Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 20

سورة الجن

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَدۡعُوۡا رَبِّیۡ وَ لَاۤ اُشۡرِکُ بِہٖۤ اَحَدًا ﴿۲۰﴾

Say, [O Muhammad], "I only invoke my Lord and do not associate with Him anyone."

آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Say: "I invoke only my Lord, and I associate none as partners along with Him." meaning, when they harmed him, opposed him, denied him and stood against him in order to thwart the truth he came with, and to unite against him, the Messenger said to them إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي (I invoke only my Lord), meaning, `I only worship my Lord alone, and He has no partners. I seek His help and I put my trust in Him.' وَلاَ أُشْرِكُ بِهِ أَحَدً ا (and I associate none as partners along with Him). The Messenger does not have Power to harm or give Guidance Concerning Allah's statement, قُلْ إِنِّي لاَ أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلاَ رَشَدًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 یعنی جب سب آپ کی عداوت پر اتر آئے ہیں تو آپ کہہ دو کہ میں تو صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اسی سے پناہ طلب کرتا ہوں اور اسی پر بھروسہ کرتا ہوں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان ہجوم کرنے والے کافروں سے کہیے کہ میں کوئی قابل اعتراض باتیں تو نہیں کہہ رہا میں تو صرف یہی کہتا ہوں کہ مشکل کے اوقات میں یا کسی حاجت کے موقع پر صرف اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں اور صرف اسی کو پکارتا ہوں۔ اس لیے کہ میں صرف اسی کو اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھتا ہوں اس میں لڑنے جھگڑنے کی کیا بات ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(قل انما ادعواربی…:) یعنی تمہیں جتنا بھی ناگوار ہو اور تم روکنے کے لئے جتنے بھی جمع ہوجاؤ، میں تو صرف اپنے رب ہی کو پکاروں گا، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کروں گا۔ ندائے غیر اللہ کی حرمت کی آیات کے لئے دیکھیں گزشتہ آیت (١٨) کی تفسیر ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّيْ وَلَآ اُشْرِكُ بِہٖٓ اَحَدًا۝ ٢٠ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ فرما دیجیے کہ میں تو صرف اپنے پروردگار کی عبادت کرتا ہوں اور تمام مخلوق کو اسی طرف لاتا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20 "Servant of AIIah": the Holy Prophet (upon whom be peace) .

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :21 یعنی خدا کو پکارنا تو کوئی قابل اعتراض کام نہیں ہے جس پر لوگوں کو اس قدر غصہ آئے ، البتہ بری بات اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص خدا کے ساتھ کسی اور کو خدائی میں شریک ٹھہرائے ، اور یہ کام میں نہیں کرتا بلکہ وہ لوگ کرتے ہیں جو خدا کا نام سن کر مجھ پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:20) ادعوا ربی : ادعوا مضارع واحد متکلم دعوۃ (باب نصر) مصدر۔ میں پکارتا ہوں۔ ربی مضاف مضاف الیہ۔ میرا رب، اپنے رب کو۔ ترجمہ :۔ آپ کہہ دیں میں تو اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں۔ یعنی صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ لااشرک۔ مضارع منفی واحد متکلم۔ میں شریک نہیں ٹھہراتا۔ احدا کسی کو۔ مفعول لا اشرک کا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٢٠ تا ٢٨۔ اسرار ومعارف۔ آپ فرمادیجئے کہ میں صرف اپنے پروردگار کی عبادت کرتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں کرتا اور یہ بھی واضح فرمادیجئے کہ اللہ کی طرف سے میں تمہارے بھلے برے کا ذمہ دار نہیں ہوں نہ یہ فرائض نبوت میں سے ہے کہ میں بھی اللہ کی مخلوق اور اس کا بندہ ہوں خود میرے سب معاملات بھی اسی کے دست قدرت میں ہیں اور اس کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہیں ہاں میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کا پیغام پہنچانا میرافریضہ ہے اور یہ بات طے ہے کہ جو اللہ کی نافرمانی کرے گا یعنی اس کے رسول کے لائے ہوئے پیغام کو قبول نہیں کرے گا اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ تڑپے گا لیکن جن بدبختوں کو توفیق ایمان نہ ہوئی وہ آپ کے دوسرے ارشادات کب مانیں گے جب آخرت کو دیکھیں گے یا وہ وعدہ عذاب جو کفر پر ہے سامنے آئے گا تو انہیں پتہ چلے گا کہ کون کمزور ہے اور تھوڑی قوت رکھتا ہے کفار کا خیال تھا چند مسلمان جو کمزور سے ہیں بھلا کیا کرسکیں گے مگر انہوں نے وعدہ الٰہی دنیا میں بھی دیکھ لیا اور آخرت میں بھی دیکھ لیں گے ان سے کہہ دیجئے کہ قیامت کا وقت اللہ کے علم میں ہے اور نبی کے ذمہ یہ نہیں کہ قیامت کا دن اور گھڑی بتائے۔ اور نہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے کہ کیا خبر وہ بہت قریب ہو یا ایک مدت کے بعد ہو ہاں ہوگی یقینا تو رہا معاملہ غیب کا وہ صرف اللہ کو حاصل ہے اور کسی پر اس کو ظاہر نہیں کرتا سوائے اپنے رسول کے جسے چن لیتا ہے اور اس پر بھی جو وحی آتی ہے اس میں سوائے نبی کے کوئی نہیں جان سکتا کہ اس کے ہر طرف بھی پہرے ہوتے ہیں تاکہ سلامتی سے پہنچے اور ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور کائنات کا ہر ذرہ اس کے شمار میں ہے۔ علم غیب۔ یاد ہے علم غیب خاصہ باری تعالیٰ ہے جو بغیر کسی ذریعے اور واسطے کے جانتا ہے لہذا اس کی صفت ہے علم الغیب کہ کائنات کے ہر ذرے میں کتنے ایٹم ہیں اور ان کے اندر کیا ہے سب جانتا ہے ہر وقت جانتا ہے اسی غیب کی نفی ہے رہی غیب کی خبر جن کا اوپر بیان ہوا ہے وہ منصب رسالت ونبوت کے لیے جس قدر ضروری ہو تمام انبیاء کو نصیب ہوتی ہے اور آپ کو کائنات میں سب سے زیادہ حاصل ہے مگر اس کے باوجود آپ اللہ کی صفات میں شریک نہیں ہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی یہ جائز نہیں کہ کوئی سجدہ اللہ کو کیا جاوے اور کوئی سجدہ غیر اللہ کو جیسا مشرکین کرتے تھے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل انما ............................ شیء عددا اے محمد آپ یہ اعلان کردیں۔ انما .................... احد (٢٧ : ٠٢) ” میں تو اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا “۔ یہ اعلان اس وقت آتا ہے جب جنات بھی اپنی قوم کے سامنے یہ اعلان کرتے ہیں۔ ولن ................ احد (٢٧ : ٢) ” اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے “۔ یوں اس اعلان کا بہت اثر ہوگا۔ اور یہ اعلان بیک وقت وقت جن وانس کا اعلان ہوجائے گا۔ اور یہ اعلان دونوں کی شناخت ہوگا۔ اور جو شخص اس اعلان سے برات کرے گا وہ گویا جن وانس دونوں سے اپنے آپ کو علیحدہ کردے گا۔ وہ دونوں جہانوں اور دونوں آبادیوں سے دور ہوگا۔ قل انی .................... رشدا (٢٧ : ١٢) ” کہو ، ” میں تم لوگوں کے لئے کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کا “۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ خالص اللہ کے لئے ہوجائیں اور ہر قسم کے دعوے سے دستبردار ہوجائیں اور صاف صاف اعلان کردیں کہ اللہ کی خصوصیات میں سے کوئی خصوصیت بھی مجھے حاصل نہیں ہے بلکہ یہ کہ میں بندہ ہوں اور اللہ کے لئے کوئی شریک نہیں ٹھہراتا۔ یہ صرف اللہ ہے جو انسانوں کے نفع ونقصان کا مالک ہے۔ یہاں قرآن مجید ضرر اور مضرت کے مقابل رشد وہدایت کو لایا اور یہی بات جنات نے بھی کہی تھی۔ وانا لا ندری .................................... رشدا (٢٧ : ٠١) ” اور یہ کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ زمین والوں کے ساتھ کوئی بڑا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کا رب انہیں راہ راست دکھانا چاہتا ہے ؟ “ یوں دونوں آیات اور دونوں اقوال کے درمیان مناسبت پیدا ہوگئی۔ الفاظ میں بھی اور مفہوم میں بھی اور یہ مناسبت قصے اور اس پر تبصرے دونوں مقصود ہے۔ یہاں قرآن کریم جنات سے بھی اس بات کی نفی کردیتا ہے کہ وہ کسی کو نفع یا نقصان دے سکتا ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی یہ تردید کردی جاتی ہے کہ آپ کسی کو نفع یا نقصان دے سکتا ہیں اور نفع ونقصان دینا اللہ کی خصوصیت قرار پاتا ہے۔ یوں اسلامی عقیدہ اور اسلامی تصور حیات صاف ستھرا ہوکر سامنے آجاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

توحید کی دعوت، کفر سے بیزاری، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا، نافرمانوں کے لیے دائمی عذاب ہے ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت حق کا اور نافرمانوں کی تعذیب کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ شانہ کی صفت علم کمال اور جامعیت کا بیان ہے پہلے تو یہ فرمایا ﴿ قُلْ اِنَّمَاۤ اَدْعُوْا رَبِّيْ ﴾ (الآیات الاربع) کہ آپ مخاطبین سے یہ فرما دیں کہ میں صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا (جو اپنے لیے میرا ذاتی فیصلہ ہے اور یقین کے ساتھ ہے اسی کی طرف میں تمہیں بھی دعوت دیتا ہوں) آپ یہ بھی بتادیں کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس کی مخلوق ہوں، اس کا رسول ہوں میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق کی دعوت دیتا ہوں کسی ضرر یا کسی بھلائی کے پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا (تم جو یوں کہتے ہو کہ آپ رسول ہیں تو ہم پر عذاب نازل کردیں تمہاری یہ فرمائش غلط ہے عذاب لانا میرے اختیار کی بات نہیں ہے اور جب عذاب آجائے اس کو دور کرنا بھی میرے بس کا کام نہیں ہے) اور یہ بھی سمجھ لو کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا کوئی کام کروں اور اللہ تعالیٰ میرا مواخذہ فرمائے تو مجھے اس کی گرفت سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ میں اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ پاسکتا ہوں لہٰذا مجھ سے فرمائش کرتے ہو کہ رسالت کا کام چھوڑ دوں یا رسالت کے مضامین کو بدل دوں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا، اللہ کی طرف سے پیغام پہنچانا اس کے پیغام کو ادا کرنا میرا یہی کام ہے اگر تم نہ مانو گے اور اللہ کی نافرمانی کرو گے اور میری نافرمانی کرو گے تو سمجھ لو کہ نافرمان کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں نافرمان ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” قل انما ادعوا “ یہ سورة ملک اور حوامیم کا خلاصہ ہے۔ آپ اعلان کردیجئے کہ میں حاجات و مصائب میں غائبانہ نہ صرف اپنے رب ہی کو پکارتا ہو اور اس کی دعاء و پکار میں کسی کو شریک نہیں کرتا ہوں پھر اس سے بطور ترقی حکم دیا ” قل انی لا املک لکم ضرا ولا رشدا “ فرمایا یہ بھی اعلان کردو کہ میں تمہارے نفع و نقصان کا مالک و مختار نہیں اور نہ تمہاری گمراہی اور ہدایت میرے اختیار میں ہے۔ جیسا کہ جن و انس کے گمراہ کن راہنما عوام کو اپنے مالک نفع و ضرر ہونے کا یقین دلاتے۔ اگر کوئی کسی حادثہ مصیبت میں آپ کی پناہ لے تو آپ صاف فرما دیں کہ میرا اپنا حال یہ ہے کہ میں خود خدا کے غضب سے اس کی پناہ کے بغیر نہیں بچ سکتا اس لیے دوسروں کو کس طرح پناہ دے سکتا ہوں ؟ (تفسیر عزیزی ص 170) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) اے پیغمبر آپ ان سے کہہ دیجئے میں تو صرف اپنے پروردگار کی عبادت کرتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ یعنی میرا طریقہ تو توحید کا طریقہ ہے صرف اللہ تعالیٰ کی پرستش کرتا ہوں اور اس کے ساتھ اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ۔ اب آگے رسالت کے متعلق مذکور ہے۔