا ہے ۔ ” میں اس سے زیادہ بہتر ہوں کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے ۔ “ اس کی اس حجت سازی پر اس کو فورا سزا ملتی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12 اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب میں نے تجھ کو سجدہ کرنے کا حکم دے دیا تھا اور آدم (علیہ السلام) کی تعظیم و تکریم کا امر کرچکا تھا پھر تجھے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے کس نے باز رکھا اور کیا چیز تیرے لئے مانع ہوئی ابلیس نے جواب دیا میں آدم (علیہ السلام) سے بہتر ہوں تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا ہے۔ یعنی آگ مٹی سے بہتر اور روشن اور بلند ہے تو نے بہتر کو کمتر کے آگے جھکنے کا حکم دیا تھا اس لئے میں نے اس غیر معقول حکم کی تعمیل نہیں کی۔