Thereafter he turned to the Prophet Harun (علیہ السلام) and grasped the hair of his head. The Prophet Harun (علیہ السلام) then gave him the true account of the events and said that it was not his fault, for he stopped them from this wicked act but they did not listen to him. They were so obstinate about it that they were about to kill him. He said that he should not count him among the ignorant people and should not let his enemies laugh at him by treating him in that way. This made the Prophet Musa (علیہ السلام) cool down. At this occasion, he prayed to Allah, saying, رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ ۖ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ |"My Lord, forgive me and my brother, and admit us to Your mercy, and You are the most merciful of all those who show mercy.|" He asked forgiveness for his brother for any of his shortcoming with regard to his duties. He asked forgiveness for himself either for his putting away the tablets of the Torah in a hurry which the Holy Qur&an had described as having been &dropped& to make a gesture of warning, or perhaps, for educating people that they should include themselves while asking forgiveness for others to preclude the sense of complacency on their part.
اس کے بعد اس خیال پر کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اپنے فرائض قائم مقامی میں کوتاہی کی ہے ان کے بال پکڑ کر کھینچنے لگے تو حضرت ہارون (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ میرا قصور نہیں قوم نے میرا کوئی اثر نہ لیا اور میری بات نہ سنی بلکہ قریب تھا کہ وہ مجھے قتل کر ڈالتے اس لئے آپ میرے ساتھ ایسا برتاؤ نہ کریں جس سے میرے دشمن خوش ہوں اور آپ مجھے ان گمراہوں کے ساتھ نہ سمجھیں، تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاَخِيْ وَاَدْخِلْنَا فِيْ رَحْمَتِكَ ڮ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ ، یعنی اے میرے پروردگار مجھے بھی معاف فرما دیجئے اور میرے بھائی کو بھی اور ہم کو اپنی رحمت میں داخل فرما دیجئے اور آپ تو سب رحمت کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں۔ اس میں اپنے بھائی ہارون کے لئے تو اس بناء پر دعائے مغفرت کی کہ شاید ان سے کوئی کوتاہی قوم کو گمراہی سے روکنے میں ہوئی ہو اور اپنے لئے دعائے مغفرت یا تو اس بنا پر کی کہ جلدی کے ساتھ الواح تورات کو رکھ دینا جس کو قرآن کریم نے ڈال دینے سے تعبیر کرکے ایک غلطی پر متنبہ فرمایا ہے اس سے مغفرت طلب کرنا مقصود تھا۔ اور یا یہ کہ دعا کا ادب ہی یہ ہے کہ دوسرے کے لئے دعا کرے تو اپنے آپ کو بھی اس میں شامل کرے تاکہ اس کا استغناء محسوس نہ ہو یعنی یہ کہ یہ اپنے آپ کو دعا کا محتاج نہیں سمجھتا۔