Surat Nooh

Surah: 71

Verse: 26

سورة نوح

وَ قَالَ نُوۡحٌ رَّبِّ لَا تَذَرۡ عَلَی الۡاَرۡضِ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا ﴿۲۶﴾

And Noah said, "My Lord, do not leave upon the earth from among the disbelievers an inhabitant.

اور ( حضرت ) نوح ( علیہ السلام ) نے کہا کہ اے میرے پالنے والے! تو روئے زمین پر کسی کافر کو رہنے سہنے والا نہ چھوڑ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And Nuh said: "My Lord! Leave not one of the disbelievers on the earth Dayyar!" meaning, do not leave a single one of them on the face of the earth, not even a lone individual. This is a method of speaking that gives emphasis to the negation. Ad-Dahhak said, "Dayyar means one." As-Suddi said, "Dayyar is the one who stays in the home." So Allah answered his supplication and He destroyed all of those on the face of the earth who were disbelievers. He (Allah) even destroyed Nuh's (biological) son from his own loins, who separated himself from his father (Nuh). He (Nuh's son) said, سَأوِى إِلَى جَبَلٍ يَعْصِمُنِى مِنَ الْمَأءِ قَالَ لاَ عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلاَّ مَن رَّحِمَ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ I will betake myself to some mountain, it will save me from the water. Nuh said: "This day there is no savior from the decree of Allah except him on whom He has mercy." And waves came in between them, so he (the son) was among the drowned. (11:43) Allah saved the people of the ship who believed with Nuh, and they were those whom Allah commanded Nuh to carry with him. Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 یہ بددعا اس وقت کی جب حضرت نوح (علیہ السلام) ان کے ایمان لانے سے بالکل ناامید ہوگئے اور اللہ نے بھی اطلاع کردی کہ اب ان میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا (وَاُوْحِيَ اِلٰي نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ يُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ 36؀ښ) 11 ۔ ہود :36) مطلب ہے کسی کو باقی نہ چھوڑ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے یہ دعا قوم کے رویہ سے تنگ آکر غصہ کی حالت میں اور بےصبری کی بنا پر کی ہوگی۔ جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے آپ نے یہ دعا بےصبری کی بنا پر نہیں بلکہ ساری عمر یعنی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے بعد تجربہ کی بنا پر اور نہایت مایوسی کے عالم میں کی تھی۔ اور آپ کی دعا اللہ کی مشیئت کے عین مطابق تھی۔ اگر آپ ایسی دعا نہ بھی کرتے تو بھی ان پر عذاب کا مقرر وقت آچکا تھا اور اس کی دلیل سورة ہود کی آیت ٣٦ ہے جو اس طرح ہے : اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے جو لوگ ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا اب اور کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے لہذا اب ان کی کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑ دو ۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وقال نوح رب لاتذر…: یہاں سے نوح (علیہ السلام) کی دعا کا بقیہ حصہ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کو کیسے سے معلوم ہوا کہ اگر یہ لوگ زندہ رہے تو ان کی پشت سے کافر ہی پیدا ہوں گے ؟ جواب یہ ہے کہ یہ بات (رض) نے خود نوح (علیہ السلام) کو بتا ید تھی کہ آپ کی قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے علاوہ اب کوئی شخص ایمان قبول نہیں کرے گا۔ (دیکھیے ہود : ٣٦) یہ بات معلوم ہونے کے بعد نوح (علیہ السلام) نے دعا کی کہ یا اللہ ! زمین پر ان کافروں میں سے ایک ”’ یار “ بھی باقی نہ چھوڑو۔ ”’ یارا “ ’ فیعال “ کے وزن پر ہے، یہ ”’ دار یدور دوراً “ (گھومنا) سے ہو تو معنی ہوگا، ایک پھرنے والا بھی نہ چھوڑ اور اگر ”’ دار “ (گھر) سے مشتق ہو تو معنی ہے، گھر میں بسنے والا ایک فرد بھی باقی نہ چھوڑ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا۝ ٢٦ نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» . ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(71:26) رب : ای یا ربی۔ لاتذر۔ فعل نہی واحد مذکر حاضر، نہ چھوڑ، نیز ملاحظہ ہو : 70:42 ۔ علی الارض۔ میں الارض کا لاف لام عہدی ہے مخصوص زمین یعنی وہ زمین جس میں قوم نوح آباد تھی۔ مطلب یہ کہ اس قوم کی زمین پر کسی کافر کو چلتا پھرتا نہ چھوڑ۔ من الکفرین۔ میں من تبعیضیہ نہیں ہے بیانہ ہے بیان جنس کے لئے ہے جیسے اور جگہ آیا ہے فاجتبوا الرحمن من الاوثان (22:30) تو بتوں کی پلیدی سے بچو۔ یہاں بھی آیت زیر مطالعہ میں من الکفرین سے کافروں کی جنس مراد ہے اور کافروں سے مراد بھی وہ کافر مراد ہیں جن کی طرف حضرت نوح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے۔ دیارا۔ بسنے والا۔ گھومنے اور چلنے پھرنے والا۔ دور (باب نصر) مصدر سے بمعنی گھومنا۔ چلنا پھرنا۔ دیار دور سے فیعال کے وزن پر اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے اصل دیوار تھا واؤ کی حرکت ماقبل کو دی پھر واؤ کو ی سے بدل دیا۔ ی کو ی میں مدغم کیا۔ دیار ہوگیا۔ گھومنے، چلنے پھرنے والا۔ دیار ان اسماء میں سے ہے جو فعل منفی کے بعد آکر عموم کا فائدہ دیتے ہیں یعنی کسی ایک کافر کو بھی زمین پر چلتا پھرتا نہ چھوڑ (ابن کثیر)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یعنی سب کو ہلاک کر دے۔ یہ بد دعا حضرت نوح نے اس وقت فرمائی جب وہ قوم کے ایمان لانے سے بالکل مایوس ہوگئے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ بد دعا اس وقت کی جب اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف یہ وحی فرمائی انہ لن یومن من قومک الا من قدا من یعنی آپ کی قوم کے جو لوگ ایمان لانے والے تھے لے آئے اب کوئی نیا آدمی ایمان نہ لائے گا۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقال نوح ........................ الاتبارا حضرت نوح (علیہ السلام) کے قلب مبارک پر یہ الہام آگیا تھا کہ اس ناپاک زمین کو غسل دینا مقصود ہے اور ظالموں اور سرکشوں نے اس کو شروفساد سے بھر دیا ہے۔ یہ شر اس قدر غالب ہوگیا ہے اور اس قدر جم گیا ہے کہ اس نے دعوت دین کو جامد کرکے رکھ دیا ہے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے کے لوگ اب ناقابل اصلاح ہوگئے ہیں اور بارہا ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی وقت اہل زمین ناقابل اصلاح ہوجائیں تو ان پر عام تباہی آتی ہے اور اس طرح اللہ زمین کی تطہیر فرما دیتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تک حضرت نوح (علیہ السلام) پہنچ چکے تھے۔ اس لئے انہوں نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ، ان لوگوں کو ختم کردے ، ظالموں کو بیخ وبن سے اکھاڑ دے ، کوئی زندہ وجود باقی نہ رہے ، اور انہوں نے دلیل بھی دے دی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” وقال نوح “ حضرت نوح (علیہ السلام) نے آخر اللہ تعالیٰ سے دعا کی : میرے پروردگار ! ان مشرکین میں سے اس دھرتی پر ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑ۔ ” انک ان تذرھم “ اگر تو ان کو ہلاک نہیں کرے گا اور ان کو زندہ چھوڑ دے گا تو وہ تیرے مومن بندوں کو بھی مکر و فریب سے گمراہ کردیں گے اور ان کی نسلوں میں بھی مشرکوں اور فاجروں کے سوا کوئی مومن اور موحد نہیں ہوگا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بد دعاء پہلے تھی، قوم کی غرقابی بعد میں ہوئی۔ لیکن نظم قرآن میں دونوں کا ذکر معکوس ہے یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ واوؤ مطلق جمع کے لیے ہوتی ہے اور ترتیب کی مقتضی نہیں۔ اہل بدعت کہتے ہیں اس آیت سے حضرت نوح (علیہ السلام) کا غیب دان ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ یہ مشرکین تیرے بندوں کو گمراہ کردیں گے اور ان کی نسلوں میں فساق و فجار کے سوا کوئی نہیں ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے مطلع فرما دیا تھا کہ اب ان میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لائے گا اور نہ ان کی نسل سے کوئی مؤمن پیدا ہوگا۔ چناچہ ارشاد ہے۔ واوحی الی نوح انہ لن یومن من قومک الا من قد امن۔ الایۃ (ہود رکوع 4) اور جو علم وسائل سے حاصل ہو وہ علم غیب نہیں ہوتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) اور نوح نے یہ بھی کہا اے میرے پروردگار آپ ان کافروں میں سے زمین پر کسی بسنے والے کو باقی نہ چھوڑئیے۔