Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 34

سورة الأعراف

وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ لَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ ﴿۳۴﴾

And for every nation is a [specified] term. So when their time has come, they will not remain behind an hour, nor will they precede [it].

اور ہر گروہ کے لئے ایک میعا د معین ہے سو جس وقت انکی میعاد معین آجائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said, وَلِكُلِّ أُمَّةٍ ... And every Ummah has, meaning, each generation and nation, ... أَجَلٌ فَإِذَا جَاء أَجَلُهُمْ ... its appointed term; when their term comes, which they were destined for, ... لااَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلااَ يَسْتَقْدِمُونَ neither can they delay it nor can they advance it an hour (or a moment).

موت کی ساعت طے شدہ ہے ۔ اور اٹل ہے ہر زمانے اور ہر زمانے والوں کے لئے اللہ کی طرف سے انتہائی مدت مقرر ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی ۔ ناممکن ہے کہ اس سے ایک منٹ کی تاخیر ہو یا ایک لمحے کی جلدی ہو ۔ انسانوں کو ڈراتا ہے کہ جب وہ رسولوں سے ڈرانا اور رغبت دلانا سنیں تو بدکاریوں کو ترک کر دیں اور اللہ کی اطاعت کی طرف جھک جائیں ۔ جب وہ یہ کریں گے تو وہ ہر کھٹکے ، ہر ڈر سے ، ہر خوف اور ناامیدی سے محفوظ ہو جائیں گے اور اگر اس کے خلاف کیا نہ دل سے مانا نہ عمل کیا تو وہ دوزخ میں جائیں گے اور وہیں پڑے جھلستے رہیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 میعاد معین سے مراد وہ مہلت عمل ہے جو اللہ و تبارک و تعالیٰ ہر گروہ کو آزمانے کے لئے عطا فرماتا ہے کہ وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی بغاوت و سرکشی میں مزید اضافہ ہوتا ہے یہ مہلت بعض دفعہ ان کی پوری زندگیوں تک محدود ہوتی ہے۔ یعنی دینوی زندگی میں وہ گرفت نہیں فرماتا بلکہ صرف آخرت میں ہی سزا دے گا ان کی اجل مسمی قیامت کا دن ہی ہے اور جن کو دنیا میں وہ عذاب سے دوچار کردیتا ہے، ان کی اجل مسمٰی وہ ہے۔ جب ان کا مواخذہ فرماتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] عذاب کے وقت میں تقدیم و تاخیر ناممکن ہے :۔ اس آیت میں تقدیم کا لفظ تاخیر ہی کی تاکید کے لیے لایا گیا ہے اجل جب آگئی تو تقدیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے کوئی گاہک دکاندار سے کسی چیز کی قیمت پوچھنے کے بعد کہتا ہے کوئی کمی بیشی ؟ تو دکاندار کہتا ہے قیمت میں نے پہلے ہی ٹھیک بتلائی ہے کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ حالانکہ اس گفتگو میں گاہک اور دکاندار دونوں کا کمی بیشی کے لفظ سے مراد صرف کمی ہوتا ہے بیشی نہیں ہوتا اسی طرح یہاں بھی یہی مراد ہے کہ جب کسی شخص کی موت یا کسی قوم کے خاتمہ کا وقت آجاتا ہے تو پھر اس میں قطعاً تاخیر نہیں ہوسکتی۔ قوم کی اجل کا وقت آتا کب ہے ؟ اس کے لیے اللہ نے ایک ضابطہ مقرر کر رکھا ہے یعنی ہر قوم کے عروج وزوال کا ایک ضابطہ ہے جیسا کہ اقبال نے کہا ہے میں تجھ کو بتاتا ہوں کہ تقدیر امم کیا ہے۔۔ شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ جب کسی قوم (کے گناہوں) کا ڈول بھر جاتا ہے تو یہی وقت اس کی تباہی کا وقت ہوتا ہے اور اس کا تعلق مدت یا عرصے سے نہیں بلکہ فساد فی الارض اور گناہوں کی رفتار پر ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ ۚ ۔۔ : پہلی آیت میں بیان فرمایا کہ ہر ایک کے لیے ایک وقت مقرر ہے جو آگے پیچھے نہیں ہوسکتا، دوسری آیت میں بتایا کہ جو لوگ فرماں بردار ہوں گے مرنے کے بعد ان پر کسی قسم کا خوف اور حزن نہیں ہوگا، مگر جو سرکش ہوں گے وہ سخت عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ اسی قسم کا خطاب سورة بقرہ میں آدم (علیہ السلام) کے قصے کے آخر میں بھی مذکور ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٣٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The first and the second verse both mentioned two crimes commit¬ted by disbelievers. They took Halal as Haram and made the Haram become Halal for themselves by themselves. The third verse (34) describes their sad end and the punishment they would have in the Hereafter. It was said: وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُ‌ونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ (And for every people there is an appointed time. So, when their appointed time comes, they will not be late for a mo¬ment, nor will they go before). In other words, what is being said here is that those committing ex¬cesses who, despite their contumacy, are basking in the sunshine of the blessings of Allah Ta` ala, and do not seem to be anywhere close to being punished, they should not lose sight of the customary practice of Allah that He, in His infinite mercy, keeps granting a long leash to sinners so that they would somehow stop doing what they do. But, the term of this leash and the time of this respite stands determined in the ultimate knowledge of Allah Ta` ala. When that time comes, it just comes - neither too late nor too soon. Thus, criminals are caught in punishment. At times, the punishment descends right here in this world - and if, the punishment does not visit them here, it waits to re¬ceive them soon after their death. As for the appointed time not being late or early as stated in this verse, it is a manner of saying, something like saying to a salesperson in a store: at is your last price, more or less? It is obvious that the inquiry is for the lower price, not the higher. But, it is put there as a subordinate suffix. Similarly, the real objective here is to state that there will be no delay after the appointed time. The mention of ` before& along with ` late& makes it closer to common comprehension.

پہلی اور دوسری دونوں آیتوں میں مشرکین و مجرمین کے دو غلط کاموں کا ذکر تھا، ایک حلال کو حرام ٹھہرانا دوسرے حرام کو حلال قرار دینا، تیسری آیت میں ان کے انجام بد اور آخرت کی سزا و عذاب کا بیان ہے، ارشاد فرمایا (آیت) وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ یعنی یہ مجرمین جو ہر طرح کی سرکشی کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں پل رہے ہیں، اور دنیا میں بظاہر ان پر کوئی عذاب آتا نظر نہیں آتا اس عادة اللہ سے غافل نہ رہیں کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کو اپنی رحمت سے ڈھیل دیتے رہتے ہیں، کہ کسی طرح یہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے علم میں اس ڈھیل اور مہلت کی ایک میعاد معین ہوتی ہے، جب وہ میعاد آپہنچتی ہے تو ایک گھڑی بھی آگے پیچھے نہیں ہوتی، اور یہ عذاب میں پکڑ لئے جاتے ہیں، کبھی دنیا ہی میں کوئی عذاب آجاتا ہے اور اگر دنیا میں عذاب نہ آیا تو مرتے ہی عذاب میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس آیت میں میعاد معیّن سے آگے پیچھے نہ ہونے کا جو ذکر ہے یہ ایسا ہی محاورہ ہے جیسے ہمارے عرف میں خریدار ودکاندار سے کہتا ہے کہ قیمت میں کچھ کمی زیادتی ہو سکتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ قیمت کی زیادتی اس کو مطلوب نہیں صرف کمی کو پوچھتا ہے، مگر تبعاً اس کے ساتھ زیادتی کا ذکر کیا جاتا ہے، اسی طرح یہاں اصل مقصد تو یہ ہے کہ میعاد معیّن کے بعد تاخیر نہیں ہوگی، اور تقدیم کا ذکر تاخیر کے ساتھ بطور محاورہ عوام کے کردیا گیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۝ ٠ ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَ۝ ٣٥ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس قصص الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] ( ق ص ص ) القص کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ صلح والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] ( ص ل ح ) الصلاح اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٤) ہر ایک اہل دین کی ہلاکت وتباہی کا ایک وقت آنے پر نہ آنکھ جھپکنے کے بقدر ان کو چھوڑا جائے گا اور نہ وقت آنے سے پہلے بقدر آنکھ جھپکنے کے ان کو ہلاک کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ (وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ج) ۔ یعنی جب بھی کبھی کسی قوم کی طرف کوئی رسول آتا ‘ تو ایک مقررہ مدت تک اس قوم کو مہلت میسرہوتی کہ وہ اس مدت مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے رسول ( علیہ السلام) کی دعوت پر لبیک کہے اور صحیح راستے پر آجائے۔ اس مقررہ مدت کے دوران اس قوم کی نافرمانیوں کو نظر انداز کیا جاتا اور ان پر عذاب نہیں آتا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد مکہ میں بھی یہی معاملہ درپیش تھا۔ اہل مکہ کو مشیت خداوندی کے تحت مہلت دی جا رہی تھی۔ دوسری طرف حق و باطل کی تھکا دینے والی کشمکش میں اہل ایمان کی خواہش تھی کہ کفار کا فیصلہ جلد از جلد چکا دیا جائے۔ اہل ایمان کے ذہنوں میں لازماً یہ سوال بار بار آتا تھا کہ آخر کفار کو اس قدر ڈھیل کیوں دی جا رہی ہے ! اس پس منظر میں اس فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ اہل ایمان کا خیال اپنی جگہ درست سہی ‘ لیکن ہماری حکمت کا تقاضا کچھ اور ہے۔ ہم نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا ہے تو ساتھ ہی اس قوم کے لیے مہلت کی ایک خاص مدت بھی مقرر کی ہے۔ اس مقررہ گھڑی سے پہلے ان پر عذاب نہیں آئے گا۔ ہاں جب وہ گھڑی (اجل) آجائے گی تو پھر ہمارا فیصلہ مؤخر نہیں ہوگا۔ سورة الانعام کی آیت ٥٨ میں اسی حوالے سے فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کفار پر واضح کردیں کہ اگر میرے اختیار میں وہ چیز ہوتی جس کی تم لوگ جلدی مچا رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان یہ فیصلہ کب کا چکایا جاچکا ہوتا۔ (فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلاَ یَسْتَقْدِمُوْنَ ) ۔ اب وہ بات آرہی ہے جو ہم سورة البقرۃ میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ وہاں آدم (علیہ السلام) کو زمین پر بھیجتے ہوئے فرمایا گیا تھا : (فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ ) ۔ اسی بات کو یہاں ایک دوسرے انداز سے بیان کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27. The expression 'fixed term' used in the verse should not give rise to the misconception that the term of a nation expires on a definite day, month or year. What the statement really means is that God has laid down a minimum proportion between the good and evil deeds of a nation. As long as that nation is able to maintain that minimum proportion, its existence is tolerated in order that it might be able to show its performance. Once a nation crosses that minimum limit, it is denied any further respite. (For further explication of this point see Nuh 71: 4-10 and 12.)

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :27 مہلت کی مدت مقرر کیے جانے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ہر قوم کے لیے برسوں اور مہینوں اور دنوں کے لحاظ سے ایک عمر مقرر کی جاتی ہو اور اس عمر کے تمام ہوتے ہی اس قوم کو لازماً ختم کر دیا جاتا ہو ۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر قوم کو دنیا میں کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اس کی ایک اخلاقی حد مقرر کردی جاتی ہے ، بایں معنی کہ اس کے اعمال میں خیر اور شر کا کم سے کم کتنا تناسُب برداشت کیا جاسکتا ہے ۔ جب تک ایک قوم کی بری صفات اس کی اچھی صفات کے مقابلہ میں تناسُب کی اس آخری حد سے فروتر رہتی ہیں اس وقت تک اسے اس کی تمام برائیوں کے باوجود مہلت دی جاتی رہتی ہے ، اور جب وہ اس حد سے گزر جاتی ہیں تو پھر اس بدکار و بدصفات قوم کو مزید کوئی مہلت نہیں دی جاتی ، اس بات کو سمجھنے کے لیے سورہ نوح علیہ السلام آیات٤ ۔ ١۰ ۔ ١۲ نگاہ میں رہیں

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(34 ۔ 36) ۔ اہل مکہ عذاب کی جو جلدی کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا ہر کام کا وقت اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقرر ہے وقت مقررہ پر اگر اللہ کو منظور ہوگا تو عذاب آوے گا غرض عذاب کے وقت ایسا ہی مقرر ہے جس طرح سب کی آنکھوں کے سامنے ہر ایک شخص کے لئے ہر زمانہ میں موت کا ایک وقت مقرر ہے اس سے ایک ساعت کوئی آگے پیچھے نہیں ہوتا وعدہ کم نہ زیادہ جمہور کا یہی مذہب ہے کہ انسان کی عمر گھٹتی بڑھتی نہیں خواہ قتل کر ڈالنے سے مرا ہو یا ڈوبنے جلنے وغیرہ سے ہر ایک اپنی موت سے مرتا ہے عمر کی کمی بیشی کے باب میں سلف کے مابین ایک بڑی بحث ہے۔ حاصل یہ ہے کہ صحیح حبان اور مستدرک حاکم میں ثوبان (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ نیکی کرنے سے آدمی کی عمر بڑھ جاتی ہے اس سے اور اس قسم کی اور حدیثوں سے ان صحابہ کے قول کی بڑی تائید ہوتی ہے جو دنیا عالم اسباب میں بعضے سببوں کو عمر کے گھٹنے بڑھنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں زیادہ تفصیل اس مسئلہ کی سورة (رعد میں آوے گی حاکم نے ثوبان (رض) کی اس حدیث کو صحیح کہا ہے موت کے ذکر کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمارے رسول تم میں سے تمہارے پاس ہماری آیتیں لاکر بیان کریں گے سو جو کوئی پرہیز گاری اختیار کرے گا اور رسولوں کی فرمانبرداری کر کے اپنے حال کو سنواریگا اور مناہی کی چیزوں سے بچا رہیگا اس کی قیامت کے روز کچھ خوف وغم نہ ہوگا اور جو ہماری آیتوں اور رسولوں کو جھٹلاویگا اور تکبر سے ان پر عمل نہ کرے گا وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں لوگوں کو کو لیاں بھر بھر کے ان کو آگ میں گرنے سے بچانا چاہتا ہوں لیکن لوگ آگ میں گرنے کی ایسی جرأت کرتے ہیں جس طرح کیڑے پتنگے روشنی پر گرنے کی جرأت کرتے ہیں یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے حاصل مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے قرآن کی نصیحت کو مان کر کچھ عقبے کا سامان کرلیا وہ رسول اللہ کی کوشش سے قیامت کے دن آگ میں گرنے سے بچیں گے اور جو لوگ قرآن کی نصیحت سے غافل ہیں وہ قیامت کے دن دوزخ کی آگ میں اس طرح جاپڑیں گے جس طرح روشنی پر کیڑے پتنگے گرتے ہیں :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:34) اجل۔ مدت مقررہ۔ مقررہ وقت۔ (عذاب کے نازل ہونے کا) ۔ موت کو اجل کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس کا وقت بھی مقرر ہے۔ لایستاخرون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب (باب استفعال) وہ دیر نہیں کرسکتے۔ وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ لا یستقدمون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ وہ پہلے نہیں ہوسکتے (باب استفعال)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ اس میعاد کے قبل سزانہ ہونا اس کی دلیل نہیں کہ ان محرمات پر سزا نہ ہوگی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بےحیائی کا ارتکاب، جان بوجھ کر گناہ کرنا، اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور شریعت کے نام پر اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹ لگانے والوں کو انتباہ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر ذی روح اور چیز کی موت اور فنا کا وقت مقرر کر رکھا ہے جب وقت آئے گا تو اس میں لمحہ بھر تقدیم و تاخیر نہیں ہوگی۔ یہی اصول قوموں اور امتوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے جب کسی قوم کے زوال اور تباہی کا وقت آتا ہے تو پھر اس کے اڑوس پڑوس کی اقوام اور خیر خواہ اسے ہرگز نہیں بچا سکتے۔ افراد اوراقوام کی اجل یعنی موت میں فرق یہ ہے کہ افراد کی عمر اور مدت کے لیے سال، مہینے، ایام اور لمحے مقرر کیے گئے ہیں اور لوگ انھی کو شمار کرتے ہیں جب یہ مدت پوری ہوجائے تو انسان لقمۂ اجل بن جاتا ہے۔ عام طور پر قوموں اور امتوں کا معاملہ اس سے قدرے مختلف ہوتا ہے ان کی موت، ایمان، اخلاق اور کردار کے حوالے سے واقع ہوتی ہے۔ بدکردار اور بےعمل قوم کی جگہ دوسری قوم لے لیتی ہے۔ بسا اوقات اللہ تعالیٰ اپنے غضب سے پوری کی پوری قوم کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ جس طرح قوم نوح، عاد، ثمود اور قوم لوط کے واقعات اس کی دلیل ہیں۔ تاہم جب کوئی قوم یا علاقے کے افراد برائی کے اس درجے کو پہنچ جائیں جس سے اس خطے کا نظام بگڑنے کے قریب پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کی جگہ دوسری قوم کو مسلط کردیتا ہے۔ اس حقیقت کو سورة البقرۃ، آیت ٢٥١ اور ٢٥٢ میں بیان کرتے ہوئے ظالم قوم کی تبدیلی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی قدرت کی نشانی قرار دیا ہے اور سورة محمد میں فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ کے احکام سے منہ پھیروگے تو وہ تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا جو تم جیسے نہیں ہوں گے۔ یہاں قوموں کے زوال اور ان کی تباہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اجل اور ساعت کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اجل سے مراد موت کا فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں قوم کی موت یا زوال کی گھڑی متعین ہے۔ جب وہ گھڑی اپنے وقت کو پہنچ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہوجاتا ہے جس کے صدور میں لشکر وسپاہ، قوم کی شان و شکوہ، مادی اور عسکری وسائل رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ اسی حقیقت کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ جب کسی امت کی مقررہ گھڑی آجاتی ہے تو اس میں لمحہ بھر کے لیے آگا پیچھا نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہی فرد کی موت کا معاملہ ہے جب موت کا وقت آن پہنچے تو ولی کی ولایت، صابر کا صبر موت کو ٹال نہیں سکتا۔ (یونس : ٤٩) موت کا نقشہ : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ خَطَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ ، وَخَطَّ خُطُطًا صِغَارًا إِلَی ہَذَا الَّذِی فِی الْوَسَطِ ، مِنْ جَانِبِہِ الَّذِی فِی الْوَسَطِ وَقَالَ ہَذَا الإِنْسَانُ ، وَہَذَا أَجَلُہُ مُحِیطٌ بِہِ أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِہِ وَہَذَا الَّذِی ہُوَ خَارِجٌ أَمَلُہُ ، وَہَذِہِ الْخُطُطُ الصِّغَارُ الأَعْرَاضُ ، فَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا، وَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا )[ رواہ البخاری : باب فِی الأَمَلِ وَطُولِہِ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مربع کی صورت بنائی اور اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو مربع سے باہر نکل رہا تھا اور کچھ چھوٹے چھوٹے خط اس کے دائیں بائیں کھینچے درمیان والی لکیر پر انگلی رکھ کر فرمایا یہ انسان ہے اور اس کو چاروں طرف سے اجل گھیرے ہوئے ہے۔ باہر نکلنے والا خط اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خط اس کی خواہشات ہیں ایک خواہش ختم ہوتی ہے تو دوسری آ گھیرتی ہے۔ “ مسائل ١۔ امتوں کے عروج وزوال فنا اور بقا کا وقت مقرر ہے۔ ٢۔ قوم اور کسی فرد کی تقدیر کے فیصلے کا وقت آتا ہے تو اس میں لمحہ بھر کے لییتقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز کا وقت مقرر ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا وقت مقرر کیا ہے۔ (الاعراف : ١٨٥) ٢۔ تمام لوگوں کے لیے وقت مقرر ہے۔ (الانعام : ٢) ٣۔ چاند اور سورج کا بھی وقت مقرر ہے۔ (الرعد : ٢) ٤۔ گناہگاروں کو وقت مقررہ تک ڈھیل دی جاتی ہے۔ (النحل : ٦١) ٥۔ زمین و آسمان کے لیے بھی وقت مقرر ہے۔ (الروم : ٨) ٦۔ وقت آنے پر اللہ تعالیٰ کسی کو لمحہ بھر بھی مہلت نہیں دے گا۔ (المنافقون : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ٣٤۔ اسلامی تصورحیات کا یہ ایک اساسی عقیدہ ہے۔ اور قرآن کریم بار بار غافل اور ناشکرے دلووں کے اندر اس کا جگاتا رہتا ہے تاکہ وہ اپنی اس زندگی اور اس کی محدود مہلت کو دائمی نہ سمجھ لیں اور سرکشی اختیار نہ کریں ۔ یہاں اس مہلت سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آج کی نسل انسانی کے لئے طبیعی زندگی کی ایک حد ہے اور اس سے مراد ملت اور تہذیب کی عمر طبیعی بھی ہو سکتی ہے ۔ جس میں اس کے اقتدار اعلی اور دنیا میں اس کی برتری کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ مراد کسی نسل کی عمر طبیعی ہو یا کسی ملت کی عمر طبیعی ہو ‘ بہرحال جب مہلت ختم ہو تو اس کے بعد ان کا زندہ رہنا مقتدر اعلی رہنا ممکن نہیں ہوتا ۔ ۔ یہاں بحث کے خاتمہ سے پہلے ایک عجیب نکتے پر اظہار خیال ضروری ہے۔ سورة انعام اور سورة اعراف میں جاہلیت کے زاوے سے نذر ونیاز ‘ حلال و حرام کے تعین کے مسائل پر قرآن نے جو منہاج بحث اختیار کیا اور مسائل لباس اور خوراک اور کھانوں کے مسائل پر جو بحث کی گئی اس میں ایک عجیب مماثلت پائی جاتی ہے ۔ وہاں ذبیحوں ‘ نذر ونیاز ‘ مویشیوں اور کھانوں پر بحث کا آغاز اس طرح کیا گیا کہ سب سے پہلے اس صورت حالات کو سامنے لایا گیا جو عملا موجود تھی اور کہا گیا کہ یہ اللہ پر افتراء ہے کہ اس صورت حالات کو منجانب اللہ شریعت سے تعبیر کیا جائے ۔ اس کے بعد کہا گیا کہ تم اس پر کوئی دلیل پیش کرو اگر تمہارے اس کوئی سند ہے تو ۔ کہا گیا ۔ آیت ” ام کنتم شھدا اذ وصکم اللہ بھذا “۔ کہ جب اللہ نے یہ شریعت بنائی اور تمہیں تلقین کی کہ اس پر عمل کرو کیا تم خود اس وقت موجود تھے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے کہ وہ جھوٹ بولے اور جھوٹ اس لئے بولے کہ لوگوں کو بغیر علم کے وہ گمراہ کرے ‘ ایسا شخص ظالم ہے اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ اس کے بعد بیان یوں آگے بڑھا کہ کفار نے کہا کہ وہ جو شرک کر رہے ہیں وہ امر الہی کے نتیجے میں ہے ‘ اگر اللہ نہ چاہتا تو ایسا نہ ہوتا آیت ” سیقول الذین اشرکوا۔۔۔۔۔۔۔۔ ) وہ لوگ جنہوں نے شرک کیا ہے وہ یہ کہیں گے کہ اگر اللہ نہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے آباء کرتے اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کرتے ۔ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے بھی جھٹلایا یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا ۔ اے پیغمبر ان سے کہہ دو کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے کہ تم اسے ہمارے لئے نکال لاؤ ‘ تم تو ماسوائے ظن وتخمین کے کسی اور چیز کی پیروی نہیں کر رہے ہو ‘ بلکہ تم اپنی جانب سے باتیں گھڑتے ہو ‘ کہہ دو اللہ ہی کے پاس حجت بالغہ ہے ۔ اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ۔ کہہ دو ‘ لاؤ اپنے گواہوں کو جو یہ شہادت دیں کہ اللہ نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ اے پیغمبر اگر کوئی گواہ یہ شہادت دے بھی تو تم اس کے ساتھ شہادت نہ دو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو برابر قرار دیتے ہیں ۔ اس کے بعد وہاں ان کے ان مزعومات اور مفتریات کو مضحکہ خیز بتایا گیا اور کہا گیا کہ آؤ ‘ ہم تمہیں بتائیں کہ اللہ کی جانب سے کیا حرام ہے ‘ کیونکہ حلال و حرام کا اختیار اللہ کے پاس ہے۔ اور وہی کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دے سکتا ہے ۔ فرمایا آیت ” قل تعالواـ۔۔۔۔۔۔ “۔ کہہ دو آؤ میں تمہیں سناؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیا حرام کیا ہے ؟ یہ کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔ “۔ یہاں بھی اسی منہاج بحث کو اختیار کیا گیا ہے ۔ وہی مدارج بیان یہاں بھی ہیں ۔ پہلے ان کی صورت حالات کو پیش کیا گیا کہ وہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور از خود حلال و حرام کے حدود مقرر کرتے ہیں ‘ خصوصا لباس اور کھانوں کے معاملات میں ۔ پھر انہیں تنبیہ کی گئی کہ وہ فحاشی اور شرک جیسے خطرناک گناہوں میں مبتلا ہیں اور ان کے سامنے یہ حقیقت رکھی گئی کہ شیطان نے جنت میں کس طرح تمہارے باپ کو بےلباس کیا اور پھر یہ کہا گیا کہ لباس ستر اور لباس زینت تمہارے لئے اتارا گیا ہے اور یہ رب کی نعمت ہے ۔ اس کے بعدان کو یہ تنبیہ کی گئی کہ تمہارا یہ دعوی غلط ہے کہ یہ حلال و حرام جس پر تم عمل پیرا ہو یہ اللہ نے مقرر کئے ہوئے ہیں اور اللہ کی شریعت ہیں ۔ آیت ” قل من حرم زینۃ اللہ “۔ ” کہہ دیجئے کہ اللہ نے اپنے بندوں کے لئے جو زینت پیدا کی ہے اسے کس نے حرام قرار دیا ہے ؟ اور پھر پاکیزہ رزق ۔۔۔۔۔ کہہ دیجئے یہ دنیا کی زندگی میں ان لوگوں کے لئے ہیں جو ایمان لائیں ہیں اور قیامت میں تو خالصتا ان کے لئے ہیں ۔ ہم آیات کو مفصل ان لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں جو ایمان لائیں ۔ “ تفصیل آیات میں یقینی علم کی طرف اشارہ ہے اور ان کی پیروی ضروری ہے۔ لوگ عبادات و شریعت کے بارے میں جس ظن وتخمین کی پیروی کرتے ہیں ۔ وہ درست نہیں ہے اور اس سلسلے میں ان کے تمام دعوے غلط ہیں ۔ اس کے بعد آخر میں بتایا جاتا ہے کہ آؤ تمہیں بتائیں اللہ نے کن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے ۔ آیت ” قل انما حرم ربی الفواحش “۔ ” کہہ دیجئے میرے رب نے تو صرف ظاہری اور باطنی فواحش کو حرام قرار دیا ہے ‘ مطلق گناہ ‘ بغیر حق کے دست درازی ‘ اور یہ کہ تم بےدلیل شرک کرو اور اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرو جن کے بارے میں تمہارے پاس علم نہیں ہے ۔ “ ۔ اور جس طرح اللہ نے لباس وطعام کے بارے میں احکام دیئے اسی طرح اس نے عبادت اور اکل وشرب کے بارے میں بھی دیئے ہیں ۔ آیت ” قل امر ربی بالقسط “۔ (٧ : ٢٩) ” کہہ دیجئے میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے اور عبادت کے وقت اپنے چہروں کو درست رکھو ‘ کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو ‘ اللہ اسراف کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتا۔ “۔ ان دونوں مباحث میں مسائل حلال و حرام کا تعلق ایمان اور شرک کے ساتھ جوڑا گیا ہے کیونکہ تحلیل وتحریم کا تعلق مسئلہ اقتدار اعلی سے ہے اور انسانوں میں سے کوئی مقتدر اعلی نہیں ہو سکتا ۔ نیز ان مسائل کا تعلق اس معاملے سے ہے کہ یہاں لوگ کس کی بندگی کریں گے ؟ غرض دونوں مقامات پر مسئلہ بھی ایک ہے اور منہاج بحث بھی ایک ہے اور اس بحث کے لئے جو درجے (Steps) رکھے گئے ہیں وہ بھی وہی ہیں ۔ (صدق اللہ العظیم) اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ یہ قرآن کریم اگر اللہ کی جانب سے نہ ہوتا تو دیکھنے والا دیکھتا کہ اس میں اختلافات ہیں ۔ وحدت منہاج کی اہمیت اس وقت دوچند ہوجاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ سورة انعام اور سورة اعراف کے موضوعات بحث مختلف ہیں ۔ لیکن جاہلیت کے ساتھ جب اسلامی نظام کا مقابلہ ہوتا ہے تو منہاج بحث ایک جیسا ہوجاتا ہے ۔ ‘ خصوصا جبکہ بات اساسی موضوعات و تصورات پر ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہر امت کے لیے ایک اجل مقرر ہے : پھر فرمایا (وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ) (کہ ہر امت کے لیے ایک اجل مقرر ہے) سب ایک مدت مقررہ تک کھاتے پیتے رہیں گے اور جس امت پر عذاب آتا ہے اس کا بھی وقت مقرر ہے۔ قال فی معالم التنزیل ج ٢ ص ١٨٥ مدۃ اکل و شرب و قال ابن عباس وعطاء و الحسن یعنی وقتا لنزول العذاب بھم فاذا جاء اجلھم و انقطع اکلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون ای لا یتقدمون۔ جب ان کی اجل آپہنچے گی تو ذرا بھی دیر موخر نہ ہونگے اور مقدم ہونے کا تو موقع رہا ہی نہیں صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی جب لوگوں نے عذاب کا سوال کیا یعنی یوں کہا کہ اگر آپ اللہ کے سچے رسول ہیں تو اللہ ہم پر عذاب کیوں نہیں بھیجتا اور ہلاک کیوں نہیں کردیتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35: تمام ہلاک شدہ امتوں کی ہلاکت کا وقت مقرر تھا۔ ولکل امۃ من الامم المھلکۃ اجل ای وقت معین مضروب لاستئصالھم کما قال الحسن الخ (روح ج 8 ص 112) ۔ جب ان کی ہلاکت کا وقت آپہنچا انہیں فوراً مبتلائے عذاب کردیا گیا اور ان کی ہلاکت میں مقررہ اجل سے ایک ساعت کی بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوئ۔ “ فَاِذَا جَاءَ اَجَلُھُمْ ” کے بعد “ اِذَا ” کی جزاء محذوف ہے۔ “ اَيْ عُذِّبُوْا لَا یَسْتَاخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ ” ما قبل کی توضیح اور تاکید ہے۔ یا “ وَ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ ” کا عطف “ فَاِذَا جَاءَ ” پر ہے اور “ وَلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ ”“ فَاِذَا ” کی جزا نہیں بلکہ “ جَاءَ اَجَلُھُمْ ” کے مقابل دسری شق ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

34 رہی یہ بات کہ باوجود اور ان کے اس کفر وعناد اور ابتلائے فواحش اور ارتکاب معاصی کے ان منکرین کی گرفت کیوں نہیں آتی اور ان پر عذاب کیوں نہیں نازل ہوتا تو فرمایا ہر گروہ ہر جماعت اور ہر امت اور اس کے افراد کا ایک وقت متعین ہے اور جب وہ میعاد متعین اور وقت مقرر ان کا آجائے گا تو اس وقت نہ گھڑی بھر پیچھے رہ سکیں گے اور نہ گھڑی بھر آگے بڑھ سکیں گے یعنی جو تباہی بربادی یا مرنے کا وقت مقرر ہوچکا ہے اسی وقت یہ ہوگا اس سے پہلے نہیں ہوگا۔