Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 185

سورة الأعراف

اَوَ لَمۡ یَنۡظُرُوۡا فِیۡ مَلَکُوۡتِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنۡ شَیۡءٍ ۙ وَّ اَنۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ قَدِ اقۡتَرَبَ اَجَلُہُمۡ ۚ فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَہٗ یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۸۵﴾

Do they not look into the realm of the heavens and the earth and everything that Allah has created and [think] that perhaps their appointed time has come near? So in what statement hereafter will they believe?

اور کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور دوسری چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کیں ہیں اور اس بات میں کہ ممکن ہے کہ ان کی اجل قریب ہی آپہنچی ہو پھر قرآن کے بعد کون سی بات پر یہ لوگ ایمان لائیں گے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; أَوَلَمْ يَنظُرُواْ فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّهُ مِن شَيْءٍ وَأَنْ عَسَى أَن يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ ... Do they not look in the dominion of the heavens and the earth and all things that Allah has created; and that it may be that the end of their lives is near. Allah asks, those who denied faith, did they not contemplate about Our Ayat in the kingdom of the heavens and earth and what was created in them! Do they not contemplate about all this and learn lessons from it, so that they are certain that He Who has all this, has no equal or rival All this was made by He Who Alone deserves the worship and sincere religion, so that they might have faith in Him and believe in His Messenger, all the while turning to Allah's obedience, rejecting any rivals to Him, and rejecting idols. They should be warned that their lives may have reached their end, and they, thus, face their demise while disbelievers, ending up in Allah's torment and severe punishment. Allah said, ... فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُوْمِنُونَ In what message after this will they then believe! Allah says, what more warnings, and discouragements should compel them to believe, if the warnings and threats that Muhammad brought them from Allah in His Book do not compel them to do so.

شیطانی چکر اللہ تعالیٰ جل شانہ کی اتنی بڑی وسیع بادشاہت میں سے اور زمین و آسمان کی ہر طرح کی مخلوق میں سے کسی ایک چیز نے بھی بعد از غور وفکر انہیں یہ توفیق نہ دی کہ یہ با ایمان ہو جاتے ؟ اور رب کو بےنظیر و بےشبہ واحد و فردا مان لیتے ؟ اور جان لیتے کہ اتنی بڑی خلق کا خالق اتنے بڑے ملک کا واحد مالک ہی عبادتوں کے لائق ہے؟ پھر یہ ایمان قبول کر لیتے اسی کی عبادتوں میں لگ جاتے اور شرک و کفر سے یکسو ہو جاتے ؟ انہیں ڈر لگنے لگتا کہ کیا خبر ہماری موت کا وقت قریب ہی آ گیا ہو؟ ہم کفر پر ہی مر جائیں تو ابدی سزاؤں میں پڑ جائیں؟ جب انہیں اتنی نشانیوں کے دیکھ لینے کے بعد ، اس قدر باتیں سمجھا دینے کے بعد بھی ایمان و یقین نہ آیا ، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کے آ جانے کے بعد بھی یہ راہ رست پر نہ آئے تو اب کس بات کو مانیں گے؟ مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ معراج والی رات جب میں ساتویں آسمان پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ گویا اوپر کی طرف بجلی کڑک اور کھڑ کھڑاہٹ ہو رہی ہے ، میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس پہنچا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھروں جتنے اونچے تھے جن میں سانپ بھر رہے تھے جو باہر سے ہی نظر آتے تھے میں نے حضرت جبرائیل سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتلایا یہ سود خور ہیں جب میں وہاں سے اترنے لگا تو آسمان اول پر آکر میں نے دیکھا کہ نیچے کی جانب دھواں ، غبار اور شور غل ہے میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ جبرائیل نے کہا یہ شیاطین ہیں جو اپنی خرمستیوں اور دھینگا مشتیوں سے لوگوں کی آنکھوں پر پردے ڈال رہے ہیں کہ وہ آسمان و زمین کی بادشاہت کی چیزوں میں غورو فکر نہ کر سکیں اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ بڑے عجائبات دیکھتے ۔ اس کے ایک راوی علی بن زید بن جادعان کی بہت سی روایات منکر ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر بھی اگر یہ غور کریں تو یقینا یہ اللہ پر ایمان لے آئیں اس کے رسول کی تصدیق اور اس کی اطاعت اختیار کرلیں اور انہوں نے جو اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں۔ انہیں چھوڑ دیں اور اس بات سے ڈریں کہ انہیں موت اس حال میں آجائے کہ وہ کفر پر قائم ہوں۔ 185۔ 2 حَدِ یْث، سے مراد یہاں قرآن کریم ہے۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انداز و تہدید اور قرآن کریم کے بعد بھی اگر یہ ایمان نہ لائیں تو ان سے بڑھ کر انہیں ڈرانے والی چیز کیا ہوگی جو اللہ کی طرف سے نازل ہو اور پھر یہ اس پر ایمان نہ لائیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٥] یہاں حدیث سے مراد قرآن کریم ہے یعنی ان کے ساتھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ان کے اخروی انجام سے متنبہ کردیا ہے جس سے انہیں یقیناً دو چار ہونا پڑے گا اور موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں لہذا ان کو جلد از جلد اس رسول پر اور اس کتاب پر ایمان لانا چاہیے ایسا نہ ہو کہ تم اپنی سوچ بچار میں یا اس کی مخالفت میں لگے رہو اور یکدم تمہیں موت آجائے تو پھر افسوس اور حسرت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ : ” مَلَكُوْتِ “ یہ ” مُلْکٌ“ کے لفظ میں واؤ اور تاء کا اضافہ معنی میں وسعت کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” عظیم الشان سلطنت “ کیا گیا ہے۔ دلائل کونیہ یعنی اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان سلطنت سے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچے نبی ہونے کا ثبوت مل رہا ہے، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس توحید کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہ آسمان و زمین کی عظیم الشان سلطنت اور پوری کائنات کی ایک ایک چیز بلکہ ایک ایک ذرے سے ثابت ہو رہی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے (وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ۙ ) کے الفاظ کے ساتھ اس سلطنت میں جو بھی بڑی سے بڑی یا چھوٹی سے چھوٹی چیز پیدا فرمائی ہے اس کی طرف نگاہ کرنے کی بھی دعوت دی ہے۔ اتنی بڑی سلطنت کا ہر ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ مجھے کوئی پیدا کرنے والا ہے اور وہ ایک ہے کہ اس عظیم الشان سلطنت کے کسی حصے میں کوئی خرابی، کوئی ٹکراؤ یا حادثہ نہیں۔ وَّاَنْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ ۚ : اور کیا انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ ان کا مقرر وقت بالکل قریب آپہنچا ہو، یعنی موت کا مقرر وقت تو کسی کو معلوم نہیں، انسان کو کم از کم یہی سمجھ کر اپنے عقائد و اعمال کی پڑتال کرتے رہنا چاہیے کہ شاید اس کی موت کی گھڑی قریب آگئی ہو، مگر یہ بدبخت اتنا بھی نہیں سمجھتے۔ تفکر اور غور وفکر کی دعوت اس بات کی دلیل ہے کہ تقلید کا عذر قیامت کے دن کسی کام نہیں آئے گا۔ فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ : یعنی قرآن سے بڑا معجزہ کیا ہوگا اور اس سے بہتر نصیحت کس کتاب میں ہوگی اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہتر سمجھانے والا اور کون ہوگا، جس کی باتوں پر یہ ایمان لائیں گے ؟ آئندہ آیت سے معلوم ہو رہا ہے کہ ان کے ایمان نہ لانے کا اصل باعث ان کا تکبر اور سرکشی ہیں جو انھیں غور و فکر کرنے ہی نہیں دیتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The verse 185 has invited mankind to practice two important things. Firstly, to make thoughtful observation of the creation of Allah, the heavens, the earth and the things existing between them. Secondly, to be mindful of the period of life given to an individual. It does not require to be a genius to perceive the signs of Allah&s power and wisdom in everything around us. A little amount of serious thought is enough to make one see that everything, rather every particle of this world, is singing the praise of it&s Creator and is, in itself, a strong proof of Allah&s power and wisdom. Any one applying his intellect in conscious observation of things cannot avoid natural demand of faith in Allah, the One. Being mindful of uncertain period of one&s life makes him more active in attaining his objectives, because he is not sure how much time of life he has at his disposal. It would be noticed that all crimes and evil deeds are activated by disregard to one&s death. Those who are conscious of their indefinite period of life mostly avoid involving themselves in unwanted activities. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اَکثرُوا ذکرَھَا ذِم اللَّذَّاتِ المؤت |"Frequently remember the thing which eliminates the pleas¬ures - the death.|" The verse 185, has therefore said: |"Have they not looked into the kingdoms of the heavens and the earth, and into things Allah has created, and into the fact that their time may possibly have drawn near.|" The Arabic word مَلَکُوت (Malakut) signifies kingdom indicating a superlative degree, that is, the great Kingdom. The verse implies that the disbelievers have not used their common intellect in seeking the Truth which is evident in everything created by Allah, nor are they mindful of the uncertainty of life which may come to an end any moment, depriving them of all the chances of accepting the truth and repenting to Allah for their evil deeds. The last sentence of the verse warned them saying: |"In what other word, then, shall they believe after it?|" That is Allah has provided them with transparent signs, both internal and external, of the right path and of the True Faith. Those who are neglectful of such clear signs, there is nothing in the world to guide them to the right path.

پانچویں آیت میں ان کو دو چیزوں کی طرف دعوت فکر دی گئی ہے، اول اللہ تعالیٰ کی مخلوقات آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی بیشمار مصنوعات عجیبہ میں غور و فکر۔ دوسرے اپنی مدت عمر اور فرصت پر نظر۔ مصنوعات قدرت میں ذرا بھی عقل و فہم کے ساتھ غور کیا جائے تو ایک موٹی سمجھ والے انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کی شان قدرت کی معرفت اور نظارہ ہونے لگتا ہے، اور ذرا گہری نظر کرنے والے کے لئے تو عالم کا ذرہ ذرہ قادر مطلق اور حکیم کی حمد و ثنا کا تسبیح خوان نظر آنے لگتا ہے، جس کے بعد اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ایک فطری تقاضہ بن جاتا ہے۔ اور اپنی مدت عمر میں غور و فکر کا یہ نتیجہ ہے کہ جب انسان یہ سمجھ لے کہ موت کا وقت معلوم نہیں کب آجائے تو ضروری کاموں کے پورا کرنے میں غفلت سے باز آجاتا ہے، اور مستعدی سے کام کرنے لگتا ہے، موت سے غفلت ہی انسان کو تمام خرافات اور جرائم میں مبتلا رکھتی ہے، اور موت کا استحضار ہی وہ چیز ہے جو انسان کو بہت سے جرائم سے بچنے پر آمادہ کردیتا ہے۔ اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اکثروا ذکر ھاذم اللذات الموت یعنی تم اس چیز کو کثرت سے یاد کیا کرو جو سب لذتوں کو ختم کردینے والی ہے یعنی موت۔ اسی لئے آیت مذکورہ میں فرمایا گیا (آیت) اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ۙ وَّاَنْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ ، لفظ ملکوت ملک کے معنی میں مبالغہ کے لئے بولا جاتا ہے اس کے معنی ہیں ملک عظیم، معنی آیت کے یہ ہیں کہ ان منکرین نے کیا اللہ تعالیٰ کے ملک عظیم میں غور نہیں کیا جو آسمانوں اور زمینوں اور بیشمار اشیاء پر محیط ہے، اور کیا اس پر نظر نہیں کی کہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان کی موت قریب ہو جس کے بعد ایمان و عمل کی فرصت ختم ہوجائے گی۔ آخر آیت میں فرمایا (آیت) فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤ ْمِنُوْنَ ، یعنی جو لوگ قرآن کریم کی ایسی واضح نشانیوں سے بھی ایمان نہیں لاتے وہ اور کس چیز پر ایمان لائیں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللہُ مِنْ شَيْءٍ۝ ٠ ۙ وَّاَنْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُہُمْ۝ ٠ ۚ فَبِاَيِّ حَدِيْثٍؚبَعْدَہٗ يُؤْمِنُوْنَ۝ ١٨٥ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة/ 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء/ 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء/ 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران/ 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین/ 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة/ 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف/ 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ/ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف/ 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة/ 186] وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة/ 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء/ 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء/ 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران/ 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین/ 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة/ 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف/ 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ/ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف/ 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة/ 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ حدیث وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه، حدیث ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

کائنات پر دعوت فکر قول باری ہے اولم ینظروا فی ملکوت السموت والارض وما خلق اللہ من شئی ۔ کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا) آیت میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کائنات اس کی کاریگری اور حسن انتظام پر غور کرنے، اس کی ذات پر استدلال کرنے اور اس معاملے پر تدبر و تفکر سے کام لینے پر ابھارا گیا ہے اس لئے کہ یہ تمام باتیں اللہ کی ذات، اس کی حکمت، اس کی مہارت اور اس کے عدل پر دلالت کرتی ہے۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس کی پیدا کی ہوئی تمام چیزوں میں اس کی ذات کی نشاندہی موجود ہے اور یہ تمام چیزیں اس کی ذات کی طرف انسانوں کے فہم و شعور کو دعوت فکر دیتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ اگر لوگوں نے کائنات پر غور و فکر کے ذریعے اس کی ذات کی معرفت میں کوتاہی کی حتی کہ موت کا وقت آگیا اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی واحدانیت کی معرفت پر کائنات سے استدلال کا موقع ہاتھ سے نکل گیا تو یہ موقعہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا وان عسی ان یکون قد اقترب اجلھم فبای حدیث بعدہ یومنون۔ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلت زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آلگا ہو پھر آخر پیغمبر کی اس تنبیہ کے بعد اور کون سی بات ایسی ہوسکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں ؟ )

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨٥) جسے یہ لوگ سمجھتے ہیں، اہل مکہ نے سورج، چاند، تارے، بادل، اور زمین میں جو کچھ درخت، پہاڑ، سمندر اور جانور ہیں اور دوسری تمام چیزوں میں جن کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، غور نہیں کیا اور اس بات میں کہ اللہ کی طرف سے ان کی ہلاکت و بربادی قریب آپہنچی ہے۔ یہ لوگ اگر کتاب اللہ پر ایمان نہیں لاتے تو اس کے بعد پھر کس کتاب پر ایمان لائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٥ (اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْءٍلا ) وَّاَنْ عَسآی اَنْ یَّکُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُہُمْ ج) ۔ اس سے پہلے اسی سورت میں ہم پڑھ آئے ہیں : (وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ج) (آیت ٣٤) اور ہر قوم کے لیے ایک وقت معین ہے۔ جس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ لہٰذا یہ لوگ کیونکر بےفکر ہوسکتے ہیں !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

143. The word 'companion' here refers to the Prophet (peace be on him) who was born, brought up, grew into youth, in short, spent his whole life including his old age in their midst. Before the advent of his prophethood, Muhammad (peace be on him) was known to all the Quraysh as good natured and of sound mind. However, as he started calling people to accept the Message of God, they immediately dubbed him insane. Now it is obvious that they were not attributing insanity to him as regards his pre-prophetic life, for they had nothing evil to say about that period of his life. The charge of insanity, therefore, was levelled against the Message he began to preach when he was designated a Prophet. The Qur'an, therefore, asks them to give serious thought to the teachings of the Prophet (peace be on him) and to see if there is anything that is inconsistent with sanity, or is meaningless and irrational. Had people reflected on the order of the universe, or carefully considered even one single creation of God, they would have been convinced of the truth of the teachings of the Prophet (peace be on him). They would have realized that whatever he said to refute polytheism, or to establish God's unity or the accountability of man in the Hereafter, or about the necessity of man's surrender to God, was corroborated by the entire order of the universe and every single atom of God's creation. 144. The unbelievers, feeble-minded as they are, fail to understand that no one knows when he will die. For death overtakes man totally unawares. This being the case, what will be the end of those who waste the time at their disposal until death overtakes them and fail to find the direction to their salvation?

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :143 رفیق سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ آپ انہی لوگوں میں پیدا ہوئے ، انہی کے درمیان رہے بسے ، بچے سے جوان اور جوان سے بوڑھے ہوئے ۔ نبوت سے پہلے ساری قوم آپ کو ایک نہایت سلیم الطبع اور صحیح الدماغ آدمی کی حیثیت سے جانتی تھی ۔ نبوت کے بعد جب آپ نے خدا کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو یکایک آپ کو مجنون کہنے لگی ۔ ظاہر ہے کہ یہ حکمِ جُنون ان باتوں پر نہ تھا جو آپ نبی ہونے سے پہلے کرتے تھے بلکہ صرف اُنہی باتوں پر لگایا جارہا تھا جن کی آپ نے نبی ہونے کے بعد تبلیغ شروع کی ۔ اسی وجہ سے فرمایا جارہا ہے کہ ان لوگوں نے کبھی سوچا بھی ہے ، آخر ان باتوں میں کونسی بات جنون کی ہے؟ کونسی بات بے تُکی ، بے اصل اور غیر معقول ہے؟ اگر یہ آسمان و زمین کے نظام پر غور کرتے ، یا خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کو بھی بنظرِ تامل دیکھتے تو انہیں خود معلوم ہو جاتا کہ شرک کی تردید ، توحید کے اثبات ، بندگی رب کی دعوت اور انسان کی ذمہ داری و جواب دہی کے بارے میں جو کچھ ان کا بھائی انہیں سمجھا رہا ہے اس کی صداقت پر یہ پورا نظام کائنات اور خلق اللہ کا ذرہ ذرہ شہادت دے رہا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :144 یعنی نادان اتنا بھی نہیں سوچتے کہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے ، کچھ خبر نہیں کہ کب کس کی اجل آن پوری ہو ۔ پھر اگر ان میں سے کسی کا آخری وقت آگیا اور اپنے رویہ کی اصلاح کے لیے جو مہلت اسے ملی ہوئی ہے وہ انہی گمراہیوں اور بداعمالیوں میں ضائع ہوگئی تو آخر اس کا حشر کیا ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:185) ملکون۔ ملک فعل مبالغہ کے لئے تا بڑھا دی گئی ہے۔ اقتدا رکامل ۔ غلبہ تامہ۔ حکومت حقیقۃ۔ بقول راغب ملکوت اللہ کی بادشاہی و حکومت کے لئے خاص ہے۔ اقترب۔ وہ قریب آلگی۔ اقتراب (افتعال) اے ماضی واحد مذکر غائب۔ اجلہم۔ ان کی مدت مقررہ۔ ان کی موت۔ اولم ینظروا میں تین امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ (1) ملکوت ارض و سمائ۔ (2) مختلف النوع مخلوق جو اس ارض و سماء میں ہے۔ (3) اجل کا کسی وقت بھی آلگنا۔ بعدہ میں ہ ضمیر (واحد مذکر غائب) قرآن کی طرف راجع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی دلائل گونیہ میں غور و فکر سے بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صدق نبوت کا اثبات ہوسکتا ہے کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس توحید کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہی توحید دے رہے ہیں وہی توحید آیات کو نیہ سے ثابت ہورہی ہے، امام رازی فرماتے ہیں : معلوم ہوا کہ امر نبوت توحید کی فرع ہے ورنہ ان انا الا نذیر مبین کے دعویٰ کے بعد الم یتفکروا الخ کی تقریر بےربط ہو کر رہ جائے گی۔ ( کبیر ) 11 یعنی موت کا مقررہ وقت تو کسی کو معلوم نہیں۔ انسان کم از کم نیکی کی طرف راغب ہوجا نا چاہیے کہ شاید اس کی موت کی گھڑ قر یب ہو مگر یہ بدبخت اتنا بھی نہیں سمجھتے (کذافی الو حیدی)12 یا قرآن حکیم سے کوئی بہتر نصیحت اور کسی کتاب میں ہوگی اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہتر کوئی سمجھانے والا ہوگا جس کی باتوں پر یہ ایمان لائینگے ( از وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ حاصل یہ کہ نہ دین حق کے موصل یعنی دلیل کی فکر ہے اور نہ اس فکر فی الموصل کے معین یعنی استحضار موت کا ذکر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس عجیب کائنات کے بارے میں یہ ایک دوسری کھڑکی ہے اور اس عظیم اور وسیع و عریض کائنات کو کھلی آنکھوں اور بیدار دل کے ساتھ دیکھنے کی دعوت ہے۔ اگر غور سے اس عظیم کائنات ہی پر نظر ڈال لی جائے تو انسانی فطرت جہالت کے جن دبیز پردوں کے نیچے گم ہے وہ باہر نکل آئے اور انسانی شخصیت کے سامنے حق کی راہیں کھل سکتی ہیں اس کائنات میں تخلیق کی عجیب و غریب کارفرمائیاں اور ایسے کارنامے جو معجز ہیں اور جو قادر مطلق اور وحدہ لاشریک کی ذات پر دال ہیں۔ کیا وہ کسی ایک چیز کی تخلیق پر غور نہیں کرتے ، جبکہ اس کائنات میں بیشمار قابل غور چیزیں ہیں جن پر غور کرنے سے انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ، انسانی فکر عاجز رہ جاتی ہے اور عقل ان کاریگریوں کے صناع اور کاریگر کی تلاش میں نکل جاتی ہے۔ اور پھر وہ اس ارادے کو جاننا چاہتی ہے جس نے اس خلق کو پیدا کیا اور اس کے لیے اس نظام کو جاری کیا۔ یہ مخلوقات اس طرح کیوں ہے ؟ اس کے علاوہ اس کائنات کے لیے ہزاروں امکانیات تھے۔ یہ کائنات دوسری طرح کیوں نہ بنی۔ دوسرے طریقوں کو چھوڑ کر کیوں یہ کائنات اس موجودہ طریقے پر چل پڑی اور پھر وہ کون سی قوت ہے جو اسے اس نہج پر چلائے رکھتی ہے۔ اس پوری کائنات میں ایک ہی نظام طبیعت جاری وساری ہے ، یہ کیوں ؟ اگر اس کے پیچھے ایک ہی فعال لما یرید نہیں ہے تو اس پوری کائنات میں جاری وساری اور اس کے پیچھے کیوں ایک ہی ارادہ اور ایک ہی ناموس نظر آتا ہے۔ اور ایک ہی تقدیر اور اندازہ مسلسل چل رہا ہے۔ ایک زندہ جسم ! نہیں بلکہ ایک خلیہ ایک عظیم معجزہ ہے جس کے عجائبات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ اس کا وجود اس کی ترکیب اور اس کے تصرفات اور اس کے اندر پیدا ہونے والی مسلسل تبدیلیاں جو مسلسل اس کے وجود کا تحفظ کرتی ہیں اور اس کے اندر پھر کئی نسلوں تک تجدید نسل کا انتظام۔ پھر تمام نسلوں میں اس کے فرائض کا تعین ، جو شخص اس ایک خلیے کا مطالعہ کرے تو اس کا ضمیر اور اس کی عقل کبھی بھی اس بات پر مطمئن نہیں ہوسکتی کہ یہ کائنات بغیر کسی الہ اور مدبر کے نہیں چل سکتی یا کوئی عقل کبھی بھی اس نتیجے تک نہیں پہنچ سکتی کہ اللہ کے سوا کوئی اور الہ بھی ہوسکتا ہے۔ زندگی کا یہ تسلسل بذریعہ نظام نسل کشی بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کائنات ایک خالق اور مدبر کے قانون کے مطابق چل رہی ہے ورنہ کروڑوں سال کے عرصہ میں وہ کون سی طاقت ہے جو نسل کشی کے لیے مرد اور عورت کا ایک تناسب قائم رکھے ہوئے ہے۔ ایسا دور کیوں نہیں آتا کہ مرد ہی مرد پیدا ہوں صرف عورتیں ہی پیدا ہوں۔ اگر کبھی ایسا واقعہ ہوجائے تو اس دور میں نسل کشی کا خاتمہ ہی ہوجائے۔ سوال یہ ہے کہ نسلاً بعد نسل اس تناسب اور توازن کو کس قوت نے قائم کر رکھا ہے۔ یہ توازن زمین و آسمان کے نظام میں مکمل طور پر کار فرما ہے۔ صرف اس زندہ مخلوق ہی اندر نہیں ہے۔ ایک ایٹم کی ساخت اور کسی مرکب چیز کی ساخت میں مکمل توازن موجود ہے۔ زندہ اور مردہ تمام مخلوقات کے اندر مکمل توازن موجود ہے۔ اور اگر ایک لمحہ بھر کے لیے یہ توازن بگڑ جائے تو یہ کائنات ڈھیر ہوکر رہ جائے۔ لہذا یہ بہت ہی اہم سوال ہے کہ وہ ذات کون سی ہے جس نے یہ توازن زمین و آسمان میں قائم کر رکھا ہے۔ جزیرۃ العرب کے باشندے جن کو سب سے پہلے اس قرآن نے مخاطب کیا ، وہ علوم و فنون میں اس قدر زیادہ ترقی یافتہ نہ تھے کہ وہ زمین اور آسمانوں کے نظام میں پائے جانے والے نہایت ہی لطیف توازن پر غور کرسکتے یا اللہ کی پیدا کردہ کسی ایک ہی چیز کا سائنسی تجزیہ کرسکتے۔ لیکن انسانی فطرت اس کائنات کے ساتھ اپنی گہرائیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ انسانی فطرت اور کائنات کی فطرت کے درمیان قائم ربط سائنسی مکالمات کا محتاج نہیں ہے۔ ان کے درمیان ایک توازن پایا جاتا ہے۔ ہر انسان جس کا دل کھلا ہوا اور آنکھوں میں بصیرت ہو وہ اس ہم آہنگی کو محسوس کرسکتا ہے اور اس کے اشارات کو قبول کرکے راہ ہدایت لے سکتا ہے۔ جب انسان اپنی فطرت صافی کے ذریعے فطرت کائنات ک کے ان اشارات کو پاتا ہے تو وہ یقین کرلیتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی الہ ضرور ہے اور اس کے احساس پر یہ حقیقت اور یقین اسی طرح چسپاں ہوجاتا ہے کہ کبھی غائب نہیں ہوتا۔ انسان نے اگر کوئی غلطی کی ہے تو اس نے الہ کی صفات میں کی ہے۔ رسولوں کی بعثت کا مقصد زیادہ تر یہی رہا ہے کہ انہوں نے اس لہ کا تعارف کرایا ہے۔ اس کی صفات کا صحیح تصور دیا ہے۔ رہے جدید ملحد ، یعنی سائنٹیفک اشتراکیت کے داعی تو یہ وہ مسخ شدہ لوگ ہیں جن کی فطرت بگڑ چکی ہے بلکہ در اصل وہ فطرت کے منکر ہیں اور ان کی اپنی فکر میں اگر کچھ اشارات پائے جاتے ہیں تو وہ ان کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص جب فضائے آسمان میں قدرے بلند ہوا اور وہاں سے اس نے یہ حیران کن منظر دیکھا کہ زمین اس عظیم فضا کے اندر ایک چھوٹی سی گیند نظر آتی ہے ، اس کی فطرت نے اس وقت اسے آواز دی کہ ذرا سوچو تو سہی ، اس فضا میں اسے کس چیز نے معلق کر رکھا ہے ، لیکن جب وہ زمین پر اترا اور حکومت کی جانب سے تشدد کا خوف اسے لاحق ہوا تو اس نے یہ بیان دیا کہ اسے فضا آسمانی میں خدا نہیں ملا۔ اس شخص نے اپنی فطرت کی آواز اور فطرت کی جانب سے اصرار کو دبا دیا اور آسمان و زمین کے نظام میں اس کے لیے جو سامان عبرت تھا ، اسے نظر انداز کردیا۔ اللہ تعالیٰ انسان سے مخاطب ہے کیونکہ انسان کی تخلیق اسی نے کی ہے۔ وہ اس کی فطرت سے اچھی طرح واقف ہے آخر میں ان کو حادثہ موت سے ڈرایا جاتا ہے ، جو مستقبل کے پردوں میں چھپا ہوا اور بہت قریب ہے اور عالم الغیب میں وہ وقت طے شدہ ہے اگرچہ یہ لوگ اس وقت سے غافل ہیں۔ وَّاَنْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ ۚ فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ ۔ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلت زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آ لگا ہو ؟ پھر آخر پیغمبر کی اس تنبیہ کے بعد اور کون سی بات ایسی ہوسکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں ؟ ان کو کیا پتہ ہے کہ ان کا وقت قریب ہے یا دور ہے ، اور کیا وجہ ہے کہ وہ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیںَ حالانکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور ان کے کوچ کا وقت پردہ غیب میں مستور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موت کی یاد دہانی ، خصوصا جب وہ کسی بھی وقت میں آسکتی ہے ، انسان کے دل کو جھنجھوڑنے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ اس کی یاد سے انسان کے دل کے دروازے ہدایت کے لیے کھل سکتے ہیں اور انسان معاملات کو حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھ سکتا ہے۔ اللہ اس قرآن کو نازل کرنے والا اور انسان کو پیدا کرنے والا ہے۔ اللہ کو معلوم ہے کہ موت کا تصور ہر انسان پر اپنا اثر ضرور کرتا ہے لیکن بعض لوگ اس قدر ضدی ہوتے ہیں کہ وہ یہ اثر قبول کرنے کے باوجود انکار کرتے ہیں اور مکابرے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو لوگ حدیث رحلت سے بھی متاثر نہیں ہوتے۔ آخر ان پر کیا چیز اثر کرسکتی ہے ؟ یہی تو بات ہے جو دلوں کو پگھلا دیتی ہے اور وہ نرم ہوجاتے ہیں۔ تذکرہ موت کا ٹچ جو انسانی شخصیت کو اس آیت میں دیا گیا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم انسانی شخصیت کے خطاب میں کیا منہاج اختیار کرتا ہے۔ وہ انسانی شخصیت کے ہر پہلو کو مخاطب کرتا ہے۔ وہ ہر زاویہ اور ہر وتر سے اس پر اثرات چھوڑتا ہے۔ قرآن کریم انانی عقل کو مخاطب نہیں کرتا مگر عقل کو مہمل بھی نہیں چھوڑتا بلکہ وہ انسانی شخصیت کو ہمہ پہلو خطاب کرتا ہے اور اس کے ہر گوشے کو روشن کرتا ہے۔ قرآن کریم خشک بحث و مباحثے کا طریقہ بھی اختیار نہیں کرتا۔ قرآن کریم عقل اور سوچ زندہ کرتا ہے تاکہ انسان فکر کرے ، لیکن اس کی زندگی سرد اور جامد نہ ہو بلکہ حرارت سے پر ہو اور انسانی شخصیت بھرپور انداز میں آگے بڑھے۔ اسلام کی طرف دعوت دینے والوں کو یہی انداز اختیار کرنا چاہئے کیونکہ انسان بہرحال وہی انسان ہے اور اس کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں واقع ہوئی۔ قرآن بھی وہی قرآن ہے اور یہ قیامت تک باقی رہنے والا ہے۔ انسان کو اللہ نے جو خطاب کیا ہے وہ اسی طرح قائم ہے ، چاہے دنیا جس قدر بھی ترقی کرے اور حالات جس قدر بھی بدل جائیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

185 اور کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کی بادشاہت میں اور نیز ان چیزوں میں جو دوسری چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں نظر نہیں کی اور نہ اس بات پر ان منکروں نے غور کیا کہ شاید ان کی اجل اور ان کا وقت معین قریب ہی آپہنچا ہو۔ پھر آخر اس امر حق اور قرآن کریم کے بعد اب یہ لوگ کون سی بات پر ایمان لائیں گے۔ یعنی نہ تو پیغمبر کے معاملہ میں یہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرتے ہیں اور نہ عالم علوی اور نہ عالم سفلی پر نظر استدلال سے غور کرتے ہیں جو خدا کی توحید سمجھ میں آئے اور اس کا مستجمع بجمیع صفت الکمال ہونا ثابت ہو اور نہ اس پر غور کرتے ہیں کہ شاید ان کا وقت پورا ہوچکا ہو تو یہ خدا سے ڈریں اور خدا کے عذاب سے ڈر کر ایمان کے دامن میں پناہ لیں جب انہوں نے اپنے قوائے فکریہ کو اس قدر معطل کررکھا ہے تو آخر قرآن کریم اور اسلام کے بعد یہ اور کون سی چیز کی تلاش میں ہیں جس پر ایمان لائیں گے۔