Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 131

سورة الأعراف

فَاِذَا جَآءَتۡہُمُ الۡحَسَنَۃُ قَالُوۡا لَنَا ہٰذِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوۡا بِمُوۡسٰی وَ مَنۡ مَّعَہٗ ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓئِرُہُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۳۱﴾

But when good came to them, they said, "This is ours [by right]." And if a bad [condition] struck them, they saw an evil omen in Moses and those with him. Unquestionably, their fortune is with Allah , but most of them do not know.

سو جب ان پر خوشحالی آجاتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارے لئے ہونا ہی چایئے اور اگر ان کو کوئی بدحالی پیش آتی تو موسیٰ ( علیہ السلام ) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے یاد رکھو کہ ان کی نحوست اللہ تعالٰی کے پاس ہے لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَإِذَا جَاءتْهُمُ الْحَسَنَةُ ... That they might remember (take heed). But whenever good came to them, such as a fertile season and provisions, ... قَالُواْ لَنَا هَـذِهِ ... they said, "This is for us." because we deserve it, ... وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّيَةٌ ... and if evil afflicted them, drought and famine, ... يَطَّيَّرُواْ بِمُوسَى وَمَن مَّعَهُ ... they considered it an omen about Musa and those with him. saying that this hardship is because of them and what they have done. Verily, their omens are with Allah. ... أَلا إِنَّمَا طَايِرُهُمْ عِندَ اللّهُ ... Verily, their omens are with Allah, Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas commented, "Allah says that their afflictions are with and from Him, ... وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ but most of them know not."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

131۔ 1 حَسَنَةُ (بھلائی) سے مراد غلے اور پھلوں کی فروانی سَيِّئَةٌ (برائی) سے اس کے برعکس اور قحط سالی اور پیداوار میں کمی۔ بھلائی کا سارا کریڈٹ خود لے لیتے کہ یہ ہماری محنت کا ثمر ہے اور بدحالی کا سبب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اس پر ایمان لانے والوں کو قرار دیتے کہ یہ تم لوگوں کی نحوست کے اثرات ہمارے ملک پر پڑ رہے ہیں۔ 131۔ 2 طَائِرُ کی معنی اڑنے والا یعنی پرندہ۔ چونکہ پرندے کے بائیں یا دائیں اڑنے سے وہ لوگ نیک فالی یا بدفالی لیا کرتے تھے۔ اس لیے یہ لفظ مطلق فال کے لیے بھی استعمال ہونے لگ گیا اور اسی معنی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا خیر یا شر، جو خوش حالی یا قحط سالی کی وجہ سے انہیں پہنچتا ہے اس کے اسباب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے پیروکاروں اس کا سبب نہیں۔ ( ۭاَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ ) 7 ۔ الاعراف :131) کا مطلب ہوگا کہ ان کی بد شگونی کا سبب اللہ کے علم میں ہے اور وہ ان کا کفر و انکار ہے نہ کہ کچھ اور۔ یا اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی وجہ ان کا کفر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٧] یہ ویسی ہی تنبیہات ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ چھوٹے موٹے عذاب بھیج کر لوگوں کی آزمائش کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں یا نہیں ان تنبیہات کا نتیجہ بھی ان کے حق میں صفر ہی رہا جب بھلے دن آتے تو کہتے کہ یہ ہماری عقل مندی اور حسن تدبیر کا نتیجہ ہے اور ہم فی الواقع اس بھلائی کے مستحق تھے اور جب برے دن آتے تو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب کو مطعون کرنے لگتے کہ ان لوگوں کی نحوست سے ہمیں یہ برے دن دیکھنے نصیب ہوئے ان کے اپنے گناہوں کی طرف ان کی نظر جاتی ہی نہ تھی۔ حالانکہ یہ بات تو اللہ کے علم میں ہے کہ ان کی نحوست کے اصل اسباب کیا تھے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ ۔۔ : جیسا کہ آیت (٩٤، ٩٥) میں ذکر فرمایا تھا کہ ہر قوم کی آزمائش تنگی اور تکلیف کے علاوہ خوش حالی اور آسودگی کے ساتھ بھی ہوئی، اس کے مطابق فرعون کی قوم پر سختی اور مصیبت کے بعد راحت اور خوش حالی آتی تو بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھ کر شکر گزاری کریں، وہ ” لَنَا هٰذِهٖ “ کہتے، یعنی یہ ہمارے حسن انتظام کا نتیجہ اور ہمارا حق ہے۔ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي۔۔ : ” يَّطَّيَّرُوْا “ ” تَطَیَّرَ یَتَطَیَّرُ “ باب تفعل سے ہے جس کا مادہ ” طَیْرٌ“ (پرندہ) ہے۔ اصل میں ” یَتَطَیَّرُوْا “ تھا، تاء کا طاء میں ادغام کردیا ہے۔ مشرکین کا طریقہ تھا کہ فال لینے کے لیے کسی پرندے کو اڑاتے، اگر وہ اڑ کر دائیں طرف جاتا تو اسے نیک فال اور باعث برکت سمجھتے اور اگر بائیں طرف جاتا تو بدفال اور باعث نحوست سمجھتے، یہاں تمام مفسرین کے نزدیک ” تَطَیَّرَ “ کا معنی فالِ بد اور نحوست ہے، یعنی اپنی مصیبتوں کا باعث موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کو قرار دیتے۔ اَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ ۔۔ : یعنی اس نحوست کا اصل سبب تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور خیر و شر جو کچھ ان کو پہنچ رہا ہے تمام کا تمام اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے جو ان کے اعمال کے سبب ان کے حق میں لکھا جا چکا ہے، یہ سراسر جہالت ہے کہ بھلائی کو اپنی خوبی اور برائی کو کسی دوسرے کی نحوست قرار دیاجائے۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یعنی شومی قسمت بد ہے، سو اللہ کی تقدیر سے ہے، برائی اور بھلائی کا اثر آخرت میں ہوگا، اس کا جواب یہاں یہ نہیں فرمایا کہ شومی ان کے کفر سے تھی، کیونکہ کافر بھی دنیا میں عیش کرتے ہیں۔ اصل حقیقت (جو) تھی سو فرمائی کہ دنیا کے احوال موقوف بہ تقدیر ہیں۔ “ (موضح) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے “ تین دفعہ فرمایا ” اور ہم میں سے ہر ایک کو (کوئی نہ کوئی وہم ہوجاتا ہے) مگر اللہ تعالیٰ اسے توکل کی برکت سے دور کردیتا ہے۔ “ [ أبوداؤد، الطب، باب فی الطیرۃ : ٣٩١٠ ترمذی : ١٦١٤ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

When a people are stamped with the wrath of Allah they lose their faculty of distin-guishing right from wrong. Pharaoh and his people too, had lost their understanding. They did not take lesson from this warning. On the contrary, they ascribed the calamity to be a bad presage from the prophet Musa (علیہ السلام) and his people. The verse said, &So when something good came to them they said, &This is our right.& And if they suffered from something evil, they ascribed it as an ill omen to Musa (علیہ السلام) and those with him. Listen, their omen lies with Allah only, but most of them do not know.|" The Arabic word: طَائِرٍ‌ &T-a&ir& used for omen signifies a bird. The Arabs had a superstition that a bird coming down to their right or left meant a good or bad fate. The verse implies that good or bad fate comes from Allah. Everything in this world happens under the will of Allah. No one is there to bring good or bad fate to anyone. It is sheer ignorance to believe in such things and base their activities on such baseless assumptions. The last verse describes their rejection of the truth in these words:

لیکن جب کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کا قہر ہوتا ہے تو صحیح بات اس کی سمجھ نہیں آتی، قوم فرعون بھی اسی قہر میں مبتلا تھی، عذاب کے اس ابتدائی جھٹکہ سے بھی ان کو کوئی تنبیہ نہ ہوئی بلکہ اس کو اور ہر آنے والی مصیبت کو یہ کہنے لگے کہ یہ نحوست حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی ہے، فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ ، یعنی جب ان لوگوں کو کوئی بھلائی اور راحت و آرام ملتا تو یہ کہتے تھے کہ یہ ہمارا حق ہے ہمیں ملنا ہی چاہئے، اور جب کوئی مصیبت ور برائی پیش آتی تو کہتے کہ یہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کے اثر سے ہے، حق تعالیٰ نے ان کے جواب میں ارشاد فرمایا اَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔ لفظ طائر کے لغوی معنی پرندے جانور کے ہیں، عرب پرندہ جانوروں کے داہنی بائیں جانب اترنے سے اچھی بری فالیں لیا کرتے تھے، اس لئے مطلق فال کو بھی |" طائر |" کہنے لگے، اس آیت میں طائر کے یہی معنی ہیں، اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ ان کی فال اچھی یا بری جو کچھ بھی ہو وہ سب اللہ تعالیٰ کے پاس سے ہے جو کچھ اس عالم میں ظاہر ہوتا ہے سب اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے عمل میں آتا ہے، نہ اس میں کسی کی نحوست کا دخل ہے نہ برکت کا، یہ سب ان کی خام خیالی اور جہالت ہے جو پرندوں کے داہنے یا بائیں اڑ جانے سے اچھی بری فالیں لے کر اپنے مقاصد اور عمل کی بنیاد اس پر رکھتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا جَاۗءَتْہُمُ الْحَسَـنَۃُ قَالُوْا لَنَا ہٰذِہٖ۝ ٠ ۚ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَيِّئَۃٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَہٗ۝ ٠ ۭ اَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُہُمْ عِنْدَ اللہِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ١٣١ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ حسنة والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، ( ح س ن ) الحسن الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔ اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے طير ( فال) ، وتَطيَّرَ فلانٌ ، واطَّيَّرَ أصله التّفاؤل بالطَّيْرِ ثمّ يستعمل في كلّ ما يتفاء ل به ويتشاءم، قالُوا : إِنَّا تَطَيَّرْنا بِكُمْ [يس/ 18] ، ولذلک قيل : «لا طَيْرَ إلا طَيْرُكَ «1» » ، وقال تعالی: إِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا[ الأعراف/ 131] ، أي : يتشاء موا به، أَلا إِنَّما طائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ الأعراف/ 131] ، أي : شؤمهم : ما قد أعدّ اللہ لهم بسوء أعمالهم . وعلی ذلک قوله : قالُوا اطَّيَّرْنا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ قالَ طائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ النمل/ 47] ، قالُوا طائِرُكُمْ مَعَكُمْ [يس/ 19] ، وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء/ 13] ، أي : عمله الذي طَارَ عنه من خيرٍ وشرٍّ ، ويقال : تَطَايَرُوا : إذا أسرعوا، ويقال :إذا تفرّقوا «2» ، قال الشاعر : 303 ۔ طَارُوا إليه زَرَافَاتٍ ووُحْدَاناً وفجرٌ مُسْتَطِيرٌ ، أي : فاشٍ. قال تعالی: وَيَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً [ الإنسان/ 7] ، وغبارٌ مُسْتَطَارٌ ، خولف بين بنائهما فتصوّر الفجر بصورة الفاعل، فقیل : مُسْتَطِيرٌ ، والغبارُ بصورة المفعول، فقیل : مُسْتَطَارٌ وفرسٌ مُطَارٌ للسّريع، ولحدید الفؤاد، وخذ ما طَارَ من شَعْر رأسك، أي : ما انتشر حتی كأنه طَارَ. تطیر فلان واطیر اس کے اصل معنی تو کسی پرندہ سے شگون لینے کے ہیں پھر یہ ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہونے لگا ہے ۔ جس سے برا شگون لیا جائے اور اسے منحوس سمجھا جائے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا تَطَيَّرْنا بِكُمْ [يس/ 18] ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے کہا گیا ہے لا طیر الا طیرک کہ نہیں ہے نحوست مگر تیری طرف سے ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا[ الأعراف/ 131] اگر سختی پہنچتی ہے تو بد شگونی لیتے ہیں ۔ یعنی موسٰی (علیہ السلام) کو باعث نحوست سمجھتے ہیں چناچہ ان کے جواب میں فرمایا أَلا إِنَّما طائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ الأعراف/ 131] یعنی یہ ان کی بد اعمالیوں کی سزا ہے جو اللہ کے ہاں سے مل رہی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ قالُوا اطَّيَّرْنا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ قالَ طائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ النمل/ 47] وہ کہنے لگے کہ تم اور تمہارے ساتھیوں کو ہم بد شگون خیال کرتے ہیں ( صالح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ تمہاری بد شگوفی خدا کی طرف سے ہے ۔ قالُوا طائِرُكُمْ مَعَكُمْ [يس/ 19] انہوں نے کہا ہے کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء/ 13] اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ میں انسان اعمال کو طائر کہا گیا ہے ( کیونکہ عمل کے سر زد ہوجانے کے بعد انسان کو یہ اختیار نہیں رہتا کہ اسے واپس لے گویا وہ ( اس کے ہاتھوں سے اڑجا تا ہے تطائر وا وہ نہایت تیزی سی گئے منتشر ہوگئے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے طاردو الیہ ذرافات ووحدانا تو جماعتیں بن کر اور اکیلے اکیلے اس کی طرف اڑتے چلے جاتے ہیں ۔ فجر مستطیر منتشر ہونے والی صبح قرآن میں ہے : ۔ وَيَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً [ الإنسان/ 7] اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہوگی خوف رکھتے ہیں ۔ غبار مستطار بلند اور منتشر ہونے والا غبار فجر کو فاعل تصور کر کے اس کے متعلق مستطیر اسم فاعل کا صیغہ استعمال کرتے ہیں اور غبار کو مفعول تصور کر کے مستطار کہتے ہیں ۔ فرس مطار ہوشیار اور تیزرو گھوڑا ۔ خذ ماطا ر من شعر راسک یعنی اپنے سر کے پرا گندہ اور لمبے بال کاٹ ڈالو ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣١) جب ان کافروں پر خوشحالی اور فراخی آجاتی، تو کہتے کہ یہ ہمارے شایان شان ہے اور جب قحط اور سختیوں میں گرفتار ہوتے تو بدفالی اور نحوست لینا شروع کردیتے تھے، سختی اور فراخی یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں مگر سب نہیں جانتے اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣١ (فَاِذَا جَآءَ تْہُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ہٰذِہٖ ج) (وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّءَۃٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ ط) (اَلَآ اِنَّمَا طآءِرُہُمْ عِنْدَ اللّٰہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ جب ان کے حالات قدرے بہتر ہوتے یعنی فصلیں وغیرہ ٹھیک ہوجاتیں ‘ خوشحالی آتی اور ان کو آسائش حاصل ہوتی تو وہ کہتے کہ یہ ہماری محنت ‘ منصوبہ بندی اور کوشش کا نتیجہ ہے ‘ یہ ہمارا استحقاق ہے۔ اور جب ان کو فصلوں میں نقصان ہوتا یا کسی اور قسم کے مالی نقصانات کا انہیں سامنا کرنا پڑتا تو وہ اس سب کچھ کی ذمہ داری حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کے ساتھیوں پر ڈال دیتے کہ ہمارا یہ نقصان ان کی نحوست کی وجہ سے ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:131) لنا ھذہ۔ یہ ہمارا حق تھا۔ اس کے ہم مستحق تھے۔ تصبھم۔ ان کو پہنچے۔ اصاب یصیب اصابۃ (افعال) کسی کو تکلیف کا آلینا۔ تکلیف پہنچنا۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ یطیروا۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ تطیر (تفعل) سے اصل میں یتطیرون تھا۔ ان کی وجہ سے نون اعرابی گرگیا۔ یتطیروا ہوگیا۔ ت کو ط میں مدغم کرکے ط کو مشدد کردیا یطیروا ہوگیا۔ معنی وہ برا شگون لیتے تھے۔ وہ بدشگونی کرتے تھے۔ یتطیروا بموسی ومن معہ۔ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو بدشگون ٹھہراتے۔ طئرھم۔ ان کا شگون بد۔ ان کی فال بد۔ ان کی بری قسمت۔ ان کی نحوست۔ ان کی نامبارکی اصل میں ۔ طائر کے معنی اڑنے والا کے ہیں۔ طار یطیر طیران کا استعمال اسی معنی میں ہوتا ہے لیکن عرب جاہلیت کا معمول تھا کہ جب وہ کسی اہم کام کا ارادہ کرتے تو پرندوں کو للکارتے اور ان سے فال لیتے۔ اگر پرندے دائیں سے بائیں نکل جاتے تو اسے برا سمجھتے اور منحوس تصور کرتے اور پھر اس کام کو نہ کرتے۔ چناچہ اس طرح اس کا استعمال پرندوں سے برا شگون لینے کے معنی میں ہونے لگا۔ پھر ہر اس شے کے لئے کہ جس سے بدفالی لی جائے ۔ یا اسے منحوس سمجھا جائے اس کا استعمال ہونے لگا۔ الغرض چونکہ عرب پرندے کو شوم اور نحوست کی دلیل سمجھتے تھے اس لئے مدلول کو دلیل کا نام دے کر خود طائر اور طیر کو شوم سے موسوم کردیا۔ طائر کا استعمال حصہ اور نصیب میں بھی کرتے ہیں۔ عند اللہ۔ من جانب اللہ۔ اللہ کی طرف سے ہے (مکافات عمل کے قانون کے مطابق ان کے نصیب میں کردیتا ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 مگر ان شدائد کے بعد رفاہیت اور خوشحالی آتی تو بجائے اس کے اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھ کر شکر گزاری کریں لنا ھذہ کہتے یعنی یہ ہمارے حسن انتظام کا نتیجہ ہے۔10 تمام مفسرین کے نزدیک یہاں التطیر بمعنی تشام بمعنی نحوست ہے یعنی وہ کہتے کہ ان کی نحوست سے ہم پر آفت آئی ہے۔11 یعنی اس نحوست اصل سبب تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور خیر وشر جو کچھ ان کو پہنچ رہا ہے تمام اللہ تعالیٰ کی قضاوقدرت سے ہے جو ان کے اعمال کے سبب ان کے حق میں لکھا ہے جاچکا ہے۔ (کذافی الکبیر)12 کہ خیر وشرسب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اس نے جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ضرور ہو کر رہتا ہے کسی کی نحوست اور شومی کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے مگر عوام ہیں کہ خیر وشر کو اسباب ظاہری کی طرف نسبت کردیتے ہیں اور یہ سراسر جہا لت ہے۔ ( کبیر ) شاہ صاحب فرماتے ہیں شومی قسمت بد ہے سوا للہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہے برائی اور بھلائی کا اثر آخرت میں ہوگا اس کا جواب یہ نہیں فرمایا کہ شومی انکے کفر سے تھی کیونکہ کافر بھی دنیا میں عیش کرتے ہیں۔ اصل حقیقت تھی، سو فرمائی کہ دنیا کے احوال مو قوف بہ تقدیر ہیں۔ (از مو ضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی ہم مبارک طالع ہیں یہ ہماری خوش بختی کا اثر ہے یہ نہ تھا کہ اس کو خدا کی نعمت سمجھ کر شکر بجالاتے اور اطاعت اختیار کرتے۔ 5۔ یعنی ان کے اعمال کفریہ تو اللہ کو معلوم ہیں یہ نحوست ان ہی اعمال کی سزا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آل فرعون پر برے حالات اور مومنوں کے صبر و استقامت کا صلہ۔ فرعون اور آل فرعون کے بےپناہ مظالم کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تسلی دی تھی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کو تباہ و برباد کرے گا بشرطیکہ تم صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور نماز ادا کرتے رہو۔ فرعون نے جب اپنی دھمکی پر عمل کر دکھایا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے مظالم سے نجات پانے کے لیے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی۔ الٰہی تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کے اسباب و وسائل عنایت فرمائے۔ لیکن انھوں نے تیرا شکریہ ادا کرنے کے بجائے تیرے بندوں کو تیرے راستے سے گمراہ کرنے پر صرف کردیے ہیں۔ اے ہمارے رب ان کے مال و اسباب تباہ و برباد فرما۔ اور ان کے دلوں کو اس قدر سخت کردے کہ تیرا عذاب دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دی گئی کہ تمہاری دعا قبول کی جاتی ہے۔ اب تم اور ہارون اس بات پر قائم رہنا اور گمراہوں کے بارے میں جلد بازی نہ کرنا۔ (سورۂ یونس : ٨٨ تا ٨٩) ۔ (وَلَنُذِیقَنَّہُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنٰی دُونَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ )[ سورة السجدۃ : ٢١) ” ہم انھیں (قیامت کے) برے عذاب سے پہلے ہلکے عذاب کا ذائقہ بھی ضرور چکھاتے ہیں شاید وہ باز آجائیں۔ “ ہم مجرموں کو پہلے چھوٹے چھوٹے عذاب میں مبتلا کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھنے کی کوشش کریں۔ جب یہ لوگ سمجھنے کی طرف توجہ نہ کریں تو ان کو بڑا عذاب آلیتا ہے۔ یہی صورت آل فرعون کو پیش آئی۔ یہ ہدایت پانے کے بجائے گمراہی اور عہد شکنی میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ چناچہ آل فرعون کو کئی سال تک قحط سالی کے عذاب میں مبتلا کیا گیا تاکہ ان کے دماغ سے دولت کا نشہ اتر جائے اور یہ چھوٹے جھٹکوں کے بعد ہدایت کے راستے پر آجائیں۔ لیکن جونہی انھیں کچھ مہلت اور نعمت میسر ہوتی تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو کہتے یہ تو ہماری بہتر منصوبہ بندی اور حسن تدبیر کا نتیجہ ہے اور جب انھیں نقصان کے ذریعے جھٹکا دیا جاتا تو نصیحت حاصل کرنے کے بجائے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو الزام دیتے کہ یہ نحوست تمہاری وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ جس کا یہ جواب دیا گیا کہ نحوست مومنوں کی وجہ سے نہیں بلکہ تمہاری بد اعمالیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اس بات کو جاننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ قدیم زمانے سے جہلا کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے مختلف چیزوں سے بدشگونی لیا کرتے ہیں جن چیزوں سے بدشگونی لی جاتی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مخصوص اوقات میں اگر کوئی پرندہ ان کے مکان کی چھت پر آبیٹھے اگر وہ دائیں جانب اڑے تو ضعیف الاعتقاد لوگ سمجھتے ہیں کہ آج کا دن بہتر گزرے گا یا ہمارا فلاں کام ہوجائے گا اگر یہی پرندہ بائیں طرف اڑ جائے تو سمجھتے ہیں کہ آج کا دن منحوس ہوگا یا فلاں کام الٹ جائے گا۔ ایسے ہی بعض دوسری چیزوں اور آدمیوں کے بارے میں بدشگونی لی جاتی ہے۔ آل فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو برا سمجھتے ہوئے نحوست ان کے ذمہ لگایا کرتے تھے۔ اس طرح نہ صرف خود گمراہی میں مبتلا رہتے بلکہ دوسرے لوگوں کو اس بہانے سے مزید گمراہ کرنے کے درپے ہوتے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے سامنے معجزہ پیش کرتے تو یہ لوگ انھیں جادو گر قرار دیتے ہوئے چیلنج دیتے کہ اے موسیٰ ! تم جس قدر چاہو کرشمہ سازیاں کرو ہم تمہاری اس جادوگری کی وجہ سے کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ ” اَلْحَسَنَۃُ “ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو انتہائی خوبصورت ہو اور اس کی طرف انسان کا دل مائل ہو۔ یہ دنیا کی کوئی بھی نعمت ہوسکتی ہے اور یہ لفظ نیکی اور خیر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ نیکی سے بڑھ کر نیک آدمی کو کوئی چیز مرغوب نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلہ میں السیءۃ کا لفظ آتا ہے اس سے مراد دنیا کا ہر قسم کا نقصان ہے خواہ وہ بیماری کی شکل میں ہو یا مالی خسارے کی صورت میں اس کے لییالسیءۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ چھوٹے بڑے گناہ کو بھی سیءۃ کہا جاتا ہے۔ بعض مفسرین نے الحسنۃ سے مراد یہاں آل فرعون کی خوشحالی اور سیءۃ سے مراد ان کی بدحالی لی ہے۔ آل فرعون کے نحوست کے الزام کے مقابلے میں کہا گیا کہ یاد رکھو جو نحوست تم پر آئی ہے یہ کسی انسان کی طرف سے نہیں بلکہ تمہارے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بڑے عذاب سے پہلے مجرم قوم پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجتا ہے تاکہ یہ نصیحت حاصل کریں۔ ٢۔ مجرم لوگ نیک لوگوں کو ہمیشہ سے منحوس قرار دیتے آئے ہیں۔ ٣۔ نحوست کی بذات خود کوئی حیثیت نہیں کیونکہ خیر اور شر کا مالک اللہ ہے۔ ٤۔ آل فرعون نے بار بار اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تمسخر اڑایا۔ تفسیر بالقرآن آل فرعون پر مختلف قسم کے عذاب : ١۔ اللہ نے قوم فرعون پر طرح طرح کے عذاب بھیجے : طوفان، مکڑی، جوئیں، مینڈک، خون وغیرہ۔ (الاعراف : ١٣٣) ٢۔ قحط سالی۔ پھلوں میں نقصان۔ (الاعراف : ١٣٠) ٣۔ آل فرعون پر صبح وشام آگ پیش کی جاتی ہے اور قیامت کے دن انہیں سخت ترین عذاب سے دوچار کیا جائیگا۔ (المومن : ٤٦) ٤۔ ہم نے آل فرعون سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کردیا۔ (الاعراف : ١٣٦) ٥۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٣) ٦۔ ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الانفال : ٥٤) ٧۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور دوسروں کو ہم نے غرق کردیا۔ (الشعراء : ٦٦۔ ٦٧) ٨۔ ہم نے تمہیں نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (البقرۃ : ٥٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جب انسانی فطرت جادۂ مستقیم سے منحرف ہوجاتی ہے تو اسے نظر نہیں آتا کہ اس کائنات کو دست قدرت چلا رہا ہے۔ ان کو اللہ کا نظام قضا و قدر نظر نہیں آتا جس کے تحت تمام چیزیں پیدا ہو رہی ہیں اور تمام واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ جب یہ فطرت اس حد تک خراب ہوجائے تو پھر وہ اس کائنات میں پائے جانے والے نوامیس قدرت کا ادراک نہیں کرسکتی۔ حالانکہ یہ قوانین قدرت مستقلاً یہاں رواں دواں ہیں۔ ایسے لوگ پھر کائنات کے واقعات کی تفسیر اور تشریح انفرادی واقعہ کے طور پر کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں خیال کرتے کہ اس واقعہ کا کسی کلی اصول کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ ایسے لوگ دفتر خرافات لئے ہوئے بےآب وگیاہ وادیوں میں سرگرداں پھرتے رہتے ہیں۔ کسی اصول پر متفق نہیں ہوتے اور یہ کسی ایک راہ و رسم کے قائل نہیں ہوتے ، ان کی سوچ منطقی نہیں ہوتی۔ خروشیف جیسے لوگ بھی یہ کہتے ہیں کہ " طبیعت " ہمارے خلاف جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مادہ کس طرح ان کے خلاف جا رہا ہے۔ لیکن وہ (فعال لما یرید) کا قائل ہی نہیں ہے۔ تعجب ہے کہ بعض لوگ اصول الدین کا انکار کرتے ہوئے اور خدا اور خدا کی غیبی قدرت کا انکار کرکے بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ فرعون اور اس کے ساتھی دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کی ایسی تشریح کرتے تھے کہ اگر دنیا کے حالات اچھے ہوں تو کہتے کہ بس یہ ہمارا حسن کار کردگی ہے اور ہم اس سکے مستحق ہیں۔ اور اگر حالات خراب ہوں تو وہ کہتے کہ یہ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی وجہ سے ہوئے ہیں ، یعنی ان سے بدشگونی لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بدشگونی کیا چیز ہے۔ اس کے لئے یہاں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ وطیرہ ہے۔ اس کے لغوی معنی پرندے کا اڑنا ہیں۔ اہل جاہلیت کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی تھی کہ اس کائنات میں سنت الہیہ جاری ہے اور قدرت کے بعض ضوابط کے مطابق یہاں واقعات رونما ہوتے ہیں ، وہ ظاہری حالات کو دیکھ کر اور بت پرستی کے زیر اثر بعض عجیب توہمات پر یقین رکھتے تھے۔ اگر کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرتا تو کسی پرندے کے گھونسلے کے قریب جاتا اور گھونسلے سے پرندے کو اڑاتا۔ اگر پرندہ اس کے دائیں جانب سے اڑتا تو اسے " سانح " کہتے۔ اس سے وہ خوش ہوتے اور اس کام کو کر گزرتے ۔ اگر پرندہ بائیں جانب سے اڑتا تو اسے وہ " بارح " کہتے اور اسے بدشگونی سمجھ کر اس کام سے باز آجاتے۔ تو اسلام نے اس خرافاتی سوچ کو کالعدم کردیا۔ اور اس کی جگہ غور و فکر کا سائنٹیفک انداز دیا۔ اور نتائج کو اللہ کے سنن جاریہ پر چھوڑ دیا کہ نتائج جو بھی نکلیں گے وہ اللہ کے نظام قضا و قدر کے مطابق ظاہر ہوں گے۔ اسلام نے تمام معاملات کو سائنسی اور علمی انداز پر چھوڑ دیا جس میں اہمیت انسان کے ارادے اور اس کی نیت ، اس کی حرکت اور اس کی جدوجہد کو دی گئی۔ اور اللہ کے دائرہ قضا و قدر پر اللہ کی مشیت محیط ہے۔ (اَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ) " حالانکہ درحقیقت ان کی فال بد تو اللہ کے پاس تھی ، مگر ان میں سے اکثر بےعلم تھے " اس دنیا میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ان کا سبب واحد یہ ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے واقع ہوتے ہیں اور اللہ ہی کے ہاں سے ان کو اچھی بات نصیب ہوتی ہے جس میں ان کے لئے آزمائش ہے اور اللہ ہی کی طرف سے ان پر مصائب آتے ہیں اور یہ بھی آزمائش کے لیے ہیں۔ و نبلوکم بالشر والخیر فتنۃ والینا ترجعون " اور ہم خیر و شر میں مبتلا کرکے انہیں آزمائیں گے اور یہ آزمائش بڑا فتنہ ہے اور تم ہماری جانب لوٹوگے " انسان پر جو مشکلات آتی ہیں وہ اس کی شامت اعمال ہیں لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے اور اکثر تو ایسے ہیں جو سرے سے تقدیر الٰہی کے قائل ہی نہیں ہیں وہ اپنے نظریات کا اظہار سائنٹیف سوچ کے لفظ سے کرتے ہیں اور بعض اسے " قدرت کا عدم تعاون " کہتے ہیں مثلاً اشتراکی لوگ لیکن یہ سب حضرات حقیقت سے جاہل اور لا علم ہیں

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

124: قوم فرعون پر جب کبھی فراخی اور راحت آجاتی تو کہتے ہم اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے اسی کے مستحق ہیں لیکن اگر کوئی مالی یا جانی تکلیف پہنچ جاتی تو اسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کی طرف منسوب کرتے اور کہتے یہ سب انہی کی نحوست ہے۔ “ عیاذا بالله۔ اَلَا اِنَّمَا طٰٓئِرُھُمْ عِنْدَ اللّٰهِ ” حضرت ابن عباس فرماتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان پر جو تکلیف و مصیبت آرہی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی قضاء و قدر سے ہے۔ اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور مومنوں کی نحوست کو کوئی دخل نہیں۔ “ قال ابن عباس طائرھم ما یصیبھم ای ماطار لھم فی القدر مما ھم لا قوة ”(بحر ج 4 ص 370) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

131 چونکہ یہ سزائیں تھوڑے تھوڑے وقفہ سے ملتی تھیں اس لئے ان کی حالت یہ تھی کہ جب کبھی ان کو کوئی بھلائی اور آسودگی پہنچتی تو کہتے یہ ہمارا حق ہے اور یہ فائدہ تو ہم کو ملنا ہی چاہئے تھا اور جب کبھی ان کو کوئی سختی پہنچتی اور بدحالی پیش آجاتی تو اس کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور بدشگونی بتاتے اور یاد رکھو ان کی نحوست اور اس نحوست کا سبب تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے لیکن ان میں کے اکثر بےعلم ہیں اور اس بات کو نہیں جانتے یعنی شومی قسمت جو ہے سو اللہ کی تقدیر سے ہے بھلائی اور برائی کا اثر ہوگا آخرت میں اس کا جواب یہ نہ فرمایا کہ شومی ان کے کفر سے تھی کیونکہ کافر بھی دنیا میں عیش کرتے ہیں اصل حقیقت تھی سو فرمائی کہ دنیا کے احوال موقوف بر تقدیر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں سے یہ فال لینا اور ان کو پیرے کو نحس بتانا ان لوگوں کی غلطی اور بےعلمی تھی اللہ تعالیٰ کے پیغمبرکو منحوس بتانا اور اس کی تعلیم سے منکر ہونا یہی بڑی جہالت ہے اگر یہ اپنے گریبان میں منہ ڈالتے تو ان کو خود ہی معلوم ہوجاتا کہ اصل نحوست خود انہی کی تھی۔