Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 21

سورة الجن

قُلۡ اِنِّیۡ لَاۤ اَمۡلِکُ لَکُمۡ ضَرًّا وَّ لَا رَشَدًا ﴿۲۱﴾

Say, "Indeed, I do not possess for you [the power of] harm or right direction."

کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Say: "It is not in my power to cause you harm, or to bring you to the right path." meaning, `say: I am only a man like you all and I have received revelation. I am only a servant among the servants of Allah. I have no control over the affairs of your guidance or your misguidance. Rather all of these things are referred to Allah.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی مجھے تمہاری ہدایت یا گمراہی کا یا کسی اور نفع نقصان کا اختیار نہیں ہے میں تو صرف اس کا ایک بندہ ہوں جسے اللہ نے وحی و رسالت کے لیے چن لیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] میرے اختیار میں صرف اتنی ہی بات ہے کہ اللہ کی طرف سے مجھ پر جو وحی آتی ہے وہ میں تم لوگوں تک پہنچا دوں۔ اگر اسے تسلیم کرلو گے تو اس میں یقیناً تمہارا فائدہ ہے۔ مگر یہ میرے اختیار میں نہیں کہ تم کو بھی راہ راست پرلے آؤں یا اگر نہ آؤ تو تمہیں کچھ نقصان پہنچا سکوں۔ ہر طرح کا فائدہ اور نقصان اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(قل انی لا املک لکم…: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاف اعلان کرنے کا حکم دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسروں کے لئے نہ نفع کے مالک ہیں نہ نقصان کے اور نہ ہی ہدایت اور گمراہی کا اختیار رکھتے ہیں۔ ” ضراً “ کے مقابلے میں ” نفعاً “ اور ” رشداً “ کے مقابلے میں ” غیاً “ حذف کردیا ہے، کیونکہ وہ الفاظ خود بخود معلوم ہو رہے ہیں۔ ایک اور مقام پر یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود اپنے نفع یا نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔ (دیکھیے اعراف : ١٨٨ ) اور کئی مقامات پر واضح فرمایا کہ اللہ کے علاوہ جن لوگوں کو ب ھی پکارا جاتا ہے وہ ذرہ برابر چیز کا بھی اختیار نہیں رکھتے (مثلاً دیکھیے سبا : ٢٢۔ فاطر : ٣ ۃ) اتنی صراحت کے بعد بھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یا دوسرے انبیاء و اولیاء کو اپنے نفع و نقصان کا مالم سمجھے تو اسے خود ہی سوچنا چاہیے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے فرمان کی کیا قدر کی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا۝ ٢١ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ ملك ( مالک) فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وقال : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] وفي غيرها من الآیات ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں رشد الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] ( ر ش د ) الرشد والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

محمد آپ ان مکہ والوں سے فرما دیجیے کہ تم سے عذاب و نقصان کے دور کرنے اور تمہیں نفع پہنچانے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١{ قُلْ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا ۔ } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ مجھے کوئی اختیار نہیں تمہارے لیے کسی نقصان کا اور نہ راہ پر لانے کا۔ “ سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے ‘ میں خود کسی کو ہدایت نہیں دے سکتا۔ اس حوالے سے سورة القصص کی یہ آیت بہت واضح ہے : { اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ } (آیت ٥٦) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہدایت نہیں دے سکتے جس کو چاہیں ‘ بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21 That is, to call upon Allah is no objectionable thing, which may so provoke the people. The evil thing, however, is that one should associate another with Allah in His divinity, and this I never do; this is done by those who mob and surround me when they hear God mentioned by me.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:21) لا املک : مضارع منفی واحد متکلم ملک (باب ضرب) مصدر سے۔ میں مالک نہیں ہوں۔ میں اختیار نہیں رکھتا ہوں۔ ضرا۔ مصدر ہے۔ ضر یضر (باب نصر) سے ۔ بمعنی ضرر پہنچانا۔ میں اختیار نہیں رکھتا تمہیں ضرر پہنچانے کا ۔ ولا رشدا۔ اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ رشدا مصدر ہے رشد یرشد (باب نصر) سے بمعنی راہ راست پر چلنا۔ اور نہ (میں اختیار رکھتا ہوں تمہارے) راہ راست پر چلنے کا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل انی .................... ملتحد (٢٢) الا بلغا ............ اللہ ورسلتہ (٢٧ : ٣٢) ” کہو ، ” مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی بچا نہیں سکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پاسکتا ہوں۔ میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچادوں “۔ یہ ایک نہایت ہی خوفناک دھمکی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسالت کا معاملہ کس قدر نازک اور سنجیدہ ہے۔ رسالت اور دعوت اسلامی نہایت حساس امور ہیں۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اس بات کا اعلان کردیں کہ مجھے اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ، بچنے کی صورت صرف یہ ہے کہ میں تبلیغ کروں میرے پاس اللہ کی جو امانت ہے اسے پہنچا دوں۔ یہی ایک معاملہ ہے جس کی گارنٹی دے دی گئی ہے۔ اس معاملے میں میرے اختیارات نہیں۔ میں تو صرف تبلیغ پر مامور ہوں اور اس کے سوا میرے لئے کوئی اور صورت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تو لازمی سروس ہے۔ اور میں اس سے کہیں بھاگ نہیں سکتا۔ نہ کوئی جائے پناہ ہے۔ ایسی پناہ گاہ جہاں میں بچ سکوں۔ میرے لئے صرف یہ صورت ہے کہ میں اپنا فریضہ ادا کرتا رہوں۔ ذرا غور کیجئے کس قدر نازک ، سنجیدہ اور خوفناک معاملہ ہے رسالت اور دعوت کا۔ یہ کوئی رضاکارانہ معاملہ نہیں ہے کہ کوئی چاہے تو دعوت پیش کرے اور کوئی نہ چاہے تو چھوڑ دے۔ یہ ایک لازمی سروس کی ڈیوٹی ہے۔ نہایت حساس ڈیوٹی ہے۔ اللہ دیکھ رہا ہے اور اللہ سے کوئی کہیں بھاگ نہیں سکتا۔ یہ کوئی ذاتی شغل اور ہابی (Hobby) بھی نہیں ہے کہ کوئی ذاتی خوشی اور حصول لذت کے لئے یہ کام کرے تو یہ حاکم مطلق کا حکم ہے۔ اور اس سے روگردانی نہیں کی جاسکتی ۔ نہ اس میں کوئی تردد کرسکتا ہے ، یوں دعوت اسلامی کی نوعیت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ رسول کے بعد کے انسانوں میں آنے والے داعی بھی از سر نو اس کی حیثیت کو سمجھیں کہ یہ ایک لازمی فریضہ ہے اور نہایت حساس ، سنجیدہ معاملہ ہے اور اللہ جو کبیر اور متعال ہے ، خود اس کا نگران ہے۔ ومن ................ ابدا (٣٢) حتی اذا .................... عدد (٢٧ : ٤٢) ” اب جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات نہ مانے گا اس کے لئے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے “۔ (یہ لوگ اپنی اس روش سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کا جتھا تعداد میں کم ہے۔ یہ ظاہری اور درپردہ دونوں انداز میں ایک خوفناک شہدید اور ڈراوا ہے ، ان لوگوں کے لئے جن کے پاس یہ پیغام پہنچ جائے اور وہ اس سے روگردانی کریں جبکہ اس سے قبل ان لوگوں کو سخت تنبیہ کردی گئی کہ جو قبول کرلیں پھر وہ دوسروں تک نہ پہنچائیں۔ اگر مشرکین کو یہ ناز ہے کہ وہ قوت رکھتے ہیں اور ان کی تعداد زیادہ ہے اور وہ اس کا مقابلہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کی کمزور قوت اور قلت تعداد سے کرتے ہیں تو ان کو جلد ہی اپنی قوت کا اندازہ ہوجائے گا ، جب وہ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے جس سے ان کو ڈرایا جارہا ہے۔ یا تو دنیا ہی میں دیکھ لیں اور یا آخرت میں دیکھ لیں گے کہ۔ من اضعف ................ عددا (٢٧ : ٤٢) ” کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کا جتھا تعداد میں کم ہے “۔ کوئی ضعیف ، ناتواں اور بےوقار ہے۔ اور کون زور آور ہے۔ اب ذرا پیچھے لوٹیئے کہ جنات نے کیا کہا تھا : وانا ظننا ........................ ھربا (٢٧ : ٢١) ” اور یہ کہ ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کرسکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اسے ہراسکتے ہیں “۔ یوں اس قصے پر تبصرہ کے الفاظ قصے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ گویا اس پورے قصے کا مقصد ہی یہ تھا کہ اس پر یہ تبصرہ کیا جائے کہ اللہ کو کوئی ہرا نہیں سکتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تمہارے لئے نہ کسی ضرر اور نقصان کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا۔ یعنی تمہاری برائی اور بھلائی کا مجھے کوئی اختیار نہیں ہے نہ میں تم پر عذاب لاسکتا ہوں نہ تم کو ہدایت دے سکتا ہوں۔