Allah says;
فَدَلاَّهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْءَاتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَأنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ
So he misled them with deception. Then when they tasted of the tree, that which was hidden from them of their shame (private parts) became manifest to them and they began to cover themselves with the leaves of Paradise.
Ubayy bin Ka`b said,
"Adam was a tall man, about the height of a palm tree, and he had thick hair on his head. When he committed the error that he committed, his private part appeared to him while before, he did not see it. So he started running in fright through Paradise, but a tree in Paradise took him by the head. He said to it, `Release me,' but it said, `No, I will not release you.' So his Lord called him, `O Adam! Do you run away from Me!'
He said, `O Lord! I felt ashamed before You."'
Ibn Jarir and Ibn Marduwyah collected this statement using several chains of narration from Al-Hasan from Ubayy bin Ka`b who narrated it from the Prophet. However, relating the Hadith to Ubayy is more correct.
Ibn Abbas commented on the Ayah,
وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ
(And they began to cover themselves with the leaves of Paradise).
"Using fig leaves."
This statement has an authentic chain of narration leading to Ibn Abbas.
Mujahid said that they began to cover themselves with the leaves of Paradise,
"Making them as a dress (or garment)."
Commenting on Allah's statement,
يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا
(Stripping them of their raiment) (7:27) Wahb bin Munabbih said,
"The private parts of Adam and Hawwa' had a light covering them which prevented them from seeing the private parts of each other. When they ate from the tree, their private parts appeared to them."
Ibn Jarir reported this statement with an authentic chain of narration.
Abdur-Razzaq reported from Qatadah,
"Adam said, `O Lord! What if I repented and sought forgiveness!'
Allah said, `Then, I will admit you into Paradise.' As for Shaytan, he did not ask for forgiveness, but for respite. Each one of them was given what he asked for."
لغزش کے بعد کیا ہوا ؟
ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام کا قد مثل درخت کھجور کے بہت لمبا تھا اور سر پر بہت لمبے لمبے بال تھے ، درخت کھانے سے پہلے انہیں اپنی شرمگاہ کا علم بھی نہ تھا نظر ہی نہ پڑی تھی ۔ لیکن اس خطا کے ہوتے ہی وہ ظاہر ہو گئی ، بھاگنے لگے تو بال ایک درخت میں الجھ گئے ، کہنے لگے اے درخت مجھے چھوڑ دے درخت سے جواب ملا کہ ناممکن ہے ، اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ اے آدم مجھ سے بھاگ رہا ہے؟ کہنے لگے یا اللہ شرمندگی ہے ، شرمسار ہوں ، گو یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح موقوف ہونا ہی ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں ، درخت کا پھل کھا لیا اور چھپانے کی چیز ظاہر ہو گئی ، جنت کے پتوں سے چھپانے لگے ، ایک کو ایک پر چپکا نے لگے ، حضرت آدم مارے غیرت کے ادھر ادھر بھاگنے لگے لیکن ایک درخت کے ساتھ الجھ کر رہ گئے اللہ تعالیٰ نے ندا دی کہ آدم مجھ سے بھاگتا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں یا اللہ مگر شرماتا ہوں ۔ جناب باری نے فرمایا آدم جو کچھ میں نے تجھے دے رکھا تھا کیا وہ تجھے کافی نہ تھا ؟ آپ نے جواب دیا بیشک کافی تھا لیکن یا اللہ مجھے یہ علم نہ تھا کہ کوئی تیرا نام لے کر تیری قسم کھا کر جھوٹ کہے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب تو میری نافرمانی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور تکلیفیں اٹھانا ہوں گی ۔ چنانچہ جنت سے دونوں کو اتار دیا گیا ، اب اس کشادگی کے بعد کی یہ تنگی ان پر بہت گراں گذری کھانے پینے کو ترس گئے ، پھر انہیں لوہے کی صنعت سکھائی گئی ، کھیتی کا کام بتایا گیا ، آپ نے زمین صاف کی دانے بوئے ، وہ آگے بڑھے ، بالیں نکلیں ، دانے پکے ، پھر توڑے گئے ، پھر پیسے آ گئے ، آٹا گندھا ، پھر روٹی تیار ہوئی ، پھر کھائی جب جا کر بھوک کی تکلیف سے نجات پائی ۔ تین کے پتوں سے اپنا آگا پیچھا چھپاتے پھرتے تھے جو مثل کپڑے کے تھے ، وہ نورانی پردے جن سے ایک دوسرے سے یہ اعضا چھپے ہوئے تھے ، نافرمانی ہوتے ہی ہٹ گئے اور وہ نظر آنے لگے ، حضرت آدم اسی وقت اللہ کی طرف رغبت کرنے لگے توبہ استغفار کی طرف جھک پڑے ، بخلاف ابلیس کے کہ اس نے سزا کا نام سنتے ہی اپنے ابلیسی ہتھیار یعنی ہمیشہ کی زندگی وغیرہ طلب کی ۔ اللہ نے دونوں کی دعا سنی اور دونوں کی طلب کردہ چیزیں عنایت فرمائی ۔ مروی ہے کہ حضرت آدم نے جب درخت کھا لیا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی سزا یہ ہے کہ حمل کی حالت میں بھی تکلیف میں رہیں گی بچہ ہونے کے وقت بھی تکلیف اٹھائیں گی ، یہ سنتے ہی حضرت جواء نے نوحہ شروع کیا ، حکم ہوا کہ یہی تجھ پر اور تیری اولاد پر لکھ دیا گیا ۔ حضرت آدم نے جناب باری میں عرض کی اور اللہ نے انہیں دعا سکھائی ، انہوں نے دعا کی جو قبول ہوئی ۔ قصور معاف فرما دیا گیا فالحمد اللہ!