Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 182

سورة الأعراف

وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا سَنَسۡتَدۡرِجُہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۸۲﴾ۚۖ

But those who deny Our signs - We will progressively lead them [to destruction] from where they do not know.

اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو بتدریج ( گرفت میں ) لئے جا رہے ہیں اس طور پر کہ ان کو خبر بھی نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said, وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِأيَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لاَ يَعْلَمُونَ Those who reject Our Ayat, We shall gradually seize them in ways they perceive not. meaning, the doors of provisions will be opened for them and also the means of livelihood, in this life. They will be deceived by all this and think that they are on the correct path. Allah said in another instance, فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَىْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُواْ بِمَأ أُوتُواْ أَخَذْنَـهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُّبْلِسُونَ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُواْ وَالْحَمْدُ للَّهِ رَبِّ الْعَـلَمِينَ So, when they forgot (the warning) with which they had been reminded, We opened for them the gates of every (pleasant) thing, until in the midst of their enjoyment in that which they were given, all of a sudden, We took them (in punishment), and lo! They were plunged into destruction with deep regrets and sorrow. So the root of the people who did wrong was cut off. And all the praises and thanks are to Allah, the Lord of all that exists. (6:44-45) Allah said here,

سامان تعیش کی کثرت عتاب الٰہی بھی ہے یعنی ایسے لوگوں کو روزی میں کشادی دی جائے گی ، معاش کی آسانیاں ملیں گی ، وہ دھوکے میں پڑ جائیں گے اور حقانیت کو بھول جائیں گے ۔ جب پورے مست ہو جائیں گے اور ہماری نصیحت کو گئی گذری کر دیں گے تو ہم انہیں ہر طرح کے آرام دیں گے یہاں تک کہ وہ مست ہو جائیں تب انہیں ہم ناگہانی پکڑ میں پکڑ لیں گے ۔ اس وقت وہ مایوسی کے ساتھ منہ تکتے رہ جائیں گے اور ان ظالموں کی رگ کٹ جائے گی ۔ حقیقتاً تعریفوں کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ انہیں میں تو ڈھیل دونگا اور یہ میرے اس داؤ سے بےخبر ہوں گے ۔ میری تدبیر کبھی ناکام نہیں ہوتی وہ بڑی مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ ۔۔ : یعنی ان پر فوری گرفت نہیں کروں گا، تاکہ وہ غفلت میں پڑے رہیں اور گناہ پر گناہ کرتے جائیں، اسی کا نام ڈھیل اور استدراج (آہستہ آہستہ کھینچ کرلے جانا) ہے، جو کفار کو ان کے گناہوں کی سزا میں دی جاتی ہے، مگر وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر بڑی مہربانی ہو رہی ہے، حالانکہ انھیں آخری عذاب کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (٤٤، ٤٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The next verse (182) has provided answer to a common question which bothers the minds of many Muslims. If prosperity and progress can only be achieved by following the way of truth and justice why the non-Muslim nations of the world are seen more prosperous, more advanced and more powerful while they are very far from the truth? The verse answered this question in these words: |"As for those who belie our signs, we shall let them be drawn gradually towards (their punishment) from where they do not know.|" That is to say, Allah does not punish those who reject the signs or verses of Allah immediately for their sins. He, out His wisdom and Mercy, lets them enjoy their worldly life for a while and then draws them to their ignominious end as gradually as they do not know of their being led to their ill-fate. The present prosperity and progress of the non-Muslims should, therefore, not deceive people, because their prosperity, in fact, is not something propitious for them. Rather it is a kind of respite, a temporary period of relief before the execution of their punishment, which in Qur&anic terminology is called Istidraj Istidraj is a more powerful punishment in disguise. The most essential element of Istidraj is that a person is not punished for his evil deeds immediately; the more he increases in his evil deeds, the more he is increased in prosperity and worldly possessions which prevents him from having a sense of guilty and taking warning against his crimes. Consequently, he is deprived of turning in repentance to Allah and save himself from everlasting punishment. This perverted state of mind makes one take illness as health and poison as remedy. He is let to go on with his perverted life until death overtakes him and draws him to the eternal chastisement. The Holy Qur&an has made mention of &Istidraj& in many other verses. It said in Surah al-An&-am: فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُ‌وا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِ‌حُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ ﴿٤٤﴾ |"So, when they forgot what they were required to remember, We opened to them the gates of everything, until, when they were rejoicing in what they were given, We seized them suddenly, and then they were confounded in despair.|" (6:44) Dealing with Istidraj is not limited to disbelievers only. The iniqui¬tous among Muslims are also dealt with this kind of punishment. It was for this reason that our elders used to fear Allah when they were favoured by Him with prosperity and comforts. They feared lest their prosperity should be a sign of &Istidraj&

دوسری آیت میں اس شبہ کا جواب ہے کہ جب قومی ترقی کا مدار حق پرستی اور حق و انصاف کی پیروی پر ہے تو دوسری غیر مسلم قومیں جو حق سے سراسر دور ہیں وہ کیوں دنیا میں پھلتی پھولتی نظر آتی ہیں، جواب یہ ہے (آیت) وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ، یعنی ہم اپنی آیات کے جھٹلانے والوں کو اپنی حکمت و رحمت کی بناء پر دفعةً نہیں پکڑتے بلکہ آہستہ آہستہ تدریجا پکڑتے ہیں جس کی ان کو خبر بھی نہیں ہوتی، اس لئے دنیا میں کفار و فجار کی مالداری یا عزت و جاہ سے دھوکہ نہ کھایا جائے، کیونکہ وہ درحقیقت ان کے لئے کوئی بھلائی کا سامان نہیں، بلکہ حق تعالیٰ کی طرف سے استدراج ہے، استدراج کے معنی درجہ بدرجہ، آہستہ آہستہ کوئی کام کرنے کے آتے ہیں، اصطلاح قرآن و سنت میں استدراج اس کو کہا جاتا ہے کہ بندہ کے گناہ پر دنیا میں کوئی تکلیف و مصیبت نہ آئے بلکہ جوں جوں وہ گناہ میں آگے بڑھتا جائے، دنیاوی مال و اسباب اور بڑھتے جائیں، جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کو اپنی بدکرداری پر کسی وقت تنبیہ نہیں ہوتی اور غلفت سے آنکھ نہیں کھلتی اور اپنے برے اعمال اس کو برے نظر نہیں آتے کہ وہ ان سے بازآنے کی فکر کرے۔ انسان کی یہ حالت اس مریض لاعلاج کے مشابہ ہے جو بیماری ہی کو شفاء اور زہر ہی کو تریاق سمجھ کر استعمال کرنے لگے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کبھی تو دنیا میں ہی یہ شخص دفعۃً عذاب میں پکڑ لیا جاتا ہے اور کبھی موت تک یہ سلسلہ چلتا ہے بالآخر موت ہی اس کی مستی اور بےہوشی کا خاتمہ کرتی ہے اور دائمی عذاب اس کا ٹھکانہ بن جاتا ہے۔ قرآن کریم نے مخلتف سورتوں اور آیتوں میں اس استدراج کا ذکر فرمایا ہے، ارشاد ہے (آیت) فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ ، یعنی جب یہ لوگ اس چیز کو بھلا بیٹھے جو ان کو یاد دلائی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ یہ اپنی ملی ہوئی نعمت و دولت پر اکڑ گئے تو ہم نے ان کو اچانک عذاب میں پکڑ لیا تو وہ خلاصی سے ناامید ہو کر رہ گئے۔ یہ استدراج کفار کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور مسلمان گنہگار کے ساتھ بھی، اسی لئے صحابہ اور سلف صالحین کو جب کبھی دنیا کی نعمت و دولت حق تعالیٰ نے عطا فرمائی تو غلبہ خوف کی وجہ سے استدراج سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں یہ دنیا کی دولت ہمارے لئے استدراج نہ ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ١٨٢ ۚ ۖ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ دَّرْجُ ( استدراج) والدَّرْجُ : طيّ الکتاب والثّوب، ويقال للمطويّ : دَرْجٌ. واستعیر الدَّرْج للموت، كما استعیر الطيّ له في قولهم : طوته المنيّة، وقولهم : من دبّ ودرج، أي : من کان حيّا فمشی، ومن مات فطوی أحواله، وقوله : سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُونَ [ الأعراف/ 182] ، قيل معناه : سنطويهم طيّ الکتاب، عبارة عن إغفالهم نحو : وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف/ 28] ، والدَّرَجُ : سفط يجعل فيه الشیء، والدُّرْجَة : خرقة تلفّ فتدخل في حياء «1» الناقة، وقیل : سَنَسْتَدْرِجُهُمْ معناه : نأخذهم درجة فدرجة، وذلک إدناؤهم من الشیء شيئا فشيئا، کالمراقي والمنازل في ارتقائها ونزولها . والدُّرَّاج : طائر يدرج في مشیته . الدرج ۔ کتاب یا کپڑے کی تہ اور لپیٹے ہوئے مراسلہ یا کپڑے کو بھی درج کہا جاتا ہے اور بطور استعارہ درج بمعنی موت بھی آجاتا ہے ۔ جیسا کہ طوتہ المنیۃ میں طی کا لفظ موت کے لئے مستعا رہے اور محاورہ ہے ۔ من دب ودرج یعنی جو زندہ اور چل پھر رہا ہے اور جو مرچکا ہے اور اس نے اپنے دفتر زندگی کو لپیٹ لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُونَ [ الأعراف/ 182] ہم ان کو بتدریج اس طریقے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم نہ ہوگا ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ ہم انہیں کتاب کی طرح لپیٹ لیں گے ۔ یہ ان کی بیخبر ی اور غفلت سے کنا یہ ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف/ 28] اور جو شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے ۔۔۔۔۔ اس کا کہا نہ ماننا ۔ بعض نے کے معنی یہ کئے ہیں کہ ہم انہیں بتدریج پکڑیں گے بایں طور کہ انہیں آہستہ آہستہ کسی چیز ( جہنم ) کے قریب لارہے ہیں جیسا کہ سیڑھیوں اور منزلوں پر چڑھا یا ان سے نیچے اترا جاتا ہے ۔ درج چھوٹا یلا جس میں عورتیں خوشبو اور سنکا رگا دیگر سامان رکھتی ہیں ۔ الدرجۃ وہ لتہ جسے لپیٹ کرنا قہ کی کس میں رکھ دیا جاتا ہے الدراج تیتر کیونکہ وہ بھی آہستہ آہستہ چلتا ہے ۔ حيث حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة/ 149] . ( ح ی ث ) حیث ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] اور تم جہاں ہوا کرو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨٢) ابوجہل اور اس کے ساتھی جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرتے ہیں اور نزول عذاب کے بارے میں مذاق اڑاتے ہیں، تو ہم ان کو اس طرح عذاب سے پکڑیں گے کہ انھیں نزول عذاب کا علم بھی نہ ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٢ (وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَیْثُ لاَ یَعْلَمُوْنَ ) بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ ایک شخص کفر کے راستے پر بڑھتا جاتا ہے تو ساتھ ہی اس کی دنیاوی کامیابیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں ‘ جس کی وجہ سے وہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے ‘ ٹھیک کر رہا ہے اور یہ دنیاوی کامیابیاں اس کی اسی روش کا ہی نتیجہ ہیں۔ لہٰذا وہ کفر اور معصیت کے راستے میں مزید آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ کیفیت کسی انسان کے لیے بہت بڑا فتنہ ہے اور اس کو استدراج کہا جاتا ہے۔ یعنی کوئی انسان جو پوری دیدہ دلیری اور ڈھٹائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی آیات سے اعراض اور اس کے احکام سے نافرمانی کرتا ہے تو اللہ اس کو ڈھیل دیتا ہے اور اس کی رسی دراز کردیتا ہے ‘ جس کی وجہ سے وہ گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٨٢۔ ١٨٣۔ اللہ پاک نے حق پر قائم رہنے والے لوگوں کا حال بیان فرمایا کہ اس آیت میں ان لوگوں کا حال بیان کیا جو حق باتوں کے مخالف ہیں مراد اس سے روئے زمین کے کل کافر ہیں جو قرآن کی آیتوں کو نہیں مانتے اور اس کی باتوں کو جھٹلاتے ہیں فرمایا ایسے لوگوں کو ہم آہستہ آہستہ پکڑیں گے ان کو معلوم بھی نہیں ہونے کا پہلے تو ان کو اس طرح پر ڈھیل دی جاوے گی کہ ان کے روزی میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کردیں گے مال دولت ہے انتہا دیں گے ہر طرح ان کو خوش وخرم رکھیں گے اور وہ لوگ ان نعمتوں کو دیکھ کر یہ گمان کرنے لگیں گے کہ وہ راہ راست پر ہیں اس لئے ان پر اللہ کا یہ فضل ہے مگر حقیقت میں یہ فضل و انعام نہیں ڈھیل ہے پھر فرمایا کہ اللہ کی پکڑ اس طرح پر ہوگی جب وہ لوگ خوب مال ہست ہوجاویں گے تو ہم ان کو ایک دفعہ ہی اس طرح مضبوطی کے ساتھ پکڑیں گے کہ ان کی رہائی نہ ہوگی صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عمر وبن عوف (رض) انصاری کی حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھ کو اپنی امت کی تنگدستی کی حالت کا کچھ خوف نہیں ہے بلکہ مجھ کو یہ خوف ہے کہ جب ان کو پچھلی امتوں کی طرح فارغ البالی ہوجاویگی تو ان میں طرح طرح کے فساد پیدا ہوجاویں ١ ؎ گے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ فارغ البالی نیک و بد ہر ایک شخص کے لئے دنیا میں بڑے امتحان کی چیز ہے دنیا کی فارغ البالی کے بعد جو شخص عقبے سے ایسا غافل ہوگیا جس طرح کے غافل لوگوں کا ذکر آیت اور حدیث میں ہے تو اس طرح کا شخص اس امتحان میں پوا نہیں اترا ہاں جس شخص نے دنیا کی فارغ البالی سے عقبے کی کچھ بہبودی کمائی وہ شخص اس امتحان میں گویا پورا ہے :۔ ١ ؎ یعنی جلد ہذا ص ٢٨٥ پر بحوالہ صحیح بخاری ج ٢ ص ٩٥١ باب الجذء رمن زہرۃ الدنیاء لخ و صحیح مسلم ج ٢ ص ٤٠٧ کتاب الزہد۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:182) سنستدرجھم۔ استدراج (استفعال) سے۔ اس کے معانی علماء نے مختلف پہلوؤں سے کئے ہیں۔ لیکن اصل میں کوئی اختلاف نہیں۔ (1) ہم ان کو آہستہ آہستہ پکڑتے ہیں (مولانا تھانوی (رح)) (2) استدراج کے معنی ہیں مخفی طریقہ سے آہستہ آہستہ کسی چیز کی طرف چلنا (معالم) (3) ہم ان کے ساتھ ایسی تدبیریں کرنے والے ہیں جن کا ان کو پتہ بھی نہ ہو۔ (عطار) (4) ہم ان کے اعمال کو ان کی نظر میں پسندیدہ بنادیں گے پھر ان کو ہلاک کردیں گے ۔ (کلبی) (5) جب وہ کوئی نیا گناہ کرتے ہیں تو ہم ان کو جدید نعمت بخشتے ہیں۔ (ضحاک) (6) ہم ان پر اپنی نعمتوں کو بہاتے ہیں لیکن یہ شکر ادا کرنا فراموش کرا دیتے ہیں ۔ (سفیان) (7) ہم ان کو آہستہ آہستہ پستی میں گرا دیں گے۔ اس طرح کہ ان کو علم تک نہ ہو۔ (کرم شاہ) درجۃ زینہ کی سیڑھیاں تدرج درجہ بدرجہ چڑھنا۔ (8) ہم قلیلا قلیلا ہلاکت کی طرف لے جائیں گے۔ (مظہری) من حیث لا یعلمون۔ اس طرح کہ ان کو علم تک نہ ہوگا۔ املی۔ میں ڈھیل دوں گا۔ میں ڈھیل دئیے جاتا ہوں۔ املاء (افعال) جس کے معنی مہلت میں ڈالنے۔ ڈھیل دینے۔ اور لمبی لمبی امیدیں دلانے کے ہیں۔ مضارع واحد متکلم۔ کیدی۔ میری تدبیر۔ کید ہر اچھی یا بری تدبیر کو کہتے ہیں قرآن حکیم میں اس کا استعمال بطور مذمت ہوا ہے وہاں اس کے مذموم معنی مراد ہیں جہاں بھی اس کی نسبت اللہ تعالیٰ سے ہو اس کے محمود معنی مراد ہیں۔ حسن تدبیر۔ ستین۔ صیغہ صفت مشبہ۔ مضبوط ۔ محکم۔ ریڑھ کی ہڈی کے دائیں اور بائیں حصہ کو متن کہتے ہیں ۔ اس سے متن فعل بنا لیا گیا۔ متن اس کی پشت قوی اور مضبوط ہوگئی ۔ اس کے اعضاء سخت اور مضبوط ہوگئے۔ متن مضبوط پشت والا۔ توسیع استعمال سے متن کا م (علیہ السلام) نی قوی اور محکم ہوگیا۔ متانت۔ مضبوطی۔ سنجیدگی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 23 ۔ آیات 182 ۔ تا۔ 188 اسرار و معارف : جو لوگ کفر یا انکار کی راہ اختیار کرتے ہیں برائی کا راستہ اپنا لیتے ہیں وہ آہستہ دست قدرت کی سخت گرفت میں آ رہے ہوتے ہیں مگر خود انہیں پتہ تک نہیں چلتا۔ استدرج : استدراج کا معنی تو آہستہ آہستہ کسی کام کرنے مگر اصطلاح شریعت میں ہر وہ کمال جو غفلت میں مبتلا کردے اور آہستہ آہستہ تباہی کی طرف لے جا رہا ہو جیسے بعض شعبدے کسی کو راہ حق میں مصیبت سے گھبرانا درست نہیں کیا لوگوں کا یہ گمان ہے کہ صرف یہ کہ دینے سے کہ ہم مومن ہیں وہ چھوٹ جائیں گے اور ان پر کوئی آزمائش نہ آئے گی یقینا آزمائش ضرور آئے گی بلکہ ان سے پہلی ساری امتوں کو آزمایا گیا اور اللہ نے کھرے اور کھوٹے سچے اور جھوٹے کو الگ الگ ثابت کردیا۔ آج کے مسلمان کا جو خیال ہے کہ کوئی ایسا راستہ ہو کہ اسلام پر بھی کاربند رہا جائے اور کافر بھی ناراض نہ ہوں اور کوئی مصیبت بھی کھڑی نہ کردیں یہ خیال خام ہے جو بھی حق پر عمل پیرا ہوگا اس کی آزمائش ضرور ہوگی ہاں کفار یہ نہ جان لیں کہ وہ برای کر کے اللہ کی گرفت سے بچ جائیں گے ان کی یہ سوچ بالکل غلط اور بری ہے یعنی وہ مغلوب ہوں گے اور دنیا میں بھی انجام کار مومن غالب ہوگا اور آخرت کا عذاب تو یقینی ہے۔ مومن کی زندگی : اور مومن جو وصال الہی کی امید پر زندگی گزارتا ہے کہ کافر کے کیے جو موت کہلاتی ہے اور بہت خوفناک نظر آتی ہے مومن کے لیے حضوری کی گھڑی اور نوید مسرت ہوتی ہے یعنی مومنانہ زندگی یہ ہے کہ اللہ سے ملاقات کے لیے زندہ رہا جائے تو ایسے لوگوں کو یقین کے ساتھ جان لینا چاہیے کہ اللہ کا وعدہ آرہا ہے اور اللہ سب کی بات سننے والا اور سارے حالات جاننے والا ہے۔ مجاہدہ انسان کی ضرورت ہے : اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ دین کے لیے بہت قربان کر رہا ہے اور بہت بڑے مجاہدے سے گزر رہا ہے تو اس کی اپنی ضرورت ہے اور خود اسی کو اس کا فائدہ ملے گا۔ اللہ تو تمام جہانوں سے بےنیاز ہے وہ کسی کی عبادت یا مجاہدے کا محتاج اور ضرورت مند نہیں۔ بلکہ جو لوگ صحیح عقیدہ اختیار کر کے نیک عمل میں بھی کوشاں رہتے ہیں ان سے اگر غلطی ہوگئی یاکمی رہ گئی تو اللہ اپنی رحمت عامہ سے اس کی تلافی فرما کر انہیں ان کے نیک اعمال کا اجر اعمال کی نسبت بہت اعلی عطا فرمائیں گے لہذا مجاہدے سے گھبرانا نہ چاہیے۔ عقیدہ کی اہمیت : اور جہاں تک عقیدے کا تعلق ہے تو اس کی اہمیت اتنی ہے کہ خود اللہ نے والدین سے حسن سلوک کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے لیکن اگر وہ بھی یہ کہ دیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرو یا کفریہ بات جس کا حق ہونا ثابت نہ ہو ماننے کا حکم دیں تو ان کا حکم ماننے سے بھی انکار کردیا جائے اور اے مخاطب ان کی یہ بات ہرگز مت ماننا اس لیے کہ تجھے واپس میری بارگاہ میں لوٹ کر آنا ہے جہاں اللہ کسی سے پوچھنے کا محتاج نہ ہوگا بلکہ آنے والے کو اس کے اعمال کی خبر دی جائے گی۔ اور یقینا جو لوگ نیکی پر کاربند رہے ان کا شمار نیک اور صالح لوگوں کے ساتھ ہوگا۔ اور کچھ لوگوں کا تو حال ایسا ہے کہ اپنے مسلمان ہونے کا تو اقرار کرتے ہیں مگر اللہ کی راہ میں کوئی تکلیف پیش آئے تو یا کفار کوئی دباؤ ڈالیں تو گھبرا جاتے ہیں جیسے اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے کہ اس کا نہ تو جواب ہوسکتا ہے اور نہ برداشت کیا جاسکتا ہے مگر یہ کفار سے ڈر کر ان کی بات مان لیتے ہیں۔ اور جب اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوتی ہے یا کوئی فائدہ نظر آتا ہے تو کہ اٹھتے ہیں کہ ہم بھی تو آپ کے ساتھ ہیں۔ کیا انہیں احساس نہیں کہ اللہ تو سب جہانوں کی مخلوق کے دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے اور یہ بھی کہ مشیت باری اسی جہان میں ایمانداروں اور منافقین کو الگ الگ کر دے گی۔ کفار اسلام کی راہ سے ہٹانے کے کئی حیلے کرتے ہیں جو ان کی طاقت اور رعب میں نہ آئے اسے کہتے ہیں بھئی تم ہماری راہ اختیار کرلو قیامت کو تمہارے گناہوں کا ذمہ ہم لے لیتے ہیں لہکن یہ بہت بڑا جھوٹ ہے وہ ہرگز کسی کا بوجھ نہ بانٹیں گے بلکہ ان کے اپنے کفر کا بوجھ ہی بہت بھاری ہوگا جبکہ دوسروں کو کفر کی دعوت دینے کا بوجھ بھی ان پر لادا جائے گا اور اس جھوٹ کی پرسش ان کے لیے بہت بڑی مصیبت بن جائے گی ۔ کفر کی دعوت کا بوجھ : جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے بولتے ہیں یہاں ثابت ہے کہ کفر کی دعوت دینا بھی بہت بڑا کفر ہے اور اگر کوئی عملا کفار کی غلامی پر لوگوں کو آمادہ کرے کہ دنی ا میں نقصان اٹھاؤ گے تو وہ بھی بہت بڑا گناہگار ہے اور کافروں کی غلامی میں انسان نقصان سے بچ نہیں سکتا بلکہ نقصان کے ساتھ ذلت میں بھی پھنس جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کا حال ہے جو عملا کفر کی غلامی کا مشورہ دیں اور جو سیاستدان یہ کہتے ہیں کہ سود کے بغیر زندہ رہنا محال ہے یا اسلامی سزائیں وحشیانہ ہیں ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر کفار مسلمانوں کا راستہ روکنے کے حربے استعمال کرنے لگے یا انہیں ایذا دینے کے درپے ہیں یا آج کے زمانے میں ایسا ہورہا ہے بلکہ یہ سب کچھ زمانہ قدیم سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے لیکن کفار کی سب تدبیروں کے باوجود فتح ہمیشہ دین دار لوگوں کو نصیب ہوئی جیسے نوح (علیہ السلام) کا واقعہ کہ ہم نے انہیں ان کی قوم میں مبعوث فرمایا کہ ان کی قوم ان کے حسب نسب اور عالی کردار سے خوب واقف تھی۔ انہوں نے نو سو پچاس برس مسلسل تبلیغ کی اور نیکی کی دعوت دی اور اتنا طویل عرصی کفار کے ایذا اور ان کے طعنے برداشت کیے مگر انہوں نے مان کر جواب نہ دیا تو اللہ کا عذاب آیا اور تمام کفار کو طوفان نے گھیر کر غرق کردیا کہ وہ بہت بڑے ظالم تھے اپنی ساری طاقت دولت اور تدبیریں لے کر غرق ہوگئے ان کے کام نہ آسکیں اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان سے بھی اور طوفان سے بھی محفوظ کردیا بلکہ جتنے لوگ بھی ایمان لاکر ان کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے سب سلامت رہے اور سب عالم کے لیے ایک معجزہ قرار پائے۔ ایسے ہی ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھ لیجیے کہ جب وہ مبعوث ہوئے اور قوم کو اللہ کی طرف دعوت دی کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور کاروبار حیات میں اللہ کی اطاعت اختیار کرو تمہاری دنیا کی اور آخرت کی بہتری اسی میں ہے خوب سمجھ لو۔ بھلا تم اللہ کی عبادت سے محروم ہو کر بت خانے سجائے بیٹھے ہو اور بتوں کے بارے جھوٹے قصے اور باطل عقیدے تراش رکھے ہیں۔ ان بتوں کو دیکھو جن کی تم عبادت کرتے ہو یہ تو تمہیں ایک دانہ گندم بھی نہیں دے سکتے۔ تمہیں دنیا ہی کی بھلائی مطلوب ہے تو وہ بھی اللہ ہی کے پاس نصیب ہوسکتی ہے۔ تم اس کی عبادت کرو اور اس کا شکر ادا کرنے کا راستہ اپناؤ تاکہ دنیا میں بھی فائدہ حاصل کرو اور پھر آخرت میں تو اسی کی بارگاہ میں جانا ہی ہے۔ علم غیب : دوسرے یہ بات قابل توجہ ہے کہ انبیاء کا موضوع ہی غیب سے متعلق ہے کہ فرشتے برزخ آخرت اور خود ذات باری جو سب سے بڑا غیب ہے تو تمام غیوب سے ساری مخلوق کو مطلع فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ علم غیب نہیں رکھت تو یہ سب باتیں اللہ کی طرف سے انبیاء کو بتائی جاتی ہیں اور جتنی بھی کسی کو بتائی گئیں سب سے زیادہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتائی گئیں آپ کا علم اولین و آخرین کے علوم سے بھی زیادہ ہے مگر اس کو غیب پر اطلاع دینا کہا گیا یعنی اطلاع علی الغیب اور علم غیب وہ ہے جس کے حصول میں کوئی واسطہ نہ ہو یہ صرف اللہ کریم کو سزاوار ہے ہاں شان نبوت یہ ہے کہ نیک و بد بھلائی اور برائی کا نہ صرف پتہ چلا جائے بدی سے بچنا نصیب ہوجائے ہاں یہ نعمت یقینا انہی کو نصیب ہوسکے گی جو ایمان لائیں گے کہ نبی سے اخذ فیض کی بنیاد ایمان ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی جہنم کی طرف۔ 4۔ اور لایعلمون کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس مہلت کو محمول کرتے ہیں اپنے طریقہ کے حق ہونے اور اپنے محبوب و مقبول عنداللہ ہونے پر حالانکہ وہ جہنم تک کی مسافت کو قطع کررہے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مکذبین کو ڈھیل دی جاتی ہے، اللہ جسے گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ان آیات میں اول تو یہ بیان فرمایا کہ ہم نے جن لوگوں کو پیدا کیا ہے ان میں ایک جماعت ایسی ہے جو حق کی ہدایت دینے والی ہے۔ یہ لوگ حق کی راہ بتاتے ہیں اور حق کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔ الفاظ کا عموم جنوں اور انسانوں سب کو شامل ہے۔ ان میں بہت سے لوگ وہ ہیں جنہیں دوزخ کے لیے پیدا فرمایا ان کا ذکر قریب ہی گزر چکا ہے اور یہاں بالتصریح یہ بیان فرمایا کہ ان میں حق کی راہ بتانے والے اور حق کے موافق انصاف کرنے والے بھی ہیں۔ پھر آیات کی تکذیب کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کی جو فوری پکڑ نہیں ہوتی اس سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ اللہ کے محبوب بندے ہیں اور مسلمان بھی ان کے ظاہری حال دیکھ کر ان پر رشک نہ کریں۔ دنیا میں اچھے حال میں ہونا عند اللہ مقبولیت کی دلیل نہیں اللہ تعالیٰ شانہٗ کا ایک تکوینی قانون استدراج بھی ہے جس کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے کفر اور بد اعمالی میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ڈھیل دیتے رہتے ہیں اور اسے خبر بھی نہیں ہوتی کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ یہ ڈھیل اس کے لیے مزید سر کشی کا باعث بنتی ہے اور پھر کبھی دنیا میں بھی گرفت ہوجاتی ہے اور آخرت میں تو اہل کفر کی سخت گرفت ہے ہی جس میں کوئی شک نہیں۔ اسلام کے دعویداروں میں جو معاصی میں غرق ہیں ان کے ساتھ بھی استدراج ہوجاتا ہے۔ وہ اس ڈھیل سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو برا فائدہ ہے۔ کیوں کہ اس کے پیچھے سخت گرفت آنے والی ہوتی ہے۔ اللہ کی ڈھیل سے دھوکہ نہ کھائیں یہ گرفت فرمانے کے لیے ایک تدبیر ہے۔ اسی کو فرمایا : (وَ اُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ) (اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، بیشک میری تدبیر مضبوط ہے) ۔ حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تو یہ دیکھے کہ اللہ کسی بندے کو اس کے گناہوں کے باو جود دنیا میں سے اس کی محبوب چیزیں دے رہا ہے تو وہ استدراج ہے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (سورۂ انعام کی آیت) (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ ) (آخر تک) تلاوت فرمائی (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٤٣) لفظ استدراج کا مادہ درج ہے (جو اوپر چڑھنے کے معنی میں آتا ہے) نافرمان آدمی کو نعمتیں ملتی رہتی ہیں تو وہ خوف خدا اور فکر آخرت سے غافل ہوتاچلا جاتا ہے۔ پھر اچانک پکڑ لیا جاتا ہے، چونکہ ڈھیل ملتی رہتی ہے اور درجہ بدرجہ معصیتوں میں ترقی کرتاچلا جاتا ہے۔ اس لیے اس کو استدراج سے تعبیر فرمایا، اس کے بعد فرمایا (اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا مَا بِصَاحِبِھِمْ مِّنْ جِنَّۃٍ ) کہ دعوت توحید دینے والا شخص جو ان کے اندر موجود ہے یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا اس کے بارے میں ان لوگوں نے غور نہیں کیا ؟ یہ جو محنت اور مجاہدہ کرتے ہیں لوگوں کو حق کی دعوت دیتے ہیں اور آخرت یاد دلاتے ہیں اور اس عمل پر لوگوں کی طرف سے تکلیفیں پہنچتی ہیں اور اس محنت پر انہیں دنیا کا کچھ نفع حاصل نہیں یہ غور کرنے کی بات ہے جسے اس کی محنت کا دنیا میں کچھ پھل نہیں ملتا اور الٹا لوگوں کا معتوب بھی رہتا ہے اسے کیا ضرورت ہے کہ ایسی محنت کرے، وہ کوئی دیوانہ نہیں اس کی سب باتیں حکمت کی ہیں اس کے افعال و اعمال سب درست ہیں، اس کے اخلاق و آداب کی خوبی کے سب معترف ہیں پھر اس کی دعوت کو کیوں قبول نہیں کرتے، بعض لوگ ضد میں آکر دیوانہ بھی کہہ دیتے تھے ارشاد فرمایا کہ غور تو کرو کیا یہ شخص دیوانہ ہوسکتا ہے ؟ چونکہ آپ ان ہی میں سے تھے ان کے ساتھ رہتے تھے اس لیے آپ کے بارے میں صاحبھم (ان کا ساتھی) فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

180: یہ پہلے دعوے سے متعلق ہے آپ تبلیغ توحید کا فریضہ انجام دیتے ہیں جو لوگ عناد سے تکذیب کرتے ہیں ان کو ہم اسطرح آہستہ آہستہ ہلاکت کی طرف لے جارہے ہیں۔ ہم نے ان کو مہلت اس لیے دے رکھی ہے تاکہ وہ دل کھول کر گناہوں کا ارتکاب کرلیں اور شدید ترین عذاب آخرت کے مستحق ہوجائیں مگر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اللہ ان پر خوش ہے۔ “ لیس المطلوب الا تدرجهم فی مدارج المعاصی الی ان یحق علیهم، کلمة العذاب الاخروی او الدنیویلی ما قیل علی افظع حال واشنعھا و ؟ ؟ النعم وسیلة الی ذٰلک ”(روح ج 9 ص 127) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

182 اور وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب اور ان کو جھٹلانے کا شیوہ اختیار کررکھا ہے ہم ان کو بتدریج آہستہ آہستہ جہنم اور ہلاکت و تباہی کی طرف اس طور پر لے جائیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی۔ یعنی ہم ان کو غیر محسوس طریقہ پر تباہی کے گڑھے کی طرف لے جارہے ہیں۔