Surat ul Mudassir

Surah: 74

Verse: 32

سورة المدثر

کَلَّا وَ الۡقَمَرِ ﴿ۙ۳۲﴾

No! By the moon

سچ کہتا ہو ں قسم ہے چاند کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(کلا و القمر…:” کلا “ ہرگز نہیں، یعنی جہنم یا اس پر مامور فرشتوں کی تعداد سے انکار ہرگز درست نہیں۔ اس کے بعد تینچ یزوں کی قسم کھا کر فرمایا کہ جہنم یقیناً بہت ہی بڑی چیز ہے۔ ان قسموں کی مناسبت جواب قسم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جہنم کا انکار کرنے والوں کا انکار اس لئے ہے کہ وہ ان کی نگاہوں سے اوجھل ہے اور ان کے خیال میں اتنی بڑی ہولناک اور عظیم الشان چیز کا موجود ہونا ممکن نہیں۔ فرمایا اس کائنات میں چاند کو دیکھو، وہ ہلال اور بدر اور بدر سے ہلال ہونے تک روزانہ جن مراحل سے گزرتا ہے ان پر غور کرو، رات کو دیکھو جب وہ رخصت ہوتی ہے اور کائنات میں روزانہ ایک عظیم انقلاب رونما ہوتا ہے، پھر صبح کو دیکھو جب روشن ہوتی ہے تو رات کی ظلمت اپنا بوریا بستر سمیٹ لیتی ہے۔ ان میں سے ہر چیز اللہ کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے، ان میں سے کوئی بھی چیز اگر تم نے دیکھی نہ ہوتی اور تمہیں اس کے متعلق بتایا جاتا تو تم اس کا اسی طرح انکار کردیتے جس طرح جہنم کا اناکر کر رہے ہو ؟ جب اتنی بڑی بڑی حقیقتیں تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور تمہیں ان کے موجود ہونے میں کوئی شک نہیں تو ان چیزوں کا پیدا کرنے والا تمہیں بتارہا ہے کہ یقیناً جہنم بھی اس کی بہت بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے، اس میں تمہیں شک کیوں ہے ؟ ایک مناسبت یہ بھی ہے کہ تمہارا یہ جلدی مچانا بھی بےمحل ہے کہ اگر سچے ہو تو ابھی لاؤ وہ قیامت اور جہنم جس سے ڈراتے ہو۔ فرمایا چاند کا ہلال سے بدر اور بدر سے ہلال تک پہنچنا، رات کا جانا اور صبح کا روشن ہونا اور کائنات کے بڑے بڑے انقلابات میں سے ہر انقلاب اپنے مقرر وقت پر آتا ہے، کبھی وقت ہلے نہیں آتا، اسی طرح تم یقینا درجہ بدرجہ قیامت کی طرف جا رہے ہو اور بہت جلد جہنم تمہارے سامنے آجائے گی۔ سورة انشقاق کی آیات (١٦ تا ١٩) میں یہ مضمون بیان ہوا ہے، تفصیل کے لئے ان آیات کی تفسیر ملاحظہ کریں۔ ” الکبر “” کبری “ کی جمع ہے، جو ” اکبر “ کی مونث ہے۔ ” نذیراً “ ڈرانے والی ” فعیل “ کا وزن مذکر و مونث اور واحد، تثنیہ و جمع سب کے لئے آجاتا ہے۔ یعنی یہ انسانوں کو ڈرانے والی ہے، ان انسانوں کو جنہیں اختیار ہے کہ یہ جہنم سے ڈرانے والی آیات سن کر چاہیں تو ایمن قبول کر کے جنت کی طرف بڑھ جائیں اور چاہیں تو پیچھے رہ کر جہنم کے سزا وار بن جائیں، جیسا کہ فرمایا :(فمن شآء فلیومن ومن شآء فلیکفر) (الکھف : ٢٩)” پھر جو چاہے سو ایمان لے آئے اور جو چاہے سو کفر کرے۔ “ یعنی ایمان و کفر دونوں کا اختیار ہے، ہاں، کفر کی اجازت نہیں اور نہ وہ اللہ کو پسند ہے، جیسا کہ فرمایا :(ولا یرضی لعبادہ الکفر “ (الزمر : ٨)” اور وہ اپنے بندوں کیلئے کفر کو پسند نہیں کرتا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَلَّا وَالْقَمَرِ۝ ٣٢ كلا كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] . کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔ قمر القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ( ق م ر ) القمر ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢۔ ٣٨) قسم ہے چاند کی اور رات کی جس وقت وہ جانے لگیں اور صبح کی جبکہ وہ آنے لگے یا یہ کہ روشن ہوجائے اور سقر دوزخ کے حصوں میں سے ایک بڑا حصہ ہے، چناچہ جہنم، سقر، نطی، حظمہ، سعیر، جحیم، ہاویہ یہ سب دوزخ کے حصے ہیں جو ان کے لیے بڑا ڈراوا ہے۔ یا یہ کہ محمد انسانوں کو ڈرانے والے ہیں اب اس صورت میں اس جملہ کا تعلق صورت کے ابتدائی کلمات قم فانذر سے ہوجائے گا۔ یعنی تم میں جو چیز خیر کی طرف بڑھ کر ایمان لے آئے اس کے لیے بھی یا شر سے ہٹ کر اس کو چھوڑ دے اس کے لیے بھی، یا یہ کہ خیر سے ہٹ کر کفر اختیار کرے ہر کافر شخص اپنے اعمال کفر کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے دوزخ میں محبوس ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27 That is, it is not a hollow thing which may be mocked like that.

سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :27 یعنی یہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے جس کا اس طرح مذاق اڑایا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(74:32) کلا : جمہور کے نزدیک یہ حرف بسیط ہے اور ثعلب نحوی کے نزدیک مرکب ہے کاف تشبیہ اور لا نافیہ ہے۔ حالت ترکیب میں ک اور لا کے انفرادی معنی باقی نہ رہے اسی لئے لام کو مشدد کردیا گیا ہے۔ سیبویہ ، خلیل، مبرد، زجاج اور اکثر بصری ادیبوں کے نزدیک کلا کے معنی حرف ردع (روکنا، باز داشت) اور روکنے کے ہیں (خواہ بطور زجر و توبیخ یعنی گھر کی یا سرزنش کے ہو یا بطور تربیت اور ادب آموزی کے ہو) اسی لئے ان علماء کے نزدیک قرآن مجید کے ان تمام 33 مقامات میں جس جس جگہ کلا آیا ہے وہاں کلا پر وقف کرنا جائز ہے اور بعد کو آنے والا کلام نئے سرے سے شروع ہوتا ہے۔ ابو حاتم نے اس کو استفتاحیہ (آغاز کلام میں آنے والا) بتایا ہے ابو حیان اور زجاج نے بھی اس میں ابو حاتم کی پیروی کی ہے۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو لغات القرآن، الاتقان فی علوم القرآن حصہ اول) ۔ علامہ پانی پتی (رح) لکھتے ہیں :۔ کلا : منکروں کے لئے اس لفظ سے باز داشت کی گئی ہے۔ یا منکروں کے نصیحت پذیر ہونے کا انکار ہے اگرچہ واقع میں یہ پیام نصیحت ہے۔ جلالین میں ہے :۔ کلا برائے استفتاح بمعنی الا (خبردار) یاد رکھو۔ والقمر : واؤ قسمیہ ہے اور القمر مقسم یہ ہے۔ قسم ہے چاند کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٣٢ تا ٥٦۔ اسرار ومعارف۔ اور کھری بات ہے چاند اپنی حالت میں گواہ ہے کہ بڑھتاچلا جاتا ہے پھر گھٹنا شروع ہوجاتا اور ختم ہوجاتا ہے یا رات گواہ ہے کہ ہر چیز کو چھپارکھا ہوتا ہے جب جاتی ہے توہرشے سامنے آجاتی ہے ایسے ہی دنیا کی زندگی ختم ہو کر آخرت کھل کر سامنے آجائے گی اور قیامت بہت بڑی بات ہے لوگوں کو اس سے بچنے کی تعلیم دی جارہی ہے اب یہ تم لوگوں پر ہے کہ اس کی تیاری کرتے رہو اور رسول اللہ کی اطاعت اختیار کرکے اپنے لیے بہتری کا سامان کرتے ہو یا اس نعمت کو چھوڑ کر محروم ہوتے ہو کہ ہر ایک کو اس کے کردار کا پھل ہی ملے گا لہذا کفار اپنے اعمال کے قیدی ہوں گے جبکہ اہل جنت جن کو اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملا تھا جنت میں سے بھی کفار سے بات کرکے جانناچا ہیں گے کہ بدبختو بعثت رسالت کے بعد بھی تم جہنم میں کیسے جاگرے۔ اہل جنت کی دوزخ والوں سے بات۔ تو وہ کہیں گے ہم نے عبادات چھوڑ دیں یعنی نہ ایمان لائے اور نہ عبادت کی اور دوسرے مساکین کو کھلاتے نہ تھے یعنی ہمارا معاشرہ نظام جو ابدار ہوتا ہے ساری زندگی کے کردار کا وہ بھی درست نہ تھا ظالمانہ تھا اور ہم محض باتیں بنانے میں وقت ضائع کردیتے ہیں بلکہ حرام کھانے سے دل ایسے سیاہ ہوئے کہ ہم نے قیامت کا انکار کردیا تاآنکہ ہم پر موت آگئی کفر پر مرنے والوں کی شفاعت بھی کوئی نہ کرسکے گا اور اس کے باوجود ایسے احمق ہیں کہ آپ کی باتوں سے اور اللہ کی آیات سے منہ موڑتے ہیں اور ایسے بھاگتے ہیں جیسے جنگلی گدھے ہوں جو شیر سے ڈر کر بھاگ رہے ہوں ذرا ان کا تکبر دیکھئے کہ ان کا خیال ہے کہ ہر ایک کے لیے آسمان سے صحیفہ نازل ہو جو اس کے نام ہوایساتو ہو ہی نہیں سکتا کہ سارے تو نبی نہیں ہوسکتے۔ نبی (علیہ السلام) کے مقابل اپنی رائے کو سمجھنا بہت برا ہے۔ جبکہ یہ اعزاز تو صرف اللہ کے نبی کو ہوتا ہے گویا جونبی (علیہ السلام) فرمادیں اس کے مقابل اپنی اٹکل پچو دوڑانا سخت گنا ہے اور گمراہی کا ایک بہت بڑا سبب ہے لہذا ان کے دلوں سے آخرت کا خوف نکل گیا ہے جو گمراہی میں زیادتی کا سبب ہے مگر یادر کھو یہ قرآن تو دعوت اور نصیحت ہے جسے پسند ہو ضرور اختیار کرے اور یہ تب ہی پسند آئے گا کہ دل میں اللہ کی تڑپ پیدا ہو اور اللہ اس کی توفیق دے جسے یہ نعمت نصیب ہوجائے اور وہ انسان اطاعت گزار اور بخشش حاصل کرنے والا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ ادبر۔ اس نے پیٹھ پھیری۔ اسفر۔ روشن ہوگیا۔ اھدی الکبر۔ ایک دردناک چیز۔ رھینۃ۔ پھنسی ہوئی۔ لم نک۔ ہم نہ تھے۔ الخائضین۔ دھنسے رہنے والے۔ حمر مستفنرۃ۔ بدکنے والے گدھے۔ فرت بھاگے کھڑی ہوئی۔ قسورۃ۔ شیر صحفا منشرۃ ۔ لکھے ہوئے فرمان۔ تشریح : ہر انسان روزانہ اپنی کھلی آنکھوں سے بہت سی ان چیزوں کو دیکھتا ہے جو اس کے اردگرد ہیں اور ایک خاص وجود رکھتی ہیں مثلاً چاند کبھی گھٹتا ہے کبھی بڑھتا ہے۔ کبھی وہ چودھویں کا مکمل چاند ہوتا ہے کبھی وہ گھٹ کر کھجور کی سوکھی ہوئی شاخ کی طرح باریک ہوجاتا ہے۔ دن اور رات جو باقاعدگی سے آتے اور جاتے ہیں۔ کبھی روشنی کبھی اندھیرا کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں بڑی۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان ہی تین چیزوں کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ جس طرح رات اور دن، چاند ( سورج اور ستارے) اپنا ایک وجود رکھتے ہیں اسی طرح جہنم بھی اپنا ایک وجود رکھتی ہے لیکن وہ اتنی ہیبت ناک چیز ہے جس سے ہر انسان کو پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ یہ جہنم ان لوگوں کے لئے بنای گئی ہے جو اللہ کے نافرمان ہیں۔ اب جس کا دل چاہے وہ اس سے ڈر کر نیکی اور بھلائی کا راستہ اختیار کرلے اور جس کا جی چاہے وہ اس سے پیچھے ہٹ جائے۔ لیکن وہ اس حقیقت کو اپنے سامنے ضرور رکھے کہ ہر انسان اپنے اچھے اور برے اعمال کے بدلے میں گروی رکھا ہوا ہے۔ جس طرح کوئی شخص قرض کے بدلے کوئی چیز ضمانت کے طور پر رہن یعنی گروی رکھ دیتا ہے وہ چیز یا قرض دینے والے کے پاس رہتی ہے۔ جب قرض کی رقم ادا کردی جاتی ہے تو وہ چیز واپس بھی مل جاتی ہے۔ اسی طرح ہر انسان اپنے اعمال کے بدلے اللہ کے پاس گروہ رکھا ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہر انسان کو ذمہ دار بنا کر اس پر کچھ فرائض مقرر کئے ہیں۔ اگر وہ اس دنیا میں اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کو ادا کرکے اپنا فرض پورا کردے گا تو وہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا ورنہ وہ جہنم کی ہولناک آگ اور اپنے برے انجام سے بچ نہ سکے گا۔ لیکن اس اصول سے و ہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو اللہ کی طرف سے مقرر کئے ہوئے تما فرائض اور احکامات کو پورا کرنے والے ہیں۔ فرمایا کہ یہ لوگ اصحاب الیمین میں سے ہوں گے۔ یعنی قیامت کے دن ان کے اعمال ان کے اعمال نامے ان کے داہنے ہاتھ میں دئیے جائیں گے۔ وہ عرش الٰہی کے سائے میں اور جنت کی راحتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ یہ اہل جنت اللہ کے نافرمانوں سے پوچھین گے کہ تم کس وجہ سے جہنم کے مستحق قرار دئیے گئے ؟ وہ جواب میں کہیں گے کہ 1۔ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ 2۔ مسکینوں اور محتاجوں کو کھانا نہ کھلاتے تھے۔ 3۔ وہ لوگ دین اسلام کی سچائیوں پر نکتہ چینیاں کرتے تھے ہم بھی ان کے ساتھ شریک رہتے تھے۔ 4۔ اور ہم قیامت کے دن کا انکار کرتے تھے یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے واضح طور پر بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کرام (علیہ السلام) ، صلحاء اور شہداء وغیرہ کو شفاعت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں گے مگر ان جیسے منکرین کی کوئی سفارش تک کرنے والا نہ ہوگا۔ کیونکہ ان جیسے لوگوں کو نہ تو قیامت کے آنے کا یقین تھا اور نہ یہ لوگ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے دامن سے وابستہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کری جیسی کتاب نازل کی ہے جو سراسر ہدایت ہی ہدایت ہے یہ لوگ اس پر عمل کرنے کے بجائے اس سے منہ پھیر کر چلتے ہیں ؟ اور وہ ان جنگلی گدھوں کی طرح کیون ہوگئے جو معمولی آواز یا شیر کو بوسنگھتے ہی بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ قرآن شروع سے آخرت تک نصیح ہی نصیحت ہے اب یہ انسان کی پانی کوشش ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے یا اس سے محروم رہتا ہے۔ اگر وہ اللہ سے توفیق مانگیں گے تو ان کو توفیق ضروری ملے گی لیکن اللہ کے دین کا انکار کرنے والے اس توفیق سے محروم رہیں گے حالانکہ صرف اللہ کی ذات ہے جس سے ڈرتے رہنا چاہیے جو اپنے بندوں پر اس قدر مہربان ہے کہ اگر کوئی اس سے توفیق مانگ کر اس کے راستے میں ذرا بھی جدوجہد کرتا ہے تو اللہ اس کو اپنے دامن مغفرت میں پناہ دیدیتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنم کی ہولناکیوں کا مزید ذکر۔ سابقہ آیات میں جہنم کی ہولناکیوں اور اس پر مقرر کردہ ملائکہ کی تعداد کا ذکرہوا جسے اہل مکہ نے مذاق کا نشانہ بنایا اس پر ارشاد ہوا کہ یہ لوگ جہنم کے ملائکہ کی تعدا پر اعتراض کررہے ہیں انہیں کیا خبر ! کہ آپ کے رب کے لشکر کتنی تعداد میں ہیں اور کس قدر طاقتور ہیں ان کی تعداد اور طاقت کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے لہٰذا تمہیں جہنم سے ڈرنا چاہیے۔ قسم ہے چاند کی اور رات کی جب وہ پلٹتی ہے اور صبح کی قسم جب وہ روشن ہوجاتی ہے جس جہنم کا یہ مذاق اڑاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی خوفناک چیزوں میں بڑی ہی خوفناک جگہ ہے، چاند، رات اور دن کا حوالہ دے کر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے چاند، رات اور دن پیدا کیے ہیں اسی طرح ہی اس نے جہنم بنائی ہے اور اس پر انیس فرشتے مقرر کیے ہیں، جس طرح چاند، رات اور دن کو مانتے ہو اسی طرح مانو کہ جہنم بھی موجود ہے جو بڑی خوف ناک جگہ ہے اور اس پر انیس فرشتے کنٹرولر ہیں۔ اب یہ انسان کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اس سے ڈرتا ہے اور ایمان لانے میں آگے بڑھتا ہے یا پیچھے رہتا ہے البتہ انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہر کوئی اپنے کیے کے بدلے رہن ہے یعنی اسے اپنے اعمال کا بدلہ پانا ہے۔ مسائل ١۔ چاند، رات اور صبح روشن کی قسم ! جہنم بہت بڑی آفت گاہ ہے۔ ٢۔ جہنم سے بچنا یا اس میں گرنا انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوگا۔ ٣۔ ہر انسان اپنے اعمال کے بدلے اپنے آپ کو گروی رکھے ہوئے ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

چاند کے مناظر ، رات کے مناظر جب وہ ختم ہوتی ہے اور صبح نمودار ہوتی ہے ، یہ زبردست مشاہد اور مناظر ہوتے ہی۔ یہ آنکھیں کھول دینے والے مناظر ہیں اور انسانی دل و دماغ پر ان کے بیشمار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور انسان ان پر اگر غور کرے تو اس پر کئی راز کھلتے ہیں اور انسانی دل و دماغ پر ان کے بیشمار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور اس ان ان پر اگر غور کرے تو اس پر کئی راز کھلتے ہیں۔ کئی گہرے تصورات انسان کے پردہ خیال پر آتے ہیں اور اسے پختہ شعور ملتا ہے۔ قرآن کریم انسان کو ان مظاہر کی طرف متوجہ کرکے انسان کے دل میں ان تصورات کو بٹھاتا ہے۔ اور ان احساسات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ جب چاند طلوع ہوتا ہے ، فضائے کائنات میں چلتا ہے اور پھر غائب ہوجاتا ہے۔ اگر انسان اس پر غور کرے تو وہ انسان کے کان میں اس کائنات کے کچھ نہ کچھ راز ضرور ڈال دیتا ہے اور بعض اوقات تو چاند کی روشنی میں کھڑے ہوکر غوروفکر کرنے سے انسان پر یہ اثر ہوتا ہے کہ گویا اس نے نور کا غسل کرلیا ہے۔ اور رات کے جانے کا منظر بھی عجیب ہوتا ہے ، صبح کی نموداری کے وقت اور سورج کے طلوع سے پہلے کے ان پر سکون لمحات میں ، اگر انسان چشم بینا سے دیکھے تو اس کو نظر آتا ہے کہ ایک شعوری ارادہ اور دست قدرت کا ایک صورت حال کو ہٹا کر دوسری حالت کو بڑھا دیا ہے۔ اس منظر میں جس طرح دنیا آہستہ آہستہ منور ہوتی ہے ، قلب بینا بھی منور ہوتا چلا جاتا ہے۔ غرض صرف چشم بینا کی ضرورت ہے اور احساس و شعور کی۔ اللہ تعالیٰ انسان قلب ونظر کا خالق ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ مناظر انسانی احساسات پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ اور بعض اوقات تو یہ اثرات اس قدر گہرے ہوتے ہیں کہ انسان یہ سمجھتا کہ وہ از سر نو پیدا کردیا گیا ہے اور پہلی مرتبہ یہ دیکھ رہا ہے۔ اور ان موثرات ، اشراقات اور تاثرات کے استقبال کے پیچھے ، شمس وقمر اور لیل ونہار اور نموداری صبح میں ایک دوسری عظیم حقیقت بھی پوشیدہ ہے جس کی طرف قرآن انسان کو متوجہ کررہا ہے۔ انسانی قلب ونظر کو آمادہ کررہا ہے کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کرے کہ ان مظاہر میں اللہ کی قدرت تخلیق ، اللہ کی حکمت تدبیر اور اس کائنات کے زبردست نظم ونسق کے نشانات ہیں اور یہ کہ یہ کائنات اس قدر دقیق اور پیچیدہ نظم کے ساتھ چل رہی ہے کہ اسے دیکھ کر انسانی عقل حیرت زدہ ہوجاتی ہے۔ ان عظیم کائناتی حقائق کے ساتھ قسم اٹھا کر اللہ تعالیٰ غفلت میں ڈوبے ہئے لوگوں کو جگاتا ہے کہ اللہ کی عظیم قدروں کو ذرا سمجھنے کی کوشش کرو ، اور ان کے اندر جو آثار ونشانات ہیں ان سے عبرت لو۔ یہ کہ جہنم اور اس کے اوپر متعین افواج الٰہیہ اور آخرت اور اس کی ہولناکیاں دراصل ان عظیم امور میں سے ہیں جو عجیب بھی ہیں اور خوفناک بھی ہیں اور یہ واقعات نہایت ہی پر خطر ہیں۔ انہیں سنجیدگی سے لو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوزخیوں سے سوال کہ تمہیں دوزخ میں کس نے پہنچایا ؟ پھر ان کا جواب، ان کو کسی کی شفاعت کام نہ دے گی، یہ لوگ نصیحت سے ایسے اعراض کرتے ہیں جیسے گدھے شیروں سے بھاگتے ہیں ان آیات میں اول تو یہ فرمایا ہے کہ چاند کی اور رات کی اور صبح کی قسم یہ دوزخ (جس کا اوپر سے ذکر چلا آ رہا ہے) بڑی بھاری چیزوں میں سے ایک چیز ہے اس کے عذاب کو معمولی نہ سمجھا جائے اسی دنیا میں رہتے ہوئے جو اس کی خبر اللہ کی کتاب نے دی ہے یہ خبر سچی ہے اور اس کا بیان کرنا اس لیے ہے کہ انسان اس کے اخبار اور احوال سن کر خوف کھائے۔ (قال القرطبی صفحہ ٥٨: ج ١٩) وذكر، لان معناہ معنی العذاب، او اراد ذات انذار علی معنی النسب کقولھم امراة طالق وطاھر وقال الخلیل : النذیر مصدر کالنکیر ولذلک یوصف بہ المونث۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” کلا “ برائے ردع ہے اور کفار و مشکرین کو زجر ہے کہ ان کو قرآن کے مقابلہ میں اس قسم کی سفیہانی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ یا بمعنی حقا ہے المعنی حقا والقمر (قرطبی) ۔ اس صورت میں یہ مابعد کی تاکید ہوگی۔ حضرت شیخ قدس سرہ کے نزدیک یہی راجح ہے۔ ” ولقمر، واللیل، والصبح “ تینوں قسمیں جو جواب قسم پر شاہد ہیں۔ جواب قسم محذوف ہیں یعنی لترکبن طبقا عن طبق، چاند پر پورا مہینہ مختلف حالتیں آتی ہیں، اسی طرح رات کی بھی کئی حالتیں ہوتی ہیں، شروع ہوتی ہے، گھپ اندھیرا ہوجاتا ہے۔ اور اس میں سے صبح نمودار ہوتی ہے۔ چاند اپنے محتلف اور گوناگوں احوال سے اس پر شاہد ہے، رات کی ظلمت اور صبح کی نمود اس پر گواہ ہیں کہ تم پر بھی کئی حالات آئیں گے۔ رات کے اندھیرے کی طرح شدائد وآلام سے بھی دو چارہونا پڑے گا آخر تمام اندھیرے چھٹ جائیں گے اور فتح و کامرانی اور فوز و فلاح کی صبح نمودار ہوگی۔ تائید : ” فلا اقسم بالشفق۔ واللیل وما وسق۔ والقمر اذا اتسق۔ لترکبن طبقا عن طبق۔ (پ 30 سورة الانشقاق) ۔ اور انھا لاحدی الکبر استیناف ہے۔ افادہ الشیخ (رح) تعالی۔ یا انھا لاحدی الکبر جواب قسم ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(32) جہنم کے مضامین کا ہرگز انکار نہ کرو یا سن رکھو یا بالتحقیق یا میں سچ کہتا ہوں، قسم ہے چاند کی۔