Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 93

سورة الأعراف

فَتَوَلّٰی عَنۡہُمۡ وَ قَالَ یٰقَوۡمِ لَقَدۡ اَبۡلَغۡتُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ نَصَحۡتُ لَکُمۡ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوۡمٍ کٰفِرِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾  1

And he turned away from them and said, "O my people, I had certainly conveyed to you the messages of my Lord and advised you, so how could I grieve for a disbelieving people?"

اس وقت شعیب ( علیہ السلام ) ان سے منہ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دئیے تھے اور میں نے تو تمہاری خیر خواہی کی ۔ پھر میں ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ ... Then he (Shu`ayb) turned from them and said: Prophet Shu`ayb, peace be upon him, turned away from his people after the torment, punishment and destruction struck them, admonishing and censuring them by saying to them, ... يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالاَتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ... "O my people! I have indeed conveyed my Lord's Messages unto you and I have given you good advice." Shu`ayb said, I have conveyed to you what I was sent with, so I will not feel any sorrow for you since you disbelieved in what I brought you, ... فَكَيْفَ اسَى عَلَى قَوْمٍ كَافِرِينَ "Then how can I grieve over people who are disbelievers!"

قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آ چکنے کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام وہاں سے چلے اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے فرمایا کہ میں سبکدوش ہو چکا ہوں ۔ اللہ کا پیغام سنا چکا ، سمجھا بجھا چکا ، غم خواری ہمدردی کر چکا ۔ لیکن تم کافر کے کافر ہی رہے اب مجھے کیا پڑی کہ تمہارے افسوس میں اپنی جان ہلکان کروں؟

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

93۔ 1 عذاب و تباہی کے بعد جب وہ وہاں سے چلے، تو انہوں نے وفور جذبات میں باتیں کیں۔ اور ساتھ کہا کہ جب میں نے حق تبلیغ ادا کردیا اور اللہ کا پیغام ان تک پہنچا دیا، تو اب میں ایسے لوگوں پر افسوس کروں تو کیوں کروں ؟ جو اس کے باوجود اپنے کفر اور شرک پر ڈٹے رہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٩] عذاب سے پہلے قوم سے خطاب :۔ یعنی افسوس تو اس پر آتا ہے کہ جو بےچارا بھول چوک یا نادانستگی میں مارا جائے اور جو انجام سمجھانے کے باوجود آگے سے اکڑتا چلا جائے اور اسے اپنی خیر خواہی کی بات سننا بھی گوارا نہ ہو اس پر افسوس آ بھی کیسے سکتا ہے ؟ اس نے تو دیدہ دانستہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَكَيْفَ اٰسٰي عَلٰي قَوْمٍ كٰفِرِيْن : یعنی بیشک تم میرے عزیز تھے، مگر جب تم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا تو کافروں کی ہلاکت پر میں کیسے غم کروں۔ دیکھیے اسی سورت کی آیت (٧٩) کے حواشی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the sixth (93) verse, it was said: فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ (So, he turned away from them). It means that, with punishment for his people in sight, Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) and his believing companions moved away from there. The majority of commentators says that these blessed souls left this place for Makkah al-Mu` azzamah where they stayed till the end. It was his total disappointment with his people neck-deep in diso¬bedience and contumacy which prompted him to pray that they be chastened. But, when the actual punishment came as a result of it, his heart pinched because of his prophetic concern and affection for them. Then, it was for the peace of his own heart that he said addressing his people: ` 0 my people, I have surely delivered to you the messages of my Lord, and wished you betterment. How, then, should I grieve over a disbelieving people?&

چھٹی آیت میں فرمایا فَتَوَلّٰي عَنْهُمْ یعنی قوم پر عذاب آتا ہوا دیکھ کر شعیب (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی یہاں سے چل دیئے۔ جمہور مفسرین نے فرمایا کہ یہ حضرات یہاں سے مکہ معظمہ آگئے۔ اور پھر آخر تک یہیں قیام رہا۔ قوم کی انتہائی سرکشی اور نافرمانی سے مایوس ہو کر شعیب (علیہ السلام) نے بدعا تو کردی۔ مگر جب اس کے نتیجہ میں قوم پر عذاب آیا تو پیغمبرانہ شفقت و رحمت کے سبب دل دکھا تو اپنے دل کو تسلی دینے کے لئے قوم کو خطاب کرکے فرمایا کہ میں نے تو تم کو تمہارے رب کے احکام پہنچا دیئے تھے اور تمہاری خیر خواہی میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا تھا مگر میں کافر قوم کا کہاں تک غم کروں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَتَوَلّٰي عَنْہُمْ وَقَالَ يٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ۝ ٠ ۚ فَكَيْفَ اٰسٰي عَلٰي قَوْمٍ كٰفِرِيْنَ۝ ٩٣ ۧ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس نصح النُّصْحُ : تَحَرِّي فِعْلٍ أو قَوْلٍ فيه صلاحُ صاحبِهِ. قال تعالی: لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 79] وَلا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْصَحَ لَكُمْ [هود/ 34] وهو من قولهم : نَصَحْتُ له الوُدَّ. أي : أَخْلَصْتُهُ ، ونَاصِحُ العَسَلِ : خَالِصُهُ ، أو من قولهم : نَصَحْتُ الجِلْدَ : خِطْتُه، والنَّاصِحُ : الخَيَّاطُ ، والنِّصَاحُ : الخَيْطُ ، وقوله : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم/ 8] فمِنْ أَحَدِ هذين، إِمَّا الإخلاصُ ، وإِمَّا الإِحكامُ ، ويقال : نَصُوحٌ ونَصَاحٌ نحو ذَهُوب وذَهَاب، ( ن ص ح ) النصح کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 79] میں نے تم کو خدا کا پیغام سنادیا ۔ اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔ یہ یا تو نصحت لہ الود کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی سے خالص محبت کرنے کے ہیں اور ناصح العسل خالص شہد کو کہتے ہیں اور یا یہ نصحت الجلد سے ماخوذ ہے جس کے معنی چمڑے کو سینے کے ہیں ۔ اور ناصح کے معنی درزی اور نصاح کے معنی سلائی کا دھاگہ کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم/ 8] خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو ۔ میں نصوحا کا لفظ بھی مذکورہ دونوں محاوروں میں سے ایک سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی خالص یا محکم توبہ کے ہیں اس میں نصوح ور نصاح دو لغت ہیں جیسے ذھوب وذھاب كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ أسِف الأَسَفُ : الحزن والغضب معاً ، وقد يقال لکل واحدٍ منهما علی الانفراد، وحقیقته : ثوران دم القلب شهوة الانتقام، فمتی کان ذلک علی من دونه انتشر فصار غضبا، ومتی کان علی من فوقه انقبض فصار حزنا، ولذلک سئل ابن عباس عن الحزن والغضب فقال : مخرجهما واحد واللفظ مختلف فمن نازع من يقوی عليه أظهره غيظاً وغضباً ، ومن نازع من لا يقوی عليه أظهره حزناً وجزعاً ، وقوله تعالی: فَلَمَّا آسَفُونا انْتَقَمْنا مِنْهُمْ [ الزخرف/ 55] أي : أغضبونا . ( ا س ف ) الاسف ۔ حزن اور غضب کے ممواعہ کو کہتے ہیں کبھی آسف کا لفظ حزن اور غضب میں سے ہر ایک پر انفراد ابھی بولا جاتا ہے اصل میں اس کے معنی جذبہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ کیفیت اپنے سے کمزور آدمی پر پیش آئے تو پھیل کر غضب کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور اگر اپنے سے قوی آدمی پر ہو تو منقبض ہوکر حزن بن جاتی ہے اس لئے جب حضرت ابن عباس سے حزن اور غضب کی حقیقت دریافت کی گئی تو انہوں نے فرمایا : لفظ دو ہیں مگر ان کی اصل ایک ہی ہے جب کوئی شخص اپنے سے کمزور کے ساتھ جھگڑتا ہے تو غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے اور جب اپنے سے قوی کے ساتھ جھگڑتا ہے تو واویلا اور غم کا اظہار کرتا ہے اور آیت کریمہ :۔ { فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ } ( سورة الزخرف 55) کے معنی یہ ہیں کہ جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٣) ان کے ہلاک ہونے سے پہلے (یا بعد) حضرت شعیب (علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے گئے اور فرمانے لگے کہ میں نے احکام خداوندی تم تک پہنچائے اور عذاب خداوندی سے اور توبہ اور ایمان کی طرف بلایا مگر میں ان لوگوں پر کیوں افسردہ ہوں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کردیا ان کا یہی انجام ہونا چاہیے تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٣ (فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَکُمْ ج) ( فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ ) یعنی حضرت شعیب ( علیہ السلام) نے امکانی حد تک اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ پھر بھی اگر قوم نہیں مانی تو گویا ان لوگوں نے خود اپنی بربادی کو دعوت دی۔ اب ایسے لوگوں کی ہلاکت پر افسوس کرنے کا جواز بھی کیا ہے۔ لیکن حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ان الفاظ سے واضح ہو رہا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) کو اپنی قوم کے انجام پر شدید رنج و غم اور صدمہ تھا اور ایسے موقع پر ایسے الفاظ کہنا اپنے دل کی ڈھارس بندھانے کا ایک انداز ہے۔ بہر حال حقیقت یہ ہے کہ نبی اپنی قوم اور بنی نوع انسان کے لیے بہت شفیق ‘ مہربان اور ہمدرد ہوتا ہے اور اپنی قوم پر عذاب آنے پر اسے بہت زیادہ صدمہ ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

76. The stories narrated here have a definite didactic purpose and were narrated with a view to highlighting their relevance to the time of the Prophet (peace be on him). In each of these stories one of the parties is a Prophet who in respect of his teachings greatly resembles Muhammad (peace be on him), in summoning his people to the right way, in admonishing them, in sincerely seeking their welfare. At the other end of the scale in each narrative are the unbelieving nations who greatly resembled the Quraysh in the time of the Prophet (peace be on him) with regard to their disbelief and moral degeneration. By recounting the tragic end of each of these unrighteous nations of the past, the Quraysh are reminded of the moral purpose of these stories. Through the stories they are told that if, because of their stubbornness they fail to follow the Messenger of God during the term of respite granted to them, they will be subjected to the same destruction which befell those past nations who persisted in wrong-doing and error.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :76 یہ جتنے قصے یہاں بیان کیے گئے ہیں ان سب میں ”سرِّ دلبراں در حدیث دیگراں“کا انداز اختیار کیا گیا ہے ۔ ہر قصہ اس معاملہ پر پورا پورا چسپاں ہوتا ہے جو اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی قوم کے درمیان پیش آ رہا تھا ۔ ہر قصہ میں ایک فریق بنی ہے جس کی تعلیم ، جس کی دعوت ، جس کی نصیحت و خیر خواہی ، اور جس کی ساری باتیں بعینہ وہی ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تھیں ۔ ور دوسرا فریق حق سے منہ موڑنے والی قوم ہے جس کی اعتقادی گمراہیاں ، جس کی اخلاقی خرابیاں ، جس کی جاہلانہ ہٹ دھرمیاں ، جس کے سرداروں کا استکبار ، جس کے منکروں کا اپنی ضلالت پر اصرار ، غرض سب کچھ وہی ہے جو قریش میں پایا جاتا تھا ۔ پھر ہر قصے میں منکر قوم کا جو انجام پیش کیا گیا ہے اس سے دراصل قریش کو عبرت دلائی گئی ہے کہ اگر تم نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی بات نہ مانی اور اصلاح حال کا جو موقع تمہیں دیا جا رہا ہے اسے اندھی ضد میں مبتلا ہو کر کھو دیا تو آخر کار تمہیں بھی اسی تباہی و بربادی سے دوچار ہونا پڑے گا جو ہمیشہ سے گمراہی و فساد پر اصرار کرنے والی قوموں کے حصہ میں آتی رہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:93) اسی۔ میں افسوس کروں۔ میں غمگین ہوں۔ میں غم کھاؤں۔ اسی سے (باب سمع) مضارع کا صیغہ واحد متکلم۔ اسی اصل میں اء سی تھا۔ دوسری ہمزہ الف میں بدل گئی۔ اسی ہوگیا۔ کیف اسی۔ میں کیسے غم کھاؤں ۔ میں کیوں غم کھاؤں۔ (یعنی اس قدر نصیحت و وعظ کے بعد ان کے مسلسل انکار اور ہٹ دھرمی کی جو ان کو یہ سزا ملی ہے وہ کسی رنج و ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ یعنی ہرچند تم میرے عزیز تھے مگر جب تم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا تو کافروں کی ہلاکت پر مجھے کچھ افسوس نہیں کرنا چاہیے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اوپر جن قوموں کا قصہ ذکر ہوا ہے چونکہ اور قوموں کے بھی ایسے قصے واقع ہوئے ہیں آگے عام عنوان سے اجمالا ان سب کی حالت جرم کی اور جرم پر بھی اول مہلت ملنے کی اور پھر بھی نہ سمجھنے پر سزاجاری ہونے کی مذکور ہے اور حکایت کے بعد آیت اولم یھد سے غرض حکایت پر کہ عبرت حاصل کرنا ہے تنبیہ فرمائی گئی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” فَتَوَلَّی عَنْہُمْ وَقَالَ یَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُکُمْ رِسَالاَتِ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَکُمْ فَکَیْْفَ آسَی عَلَی قَوْمٍ کَافِرِیْنَ (93) اور شعیب یہ کہہ کر ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ ” اے برادران قوم میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دیئے اور تمہاری خیرخواہی کا حق ادا کردیا ۔ اب میں اس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبول حق سے انکار کرتی ہے۔ “ اس لئے کہ وہ ایک ملت ہے اور یہ لوگ دوسری ملت ہیں ۔ اہل ایمان ایک قوم ہیں اور وہ دوسری قوم ہیں ۔ رہا سلسلہ نسب اور قوم تو اس دین میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ اللہ کے ہاں اس کا کوئی وزن نہیں ہے ۔ یہاں فلاں ابن فلاں کوئی چیز نہیں ہے ۔ اس دین میں واحد رابطہ عقیدہ ونظریہ ہے اور اسی پر اتحاد وانفعال کا مدار ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

98: جب قوم ہلاک ہوگئی تو وہاں سے چلے اور تحسر اور تاسف کے طور پر قوم کو خطاب کر کے فرمایا۔ اے میری قوم میں نے تو تمہیں اللہ کے تمام پیغام پہنچا دئیے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔ اس سے ان کا مقصد ہلاک شدہ مشرکین کو کچھ سنانا نہ تھا بلکہ محض اظہار افسوس مقصود تھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

93 اس وقت حضرت شعیب (علیہ السلام) ان بدبختوں سے یہ کہتے ہوئے واپس تشریف لے گئے اے میری قوم ! میں نے تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے تھے اور تمہاری ہمیشہ خیر خواہی کرتا رہا پھر اب میں ان لوگوں پر کیوں کر اظہارِ افسوس کروں جنہوں نے دین حق کے قبول کرنے سے ہمیشہ انکار کیا یعنی ایسے لوگوں پر کیا افسوس کیا جائے جن کی طبیعت میں اسلام دشمنی ہو یہ مرنے والوں کو بطور عبرت خطاب کیا خطاب کے لئے سماع ضروری نہیں۔