When a people are stamped with the wrath of Allah they lose their faculty of distin-guishing right from wrong. Pharaoh and his people too, had lost their understanding. They did not take lesson from this warning. On the contrary, they ascribed the calamity to be a bad presage from the prophet Musa (علیہ السلام) and his people. The verse said, &So when something good came to them they said, &This is our right.& And if they suffered from something evil, they ascribed it as an ill omen to Musa (علیہ السلام) and those with him. Listen, their omen lies with Allah only, but most of them do not know.|" The Arabic word: طَائِرٍ &T-a&ir& used for omen signifies a bird. The Arabs had a superstition that a bird coming down to their right or left meant a good or bad fate. The verse implies that good or bad fate comes from Allah. Everything in this world happens under the will of Allah. No one is there to bring good or bad fate to anyone. It is sheer ignorance to believe in such things and base their activities on such baseless assumptions. The last verse describes their rejection of the truth in these words:
لیکن جب کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کا قہر ہوتا ہے تو صحیح بات اس کی سمجھ نہیں آتی، قوم فرعون بھی اسی قہر میں مبتلا تھی، عذاب کے اس ابتدائی جھٹکہ سے بھی ان کو کوئی تنبیہ نہ ہوئی بلکہ اس کو اور ہر آنے والی مصیبت کو یہ کہنے لگے کہ یہ نحوست حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی ہے، فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ ، یعنی جب ان لوگوں کو کوئی بھلائی اور راحت و آرام ملتا تو یہ کہتے تھے کہ یہ ہمارا حق ہے ہمیں ملنا ہی چاہئے، اور جب کوئی مصیبت ور برائی پیش آتی تو کہتے کہ یہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کے اثر سے ہے، حق تعالیٰ نے ان کے جواب میں ارشاد فرمایا اَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔ لفظ طائر کے لغوی معنی پرندے جانور کے ہیں، عرب پرندہ جانوروں کے داہنی بائیں جانب اترنے سے اچھی بری فالیں لیا کرتے تھے، اس لئے مطلق فال کو بھی |" طائر |" کہنے لگے، اس آیت میں طائر کے یہی معنی ہیں، اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ ان کی فال اچھی یا بری جو کچھ بھی ہو وہ سب اللہ تعالیٰ کے پاس سے ہے جو کچھ اس عالم میں ظاہر ہوتا ہے سب اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے عمل میں آتا ہے، نہ اس میں کسی کی نحوست کا دخل ہے نہ برکت کا، یہ سب ان کی خام خیالی اور جہالت ہے جو پرندوں کے داہنے یا بائیں اڑ جانے سے اچھی بری فالیں لے کر اپنے مقاصد اور عمل کی بنیاد اس پر رکھتے ہیں۔