Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 24

سورة الأعراف

قَالَ اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿۲۴﴾

[ Allah ] said, "Descend, being to one another enemies. And for you on the earth is a place of settlement and enjoyment for a time."

حق تعالٰی نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Sending Them All Down to Earth Allah tells; قَالَ اهْبِطُواْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ... (Allah) said: "Get down, one of you an enemy to the other. It was said that, اهْبِطُواْ ("Get down), was addressed to Adam, Hawwa, Iblis and the snake. Some scholars did not mention the snake, and Allah knows best. The enmity is primarily between Adam and Iblis, and Hawwa follows Adam in this regard. Allah said in Surah Ta Ha, اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعاً "Get you down (from the Paradise to the earth), both of you, together..." (20:123) If the story about the snake is true, then it is a follower of Iblis. Some scholars mentioned the location on earth they were sent down, but these accounts are taken from the Israelite tales, and only Allah knows if they are true. If having known these areas was useful for the people in matters of religion or life, Allah would have mentioned them in His Book, and His Messenger would have mentioned them too. Allah's statement, ... وَلَكُمْ فِي الاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ On earth will be a dwelling place for you and an enjoyment for a time. means, on earth you will have dwellings and known, designated, appointed terms that have been recorded by the Pen, counted by Predestination and written in the First Record. قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ

سفر ارضی کے بارے میں یہودی روایات بعض کہتے ہیں یہ خطاب حضرت آدم ، حضرت حوا ، شیطان ملعون اور سانپ کو ہے ۔ بعض سانپ کا ذکر نہیں کرتے ۔ یہ ظاہر ہے کہ اصل مقصد حضرت آدم ہیں اور شیطان ملعون ۔ جیسے سورۃ طہ میں ہے آیت ( اھبطا منھا جمیعا ) حوا حضرت آدم کے تابع تھیں اور سانپ کا ذکر اگر صحت تک پہنچ جائے تو وہ ابلیس کے حکم میں آ گیا ۔ مفسرین نے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں کہ آدم کہاں اترے ، شیطان کہاں پھینکا گیا وغیرہ ۔ لیکن دراصل ان کا مخرج بنی اسرائیل کی روایتیں ہیں اور ان کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس جگہ کے جان لینے سے کوئی فائدہ نہیں اگر ہوتا تو ان کا بیان قرآن میں یا حدیث میں ضرور ہوتا ، کہدیا گیا کہ اب تمہارے قرار کی جگہ زمین ہے وہیں تم اپنی مقررہ زندگی کے دن پورے کرو گے جیسے کہ ہماری پہلی کتاب لوح محفوظ میں اول سے ہی لکھا ہوا موجود ہے ۔ اسی زمین پر جیو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دبائے جاؤ گے اور پھر حشر و نشر بھی اسی میں ہو گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( منھا خلقناکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری ) پس اولاد آدم کے جینے کی جگہ بھی یہی اور مرنے کی جگہ بھی یہی ، قبریں بھی اسی میں اور قیامت کے دن اٹھیں گے بھی اسی سے ، پھر بدلہ دیئے جائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] ابلیس و آدم (علیہ السلام) کی ایک دوسرے سے دشمنی کی وجہ :۔ ابلیس آدم (علیہ السلام) کا اس لیے دشمن بن گیا کہ اس کی آزمائش کا جس میں وہ سخت ناکام رہا سبب آدم (علیہ السلام) بنے تھے اور آدم (علیہ السلام) اس لیے ابلیس کے دشمن بنے کہ اس نے مکر و فریب سے سبز باغ دکھا کر اور جھوٹی قسمیں کھا کر آدم (علیہ السلام) کو اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کر ہی لیا چناچہ ان دونوں کو جنت سے نکال کر زمین میں لا بسایا گیا کیونکہ جنت ایسی محاذ آرائی کی جگہ نہیں ہے ایسی محاذ آرائی کے لیے زمین ہی موزوں تھی مناسب یہی تھا کہ حق و باطل کے سب معرکے زمین ہی پر واقع ہوں اس طرح اللہ کی وہ مشیت خود بخود پوری ہوگئی جس کے لیے اس نے انسان کو پیدا کیا تھا۔ یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے جس میں اکثر لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اگر اللہ کی مشیت ہی یہی تھی کہ آدم و حوا اور ان کی اولاد زمین میں آباد ہو اور شیطان ان کا دشمن بن کر آدم (علیہ السلام) اور اولاد آدم کو گمراہ کرتا رہے اور ان کے درمیان محاذ آرائی کا عمل جاری رہے اور اس طرح اس دنیا کو بنی آدم کے لیے دارالامتحان بنایا جائے تو پھر آخر اس قصہ آدم و ابلیس میں ابلیس کا یا آدم (علیہ السلام) کا قصور ہی کیا تھا ہونا تو وہی تھا جو اللہ کی مشیت میں تھا۔ پھر آدم و ابلیس اللہ کی نافرمانی کے مورد الزام کیوں ٹھہرائے گئے ؟ اللہ کی مشیت اور تقدیر کا مسئلہ :۔ اس طرح کے سوالات قرآن کریم میں اور بھی متعدد مقامات پر پیدا ہوتے ہیں جیسے اسی سورة میں ایک مقام پر فرمایا کہ && ہم نے جنوں اور انسانوں کی اکثریت کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے && (٧ : ١٧٩) یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جنوں اور انسانوں کی اکثریت کو پیدا ہی جہنم کے لیے کیا گیا ہے تو پھر اس میں جنوں اور انسانوں کا کیا قصور ہے ؟ اسی طرح احادیث صحیحہ میں بھی یہ مضمون بکثرت وارد ہے مثلاً جب شکم مادر میں روح پھونکی جاتی ہے تو ساتھ ہی فرشتہ یہ بھی لکھ دیتا ہے کہ یہ شخص جنتی ہوگا یا جہنمی۔ اور ایسے مقامات کتاب و سنت میں بیشمار ہیں۔ جہاں انسان یہ سوچتا ہے کہ ہم تو قدرت کے ہاتھ میں محض کھلونے ہیں مشیت تو اللہ کی پوری ہوتی ہے پھر ہمیں سزا کیوں ملے گی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کو کسی چیز کے نتیجہ کے متعلق پیشگی علم ہونا یا اس کا علم غیب کسی انسان کو اس بات پر مجبور یا اس کا پابند نہیں بناتا کہ وہ وہی کچھ کرے جو اللہ کے علم یا اس کی مشیت یا تقدیر میں لکھا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ انسان اپنے پورے ارادہ و اختیار سے کرنے والا ہوتا ہے اس کا اللہ کو پہلے سے علم ہوتا ہے اس بات کو ہم یہاں ایک مثال سے سمجھائیں گے۔ ایک بادشاہ اپنی مہمات میں اکثر اپنے درباری نجومی سے مشورہ لیا کرتا تھا نجومی اسے سیاروں کی چال کے زائچے تیار کر کے امور غیب سے مطلع کردیتا نجومی کی یہ خبریں کبھی درست ثابت ہوتیں اور کبھی کوئی خبر غلط بھی ثابت ہوجاتی۔ ایک دفعہ بادشاہ اس نجومی سے خفا ہوگیا اور وہ اس نجومی کو کسی بہانے سزا دینے کے متعلق سوچنے لگا اسے یک دم ایک خیال آیا اور اس نے ایک ایسا کمرہ بنانے کا حکم دیا جس کے چاروں طرف دروازے ہوں جب ایسا کمرہ تیار ہوگیا تو اس نے اس نجومی کو بلا کر کہا : میں اس کمرے میں داخل ہونے والا ہوں تم حساب لگا کر بتاؤ کہ میں اس کمرے کے کون سی سمت والے دروازے سے باہر نکلوں گا۔ نجومی کو بھی بادشاہ کی خفگی کا علم تھا وہ سمجھتا تھا کہ یہ سوال در اصل اس کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ چناچہ اس نے کہا کہ سوال کا جواب تو میں دے دوں گا لیکن میری شرط یہ ہے کہ میں اس سوال کا جواب لکھ کر آپ کے کسی معتمد علیہ وزیر کے پاس سربمہر کر کے امانت رکھ دیتا ہوں آپ یہ جواب اس وقت دیکھیں جب آپ کمرہ سے باہر نکل آئیں۔ بادشاہ نے اس شرط کو منظور کرلیا نجومی نے سوال کا جواب لکھ کر سربمہر کر کے وزیر کے حوالے کردیا تو بادشاہ نے اپنے معمار کو بلا کر کہا کہ میں اس کمرہ میں داخل ہوتا ہوں اس کے چاروں دروازے مقفل کردینا اور مجھے چھت پھاڑ کر اور سیڑھی لگا کر اوپر سے نکال لانا۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔ باہر آ کر بادشاہ نے نجومی کا جواب طلب کیا جو سب کے سامنے پڑھا گیا اس میں لکھا تھا کہ بادشاہ کسی بھی دروازے سے نہیں بلکہ چھت پھاڑ کر باہر نکلے گا بادشاہ یہ جواب سن کر دم بخود رہ گیا اور نجومی اس کے عتاب سے بچ گیا۔ اب دیکھئے کہ نجومی کی پہلے سے لکھی ہوئی تحریر نے بادشاہ کو ہرگز اس بات پر مجبور نہیں کیا کہ چھت پھاڑ کر باہر نکلے بلکہ وہ اس کام میں مکمل طور پر آزاد اور بااختیار تھا بالکل یہی صورت ان مسائل کی ہے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے انسان جو کچھ کرتا ہے مکمل طور پر اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ہے اسی بناء پر اسے جزا و سزا ملے گی۔ رہی پیشگی لکھنے یا مشیت یا تقدیر کی بات تو یہ چیز اسے مجبور سمجھنے پر دلیل نہیں بن سکتی بلکہ یہ بات تو اللہ کے علم کی وسعت کی دلیل ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اهْبِطُوْا۔۔ : ” َمَتَاعٌ“ یعنی عارضی لذتیں اور فائدے، تنوین تنکیر سے معلوم ہوا کہ وہ بھی چند۔ مزید تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ آیت (٣٦) کے فوائد۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ فِيْہَا تَحْيَوْنَ وَفِيْہَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْہَا تُخْرَجُوْنَ۝ ٢٥ ۧ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مین مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ سب جنت سے اتر جاؤ تمہارے لیے رہنے اور معیشت کے لیے، موت تک زمین میں جگہ تجویز کی گئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (قَالَ اہْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ج) ۔ ھُبُوط کے بارے میں سورة البقرۃ آیت ٣٦ میں وضاحت ہوچکی ہے کہ یہ لفظ صرف بلندی سے نیچے اترنے کے معنی کے لیے ہی خاص نہیں بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا مفہوم بھی اس میں شامل ہے۔ جس دشمنی کا ذکر یہاں کیا گیا وہ حضرت آدم کے ہبوط ارضی کے وقت سے آج تک شیطان کی ذریت اور آدم ( علیہ السلام) کی اولاد کے درمیان مسلسل چلی آرہی ہے اور قیامت تک چلتی رہے گی۔ اس کے علاوہ اس سے بنی نوع انسان کی باہمی دشمنیاں بھی مراد ہیں جو مختلف افراد اوراقوام کے درمیان پائی جاتی ہیں۔ (وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ ) یہ ٹھکانہ اور مال و متاع ابدی نہیں ہے ‘ بلکہ ایک خاص وقت تک کے لیے ہے۔ اب تمہیں اس زمین پر رہنا بسنا ہے اور وہاں رہنے بسنے کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں وہ وہاں پر فراہم کردی گئی ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14. God's command that Adam and Eve 'go down' should not be misunderstood to mean that their departure from Paradise was by way of punishment. The Qur'an has made it clear many a time that God accepted Adam and Eve's repentance and pardoned them. Thus the order does not imply punishment. It rather signifies the fulfilment of the purpose for which man was created. (For elaboration see Towards Understanding the Qur'an, vol. 1, al-Baqarh 2: nn. 48 and 53, pp. 63-4 and 66 - Ed.)

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(24 ۔ 25) ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آدم ( علیہ السلام) وحوا (علیہ السلام) ابلیس اور سانپ سب کو فرمایا کہ آسمان سے زمین پر اترو اور وہاں تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے مطلب یہ ہے کہ شیطان آدمی کے بہکانے کی دشمنی سے اور سانپ آدمی کے کاٹنے کی دشمنی سے کبھی باز نہ آویں گے آدمی کو چاہئے کہ ان سے بچتا رہے جو لوگ شیطان کو دشمن نہ سمجھیں گے اور اس کے بہکاوے میں آجاویں گے وہ ایسا ہی نقصان اٹھائیں گے جس طرح کا نقصان آدم ( علیہ السلام) اور حوا نے اٹھایا پھر فرمایا ایک مدت تک زمین تمہارے رہنے اور ٹھہرنے کا مقام ہے اسی میں تمہارا جینا اور مرنا ہے اور اسی سے تم نکالے جاؤگے مطلب یہ ہے کہ چند روز زندگی کے بعد مرنا اور پھر دوبارہ جینا ہے اور دوبارہ جینے کے بعد اگلے پچھلے سب لوگوں کو اکٹھا کر کے خدا تعالیٰ ہر ایک کو اس کے عملوں کی جزا دیوے گا۔ یہ چند روز کی زندگی صرف آخرت کے سفر کے سامان کے واسطے ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ‘ مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ زمین کی پشت زندوں کا ٹھکانا ہے اور زمین کا پیٹ مردوں کا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوسرے صور سے پہلے ایک مینہ برسے گا جن کی تاثیر سے سب مردوں کے جسم تیار ہوجاویں گے پھر ان میں روحیں پھونک دی جاویں جس سے سب مردے جی اٹھیں گے حدیث کا یہ ٹکڑا آیت کے ٹکڑے وھنھا تخرجون کی گویا تفسیر ہے متاع الی حین۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے صور تک زمین اور زمین کی آبادی قائم رہے گی پھر سب کچھ اجڑ جائیگا مسند امام احمد صحیح ابن حبان طبرانی میں ابوہریرہ (رض) اور عقبہ بن عامر (رض) کی معتبر روایتیں ہیں جن میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بازار میں کپڑا بک رہا ہوگا پانی کے حوضوں کی مرمت ہو رہی ہوگی جانوروں کا دودھ دوہا جا رہا ہوگا آخر یہ سب کچھ پڑا رہ جاویگا ایک پہلا صور پھونکا جائے گا کہ دنیا اجڑ جاوے گی ان حدیثوں کو متاع الی حین کی تفسیر میں بڑا دخل ہے :

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:24) اھبطوا۔ تم سب اترو۔ ھبوط سے امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ نیچے اترنا۔ ہبوط آدم۔ حضرت آدم کا جنت سے زمین پر اترنا۔ مستقر۔ ظرف مکان۔۔ استقرار (استفعال) مصدر۔ قرار گاہ۔ ٹھہرنے کی جگہ۔ متاع۔ اسم مفرد۔ امتعۃ جمع۔ معین وقت تک فائدہ اٹھانا۔ سامان جو کام میں آتا ہے جس سے کسی طرح فائدہ حاصل کیا جاتا ہے الی حین۔ ایک وقت تک۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی کھانا پینا اور دینوی زندگی کے دوسرے سامان سے متمتع ہونا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی جنت سے نیچے زمین پر جاو۔ 3۔ مطلب فیھا تحیون۔ کا یہ ہے کہ مسکن اصلی اور مصتادا تمہارا یہ ہوگا اور اگر کسی عارض کی وجہ سے خرق عادت ہوجائے تو اس کی نفی نہیں ہے پس اس سے عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان پر زندہ جانے اور رہنے کی نفی پر استدلال کرنا محض باطل ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ٢٤ تا ٢٥۔ سب کے سب اتر جاؤ ‘ اس کرہ ارض پر جابسو ‘ سوال یہ ہے کہ اس وقت یہ لوگ کہاں تھے ؟ جنت کہاں ہے ؟ یہ غیبی امور سے متعلق باتیں ہیں اور اس بارے میں ہم اسی قدر جانتے ہیں جس قدر ہمیں وہ ذات باری بتادے جس کے ہاتھ میں غیب کی کنجیاں ہیں ۔ اب جب کہ وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے تو کسی انسان کی جانب سے ان غیبی امور ومقامات کی تلاش ایک فضول کوشش ہوگی ۔ اسی طرح جو لوگ ان امور کا انکار کرتے ہیں اور اپنی سائنسی اور غیر یقینی معلومات کی اساس پر کرتے ہیں وہ بھی اپنی حدود سے تجازو کررہے ہیں اور ان کا یہ موقف محض خود سری اور مکابرہ ہے ۔ اس لئے کہ وہ اس عالم غیب کی بات کرتے ہیں ، جہاں تک انہیں یہ رسائی حاصل نہیں ہے لیکن ان لوگوں کی خود سری کا عالم یہ ہے کہ یہ سرے سے عالم غیب کا انکار کرتے ہیں حالانکہ عالم غیب نے بھی تک انسان کو گھیرے میں لے رکھا ہے ۔ ان لوگوں کے علم کا موضوع مادہ ہے اور مادے کی دنیا میں بھی اب تک کے معلوم سے مجہول زیادہ ہے ۔ بہرحال یہ سب لوگ اترے ۔ زمین پر آگئے ۔ آدم ‘ حوا ‘ ابلیس اور ان کے حوالی و موالی اور یہاں وہ اس لئے اترے کہ اس میدان میں معرکہ آدم وابلیس شروع ہو وہ ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں اور دو مزاجوں کے درمیان معرکہ شروع جائے ۔ ایک مزاج سوفیصد شرپسند ہے اور دوسرا خیر وشر دونوں کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ یہ اس لئے کہ اللہ کی مشیت نے ابتلاء کی جو اسکیم تیار کی ہے اسے پورا کیا جاسکے اور اللہ کا منصوبہ قضا وقدر آخر تک پہنچے ۔ اللہ نے آدم اور انکی اولاد کے لئے زمین پر رہنا مقرر کردیا کہ وہ یہاں بسیں ۔ دنیا کی پیداوار سے فائدہ اٹھائیں ۔ ایک وقت مقررہ تک ۔ یہاں زندہ رہیں اور مریں اور وقت آنے پر انہیں اٹھایا جائے گا تاکہ وہ اپنے رب کے سامنے جوابدہی کریں۔ اہل جنت ‘ جنت میں اور اہل النار دوزخ میں جائیں ۔ یہ ہوگا انجام اس عظیم سفر انسانیت کا ۔ اب یہ پہلا راؤنڈ ختم ہوا ۔ اس کے بعد معرکہ آدم وابلیس کے نئے راؤنڈ ہوں گے ۔ ان میں انسان صرف اس صورت میں کامیاب ہوگا کہ اس نے اپنے رب کی پناہ لی ہوگی اور اگر اس نے اپنے دشمن کو دوست بنا لیا تو ظاہر ہے کہ وہ شکست کھائے گا ۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی قصہ یا کہانی نہیں ہے بلکہ ان آیات میں انسان کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے تاکہ اس کے مزاج ‘ اس کی نشوونما ‘ اس کے ماحول ‘ نظام قضاوقدر جو اس کی زندگی کو متاثر کرتا ہے اور وہ نظام جو اللہ نے اس کے لئے پسند کیا ‘ وہ ابتلاء جس سے اس نے دو چار ہونا ہے اور وہ انجام جس تک اس نے پہنچنا ہے ‘ کے بارے میں حقائق سامنے آسکیں اور یہ وہ باتیں ہیں جو اسلامی تصور حیات کی بنیادوں میں شامل ہیں۔ جہاں تک ہمیں فی ضلال القرآن کا منہاج اجازت دے گا ‘ ہم اس کے بنیادی نکات پر نوٹ کریں گے تفصیلات ہم اپنی کتاب ” خصائص التصور الاسلامی “ کے لئے چھوڑتے ہیں جو اس موضوع پر تفصیلی بحث کرتی ہے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے ہم کہہ آئے ہیں ‘ قصہ تخلیق انسانیت سے ہی میں جو پہلی حقیقت معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی تخلیق اور انسان کی تخلیق کے درمیان ایک فطری ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ یہ دونوں اللہ کے نظام قضا وقدر کے اندر کام کرتے ہیں ۔ اس حقیقت کے ادراک سے ہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ انسان کی تخلیق جو ایک تقدیر اور منصوبے کے مطابق ہوئی محض اتفاقی بات نہ تھی اور اس کائنات ‘ انسان اور نظام قضا وقدر کے درمیان مکمل توافیق ہے ۔ جو لوگ اللہ کی معرفت سے محروم ہیں وہ ذات باری کی قدر نہیں کرسکتے جس طرح کہ اس کا حق ہے ۔ یہ لوگ اللہ کے کاموں اور ان کے نظام قضا وقدر کو ان پیمانوں سے ناپتے ہیں جو انسان کے چھوٹے چھوٹے کاموں اور منصوبوں کے لئے وضع ہوئے ہیں ۔ وہ جب دیکھتے ہیں تو انکی سمجھ میں صرف یہ بات آتی ہے کہ انسان بھی اس دنیا کی دوسری مخلوقات کی طرح کی ایک مخلوق ہے ۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ اس عظیم کائنات میں یہ زمین ایک ذرہ کے برابر ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ کوئی معقول بات نہیں ہے کہ انسان کی پیدائش کے پیچھے کوئی مقصد تلاش کیا جائے ‘ لہذا اس انسان کی اس کائنات میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے ۔ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ انسان کا وجود یہاں محض اتفاق سے ہوگیا اور اس انسان کے اردگرد جو کائنات ہے وہ اس کے وجود اور نشوونما کے سخت خلاف ہے ۔ یہ محض تیرت کے ہیں جو یہ لوگ اللہ کے افعال اور اس کے نظام قضا وقدر کے بارے میں چلاتے ہیں ۔ اور وہ بھی محض اپنی محدود انسانی معیار عقل و دانش کے مطابق ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ پوری کائنات انسان کی ملکیت ہوتی تو وہ اس چھوٹے سے کرہ ارض کو خاطر ہی میں نہ لاتا اور نہ اس چھوٹی سی مخلوق کی پرواہ کرتا جو اس پرچلتی ہے ۔ کیونکہ انسان اس پوری کائنات کی عظیم مملکت کا اہتمام نہیں کرسکتا ۔ نہ وہ اس کی ہر چیز کی تدبیر کرسکتا ہے ‘ نہ ہر چیز کا اندازہ کرسکتا ہے اور نہ وہ اس جہان کی تمام اشیاء کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرسکتا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جہان کا بادشاہ اللہ ہے اور آسمانوں اور زمینوں میں سے کوئی ایک ذرہ بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے ۔ اللہ اس عظیم کائنات کا تھامنے والا ہے اور اس کائنات کی کوئی چیز اپنی جگہ قائم نہیں رہ سکتی اگر اللہ کا حکم نہ ہو ۔ یہاں کوئی چیز بھی اللہ کی مشیت کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی ۔ انسان جب اللہ کی ہدایت کو ترک کر دے اور اپنی خواہشات نفسانیہ کی پیروی شروع کر دے تو وہ مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اگر اس مصیبت کو وہ علم کا نام دیتا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے ۔ وہ اللہ کو اپنے اوپر قیاس کرتا ہے اور اللہ کے افعال و اعمال کو اپنے افعال پر قیاس کرتا ہے حالانکہ اللہ کے افعال واقدار انسان کے قیاس سے باہر ہیں ۔ یہ انسان کی غلط فہمی ہے کہ وہ اپنی خواہش کو اپنی کم ظرفی کی وجہ سے حقیقت سمجھتا ہے ۔ سرجیمس جینز اپنی کتاب ” کائنات جو ایک راز ہے “ انسان کے گمراہانہ تصورات کے بارے میں کہتا ہے ۔ ” ہم جب اس زمین پر کھڑے ہوتے ہیں ‘ جو ریت کا ایک چھوٹا سادانہ ہے تو ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ ہم اس پوری کائنات کی طبیعت اور ماہیت کو معلوم کریں جو ہمارے اردگرد اور زمان ومکان کی ناقابل تصور وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے ۔ ہم یہ بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ اس کو وجود میں لانے کی غرض وغایت کیا ہے ؟ جب ہم اس کائنات کو دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے تو ہم حیرانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ہماری نظریں خیرہ ہوجاتی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کائنات کس طرح ہمیں خوف میں مبتلا نہ کرے جبکہ اس کی وسعتیں اس قدر بڑی ہیں کہ ہماری عقل ان کا ادراک نہیں کرسکتی ۔ پھر اسی کائنات پر ایک طویل عرصہ گزر گیا ہے اور ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے اور اس کے مقابلے میں انسان کے ذخیرہ علم جو تاریخ ہے وہ ان زمانوں کے مقابلے میں ایک لمحہ ہے ۔ پھر یہ اس اعتبار سے بھی خوفناک ہے کہ اس کے اندر ایک خوفناک وحدت پائی جاتی ہے ۔ پھر یہ اس لئے بھی خوفناک ہے کہ اس کائنات کے اندر ہمارا وطن یہ زمین اس قدر چھوٹی ہے کہ دنیا کے سمندروں کے ایک چھوٹے سے ریت کے کنکر کو اگر ایک ملین ٹکڑے کیا جائے تو اس سے بھی کم ہے ۔ لیکن اس کائنات کی سب سے زیادہ خوفناکی اس پہلو سے ہے کہ یہ ایک بےمطلب چیز ہے ۔ جس طرح ہماری زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بےمطلب ہے ۔ ہمارے جذبات ‘ ہمارے ‘ مقاصد ‘ ہمارے اعمال ‘ ہمارے فنون اور ہمارے ادیان سب کے سب اس کائنات کے نظام کے ساتھ غیر مانوس ہیں اور اس کے نظام کے ساتھ بےمیل ہیں ۔ اگر ہمارے ادیان سب کے سب اس کائنات کے نظام کے ساتھ غیر مانوس ہیں اور اس کے نظام کے ساتھ بےمیل ہیں ۔ اگر ہم یہ کہیں کہ اس کائنات اور ہماری زندگی کے درمیان مستقل دشمنی اور تضاد ہے تو یہ بات غلط نہ ہوگی اس لئے کہ اس کائنات کی فضا کی اکثریت اس قدر ٹھنڈی ہے کہ جہاں زندگی ممکن نہیں ہے ۔ تمام انواع حیات وہاں منجمد ہوجاتے ہیں اور اکثر مادی اجزاء اس قدر گرم ہیں کہ ان میں زندہ رہنا محال ہے ۔ اس فضائے کائنات میں ایسی شعاعیں ہر وقت باہم متصادم ہوتی رہتی ہیں کہ اجرام فلکی باہم متصادم رہتے ہیں اور یہ شعاعیں بسا اوقات زندگی کی دشمن ہو سکتی ہیں بلکہ کسی بھی وقت زندگی ختم کرسکتی ہیں ۔ “ ” یہ کائنات جس میں حالات نے ہمیں لا کر پھینک دیا ہے اگر یہ بات سچ نہیں ہے کہ ہم یہاں اس کائنات کی کسی غلطی کی وجہ سے زندہ ہیں تو یہ بات بہرحال قرین قیاس ہے کہ انسان کا وجود یہاں محض اتفاق اور مصاوفت سے ہوگیا ہے ۔ “ یہ ہیں ان لوگوں کے خیالات ۔ یاد رہے کہ اس سے قبل ہم اس نکتے پر بحث کر آئے ہیں کہ اس کائنات کا دشمن حیات ہونا اور یہ فرض کرلینا کہ یہ کائنات کسی مدبر اور کنٹرول کرنے والے کے بغیر ہے ‘ اور یہ کہ اس نے اوپر انسان جیسی مخلوق اور مطلق زنگی کا وجود میں آجانا محض اتفاق کے طور پر ہے کسی عام آدمی کی عقل میں آنے والی باتی نہیں ہے جہ جائیکہ کوئی بڑا عالم یا سائنس دان ایسی باتیں کرے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ کائنات اس کے اندر پائے جانے والی ہر قسم کی زندگی کے قاتل ہے اور کوئی اس کے اوپر قوت مدبرہ بھی نہیں ہے تو یہ زندگی کس طرح وجود میں آگئی ؟ سوال یہ ہے کہ یہ زندگی کائنات سے زیادہ طاقتور ہے کہ یہ کائنات کے علی الرغم وجود میں آگئی اور باوجود اس کے وجود میں آگئی کے کائنات اس کے وجود میں آنے کے خلاف تھی ۔ کیا انسان وجود میں آنے سے قبل اس عظیم کائنات سے زیادہ قوی تھا ‘ اور اس طرح وہ زبردستی یہاں آکر کھڑا ہوگیا ۔ میں کہتا ہوں یہ ایک ایسی سوچ ہے جس پر توجہ ہی نہ دینا چاہئے۔ اگر یہ نام نہاد علماء فقط یہ کہنے پر اکتفاء کرتے کہ ہمارے ذرائع علم اس کائنات کی تفسیر و توضیح نہیں کرسکتے ہیں اور یہ خرافات نہ بکتے جو وہ میٹا فزکس کے بارے میں بکتے ہیں ‘ جن پر کوئی سند ان کے پاس نہیں ہے تو وہ اپنا فرض ادا کر جاتے اگرچہ یہ فرض بھی ناقص ہوتا ۔ البتہ وہ کہہ دیتے کہ ہمارے ارد گرد جو کائنات ہے یہ ایک معمہ ہے لیکن وہ اپنے دائرہ علم سے بہت آگے بڑھ جاتے ہیں اور مفروضوں ‘ بلادلیل تصورات اور انسانی خواہشات کے پیدا کردہ فنی مزعومات کی دلدل میں جا پھنستے ہیں جو غیر محفوظ علاقے ہیں ۔ ہم مسلمان الحمد للہ جب اس کائنات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نہ خوف دامن گیرہوتا ہے اور نہ ہم اس حیرت میں پڑتے ہیں ‘ جس کا اظہار سرجیمس جینز نے کیا ہے بلکہ ہم تو اس کائنات کے خالق کے بارے میں ڈر جاتے ہیں اور ہمیں وہ جمال و جلال نظر آتا ہے جو اس کائنات ہماری دوست بن جاتی ہے اس لئے کہ اس کو بھی خالق نے پیدا کیا ہے اور ہمیں بھی ۔ دونوں کے اندر پورا توافق اور ہم آہنگی ہے ۔ ہم اس کی ضخامت اور اس کی باریکی سے حیرت زدہ ضرور ہوتے ہیں لیکن خوفزدہ نہیں ہوتے اور ہمیں یہ شعور اور احساس آکر نہیں پکڑتا کہ اب ہم آج یا کل برباد ہو رہے ہیں اس لئے کہ ہمارا اور اس کائنات کا رب ایک ہے ۔ ہم اس کے ساتھ نہایت ہی انس و محبت اور اعتماد اور یقین کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں ۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ ہمارا رزق اور ضروریات اور ہماری معاش اور معیشت کے ذخائر اسی میں ہیں اور ہمیں اس کائنات کے خالق کا شکر گزار ہونا چاہیے ۔ آیت ” وَلَقَدْ مَکَّنَّاکُمْ فِیْ الأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُونَ (10) ” ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لئے یہاں سامان زیست فراہم کیا ‘ مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو ۔ “ قصہ تخلیق آدم سے ہمیں جو دوسری حقیقت معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی جملہ زندہ مخلوق کے مقابلے میں انسان ایک معزز ‘ برتر اور مکرم مخلوق ہے ۔ اس نے اس جہان میں نہایت ہی اہم رول ادا کرنا ہے۔ اس نے نہایت ہی وسیع میدان میں تگ ودو کرنی ہے اور اس کے ساتھ یہاں کئی جہانوں کا معاملہ ہے ۔ لیکن یہ تمام امور اللہ وحدہ کی بندگی اور غلامی کی حدود میں ہیں ۔ اس انسان کی یہاں وہ پوزیشن نہیں جو اسے وہ مکاتب فکر دیتے ہیں جو حواس خمسہ اور مادیت کے اندر محدود ہیں ۔ یہ مکاتب فکر انسان کو اس کائنات کا ایک موثر عامل نہیں سمجھتے ۔ ان مذاہب و تصورات میں تمام اہمیت مادے اور اس کے اثرات کو دی جاتی ہے ۔ اسی طرح نظریات ارتقاء کے قائلین اسے اس سے بھی گھٹیا مقام دیتے ہیں یعنی حیوانات میں سے ایک حیوان ۔ ان لوگوں کو انسان کی انسانی خصوصیات سے کوئی غرض اور واسطہ نہیں ہے ۔ یا وہ اسے فرائیڈ کے نظریہ جنسیت کے زاویہ سے دیکھتے ہیں جو انسان کو محض جنس کے گندے تالات کا ایک کیڑا سمجھتا ہے اور وہ اسی گندے تالاب کے ذریعے ہی ترقی کرتا ہے ۔ لیکن اسلام اس منفرد مخلوق یعنی انسان کو جو عزت و کرامت عطا کرتا ہے وہ اس مقام تک نہیں پہنچتی کہ وہ الہ بن جائے جیسا کہ جدید روشن خیالی کے دور میں پیدا ہونے والے تصورات حیات نے اسے الہ بنا دیا ہے ۔ اسلامی تصورحیات اسے سچائی اور اعتدال کا درجہ دیتا ہے جو درست اور صحت مند ہے ۔ پھر اس منفرد مخلوق حضرت انسان کی تخلیق کا اعلان عالم بالا کی ایک نہایت ہی پروقار تقریب میں کیا گیا ‘ اور جیسا کہ ہم نے قرآنی نصوص کی روشنی میں کہا اس تقریب میں ایک مکمل انسان پیش کیا گیا ۔ اس میں یہ اعلان بھی کیا گیا کہ وہ اس زمین کا خلیفہ ہے ۔ جنت میں اس پر جو ابتلا آئی وہ بھی اسی غرض کے لئے تھی کہ وہ فرائض خلافت کی ادائیگی کے لئے تیار ہوجائے ‘ جیسا کہ دوسری آیات میں آتا ہے کہ یہ پوری کائنات صرف زمین نہیں ‘ انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔ وہ اس کے لئے مفید ومعاون ہے اور زمین و آسمان میں جس قدرچیزیں ہیں انسان کے لئے مسخر کردی گئیں ۔ پھر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو جو کردار سپرد کیا ہے وہ بھی بہت ہی عظیم ہے ۔ اس پورے کرہ ارض کو ترقی دینا اور اس کے اوپر اللہ کا نظام خلافت قائم کرنا چاہے اس زمین کا حج بڑا ہو یا چھوٹا ‘ بہرحال یہ ایک عظیم ڈیوٹی ہے جو انسان کے سپرد کی گئی ۔ اس قصے اور قرآن کریم کی دوسری آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان ایک منفرد مخلوق ہے اور یہ صرف اس کرہ ارض پر ہی منفرد نہیں ہے بلکہ یہ پوری کائنات میں منفرد مخلوق ہے ۔ دوسرے ستاروں میں ملائکہ جنات اور وہ تمام مخلوقات ہیں جن کے بارے میں صرف اللہ جانتا ہے ۔ ان مخلوقات کے دوسرے فرائض ہیں ‘ یہ تمام مخلوقات اپنا علیحدہ مزاج اور طبیعت رکھتی ہیں ۔ ان کی طبیعت ان کے فرائض کے ساتھ مناسب ہے ۔ البتہ انسان ایک منفرد مخلوق ہے جس کے فرائض اور وظائف بھی منفرد ہیں اور اس پر قرآن کی یہ آیت دلالت کرتی ہے ۔ آیت ” انا عرضنا الامانۃ علی السموت والا رض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن منھا وحملھا الانسان انہ کان ظلوما جھولا “۔ (٣٣ : ٧٢) ” ” ہم نے اس امانت کو آسمانوں ‘ زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھالیا ‘ بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا ۔ “ گویا انسان اس پوری کائنات میں اپنی خصوصیات کے اعتبار سے منفرد ہے ۔ ان خصوصیات میں ظلم اور جہل دونوں شامل ہیں ۔ اس ظلم اور جہل کے ساتھ اسے ذاتی خود مختاری دی گئی ہے اور علم ومعرفت کی استعداد دی گئی ہے ۔ ذاتی ارادہ دیا گیا ہے اور جس قدر وہ جہل وظلم پر قادر ہے اسی قدر وہ عدل اور علم پر بھی قدرت رکھتا ہے ۔ غرض انسانی صلاحیتوں کی یہ رنگاررنگی ہی اس کی اہم خصوصیت ہے ۔ ان تمام خصوصیات کے ساتھ ‘ اب یہ بات اہم نہیں رہتی کہ انسان جس کرے پر زندہ ہے وہ اپنے حجم اور اس پوری کائنات کی وسعت کے اعتبار سے بہت ہی چھوٹا ہے ۔ اس لئے کہ ہر معاملے میں حجم کی اہمیت نہیں ہوتی ۔ مثلا قوت عقلی جو اشیاء کا ادراک کرتی ہے اور انسان کا متحرک بالارادہ ہونا اور اپنی ذاتی ترجیح کے مطابق کام کرنا ‘ اگرچہ اللہ کی بندگی کے وسیع تر دائرے کے اندر ہو ‘ یہ سب چیزیں بہرحال انسان کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتی ہیں اور اسے ایک منفرد مخلوق بنا دیتی ہیں ۔ محض اس زمین کے حجم کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے سرجیمس جینز جیسے لوگ انسان کی قدروقیمت کو گھٹاتے ہیں ۔ یہ بات درست نہیں ہے ۔ یہ آیات اور یہ قصص انسان کو جو اعزاز عطا کرتے ہیں وہ اس کے فریضہ خلافت الہیہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس منفرد مخلوق کا اعزاز اور اس کی اہمیت مزید واضح ہوتی ہے جب ہم ان آفاق اور کائنات کی ان پہنائیوں پر نظر ڈالتے ہیں جن میں یہ کام کرتا ہے ۔ اب ذرا دیکھئے کہ اس منفرد مخلوق کا معاملہ اپنے رب کے ساتھ براہ راست ہے ۔ اس نے اسے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ہے پھر عالم بالا کی پروقار تقریب میں اس کا اعلان کیا ہے اور اسے گویائی عطا کی ۔ پھر اسے جنت میں داخل کیا اور کہا کہ کھاؤ جہاں سے چاہو ماسوائے ممنوعہ درخت کے ۔ اس کے بعد اسے خلافت کا مقام عطا کیا ‘ خود اپنے کلام کے ساتھ ۔ پھر اللہ نے اسے تعلیم دی جیسا کہ آیت سورة بقرہ میں ہم نے اس کی تشریح کردی ہے کہ اسماء سے مراد الفاظ کے معانی ہیں یعنی لفظ اور مدلول وہ چیز ہے جس پر علم ومعرفت کاتبادلہ ممکن ہوا ہے ۔ ان ہی کے ذریعے سے تمام انسانوں کے علم میں اضافہ ہوا ہے اور آدم کو جنت میں بھی اور اس کے بعد بھی اللہ نے وصیت کی اور اسے ایسی خصوصی صلاحیتیں دیں جو صرف انسان میں ہیں اور کسی اور مخلوق کو نہیں دی گئیں اور پھر اپنی مزید ہدایت دے کر رسولوں کو بھیجا پھر اللہ نے اپنے اوپر اپنی مخلوق کے ساتھ رحمت کرنا فرض کرلیا کہ اگر وہ توبہ کرلیں اور معافی کے خواستگار ہوں تو انہیں معاف کردیا جائے اور یہ اس منفرد مخلوق پر اللہ کا آخری کرم ہے ۔ یہ انسان عالم بالا کے ساتھ بھی باہم ہم سفر ہے ۔ فرشتے اس کی تکریم میں سجدہ کرتے ہیں ۔ پھر اس کی حفاظت کے لئے بھی فرشتے مقرر ہیں ۔ ان میں سے بعض وحی لانے کے فرائض سرانجام دیتے ہیں اور اللہ کے جو بندے یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر ثابت قدمی اختیار کرتے ہیں تو ان پر اللہ فرشتے نازل کرتا ہے ‘ جو اسے خوشخبری دیتے ہیں ۔ اس طرح جو لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ان کی بھی یہ فرشتے نصرت کرتے ہیں اور انہیں فتح کی خوشخبری دیتے ہیں پھر یہ فرشتے کفار پر مسلط کئے جاتے ہیں جو انہیں قتل بھی کرتے ہیں اور انکی ارواح کو بھی عذاب دیتے ہیں۔ غرض یہ اور دوسرے معاملات ایسے ہیں جن میں انسان کا فرشتوں کی دنیا سے بھی رابط ومعاملہ ہے ۔ پھر انسان کا جنات کے ساتھ بھی معاملہ ہے ۔ ان کے صالحین کے ساتھ بھی اور ان کے شرپسندوں کے ساتھ بھی انسان اور شیطان اعظم کے درمیان جو معرکہ ہوا اس کے بارے میں تو قارئین جان چکے ہیں ۔ یہ عظیم معرکہ اب بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا ۔ لیکن نیک جنوں کے ساتھ انسان کا باہم ربط بھی بعض آیات میں مذکور ہے اور جنات کی تسخیر بھی قرآن سے ثابت ہے جس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے قصے میں مذکور ہے کہ انہوں نے جنات کو مسخر کرلیا تھا ۔ اسی طرح یہ انسان اس پوری مادی کائنات کے ساتھ بھی مربوط ہے ۔ خصوصا زمین اور اس کے اردگرد ستاروں اور سیاروں کے ساتھ ۔ اس زمین پر تو انسان اللہ کا خلیفہ اور نائب ہے ۔ انسان کے لئے اس کی تمام قوتیں مسخر کردی گئی ہیں ‘ اس کے خزانے اور اور پیداوار انسان کے لئے وقف ہے ۔ اور انسان کے اندر وہ قوت اور استعداد ودیعت کردی گئی ہے جو اس کی کنہ تک مسلسل پہنچ رہا ہے اور اس کے طبیعی قوانین کا انکشاف کرتا چلا جاتا ہے اور اس طرح وہ اس زمین پر عظیم کردار ادا کر رہا ہے ۔ یوں اس کا اس کائنات کی تمام زندہ مخلوق کے ساتھ ربط ہے ۔ پھر اپنی طبیعت کی بو قلمونیوں کی وجہ سے وہ خود اپنے نفس کے اندر بہت دور تک معرفت کے گھوڑے دوڑاتا ہے ۔ یہ آسمانوں تک معراج حاصل کرتا ہے اور فرشتوں کے مقامات سے بھی آگے چلا جاتا ہے ۔ لیکن اس وقت جب وہ اللہ کا بندہ خاص ہوتا ہے ۔ لیکن اگر وہ گر جائے تو محض ایک حیوان کی سطح تک بھی اتر آتا ہے ۔ جب وہ اپنی خواہشات کو اپنا الہ بنا لے ۔ اس وقت اس کی انسانیت گندے حیوانی تالاب میں لت پت ہوجاتی ہے ۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک وسیع و عریض میدان درجات ہے جو عالم حس کے اندر اور اس کے آگے و رائے حس کی حدود تک پھیلا ہوا ہے اور اس کا اس میں معاملہ ہے ۔۔۔۔۔۔ یاد رہے کہ انسان کے سوا کسی اور مخلوق کے لئے یہ مقامات نہیں ہیں ‘ جیسا کہ اس قصے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے ۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ یہ منفرد مخلوق ‘ اپنی اس انفردیات کے باوجود بعض پہلوؤں سے کمزور بھی ہے اور اپنی ان کمزوریوں کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ اسے شر کی طرف کھینچا جاسکتا ہے ۔ وہ ذاتی اور سفلی خواہشات کے پیچھے درجہ اسفل تک بھی گر سکتا ہے ۔ اس کی ایک کمزوری تو یہ ہے کہ وہ یہاں باقی رہنا چاہتا ہے ۔ پھر وہ اقتدار کا بھی بھوکا ہے اور اس اندر اقتدار کی سخت خواہش ہے ۔ جب وہ اللہ کی ہدایت کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو اس کی کمزریوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ خالص خواہشات نفسانیہ کا بندہ بن جاتا ہے یا وہ ایسے دشمن شیطان کا پیرو کار بن جاتا ہے ‘ جس نے یہ ڈیوٹی اپنے ذمے لے رکھی ہے کہ وہ اسے گمراہ کرے گا ‘ اس مقصد کے لئے انتھک کوشش جاری رکھے گا اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ تمام ذرائع ووسائل کام میں لائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی رحمت اور اپنے فضل وکرم کی وجہ سے اسے پوری طرح اس کی فطرت کے سپرد نہیں کردیا ۔ نہ اسے اپنی عقل اور سوچ کے حوالے کردیا ہے ۔ بلکہ اس کی ہدایت کے لئے اور اسے انجام بد سے ڈرانے کے لئے رسولوں کا سلسلہ بھیجا ہے ۔ چناچہ اس قصے پر بغور تبصرہ اگلی آیات کی تفسیر میں آرہا ہے ۔ اور یہ انسان کی کامیابی کا پہلا زینہ ہے ۔ اس طرح وہ اپنی خواہشات کے جنگل سے آزاد ہو کر اللہ کی جانب چلا آتا ہے اور اس طرح اپنے خفیہ دشمن سے نجات پا جاتا ہے ۔ یہ نجات اسے اللہ کے ذکر ‘ اس کی یاد ‘ اس کی رحمت اور اس کے اجر کے حصول کے داعیہ اور اس کی سرزنش سے ڈر کی وجہ سے ملتی ہے ۔ یہ تمام باتیں اسے قوت بخشتی ہیں اور ان کے ذریعے وہ اپنی کمزوریوں اور شہوات پر قابو پا لیتا ہے ۔ اس سلسلے میں اس کی پہلی ٹریننگ یہ تھی کہ جنت میں اس کے لئے ایک درخت کو حرام کردیا گیا تاکہ وہ اس سے بچ کر اپنے ارادے کو قوت بخشے اور کمزوریوں اور نافرمانیوں کی کشش کا مقابلہ کرے اگرچہ وہ اس پہلے تجربے اور پہلی آزمائش میں کامیاب نہیں رہا لیکن بعد میں یہ ناکامی اس کے لئے سبق آموز ثابت ہوئی ۔ اس کی ان کمزوریوں کی وجہ سے اللہ نے رحم فرمایا اور اس کے لئے توبہ کے دروازے کو کھلا رکھا ۔ جب وہ بھول جائے اور پھر اسے یاد آجائے اور وہ پشیمان ہو ۔ جب وہ گر جائے اور پھر اٹھے ‘ جب وہ راہ راست سے ہٹ جائے اور توبہ کرلے اور مڑ کر سیدھی راہ اختیار کرلے تو اس کے لئے توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے ‘ اس کی غلطی کو معاف کرتا ہے اور یہ نہیں کہ اگر کسی سے غلطی ہوجائے تو ضرور اسے پکڑے ۔ یا اس کے لئے لعنت ہو اور اس کی اولاد بھی اس تہمت سے متہمم ہو ‘ کیونکہ کوئی گناہ ابدی نہیں ہوتا ۔ کوئی بوجھ اٹھانے والے دوسرے کا بوجھ کس طرح اٹھائے گا۔ ؟ اسلامی نظام حیات کا یہ تصور اس کہانی کو رد کردیتا ہے جو انسانیت پر کینسہ کے غلط تصورات نے مسلط کی تھی اور جس کے نتیجے میں عیسائی مذہب پر کئی غیر فطری عقائد اور رسومات مسلط ہوگئے اور یہ مذہب درست عقائد کے بجائے خرافات میں گم ہوگیا ۔ یہ عجیب تصور ہے کہ آدم کی لغزش اب پوری انسانیت کی گردن میں لٹکی ہوئی ہے ‘ اور ایک دائمی لعنت ہے ۔ یہاں تک کہ وہ ان کے خود ساختہ خدا مسیح کے ساتھ بھی لگی ہوئی ہے ۔ ان کی جان بھی اس سے تب چھوٹتی ہے اور انسانیت کا دامن بھی تب صاف ہوتا ہے جب یہ انسانی خدا سولی پر چڑھ جاتا ہے اور پھر کیا ہوتا ہے ؟ جو لوگ قیامت تک عیسائیت کو قبول کرتے ہیں ان کے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں ۔ بہت خوب ! اس کے مقابلے میں اسلامی تصور حیات میں یہ معاملہ کس قدر آسان اور قابل فہم ہے کہ حضرت آدم بھول گئے اور ان سے لغزش کا صدور ہوگیا ۔ انہوں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے بخش دیا اور یوں اس پہلی لغزش کا معاملہ ختم ہوگیا اور یہ لغزش انسان کے لئے ایک سبق آموز تجربہ کے طور پر تاریخ میں محفوظ ہوگئی اور بس تاکہ انسان اس سے سبق حاصل کرے ذرا دیکھئے یہ تصور کس قدر سادہ ہے ۔ کس قدر واضح ہے اور اس تصور کا اپنا ناکس قدر سادہ ہے اور آسان ہے ۔ چوتھی حقیقت یہ ہے کہ یہاں انسان اور شیطان کی کشمکش ایک حقیقی کشمکش ہے ۔ یہ مسلسل اور سخت ترین کشمکش ہے ۔ اس قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دشمن انسان نے ہر حالت میں انسان کے خلاف اپنی کاروائی جاری رکھنے کا اعلان کردیا ہے اور اس نے برملا کہہ دیا ہے کہ وہ ہر طرف اور ہر جہت سے انسان پر حملہ آور ہوگا اور پنے حملوں کو مسلسل جاری رکھے گا وہ ان الفاظ میں اعلان جنگ کرتا ہے ۔ ” اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا ‘ آگے اور پیچھے ‘ دائیں اور بائیں ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا ۔ “ شیطان ملعون نے یہ راہ اپنائی کہ وہ انسانوں کے خلاف اپنی اس فریب کاری کو جاری رکھے گا ۔ اسے اس کاروائی کے لئے مہلت ملنی چاہئے ۔ اس کے مقابلے میں اس کے سامنے جو سیدھی راہ تھی اسے اس نے ترک کردیا ۔ سیدھی راہ یہ تھی کہ اس نے ذات باری کے سامنے اللہ کے احکام کو درست طرح سن کر جو معصیت کی اس پر وہ نادم ہوتا اور اللہ سے بخشش طلب کرتا ۔ اس کے برعکس اس نے یہ اعلان کیا کہ وہ ہر راہ گزر پر بیٹھ کر ان کو گمراہ کرے گا اور ہر جہت اور ہر طرف سے ان پر حملہ آور ہوگا اور ان کو گمراہ کر کے چھوڑے گا ۔ شیطان انسانوں پر ان مقامات سے حملہ کرتا ہے جو دفاعی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں ۔ یہ کمزور مقامات جنسی خواہشات اور مرتبے کے حصول کی خواہشات ہیں ۔ ان کمزور مقامات کو انسان صرف خدا خوفی اور ذکر الہی کے ذریعے درست کرسکتا ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی ذاتی خواہشات کو دبائے اور اپنی خواہشات کے خلاف جنگ ہے اور اللہ کی جانب سے آئی ہوئی ہدایت کا اتباع ہے ۔ اور مادی خواہشات پر قابو پا کر صرف وہ لوگ بلندی حاصل کرسکتے جو بلند نظریات اور بلند ارادے رکھتے ہوں اس لئے کہ یہاں شیطان اپنے لاؤ لشکر سمیت ایک طرف میدان میں ہے اور اس کا مقابلہ تب ہی کیا جاسکتا ہے کہ اس کرہ ارض پر شریعت کو نافذ کردیا جائے ۔ پس یہ معرکہ نظریات اور ضمیر کے میدان میں بھی جاری ہے اور زندگی کے عملی میدان میں بھی جاری ہے ۔ دونوں میدانوں میں یکبارگی یہ کشمکش ضروری ہے ۔ وہ شیاطین جو دنیا میں براجمان ہیں وہ لوگوں کو اپنی شریعت ‘ اپنی وضع کردہ اقدار کے مطابق چلاتے ہیں ۔ انہوں نے یہاں حسن وقبح کے اپنے پیمانے بنا رکھے ہیں ۔ جو اللہ کی حاکمیت ‘ اس کے اقتدار اعلی اور اس کی شریعت کی نفی کرتے ہیں اور ان اقتدار کے خلاف چلتے ہیں جو دین اسلام سے نکلتی ہیں ۔ یہ انسانی شیاطین ہیں اور ان کو جنی شیاطین ہدایات دیتے ہیں ۔ ان انسانی شیاطین کے ساتھ یہ سیاسی معرکہ بھی خود شیطان اصلی کے خلاف معرکہ ہے ۔ یہ اس سے کوئی علیحدہ بات نہیں ہے ۔ اس طرح اس دنیا میں برپا یہ عظیم کشمکش دراصل شیطان کے ساتھ ایک عظیم معرکہ ہے ۔ شیطان کے دوستوں کے ساتھ معرکہ ہے ۔ جب ایک صحیح الفکر مسلمان اس معرکے میں کودتا ہے تو وہ فی الحقیقت اپنی مادی خواہشات کے ساتھ برسر جنگ ہوتا ہے ۔ پھر وہ شیطان کے ان دوستوں کے خلاف برسرجنگ ہوتا ہے جنہوں نے اس کرہ ارض پر خود اپنا اقتدار اعلی قائم کر رکھا ہے ۔ وہ ان تمام شرارتوں کے ساتھ برسرجنگ ہوتا ہے جو ان شیاطین اور ان کے دوستوں نے دنیا میں برپا کر رکھی ہیں اور جب ایک مومن اس ہمہ جہت جنگ میں مصروف ہوتا ہے تو وہ پوری طرح یہ شعور رکھتا ہے کہ وہ یہ ہمہ جہت جنگ شیطان کے ساتھ لڑ رہا ہے جو اس کا حقیقی دشمن ہے اور جس نے اس کے خلاف مسلسل جنگ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے ۔ یہ جنگ قیامت تک ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آتا ہے ۔ (الجھاد ماض الی یوم القیامۃ (حدیث) کہ ” جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور ہر صورت اور ہر میدان میں جاری رہے گا ۔ “ آخری بات اس قصے سے یہ معلوم ہوتی ہے جیسا کہ تفصیلات آگے آرہی ہیں ‘ کہ خود انسان کی فطرت ‘ طبیعت اور مزاج میں ایک چیز موجود ہے اور وہ ہے شرم وحیاء انسان عریانی کو فطرتا ناپسند کرتا ہے ۔ خصوصٓ شرمگاہ کی عریانی کو ۔ آیت ” فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْْطَانُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَا وُورِیَ عَنْہُمَا مِن سَوْء َاتِہِمَا (٧ : ٢٠) ” شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ وہ ننگا کر دے ان کی ان شرمگاہوں کو جو پوشیدہ تھیں “۔ آیت ” فَدَلاَّہُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْء َاتُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْْہِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّۃِ وَنَادَاہُمَا “۔ (٧ : ٢٢) ” اس طرح دھوکہ دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پر لے آیا ۔ آخر کار جب انہوں نے اس درخت کا مزہ چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپنے لگے ۔ “ آیت ” یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْء َاتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَیَ ذَلِکَ خَیْْرٌ ذَلِکَ مِنْ آیَاتِ اللّہِ “ (٧ : ٢٦) ” اے اولاد آدم ‘ ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو ‘ اور بہترین لباس تقوی کا لباس ہے ۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے “۔ آیت ” یَا بَنِیْ آدَمَ لاَ یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْْطَانُ کَمَا أَخْرَجَ أَبَوَیْْکُم مِّنَ الْجَنَّۃِ یَنزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوْء َاتِہِمَا “ (٧ : ٢٧) ” اے بنی آدم ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کردے جس نے اس سے پہلے تمہارے والدین کو اس نے جنت سے نکلوایا اور ان کے لباس ان پر سے اتروا دیئے تھے تاکہ ان کی شرمگائیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے ۔ “ یہ تمام ہدایات وتبصرے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ بہت ہی اہم اور نہایت ہی فطری مسئلہ ہے اور یہ داعیہ انسانی فطرت کی انتہائی گرائیوں میں ہے کہ وہ لباس پہنے اور اپنی شرمگاہ کو چھپائے لباس انسان کے لئے زینت اور پردہ ہے جبکہ لباس تقوی انسان کی روحانی شرمگاہوں کے لئے ستر ہے فطرت سلیمہ نے ہمیشہ اپنی جسمانی اور روحانی شرمگاہوں کو چھپانے کی سعی کی ہے اور وہ ہمیشہ ان کمزوریوں کو چھپانے پر حریص رہی ہے ۔ جو لوگ انسانی جسم کو لباس سے عاری کرنا چاہتے ہیں ‘ نفس انسانی کو لباس تقوی سے محروم کرکے ننگا کرنا چاہتے ہیں ‘ اللہ اور انسانوں سے شرم وحیاء کو ختم کرنا چاہتے ہیں ‘ جن لوگوں کی زبانیں ‘ جن کے قلم ‘ اور جن کے ذرائع ابلاغ اور میڈیا اس بات میں رات اور دن مصروف ہو کہ مختلف طریقوں سے اور مختلف خبیث اور شیطانی ذرائع سے ان کو اپنے ان فطری دواعی سے عاری کردیں ‘ وہ درحقیقت انسان سے وہ فطری خواص چھین لینا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے انسان ‘ انسان ہے ۔ یہ لوگ انسان کو اس شیطان کے سامنے جھکانا چاہتے ہیں ‘ جو ان کا دشمن ہے جس نے سب سے پہلے انسان کی شرمگاہ کو ننگا کرنے سے اپنی شیطنت کا آغاز کیا تھا ۔ پھر یہ لوگ ان صہیونی منصوبوں کو مکمل کرنا چاہتے ہیں جو یہودیوں نے انسانیت کی بربادی کے لئے تیار کر رکھے ہیں اور ان کے مطابق وہ پوری انسانیت کو اس قدر مضمحل کردینا چاہتے ہیں کہ وہ انکے مقابلے میں اٹھ نہ سکے اور اس کی حالت یہ ہوجائے کہ اس کے اندر کوئی انسانی خصوصیت نہ رہے ۔ عریانی فطرتا ایک حیوانی خاصہ ہے ۔ اس کی طرف انسان صرف اس وقت آمادہ ہو سکتا ہے جب وہ مقام انسانیت سے گر کر حیوانی مرتبے میں آجائے ۔ نیز عریانیت کو خوبصورتی صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں ‘ جن کا ذوق انسانی ختم ہوچکا ہو۔ چناچہ وسطی افریقہ کے نہایت ہی پسماندہ لوگ مادر زاد ننگے ہوتے ہیں اور جب اسلام ان میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ انہیں کپڑے پہناتا ہیں ۔ آج مغرب کے نام نہاد ترقی پسند دانشور انسان کو عریانی کے اس گڑھے میں گرا رہے ہیں جہاں سے اسلام نے انہیں نکالا تھا وہ نکالنے کے بعد انکو نہایت ہی متمدن بنا دیا تھا اور انکو اسلامی مفہوم اور اہداف کے مطابق متمدن بنایا تھا ۔ اسلام میں تمدن اور ترقی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کے اندر انسانی خصائص کو ترقی دی جائے اور ان کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کیا جائے ۔ نفس کی عریانی یہ ہے کہ انسان شرم وحیاء کو خیر باد کہہ دے اور یہ وہ مقصد ہے جس کے لئے یورپ کا میڈیا ‘ قلم ‘ آواز اور اسکرین کام کر رہی ہے ۔ یہ اس قدر پسماندگی اور جاہلیت کی طرف رجعت قہقہری ہے جو کبھی تھی ‘ اسے کسی مفہوم میں بھی ترقی ‘ حضارت اور تمدن نہیں کہا جاسکتا جیسا کہ آج مغرب کا شیطانی میڈیا مسلمانوں کو یاد کررہا ہے ۔ تخلیق انسانیت کا قصہ ان تمام اقدار اور پیمانوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مسلمانوں کو اس طرف ہدایت کی اور تمام شیطانی وساوس سے نجات دی اور جاہلیت کے گندے تالاب سے مسلمانوں کو نکالا ۔ قرآن نے یہ قصہ انہیں مقاصد کے لئے پیش کیا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21: اِھْبِطُوْا بصیغہ جمع میں خطاب حضرت آدم و حواء (علیہما السلام) اور ابلیس سے ہے۔ امام فراء کہتے ہیں۔ خطاب حضرت آدم اور حواء سے ہے جیسا کہ دوسری جگہ وارد ہے :“ قَالَ اھْبِطَا مِنْھَا جَمِیْعًا ”(طٰہٰ رکوع 7) چونکہ وہ دونوں نوع بشر کی اصل ہیں اس لحاظ سے گویا کہ وہی جمیع بشر ہیں۔ وضمیر الجمع لکونھما اصل البشر فکانہم ھم (روح ج 8 ص 102) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24 اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تم یہاں سے یعنی جنت سے زمین پر اترو اور اس حالت میں اترو کہ تم ایک دوسرے کے یعنی تمہارے بعض بعض کے دشمن ہوں گے اور تمہارے لئے ایک وقت متعین تک زمین میں ٹھہرنا اور زمین کے اسبابِ معیشت سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ یعنی تم زمین میں جائو وہاں تمہاری اولاد آپس میں ایک دوسرے کی دشمن اور مخالف ہوگی اور تم وہاں موت کے وقت تک ٹھہرو گے اور تمہارے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا انتظام زمین کی پیداوار سے ہوگا۔