Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 31

سورة الأعراف

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ ﴿٪۳۱﴾  10

O children of Adam, take your adornment at every masjid, and eat and drink, but be not excessive. Indeed, He likes not those who commit excess.

اے اولاد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو ۔ بیشک اللہ تعالٰی حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah commands taking Adornment when going to the Masjid This honorable Ayah refutes the idolators' practice of performing Tawaf around the Sacred House while naked. Muslim, An-Nasa'i and Ibn Jarir, (the following wording is that of Ibn Jarir) recorded that Shu`bah said that Salamah bin Kuhayl said that Muslim Al-Batin said that Sa`id bin Jubayr said that Ibn Abbas said, "The idolators used to go around the House while naked, both men and women, men in the day and women by night. The woman would say, "Today, a part or all of it will be unveiled, but whatever is exposed of it, I do not allow." Allah said in reply, يَا بَنِي ادَمَ ... O Children of Adam! ... خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ ... Take your adornment to every Masjid, Al-Awfi said that Ibn Abbas commented: "There were people who used to perform Tawaf around the House while naked, and Allah ordered them to take adornment, meaning, wear clean, proper clothes that cover the private parts. people were commanded to wear their best clothes when performing every prayer." Mujahid, Ata', Ibrahim An-Nakha`i, Sa`id bin Jubayr, Qatadah, As-Suddi, Ad-Dahhak and Malik narrated a similar saying from Az-Zuhri, and from several of the Salaf. They said that; this Ayah was revealed about the idolators who used to perform Tawaf around the House while naked. This Ayah, as well as the Sunnah, encourage wearing the best clothes when praying, especially for Friday and `Id prayers. It is also recommended (for men) to wear perfume for prayer, because it is adornment, and to use Siwak for it is part of what completes adornment. The best color for clothes is white, for Imam Ahmad narrated that Ibn Abbas said that the Messenger of Allah said, الْبَسُوا مِنْ ثِيَابِكُمُ الْبَيَاضَ فَإِنَّهَا مِنْ خَيْرِ ثِيَابِكُمْ وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ وَإِنَّ خَيْرَ أَكْحَالِكُمُ الاْثْمَدُ فَإِنَّهُ يَجْلُو الْبَصَرَ وَيُنْبِتُ الشَّعَر Wear white clothes, for it is among your best clothes, and also wrap your dead with it. And Ithmid (antimony) is among the best of your Kuhl, for it clears the sight and helps the hair grow. This Hadith has a sound chain of narration, consisting of narrators who conform to the conditions and guidelines of Imam Muslim. Abu Dawud, At-Tirmidhi and Ibn Majah also recorded it, and At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih." Prohibiting Extravagance Allah said, ... وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ ... And eat and drink but waste not by extravagance, Al-Bukhari said that Ibn Abbas said, "Eat what you wish and wear what you wish, as long as you avoid two things: extravagance and arrogance." Ibn Jarir said that Muhammad bin Abdul-A`la narrated to us that Muhammad bin Thawr narrated to us from Ma`mar from Ibn Tawus from his father who said that Ibn Abbas said, "Allah has allowed eating and drinking, as long as it does not contain extravagance or arrogance." This chain is Sahih. Imam Ahmad recorded that Al-Miqdam bin Ma`dikarib Al-Kindi said that he heard the Messenger of Allah saying, مَا مَلَاَ ابْنُ ادَمَ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنِهِ بِحَسْبِ ابْنِ ادَمَ أَكَلَاتٍ يُقِمْنَ صُلْبَهُ فَإِنْ كَانَ فَاعِلًا لاَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ طَعَامٌ وَثُلُثٌ شَرَابٌ وَثُلُثٌ لِنَفَسِه The Son of Adam will not fill a pot worse for himself than his stomach. It is enough for the Son of Adam to eat a few bites that strengthens his spine. If he likes to have more, then let him fill a third with food, a third with drink and leave a third for his breathing. An-Nasa'i and At-Tirmidhi collected this Hadith, At-Tirmidhi said, "Hasan" or "Hasan Sahih" according to another manuscript. Ata Al-Khurasani said that Ibn Abbas commented on the Ayah, ... وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ And eat and drink but waste not by extravagance, certainly He (Allah) likes not the wasteful. "With food and drink." إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ Certainly He (Allah) likes not the wasteful. Ibn Jarir commented on Allah's statement, "Allah the Exalted says that He does not like those who trespass the limits on an allowed matter or a prohibited matter, those who go to the extreme over what He has allowed, allow what He has prohibited, or prohibit what He has allowed. But, He likes that what He has allowed be considered as such (without extravagance) and what He has prohibited be considered as such. This is the justice that He has commanded."

برہنہ ہو کر طواف ممنوع قرار دے دیا گیا اس آیت میں مشرکین کا رد ہے وہ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے جیسے کہ پہلے گذرا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ ننگے مرد دن کو طواف کرتے اور ننگی عورتیں رات کو ، اس وقت عورتیں کہا کرتی تھیں کہ آج اس کے خاص جسم کا کل حصہ یا کچھ حصہ گو ظاہر ہو لیکن کسی کو وہ اس کا دیکھنا جائز نہیں کرتیں ۔ پس اس کے برخلاف مسلمانوں کو حکم ہوتا ہے کہ اپنا لباس پہن کر مسجدوں میں جاؤ ، اللہ تعالیٰ زینت کے لینے کو حکم دیتا ہے اور زینت سے مراد لباس ہے اور لباس وہ ہے جو اعضاء مخصوصہ کو چھپا لے اور جو اس کے سوا ہو مثلاً اچھا کپڑا وغیرہ ۔ ایک حدیث میں ہے کہ یہ آیت جوتیوں سمیت نماز پڑھنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن ہے یہ غور طلب اور اس کی صحت میں بھی کلام ہے واللہ اعلم ۔ یہ آیت اور جو کچھ اس کے معنی میں سنت میں وارد ہے اس سے نماز کے وقت زینت کرنا مستحب ثابت ہوتا ہے ۔ خصوصاً جمعہ کے دن اور عید کے دن اور خوشبو لگانا بھی مسنون طریقہ ہے اس لئے کہ وہ زینت میں سے ہی ہے اور مسواک کرنا بھی ۔ کیونکہ وہ بھی زینت کو پورا کرنے میں داخل ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ سب سے افضل لباس سفید کپڑا ہے ۔ جیسے کہ مسند احمد کی صحیح حدیث میں ہے حضور فرماتے ہیں سفید کپڑے پہنو وہ تمہارے تمام کپڑوں سے افضل ہیں اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دو ۔ سب سرموں میں بہتر سرمہ اثمد ہے وہ نگاہ کو تیز کرتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے ۔ سنن کی ایک اور حدیث میں ہے سفید کپڑوں کو ضروری جانو اور انہیں پہنو وہ بہت اچھے اور بہت پاک صاف ہیں انہی میں اپنے مردوں کو کفن دو ۔ طبرانی میں مروی ہے کہ حضرت تمیم داری نے ایک چادر ایک ہزار کو خریدی تھی نمازوں کے وقت اسے پہن لیا کرتے تھے ۔ اس کے بعد آدھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام طب کو اور حکمت کو جمع کر دیا ارشاد ہے کھاؤ پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو ۔ ابن عباس کا قول ہے جو چاہ کھا جو چاہ پی لیکن دو باتوں سے بچ اسراف اور تکبر ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کھاؤ پیو پہنو اور پڑھو لیکن صدقہ بھی کرتے رہو اور تکبر اور اسراف سے بچتے رہو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے کے جسم پر دیکھے ۔ آپ فرماتے ہیں کھاؤ اور پہنو اور صدقہ کرو اور اسراف سے اور خود نمائی سے رکو ، فرماتے ہیں انسان اپنے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرتا ۔ انسان کو چند لقمے جس سے اس کی پیٹھ سیدھی رہے کافی ہیں اگر یہ بس میں نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ اپنے پیٹ کے تین حصے کر لے ایک کھانے کیلئے ایک پانی کیلئے ایک سانس کیلئے ۔ فرماتے ہیں یہ بھی اسراف ہے کہ تو جو چاہے کھائے ۔ لیکن حدیث غریب ہے ۔ مشرکین جہاں ننگے ہو کر طواف کرتے تھے وہاں زمانہ حج میں چربی کو بھی اپنے اوپر حرام جانتے تھے اللہ نے دونوں باتوں کے خلاف حکم نازل فرمایا یہ بھی اسراف ہے کہ اللہ کے حلال کردہ کھانے کو حرام کر لیا جائے ۔ اللہ کی دی ہوئی حلال روزی بیشک انسان کھائے پئے ۔ حرام چیز کا کھانا بھی اسراف ہے اللہ کی مقرر کردہ حرام حلال کی حدوں سے گزر نہ جاؤ ۔ نہ حرام کو حلال کرو نہ حلال کو حرام کہو ۔ ہر ایک حکم کو اسی کی جگہ پر رکھو ورنہ مسرف اور دشمن رب بن جاؤ گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 آیت میں زینت سے مراد لباس ہے۔ اس کا سبب نزول بھی مشرکین کے ننگے طواف سے متعلق ہے۔ اس لئے انہیں کہا گیا ہے کہ لباس پہن کر اللہ کی عبادت کرو اور طواف کرو۔ 31۔ 2 اِسْرَافُ ، (حد سے نکل جانا) کسی چیز میں حتیٰ کے کھانے پینے میں بھی ناپسندیدہ ہے، ایک حدیث میں نبی نے فرمایا ' جو چاہو کھاؤ اور جو چاہے پیو جو چاہے پہنو البتہ دو باتوں سے گریز کرو۔ اسراف اور تکبر سے (صحیح مسلم، صحیح بخاری) ، بعض سلف کا قول ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے (وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف :31) اس آدھی آیت میں ساری طب جمع فرما دی ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں زینت سے وہ لباس مراد ہے جو آرائش کے لیے پہنا جائے۔ جس سے ان کے نزدیک نماز اور طواف کے وقت تزئین کا حکم نکلتا ہے۔ اس آیت سے نماز میں ستر عورت کے وجوب پر بھی استدلال کیا گیا ہے بلکہ احادیث کی رو سے ستر عورت گھٹنوں سے لے کر ناف تک کے حصے کو ڈھانپنا ہر حال میں ضروری ہے چاہے آدمی خلوت میں ہی ہو۔ (فتح القدیر) جمعہ اور عیدین کے دن خوشبو کا استعمال بھی مستحب ہے کہ یہ بھی زینت کا ایک حصہ ہے۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] نمازی کے لباس میں کتنے کپڑے ہوں :۔ یہاں زینت سے مراد لباس ہے اور یہ لباس صاف ستھرا اور پاکیزہ ہونا چاہیے تاکہ زینت کا باعث ہو اس لباس میں کون کون سا کپڑا شامل ہونا چاہیے ؟ اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ عمر و بن ابی سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے (صرف) ایک کپڑے میں نماز پڑھی۔ آپ نے اس کے دونوں کناروں کو مخالف سمتوں میں کندھوں پر ڈال لیا تھا (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ باب عقد الازار علی القفا فی الصلوۃ) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا && تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھے پر کچھ نہ ہو۔ && (بخاری۔ کتاب الصلوۃ باب اذا صلی فی الثوب الواحد فلیجعل علی عاتقیہ) ٣۔ سیدنا انس (رض) کہتے ہیں کہ سیدۃ عائشہ (رض) کے پاس ایک پردہ تھا جسے انہوں نے اپنے گھر میں ایک طرف لٹکایا ہوا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (یہ پردہ دیکھ کر) فرمایا : && یہ اپنا پردہ یہاں سے ہٹا لو اس کی تصویریں میری نماز میں حارج ہوتی ہیں۔ && (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ان صلی فی ثوب مصلب او تصاویر۔۔ ) ٤۔ ابو مسلمہ سعید بن یزید ازدی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا && کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی جوتیوں سمیت نماز پڑھ لیتے تھے ؟ && سیدنا انس (رض) نے کہا && ہاں۔ && (بخاری کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ فی النعال) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ :۔ ١۔ کم از کم ایک کپڑے میں بھی نماز ہوسکتی ہے بشرطیکہ وہ اتنا بڑا ہو کہ مخالف سمتوں میں کندھوں پر ڈالنے کے بعد بھی دونوں طرف پنڈلیوں تک بدن ڈھانپ سکتا ہو۔ ٢۔ دونوں کندھوں پر کپڑا ہونا ضروری ہے، سر پر کوئی کپڑا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ٣۔ کوئی کپڑا ایسے نقش و نگار والا یا تصویروں والا نہیں ہونا چاہیے جو اللہ کی طرف سے توجہ ہٹا کر اپنی طرف مبذول کرلے۔ ٤۔ زیادہ کپڑوں کی کوئی حد نہیں، پگڑی یا ٹوپی وغیرہ کا تو ذکر کیا، جوتوں سمیت بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اس کا تلا صاف ستھرا ہو اور جوتوں سمیت نماز گھروں میں بھی پڑھی جاسکتی ہے اور مساجد میں بھی جیسا کہ بالخصوص نیا جوتا پہنتے وقت شکرانہ کے نوافل پڑھے جاتے ہیں۔ سنت نبوی میں ایسے واضح احکام کے باوجود بعض لوگوں نے ننگے سر نماز پڑھنے کو وجہ نزاع بنا لیا ہے ایک فریق اس انتہا کو چلا گیا کہ ننگے سر نماز ہوتی ہی نہیں اور دوسرا فریق دوسری انتہا کو چلا گیا اس نے اس مسئلے کو محض جواز تک محدود نہ رکھا بلکہ اسے اپنا شعار بنا لیا۔ پہلے فریق کی غلط روش تو واضح ہے کیونکہ حالت احرام میں ساری نمازیں اور طواف وغیرہ بھی ننگے سر ہی ادا ہوتے ہیں اگر ننگے سر نماز ہو ہی نہیں سکتی تو حالت احرام میں یقیناً سر پر کوئی کپڑا رکھنے کی تاکید کردی جاتی۔ جیسا کہ عورتوں کے لیے ایسا ہی حکم ہے رہا دوسرا فریق تو اس کی وجہ استدلال درج ذیل حدیث ہے :۔ ننگے سر نماز کا مسئلہ :۔ محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ جابر (بن عبداللہ) (رض) نے ایک تہبند میں نماز پڑھی جسے اپنی گدی پر باندھ لیا اور ان کے کپڑے تپائی پر رکھے ہوئے تھے کسی (عبادہ بن ولید) نے ان سے کہا تم (کپڑے ہوتے ہوئے) ایک تہبند میں نماز پڑھتے ہو ؟ && جابر (رض) کہنے لگے && یہ اس لیے کہ تیرے جیسا بیوقوف مجھے دیکھ لے اور آپ کے زمانہ میں ہم لوگوں میں سے کس کے پاس دو کپڑے تھے ؟ && (بخاری۔ کتاب الصلوۃ باب عقد الازار علی القفا فی الصلوۃ) اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ١۔ سیدنا جابر بن عبداللہ (رض) جنہوں نے کپڑے پاس ہوتے ہوئے صرف ایک کپڑے میں (یعنی ننگے سر) نماز ادا کی، ان کا یہ روزمرہ کا معمول نہیں تھا۔ ورنہ سائل کو ایسا سوال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ ٢۔ سیدنا جابر (رض) نے یہ کام عمداً اس لیے کیا کہ ناواقف لوگوں پر واضح ہوجائے کہ صرف ایک کپڑے میں بھی نماز جائز ہے اگرچہ سر ننگا ہی رہے۔ ٣۔ سیدنا جابر (رض) نے اس کی وجہ بھی بتادی کہ دور نبوی میں اکثر لوگوں کے پاس دو کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔ ان تصریحات کا ماحصل یہ ہے کہ جواز کی حد تک ننگے سر نماز ادا کرنے میں نہ کوئی کلام ہے اور نہ قباحت لیکن اگر ٹوپی یا عمامہ وغیرہ موجود ہو تو اسے پہننا ہی افضل ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا معمول تھا کیونکہ سر ڈھانپنا بھی زینت کا ایک حصہ ہے لہذا ننگے سر نماز پڑھنا شعار نہ بنا لیا جائے۔ ہاں کپڑوں کی موجودگی میں بھی کبھی کبھار کسی ضرورت یا مصلحت کی غرض سے ننگے سر نماز ادا کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ [٣٠] کھانے پینے میں اسراف کا نقصان :۔ بعض اطباء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مختصر سے جملہ میں طب کا آدھا علم بیان فرما دیا ہے کیونکہ اکثر امراض خوراک کی زیادتی یا اس میں بےاحتیاطی ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسراف کا مطلب بسیار خوری بھی ہوسکتا ہے۔ وقت بےوقت کھانا اور بدپرہیزی بھی۔ یہ تو اسراف کے طبعی نقصانات ہیں اور جو اخلاقی نقصانات ہیں وہ اس سے بھی زیادہ ہیں مثلاً جو انسان اپنے ہی کھانے پینے کی فکر رکھے گا دوسروں سے احسان کرنا تو درکنار وہ دوسروں کے جائز حقوق بھی ادا کرنے کے قابل نہ رہے گا۔ پھر مال کے ضیاع سے اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں شدت سے منع فرمایا ہے اور اس کے نتائج بڑے دوررس ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ ۔۔ : زینت سے مراد لباس ہے، یعنی طواف اور نماز میں پردے کی چیزوں کو چھپانا فرض ہے، مرد کے لیے کمر سے گھٹنوں تک ( اور نماز میں اس کے ساتھ کندھے پر کچھ لباس کا ہونا) اور عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھوں کے سوا سارا بدن۔ باریک کپڑا جس سے بدن اور بال نظر آئیں معتبر نہیں، یعنی نہ ہونے کے برابر ہے۔ (موضح) البتہ جمعہ کے دن خاص طور پر غسل، خوش بو اور اپنے بہترین لباس پہننے کا حکم دیا۔ جمعہ مسلمانوں کی ہفتہ وار عید ہے۔ عید الفطر اور عید الاضحی سالانہ عیدیں ہیں، ان میں تو بدرجہ اولیٰ اس کا اہتمام ہونا چاہیے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ عورت بیت اللہ کا طواف ننگی ہو کر کرتی تھی اور کہتی کہ کون مجھے طواف کے لیے کپڑا دے گا، اس کو وہ شرم گاہ پر ڈال لیتی اور کہتی : اَلْیَوْمَ یَبْدُوْ بَعْضُہٗ أَوْ کُلُّہٗ وَمَا بَدَا مِنْہُ فَلَا اُحِلُّہٗ ” آج اس کا کچھ حصہ یا سارے کا سارا ظاہر ہوجائے گا اور اس میں سے جو ظاہر ہوگا میں اسے حلال نہیں کروں گی۔ “ [ مسلم، التفسیر، باب فی قولہ تعالیٰ : ( خذوا زینتکم عند کل مسجد ) : ٣٠٢٨ ] کئی مرد بھی ننگے طواف کرتے تھے۔ ابوہریرہ (رض) بیان فرماتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے اس حج ( یعنی ٩ ہجری) میں، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع سے پہلے ان کو امیر بنا کر بھیجا تھا، مجھے قربانی کے دن چند آدمیوں کے ہمراہ بھیجا کہ میں لوگوں میں اعلان کر دوں کہ اس سال کے بعد نہ کوئی مشرک حج کرے گا اور نہ کوئی شخص ننگا ہو کر طواف کرے گا۔ [ بخاری، الحج، باب لا یطوف بالبیت عریان۔۔ : ١٦٢٢ ] وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ: جب اوپر کی آیت میں قسط ( عدل و انصاف) کا حکم دیا، تو دوسری چیزوں کے ساتھ لباس اور کھانے پینے میں بھی ” قسط “ کا حکم ہوگیا، اس لیے ان میں بھی اسراف سے منع فرما دیا۔ (کبیر) اسراف یہ ہے کہ آدمی حلال کو حرام ٹھہرا لے، جیسا کہ مشرکین کرتے تھے، یا اہل تصوف کرتے ہیں، یا حلال سے تجاوز کر کے حرام کھائے یا حرام کام میں خرچ کرے کہ یہ تھوڑا بھی اسراف ہے۔ اسراف، یعنی حد سے نکلنا کسی بھی چیز میں ناپسندیدہ ہے، خصوصاً کھانے پینے میں بےاحتیاطی تو اکثر بیماریوں کی جڑ اور دنیا و آخرت دونوں میں نقصان دہ ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کھاؤ، پیو، پہنو اور صدقہ کرو بغیر اسراف کے اور بغیر تکبر کے۔ “ [ بخاری، اللباس، باب قول اللہ تعالیٰ : ( قل من حرم زینۃ اللہ التی۔۔ ) قبل ح : ٥٧٨٣، تعلیقًا ] جابر بن سلیم (رض) سے ایک لمبی حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اور اپنی تہ بند پنڈلی تک اٹھاؤ، اگر نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اور تہ بند لٹکانے سے بچو، کیونکہ یہ تکبر میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ “ [ أبو داوٗد، اللباس، باب ما جاء فی إسبال الأزار : ٤٠٨٤۔ ترمذی : ١٧٨٣ و صححہ الألبانی ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا کھینچے اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔ “ [ بخاری، اللباس، باب قول اللہ تعالیٰ : ( قل من حرم زینۃ اللہ التی۔۔ ) : ٥٧٨٣، عن ابن عمر ] معلوم ہوا صرف تہ بند ہی نہیں کوئی بھی کپڑا جان بوجھ کر ٹخنوں سے نیچے لٹکانا تکبر اور حرام ہے، بےاختیار یا بےدھیانی میں لٹک جائے تو الگ بات ہے۔ مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا : ” ابن آدم نے پیٹ سے برا کوئی برتن نہیں بھرا، ابن آدم کو چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں، اگر ضرور ہی کھانا ہے تو ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے ہے۔ “ [ أحمد : ٤؍١٣٢، ح : ١٧١٩١۔ ترمذی : ٢٣٨٠، صحیح ] ہاں زیادہ دیر کا بھوکا ہو تو زیادہ کھا سکتا ہے، جیسا کہ احادیث سے بعض مواقع پر ثابت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the fourth verse (31), it was said: ` 0 children of &Adam, take along what looks good on you to every mosque. And eat and drink and do not be extravagant. Surely, He does not like the extravagant&. In the way the ` Arabs of Jahiliyyah used to take the making of the Tawaf of the Ka&bah naked as the correct method of worship and an act of reverence for the House of Allah, they also had a custom that they would skip eating and drinking during the days of Hajj. They would eat no more than what would keep them alive. They particularly abstained from butter oil, milk and other pure eatables. (Ibn Jarir) The present verse was revealed against this absurd practice. It enjoined that they should abstain from it because making Tawaf naked was an act of immodesty and bad manners. Similarly, doing the re-verse of it, that is, abstaining from good food given by Allah Ta` ala without any valid excuse had hardly anything to do with religion. In fact, forbidding on themselves what Allah had made lawful for them was effrontery and excess in an act of worship, something disliked by Allah. Therefore, eat and drink as you wish during the days of Hajj, but do not be extravagant. Totally abstaining from Halal foods is also included under extravagance. Then, becoming heedless to the real ob¬jectives of Hajj and the Dhikr of Allah and remaining busy with noth¬ing but eating and drinking is also included under extravagance. Though this verse has been revealed to eradicate a particular cus¬tom of nudity in the ` Arab Jahiliyyah which they demonstrated at the time of Tawaf in the name of reverence for the Ka&bah, but the Imams of Tafsir and the Jurists of Muslim Ummah unanimously agree that the revelation of an injunction in relation to a particular event does not mean that that injunction is restricted to the same event. Instead, what is considered here is the generality of words. The injunction, then, applies on everything that falls under the generality of these words. Covering the Body Properly is Obligatory : There is No Salah Without it Therefore, the majority of Sahabah and Tabi&in, and the Mujtahid, Imams, have deduced many injunctions from this verse. The most im¬portant of them is about Salah. As making Tawaf naked has been pro¬hibited in this verse, the ruling applies identically to Salah as well which becomes Haram (forbidden) and false and futile - because the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said in a Hadith: اَلطَوَافُ بِالب (رض) َیتِ صَلوٰۃُ (The Taw¬af of the House [ of Allah ] is Salah). In addition to that, since the major¬ity of commentators agree that the word, ` masjid& in this verse itself means Sajdah (sujud, prostration), the prohibition of nudity in the state of Sajdah becomes explicitly inclusive in this verse. Now, if this is prohibited in Sajdah, then, it will obviously stand prohibited in all other movements of Salah such as Ruku`, Qiyam and Qu` ud. Then, the statement of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) itself has made it more evident. It also appears in Hadith that the Salah of any adult woman is not permissible without proper head and body cover (khimar, rida, chadar, dupatta or large scarf) (Tirmidhi). That covering the body properly is obligatory in conditions other than Salah as well stands proved from other verses of the Qur&an and the narrations of Hadith - one such verse has already appeared a little earlier: يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِ‌ي سَوْآتِكُمْ We have sent down to you clothing that covers your shame - 26.& To sum up, it can be said that covering the body properly is the first human and Islamic obligation on everyone which is mandatory under all conditions - and, in Salah and Tawaf, it is obligatory in the first degree. A Good Dress For Salah The verse brings out another rule of conduct. By calling dress: ` Zinah,& (adornment), the hint given is that the preferred practice in Sa¬lah is that one should not limit himself to only covering his body func¬tionally, but choose to wear what adorns, looks becoming - of course, within one&s means. It was the habit of Sayyidna Hasan (رض) ، that he would wear his best dress at the time of Salah saying: Allah Ta` ala loves beauty, therefore, I dress myself beautifully to please my Lord for He has said: خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ (take along what looks good on you to every mosque). So, we can see that this verse proves two things, that covering the body properly is obligatory in Salah and that it is recommended and merit-worthy to wear a neat, clean and good dress, within means. Salah and Dress : Some Rulings The third problem at this place is about سَتر Satr, that is, the parts of the body to be concealed, concealing which is, under all conditions, and specially in Salah and Tawaf, an obligation (Fard) - so, what are its lim¬its? The Qur&an has given a command briefly - its details have been entrusted with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He explained it in details. He told us that the Satr of men is from the navel to the knees, and the Satr of women is the whole body except the face and both palms and feet, which are exempt. All these details appear in Hadith narrations. For men, if the body below the navel, or if the knees are open, then, such a dress is a sin in itself, and Salah too does not get to be performed in it as due and prop¬er. Similarly, if the head, neck or arms or shin or calf of a woman are open, then, her being dressed like that is impermissible in itself, and Salah too does not get to performed as due and proper. Says the Ha¬dith: ` A home in which there is a woman with her head uncovered, angels of good would not come there. That the face of a woman, her palms and feet which have been ex¬empted from Satr (the parts of body covering and concealing which is obligatory) means that, should these be open during the Salah it will cause no defect in Salah It never means that a woman would be mov¬ing freely even before non-Mahram man (marriage with whom is per¬missible) with her face open without a valid excuse as admitted by the Shari’ ah of Islam. As for this injunction, it is related to the obligation of covering the body properly (Satr) which is sine qua non for Salah - that is, it stands as if not performed at all. And since what is required in Salah is not the functional covering of the body alone, instead, the advice given is to wear a dress which looks good on one (Zinah), therefore, for men to make Salah bare-headed, or doing it with shoulders or elbows open, is Makruh (reprehensible or disliked) - whether the shirt itself be half-sleeved, or has been rolled up, the Salah remains Makruh after all. Similarly, Salah remains Makruh in a dress one would not prefer to wear before friends, or in public, as something unbecoming - for exam¬ple, wearing an undershirt alone - without a shirt, even if it has full sleeves; or, skipping the wearing of a cap and making do with some cloth piece or a tiny handkerchief knotted or tucked round the head. When no regular person would like to appear before friends or others in that head-bare state, how would that become desirable as a mode of appearance before Allah, the Master of all the worlds? That Salah is Makruh when offered with bare head, shoulders and elbows has been inferred from the word: زِینَۃ (zinah: what looks good) of this Qur&anic verse, and also from the clarifications of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . To recapitulate, it can be said that the injunction in this verse was primarily revealed to eradicate the custom of nudity in pagan Arabia (the age of Jahiliyyah), but the generality of its words yielded other in-junctions and rulings as well. Similar is the case with the second sen¬tence in the verse: كُلُوا وَاشْرَ‌بُوا وَلَا تُسْرِ‌فُوا ، (Eat and drink and do not be extrav¬agant). Though, this too was revealed to erase the custom of Arab Jahiliyyah that they would take eating good food during the days of Hajj as sin, but, here too, the generality of words helps prove many injunctions and rulings. Eating and Drinking as Needed is Obligatory To begin with, eating and drinking is obligatory on everyone from the point of view of the Shari&ah as well. If anyone abandons eating and drinking despite having the ability to do so, to the limit that he dies, or becomes too weak even to fulfill what is obligatory on him, then, this person shall be sinning and committing a crime in the sight of Allah. Legality Operates until Proved Otherwise One ruling deduced from this verse, as specified by Al-Jassas in his Ahkam al-Qur&an, is: Basically, all edibles are permissible and Halal (lawful) unless the unlawfulness or prohibition of something particular stands proved through an evidence of the Shari&ah. In its absence, everything will be considered permissible and lawful. This was suggested by the fact that the object of: كُلُوا وَاشْرَ‌بُوا (Eat and drink) was not mentioned in the verse, that is, it did not specify what to eat or drink. The masters of Arabic diction have clearly established that not mentioning the object on such occasions is an indicator towards its generality, that is, one can eat and drink everything, except things which have been declared to be Haram (unlawful, impermissible, prohibited, forbidden). (Ahkam AI-Qur&an by Al-Jassas) Extravagance in Eating and Drinking is Not Permissible The last sentence of the verse: وَلَا تُسْرِ‌فُوا (do not be extravagant) proves that eating and drinking is, no doubt, permissible - in fact, it is an order - but, along with it, being extravagant while doing so is pro¬hibited. ` Israf means to cross the limit. Then, the crossing of limits takes many forms. One of them is to cross the limits of Halal and land into the area of Haram, that is, one starts eating and drinking things which are prohibited. That this is Haram is all too obvious. Another aspect is that one starts taking what Allah has made Ha¬lal and abstains from it as being Haram without any valid legal excuse as admitted by the Shari` ah of Islam. It should be understood that the way it is a crime and sin to use what is Haram, similarly, taking the Halal as Haram is also a rebellion against Divine Law and a very grave sin. (Ibn Kathir, Mazhari & Ruh al-Ma` ni) On the same analogy, eating and drinking beyond the limits of hunger and need is also what Israf or extravagance is. It is for this reason that Muslim Jurists (fuqaha& ) have written that eating more than needed to remove hunger is not permissible (Ahkam al-Qur&an and others). Then, it also falls under the ruling governing Israf or extrava¬gance that one eats much less than needed, despite having the ability and choice, which makes him weak and unable to fulfill what is enjoined upon him. It was to forbid both these kinds of extravagance that the Qur&an has said: إِنَّ الْمُبَذِّرِ‌ينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِي The extravagant are brothers of the satans - 17:27. Then, in Surah Al-Furqan, it was said: وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِ‌فُوا وَلَمْ يَقْتُرُ‌وا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا ﴿٦٧﴾ (True servants of Allah are) those who, when they spend, would not over-spend and under-spend and the moderate be¬havior is between that. - 25:67. Moderation in Eating and Drinking is Always Beneficial Sayyidna Faruq al-A` zam (رض) said: ` Avoid eating and drinking too much because it spoils the body, generates diseases and slackens activity. Instead, take to moderation in eating and drinking for it is good for the health of the body, and is far removed from extravagance (Israf) in it.& He also said: ` Allah Ta` ala does not like an obese ` Alim& (that is, a scholar of religion who has become fat and heavy as a result of eating excessively by choice). Then, he further said: ` A person does not get destroyed until he starts preferring his personal desires over his Faith.& (Ruh A-Ma` ani from Abu Nu` aym) Righteous elders of the early period have said that to keep busy with the business of eating and drinking all the time, or to prefer it over other matters of importance giving the impression that one has no other worthy purpose left in life but eating and drinking, is includ¬ed under Israf (extravagance). Also well-known is their saying that one should eat to live, not live to eat. In a Hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has included the atti¬tude of compulsively satiating every desire as and when it emerges as included under Israf (extravagance). The words of the Hadith are: اِنَّ مِنَ الاِسرَافِ اَن تاکُلَ کُلَّ مَا اشتَھَتَ (It is also an Israf that one eats everything one desires). (Ibn Majah from Sayyidna Anas) As reported by AI-Baihaqi, The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) once saw Sayyidah ` A&ishahi, eating twice on a day and he said: ` Ya ` A&ishah, would you like that eating becomes your only pastime?& And this command for moderation in eating and drinking men¬tioned in this verse is not restricted to eating and drinking alone. The truth of the matter is that the course of moderation is very desirable in wearing what one wears and living where one lives, in almost everything. Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) said: Eat and drink what you wish and wear what you like. But, take care of two things: One, that there be no Israf (excess from the measure of need) in it. Two, that there be no pride and arrogance about it. Eight Rulings from One Ayah In short, eight rulings of the Shari’ ah come out from the statement: كُلُوا وَاشْرَ‌بُوا وَلَا تُسْرِ‌فُوا (Eat and drink and do not be extravagant): (1) Eating and drinking is obligatory as needed, (2) unless the unlawfulness of something stands proved as based on an evidence admitted by the Shari` ah, everything is Halal, (3) the use of things prohibited by Allah and His Messenger is Israf and is impermissible, (4) tak¬ing as Haram what Allah has made Halal is also Israf, and a grave sin, (5) once one has eaten his fill, eating anymore is impermissible, (6) eating so little that one becomes weak and is rendered unable to fulfill his obligations is also Israf, (7) to keep thinking of eating and drinking all the time is also Israf and (8) It is not necessary that one must have what one wishes for at a given time. The rules recounted above which emerge from this verse have their religious benefits. If one looks at it medically, a better prescription for health and well-being will be difficult to find. The key is: Moderation in eating and drinking. That is your sanctuary from all diseases. According to Tafsir Ruh al-Ma&ani and Mazhari, Khalifah Harun Al-Rashid had a personal physician who was a Christian. He said to ` Ali ibn Husayn ibn al-Waqidi: ` Your Book (the Qur&an) has nothing about medicine in it, although there are only two fields of knowledge in our time, the knowledge of religion and the knowledge of bodies called Medicine.|"Ali ibn Husayn said: Allah Ta` ala has put the whole science of medicine in half a verse of the Qur&an. He says: كُلُوا وَاشْرَ‌بُوا وَلَا تُسْرِ‌فُوا (Eat and drink and do not be extravagant) (Tafsir Ibn Kathir reports this saying also with reference to some other righteous elders of the earlier times). Then, the Court physician asked: All right, is there something in the sayings of your prophet about Medicine?& ` Ali ibn Husayn replied: ` The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has reduced the whole science of medicine in a few sayings of his when he said that ` the stomach is the nursery of diseases& and ` abstinence from harmful things is the root of all medicine& and ` give everybody what it can take (as a matter of hab¬it) & (Kashshaf & Rub a1-Ma` ani). After hearing this, the Christian physician said: ` Your Book and your Prophet have left no Medicine for Galen (Jalinus).& Based on a narration from Sayyidna Abi Hurairah (رض) in Shu&ab al-&Iman, Al-Baihaqi has reported that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: ` The stomatch is the reservoir of the body. All arteries and nerves of the body get satiated from this reservoir. If the stomach is in proper order, all veins will return with healthy food from here. And if it is not in proper order, all veins will spread out in the body as car¬riers of diseases.& Muhaddithin (experts in the discipline of Hadith) have expressed doubts about the use of some words in these narrations of Hadith. But, all of them agree to the emphasis laid on eating moderately and ob¬serving precaution present in countless Ahadith. (Ruh al-Ma&ani)

چوتھی آیت میں ارشاد فرمایا : ” اے اولاد آدم ! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ نکلو، بیشک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے “۔ زمانہ جاہلیت کے عرب جیسا کہ بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر کرنے کو صحیح عبادت اور بیت اللہ کا احترام سمجھتے تھے اسی طرح ان میں یہ رسم بھی تھی کہ ایام حج میں کھانا پینا چھوڑ دیتے تھے، صرف اتنا کھاتے تھے جس سے سانس چلتا رہے، خصوصاً گھی، دودھ اور پاکیزہ غذاؤں سے بالکل اجتناب کرتے تھے (ابن جریر) ان کے اس بیہودہ طریقہ کار کے خلاف یہ آیت نازل ہوئی، جس نے بتلایا کہ ننگے ہو کر طواف کرنا بےحیائی اور سخت بےادبی ہے، اس سے اجتناب کریں، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی پاکیزہ غذاؤں سے بلاوجہ اجتناب کرنا بھی دین کی بات نہیں بلکہ اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرانا گستاخی اور عبادت میں حد سے تجاوز کرنا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے، اس لئے ایام حج میں خوب کھاؤ پیو، ہاں اسراف نہ کرو، حلال غذاؤں سے بالکل اجتناب کرنا بھی اسراف میں داخل ہے، اور حج کے اصل مقاصد اور ذکر اللہ سے غافل ہو کر کھانے پینے ہی میں مشغول رہنا بھی اسراف میں داخل ہے۔ یہ آیت اگرچہ جاہلیت عرب کی ایک خاص رسم عریانی کو مٹانے کے لئے نازل ہوئی ہے جس کو وہ طواف کے وقت بیت اللہ کی تعظیم کے نام پر کیا کرتے تھے، لیکن ائمہ تفسیر اور فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی حکم کے کسی خاص واقعہ میں نازل ہونے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ حکم اسی واقعہ کے ساتھ خاص ہے، بلکہ اعتبار عموم الفاظ کا ہوتا ہے جو چیزیں ان الفاظ کے عموم میں شامل ہوتی ہیں سب پر یہی حکم عائد ہوتا ہے۔ نماز میں ستر پوشی فرض ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اسی لئے اس آیت سے جمہور صحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین نے کئی احکام نکالے ہیں، اول یہ کہ اس میں جس طرح ننگے طواف کو منع کیا گیا ہے، اسی طرح ننگے نماز پڑھنا بھی حرام اور باطل ہے، کیونکہ حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : الطواف بالبیت صلوة، اس کے علاوہ خود اسی آیت میں جب کہ لفظ مسجد سے جمہور مفسرین کے نزدیک مراد سجدہ ہے، تو بحالت سجدہ عریانی کی ممانعت خود آیت میں صراحت سے آجاتی ہے، اور جب سجدہ میں ممنوع ہوئی تو رکوع اور قیام و قعود اور نماز کے تمام افعال میں اس کا لازم ہونا ظاہر ہے۔ پھر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات نے اس کو اور بھی واضح کردیا، ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ کسی بالغ عورت کی نماز بغیر دوپٹے کے جائز نہیں (ترمذی) اور نماز کے علاوہ دوسرے حالات میں بھی ستر پوشی کا فرض ہونا دوسری آیات و روایات سے ثابت ہے، جن میں سے ایک آیت اسی سورت میں گزر چکی ہے، (آیت) یبنی ادم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواتکم خلاصہ یہ ہے کہ ستر پوشی انسان کے لئے پہلا انسانی اور اسلامی فرض ہے جو ہر حالت میں اس پر لازم ہے نماز اور طواف میں بدرجہ اولیٰ فرض ہے۔ نماز کے لئے اچھا لباس دوسرا مسئلہ اس آیت میں یہ ہے کہ لباس کو لفظ زینت سے تعبیر کرکے اس طرف بھی اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ نماز میں افضل و اولیٰ یہ ہے کہ صرف ستر پوشی پر کفایت نہ کی جائے بلکہ اپنی وسعت کے مطابق لباس پہنتے تھے، اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جمال کو پسند فرماتے ہیں، اس لئے میں اپنے رب کے لئے زینت و جمال اختیار کرتا ہوں، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ معلوم ہوا کہ اس آیت سے جیسا کہ نماز میں ستر پوشی کا فرض ہونا ثابت ہوتا ہے اسی طرح بقدر استطاعت صاف ستھرا اچھا لباس اختیار کرنے کی فضیلت اور استحباب بھی ثابت ہوتا ہے۔ نماز میں لباس کے متعلق چند مسائل تیسرا مسئلہ اس جگہ یہ ہے کہ ستر جس کا چھپانا انسان پر ہر حال میں اور خصوصاً نماز و طواف میں فرض ہے، اس کی حد کیا ہے ؟ قرآن کریم نے اجمالاً ستر پوشی کا حکم دے کر اس کی تفصیلات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تفصیل کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ مرد کا ستر ناف سے لے کر گھٹنوں تک اور عورت کا ستر سارا بدن صرف چہرہ اور دونوں ہتھیلیاں اور قدم مستثنیٰ ہیں۔ روایات حدیث میں یہ سب تفصیل مذکور ہے، مرد کے لئے ناف سے نیچے کا بدن یا گٹھنے کھلے ہوں تو ایسا لباس خود بھی گناہ ہے اور نماز بھی اس میں ادا نہیں ہوتی، اسی طرح عورت کا سر گردن یا بازو یا پنڈلی کھلی ہو تو ایسے لباس میں رہنا خود بھی ناجائز ہے اور نماز بھی ادا نہیں ہوتی، ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جس مکان میں عورت ننگے سر ہو وہاں نیکی کے فرشتے نہیں آتے۔ عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں اور قدم جو ستر سے مستثنیٰ قرار دیئے گئے، اس کے یہ معنی ہیں کہ نماز میں اس کے یہ اعضاء کھلے ہوں تو نماز میں کوئی خلل نہیں آئے گا، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ غیر محرموں کے سامنے بھی وہ بغیر شرعی عذر کے چہرہ کھول کر پھرا کرے۔ یہ حکم تو فریضہ ستر کے متعلق ہے، جس کے بغیر نماز ہی ادا نہیں ہوتی اور چونکہ نماز میں صرف ستر پوشی ہی مطلوب نہیں، بلکہ لباس زینت اختیار کرنے کا ارشاد ہے، اس لئے مرد کو ننگے سر نماز پڑھنا یا مونڈھے یا کہنیاں کھول کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، خواہ قمیص ہی نیم آستین ہو یا آستین چڑھائی گئی ہو بہر حال نماز مکروہ ہے، اسی طرح ایسے لباس میں بھی نماز مکروہ ہے جس کو پہن کر آدمی اپنے دوستوں اور عوام کے سامنے جانا قابل شرم و عار سمجھے، جیسے صرف بنیان بغیر کرتے کے، اگرچہ پوری آستین بھی ہو، یا سر پر بجائے ٹوپی کے کوئی کپڑا یا چھوٹا دستی رومال باندھ لینا کہ کوئی سمجھدار آدمی اپنے دوستوں یا دوسروں کے سامنے اس ہیئت میں جانا پسند نہیں کرتا، تو اللہ رب العالمین کے دربار میں جانا کیسے پسندیدہ ہوسکتا ہے، سر، مونڈھے، کہنیاں کھول کر نماز کا مکروہ ہونا آیت قرآنی کے لفظ زینت سے بھی مستفاد ہے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصریحات سے بھی۔ جس طرح آیت کا پہلا جملہ جاہلیت عرب کی رسم عریانی کو مٹانے کے لئے نازل ہوا، مگر عموم الفاظ سے اور بہت سے احکام و مسائل اس سے معلوم ہوئے، اسی طرح دوسرا جملہ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا بھی اگرچہ جاہلیت عرب کی اس رسم کو مٹانے کے لئے نازل ہوا کہ ایام حج میں اچھی غذا کھانے پینے کو گناہ سمجھتے تھے، لیکن عموم الفاظ سے یہاں بھی بہت سے احکام و مسائل ثابت ہوتے ہیں۔ کھانا پینا بقدر ضرورت فرض ہے اول یہ کہ کھانا پینا شرعی حیثیت سے بھی انسان پر فرض و لازم ہے، باوجود قدرت کے کوئی شخص کھانا پینا چھوڑ دے، یہاں تک کہ مر جائے، یا اتنا کمزور ہوجائے کہ واجبات بھی ادا نہ کرسکے تو یہ شخص عند اللہ مجرم و گناہگار ہوگا۔ اشیاء عالم میں اصل اباحت و جواز ہے جب تک کسی دلیل سے حرمت ممانعت ثابت نہ ہو کوئی چیز حرام نہیں ہوتی ایک مسئلہ اس آیت سے احکام القرآن جصاص کی تصریح کے مطابق یہ نکلا کہ دنیا میں جتنی چیزیں کھانے پینے کی ہیں، اصل ان میں یہ ہے کہ وہ سب جائز و حلال ہیں، جب تک کسی خاص چیز کی حرمت و ممانعت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہ ہوجائے ہر چیز کو جائز و حلال سمجھا جائے گا، اس کی طرف اشارہ اس بات سے ہوا کہ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا کا مفعول ذکر نہیں فرمایا کہ کیا چیز کھاؤ پیو، اور علماء عربیت کی تصریح ہے کہ ایسے مواقع پر مفعول ذکر نہ کرنا اس کے عموم کی طرف اشارہ ہوا کرتا ہے کہ ہر چیز کھا پی سکتے ہو بجز ان اشیاء کے جن کو بالتصریح حرام کردیا گیا ہے (احکام القرآن، جصاص) کھانے پینے میں اسراف جائز نہیں آیت کے آخری جملہ وَلَا تُسْرِفُوْا سے ثابت ہوا کہ کھانے پینے کی تو اجازت ہے، بلکہ حکم ہے، مگر ساتھ ہی اسراف کرنے کی ممانعت ہے، اسراف کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنا، پھر حد سے تجاوز کرنے کی کئی صورتیں ہیں، ایک یہ کہ حلال سے تجاوز کرکے حرام تک پہنچ جائے، اور حرام کو کھانے پینے برتنے لگے اس کا حرام ہونا ظاہر ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو بلاوجہ شرعی حرام سمجھ کر چھوڑ دے جس طرح حرام کا استعمال جرم و گناہ ہے اسی طرح حلال کو حرام سمجھنا بھی قانون الٓہی کی مخالفت اور سخت گناہ ہے۔ (ابن کثیر، مظہری، روح المعانی) اسی طرح یہ بھی اسراف ہے کہ بھوک اور ضرورت سے زیادہ کھائے پئے، اسی لئے فقہاء نے پیٹ بھرنے سے زائد کھانے کو ناجائز لکھا ہے (احکام القرآن وغیرہ) اسی طرح یہ بھی اسراف کے حکم میں ہے کہ باوجود قدرت و اختیار کے ضرورت سے اتنا کم کھائے جس سے کمزور ہو کر ادائے واجبات کی قدرت نہ رہے، ان دونوں قسم کے اسراف کو منع کرنے کے لئے قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے : (آیت) ان المبذرین کانو اخوان الشیطین ” یعنی فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں “۔ اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا : (آیت) والذین اذا انفقوا تا قواما۔ ” یعنی اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو خرچ کرنے میں تو سط اور میانہ روی رکھتے ہیں نہ حد ضرورت سے زیادہ خرچ کریں اور نہ اس سے کم خرچ کریں “۔ کھانے پینے میں اعتدال ہی نافع دین و دنیا ہے حضرت فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ بہت کھانے پینے سے بچو، کیونکہ وہ جسم کو خراب کرتا ہے، بیماریاں پیدا کرتا ہے، عمل میں سستی پیدا کرتا ہے، بلکہ کھانے پینے میں میانہ روی اختیار کرو کہ وہ جسم کی صحت کے لئے بھی مفید ہے اور اسراف سے دور ہے، اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فربہ جسم عالم کو پسند نہیں فرماتے (مراد یہ ہے کہ جو زیادہ کھانے سے اختیاری طور پر فربہ ہوگیا ہو) اور فرمایا کہ آدمی اس وقت تک ہلاک نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کو دین پر ترجیح نہ دینے لگے (روح عن ابی نعیم) سلف صالحین نے اس بات کو اسراف میں داخل قرار دیا ہے کہ آدمی ہر وقت کھانے پینے ہی کے دھندے میں مشغول رہے، یا اس کو دوسرے اہم کاموں میں مقدم جانے، جس سے یہ سمجھا جائے کہ اس کا مقصد زندگی یہی کھانا پینا ہے، انہی حضرات کا مشہور مقولہ ہے کہ ” خوردن برائے زیستن ست نہ زیستین برائے خوردن “۔ یعنی کھانا اس لئے ہے کہ زندگی قائم رہے، یہ نہیں کہ زندگی کھانے پینے ہی کے لئے ہو۔ ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بھی اسراف میں داخل فرمایا ہے کہ جب کسی چیز کو جی چاہئے اس کو ضرور پورا کرلے، ان من الاسراف ان تاکل کل ما اشتھیت (ابن ماجہ عن انس) اور بیہقی رحمة اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ دن میں دو مرتبہ کھانا تناول فرمایا، تو ارشاد فرمایا اے عائشہ ! کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہارا شغل صرف کھانا ہی رہ جائے۔ اور میانہ روی کا یہ حکم جو کھانے پینے کے متعلق اس آیت میں مذکور ہے صرف کھانے پینے کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ پہننے اور رہنے سہنے کے ہر کام میں درمیانی کیفیت پسند اور محبوب ہے، حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جو چاہو کھاؤ پیو، اور جو چاہو پہنو، صرف دو باتوں سے بچو، ایک یہ کہ اس میں اسراف یعنی قدر ضرورت سے زیادتی نہ ہو، دوسرے فخر و غرور نہ ہو۔ ایک آیت سے آٹھ مسائل شرعیہ خلاصہ یہ ہے کہ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا، کے کلمات سے آٹھ مسائل شرعیہ نکلے۔ اول یہ کہ کھانا پینا بقدر ضرورت فرض ہے، دوسرے یہ کہ جب تک کسی چیز کی حرمت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہ ہوجائے ہر چیز حلال ہے، تیسرے یہ کہ جن چیزوں کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ممنوع کردیا اس کا استعمال اسراف اور ناجائز ہے، چوتھے یہ کہ جو چیزیں اللہ نے حلال کی ہیں ان کو حرام سمجھنا بھی اسراف اور سخت گناہ ہے، پانچویں یہ کہ پیٹ بھر جانے کے بعد اور کھانا ناجائز ہے، چھٹے یہ کہ اتنا کم کھانا جس سے کمزور ہو کر ادائے واجبات کی قدرت نہ رہی، درست نہیں ہے، ساتویں یہ کہ ہر وقت کھانے پینے کی فکر میں رہنا بھی اسراف ہے، آٹھویں یہ بھی اسراف ہے کہ جب کبھی کسی چیز کو جی چاہے تو ضروری ہی اس کو حاصل کرے۔ یہ تو اس آیت کے فوائد دینیہ ہیں اور اگر طبی طور پر غور کیا جائے تو صحت و تندرستی کے لئے اس سے بہتر کوئی نسخہ نہی، کھانے پینے میں اعتدال، ساری بیماریوں سے امان ہے۔ تفسیر روح المعانی اور مظہری وغیرہ میں ہے کہ امیر المؤ منین ہارون رشید کے پاس ایک نصرانی طبیب علاج کے لئے رہتا تھا، اس نے علی بن حسین بن واقد سے کہا کہ تمہاری کتاب یعنی قرآن میں علم طب کا کوئی حصہ نہیں، حالانکہ دنیا میں دو ہی علم علم ہیں، ایک علم ادیان دوسرا علم ابدان جس کا نام طب ہے، علی بن حسین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سارے فن طب و حکمت کو آدھی آیت قرآن میں جمع کردیا ہے، وہ یہ کہ ارشاد فرمایا کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ( اور تفسیر ابن کثیر میں یہ قول بعض سلف کے حوالہ سے بھی نقل کیا ہے) ، پھر اس نے کہا کہ اچھا تمہارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام میں بھی طب کے متعلق کچھ ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند کلمات میں سارے فن طب کو جمع کردیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ معدہ بیماریوں کا گھر ہے، اور مضر چیزوں سے پرہیز دواء کی اصل ہے اور ہر بدن کو وہ چیز دو جس کا وہ عادی ہے (کشاف، روح) نصرانی طبیب نے یہ سن کر کہا کہ تمہاری کتاب اور تمہارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جالینوس کے لئے کوئی طب نہیں چھوڑی۔ بیہقی نے شعب الایمان میں بروایت ابی ہریرہ (رض) نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ معدہ بدن کا حوض ہے، سارے بدن کی رگیں اسی حوض سے سیراب ہوتی ہیں، اگر معدہ درست ہے تو ساری رگیں یہاں سے صحت مند غذا لے کر لوٹیں گی، اور وہ خراب ہے تو ساری رگیں بیماری لے کر بدن میں پھیلیں گی۔ محدثین نے ان روایات حدیث کے الفاظ میں کچھ کلام کیا ہے، لیکن کم کھانے اور محتاط رہنے کی تاکیدات جو بیشمار احادیث میں موجود ہیں اس میں سب کا اتفاق ہے (روح)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَۃَ اللہِ الَّتِيْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ۝ ٠ ۭ قُلْ ہِىَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا خَالِصَۃً يَّوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۝ ٣٢ حرم الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» . وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم/ 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام/ 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة/ 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات/ 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل . ( ح ر م ) الحرام ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام/ 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة/ 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات/ 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ خلص الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه، وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] ( خ ل ص ) الخالص ( خالص ) خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة/ 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔ قِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، القیامت سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے تفصیل : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] ( ف ص ل ) الفصل التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے خذوازینتکم عند کل مسجد) اس پر دلالت کرتا ہے کہ مسجد میں جانے کے لئے صاف ستھرا کپڑا پہن لینا جو زینت کا باعث بن جائے مستجب ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے جمعہ اور عیدین میں صاف ستھرے کپڑے پہننے کی ترغیت دی ہے جس طرح آپ نے جمعہ اور عیدین میں غسل کرنے اور خوشبو لگانے کا حکم دیا ہے۔ کھانے پینے میں اسراف کی ممانعت قول باری ہے وکلواواشربوا ولاتسرفوا۔ اور کھائو پیو اور حد سے سے تجاوز نہ کرو) ظاہر آیت اسراف یعنی فضول خرچی کے بغیر کھانے پینے کے ایجاب کا مقتضی ہے لیکن بعض احوال میں اس حکم سے اباحت مراد ہوتی ہے اور بعض میں ایجاب۔ اگر کھانا پینا چھوڑ دینے کی بنا پر ایک شخص کو بایں معنی ضررلاحق ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجائے کہ اس کی جان چلی جائے یا کوئی عضو بےکار ہوجائے یا کمزوری کی بنا پر اپنے فرائض ادا کرنے سے قاضر ہوجائے تو ان تمام حالتوں میں اس کے لئے اتنا کھانا پینا واجب ہوگا اس سے ا س ضرر کے لاحق ہونے کا خطرہ ٹل جائے۔ اگر کھانا پینا چھوڑنے کی بنا پر کسی ضرر کے لاحق ہونے کا خطرہ نہ ہو تو اس حالت میں کھانا پینا مباح ہوگا۔ خورونوش میں حد اعتدال ظاہر آیت تمام ماکولات کے کھانے اور تمام مشروبات کے پینے کے جواز کا مقتضی ہے۔ بشرطیکہ اس میں اسراف نہ ہو نیز ان میں سے کسی چیز کی ممانعت کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اکل و شرب کا اطلاق عدم اسراف کی شرط پر کیا ہے۔ اسراف حد استواء سے تجاوز کرجانے کا نام ہے۔ یہ بعض دفعہ حلال سے حرام کی طرف بڑھ جانے کی صورت میں ہوتا ہے اور بعض دفعہ اخراجات میں حد سے تجاوز کر جانے کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس صورت میں ایسا شخص اس قول باری کے ذیل میں آجاتا ہے ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین۔ تبذیر کرنے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں) اسراف اور اس کی ضد اقتاء یعنی ضرورت سے کم خرچ کرنا اور تنگی اختیار کرنا دونوں قابل مذمت باتیں ہیں۔ اور استواء میانہ روی کا نام ہے۔ اسی بنا پر یہ قول ہے کہ اللہ کا دین کوتاہی کرنے والے اور غلو کرنے والے کے وسط میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواماً ۔ اور وہ لوگ جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور اس کے درمیان کا خرچ اعتدال پر رہتا ہے) اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا ولاتجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولاتبسطھا کل البسط فتقعد ملوما محسوراً ۔ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ ہی اسے پوری طرح پھیلا دو کہ پھر تم ملازمت زدہ اور تہی دست ہو کر بیٹھ جائو) بعض دفعہ کھانے میں اس طرح اسراف ہوتا ہے کہ ایک انسان اپنی حاجت سے زائد کھا لیتا ہے جس کی وجہ سے اسے ضرر اور تکلیف لاحق ہوجاتی ہے آیت کی رو سے اس طرح کھانے کی بھی ممانعت ہے اور اس طرح کھانا حلال نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١) ہر نماز کے وقت اور طواف کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو، گوشت، چربی کھاؤ، دودھ پیو اور پاکیزہ رزق کو اپنے اوپر مت حرام کرو، حلال اشیاء کو حرام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے۔ شان نزول : (آیت) ” یبنی ادم خذو زینتکم “۔ (الخ) امام مسلم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں عورت بیت اللہ کا ننگے طواف کیا کرتی تھی اور اس کی شرمگاہ پر ایک کپڑا ہوتا تھا اور یہ کہتی تھی کہ آج کے دن خواہ سارا جسم کھل جائے یا بعض اس کا حصہ اور جو اس سے کھل جائے اس کو میں حلال نہیں سمجھتی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ (یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ) یہاں اچھے لباس کو زینت کہا گیا ہے ‘ جیسا کہ آیت ٢٦ میں لباس کو رِیْشًا فرمایا گیا تھا ‘ یعنی لباس انسان کے لیے زیب وزینت کا ذریعہ ہے۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ ابھی جن تین آیات (٢٦ ‘ ٢٧ اور ٣١) میں لباس کا ذکر ہوا ہے ‘ ان تینوں میں بنی آدم کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لباس کا معاملہ پوری نوع انسانی سے متعلق ہے۔ بہر حال اس آیت میں جو اہم حکم دیا جا رہا ہے وہ نماز کے وقت بہتر لباس زیب تن کرنے کے بارے میں ہے۔ ہمارے ہاں اس سلسلے میں عام طور پر الٹی روش چلتی ہے۔ دفتر اور عام میل ملاقات کے لیے تو عموماً بہت اچھے لباس کا اہتمام کیا جاتا ہے ‘ لیکن مسجد جانا ہو تو میلے کچیلے کپڑوں سے ہی کام چلا لیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ جب تمہیں میرے دربار میں آنا ہو تو پورے اہتمام کے ساتھ آیا کرو ‘ اچھا اور صاف ستھرا لباس پہن کر آیا کرو۔ (وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلاَ تُسْرِفُوْاج اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ ) ۔ بنی آدم سے کہا جا رہا ہے کہ یہ دنیا کی چیزیں تمہارے لیے ہی بنائی گئیں ہیں اور ان چیزوں سے جائز اور معروف طریقوں سے استفادہ کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے ‘ لیکن اللہ کی عطا کردہ ان نعمتوں کے بےجا استعمال اور اسراف سے اجتناب بھی ضروری ہے ‘ کیونکہ اسراف اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ یہاں ایک طرف تو اسی رہبانی نظریہ کی نفی ہو رہی ہے جس میں اچھے کھانے ‘ اچھے لباس اور زیب و زیبائش کو سرے سے اچھا نہیں سمجھا جاتا اور مفلسانہ وضع قطع اور ترک لذات کو روحانی ارتقاء کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے ‘ جبکہ دوسری طرف دنیوی نعمتوں کے بےجا اسراف اور ضیاع سے سختی سے منع کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں افراط وتفریط سے بچنے کے لیے ضروریات زندگی کے اکتساب و تصرف کے معیار اور فلسفے کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک مسلمان جہاں کہیں بھی رہتا بستا ہے اس کو دو صورتوں میں سے ایک صورت حال درپیش ہوسکتی ہے۔ اس کے ملک میں یا تو دین غالب ہے یا مغلوب۔ اب اگر آپ کے ملک میں اللہ کا دین مغلوب ہے تو آپ کا پہلا فرض یہ ہے کہ آپ اللہ کے دین کے غلبے کی جدو جہد کریں اور اس کے لیے کسی باقاعدہ تنظیم میں شامل ہو کر اپنا بیشتر وقت اور صلاحیتیں اس جدوجہد میں لگائیں۔ ایسی صورت حال میں دنیوی طور پر ترقی کرنا اور پھلنا پھولنا آپ کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے ‘ بلکہ آپ کی پہلی ترجیح دین کے غلبے کے لیے جدو جہد ہونی چاہیے اور آپ کا ماٹو (اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) ( الانعام) ہونا چاہیے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ مادی لحاظ سے بہت بہتر معیار زندگی کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ یہ اس لیے نہیں ہوگا کہ آپ رہبانیت یا ترک لذات کے قائل ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ دنیا اور دنیوی آسائشیں کمانے کے لیے نہ آپ کوشاں ہیں اور نہ ہی اس کے لیے آپ کے پاس وقت ہے۔ آپ تو شعوری طور پر ضروریات زندگی کو کم سے کم معیار پر رکھ کر اپنی تمام تر صلاحیتیں ‘ اپنا وقت اور اپنے وسائل دین کی سر بلندی کے لیے کھپا رہے ہیں۔ یہ رہبانیت نہیں ہے بلکہ ایک مثبت جہادی نظریہ ہے۔ جیسے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) نے سختیاں جھیلیں اور اپنے گھر باراسی دین کی سر بلندی کے لیے چھوڑے۔ کیونکہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتوں کو نازل نہیں کرے گا ‘ بلکہ یہ کام انسانوں نے کرنا ہے ‘ مسلمانوں نے کرنا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ انقلاب کے داعی بنے ہیں انہیں قربانیاں دینا پڑی ہیں ‘ انہیں سختیاں اٹھانا پڑی ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی انقلاب قربانیوں کے بغیر نہیں آتا۔ لہٰذا اگر آپ واقعی اپنے دین کو غالب کرنے کے لیے انقلاب کے داعی بن کر نکلے ہیں تو آپ کا معیار زندگی خود بخود کم سے کم ہوتا چلا جائے گا۔ البتہ اگر آپ کے ملک میں دین غالب ہوچکا ہے ‘ نظا مِ خلافت قائم ہوچکا ہے ‘ اسلامی فلاحی ریاست وجود میں آچکی ہے تو دین کی مزید نشر و اشاعت ‘ دعوت و تبلیغ اور نظام خلافت کی توسیع ‘ عوامی فلاح و بہبود کی نگرانی ‘ امن وامان کا قیام ‘ ملکی سرحدوں کی حفاظت ‘ یہ سب حکومت اور ریاست کی ذمہ داریاں ہیں۔ ایسی اسلامی ریاست میں ایک فرد کی ذمہ داری صرف اسی حد تک ہے جس حد تک حکومت کی طرف سے اسے مکلف کیا جائے۔ وہ کسی ٹیکس کی صورت میں ہو یا پھر کسی اور نوعیت کی ذمہ داری ہو۔ لیکن ایسی صورت حال میں ایک فرد ‘ ایک عام شہری آزاد ہے کہ وہ دین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ذاتی زندگی اپنی مرضی سے گزارے۔ اچھا کمائے ‘ اپنے بچوں کے لیے بہتر معیار زندگی اپنائے ‘ دنیوی ترقی کے لیے محنت کرے ‘ علمی و تحقیقی میدان میں اپنی صلاحیتوں کو آزمائے یا روحانی ترقی کے لیے مجاہدہ کرے ‘ تمام راستے اس کے لیے کھلے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20. The word zina which occurs in this verse refers to full and proper dress. While performing Prayer people are required not only to cover the private parts of their body, but also to wear a dress that serves the two-fold purpose of covering and giving one a decent appearance. The directive to pray in a proper and decent dress is aimed at refuting the misconception entertained by ignorant people down the ages that man should worship God either in a nude or semi-naked state, or at least have a shabby and unkempt appearance while worshipping. In this verse people are being told the opposite of this. At the time of worship they should not only be free from all kinds of nudity and indecency, but should also be in a decent dress. 21. God does not want to subject man to want and misery or starvation or to deprive him as such of the good things of this worldly life. On the contrary, it pleases Him that man should appear in good decent dress and enjoy the clean food provided for him by God. There is nothing sinful in that. As for sin, it consists in transgressing the bounds set by God. This transgression could be committed in both ways: by making the unlawful lawful, or by making the lawful unlawful.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :20 یہاں زینت سے مرد مکمل لباس ہے ۔ خدا کی عبادت میں کھڑے ہونے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ آدمی محض اپنا ستر چھپا لے ، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ حسب استطاعت وہ اپنا پورا لباس پہنے جس میں ستر پوشی بھی ہو اور زینت بھی ۔ یہ حکم اس غلط رویہ کی تردید کے لیے ہے جس پر جہلا اپنی عبادتوں میں عمل کرتے رہے ہیں اور آج تک کر رہے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ برہنہ یا نیم برہنہ ہو کر اور اپنی ہیئتوں کو بگاڑ کر خدا کی عبادت کرنی چاہیے ۔ اس کے برعکس خدا کہتا ہے کہ اپنی زینت سے آراستہ ہو کو ایسی وضع میں عبادت کرنی چاہیے جس کے اندر بر ہنگی تو کیا ، ناسائستگی کا بھی شائبہ تک نہ ہو ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :21 یعنی خد اکو تمہاری خستہ حالی اور فاقہ کشی اور طیّباتِ رزق سے محرومی عزیز نہیں ہے کہ اس کی بندگی بجا لانے کےلیے یہ کسی درجہ میں بھی مطلوب ہو ۔ بلکہ اس کی عین خوشی یہ ہے کہ تم اس کے بخشے ہوئے عمدہ لباس پہنو اور پاک رزق سے متمتع ہو ۔ اس کی شریعت میں اصل گناہ یہ ہے کہ آدمی اس کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوز کرے ، خواہ یہ تجاوز حلال کو حرام کرلینے کی شکل میں ہو یا حرام کو حلال کر لینے کی شکل میں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(31 ۔ 32) ۔ صحیح مسلم نسائی تفسیر ابن جریر اور تفسیر کلبی میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت سے جو شان نزول ان آیات کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ ایک دستور تھا کہ سوا قریش کے اور اہل عرب کے عورتیں مرد سب ننگے طواف کیا کرتے اور یہ کہتے تھے کہ جن کپڑوں سے ہم نے گناہ کئے ہیں ان کپڑوں کو پھینک کر طواف نہیں کرنا چاہئے اور بعضے قبیلہ کے لوگ بعضی چیزوں کا کھانا بھی حج کے موسم میں اپنے اوپر حرام کرلیتے تھے اس رسم کے مٹانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ حرام وہی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے اپنے رسول کی معرفت حرام فرمائی ہے جن لوگوں نے طواف کے وقت کپڑوں کا پہننا موسم حج میں چکنائی یا گوشت کا کھانا چھوڑ رکھا ہے یہ ان لوگوں کو ایک رسم ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اپنے ستر کو ڈھانکیں اور جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرا دی ہیں ان کا کھانا موسم حج میں یا اور کسی وقت میں اپنی طرف سے حرام نہ ٹھہراویں مستدرک حاکم اور مسند بزار کے حوالہ سے ابودردا (رض) کی صحیح حدیث گذر چکی ہے جس میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حلال حرام وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال یا حرام فرمایا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اپنی طرف سے کسی بندہ کو کسی چیز کے حلال یا حرام ٹھہرانے کا حق نہیں ہے اس واسطے طواف کے وقت کپڑوں کو پہننے کو یا موسم حج میں بعضی چیزوں کے کھانے کو جو عرب کے لوگوں نے حرام ٹھہرا رکھا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا اور حرام حلال میں حد سے بڑھ جانے سے منع فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ حلال کو حلال کی جگہ اور حرام کو حرام کی جگہ سمجھنا چاہئے اپنی طرف سے اس میں کچھ دخل دے کر حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہ ٹھہرانا چاہئے کہ اسی کا نام اسراف اور حد سے بڑھ جانا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ اللہ کے دیے ہوئے مال کو بےجاطور پر اڑانا اور صرف کرنا بھی حد شرعی سے بڑھ جانا سے اس لئے و وہ بھی آیت کے حکم میں داخل ہے چناچہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص میں اترانے اور بیجا خرچ کرنے کی خصلتیں نہیں ہیں وہ جو جی چاہے کھائے اور پہنے پھر فرمایا جب ہر ایک چیز کے حرام حلال ٹھہرنے کا حق اللہ کو ہے اور ان لوگوں نے جن چیززوں کو حرام ٹھہرا رکھا ہے ان کے حرام ہونے کے ثبوت میں یہ لوگ اللہ کا کوئی حکم ملت ابراہیمی سے نکال کر نہیں پیش کرسکتے تو اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے پوچھو کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزیں آخر کس نے تم پر حرام کی ہیں اور اے رسول اللہ کے ان مشرکوں سے یہ بھی کہہ دو کہ دنیا کی ضرورت کی چیزیں اصل میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے واسطے پیدا کی ہیں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو برت کر اس کے شکریہ میں خالص دل سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں رہے وہ ناشکرے مشرک جو اللہ کی ان نعمتوں کو کام میں لاکر سوا اللہ کے اوروں کو اپنا معبود قرار دیتے ہیں اگرچہ ان کی سزا تو یہی ہے کہ دنیا میں بھی ان کو ان نعمتوں سے بالکل محروم کردیا جاتا لیکن دنیا کی چند روزہ نعمتوں کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ قدر منزلت نہیں ہے اس لئے دنیا کی نعمتوں میں تو اللہ نے شکر گذار ایمان داروں کو اور ناشکرے مشرکوں سب کو شریک حال رکھا ہے مگر عقبے میں اللہ کی ہمیشہ کی نعمتوں سے یہ ناشکرے مشرک لوگ بالکل محروم کردیے جادیں گے۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں سہل بن سعد (رض) کی روایت ہے جس میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کی قدر منزلت اگر ایک مچھر کے پر کی برابر بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہوتی تو دنیا میں ایک پانی کا گھونٹ بھی کسی ناشکرے مشرک کو نہ ملتا۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے یہ حدیث آخری آیت کی گویا تفسیر ہے آخر کو فرمایا کہ جن کو کچھ سمجھ بوجھ ہے ان کو قرآن شریف کی آیتوں میں اس طرح ہر آیت کی تفصیل سمجھائی جاتی ہے اس پر بھی جو کوئی قرآن کی نصیحت کو زمانے گا وہ ایسے وقت پر پچھتاوے گا جس وقت کا پچھتانا اس کے کچھ کام نہ آوے گا :۔ ١ ؎ جامع ترمذی ج ٢ ص ٥٦ باب ماجاء فی ہو ان الدنیا علی العد

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:31) زینتکم۔ مضاف مجاف الیہ۔ تمہاری زینت۔ یہاں زینت سے مراد لباس ہے۔ لاتسرفوا۔ تم اسراف نہ کرو۔ حد سے نہ بڑ ھ جاؤ۔ تم بیجا خرچ نہ کرو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی طواف اور نمازیں ستر عورت فرض ہے مرد کے لیے کمر تازانو تک اور عورت کے لے چہرہ اور ہاتھوں کے سوا سارا بدن اور کپڑے باریک جس سے بدن یا بال نظر آویں معتبر ہیں، (کذافی المو ضح) جب اوپر آیت میں قسط (عدل و انصاف) کا حکم دیا اور لباس اور اکل شرب بھی فی الجملہ قسط میں داخل تھے اس لیے ان میں اسراف سے منع فرمادیا۔ (کبیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں اور مرد ننگے ہو کر طواف کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( فتح القدیر)5 اسراف یہ ہے کہ آدمی حلال کو حرام ٹھہرالے یا حلال سے تجاوز کر کے حرام میں جا پڑے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں اور فرمایا مت اڑاؤ یعنی منع کام میں خرچ نہ کرو۔ ( موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (31 تا 34 ) ۔ کلوا (کھائو) ۔ اشربوا (پیو ) ۔ لا تسرفوا (فضول خرچی نہ کرو) ۔ نفصل (ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں) ۔ الفواحش (بےحیائی و بےشرمی کے کام) ۔ ظھر منھا (جوان میں سے کھلی ہوئی ہیں ) ۔ بطن (جو چھپی ہوئی ہیں) ۔ الاثم (گناہ) ۔ البغی (زیادتی ) ۔ لم ینزل (نہیں اتارا) ۔ سلطان (دلیل۔ سند) ۔ اجل (مقرر وقت۔ موت) ۔ لا یستاخرون (پیچھے نہ ہٹ سکیں گے ) ۔ ساعتہ (ایک گھڑی) ۔ لایستقدمون (آگے نہ بڑھ سکیں گے) ۔ تشریح : آیت نمبر (31 تا 34 ) ۔ ” ان آیات میں چھ بنیادی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ 1) عبادت اور زیب وزینت، عبادت اور اچھا کھانا پینا ۔۔۔۔ ان کا اجتماع۔۔۔۔ ۔ یہ دین اسلام کی تعلیمات کا فیض ہے ۔۔۔۔ بدھ، جین، ہندو، پارسی، اور کنفیوشس مذاہب میں رہبانیت ہی رہبانیت ہے۔ عیسائیت اور یہودیت میں عبادت کم اور کھانا، پینا شراب و کباب اور شباب و عیش و عشرت زیادہ ہے۔ جیسے کرسمس اور ایسٹر کی تقریبات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ دین اسلام ہی ہے جو عام زندگی میں ننگے رہنے کو منع کرتا ہے، گرد آلود سر اور گندے جسم کا شدید مخالف ہے جو خواہ مخواہ فاقہ زدگی، بیمار شکل، کمزوری اور تلاش ہمدردی کو ذہنی تباہی سمجھتا ہے جو نہانے دھونے، صفائی ستھرائی، اور سلیقہ مندی ، خوشبو، صاف ٹوپی یا عمامہ، صاف جوتے، ناخن کٹے ہوئے، داڑھی کنگھی کی ہوئی، مونچھ صاف ورنہ با سلیقہ، ناک آنکھ، کان، اور ہاتھ پیرصاف بلکہ طاہر وپاکیزہ۔ ان چیزوں پر اتنا زور دیتا ہے کہ وہ بھی عبادت کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ سڑکوں، پہاڑوں، جنگلوں اور ساحلوں اور مزاروں پر ننگ دھڑنگ میلے کچیلے بدبو دار، بدقماش بےکار، مجرد مفلس اور مست ملنگ فقیر درویش بےعلم بےعقل، کھوئے ہوئے بد حواس بےقیمت، بےقدرتیاگی اور جوگی ملتے ہیں۔ یہ ہرگز ہرگز اسلام کے نمائندے نہیں ہیں۔ اسلام کے نمائندے تو وہ لوگ ہیں جو حسن ظاہر اور حسن باطن کو لازم و ملزوم بنائے ہوئے ہیں۔ جنکی شخصیت میں اتنی کشش اور جاذبیت ہے کہ دورونزدیک سے لوگ گرویدہ ہو کر آتے ہیں اور ان کیا رد گرد جمع رہتے ہیں جن سے وہ تبلیغ دین کا کام لیتے ہیں۔ 2) عبادت۔۔۔۔ ۔ مسلم کی زندگی چوبیس گھنٹے اور بارہ ماہ عبادت ہی عبادت ہے، صرف پانچ وقت کی نمازوں ہی کو دیکھ لیا جائے تو معلوم ہوگا۔ کہ ایک مسلم کو خلوت سے نکل کر جلوت میں آنا ہے وہ نہ صرف ہر وقت پاک، طاہر اور خاص اوقات میں باوضو رہنے پر مجبور ہے بلکہ سلیقہ شعار، پسندیدہ اطوار، ملبوس اور مزین رہنے پر بھی مجبور ہے۔ وہ خوب سیرت ہی نہیں بلکہ خوب صورت بھی ہوتا ہے۔ خوش کلام بھی، خوش مزاج بھی ہوتا ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے رات اور دن کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آپ رات کو سر کا تیل، کنگھا آئینہ ، خوشبو اور مسواک اپنے قریب رکھتے تھے۔۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نواسے حضرت حسن (رض) جب اللہ سے ملنے کو (نماز کیلئے) جاتے تو اپنا بہتین لباس پہن کرجاتے تھے، وہ اسی آیت ” خدا وازینتکم عند کل مسجد “ کو اور اس مبارک حدیث ” ان اللہ جمیل ویحب الجمال “ کو پیش کیا کرتے تھے۔ مردوں کے لئے سر کی ٹوپی یا عمامہ اور عورتوں کے لئے ڈوپٹہ اور چادر (جس سے ان کا سارا جسم چھپ جائے) یہ بھء زیب وزینت ہے۔ یہ چیزیں انسان کو گردوغبار سے بچاتی ہیں، حسن اور وقار کو بڑھاتی ہیں۔ 3) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” کھائو، پیو، مگر حد سے آگے نہ بڑھو “ کیونکہ حد سے آگے بڑھنے ولاوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔۔۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام تو ازن اور تناسب کا دین ہے کمی یا زیادتی دونوں ناپسندیدہ ہیں۔۔۔۔ ۔ اگرچہ حد سے آگے نہ بڑھنے کا حکم کھانے پینے (پہننے، اوڑھنے، مکان بنانے، اور سامان پھیلانے) کے سلسلے میں آیا ہے۔ لیکن اس میں عبادت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس میں بھی اعتدال اور تو ازن کا خیال رکھا جائے نہ تو اتنی عبادت و ریاضت کی جائے کہ چہرہ اور جسم اپنی طاقت اور رونق ہی کھو بیٹھیں اور نہ کھانے پینے اور عیش و عشرت میں اس قدر مست ہوجائے کہ عبادتوں ہی سے غفلت اور سستی شروع ہوجائے۔ روح اور جسم دونوں کا خیال کر کے چلنا ہی اعتدال ہے۔ قرآن کریم نے جہاں کنجوسی کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے وہیں فضول خرچی اور اڑائو، لٹائو، کی بھی سخت مذمت کی ہے۔ قرآن کریم میں ایسے لوگوں کو اس شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے جو اللہ کا نافرمان ہے۔ حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا ہے کہ زیادہ کھانے پینے سے بچو، اس سے جسم بھدا ہوجاتا ہے بیماریاں آتی ہیں۔ عمل میں سستی پیدا ہوجاتی ہے۔ اسراف اور فضول خرچی سرف کھانے پینے، اوڑھنے اور سامان عیش و عشرت ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر محاذ پر ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو بھی اسراف میں داخل کیا ہے کہ ” جب بھی کسی چیز کو جی جا ہے تو اس کو ہر حال میں پورا کیا جائے “۔ تفسیر روح المعانی اور تفسیر مظہری میں ایک واقعہ درج ہے کہ : خلیفہ ہارون رشید کے زمانہ میں بغداد میں ایک نصرانی حکیم رہتا تھا، اس نے ایک عالم علی بن حسین بن واقدی سے اعتراض کے طور پر کہا کہ تمہاری کتاب قرآن مجید میں طب سے متعلق کوئی بات نہیں آئی ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ قرآن کریم نے علاج سے زیادہ اہم احتیاط اور پرہیز کو قرار دیا ہے۔ تمام طب اور حکمت کو تین لفظون میں سمودیا ہے۔ ” کلو اواشربوا ولا تسرفوا “ کھائو پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو نصرانی حکیم مان گیا۔ کہنے لگا کہ یہ تو ٹھیک ہے لیکن حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں طب کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔۔۔۔ ۔ انہوں نے جواب کے طور پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تین ارشادات نقل کئے جن کا خلاصہ یہ ہے۔ (1) معدہ بیماریوں کا گھر ہے (2) نقصان دینے والی چیزوں سے پرہیز کرو (3) ہر بدن کو وہ چیز دو جس کا وہ عدی ہو (بشرطیکہ حرام نہ ہو) نصرانی حکیم نے ان ارشادات کے سامنے اپنی گردن جھکا دی اور مان گیا۔ قرآن و حدیث نے جو حلال و حرام کی پابندیاں لگا دی ہیں ان کا خاص تعلق انسان کی صحت سے بھی ہے اور مزاج سے بھی۔۔۔۔ حرام چیزوں کی ایک طویل فہرست دے دی ہے بقیہ چیزوں کو حلال قرار دے دیا ہے۔ آگے چل کر فرمایا گیا کہ۔ ۔۔ ۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے پوچھئے کہ زیب وزینت کی جن چیزوں کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے ان کو کس نے حرام کردیا ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو اپنے بندوں ہی کے لئے بنایا ہے ۔۔۔۔ ۔ اور جب اللہ نے کسی چیز کو حلال قرار دے دیا ہے تو اب کسی کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کو حرام قرار دے دے۔ مشرکین اور کفار کا یہ گھمنڈ کہ ہم اللہ کے محبوب بندے ہیں اسی لئے تو دنیا کی ساری چیزیں ہمارے قدموں کے نیچے ہیں اور مسلمان اس سے محروم ہیں۔ قرآن کریم کی اگلی آیت میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ فرمایا کہ دنیا کی یہ نعمتیں جو تمام دنیا والوں کو بلا تفریق اور بلا حساب مل رہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنی رزاقیت اور رحمانیت سے یہی پالیسی طے کی ہوئی ہے لیکن قیامت میں فیصلہ ہونے کے بعد یہ چیزیں اہل دوزخ کو نہ لم سکیں گی۔ ان کی قسمت میں تو جہنم کی آگ اور شجر زقوم ہوگا۔ دنیا کی اور آخرت کی تمام نعمتیں صرف اور صرف اہل ایمان کے لئے مخصوص ہونگی۔ 5) اوپر حرام کاموں کی جو فہرست دی گئی ہے ان میں صرف ایک ہی لفظ ” اثم “ یعنی گناہ۔ ۔۔ ۔ اپنی لپیٹ میں ہر غلط اور گناہ کی چیز کو رکھتا ہے۔ اس میں بےحیائی بغاوت ، شرک تہمت سب شامل ہیں۔ ۔۔ ۔ حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہر غلط کام خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کا نقطہ آغاز یہی ” گناہ “ ہے۔ بڑے سے بڑا جرم ، بڑی سے بڑی شخص، گروہی یا قومی عادت و خصلت ، بڑے سے بڑا ضلم، فتنہ و فساد سب کی ابتداء میں ایک ناقابل التفات حقیر ترین نقطہ سیاہ ہے (گناہ) ۔۔۔۔ ۔ ایک بیج ہے جو تناور درخت بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور یہ ابتدائی ” نقطہ سیاہ “ شعور سے زیادہ لا شعور میں جنم لیتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ یہ کفار و مشرکین کھانے پینے اور پہننے میں تارک ال دنیا بنے ہوئے ہیں اور اپنے جسم کو عذاب در عذاب کے مستحق بنا رہے ہیں۔ بڑے سے بڑا گناہ دل کھول کر کیا کرتے ہیں اور کسی حد پر نہیں ٹھرتے۔۔۔۔ ۔ ظاہر اور پوشیدہ دونوں طرح کی بےحیائی اور بدکاری انکی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔۔۔۔ ہر طرح کا چھوٹا بڑا گناہ ظلم، چوری، ڈکیتی، دھوکہ، غصب، خیانت، ماردھاڑ اور قتل سب ان کے خمیر میں داخل ہے بلکہ انتہا تو یہ ہے کہ اگر کہیں حق کا نظام قائم ہو رہا ہے یا ہوگیا ہے تو اس کے خلاف سازشوں کے جال پھیلانے اور بغاوت سے باز نہیں آتے۔ انہوں نے اس کو اپنا مذہت بنا رکھا ہے جس میں اللہ کا نام تو محض تکلف یا سجاوٹ کے لئے ہے اصل میں معبود تو خود ان کا اپنا نفس ہے۔ تجارت کے لئے یا الزام ڈالنے کے لئے چند خیالی یا اصلی پیکر تراش لئے ہیں۔۔۔۔ اور پھر مزے کی بات یہ ہے کہ ان فرضی معبودوں کے نام کچھ کہانیاں، کچھ اقوال اور کچھ کتابیں تصنیف کرادی ہیں اور سارا الزام اللہ پر لگاتے ہیں کہ یہ ساب کچھ ہمیں اللہ نے دیا ہے۔ 6) آخر میں اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ اے اہل مکہ جس طاقت اور دولت کے بھروسے پر تم ناز کررہے ہو اور ڈھیٹ بن کر گناہ پر گناہ کیے جارہے ہو وہ دولت اور طاقت چند روزہ ہے۔ ایک خاص وقت معین تک کے لئے ہے، اور جب وہ معین وقت آجائے گا تو پھر ایک لمحہ کی بھی مزید مہلت نہیں ملے گی۔ یہ اصول ہر فرد کے ساتھ بھی ہے اور ہر قوم کے ساتھ بھی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مکہ کے مشرک بیت اللہ کا برہنہ طواف کرتے تھے اس سے منع کرتے ہوئے تمام انسانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بیت اللہ اور مساجد میں ننگا آنے کی بجائے لباس پہنا کریں۔ مشرک اور بےدین لوگوں کی زمانہ قدیم سے عادت رہی ہے کہ وہ ننگے ہو کر عبادت کرنے کو ترک دنیا اور لِلّھیت تصور کرتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ تو سراپا برہنہ ہوتے اور کچھ صرف لنگوٹی کا ستعمال کرتے ہیں جس طرح کہ ہندوستان کے سب سے بڑے لیڈر مہاتما گاندھی اکثر لنگوٹی پہنا کرتے تھے اور آج بھی کئی پنڈت اور گوتم بدھ کے ماننے والے اپنی شرم گاہ کو ڈھانپنے کے سوا ننگا رہنا رہبانیت کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں میں صوفی لوگ برہنہ تو نہیں ہوتے تاہم ناقص اور گندا لباس پہننے کو نیکی تصور کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے مزارات پر نیم برہنہ لوگ سرعام پھرتے دکھائی دیتے ہیں اسلام نے نہ صرف تارک الدنیا ہونے کی مذمت کی ہے بلکہ دین اسلام نے بلاشرعی عذر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھانے کو گناہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح وسائل ہونے کے باوجود جو شخص مناسب لباس نہیں پہنتا شریعت نے اسے بھی پسند نہیں کیا۔ کیونکہ جہالت کی بنیاد پر لوگ بیت اللہ اور عبادت گاہوں میں برہنہ آتے تھے اس لیے بالخصوص حکم دیا ہے کہ جب بھی مسجد میں آؤ تو پاک جسم اور اچھا لباس پہنا کرو اس سے پہلے ” القسط “ کا حکم دیا گیا تھا جس کا معنیٰ افراط وتفریط سے بچنا اور ہر معاملہ میں عدل و انصاف اور توازن قائم رکھنا ہے لہذا عبادات، ملبوسات، اور کھانے پینے میں بھی اعتدال اور توازن ہونا چاہیے اس لیے ہر قسم کے اسراف سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ صفت بھی بیان کی ہے وہ خرچ کرتے ہوئے نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ ہی بخل کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ (فرقان : ٦٧) (عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی ثَوْبٍ دُونٍ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلَکَ مَالٌ قَالَ نَعَمْ مِنْ کُلِّ الْمَالِ قَالَ مِنْ أَیِّ الْمَالِ قَالَ قَدْ آتَانِی اللّٰہُ مِنْ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ وَالْخَیْلِ وَالرَّقِیقِ قَالَ فَإِذَا آتَاک اللّٰہُ مَالًا فَلْیُرَ عَلَیْکَ أَثَرُ نِعْمَۃِ اللّٰہِ وَکَرَامَتِہٖ )[ رواہ النسائی : کتاب الزینۃ، باب الجلاجل ] ” حضرت ابو الاحوص اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ بلاشبہ وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بالکل معمولی کپڑوں میں آئے تو انھیں اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہارے پاس مال ہے انھوں نے کہا ہاں ہر طرح کا مال ہے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کون کون سا ؟ میرے والد نے کہا اللہ نے اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام اور لونڈیاں بھی دی ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال دیا ہے تو تم پر اس کی نعمت اور فضل کے آثار بھی دیکھے جانے چاہییں۔ “ (عَنْ عُمَرَ بْنَ أَبِی سَلَمَۃَ (رض) یَقُولُ کُنْتُ غُلَامًا فِی حَجْرِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَکَانَتْ یَدِی تَطِیشُ فِی الصَّحْفَۃِ فَقَالَ لِی رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا غُلَامُ سَمِّ اللّٰہَ وَکُلْ بِیَمِینِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیکَ فَمَا زَالَتْ تِلْکَ طِعْمَتِی بَعْدُ ) [ رواہ البخاری، کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام ] ” حضرت عمر بن ابو سلمہ (رض) کہتے ہیں میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں گود میں بچہ تھا اور میرا ہاتھ کھانے کے دوران برتن میں گھوم رہا تھا مجھے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بچے کھانا اللہ کے نام سے شروع کرو۔ دائیں ہاتھ اور اپنے آگے سے کھاؤ اس کے بعد میں ہمیشہ کھانا اسی طرح کھاتا ہوں۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا أَکَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیَذْکُرْ اسْمَ اللّٰہِ تَعَالٰی فَإِنْ نَسِیَ أَنْ یَذْکُرَ اسْمَ اللّٰہِ تَعَالٰی فِی أَوَّلِہٖ فَلْیَقُلْ بِسْمِ اللّٰہِ أَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ ) [ رواہ ابوداؤد والترمذی : کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام ] ” حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی کھانا کھانے لگے تو بسم اللہ پڑھ لے اگر اللہ کا نام لینا بھول جائے تو اسے چاہیے کہ کہے اللہ کے نام سے ہی ابتدا اور انتہا کرتا ہوں۔ “ (عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی کَرِبَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَا مَلَأَ آدَمِیٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُکُلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہُ فَإِنْ کَانَ لَا مَحَالَۃَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہٖ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہٖ وَثُلُثٌ لِنَفَسِہٖ ) [ رواہ احمد والترمذی : کتاب الزھد، باب ماجاء فی کراھیۃ کثرۃ الأکل ] ” حضرت مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا کسی بھی برتن کا بھرنا آدمی کے پیٹ سے بھرنے سے برا نہیں۔ ابن آدم کی کمر کو سیدھا رکھنے کے لیے چند لقمے کافی ہیں اگر اس طرح گزارہ نہ ہو تو ایک حصہ کھانے، ایک حصہ پینے اور ایک حصہ سانس لینے کے لیے ہونا چاہیے۔ “ مسائل ١۔ مساجد میں آتے ہوئے اچھا لباس پہننا چاہیے۔ ٢۔ رہنے سہنے اور کھانے پینے میں اعتدال ہونا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اسراف کو ہرگز پسند نہیں کرتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ٣١ تا ٣٣۔ یہ اسلامی نظریہ حیات کے اساسی عقائد پر تاکید مزید ہے۔ زور اس بات پر دیا جارہا ہے کہ عرب جاہلیت کے مقابلے میں اسلام کی اساس ان امور پر ہے ۔ یہ نظریہ پوری انسانیت کے لئے تجویز کیا گیا ہے اور اسے اس بحث کے ضمن میں لایا گیا ہے جو اس کرہ ارض پوری انسانیت کی تخلیق کے قصے سے متعلق ہے۔ ان حقائق میں سے اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس مخلوق ‘ انسان کے لئے جن چیزوں کو پیدا کیا ہے ‘ اس میں سے بعض چیزوں کو خود بعض انسان حرام قرار دیتے ہیں اور کام بھی وہ اذن الہی کے بغیر کرتے ہیں اور اللہ کے قانون میں سے کسی سند کے بغیر جبکہ ان کا یہ فعل یعنی یہ تحریم وتحلیل ایک شرکیہ فعل ہے ۔ پھر یہ اللہ تعالیٰ پر ایک افتراء بھی ہے اور ان کا ذاتی زعم بھی ۔ چناچہ اللہ ان کو پکارتے ہیں کہ اللہ نے تمہاری زیب وزینت کے لئے جو سامان پیدا کیا ہے اس سے آراستہ رہو۔ عربی میں اسے ” ریش “ کہتے ہیں خصوصا عبادت کے وقت اور عبادات میں طواف بھی شامل ہے ‘ جسے وہ برہنہ حالت میں ادا کرتے تھے ۔ وہ ایسے لباسوں کو حرام قرار دیتے تھے جنہیں اللہ نے حرام قرار نہیں دیا بلکہ وہ بندوں کے لئے انعام واکرام تھا ۔ لہذا ان کے لئے بہتر ہے کہ وہ اللہ کے فراہم کردہ زیب وزینت میں اس کی عبادت کریں ‘ نہ کہ ننگے ہو کر اور نہ ہی فحاشی کرتے ہوئے ۔ آیت ” یَا بَنِیْ آدَمَ خُذُواْ زِیْنَتَکُمْ “۔ (٧ : ٣١) ” اے بنی آدم ‘ ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو۔ “ اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ پوری انسانیت کو یہ بھی حکم دیتے ہیں کہ یہاں پاکیزہ چیزوں کو استعمال کرو اور کھانے پینے کی قسم کی تمام چیزوں کو کام میں لاؤ ۔ لیکن اسراف نہ کرو ‘ اور دوسرے یہ کہ پاکیزہ چیزیں استعمال میں لاؤ ۔ آیت ” وکُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (31) ” اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو ‘ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ “ احادیت میں وارد ہے کہ جس طرح وہ لوگ بعض اوقات لباس کو حرام قرار دیتے تھے ‘ اسی طرح وہ بعض کپڑوں کو پہننا بھی حرام سمجھتے تھے ۔ اور یہ باتیں قریش نے اپنی طرف سے گھڑ لی تھیں ۔ صحیح مسلم مٰن ہشام ابن عروہ کی روایت ہے کہ عرب بیت اللہ کا طواف عریانی کی حالت میں کرتے تھے ماسوائے قریش اور ان کی اولاد کے ۔ یہ لوگ ننگے ہو کر طواف کرتے تھے ‘ الا یہ کہ قریش انہیں کپڑے دیں ۔ چناچہ قریش کے مرد مردوں کو کپڑے دیتے تھے اور عورتیں عورتوں کو ‘ نیز قریش مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے تھے جبکہ دوسرے لوگ عرفات تک جاتے تھے ۔ قریش یہ کہتے تھے کہ ہم حرم والے ہیں اس لئے کسی عرب کو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ہمارے کپڑوں کے سوا کسی اور کپڑے میں طواف کرے ۔ اسی طرح جب کوئی عرب حرم میں داخل ہو تو وہ سرف اہل قریش کا کھانا کھا سکتا ہے اس لئے کہ اگر کسی عرب کا مکہ میں دوست نہ ہوتا جو اسے کپڑے عاریتا دے سکتا ‘ اور یا اگر اسے یہ سہولت حاصل نہ ہوتی کہ وہ کرایہ کے کپڑے خرید سکتا تو اس کے لئے دو راستے کھلے ہوئے تھے ‘ ایک یہ کہ وہ عریانی کی حالت میں طواف کرے اور یا کپڑوں میں طواف کرکے کپڑے پھینک دے ۔ ایسے کپڑوں کو لقی کہا جاتا تھا اور پھر انہیں کوئی بھی ہاتھ نہ لگاتا ۔ “ قرطبی ‘ احکام القرآن میں لکھتے ہیں : کہا جاتا ہے کہ عرب ایمان حج میں مرغن غذا نہ کھاتے تھے اور تھوڑا بہت کھاتے تھے اور برہنہ حالت میں طواف کرتے تھے ۔ انہیں کہا گیا ” ہر عبادت کے وقت اپنے آپ کو زینت سے آراستہ کرو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ “ یعنی جو چیزیں تم پر حرام نہیں قرار دی گئی ہیں ان کو حرام کرنے میں اسراف نہ کرو۔ اس لئے کہ اسراف کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنا اور حد سے تجاوز یہ بھی ہے کہ حلال چیزوں کو حرام قرار دیا جائے ۔ جائز کرنے میں حدود توڑنا اور حرام کرنے میں حدود سے آگے بڑھنا دونوں تجاوزات میں آتے ہیں۔ یہاں قرآن کریم صرف اس بات پر اکتفاء نہیں کرتا کہ ہر عبادت گاہ میں صرف لباس زیب تن کر کے جاؤ اور اللہ کے پیدا کردہ پاکیزہ رزق سے فائدہ اٹھاؤ اور کھاؤ پیو ‘ بلکہ بطور استکار ان لوگوں سے پوچھتا ہے کہ اللہ نے لوگوں کے لئے زیب وزینت کی جو چیزیں پیدا کی ہیں انہیں کس نے حرام قرار دیا ہے اور جو پاکیزہ خوراک پیدا کی ہے اسے کس نے حرام قرار دیا ہے ۔ اس لئے کہ لوگوں کی جانب سے از خود رزق کو حلال قرار دینا اور اپنے اوپر زیب وزینت کو حرام قرار دینا کس کے اذن سے ہے ‘ کیونکہ حلال و حرام کا تعین من جانب شارع ہوتا ہے ۔ آیت ” قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّہِ الَّتِیَ أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالْطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ “۔ (٧ : ٣٢) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کردیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کیلئے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں ؟ “ اس تنبیہ آمیز سوال کے بعد یہ قرار دیا جاتا ہے کہ یہ لباس اور یہ پاکیزہ رزق اہل ایمان کا حق ہے ‘ اس لئے کہ وہ مومن ہیں اور وہ اس رب پر ایمان لانے والے ہیں جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے ‘ اگرچہ ان چیزوں میں غیر مومن اس دنیا کی حد تک انکے ساتھ شریک ہیں لیکن قیامت میں اور اگلے جہاں میں تو یہ چیزیں خالصتا مومنین کے لئے ہیں اور وہاں کفار کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ آیت ” قُلْ ہِیْ لِلَّذِیْنَ آمَنُواْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ “ (٧ : ٣٢) ” کہو ‘ یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لئے ہیں ‘ اور قیامت کے روز تو خالصتا انہیں کے لئے ہوں گی ۔ “ اس لئے اگر صورت حال یہ ہے تو یہ حرام کیسے ہوسکتی ہیں ؟ ایک چیز قیامت میں تو مسلمانوں کے لئے خاص ہو اور یہاں پر حرام ہو ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بےحیائی کی مذمت، اور طواف و نماز کے وقت ستر عورت کا خصوصی حکم مشرکین عرب طرح طرح کے شرکیہ عقائد و افعال اور بےشرمی کے اعمال میں مبتلا تھے ان کی یہ بےشرمی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ کعبہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کرتے تھے۔ مرد بھی ننگے اور عورتیں بھی ننگی۔ البتہ عورتیں یہ کرتی تھیں کہ اپنی شرم کی جگہ پر چھوٹا سا چیتھڑا لپیٹ لیتی تھیں اور طواف کرتے یوں کہتی ہوئی جاتی تھیں۔ الیوم یبدو بعضہ او کلہ وما بدا منہ لا احلہ۔ ان کی اس حرکت سے منع کرنے کے لیے آیت کریمہ (خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ) اور اس کے بعد والی آیت (قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ ) نازل ہوئی۔ (رواہ مسلم عن ابن عباس) علامہ ابوبکر جصاص (رح) نے احکام القرآن ص ٢١ ج ٣ میں لکھا ہے کہ یہ لوگ اپنے اس خیال خام میں مبتلا تھے کہ جن کپڑوں میں گناہ کیے ہیں ان میں طواف کرنا صحیح نہیں اور بعض حضرات نے بتایا کہ یہ لوگ تفاؤلاً ایسے کرتے تھے کہ جیسے ہم کپڑوں سے ننگے ہوگئے اسی طرح سے ہمارے اوپر کوئی گناہ بھی باقی نہیں رہا۔ (شیطان اپنے لوگوں کو کیسی پٹی پڑھاتا ہے) اسباب النزول للواحدی ص ٢٢٢ میں ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے نقل کیا ہے کہ اہل عرب نے اپنے دین میں یہ بات نکال رکھی تھی کہ منیٰ سے واپس ہو کر جب طواف کرتے تھے تو دونوں کپڑے اتار کر رکھ دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے آیت شریفہ (یَابَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ) سے (لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ) تک نازل فرمائی۔ لفظ (خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ) کا عموم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طواف کے لیے مسجد میں جائیں (جو صرف مسجد حرام میں ہوتا ہے) یا نماز کے لیے جائیں (خواہ کسی بھی مسجد میں پڑھیں) تو لباس پہن کر جائیں۔ ستر عورت جس کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں اس کا اہتمام کرنا تو فرض ہی ہے (خواہ گھر میں نماز پڑھے) لیکن ستر عورت سے زیادہ جو لباس زینت کے لیے پہنا جاتا ہے اس کا بھی اہتمام کرنا چاہئے۔ لباس زینت کا حکم : میلے کچیلے بد بو دار کپڑے پہن کر نماز پڑھنے لگے تو یہ نماز کی شان کے خلاف ہے اس لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ جو کپڑے پہن کر بازار میں اور احباب و اصحاب میں جانے سے دل منقبض ہوتا ہو اور نفس اپنی بےآبروئی محسوس کرتا ہو ایسے کپڑوں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ ستر عورت بھی ہو اور نظافت بھی ہو مرغوب لباس ہو (جو خلاف شروع نہ ہو) ایسے لباس میں نماز پڑھیں۔ لفظ زِیْنَتَکُمْ میں ان سب امور کی طرف اشارہ ہے۔ فضول خرچی کی ممانعت : پھر فرمایا (وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ ) (اور کھاؤ اور پیو اور حد سے آگے نہ بڑھو۔ بیشک اللہ تعالیٰ حد سے آگے بڑھ جانے والوں کو پسند نہیں فرماتا) حد سے آگے بڑھنے میں فضول خرچی، خلاف شرع لباس پہننا، حرام چیزیں کھانا اور استعمال کرنا سب داخل ہے چونکہ مشرکین طواف کرتے وقت ننگے ہو کر طواف کرتے تھے اور اس وقت کپڑے پہننے کو گناہ سمجھتے تھے نیز انہوں نے اور بھی بہت سی چیزیں اپنے اوپر حرام کر رکھی تھیں جن کی کچھ تفصیل سورة انعام میں گزر چکی ہے اس لیے ان کی تردید فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ جو زینت اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا فرمائی (جس میں لباس بھی شامل ہے) اور اس کے علاوہ کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں پیدا فرمائیں ان کو کس نے حرام قرار دیا ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کو حلال قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کو تحلیل و تحریم کا اختیار ہے تم نے اپنی طرف سے تحریم کر کے اللہ کے قانون میں جو دخل دیا ہے یہ گمراہی کا کام ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:“ زینة ” سے لباس مراد ہے۔ “ مسجد ” سے مراد وقت سجدہ ہے یعنی ہر نماز کے وقت لباس ساتر عورت پہنو یا “ مسجد ” سے جائے سجدہ مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہر مسجد میں ہر قسم کی عبادت طواف، نماز وغیرہ کے وقت لباس زیب تن کرو اور اپنی طرف سے تحری میں نہ کرو کیونکہ یہ شرک ہے ایسی خود ساختہ تحریمات کو ختم کردو۔ “ وَلَا تُسْرِفُوْا اي لا تشرکوا ”۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

31 اے آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہر مسجد کی حاضری کے وقت خواہ وہ عام مساجد ہوں یا کعبۂ مقدس ہو اپنی زینت کا لباس پہن لیا کرو اور برہنہ ہوکر کعبہ کا طواف نہ کیا کرو اور کھانا پینا ترک نہ کیا کرو جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں کرتے رہے ہو بلکہ کھائو اور پیو اور خدا کی نعمتوں سے فادئہ اٹھائو البتہ اسراف نہ کرو اور حد سے تجاوز نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مقررہ حدود سے بڑھ جانے والوں کو پسند نہیں فرماتا یعنی ایام حج میں برہنہ رہنا یا کھانے پینے میں کمی کردینا یہ سب امور جاہلیت ہیں جس طرح ہمیشہ کھاتے پیتے ہو اسی طرح کھایا کرو اور لباس پہنا کرو اور جو سامان زینت و آرائش حق تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اس کو استعمال کرتے ہوئے حج کیا کرو البتہ اسراف نہ کرو کہ ضرورت سے زیادہ کھا جائو۔ یا حلال کو نظر انداز کردو اور حرام کا استعمال کرنے لگو یہ اور اسی قسم کے دوسرے امور اسراف ہیں۔