Surat Nooh

Surah: 71

Verse: 21

سورة نوح

قَالَ نُوۡحٌ رَّبِّ اِنَّہُمۡ عَصَوۡنِیۡ وَ اتَّبَعُوۡا مَنۡ لَّمۡ یَزِدۡہُ مَالُہٗ وَ وَلَدُہٗۤ اِلَّا خَسَارًا ﴿ۚ۲۱﴾

Noah said, "My Lord, indeed they have disobeyed me and followed him whose wealth and children will not increase him except in loss.

نوح ( علیہ السلام ) نے کہا اے میرے پروردگار! ان لوگوں نے میری تو نافرمانی کی اور ایسوں کی فرمانبرداری کی جن کے مال و اولاد نے ( یقیناً ) نقصان ہی میں بڑھایا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nuh complains to His Lord about His People's Response Allah says that, قَالَ نُوحٌ رَّبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي ... Nuh said: "My Lord! They have disobeyed me, Nuh turned to Allah to inform Allah - the All Knowing from Whom nothing escapes - that he presented the clear call, as mentioned previously, and the comprehensive invitation in various ways. He called them sometimes by encouragement and sometimes by intimidating warnings. Yet, they disobeyed him, opposed him, denied him and followed the children of the world. They were those who were heedless of the command of Allah and they possessed delights of wealth and children. However, these things (worldly benefits) were also for gradual punishment and temporary respite, not for honor or blessing. Thus, Allah says, وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلاَّ خَسَارًا and followed one whose wealth and children give him no increase but loss. The meaning of Allah's statement, وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا

نوح علیہ السلام کی بارگاہ الٰہی میں روداد غم حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی گزشتہ شکایتوں کے ساتھ ہی جناب باری تعالیٰ میں اپنی قوم کے لوگوں کی اس روش کو بھی بیان کیا کہ میری پکار کو جو ان کے لئے سراسر نفع بخش تھی انہوں نے کان تک نہ لگایا ہاں اپنے مالداروں اور بےفکروں کی مان لی جو تیرے امر سے بالکل غافل تھے اور مال و اولاد کے پیچھے مست تھی ، گو فی الواقع وہ مال و اولاد بھی ان کے لئے سراسر و بال جان تھی ، کیونکہ ان کی وجہ سے وہ پھولتے تھے اور اللہ کو بھولتے تھے اور زیادہ نقصان میں اترتے جاتے تھے ( ولدہ ) کی دوسری قرأت ( ولدہ ) بھی ہے اور ان رئیسوں نے جو مال و جاہ والے تھے ان سے بڑی مکاری کی ۔ ( کُبَّارِ ) اور ( کِبَّار ) دونوں معنی میں کبیر کے ہیں یعنی بہت بڑا ۔ قیامت کے دن بھی یہ لوگ یہیں کہیں گے کہ تم دن رات مکاری سے ہمیں کفر و شرک کا حکم کرتے رہے اور انہی بڑوں نے ان چھوٹوں سے کہا کہ اپنے ان بتوں کو جنہیں تم پوجتے رہے ہرگز نہ چھوڑنا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ قوم نوح کے بتوں کو کفار عرب نے لے لیا دومتہ الجندل میں قبیلہ کلب ود کو پوجتے تھے ، ہذیل قبیلہ سواع کا پرستار تھا اور قبیلہ مراد پھر قبیلہ بنو غطیف جو صرف کے رہنے والے تھے یہ شہر سبا بستی کے پاس ہے یغوث کی پوجا کرتا تھا ، ہملان قبیلہ یعقوب کا پجاری تھا ، آل ذی کلاع کا قبیلہ حمیر نسر بت کا ماننے والا تھا ، یہ سب بت دراصل قوم نوح کے صالح بزرگ اولیاء اللہ لوگ تھے ان کے انتقال کے بعد شیطان نے اس زمانہ کے لوگوں کے دلوں میں ڈالی کہ ان بزرگوں کی عبادت گاہوں میں ان کی کوئی یادگار قائم کریں ، چنانچہ انہوں نے وہاں نشان بنا دیئے اور ہر بزرگ کے نام پر انہیں مشہور کیا جب تک یہ لوگ زندہ رہے تب تک تو اس جگہ کی پرستش نہ ہوئی لیکن ان نشانات اور یادگار قائم کرنے والے لوگوں کو مر جانے کے بعد اور علم کے اٹھ جانے کے بعد جو لوگ آئے جہالت کی وجہ سے انہوں نے باقاعدہ ان جگہوں کی اور ان ناموں کی پوجا پاٹ شروع کر دی ۔ حضرت عکرمہ حضرت ضحاک حضرت قتادہ حضرت ابن اسحاق بھی یہی فرماتے ہیں ۔ حضرت محمد بنی قیس فرماتے ہیں یہ بزرگ عابد ، اللہ والے ، اولیاء اللہ ، حضرت آدم ، اور حضرت نوح کے سچے تابع فرمان صالح لوگ تھے جن کی پیروی اور لوگ بھی کرتے تھے جب یہ مر گئے تو ان کے مقتدیوں نے کہا کہ اگر ہم ان کی تصویریں بنا لیں تو ہمیں عبادت میں خوب دلچسپی رہے گی اور ان بزرگوں کی صورتیں دیکھ کر شوق عبادت بڑھتا رہے گا چنانچہ ایسا ہی کیا جب یہ لوگ بھی مر کھپ گئے اور ان کی نسلیں آئیں تو شیطان نے انہیں یہ گھٹی پلائی کہ تمہارے بڑے ان کی پوجا پاٹ کرتے تھے اور انہیں سے بارش وغیرہ مانگتے تھے چنانچہ انہوں نے اب باقاعدہ ان بزرگوں کی تصویروں کی پرستش شروع کر دی ، حافظ ابن عساکر رحمتہ اللہ علیہ حضرت شیث علیہ السلام کے قصے میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا حضرت آدم علیہ السلام کے چالیس بچے تھے بیس لڑکے بیس لڑکیاں ان میں سے جن کی بڑی عمریں ہوئیں ان میں ہابیل ، قابیل ، صالح اور عبدالرحمٰن تھے جن کا پہلا نام عبدالحارث تھا اور ود تھا جنہیں شیث اور ہبتہ اللہ بھی کہا جاتا ہے ۔ تمام بھائیوں نے سرداری انہیں کو دے رکھی تھی ۔ ان کی اولاد یہ چاروں تھے یعنی سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر ۔ حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی بیماری کی قوت ان کی اولاد ود ، یغوث ، یعوق ، سواع اور نسر تھی ۔ ود ان سب میں بڑا اور سب سے نیک سلوک کرنے والا تھا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابو جعفر رحمتہ اللہ علیہ نماز پڑھ رہے تھے اور لوگوں نے زید بن مہلب کا ذکر کیا آپ نے فارغ ہو کر فرمایا سنو وہ وہاں قتل کیا گیا جہاں اب سے پہلے غیر اللہ کی پرستش ہوئی واقعہ یہ ہوا کہ ایک دیندار ولی اللہ مسلمان جسے لوگ بہت چاہتے تھے اور بڑے معتقد تھے وہ مر گیا ، یہ لوگ مجاور بن کر اس کی قبر پر بیٹھ گئے اور رونا پیٹنا اور اسے یاد کرنا شروع کیا اور بڑے بےچین اور مصیبت زدہ ہوگئے ابلیس لعین نے یہ دیکھ کر انسانی صورت میں ان کے پاس آ کر ان سے کہا کہ اس بزرگ کی یادگار کیوں قائم نہیں کر لیتے؟ جو ہر وقت تمہارے سامنے رہے اور تم اسے نہ بھولو سب نے اس رائے کو پسند کیا ابلیس نے اس بزرگ کی تصویر بنا کر ان کے پاس کھڑی کر دی جسے دیکھ دیکھ کر یہ لوگ اسے یاد کرتے تھے اور اس کی عبادت کے تذکرے رہتے تھے ، جب وہ سب اس میں شمغول ہوگئے تو ابلیس نے کہا تم سب کو یہاں آنا پڑتا ہے اس لئے یہ بہتر ہو گا کہ میں اس کی بہت سی تصویریں بنا دوں تم انہیں اپنے اپنے گھروں میں ہی رکھ لو وہ اس پر بھی راضی ہوئے اور یہ بھی ہو گیا ، اب تک صرف یہ تصویریں اور یہ بت بطور یادگار کے ہی تھے مگر ان کی دوسری پشت میں جا کر براہ راست ان ہی کی عبادت ہونے لگی اصل واقعہ سب فراموش کر گئے اور اپنے باپ دادا کو بھی ان کی عبادت کرنے والا سمجھ کر خود بھی بت پرستی میں مشغول ہو گئے ، ان کا نام ود تھا اور یہی پہلا وہ بت ہے جس کی پوجا اللہ کے سوا کی گئی ۔ انہوں نے بہت مخلوق کو گمراہ کیا اس وقت سے لے کر اب تک عرب عجم میں اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش شروع ہو گئی اور اللہ کی مخلوق بہک گئی ، چنانچہ خلیل اللہ علیہ السلام اپنی دعا میں عرض کرتے ہیں میرے رب مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا ۔ یا الٰہی انہوں نے اکثر مخلوق کو بےراہ کر دیا ۔ پھر حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کے لئے بد دعا کرتے ہیں کیونکہ ان کی سرکشی ضد اور عداوت حق خوب ملاحظہ فرما چکے تھے تو کہتے ہیں کہ الٰہی انہیں گمراہی میں اور بڑھا دے ، جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور فرعونیوں کے لئے بد دعا کی تھی کہ پروردگار ان کے مال تباہ کر دے اور ان کے دل سخت کر دے انہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو جب تک کہ درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں ، چنانچہ دعاء نوح قبول ہوتی ہے اور قوم نوح بہ سبب اپنی تکذیب کے غرق کر دی جاتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 لوگ میری نافرمانی پر اڑے ہوئے ہیں اور میری دعوت پر لبیک نہیں کہہ رہے۔ یعنی ان کے اپنے بڑوں اور صاحب ثروت ہی کی پیروی کی جن کے مال و اولاد نے انہیں دنیا اور آخرت کے خسارے میں ہی بڑھایا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] یہ تھے سیدنا نوح کی تبلیغ کے چند موٹے موٹے نکات یا توحید پر مبنی دلائل جو وہ مدت مدید تک اپنی قوم کو سمجھاتے رہے۔ لیکن جب قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو اللہ کی بارگاہ میں عرض کی کہ یا اللہ ! یہ لوگ تو بس دنیا کے ہی پجاری ہیں۔ یہ صرف ان سرداروں کی ہی بات مانتے ہیں جنہیں تو نے کثرت سے مال اور اولاد دے رکھی ہے۔ میری بات سننے کو کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قال نوح رب انھم عصوتی …: یہ نوح (علیہ السلام) کی دوسری ش کیا ت ہے کہ اے میرے رب ! انہوں نے میرا کہا نہیں مانا اور ان سرداروں اور مال داروں کے پیھچے لگ گئے جنہیں تو نے مال اور اولاد عطا فرمائی، مگر وہ مال و اولاد انہیں کوی فائدہ پہنچانے کے بجائے ان کے لئے اور زیادہ خسارے کا باعث بن گئے، کیونکہ اس مال و اولاد کے غرور ہی کی وجہ سے انہوں نے حق کو ٹھکرایا اور اسی مال و اولاد کو اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کر کیق وم کو بہ کیا ا اوری ہی مال خرچ کر کے لوگوں کو اللہ کی راہ سے ہٹایا۔ ا سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کافروں کو جتنا مال و اولاد یا نعمتیں ملیں درحقیقت ان کے لئے عذاب ہی کا سامان ہے، کیونکہ اس سے وہ مزید غفلت و سرکشی اختیار کر کے جہنم کا ایندھن بنتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ اِنَّہُمْ عَصَوْنِيْ وَاتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ يَزِدْہُ مَالُہٗ وَوَلَدُہٗٓ اِلَّا خَسَارًا۝ ٢١ ۚ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عصا العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ : ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس/ 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] . ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١۔ ٢٢) غرض کہ نوح نے فرمایا اے پروردگار ان لوگوں نے میرا کہا نہیں مانا اور سرداروں کی پیروی کی جن کے مال و اولاد کی کثرت نے ان کو آخرت میں نقصان ہی پہنچایا اور جنہوں نے بڑا بھاری جھوٹ بولا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١{ قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ اِنَّـہُمْ عَصَوْنِیْ } ” نوح (علیہ السلام) نے کہا : پروردگار ! انہوں نے میری نافرمانی کی “ { وَاتَّـبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْہُ مَالُـہٗ وَوَلَدُہٗٓ اِلَّا خَسَارًا ۔ } ” اور انہوں نے ان لوگوں کی پیروی کی جن کے مال اور اولاد نے ان کے لیے سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں بڑھایا۔ “ پروردگار ! تو نے مجھے ان کی طرف رسول بناکر بھیجا تھا اور ان پر کسی پس و پیش کے بغیر میری اطاعت لازم تھی ‘ لیکن انہوں نے تو میری جی بھر کر نافرمانی کی اور اپنے ان سرداروں اور وڈیروں کی پیروی کرتے رہے جن کے مال و اولاد کی کثرت نے انہیں غرور وتکبر میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ لوگ میری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

################

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢١۔ ٢٤۔ یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دوسری شکایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یا اللہ اس قوم کے صاحب مال اور صاحب اولاد لوگوں نے اس قوم کو یہ بہکا رکھا ہے کہ اگر ہم حق پر نہ ہوتے تو یہ نعمتیں ہم کو کیونکر ملتیں۔ اس لئے تم اپنے بتوں کی پوجا ہرگز نہ چھوڑ۔ ان مال دار لوگوں کے اس بہکاوے کو حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کا بڑا مکر اور بڑا دائوں کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ان کے مال اور اولاد نے بھی ان کو یہ ایک بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے کہ مال و اولاد کے غرور کے سبب سے بھی وہ خود بھی راہ پر نہیں آتے اور دوسروں کو بھی مال و اولاد کے حیلہ سے بہکاتے ہیں پھر شکایت کی کہ یا اللہ ان بتوں کے سبب سے تیری بہت سی مخلوق گمراہی میں پڑگئی۔ ولا تزد الظلمین الا ضلالا کا مطلب یہ ہے کہ یا اللہ ان کی گمراہی یہاں تک بڑھے کہ آخر ان پر عذاب آجائے یہ بددعا ہے جو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے مشرک لوگوں کے حق میں کی ہے کیونکہ مشرک سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں۔ صحیح بخاری میں ١ ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ پانچ بت جو حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم میں تھے یہ قوم نوح کے نیک لوگوں کے نام ہیں جب یہ لوگ فوت ہوگئے تو ان کے معتقد لوگوں کو ان نیک شخصوں کی وفات کا بڑا رنج ہوا شیطان نے موقع پا کر ان کو یوں بہکایا کہ ان نیک لوگوں کی صورت کی مورتیں بنا کر تم اپنے عبادت خانہ میں رکھ لو اور ان مورتوں کے نام بھی وہی رکھو جو ان نیک لوگوں کے تھے اس سے تمہارا رنج بھی کم ہوجائے گا اور تمہارا جی بھی عبادت میں خوب لگے گا۔ چناچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا ان لوگوں کی ایک دو پشت تک تو وہ بت ان عبادت خانوں میں یوں ہی رکھے رہے پھر رفتہ رفتہ ان بتوں کی پوجا جاری ہوگئی اور پھر طوفان کے بعد یہ بت مکہ میں آگئے اس تاریخ سے ان ہی بتوں کو مکہ کے مشرک لوگ بھی پوجتے تھے ہر ایک قبیلہ کا ایک بت تھا یہ اوپر گزر چکا ہے کہ قریش میں کا ایک شخص عمرو بن لحی تھا اس نے مکہ میں یہ پانچوں بت لا کر رکھتے تھے بعض علماء نے صحیح بخاری کی ای روایت پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس روایت کی سند متصل اور پوری نہیں ہے کیونکہ اس حدیث کو عطا خراسانی نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت کیا ہے اور ابو داؤد ‘ دار قطنی وغیرہ نے صاف لکھ دیا ہے کہ عطا خراسانی کو حضرت عبد اللہ بن عباس سے ملاقات کا موقع نہیں ملا اس واسطے یہ روایت منقطع ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اس حدیث کو ابن جریج نے عطا سے روایت کیا ہے اور ابن جریج کی روایت عطا خراسانی اور عطا بن ابی رباح دونوں سے ہوا کرتی ہے۔ یہ روایت ابن جریج کی عطا بن ابی رباح سے ہے عطا خراسانی سے نہیں ہے۔ اسماء الرجال کی کتابوں سے حافظ ابن حجر کے اس جواب کی پوری تائید ہوتی ہے کس لئے کہ خود امام بخاری نے عطاء خراسانی کو اسماء الرجال کی کتابوں میں ضعیف قرار دیا ہے بلکہ جن علماء نے عطا خراسانی سے روایت کی ہے ان پر بھی امام بخاری نے اعتراض کیا ہے باوجود اس کے امام بخاری کی عادت کے یہ بالکل مخالف ہے کہ جس راوی کو خود وہ ضعیف اور قابل اعتراض ٹھہرائیں پھر اس راوی سے اپنی کتاب صحیح بخاری میں روایت کریں علاوہ اس کے جن علماء پر امام بخاری نے عطا خراسانی سے روایت کرنے کا اعتراض کیا ہے اگر خود امام بخاری عطا خراسانی سے روایت کرتے تو ان علماء کو اس بات کے کہنے کا موقع ملتا کہ خود تم نے بھی تو اپنی کتاب صحیح بخاری میں عطاخراسانی سے روایت کی ہے حالانکہ اس طرح کا کسی نے کوئی اعتراض اسماء الرجال کی کتابوں میں امام بخاری پر نہیں کیا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت عطا بن ابی رباح کی ہے عطا خراسانی کی نہیں ہے اسی واسطے حافظ ابن حجر نے تقریب میں کہا ہے کہ عطا خراسانی سے امام بخاری کا روایت کرنا درجہ صحت کو نہیں پہنچتا۔ (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة نوح ص ٧٣٢ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(71:21) رب : ای یا ربی۔ انھم : ہم ضمیر جمع مذکر غائب حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے افراد کی طرف راجح ہے۔ عصونی : عصوا ماضی جمع مذکر غائب معصیۃ وعصیان (باب ضرب) مصدر سے انہوں نے نافرمانی کی۔ انہوں نے اطاعت نہ کی، انہوں نے کہنا نہ مانا۔ عصوا اصل میں عصیوا تھا۔ ی متحرک ماقبل مفتوح ی کو الف سے بدلا۔ اجتماع ساکنین کی وجہ سے الف کر گرا دیا گیا۔ عصوا ہوگیا۔ ن وقایہ اور ی ضمیر واحد متکلم انہوں نے میرا کہنا نہ مانا۔ واتبعوا من لم یردہ مالہ وولدہ الاخسارا : واؤ عاطفہ، اتبعوا فعل بافاعل من موصولہ، مفعول اتبعوا کا۔ لم یزدہ ۔۔ الخ صلہ۔ اتبعوا ماضی جمع مذکر غائب اتباع (افتعال) مصدر۔ انہوں نے اتباع کی۔ انہوں نے کہا مانا۔ لم یزدہ : مضارع نفی جحد بلم واحد مذکر غائب زیادۃ (باب ضرب) مصدر ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب اس نے اس کو فائدہ نہ دیا۔ الا حرف استثناء خسارا مستثنیٰ ۔ گھاٹا۔ ٹوٹا۔ ضمیر واحد مذکر غائب مذکور ہے مگر مراد قوم کے سارے رؤسا ہیں۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور انہوں نے (میری قوم نے) پیروی کی یا کہا مانا ان لوگوں کا جن کے مال اور اولاد نے ان کا کچھ نہ بڑھایا (یعنی کچھ نفع نہ دیا) سوائے ٹوٹے کے۔ مطلب یہ کہ چاہیے تو یہ تھا کہ مال کی فراوانی اور اولاد کی کثرت پر وہ محسن اعظم (یعنی اللہ تعالیٰ ) کا شکر کرتے اور اپنے گناہوں پر نادم ہوکر اس کے رسول کی اطاعت کرتے اور برائیوں سے بچتے نیکیاں بجالاتے۔ اس طرح آخرت کے لئے نفع کماتے۔ لیکن ہوا یہ کہ وہ اور گھمنڈ اور تکبر میں ڈوب گئے۔ مال و اولاد کو اپنی کوششوں کا ثمرہ خیال کرنے لگے اور اس کے رسول کی مخالفت میں اور تیز ہوگئے اور اس طرح بجائے نفع کے الٹا اخروی خسارے اور محرومی کا سودا اپنے پلے باندھ لیا۔ ساری قوم بھی بجائے رسول کے اتباع کرنے کے ایسے مال دار رئیسوں کے پیچھے لگ گئی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی مجھے چھوڑ کر اپنے ان سرکش سرداروں اور مالداروں کی پیروی کرتے ہیں جنہیں ان کے مال و دولت اور اولاد نے آخرت سے اندھا کر رکھا ہے اور اس بنا پر وہ سخت نقصان میں پڑے ہوئے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٢١ تا ٢٨۔ اسرار معارف۔ لہذا پوری محنت شاقہ کے بعد نوح (علیہ السلام) نے ناامید ہوکردعا فرمائی کہ اے اللہ یہ میری بات نہیں مانتے اور ایسے کام کرتے ہیں جس میں عذاب کا خطرہ اور جان ومال کا نقصان ہے اور میرے خلاف میرے لائے ہوئے نظام کے خلاف بڑی بڑی سازشیں کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو تلقین کرتے ہیں کہ اپنے ، ود ، سواع ، یعوث ، یعوق ، اور نسر بت کو مت چھوڑ کہا گیا ہے کہ یہ پہلے گزرنے والے نیک لوگ تھے جن کے انہوں نے بت بنارکھے تھے لہذا یہ گمراہی میں حد سے گزرچکے تھے اب ان کو اس گمراہی کی ذلت میں دھنسا دے چناچہ اپنے گناہوں کے باعث غرق کردیے گئے اور آگ میں داخل ہوئے انہیں اللہ کے مقابلے میں کوئی مددگارنہ مل سکا۔ پانی اور آگ۔ بظاہر پانی میں غرق ہوئے مگر آگ میں پہنچے تو جہنم کا داخلہ تو قیامت کے بعد ہوگا ، لہذامفسرین کرام نے اس پر اجماع نقل فرمایا ہے کہ قبر میں عذاب وثواب ہوتا ہے یابرزخ کا عذاب وثواب برحق ہے کہ یہ برزخ کی آگ جس میں وہ پانی میں ڈوب کر پہنچ گئے برزخ چونکہ انتظار گاہ ہے تو جس طرح کا بندہ ہوتا ہے ویسا اس کے ٹھہرنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ نوح (علیہ السلام) نے بددعا فرمائی کہ اے اللہ روئے زمین پر کوئی کافر باقی نہ چھوڑ کہ اگر ان میں سے کوئی بھی باقی بچا تو خود بھی گمراہی پھیلاتا رہے گا اور اس کی اولاد بھی ڈھیٹ اور کافر و بدکار ہوگی یعنی ان کی برائی کا اثر ان کے صلب تک پہنچ چکا ہے ان دنوں زمین پر غالبا وہی قوم آباد ہوئی کہ سب پر غرق کا عذاب وارد ہوا۔ ہرحال میں مغفرت طلب کرنا چاہیے۔ اے اللہ مجھے معاف فرمادے ساڑھے نوسوسال کی شبانہ روز محنت کے بعد اس پر ناز نہیں بلکہ مغفرت کے طالب ہیں یہی طریق انبیاء کا ہے اور مومن مردوں اور خواتین کو میرے گھروالوں یا دیگر جو ایمان لاکر میرے گھر میں داخل ہوجائیں اور کفار پر پوری طرح سے تباہی پھیر دے کہ ان کا ہدایت نہ پانا من جانب اللہ جان چکے تھے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مراد ان شخصوں سے روس اس ہیں جن کا عوام اتباع کرتے ہیں، اور مال اور اولاد کا ان روسا کو نقصان پہنچانا بایں معنی ہے کہ مال و اولاد سبب زیادت طغیان کا ہوگیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو مدت مدید تک دن اور رات سمجھایا مگر قوم نے کھلے لفظوں میں ان کی دعوت ماننے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان الفاظ میں اپنے رب کے حضور فریاد کی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو دن اور رات، جلوت اور خلوت میں اللہ کی طرف بلاتے رہے مگر قوم نے کہا کہ تیرے کہنے پر وَدّ ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ یاد رہے یہ اس قوم کے سب سے بڑے بت تھے اور اس قوم کے فوت شدہ بزرگوں کے تخیلاتی مجسمے تھے جو انہوں نے ان کی یاد میں بنائے ہوئے تھے۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کو یہ بھی دھمکی دی کہ اگر تو باز نہ آیا تو ہم پتھر مار مار کر تجھے مار ڈالیں گے۔ (الشعراء : ١١٦) اس کے ساتھ یہ کہنے لگے کہ اے نوح (علیہ السلام) ! تیرے اور ہمارے درمیان جھگڑا طول پکڑ گیا اس لیے جس عذاب کا ہم سے وعدہ کرتا ہے اسے لے آؤ اگر تو سچا ہے۔ (ہود : ٣٢) بالآخر حضرت نوح (علیہ السلام) قوم کے رویے اور کردار سے مجبور ہو کر فریاد کرتے ہیں کہ اے میرے رب میری قوم نے مجھے یکسر طور پر جھٹلادیا ہے اور یہ اپنے بڑے لوگوں کے پیچھے لگ چکے ہیں جن کے مال اور اولاد یعنی ان کے اسباب اور افرادی قوت نے انہیں آخرت کے نقصان میں ہی آگے بڑھا یا ہے۔ انہوں نے دعوت توحید اور میرے خلاف بڑی سازشیں اور مجھ پر زیادتیاں کی ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کو ہمیشہ یہی کہا کہ اپنے معبودوں بالخصوص وُد، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو نہ چھوڑاجائے، الٰہی ! انہوں نے بیشمار لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ اے میرے رب ! اب ان کافروں میں کوئی بھی زمین پر بسنے والا باقی نہیں رہنا چاہیے اگر تو نے انہیں چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے اور ان سے جو بھی پیدا ہوگا وہ بدکردار اور پرلے درجے کا کافرپیدا ہوگا۔ میرے رب ! جب تو ان کی گرفت کرنے پر آئے تو مجھے، میرے والدین اور جو مرد و عورت مجھ پر ایمان لائے ہیں انہیں معاف فرما دے۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے دیگر معبودوں کے ساتھ اپنے لیے پانچ بڑے معبود بنا رکھے تھے جن کے سامنے رکوع و سجود کرتے، نذرو نیاز پیش کرتے اور انہیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے جن کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم جن بتوں کی پوجا کرتی تھی یہی بت لوگ عرب میں لے آئے۔ ودّ کو دومۃ الجندل والوں نے اپنا معبود بنا لیا اور سواع کو ھذیل والوں نے، یغوث کو مراد قبیلے والوں نے اور ان کے بعد بنی غطیف نے سبا بستی میں جرف مقام پر اور یعوق کو ہمدان والوں نے اور نسر کو قبیلہ حمیر والوں نے، جوذی الکلاع کی اولاد تھے اپنا معبود بنا لیا۔ یہ تمام نام نوح (علیہ السلام) کی قوم کے برگزیدہ لوگوں کے تھے، جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی قوم کو القاء کیا۔ انہوں نے ان کے مجسموں کو اس جگہ پر نصب کیا، جہاں بزرگ بیٹھا کرتے تھے اور بتوں کے نام ان کے ناموں پر رکھ دیئے گئے، پہلے لوگ ان کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے جب پہلے لوگ مرگئے تو ان کے بعدوالوں نے ان مورتیوں کی عبادت شروع کردی۔ “ (رواہ البخاری : باب (وَدًّا وَلاَ سُوَاعًا وَلاَ یَغُوثَ وَیَعُوقَ ) اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی بدعا کو قبول کیا اور ان پر ایسا سیلاب بھیجا کہ انہیں ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ (تفصیل کے لیے القمر کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ ) مسائل ١۔ قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تابعداری کرنے کی بجائے اپنے لیڈروں اور سرمایہ داروں کی پیروی کی۔ ٢۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کے بارے میں بڑی بڑی سازشیں اور ان پر بہت زیادتی کی۔ ٣۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں اور راہنماؤں نے اپنی عوام سے کہا کہ وُد، سواع، یغوث، یعوق اور نسر یعنی خداؤں ہرگز نہ چھوڑنا۔ ٤۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کے ہاتھوں مجبورہو کر بالآخر ان کے لیے بدعا کی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بدعا کے بدلے ان کی قوم کو بدترین سیلاب کے ذریعے ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ٦۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے اور اپنے والدین، مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بخشش کی دعا کی۔ تفسیر بالقرآن حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم پر آنے والے سیلاب کا ایک منظر : ١۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم ظالم تھی۔ (النجم : ٥٢) ٢۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٣۔ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابل پڑا۔ ہم نے فرمایا بیڑے میں ہر جنس دو دو جوڑے سے نرومادہ اور اپنے گھر والوں کو سوار کرلو۔ (ھود : ٤٠) ٤۔ حکم دیا گیا اے زمین ! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جاؤ۔ پانی خشک کردیا گیا اور کام تمام ہوا اور کشتی جودی پہاڑ پر جاٹھہری اور کہا گیا ظالم لوگوں کے لیے دوری ہو۔ “ (ھود : ٤٤) ٥۔ قوم نوح کو تباہ کرنے کے لیے آسمان سے موسلاد ھار بارش کے دھانے کھول دئیے گئے۔ ( القمر : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قوم کا کفر و شرک پر اصرار، حضرت نوح (علیہ السلام) کی بد دعا وہ لوگ طوفان میں غرق ہوئے اور دوزخ میں داخل کردیئے گئے ان آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی کافر قوم کی بربادی کے لیے اور اہل ایمان کی مغفرت کے لیے دعا کرنا اور قوم کی سرکشی اور قوم کی ہلاکت کا تذکرہ فرمایا ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میں نے ان لوگوں کو سمجھایا لیکن ان لوگوں نے میری بات نہیں مانی اہل دنیا کی بات مانتے ہیں جن کے پاس مال اور اولاد ہے ان کی نظریں انہیں پر جمی ہوئی ہیں اور وہ لوگ انہیں جو کچھ سمجھاتے اور بتاتے ہیں اسی کو مانتے ہیں وہ لوگ ایمان پر آنے نہیں دیتے کفر پر ہی جمے رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ لہٰذا دنیاوی رئیسوں اور چودھریوں کا مال اور اولاد ان کے عوام کے لیے خسارہ در خسارہ کا سبب بن گیا نہ وہ لوگ مال اولاد والے ہوتے نہ یہ لوگ انہیں بڑا مانتے نہ ان کے کہنے سے کفر پر جمتے، ان کے چودھریوں نے حق سے باز رکھنے کے لیے بڑی بڑی تدبیریں کیں اور انہیں تاکید کے ساتھ یہ سمجھایا کہ تم اپنے معبودوں کو جن کی عبادت کرتے ہو ہرگز مت چھوڑو، یہ تو انہوں نے اجمالاً سبق پڑھایا۔ پھر تفصیل کے ساتھ ان کے ایک ایک بت کا نام لے کر کہا کہ تم لوگ ہرگز نہ وَد کو چھوڑنا نہ سواع کو اور نہ یغوث کو اور نہ یعوق کو اور نہ نسر کو، ان رئیسوں اور چودھریوں نے قوم کے لوگوں کو کثیر تعداد میں گمراہ کردیا اب ان سے خیر کے آنے پر ذرا بھی امید نہیں رہی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے بارگاہ خداوندی میں مزید عرض کیا کہ ان کی گمراہی اور زیادہ بڑھا دیجئے۔ ان لوگوں نے حق کو قبول نہ کیا کفر پر اور خطاؤں پر جمے رہے۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے فرمایا کہ ﴿لَنْ يُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ ﴾ اب تمہاری قوم میں سے کوئی مسلمان نہ ہوگا جنہیں ایمان لانا تھا وہ لا چكے، اور یہ تھوڑے سے لوگ تھے جیسا کہ سورة ٴ ھود میں فرمایا ﴿وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِيْلٌ٠٠٤٠﴾ اور ان کے ساتھ نہیں ایمان لائے مگر تھوڑے سے لوگ، اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ ایک کشتی بنا لیں، جب کشتی تیار ہوجائے تو اپنے اہل و عیال کو اور دیگر اہل ایمان کو اس میں سوار کرلینا، حضرت نوح (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا کشتی روانہ ہوگئی آسمان سے پانی برسا اور زمین سے پانی ابلا زبردست طوفان آیا، پوری کافر قوم ہلاک ہوگئی جن میں نوح (علیہ السلام) کی بیوی اور ایک بیٹا بھی تھا، حضرت نوح (علیہ السلام) قوم کی طرف سے زیادہ بددل ہوگئے تھے، دل کھٹا ہوگیا تھا کسی کے بھی ہدایت پر آنے کی امید نہ رہی اسی لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کے لیے بددعا کردی تھی کہ اے رب کافروں میں سے کسی ایک شخص واحد کو بھی نہ چھوڑیئے اگر یہ زندہ رہے تو نہ ان سے ایمان لانے کی امید ہے اور نہ ان کی اولاد سے مومن ہونے کی امید ہے، ان کی جو اولاد ہوگی وہ بھی کافر اور فاجر ہی ہوگی جب ان کا یہ حال ہے تو زمین پر کیوں بوجھ بنیں، ان کا ہلاک ہونا ہی زیادہ لائق اور مناسب ہے پھر حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے لیے مغفرت کی دعا کی اس میں اپنے ساتھ والدین اور ان مسلمانوں کو جو ان کے گھر میں داخل ہوئے اور عام مومنین اور مومنات کو بھی شامل کرلیا اور آخر میں کافروں کو مزید بد دعا دے دی کہ اے رب ظالموں کی ہلاکت اور زیادہ بڑھا دیجئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” قال نوح “ حضرت نوح (علیہ السلام) نے مزید عرض کیا میرے پروردگار، انہوں نے میری نافرمانی کی ہے اور میری کوئی بات نہیں مانی اور ان رؤسا اور صنادید کفر کی پیروی میں لگ گئے جنہیں مال و اولاد سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ بلکہ مال و اولاد اور تمام دنیوی ساز و سامان ان کے لیے سراسر خسارہ اور نقصان کا باعث ہے۔ کیونکہ مال واولاد کی وجہ سے وہ کبر و غرور میں مبتلا ہوگئے اور ایمان سے استکبار کیا اس طرح دنیوی وجاہت ان کے لیے اخروی خسارے کا باعث بن گئی۔ ” اتبعوا “ سے عوام مشرکین مراد ہیں اور ” من “ سے رؤسائے مشرکین۔ ای واستمروا علی اتباع رؤسائہم الذین ابطرتہم اموالہم وغرتہم اولادہم وصار ذلک سببا لزیادۃ خسارہم فی الاخرۃ الخ (روح ج 29 ص 76) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) حضرت نوح (علیہ السلام) نے عرض کی اے میرے پروردگار ان لوگوں نے یعنی میری قوم نے میرا کہا نہ مانا اور انہوں نے ایسے لوگوں کی پیروی کی اور ان کے کہنے پر چلے جن کے مال اور اولاد نے ان کے نقصان اور خسارے میں اضافہ ہی اضافہ کیا۔