Surat Nooh

Surah: 71

Verse: 10

سورة نوح

فَقُلۡتُ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا ﴿ۙ۱۰﴾

And said, 'Ask forgiveness of your Lord. Indeed, He is ever a Perpetual Forgiver.

اور میں نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہ بخشواؤ ( اور معافی مانگو ) وہ یقیناً بڑا بخشنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

I said: Ask forgiveness from your Lord, verily, He is Oft-Forgiving; meaning, `return to Him and turn away from what you are involved in. Repent to Him soon, for verily, He is Most Accepting of the repentance of those who turn to Him in repentance. He will accept repentance no matter what the sin is, even if it is disbelief and polytheism.' Thus, he said, فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاء عَلَيْكُم مِّدْرَارًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یعنی ایمان اور اطاعت کا راستہ اپنالو، اور اپنے رب سے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگ لو۔ 10۔ 2 وہ توبہ کرنے والوں کے لئے بڑا رحیم و غفار ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فقلت استغفرواربکم…: چناچہ میں نے ان سے ہا کہ اپنے رب سے بخشش مانگو، (ظاہر ہے ایمان لانے کے بعد ہی بخشش مانگنے کا مرحلہ آتا ہے) یقیناً وہ بہت ہی بخشنے والا ہے۔” کان “ دوام اور استمرار کے لئے ہے، یعنی بخشنا اور معاف کرنا ہمیشہ سے اس کی صفت رہی ہے، پھر کسی واسطے یا وسیلے سے مانگنے کی کیا ضرورت ہے، اپنے رب سے خود ہی معافی ماگن لو، وہ تمہیں بخش دے گا۔ جب معافی مل گئی تو آخرت میں سزا سے بچ جاؤ گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ كَانَ غَفَّارًا۝ ١٠ ۙ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(71:10) فقلت : ف حرف عطف ہے۔ سو میں نے (ان سے) کہا۔ استغفروا ربکم : امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر استغفار (استفعال) مصدر۔ تم مغفرت مانگو، تم بخشش چاہو۔ ربکم (مضاف مضاف الیہ) اپنے رب سے۔ غفارا : غفران (باب ضرب) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد۔ مبالغہ کا صیغہ بہت بخشنے والا۔ منصوب بوجہ کان کی خبر کے ہے۔ کیونکہ وہ بہت بڑا بخشنے والا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی تمہارے گناہ بخش دے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے اس کے حضور توبہ استغفار کرنے کا حکم دیا، اور اس کے دنیا اور آخرت کے فائدے بتلائے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے توحید و رسالت کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم کے لوگو ! اللہ سے ڈر جاؤ ! اس سے ڈرنے کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں سے توبہ کرے یعنی آئندہ گناہ کرنے سے رک جائے۔ قوم نوح کا سب سے بڑا گناہ ” اللہ “ کے ساتھ شرک کرنا تھا، جس سے حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں بار بار منع کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو استغفار کا فائدہ بتلاتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے استغفار کرنے پر تمہارا رب تمہارے سابقہ گناہوں کو معاف فرمادے گا، دنیا میں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ضرورت کے مطابق بارش برسائے گا، تمہیں مال دے گا، بیٹے عطا فرمائے گا اور تمہیں باغ باغیچے دے گا، ان میں نہریں جاری ہوں گی ان باغات سے مراد جنت کے باغات بھی ہیں اور دنیا کے باغات بھی۔ امیر المومنین سیدنا حضرت عمر فاروق (رض) کے زمانے میں بارش ہوئے ایک عرصہ گزر چکا تھا۔ لوگوں نے آپ سے درخواست کی کہ بارش کے لیے دعا کریں۔ امیر المومنین ہاتھ اٹھا کر بارش مانگنے کی بجائے بار بار توبہ استغفار کرتے رہے کسی نے عرض کی کہ آپ نے بارش کی دعا کی ہی نہیں۔ فرمایا آپ نے قرآن نہیں پڑھا سورة نوح (علیہ السلام) میں اللہ تعالیٰ نے توبہ استغفار کے بدلے بارش کا وعدہ فرمایا ہے۔ (إِسْتَغفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ ےُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَےْکُمْ مِدْرَارًا۔ ) (نوح : ١٠، ١١) ” اپنے رب سے معافی مانگو بیشک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارش بر سائے گا۔ “ تاریخ کی نامور شخصیت مشہور ترین تابعی حضرت حسن بصری (رح) جن کی والدہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مکرمہ حضرت ام سلمہ (رض) کی خادمہ تھیں۔ اس لیے حسن بصری (رض) کو بچپن میں حضرت ام سلمہ (رض) کی رضاعت کی سعادت حاصل ہے حسن بصری (رض) بلوغت تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں حضرت اُمّ سلمہ (رض) کی تربیت میں رہے۔ ان کے پاس یکے بعد دیگرے تین آدمی حاضر ہوئے ایک نے نرینہ اولاد، دوسرے نے غربت و افلاس کی شکایت کی اور تیسرا بارش کی دعا کروانے کے لیے حاضر ہوا۔ آپ نے تینوں حضرات کو کثرت کے ساتھ توبہ استغفار کرنے کا حکم فرمایا۔ بعد ازاں ان کے ایک عزیز نے پوچھا کہ آپ نے مختلف حاجات اور مشکلات کے حل کے لیے صرف ایک ہی وظیفہ بتایا ہے حضرت بصری (رض) نے مندرجہ بالا آیات تلاوت کی۔ ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص نے ننانوے قتل کیے پھر وہ توبہ کے لیے کسی راہب کے پاس گیا، اس نے کہا کہ تیری توبہ کسی صورت قبول نہیں ہوسکتی، اس نے طیش میں آکر راہب کو بھی قتل کردیا، اس کے بعد وہ کسی دوسرے عالم دین کے پاس گیا۔ اس نے کہا کہ آپ کی توبہ قبول ہوسکتی ہے (لیکن آپ کو توبہ پر قائم رہنے کے لیے) اپنا علاقہ چھوڑدینا چاہیے وہ اپنے گھر سے نکل کھڑا ہوا، راستے میں اس کو موت نے آلیا، وہ منہ کے بل نیچے گرا، اس صورت حال میں رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں سے ہر کوئی اس کی روح کو اپنی طرف لے جانے کے لیے تکرار کررہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے منزل مقصود والے حصے کو حکم دیا کہ وہ سکڑجائے، جب ملائکہ نے دونوں طرف سے زمین کی پیمائش کی تو وہ اپنی منزل کی جانب صرف ایک بالشت قریب تھا، اس طرح دوزخ کے فرشتے ناکام ہوئے اور وہ اللہ کی جنت میں داخل ہوگیا۔ “ (رواہ البخاری : باب التوبۃ والإستعفار) مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو استغفار کرنے کا حکم دیا۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بتلایا کہ استغفار کے بدلے اللہ تعالیٰ بروقت بارشیں نازل فرمائے گا۔ ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ استغفار کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہیں مال، اولاد اور بیٹے عطا فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن توبہ و استغفا کا حکم اور اس کے فائدے : ١۔ توبہ کرنا مومن کا شیوہ ہے۔ (التوبہ : ١١٢) ٢۔ توبہ کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٢) ٣۔ توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ (البقرۃ : ١٦٠) ٤۔ توبہ کرنے والے کا میاب ہوں گے۔ (القصص : ٦٧) ٥۔ توبہ کرنے والوں کے لیے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (المؤمن : ٧ تا ٩) ٦۔ توبہ کرنے والے کے گناہ نیکیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ (الفرقان : ٧٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فقلت .................... غفارا (١٧ : ٠١) ” میں نے کہا : ” اپنے رب سے معافی مانگو ، بیشک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے “۔ اور ان کو یہ لالچ بھی دیا کہ اللہ تمہیں وافر رزق بھی دے گا ، بارشوں کے ذریعہ نہریں بہادے گا ، اولاد دے گا ، اموال دے گا ، جو تمہیں بہت عزیز ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” فقلت استغفروا “ یہ ترغیب ہے۔ ” مدرارا یرسل “ کا مفعول مطلق ہے۔ من غیر لفظہ یا یہ صیغہ مبالغہ ہے اور السماء سے حال ہے السماء سے مراد بادل یا بارش ہے (مظہری، روح) ۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ ایمان لے آؤ اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو، وہ معاف کرنے والا ہے وہ تم پر موسلا دھار بارانِ رحمت نازل فرمائے گا۔ ” ویمددکم باموال “ تمہارے مال واولاد میں برکت عطاء فرمائے گا، تمہارے لیے پھلوں اور میووں کے سرسبز و شاداب باغات پیدا فرمائے گا اور نہریں جاری کرے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) میں نے ان سے کہا کہ تم اپنے پروردگار سے استغفار کرو یعنی گناہ بخشوائو بیشک وہ بڑا بخشے والا ہے۔ یعنی ایمان لے آئو تو تمہارے پہلے گناہ اور خطائیں سب بخش دئیے جائیں گے اور باطنی انعام وکرام اور روحانی ترقی کے ساتھ دنیاوی ترقی و ظاہری منافع سے بھی تم کو مالا مال کردے گا جس کی شکل یہ ہوگی۔