Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 64

سورة الأعراف

فَکَذَّبُوۡہُ فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ فِی الۡفُلۡکِ وَ اَغۡرَقۡنَا الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمًا عَمِیۡنَ ﴿٪۶۴﴾  15

But they denied him, so We saved him and those who were with him in the ship. And We drowned those who denied Our signs. Indeed, they were a blind people.

سو وہ لوگ ان کی تکذ یب ہی کرتےرہے تو ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کو اور ان کو جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے بچا لیا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو ہم نے غرق کر دیا ۔ بیشک وہ لوگ اندھے ہو رہے تھے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَكَذَّبُوهُ ... But they belied him, but they insisted on rejecting and opposing him, and only a few of them believed in him, as Allah stated in another Ayah. Allah said next, ... فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ ... So We saved him and those along with him in the Fulk, (the ark), ... وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِأيَاتِنَا ... And We drowned those who belied Our Ayat. Allah said in another Ayah, مِّمَّا خَطِييَـتِهِمْ أُغْرِقُواْ فَأُدْخِلُواْ نَاراً فَلَمْ يَجِدُواْ لَهُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ أَنصَاراً Because of their sins they were drowned, then they were admitted into the Fire. And they found none to help them instead of Allah. (71:25) Allah said, ... إِنَّهُمْ كَانُواْ قَوْماً عَمِينَ They were indeed a blind people. meaning, blind from the Truth, unable to recognize it or find their way to it. Here, Allah said that He has taken revenge from His enemies and saved His Messenger and those who believed in him, while destroying their disbelieving enemies. Allah said in a another Ayah, إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا Verily, We will indeed make victorious Our Messengers. (40:51) This is Allah's Sunnah (way) with His servants, in this life and the Hereafter, that the good end, victory and triumph is for those who fear Him. For example, Allah destroyed the people of Nuh, and saved Nuh and his believing followers. Ibn Wahb said that he was told that Ibn Abbas said that; eighty men were saved with Nuh in the ship, one of them was Jurhum, who spoke Arabic. Ibn Abi Hatim collected this statement, which was also narrated with a continuous chain of narration from Ibn Abbas.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

64۔ 1 یعنی حق سے حق کو دیکھتے تھے نہ اس کو اپنانے کے لئے تیار تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٧] انبیاء کے قصوں میں تکرار و اختصار کی وجہ :۔ نوح کا قصہ جس اختصار کے ساتھ یہاں بیان کیا گیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اور ان کی قوم میں جو سوال و جواب ہوئے وہ بس دو چار ملاقاتوں میں ہوگئے ہوں گے۔ حالانکہ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی تھی۔ نوح (علیہ السلام) کا قصہ قرآن میں متعدد بار مذکور ہوا ہے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی تفصیل مل جاتی ہے۔ یہ قرآن کا مخصوص انداز بیان ہے کہ جس مقام پر موضوع کی نسبت سے جتنا ذکر درکار تھا اتنا ہی بیان کردیا گیا کیونکہ قرآن کا مقصود محض قصہ گوئی نہیں بلکہ اس وقت جو بات انسانی ہدایت کے لیے اہم ہو صرف اتنی ہی بیان کی جاتی ہے مثلاً یہاں یہ موضوع جاری ہے کہ انبیاء کو ہمیشہ سے جھٹلایا جاتا رہا۔ جھٹلانے والے لوگ قوم کے سردار ہوتے ہیں جو اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے رہتے ہیں بالآخر ان پر اللہ کا عذاب آتا ہے جو انہیں تباہ کر کے رکھ دیتا ہے اس لیے یہاں اتنا ہی ذکر کیا گیا اور جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کو مخالفین کے مظالم پر صبر کرنے کی تلقین مقصود تھی وہاں یہ بیان کیا گیا کہ نوح (علیہ السلام) نے تو ساڑھے نو سو سال تک صبر کیا تھا لہذا تمہیں بھی صبر کرنا چاہیے اور جہاں نوح کے نافرمان بیٹے کے غرق ہونے کا ذکر مقصود تھا نیز یہ کہ وہ کیوں غرق ہوا وہاں طوفان نوح (علیہ السلام) کی تفصیل بیان کی گئی تمام انبیاء (علیہ السلام) کے حالات کے متعلق قرآن میں آپ کو اسی انداز کا بیان ملے گا۔ [٦٨] قوم نوح کی غرقابی :۔ ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے نتیجہ میں مٹھی بھر لوگ اور بعض اقوال کے مطابق صرف چالیس آدمی آپ پر ایمان لائے۔ جب نوح (علیہ السلام) باقی لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو آپ نے ان کے حق میں بددعا کی کہ یا اللہ ان میں سے اب کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑنا کیونکہ جس ہٹ دھرمی پر یہ اتر آئے ہیں، ان کی اولاد بھی اب فاسق و فاجر ہی بنے گی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کشتی تیار کرنے کا حکم دیا پھر جب سیلاب آنا شروع ہوا تو آپ نے اس سے ذرا پہلے اپنے پیروکاروں کو اس میں سوار کیا اور جانداروں کا ایک ایک جوڑا بٹھا لیا۔ پھر سیلاب اس وسیع پیمانے پر آیا جس سے یہ ساری کی ساری بدکار قوم ڈوب کر مرگئی۔ (نیز دیکھیے سورة ہود کی آیت نمبر ٤٤ کا حاشیہ ) [ ٦٩] اندھے اس لحاظ سے تھے کہ انہوں نے نہ حق و باطل میں تمیز کی نہ اپنے نفع کو سوچا بلکہ ایسے ہٹ دھرم واقع ہوئے تھے کہ اندھے ہو کر اپنی سرکشی اور رسول کی تکذیب اور بغاوت پر ڈٹے رہے مگر بت پرستی سے باز نہ آئے بلکہ ایک دوسرے کو تاکید کرتے تھے کہ دیکھو نوح (علیہ السلام) کے کہنے پر چل کر کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ نہ دینا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَنْجَيْنٰهُ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ ۔۔ : آخر مومنوں کو سفینے ( بحری جہاز) میں اللہ تعالیٰ نے نجات دی اور مخالفین طوفان سے ہلاک ہوگئے۔ اہل تاریخ کا کہنا ہے کہ طوفان نوح کا تخمینی سال ٣٢٠٠ قبل مسیح ہے۔ بیان کرتے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) کا یہ سفینہ تین منزلہ تھا، طول ٣٠٠ ہاتھ، عرض ٥٠ ہاتھ اور اونچائی ٣٠ ہاتھ، لیکن ان باتوں کی کوئی دلیل نہیں۔ تورات کے بیان کے مطابق یہ جہاز تقریباً پانچ ماہ چلتا رہا، مگر ہمارے پاس اس کی تصدیق یا تکذیب کا کوئی ذریعہ نہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں میں اور مختلف پہاڑوں پر ایک قدیم اور زبردست طوفان کے آثار اب بھی پائے جاتے ہیں۔ قصۂ نوح کی تفصیل سورة نوح اور سورة ہود وغیرہ میں ہے۔ ان کا اندھا پن یہ تھا کہ حق نہ دیکھتے تھے نہ قبول کرنے کے لیے تیار تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

It was said: فَكَذَّبُوهُ فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ وَأَغْرَ‌قْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا عَمِينَ ﴿٦٤﴾ (Then, they belied him [ ignoring his good counsel totally ], so [ as a consequence ], we saved him, and those with him in the Ark, and drowned those who had belied Our signs. Certainly, they were a blind people). The story of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) and the full account of the drowning of his people and the deliverance of the people in the Ark ap¬pears in Surah Hud and Surah Nuh. Given at this place is its gist as appropriate to the occasion. Sayyidna Zayd ibn Aslam رحمۃ اللہ علیہ says: When the punishment of Flood overtook the people of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) they were at the prime of their population and power. The lands and mountains of Iraq were becoming insufficient for their rising numbers. It should be kept in mind that it is a customary practice of Allah Ta` ala since ever that He would keep granting respite to the dis-obedient. He would send His punishment over them at a time when they have reached the highest peak of their numbers, power and wealth, and become, so to say, drunk with this state of their life. (Ibn Kathir) As for the number of people in the Ark of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) ، reports differ. Ibn Kathir, through a narration of Ibn Abi Hatim, reports from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) that there were eighty people. One of them was called Jurhum. He spoke Arabic. (Ibn Kathir) Some narrations have given the detail that there were forty men and forty women in the Ark. After the Flood, the place in Mosul, Iraq where they came to stay became known as Thamanun (eighty). To sum up, the introduction of a brief account of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) at this place aims to tell us three things: (1) That the da&wah of all past prophets and their basic articles of faith were one. (2) That Allah Ta` ala supports his appointed messengers in strikingly wondrous ways when they would not have the least danger to their security even after having been surrounded by a Flood rising as high as the peaks of mountains. (3) Then, it was made absolutely clear that belying the no¬ble prophets of Allah, may peace be upon them, amounted to inviting Divine punishment. The warning is still valid. So, let it not be forgotten that the way past communities were overtaken by punishment because of their belying of the prophets, a similar fate could overtake their modern counterparts - on this count, they could do better by not becoming heedless and fear-free.

ارشاد فرمایا، (آیت) فَكَذَّبُوْهُ فَاَنْجَيْنٰهُ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ فِي الْفُلْكِ وَاَغْرَقْنَا الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا ۭاِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا عَمِيْنَ یعنی نوح (علیہ السلام) کی ظالم قوم نے ان کی نصیحت و خیر خواہی کی کوئی پروا نہ کی اور برابر اپنی تکذیب پر جمع رہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں سوار کرکے طوفان سے نجات دے دی اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا ان کو غرق کردیا۔ بیشک یہ لوگ اندھے ہو رہے تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ اور ان کی قوم کی غرقابی اور کشتی والوں کی نجات کی پوری تفصیل سورة نوح اور سورة ہود میں آئے گی۔ اس جگہ بتقاضائے مقام اس کا خلاصہ بیان ہوا ہے۔ حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ قوم نوح پر طوفان کا عذاب اس وقت آیا جب کہ وہ اپنی کثرت و قوت کے اعتبار سے بھرپور تھے۔ عراق کی زمین اور اس کے پہاڑ ان کی کثرت کے سبب تنگ ہو رہے تھے۔ اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا یہی دستور رہا ہے کہ نافرمان لوگوں کو ڈھیل دیتے رہتے ہیں۔ عذاب اس وقت بھیجتے ہیں جب وہ اپنی کثرت، قوت اور دولت میں انتہاء کو پہنچ جائیں اور اس میں بدمست ہوجائیں (ابن کثیر) حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں کتنے آدمی تھے اس میں روایات مختلف ہیں۔ ابن کثیر رحمة اللہ نے بروایت ابن ابی حاتم حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ اسی (80) آدمی تھے جن میں ایک کا نام جرُہم تھا یہ عربی زبان بولتا تھا (ابن کثیر) بعض روایات میں یہ تفصیل بھی آئی ہے کہ اسی (80) کے عدد میں چالیس مرد اور چالیس عورتیں تھیں۔ طوفان کے بعد یہ سب حضرات موصل میں جس جگہ مقیم ہوئے اس بستی کا نام ثمانون مشہور ہوگیا۔ غرض اس جگہ نوح (علیہ السلام) کا مختصر قصہ بیان فرما کر ایک تو یہ بتلا دیا کہ تمام انبیاء قدیم کی دعوت اور اصول عقائد ایک ہی تھے۔ دوسرے یہ بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کی تائید و حمایت کس طرح حیرت انگیز طریقہ پر کرتے ہیں کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ جانے والے طوفان میں بھی ان کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ تیسرے یہ واضح کردیا کہ انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب عذاب الٓہی کو دعوت دینا ہے جس طرح پچھلی امتیں تکذیب انبیاء کے سبب عذاب میں گرفتار ہوگئیں آج کے لوگوں کو بھی اس سے بےخوف نہیں ہونا چاہئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِلٰي عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْدًا۝ ٠ ۭ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۝ ٠ ۭ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۝ ٦٥ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ هود الْهَوْدُ : الرّجوع برفق، ومنه : التَّهْوِيدُ ، وهومشي کالدّبيب، وصار الْهَوْدُ في التّعارف التّوبة . قال تعالی: إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف/ 156] أي : تبنا، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . ( ھ و د ) الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرن ا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے . : إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف/ 156] ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٤) انہوں نے (یعنی کافروں نے) حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکفیر کی ہم نے سب کشتی والوں کو غرق اور عذاب سے نجات دی اور جنہوں نے ہماری کتاب اور ہمارے رسول نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی، ان کو غرق کردیا، یعنی پانی میں ڈبو دیا، بیشک وہ ہدایت سے بےبہرہ اور کافر تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٤ (فَکَذَّبُوْہُ فَاَنْجَیْنٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ فِی الْْفُلْکِ وَاَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ط) (اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْماً عَمِیْنَ ) یعنی وہ ایسی قوم تھی جس نے آنکھیں ہونے کے باوجود اللہ کی نشانیوں کو دیکھنے اور حق کو پہچاننے سے انکار کردیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھی اہل ایمان بہت ہی کم لوگ تھے۔ آپ ( علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو دعوت دی تھی اس کے باوجود بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے تھے ‘ جو آپ ( علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سیلاب سے محفوظ رہے۔ آپ ( علیہ السلام) کے تین بیٹوں میں سے حضرت سام کی اولاد میں سے عاد نام کے ایک سردار بڑے مشہور ہوئے اور پھر ان ہی کے نام پر قوم عاد وجود میں آئی۔ آگے اسی قوم کا تذکرہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

50. An uninitiated reader of the Qur'an may, mistakenly conceive that the mission of each Prophet - to call his people to God - would have finished after the few attempts they made in that connection. Some people might even entertain a rather simplistic image of their mission. It might be thought that a Prophet would have suddenly risen and proclaimed to his people that he had been designated by God as a Prophet. This would have been followed by the raising of objections to that claim. Subsequently, the Prophet concerned would have explained the matter and might have removed their misgivings. The people would have stuck to their position, would have rejected the Prophet's claim and called him a liar. whereupon God must have visited that people with punishment. The fact of the matter, however, is that the Qur'an has narrated in just a few lines a story that was worked out over a long period of time. The brevity of the Qur'anic description owes itself to the fact that the Qur'an is not interested per se in story-telling; that its narration and purpose are didactic. Hence, while recounting a historical event, the Qur'an mentions only those fragments of the event which are relevant, ignoring those details which are irrelevant to Qur'anic purposes. Again, at different places in the Qur'an the same event is mentioned for a variety of reasons. On every occasion only those fragments of the story which are relevant to a specific purpose are mentioned and the rest are left out. An instance in point is the above narrative about Noah. In narrating Noah's story the Qur'an aims to point out the consequences attendant upon the rejection of the Prophet's Message. Since the total period spent on conveying the Message does not have any direct relationship with that purpose, the Qur'an altogether ignores it here. However, in passages where the Prophet and the Companions have been asked to remain patient, the long duration of the Prophet Noah's missionary, effort has been mentioned. This has been done precisely, with a view to raising the morale of the believers and to prevent them from feeling low because they did not see any, good results coming out of that struggle. By mentioning how Noah strove patiently for such a long period of time and in the face of discouraging circumstances is quite relevant in this context as it helps to teach the lesson which is intended. That lesson is to persist in serving the cause of the truth and to refuse to be daunted by the adversity of the circumstances. See al-'Ankabut 29: 14. It would be appropriate to remove, at this stage, a doubt which might agitate the minds of some people. For one frequently reads in the Qur'an accounts of nations which rejected their Prophets and charged them with lying. One also reads about the Prophets warning them of God's punishment, and then about its sudden advent, scourging the nation and totally destroying it. This gives rise to the question: Why do such catastrophic incidents not take place in our own time? Nations still rise and fall, but the phenomenon of their rise and fall is of a different nature. We do not see it happen that a nation is served with a warning, and is then totally destroyed by a calamity such as an earthquake. a flood, a storm, or a thunderbolt. In order to understand this it should be remembered that a nation which has directly received God's Message from a Prophet is treated by God in a different manner from nations which have not witnessed a Prophet. For if a nation directly witnesses a Prophet - an embodiment of righteousness - and receives God's Message from his tongue, it has no valid excuse left for rejecting that Message. And if it still rejects the Message, it indeed deserves to be summarily punished. Other nations are to be placed in a different category since they received God's Message indirectly. Hence, if the nations of the present time are not visited by; the devastating punishments which struck the nations of the Prophets in the past, one need not wonder since prophethood came to an end with the advent of Muhammad (peace be on him). One should indeed have cause to wonder if one saw the opposite happen - that is, if the nations of the present were visited by punishments from God which had afflicted those nations that rejected their Prophets face to face. This does not mean, however, that God has ceased to inflict sevire punishments on nations which turn away from God and are sunk in ideological and moral error. The fact is that God's punishments still afflict different nations of the world. These punishments are both minor and major. Minor punishments are aimed at warning those nations, and the major ones are of a much more serious character and cause considerable damage. However, in the absence of the Prophets who are wont to draw attention to moral degeneration as the basic cause of these calamities, the historians and thinkers of our time only scratch the surface and explain these in terms of physical laws or historical causes. These sophisticated explanations are of little help. On the contrary, nations so afflicted with heedlessness and moral stupor are thereby further prevented from appreciating that God has always warned evil-doing nations against following their evil ways, and that when they wilfully disregard these warnings and adamantly stick to their erroneous ways. He ultimately inflicts disastrous punishments upon them.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :50 جو لوگ قرآن کے اندازِ بیان سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے وہ بسا اوقات اس شبہہ میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید یہ سارا معاملہ بس ایک دو صحبتوں میں ختم ہو گیا ہوگا ۔ نبی اٹھا اور اس نے اپنا دعوٰی پیش کیا ، لوگوں نے اعتراضات کیے اور نبی نے ان کا جواب دیا ، لوگوں نے جھٹلایا اور اللہ نے عذاب بھیج دیا ۔ حالانکہ فی الحقیقت جن واقعات کو یہاں سمیٹ کر چند سطروں میں بیان کر دیا گیا ہے وہ ایک نہایت طویل مدّت میں پیش آئے تھے ۔ قرآن کا یہ مخصوص طرز بیان ہے کہ وہ قصہ گوئی محض قصہ گوئی کی خاطر نہیں کرتا بلکہ سبق آموزی کےلیے کرتا ہے ۔ اس لیے ہر جگہ تاریخی واقعات کے بیان میں وہ قصّے کے صرف ان اہم اجزاء کو پیش کرتا ہے جو اس کے مقصد و مدعا سے کوئی تعلق رکھتے ہیں ، باقی تمام تفصیلات کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔ پھر اگر کسی قصہ کو مختلف مواقع پر مختلف اغراض کے لیے بیان کرتا ہے تو ہر جگہ مقصد کی مناسبت سے تفصیلات بھی مختلف طور پر پیش کرتا ہے ۔ مثلاً اسی قصّہ نوح علیہ السلام کو لیجیے ۔ یہاں اس کے بیان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پیغمبر کی دعوت کو جھٹلانے کا کیا انجام ہوتا ہے ۔ لہٰذا اس مقام پر یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ پیغمبر کتنی طویل مدّت تک اپنی قوم کو دعوت دیتا رہا ۔ لیکن جہاں یہ قصّہ اس غرض کے لیے بیان ہوا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو صبر کی تلقین کی جائے وہاں خاص طور پر دعوت نوح علیہ السلام کی طویل مدّت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ آں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء اپنی چند سال کی تبلیغی سعی و محنت کو نتیجہ خیز ہوتے نہ دیکھ کر بد دل نہ ہوں اور حضرت نوح علیہ السلام کے صبر کو دیکھیں جنہوں نے مدتہائے دراز تک نہایت دل شکن حالات میں دعوت حق کی خدمت انجام دی اور ذرا ہمّت نہ ہاری ۔ ملاحظہ ہو سورہ عنکبوت ، آیت١٤ ۔ اس موقع پر ایک اور شک بھی لوگوں کے دلوں میں کھٹکتا ہے جسے رفع کر دینا ضروری ہے ۔ جب ایک شخص قرآن میں بار بار ایسے واقعات پڑھتا ہے کہ فلاں قوم نے نبی کو جھٹلایا اور نبی نے اسے عذاب کی خبر دی اور اچانک اس پر عذاب آیا اور قوم تباہ ہوگئی ، تو اس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قسم کے واقعات اب کیوں نہیں پیش آتے ؟ اگر چہ قومیں گرتی بھی ہیں اور اُبھرتی بھی ہیں ، لیکن اس عروج و زوال کی نوعیت دوسری ہوتی ہے ۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ ایک نوٹس کے بعد زلزلہ یا طوفان یا صاعقہ آئے اور قوم کی قوم کو تباہ کر کے رکھ دے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ فی الحقیقت اخلاقی اور قانونی اعتبار سے اس قوم کا معاملہ جو کسی نبی کی براہ راست مخاطب ہو ، دوسری تمام قوموں کے معاملہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ جس قوم میں نبی پیدا ہوا ہو اور وہ بلا واسطہ اس کو خود اسی کی زبان میں خدا کا پیغام پہنچائے اور اپنی شخصیت کے اندر اپنی صداقت کا زندہ نمونہ اس کے سامنے پیش کر دے ، اس پر خدا کی حجت پوری ہو جاتی ہے ، اس کے لیے معذرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور خدا کے فرستادہ کو دو بدو جھٹلا دینے کے بعد وہ اس کی مستحق ہو جاتی ہے کہ اس کا فیصلہ برسرِ موقع چکا دیا جائے ۔ یہ نوعیت معاملہ ان قوموں کے معاملہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے جن کے پاس خدا کا پیغام براہ راست نہ آیا ہو بلکہ مختلف واسطوں سے پہنچا ہو ۔ پس اگر اب اس طرح کے واقعات پیش نہیں آتے جیسے انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں پیش آئے ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ، اس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے ۔ البتہ تعجب کے قابل کوئی بات ہو سکتی تھی تو یہ کہ اب بھی کسی قوم پر اسی شان کا عذاب آتا جیسا انبیاء کو دُو بدو جھٹلانے والی قوموں پر آتا تھا ۔ مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ اب ان قوموں پر عذاب آنے بند ہو گئے ہیں جو خدا سے برگشتہ اور فکری و اخلاقی گمراہیوں میں سرگشتہ ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ایسی تمام قوموں پر عذاب آتے رہتے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے تنبیہی عذاب بھی اور بڑے بڑے فیصلہ کُن عذاب بھی ۔ لیکن کوئی نہیں جو انبیاء علیہم السلام اور کتب آسمانی کی طرح ان عذابوں کے اخلاقی معنی کی طرف انسان کو توجہ دلائے ۔ بلکہ اس کے برعکس ظاہر ہیں سائنس دانوں اور حقیقت سے ناواقف مورخین و فلاسفہ کا ایک کثیر گروہ نوعِ انسانی پر مسلط ہے جو اس قسم کے تمام واقعات کی توجہ طبعیاتی قوانین یا تاریخی اسباب سے کر کے اس کو بُھلاوے میں ڈالتا رہتا ہے اور اسے کبھی یہ سمجھنے کا موقع نہیں دیتا کہ اوپر کوئی خدا بھی موجود ہے جو غلط کار قوموں کو پہلے مختلف طریقوں سے ان کی غلط کاری پر متنبہ کرتا ہے اور جب وہ اس کی بھیجی ہوئی تنبیہات سے آنکھیں بند کر کے اپنی غلط روی پر اصرار کیے چلی جاتی ہیں تو آکر کار انہیں تباہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

36: کشتی اور طوفان کا پورا واقعہ ان شاء اللہ سورۃ ہود میں آنے والا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:64) عمین۔ عم کی جمع ۔ بحالت نصب۔ عم۔ عمی سے بروزن فعل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ یہ اصل میں عمی تھا۔ چان کہ ناقص یائی میں صفت مشبہ کا ی حذف ہوجاتا ہے۔ اس لئے یاء حذف ہوگی۔ اور عم وہ گیا۔ حالت رفع میں جمع عمون آئیگی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی آخر مخالفین طوفان سے ہلاک ہوگئے اور ان مومنین نے نجات پائی۔ جو سفینہ میں سوار تھے، طوفان نوح کا تخمینی سال 3200 ق م ہے۔ بیان کرتے ہیں کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) کا یہ سفینہ سہ 3 منزلہ تھا، توریت میں اس کی پیمائش حسب ذیل ہے۔ طول 300 ہاتھ عرض 50 ہاتھ اونچائی ہاتھ توریت کے بیان کے مطابق یہ جہاز تقرینا پانچ ماہ چلتا رہا۔ سر زمین عراق میں اب بھی اس طوفان کے آثار ملتے رہتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

74 یہ دوسرا قصہ ہے اور تیسرے دعوی ہی سے متعلق ہے حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) نے بھی اعلان کیا تھا۔ “ یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰهَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہٗ الخ ” اے میری قوم صرف اللہ کی عبادت کرو اور صرف اسی کو پکارو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود اور کارساز نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

64 باوجود ان تما فہمائشوں کے نوح (علیہ السلام) کی قوم باز نہ آئی اور نوح (علیہ السلام) کی تکذیب ہی کرتی رہی اور ان کو جھٹلاتی رہی تو آخرکار ہم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اور اس کے ان ساتھیوں کو جو اس کے ہمراہ کشتی میں سوار تھے مرنے سے بچالیا اور ان تمام لوگوں کو جو ہمارے دلائل کی تکذیب کرے اور ہماری آیات کو جھٹلانے کے عادی اور خوگر ہوچکے تھے سب کو ڈبو دیا اور غرق کردیا بلاشبہ وہ لوگ کفر و معاصی اور تکذیب و تکفیر کے ہاتھوں اندھے ہورہے تھے۔