Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 22

سورة الأعراف

فَدَلّٰىہُمَا بِغُرُوۡرٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا وَ طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ ؕ وَ نَادٰىہُمَا رَبُّہُمَاۤ اَلَمۡ اَنۡہَکُمَا عَنۡ تِلۡکُمَا الشَّجَرَۃِ وَ اَقُلۡ لَّکُمَاۤ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ﴿۲۲﴾

So he made them fall, through deception. And when they tasted of the tree, their private parts became apparent to them, and they began to fasten together over themselves from the leaves of Paradise. And their Lord called to them, "Did I not forbid you from that tree and tell you that Satan is to you a clear enemy?"

سو ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پردہ ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کر چکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے ،

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; فَدَلاَّهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْءَاتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَأنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ So he misled them with deception. Then when they tasted of the tree, that which was hidden from them of their shame (private parts) became manifest to them and they began to cover themselves with the leaves of Paradise. Ubayy bin Ka`b said, "Adam was a tall man, about the height of a palm tree, and he had thick hair on his head. When he committed the error that he committed, his private part appeared to him while before, he did not see it. So he started running in fright through Paradise, but a tree in Paradise took him by the head. He said to it, `Release me,' but it said, `No, I will not release you.' So his Lord called him, `O Adam! Do you run away from Me!' He said, `O Lord! I felt ashamed before You."' Ibn Jarir and Ibn Marduwyah collected this statement using several chains of narration from Al-Hasan from Ubayy bin Ka`b who narrated it from the Prophet. However, relating the Hadith to Ubayy is more correct. Ibn Abbas commented on the Ayah, وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ (And they began to cover themselves with the leaves of Paradise). "Using fig leaves." This statement has an authentic chain of narration leading to Ibn Abbas. Mujahid said that they began to cover themselves with the leaves of Paradise, "Making them as a dress (or garment)." Commenting on Allah's statement, يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا (Stripping them of their raiment) (7:27) Wahb bin Munabbih said, "The private parts of Adam and Hawwa' had a light covering them which prevented them from seeing the private parts of each other. When they ate from the tree, their private parts appeared to them." Ibn Jarir reported this statement with an authentic chain of narration. Abdur-Razzaq reported from Qatadah, "Adam said, `O Lord! What if I repented and sought forgiveness!' Allah said, `Then, I will admit you into Paradise.' As for Shaytan, he did not ask for forgiveness, but for respite. Each one of them was given what he asked for."

لغزش کے بعد کیا ہوا ؟ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام کا قد مثل درخت کھجور کے بہت لمبا تھا اور سر پر بہت لمبے لمبے بال تھے ، درخت کھانے سے پہلے انہیں اپنی شرمگاہ کا علم بھی نہ تھا نظر ہی نہ پڑی تھی ۔ لیکن اس خطا کے ہوتے ہی وہ ظاہر ہو گئی ، بھاگنے لگے تو بال ایک درخت میں الجھ گئے ، کہنے لگے اے درخت مجھے چھوڑ دے درخت سے جواب ملا کہ ناممکن ہے ، اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ اے آدم مجھ سے بھاگ رہا ہے؟ کہنے لگے یا اللہ شرمندگی ہے ، شرمسار ہوں ، گو یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح موقوف ہونا ہی ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں ، درخت کا پھل کھا لیا اور چھپانے کی چیز ظاہر ہو گئی ، جنت کے پتوں سے چھپانے لگے ، ایک کو ایک پر چپکا نے لگے ، حضرت آدم مارے غیرت کے ادھر ادھر بھاگنے لگے لیکن ایک درخت کے ساتھ الجھ کر رہ گئے اللہ تعالیٰ نے ندا دی کہ آدم مجھ سے بھاگتا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں یا اللہ مگر شرماتا ہوں ۔ جناب باری نے فرمایا آدم جو کچھ میں نے تجھے دے رکھا تھا کیا وہ تجھے کافی نہ تھا ؟ آپ نے جواب دیا بیشک کافی تھا لیکن یا اللہ مجھے یہ علم نہ تھا کہ کوئی تیرا نام لے کر تیری قسم کھا کر جھوٹ کہے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب تو میری نافرمانی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور تکلیفیں اٹھانا ہوں گی ۔ چنانچہ جنت سے دونوں کو اتار دیا گیا ، اب اس کشادگی کے بعد کی یہ تنگی ان پر بہت گراں گذری کھانے پینے کو ترس گئے ، پھر انہیں لوہے کی صنعت سکھائی گئی ، کھیتی کا کام بتایا گیا ، آپ نے زمین صاف کی دانے بوئے ، وہ آگے بڑھے ، بالیں نکلیں ، دانے پکے ، پھر توڑے گئے ، پھر پیسے آ گئے ، آٹا گندھا ، پھر روٹی تیار ہوئی ، پھر کھائی جب جا کر بھوک کی تکلیف سے نجات پائی ۔ تین کے پتوں سے اپنا آگا پیچھا چھپاتے پھرتے تھے جو مثل کپڑے کے تھے ، وہ نورانی پردے جن سے ایک دوسرے سے یہ اعضا چھپے ہوئے تھے ، نافرمانی ہوتے ہی ہٹ گئے اور وہ نظر آنے لگے ، حضرت آدم اسی وقت اللہ کی طرف رغبت کرنے لگے توبہ استغفار کی طرف جھک پڑے ، بخلاف ابلیس کے کہ اس نے سزا کا نام سنتے ہی اپنے ابلیسی ہتھیار یعنی ہمیشہ کی زندگی وغیرہ طلب کی ۔ اللہ نے دونوں کی دعا سنی اور دونوں کی طلب کردہ چیزیں عنایت فرمائی ۔ مروی ہے کہ حضرت آدم نے جب درخت کھا لیا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی سزا یہ ہے کہ حمل کی حالت میں بھی تکلیف میں رہیں گی بچہ ہونے کے وقت بھی تکلیف اٹھائیں گی ، یہ سنتے ہی حضرت جواء نے نوحہ شروع کیا ، حکم ہوا کہ یہی تجھ پر اور تیری اولاد پر لکھ دیا گیا ۔ حضرت آدم نے جناب باری میں عرض کی اور اللہ نے انہیں دعا سکھائی ، انہوں نے دعا کی جو قبول ہوئی ۔ قصور معاف فرما دیا گیا فالحمد اللہ!

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 تدلیۃ اور ادلاء کے معنی ہیں کسی چیز کو اوپر سے نیچے چھوڑ دینا گویا شیطان ان کو مرتبہ علیا سے اتار کر ممنوعہ درخت کا پھل کھانے تک لے آیا 22۔ 2 یہ اس مصیت کا اثر ظاہر ہوا جو آدم (علیہ السلام) و حوا سے غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر ہوئی اور پھر دونوں مارے شرم کے جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر اپنی شرم گاہ چھپانے لگے۔ اس سے قبل انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا نورانی لباس ملا ہوا تھا، جو اگرچہ غیر مرئی تھا لیکن ایک دوسرے کی شرم گاہ کے لئے ساتر (پردہ پوش) تھا۔ ابن کثیر 22۔ 3 یعنی اس تنبہ کے باوجود تم شیطان کے وسوسوں کا شکار ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کے جال بڑے حسین اور دلفریب ہوتے ہیں اور جن سے بچنے کے لئے بڑی کاوش و محنت اور ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] یعنی یہ نہیں ہوا کہ ادھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا اور سبز باغ دکھائے تو فوراً سیدنا آدم وحوا (علیہا السلام) اس درخت کا پھل کھانے کو تیار ہوگئے بلکہ وہ مدتوں ان باتوں کی یقین دہانی کراتا رہا کہ اگر تم نے یہ پھل کھالیا تو تم فی الواقع انسانیت سے ترقی کر کے فرشتوں کے درجہ پر پہنچ جاؤ گے۔ اس دوران وہ قسمیں بھی کھاتا رہا تاآنکہ وہ انہیں اس نافرمانی پر اکسانے کی کوشش میں کامیاب ہوگیا۔ [ ١٩] حیا اور مقامات ستر کو ڈھانپنا انسانی فطرت میں داخل ہے :۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شرم و حیا کا جذبہ اور اپنے مقامات ستر کو ڈھانپ کر رکھنا عورت اور مرد دونوں کی فطرت کے اندر داخل ہے پھل کھانے کی وجہ سے جب سیدنا آدم (علیہ السلام) و حوا (علیہ السلام) کا جنتی لباس چھن گیا تو سب سے پہلی فکر جو انہیں دامن گیر ہوئی وہ یہ تھی کہ اپنے مقامات ستر کو چھپائیں اور فوری طور پر کچھ نہ ملا تو جنت کے درختوں کے پتوں ہی کو ایک دوسرے پر یا اپنے بدن پر چسپاں کر کے اپنی شرمگاہوں کو چھپا دیا۔ اس آیت سے ان && محققین && کے بیان کی تردید ہوجاتی ہے جو انسانی تہذیب و تمدن کی داستان لکھنے بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ انسان ابتداء ننگا رہا کرتا تھا اور مدتوں بعد اس نے لباس تیار کیا اور بدن ڈھانپنا سیکھا اور یہ وہی محققین ہیں جو انسان کو حیوان ہی کی ترقی یافتہ شکل قرار دیتے ہیں اور چونکہ حیوان اپنے مقامات ستر نہیں ڈھانپتے اس لیے انہوں نے سمجھ لیا کہ انسان بھی ابتداء ایسا ہی تھا۔ قرآن ان سب باتوں کی پر زور تردید کرتا ہے، وہ انسان کو ایک مستقل اور الگ مخلوق کی حیثیت دیتا ہے جو آدم سے شروع ہوئی اور آدم کا پتلا اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا پھر اسے سنوارا اور بہت اچھی شکل و صورت بنائی پھر اس میں اپنی روح میں سے پھونک کر اسے باقی مخلوق سے افضل و برتر بنادیا پھر سیدنا آدم (علیہ السلام) کو نبوت عطا فرمائی لہذا وہ خالص موحد تھے جبکہ ہمارے ان محققین کا انسان ابتداء مظاہر پرست تھا وجہ یہ ہے کہ ان محققین کا سارا انحصار ظن وتخمین پر ہے۔ جب کہ وحی الٰہی ہمیں حقیقی علم عطا کرتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍ ۚ : ” دَلّٰی یُدَلِّیْ تَدْلِیَۃً “ ( تفعیل) اور ” اَدْلٰی یُدْلِیْ اِدْلَاءً “ (افعال) یہ ” دَلْوٌ“ (ڈول) سے ہے، یعنی جیسے ڈول نیچے گرایا جاتا ہے اس طرح کسی چیز کو اوپر سے نیچے کی طرف چھوڑنا، یعنی شیطان نے دھوکے سے ان کو ان کے بلند مرتبے سے نیچے اتار دیا۔ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ : سورة طٰہٰ (١٢١) میں ہے : (فَاَكَلَا مِنْهَا) کہ انھوں نے اس میں سے کھالیا۔ زیر تفسیر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے میں سے صرف چکھنے کی دیر تھی کہ جنت کی کرامت چھن گئی اور وہ بےلباس ہوگئے۔ وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ۭ: معلوم ہوا انسان فطرتاً باحیا پیدا ہوا ہے اور ننگا ہونا انسانی فطرت کے خلاف ہے، اس لیے آدم اور حوا ( علیہ السلام) درختوں کے پتوں سے ستر چھپانے لگے۔ شیطان اسی لیے بےلباس ہونے کو پسند کرتا ہے۔ جبکہ ننگا ہونا جانوروں کی فطرت ہے اور کفار اور ان کے پیروکار ننگا ہونا پسند کرتے ہیں، اگر لباس پہنتے ہیں تو ایسا جو انھیں بےلباس ہونے سے بھی زیادہ ننگا کرے، ان کی انسانی فطرت مسخ ہوچکی ہے، انھی کے بارے میں آتا ہے : ( ۭاُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ ) [ الأعراف : ١٧٩ ] ” یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ “ وَنَادٰىهُمَا رَبُّهُمَآ : اس آیت اور دوسری بہت سی آیات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں صوت (آواز) ہے اور فرشتے اور آدمی اسے سن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آواز اور کلام سے انکار کر کے قرآن کو کلام اللہ کے بجائے مخلوق قرار دینا سراسر گمراہی ہے۔ امام احمد ابن حنبل (رح) نے اپنی عظیم استقامت کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کے دلائل سے تمام دنیا کے سامنے اس بات کا غلط ہونا ثابت فرما دیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا۝ ٠ ۫ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝ ٢٣ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢) جب ان دونوں نے اس درخت کا پھل کھایا فورا ان کے پردہ کا بدن ایک دوسرے کے سامنے ہوگیا اور دونوں شرم وحیا سے انجیر کے پتوں سے اپنے جسم کو چھپانے لگے اس وقت آدم وحوا (علیہ السلام) سے پروردگار نے کہا کیا میں نے اس درخت سے کھانے سے تمہیں نہیں منع کیا تھا اور کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا اور واضح دشمن ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ ط) اپنی عریانی کا احساس ہونے کے بعد وہ جنت کے درختوں کے پتوں کو آپس میں سی کر یا جوڑ کر اپنے اپنے ستر کو چھپانے کا اہتمام کرنے لگے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: نیچے اتارنے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ طاعت کے جس بلند مقام پر تھے، اس سے نیچے اتار لیا، اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جنت سے دُنیا میں اتار لیا۔ 9: اس سے معلوم ہوا کہ عریانی سے حفاظت اِنسان کی فطرت میں داخل ہے اسی لئے جونہی دونوں کا لباس اترا انہوں نے ہر ممکن طریقے سے اپنا ستر چھپانے کی کوشش کی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(22 ۔ 23) ۔ شیطان نے آدم و حوا (علیہما السلام) کے سامنے قسم کھائی اور قسم کا دھوکا دے کر اس درخت کا پھل کھانے پر کہ جس سے ان کو منع کیا گیا تھا ان کو آمادہ کردیا اور جنت سے ان کو نکلوا دیا گیہوں کے کھاتے ہی ان کے ستر کھل گئے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ ان کے بدن پر سے کپڑے جنت کے اتر پڑے جو بدن چھپا ہوا تھا وہ ظاہر ہوگیا ورنہ پہلے دونوں کو اپنا ستر نظر نہ آتا تھا انجیر کے پتے لے کر ستر چھپانے لگے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) جب جنت میں آباد ہوئے تو ان کو ایک کپڑا پہنایا گیا تھا وہ کپڑا چھین لیا گیا کچھ کچھ انگلیوں پر اس کا نشان باقی رہ گیا ہے جس نشان کو ناخن کہتے ہیں قتادہ (رض) کا قول بھی یہی ہے چناچہ آگے آتا ہے صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت آدم (علیہ السلام) کا قد ساٹھ گزکا تھا معتبر سند سے تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن حاتم میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب گیہوں کے کھانے سے حضرت آدم ( علیہ السلام) کا جنتی لباس اتر گیا وہ شرما کر بھاگے مگر قد کے لمبے اور سر پر بال ہونے کے سبب سے ان کے بال جنت کے پیڑوں میں الجھ کر رہ گئے اس وقت آواز دے کر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ( علیہ السلام) سے یہ فرمایا کہ آدم ( علیہ السلام) کیا تو مجھ سے بھاگتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ جس کا ذکر آگے کی آیت میں ہے۔ ان روایتوں کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ فد لہما بغرور (اس کا مطلب عربی زبان کے محاورہ کہ موافق یہ ہے کہ شیطان نے اپنے مکر و فریب سے آدم ( علیہ السلام) اور حوا کو بہکا دیا۔ ذاتا الشجرۃ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدم ( علیہ السلام) اور حوا نے چکھنے کے طور پر تھوڑے سے دانے گیہوں کے کھائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پکار کر یہ ارشاد فرمایا کیا مجھ سے بھاگتا ہے عرض کیا نہیں مگر مجھ کو تجھ سے شرم آتی ہے فرمایا میں نے جو کچھ تجھ کو جنت کی نعمتیں دیں گیا وہ تجھے کافی نہ تھیں تو مناہی کی چیز کی طرف مائل ہوا عرض کیا کہ اے پروردگار قسم ہے تیرے عزت کی میں نے یہ نہ جانا تھا کہ کوئی تیری جھوٹی قسم بھی کھاتا ہے فرمایا قسم ہے مجھ کو اپنی عزت کی کہ میں تجھ کو زمین میں اتاروں گا پھر محنت مشقت سے تو زندگی بسر کرے گا۔ اہل سنت کا یہ اعتقاد ہے کہ جس طرح بلاشبہ اور بغیر تفصیلی کیفیت کے معلوم کرنے کے اللہ تعالیٰ کی اور صفتیں ہیں اسی طرح کی اس کی صفت کلام الٰہی بھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ارادے کے موافق جس وقت جو چاہتا ہے وہ وقت کے مناسب پر ارشاد فرماتا ہے۔ مثلا جب آدم ( علیہ السلام) اور حوا نے شیطان کے بہکانے سے گیہوں کے دانے کھائے تو اللہ تعالیٰ نے پکار کر یہ دونوں سے ارشاد فرمایا کہ کیوں میں نے اس پیڑ کا پھل کھانے سے تم کو منع نہیں کیا تھا۔ فرقہ جہمیہ کے لوگ اس اعتقاد میں اہل سنت کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہوا یا کسی پیڑ میں ایک آواز پیدا کردیتا ہے اور جس کو وہ آواز سنانی منظور ہوئی اسے وہ آواز سنا دیتا ہے سب آسمانی کتابیں ان لوگوں کے اعتقاد میں اسی طرح کی ہیں۔ سوائے کلام الٰہی کے اللہ تعالیٰ کی اور صفات میں بھی اس فرقے کے لوگوں نے طرح طرح کی باتیں نکالی ہیں۔ خلفاء بنی امیہ میں سے ہشام بن عبد الملک کی خلافت میں ایک شخص جعدبن جرہم نے پہلے پہل یہ باتیں نکالی تھیں۔ ہشام نے جب اس شخص کا حال سنا تو اس کو پکڑ کر ملک عراق کے اپنے ایک سرور خالد بن قسری کے پاس بھیج دیا۔ اگرچہ خالد نے بعد کو چند روز قید رکھ کر ان باتوں سے توبہ کرنے کی مہلت دی لیکن خود جب اپنی باتوں سے باز نہ آیا اور جعد کے قتل کے باب میں خلیفہ ہشام کا تاکیدی حکم آیا تو خالد نے عیدالاضحیٰ کے خطبہ میں عراق کے لوگوں کو یہ سنا دیا کہ لوگ اپنی اپنی قرمانی کریں اور میں جعد کی قربانی کرتا ہوں۔ اس بات کے سنا دینے کے بعد خالد نے جعد کو قتل کر ڈالا۔ جعد کے قتل کے زمانہ تک جو تابعی لوگ موجود تھے ان کو اس کے قتل ہوجانے سے بڑی خوشی ہوئی قتل کے بعد جعد کی باتوں کو ایک شخص جہم بن صفوان نے لوگوں میں پھیلایا فرقہ جہمیہ اس شخص کے نام سے مشہور ہے پھر فرقہ معتزلہ امامہا اور خارجیہ میں بھی رفتہ رفتہ یہ بات پھیل گئی یہ لوگ صفات الٰہی کی آیتوں اور حدیثوں میں اس طرح کی باتیں نکالتے ہیں جو صفات الٰہی کے انکار کے برابر اور سلف کے اعتقاد کے بالکل مخالف ہیں اہل سنت اور ان فرقوں کا مباحث شروع سنہ تیسویں ہجری سے چلا آتا ہے صدہا کتابیں اس مباحثہ میں تصنیف ہوچکی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جن مفسروں نے اپنی تفسیروں کا مدار اہل سنت کے اعتقاد پر رکھا ہے وہ اس آیت کی تفسیر میں یہی لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اور اس قسم کی اور آیتوں میں پکار کر ارشاد فرمانے کی صفت کو جب اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں اپنی ذات کے لئے تو اب فرمایا ہے تو بغیر مشابہت صفات مخلوقات کے ہم اس کا اقرار کرتے ہیں اور تفصیل کیفیت اللہ کو سونپتے ہیں اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ بیان کردیا گیا ہے کہ یہ تفسیر صحابہ اور تابعین کے قول کے موافق ہوگی اس واسطے جس شخص کے قتل سے تابعی لوگوں کو خوشی ہوئی ایسے شخص کا یا اس کی پیروی کرنے والوں کا کوئی قول اس تفسیر میں نہیں لیا جاسکتا اللہ تعالیٰ نے جب آدم ( علیہ السلام) اور حوا کو جنت میں رہنے کا حکم دیا تو گیہوں کے پیڑ کا پھل کھانے سے منع فرمایا تھا اور یہ بھی جتلادیا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے یہ تم کو جنت سے نکلوا دینے کی کوشش کرے گا تم اس سے ہوشیار رہنا اس واسطے ان آیتوں میں تنبیہ کے طور پر فرمایا کہ باوجود جتلانے کے تم نے ایسا کام کیوں کیا مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ توبہ کرنے سے پہلے حضرت آدم ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کے طور پر عرض کیا کہ یا اللہ اگر میں اپنے گناہ پر یشمان ہو کر توبہ کروں تو مجھ کو پھر جنت مل جاوے گی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں مل جاوے گی حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے اس کے بعد حضرت آدم ( علیہ السلام) کی توبہ قبول ہوئی آیت کے آخری ٹکڑے کی تفسیر سورة بقرہ میں گذر چکی ہے توبہ کے قبول ہونے کی یہ نشانی ہے کہ جس گناہ سے آدمی نے توبہ کی ہے اس گناہ سے پھر آدمی کا دل بیزار ہوجاوے کیونکہ مستدرک حاکم کے حوالہ سے عبداللہ بن مغفل (رض) کی روایت گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہ کر کے آدمی کا نادم اور پشیمان ہونا بھی توبہ ہے۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اب ظاہر بات ہے کہ آیندہ کے لئے جب تک آدمی کا دل گناہ سے بیزار نہ ہوگا تو سچی ندامت اور پشیمانی میں کے دل میں پیدا نہیں ہوسکتی اس واسطے بیہقی وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ہے کہ جو شخص گناہ سے بیزار ہو کر توبہ نہ کرے تو ایسی توبہ ایک مسخراپن ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:22) فدلہما یغرور۔ ان دونوں کو ڈہلالیا۔ ان دونوں کو نیچے ڈال دیا۔ ان دونوں کو کھینچ لیا۔ ان دونوں کو نیچے گرا دیا۔ دلی تدلیۃ (تفعیل) سے جس کے معنی کسی کو حیلہ سے کام میں لگا دینے کے ہیں۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ تذلیۃ ادلاء الدلو سے لیا گیا ہے۔ جس کے معنی ڈول ڈالنے کے ہیں اسی مناسبت سے نیچے ڈال دینے اور کھینچ لینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ بغرور۔ غرور۔ دھوکہ۔ فریب۔ جھوٹی امید۔ لالچ۔ بدت۔ ظاہر ہوگئی۔ بدو اور بداء سے ماضی واحد مؤنث غائب۔ طفقا۔ وہ دونوں لگے (اس کام کو جو آگے مذکور ہے) طفق (سمع) کاد کی طرح افعال مقاربہ میں سے ہے۔ جس طرح کاد کی خبر مضارع بغیر ان کے ہوتی ہے اسی طرح طفق کی خبر بھی مضارع ہوتی ہے۔ اور بغیر ان کے ہوتی ہے۔ جیسے یکاد البرق یخطف ابصارھم (2:20) برق کی یہ حالت ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اس نے ان کی بینائی لے لی۔ اور بفق کی مثال آیۃ ہذا۔ فبقا یخصفن علیہما من ورق الجنۃ اور چپٹانے لگ گئے اپنے (بدن) پر جنت کے پتے۔ یخصفن مضارع تثنیہ مذکر غائب خصف مصدر (باب ضرب) وہ دونوں چپکانے لگے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی انہیں اطاعت کے مرتبہ سے گراکر معصیت کے مربہ پر لے آیا۔ یاد رہے کہ آدم اور ان کی زوجہ شیطان کی بات پر یقین نہیں لیے آئے تھے بلکہ جذبات سے مغلوب ہو کر انہوں نے معصیت کا ارتکاب کیا،8 یعنی طبعی شرم وحیا کی جے سے اپنے بدن کی درخت کے پتو سے چھپانے لگے۔ اس آیت سے یہ بھی مفہوم نکلا کہ ستر چھپانا اور شرم کرنا انسان کی خلقی عادت ہے اور یہ تقوی ٰ میں داخل ہے اور جو کوئی سترنہ چھپائے وہ جانو و ہے۔ ( وحیدی)9 اس آیت اور اس کے علاوہ بہت سے ی دوسری آیات اور احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں صوت (آواز) ہے اور فرشتے اور آدمی اس کی آواز سن کر سن سکتے ہیں اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔ ( وحیدی)10 لہذا اس کی بات نہ سننا مگر تم اس فریب میں آگئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) نے عرض کی کہ پروردگار اس نے تیری قسم کھائی اور ہم کو یہ معلوم نہ تھا کہ تیرے بندوں میں کوئی ایسا بھی ہوسکتا ہے جو تیرا پاک نام لے کر چھوٹ کھائے، ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ نیچے لے آیا باعتبار حالت اور رائے کے بھی اور باعتبار مکان کے بھی حتی کہ اپنی رائے عالی سے اس کی رائے سافل کی طرف مائل ہوگئے جس سے جنت سے اسفل کی طرف اتارے گئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ٢٢۔ اب یہ دھوکہ تمام ہوا اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے آگیا ۔ شیطان نے ان کو اللہ کی اطاعت سے پھیر کر اللہ کی معصیت میں مبتلا کردیا اور یہ سب کچھ اس نے گہری سازش اور دھوکے سے کیا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو دنیا میں اتار دیا ۔ آیت ” (فدلھما بغرو) (٧ : ٢٢) ” اس نے دھوکہ دے کر یہ مقصد حاصل کیا ۔ “ اب انہیں اس بات کا شعور ہوا کہ ان کے جسم میں شرمگائیں بھی ہیں ۔ یہ شرمگاہیں پہلے ان کی نظروں سے اوجھل تھیں ۔ چناچہ انہوں نے جنت کے درختوں کے پتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر ان کو اپنی شرمگاہوں پر رکھنا شروع کردیا ۔ ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان شرمگاہوں سے مراد وہ جسمانی حصے ہیں جن کے ظاہر ہونے سے انسان فطرتا شرمندہ ہوتا ہے اور ان مقامات کو صرف وہی شخص ننگا اور ظاہر کرسکتا ہے جس کی فطرت ‘ کسی جاہلی سوسائٹی کی وجہ سے فساد پذیر ہوچکی ہو ۔ آیت ” فَدَلاَّہُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْء َاتُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْْہِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّۃِ وَنَادَاہُمَا رَبُّہُمَا أَلَمْ أَنْہَکُمَا عَن تِلْکُمَا الشَّجَرَۃِ وَأَقُل لَّکُمَا إِنَّ الشَّیْْطَآنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(22) تب ان کے رب نے انہیں پکارا ” کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہ روکا تھا ‘ اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ “ ان دونوں نے اللہ کی جانب سے آنے والی یہ جواب طلبی سنی کیونکہ انہوں نے نصیحت کو بھلا دیا اور نافرمانی کی ۔ سوال یہ ہے کہ اللہ کی جانب سے آنے والی اس ندا کی کیفیت کیا تھی ؟ ویسی ہی طرح پہلی مرتبہ اللہ نے انہیں خطاب کیا تھا ‘ جس طرح فرشتوں کو خطاب کیا تھا ۔ جس طرح ابلیس کو خطاب کیا تھا ۔ یہ سب امور غیبی امور ہیں اور ان کے بارے میں ہم صرف گمان رکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا ہوگا اور اللہ جو چاہتا ہے ‘ کرتا ہے ۔ اس پکار کے مقابلے میں ‘ معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کی اس منفرد مخلوق انسان کی شخصیت کا ایک دوسرا اہم پہلو بھی ہے ۔ وہ یہ کہ وہ بھول بھی جاتا ہے اور اس سے غلطی بھی سرزد ہوجاتی ہے اور یہ کہ اس میں ایسی کمزوریاں بھی ہیں جن کے راستے سے شیطان اس پر انداز ہوتا ہے ۔ نیز یہ کہ یہ انسان نہ ہمیشہ غلطی پر ہوتا ہے اور نہ ہمیشہ صحیح راستے پر ہوتا ہے۔ البتہ یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی اور لغزش کا ادراک کرلیتا ہے اور اس ادراک کے بعد وہ طلب مغفرت کرتا ہے اور نادم ہوجاتا ہے ۔ واپس ہو کر توبہ کرتا ہے اور شیطان کی طرح معصیت اصرار نہیں کرتا ۔ وہ اپنے رب سے معصیت پر معاونت طلب نہیں کرتا ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18 آخر ابلیس نے دھوکہ اور فریب سے ان کو شجرہ ممنوعہ کھانے پر آمادہ کرلیا اور ان کو ان کے رتبہ اطاعت سے نیچے گرادیا۔ ای حطہما عن درجتہما و انزلھما عن رتبۃ الطاعۃ الی رتبۃ المعصیۃ (روح ج 8 ص 100) ۔ 19 یہ اصل “ تَيْ ” تھا اسم اشارہ برائے تانیث واحد اس کے بعد لام بعد لگایا گیا التقاء ساکنین کی وجہ سے یاء گر گئی اور ک، کما، کم وغیرہ ضمائر خطاب تنبیہ کے لیے آتی ہیں اور مخاطب کی مناسبت سے استعمال ہوتی ہیں۔ یہاں مخاطب چونکہ دو تھے یعنی آدم و حواء (علیہما السلام) اس لیے ضمیر کُمَا استعمال کی گئی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

22 چنانچہ ان دونوں میاں بیوی کو فریب آمیز باتوں سے دھوکہ دے کر مائل کر ہی لیا اور نیچے جھکا لیا پھر جب ان دونوں نے اس درخت کے پھل کو چکھا تو اسی وقت ان دونوں کی شرم گاہیں اور ستر کے مقامات ایک دوسرے کے لئے کھل گئے اور آشکارا ہوگئے اور یہ دونوں اپنے اوپر جنت کے درختوں کے پتے ملاملاکر رکھنے لگے۔ یعنی برہنہ ہوگئے اور سترکو شجرہائے جنت کے پتوں سے چھپانے لگے اور ان دونوں کے پروردگار نے ان کو پکارا کیوں کیا میں تم کو اس خاص درخت کے پھل کھانے اور اس کے قریب جانے سے منع نہیں کرچکا تھا اور کیا میں نے تم کو یہ نہیں بتادیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔