Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 26

سورة الجن

عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾

[He is] Knower of the unseen, and He does not disclose His [knowledge of the] unseen to anyone

وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2 6 ۔ 1 یعنی اپنے پیغمبر کو بعض امور غیب سے مطلع کردیا جاتا ہے جن کا تعلق یا تو اس کے فرائض رسالت سے ہوتا ہے یا وہ اس کی رسالت کی صداقت کی دلیل ہوتے ہیں اور ظاہر بات ہے کہ اللہ کے مطلع کرنے سے پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوجاتا۔ لہذا عالم الغیب صرف اللہ ہی کی ذات ہے جیسا کہ یہاں بھی اس کی صراحت فرمائی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse [ 26] is the proof of the preceding verse. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) does not know whether the promised day is close or whether a longer time is appointed for it, because Allah alone is the knower of the Unseen. That is His exclusive characteristics, and therefore He does not divulge His Unseen to anyone. The definite article alif lam in al-ghaib &the Unseen& is grammatically referred to as alif lam for istighraq lil jins &the article encompassing and indicating the entire genus& [ as stated in Ruh with reference to Radi, that is, He is Omniscient - knowing every species of the Unseen and all genera of the Unseen. In the idafah [ possessive case ] construction ghaibihi &His Unseen&, the possessive pronoun refers to &Allah& and reinforces His predominance over the Unseen. Allah&s knowledge comprehends and encompasses every infima species [ species of species ] and every summum genus [ genus of genera ] of His creation. This is a specialized attribute of Allah. He does not divulge His Unseen to anyone indiscriminately, so that he may store and retrieve the secrets of the unknown world as and when he wishes. The purport of the verse under comment is to affirm the totality of Allah&s knowledge of the Unseen so that He alone is fully aware of every particle of His creation, and to negate such total knowledge of the Unseen for anyone other than Allah. It was possible that an unintelligent person might surmise that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) did not have any knowledge of the Unseen - so, how can he be a Messenger? Allah reveals to a Messenger thousands of secrets of the Unseen. Anyone to whom no revelation comes down cannot be a Prophet or a Messenger. Thus the following verse makes an exception: إِلَّا مَنِ ارْ‌تَضَىٰ مِن رَّ‌سُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَ‌صَدًا ﴿٢٧﴾ (...except a messenger whom He chooses [ to inform through revelation ], and then He appoints [ angels as ] watching guards before him and behind him, [ so that devils may not tamper with the divine revelation,].... 72:27)

دوسری آیت میں اس کی دلیل ارشاد فرمائی۔ عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًا یعنی قیامت کے وقت معین سے میری بیخبر ی اس لئے ہے کہ میں عالم الغیب نہیں بلکہ عالم الغیب ہونا صرف اللہ رب العالمین کی خصوصی صفت ہے۔ اس لئے وہ اپنے غیب پر کسی کو بھی غالب و قادر نہیں بناتا۔ یہاں عالم الغیب میں الغیب کا الف لام استغراق جنس کے لئے ہے (کمافی الروح عن الرضی) یعنی عالم ہر فرد غیب اور جنس غیب کا اور علی غیبہ میں غیب کی اضافت اللہ کی طرف کرنے سے بھی اسی استغراق اور جامعیت کا اظہار مقصود ہے، یعنی ہر ہر فرد و جنس غیب کا علم جو اللہ رب العالمین کا مخصوص وصف ہے اس پر وہ کسی کو قادر و غالب نہیں کرتا کہ کوئی جس غیب کو چاہئے معلوم کرلے۔ مقصود اس کلام سے علم غیب کلی کا جس سے جہان کا کوئی ذرہ مخفی نہ ہو اس کی غیر اللہ سے نفی اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اثبات ہے۔ لیکن کسی بیوقوف کو اس سے یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی بھی غیب کی چیز کیخ بر نہیں تو پھر وہ رسول کیا ہوئے کیونکہ رسول کے پاس تو اللہ تعالیٰ ہزاروں غیب کی خبریں بذریعہ وحی بھیجتے ہیں اور جس کے پاس اللہ کی وحی نہ آئے وہ نبی و رسول نہیں کہلا سکتا۔ اس لئے آگے آیت میں ایک استثناء کا ذکر فرمایا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْہِرُ عَلٰي غَيْبِہٖٓ اَحَدًا۝ ٢٦ ۙ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے ظَهَرَ ظاهر هونا الشّيءُ أصله : أن يحصل شيء علی ظَهْرِ الأرضِ فلا يخفی، وبَطَنَ إذا حصل في بطنان الأرض فيخفی، ثمّ صار مستعملا في كلّ بارز مبصر بالبصر والبصیرة . قال تعالی: أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر/ 26] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف/ 33] ، إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] ، يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم/ 7] ، أي : يعلمون الأمور الدّنيويّة دون الأخرويّة، والعلمُ الظَّاهِرُ والباطن تارة يشار بهما إلى المعارف الجليّة والمعارف الخفيّة، وتارة إلى العلوم الدّنيوية، والعلوم الأخرويّة، وقوله : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] ، وقوله : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] ، أي : كثر وشاع، وقوله : نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] ، يعني بالظَّاهِرَةِ : ما نقف عليها، وبالباطنة : ما لا نعرفها، وإليه أشار بقوله : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل/ 18] ، وقوله : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ/ 18] ، فقد حمل ذلک علی ظَاهِرِهِ ، وقیل : هو مثل لأحوال تختصّ بما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، وقوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن/ 26] ، أي : لا يطلع عليه، وقوله : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] ، يصحّ أن يكون من البروز، وأن يكون من المعاونة والغلبة، أي : ليغلّبه علی الدّين كلّه . وعلی هذا قوله : إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] ، وقوله تعالی: يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 29] ، فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف/ 97] ، وصلاة الظُّهْرِ معروفةٌ ، والظَّهِيرَةُ : وقتُ الظُّهْرِ ، وأَظْهَرَ فلانٌ: حصل في ذلک الوقت، علی بناء أصبح وأمسی . قال تعالی: وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم/ 18] . ظھر الشئی کسی چیز کا زمین کے اوپر اس طرح ظاہر ہونا کہ نمایاں طور پر نظر آئے اس کے بالمقابل بطن کے معنی ہیں کسی چیز کا زمین کے اندر غائب ہوجانا پھر ہر وہ چیز اس طرح پر نمایاں ہو کہ آنکھ یابصیرت سے اس کا ادراک ہوسکتا ہو اسے ظاھر کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر/ 26] یا ملک میں فساد ( نہ ) پیدا کردے ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف/ 33] ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] مگر سرسری سی گفتگو ۔ اور آیت کریمہ : يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم/ 7] یہ دنیا کی ظاہری زندگی ہی کو جانتے ہیں کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ صرف دنیو یامور سے واقفیت رکھتے ہیں اخروی امور سے بلکل بےبہر ہ ہیں اور العلم اظاہر اور الباطن سے کبھی جلی اور خفی علوم مراد ہوتے ہیں اور کبھی دنیوی اور اخروی ۔ قرآن پاک میں ہے : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] جو اس کی جانب اندورنی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب ۔ اور آیت کریمہ : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ۔ میں ظھر کے معنی ہیں زیادہ ہوگیا اور پھیل گیا اور آیت نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں ۔ میں ظاہرۃ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکتی ہیں اور باطنۃ سے وہ جو ہمارے علم سے بلا تر ہیں چناچہ اسی معنی کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ اور آیت کریمہ : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ/ 18] کے عام معنی تو یہی ہیں کہ وہ بستیاں سامنے نظر آتی تھیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بطور مثال کے انسانی احوال کیطرف اشارہ ہو جس کی تصریح اس کتاب کے بعد دوسری کتاب ہیں ) بیان کریں گے انشاء اللہ ۔ اظھرہ علیہ اسے اس پر مطلع کردیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنے غائب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا اور آیت کریمہ : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] میں یظھر کے معنی نمایاں کرنا بھی ہوسکتے ہیں اور معاونت اور غلبہ کے بھی یعنی تمام ادیان پر اسے غالب کرے چناچہ اس دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 29] اے قوم آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو ۔ فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف/ 97] پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس کے اوپر چڑھ سکیں ۔ صلاۃ ظھر ظہر کی نماز ظھیرۃ ظہر کا وقت ۔ اظھر فلان فلاں ظہر کے وقت میں داخل ہوگیا جیسا کہ اصبح وامسیٰ : صبح اور شام میں داخل ہونا ۔ قرآن پاک میں ہے : وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم/ 18] اور آسمان اور زمین میں اسی کیلئے تعریف ہے اور سہ پہر کے وقت بھی اور جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦۔ ٢٧) وہ اپنے ایسے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ ہاں مگر اپنے کسی برگزیدہ پیغمبر کو کہ وہ اسے بعض غیبی باتوں سے مطلع کردیتا ہے اور اس طرح اطلاع دیتا ہے کہ اس پیغمبر کے آگے اور پیچھے محافظ فرشتے بھیج دیتا ہے تاکہ شیطاطین جنات اور انسانوں میں سے کوئی بھی جبریل امین کی قرات نہ سن سکے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25 The style itself shows that this is an answer which has been given without citing the question. Probably, hearing what has been said above, the opponents might have asked mockingly and tauntingly: "When will the time with which you are threatening us come?" In response, the Holy Prophet (upon whom be peace) was commanded to say: "The time will certainly come, but I have not been told the date of its coming. AIIah alone knows whether is will come soon, or whether a distant term has been set for it. "

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :26 یعنی غیب کا پورا علم اللہ تعالی کے لیے مخصوص ہے ، اور یہ مکمل علم غیب وہ کسی کو بھی نہیں دیتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:26) علم الغیب مضاف مضاف الیہ۔ غیب کا جاننے والا۔ مبتدا محذوف کی خبر ہے ای ھو عالم الغیب۔ فلا یظھر : ف ترتیب کا ہے۔ لا یظھر مضارع منفی واحد مذکر غائب اظھار (افعال) مصدر سے۔ وہ ظاہر نہیں کرتا ہے۔ وہ واقف نہیں کرتا ہے۔ غیبہ مضاف مضار الیہ۔ اس کا غیب۔ یعنی اپنے غیب کو۔ اپنے غیب کی باتوں کو۔ احدا۔ منصوب بوجہ مفعول ۔ کسی کو بھی۔ وہ اپنی غیب کی باتوں کو ظاہر نہیں کرتا ہے۔ فائدہ : غیب کیا ہے اس کے متعلق علامہ پانی پتی رقمطراز ہیں :۔ غیب سے مراد وہ چیز جو ابھی تک نہیں آئی۔ جیسے معاد (عالم آخرت) کی خبریں۔ یا وہ چیز جو موجود ہونے کے بعد معدوم ہوگئی ہو جیسے آغاز آفرینش کی اطلاعات اور وہ گزشتہ واقعات جو صفحات تاریخ پر بھی موجود نہیں۔ یا غیب سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ اسماء اور صفات جو بندوں کو معلوم نہیں اور کسی دلیل سے بھی ان کا پتہ نہیں ملتا۔ لیکن جن صفات و اسماء پر برہان قائم اور دلیل موجود ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی ہستی اس کا ناقابل زوال ہونا۔ اس کا واحد ہونا اس کے اندر صفات کمال کا موجود ہونا۔ اور صفات نقص و زوال سے اس کا پاک ہونا۔ تو یہ چیزیں عالم شہادت کی ہوگئیں ۔ ان کا شمار غائب میں نہیں ہے کیونکہ ان کے دلائل موجود ہیں اسی طرح حدوث عالم (وقوع عالم) کا مسئلہ بھی غیبی مسیلہ نہیں ہے بلکہ عالم شہادت کا ہے کیونکہ عالم کا تغیر پذیر ہونا محسوس ہے اور تغیر حدوث پر دلالت کرتا ہے۔ ان تمام اقسام غیب کا علم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ممکن ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

علم الغیب ................ احدا (٢٧ : ٦٢) ” وہ عالم الغیب ہے ، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا “۔ یوں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اولوہیت کی تمام صفات کی نفی کردی جاتی ہے اور آپ صرف بندہ مختار رہ جاتے ہیں اور کسی انسان کے لئے بندگی سے بڑا کوئی وصف اور اعزاز نہیں ہوسکتا۔ بندگی اور عبودیت انسان کے مراتب درجات میں سے اعلیٰ مرتبہ اور درجہ ہوتا ہے۔ چناچہ اس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الوہیت کی تمام صفات سے مبرا کردیا جاتا ہے اور حکم دے دیا جاتا ہے کہ آپ تبلیغ کریں۔ ” کہو ، میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے ، وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لئے کوئی لمبی مدت مقرر فرماتا ہے۔ وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا “۔ اس سے فقط ایک استثناء ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کسی غیب کے بارے میں اجازت دے دے اور اس سے کسی رسول کو مطلع کردیا جائے۔ اور یہ بھی ان معاملات کے بارے میں جن کا تعلق آپ کو دعوت کے فرائض سے ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جن باتوں کا پیغام آتا تھا تو وہ بھی غیبی امور ہی تھے۔ اپنے وقت میں حضور پر ایک مقدار کے مطابق احکام آتے تھے اور پھر رسولوں کی بھی آگے پیچھے سے نگرانی کی جاتی تھی کہ ان پر جو غیب آیا ہے انہوں نے اس کی تبلیغ کردی ہے یا نہیں۔ حضور اکرم کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اس بات کا اعلان بھی کردیں اور نہایت صراحت اور سنجیدگی کے ساتھ اور نہایت ہی خشوع کے ساتھ کردیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًاۙ٠٠٢٦﴾ (اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے وہ غیب کا جاننے والا ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا) اور قیامت کا وقت بھی انہی چیزوں میں سے ہے جن سے کسی کو مطلع نہیں فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ ” عالم الغیب “ یہ جملہ ماقبل کے لیے علت ہے اور ھو مبتداء مقدر ہے ” الا من ارتضی “ مستثنی منقطع ہے۔ ’ من ارتضی الخ “ مبتدا اور ” فانہ یسلک الخ “ اس کی خبر ہے۔ حاصل یہ ہے کہ آپ فرما دیجئے مجھے معلوم نہیں کہ قیامت قریب ہے یا بعید، کیونکہ میں عالم الغیب نہیں ہوں اور نہ مجھ کو غیب پر غلبہ ہی دیا گیا ہے کہ جب چاہوں جو چیز چاہوں جان لوں۔ عالم الغیب تو صرف اللہ تعالیٰ ہے جو اپنے غیب پر کسی کو غالب نہیں کرتا۔ البتہ جن بندوں کو اس نے رسالت کے لیے چن لیا ہے ان کے آگے پیچھے نگہبان فرشتے مقرر فرما دیتا ہے تاکہ ان فرشتوں کی شہادت سے ظاہر فرما دے کہ میرے رسولوں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ علم کے لیے کسی ذریعہ اور وسیلہ کا محتاج نہیں اس کا علم ان سب کی معلومات پر حاوی ہے اور ہر ہر چیز اس کے علم محیط میں موجود ہے۔ تحقیق آیت ” عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا الا من ارتضی (الایۃ) لفظ اظہار مختلف معنوں میں مستعمل ہے۔ 1 ۔ ظاہر کرنا۔ 2 ۔ غالب کرنا۔ 3 ۔ مطلع کرنا۔ 4 ۔ ظہر کے وقت جانا۔ یہاں چوتھا معنی مناسب مقام نہیں جیسا کہ ظاہر ہے اسی طرح پہلا معنی بھی یہاں مراد نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس صورت میں اس کا استعمال صلہ کے بغیر ہوتا ہے اور ” غیبہ “ کو منصوب ہو کر اس کا مفعول ہونا چاہئے تھا اب رہ گئے دو معنی، غالب کرنا۔ یہ دونوں یہاں مراد ہوسکتے ہیں۔ سورة جن میں آیات توحید 1 ۔ ” وان المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ احدا۔ تا۔ ولن اجد من دونہ ملتحدا “ نفی شرک اعتقادی۔ 2 ۔ ” عالم الغیب فلایظہر علی غیبہ احدا “ نفی شرک فی علم الغیب۔ سورة الجن ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) وہی بھید یعنی غیب کا جاننے والا ہے وہ اپنے بھید اور غیب کی کسی کو خبر نہیں دیا کرتا اور کسی کو اپنے غیب سے آگاہ نہیں کیا کرتا۔ غیب کے متعلق ہم آل عمران کی تسہیل میں مفصل بیان کرچکے ہیں کہ وہ اپنے بھید کی پوری خبر کسی کو نہیں دیا کرتا اگر کبھی کسی مصلحت کی بنا پر کوئی بھید کی بات کسی کو بتانا چاتا ہے تو اس کی شکل آگے مذکور ہے۔