Surat ul Mudassir

Surah: 74

Verse: 52

سورة المدثر

بَلۡ یُرِیۡدُ کُلُّ امۡرِیًٔ مِّنۡہُمۡ اَنۡ یُّؤۡتٰی صُحُفًا مُّنَشَّرَۃً ﴿ۙ۵۲﴾

Rather, every person among them desires that he would be given scriptures spread about.

بلکہ ان میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے کھلی ہوئی کتابیں دی جائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nay, everyone of them desires that he should be given pages spread out. meaning, each one of these idolators wants to have a book revealed to him as Allah revealed to the Prophet . Mujahid and others have said this. This is similar to Allah's statement, وَإِذَا جَأءَتْهُمْ ءَايَةٌ قَالُواْ لَن نُّوْمِنَ حَتَّى نُوْتَى مِثْلَ مَأ أُوتِىَ رُسُلُ اللَّهِ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ ي... َجْعَلُ رِسَالَتَهُ And when there comes to them a sign they say: "We shall not believe until we receive the like of that which the Messengers of Allah had received." Allah knows best with whom to place His Message. (6:124) It is reported in a narration from Qatadah that he said, "They want to be declared innocent (on the Day of Judgement) without having to do any deeds." Then Allah says, كَلَّ بَل لاَ يَخَافُونَ الاْخِرَةَ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 یعنی ہر ایک کے ہاتھ میں اللہ کی طرف سے ایک ایک کتاب مفتوح نازل ہو جس میں لکھا ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ بغیر عمل کے یہ عذاب سے چھٹکارہ چاہتے ہیں، یعنی ہر ایک کو پروانہ نجات مل جائے۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] قریشی سرداروں کا مطالبہ کہ کھلی چٹھی ہمارے نام آئے :۔ ان قریشی سرداروں میں سے ہر ایک کی آرزو یہ ہے کہ اللہ میاں کی طرف سے ایک کھلی چٹھی ان میں سے ہر ایک کے نام آئے۔ جس میں یہ مذکور ہو کہ تمہارے اس صاحب (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میں نے ہی اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ لہذا تم اس پر ا... یمان لے آؤ۔ اس صورت میں ہی یہ ایمان لاسکتے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(بل یرید کل امری منھم…: یعنی قرآن مجید اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق ہونا واضح ہوجانے کے باوجود ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے تازہ لکھی ہوئی تحریر دی جائے جو ابھی تہ بھی نہ کی گئی ہو اور ان کے ہر شخص کو باقاعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خط آئے کہ محمد (ﷺ) ہمارے رسول ہیں، انہیں مان ... لو۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے خیال میں اتنے بڑے بن رہے ہیں کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور ان کی اطاعت کے لئے تیار ہی نہیں، بلکہ ان کی خواہش اور تقاضا یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو نبی بنادیا جائے، اسے کتاب عطا ہو اور وہ بھی خرق عادت کے طور پر کاغذپر لکھی ہوئی سب کے سامنے کھلی ہوئی حلات میں ان پر نازل ہو۔ لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہر شخص ہی کو نبوت و کتاب عطا ہوجائے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(واذا اجآء تھم ایۃ قالوا لن نومن حتی نوتی مثل ما اوتی رسل اللہ ، اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ ) (الانعام : ١٢٣)” اور جب ان کے پاس کوئی آیت آتی ہے، کہتے ہیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہمیں اس جیسی چیز نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی۔ اللہ بہتر جانتا ہے اس جگہ کو جاں وہ اپنی رسالت رکھے۔ “ اس سے ملتا جلتا مضمون سورة فرقان (٢١) میں بھی بیان ہوا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلْ يُرِيْدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ اَنْ يُّؤْتٰى صُحُفًا مُّنَشَّرَۃً۝ ٥٢ ۙ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا ... رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم/ 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] . ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : {إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا } [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی صحف الصَّحِيفَةُ : المبسوط من الشیء، کصحیفة الوجه، والصَّحِيفَةُ : التي يكتب فيها، وجمعها : صَحَائِفُ وصُحُفٌ. قال تعالی: صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی/ 19] ، يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] ، قيل : أريد بها القرآن، وجعله صحفا فيها كتب من أجل تضمّنه لزیادة ما في كتب اللہ المتقدّمة . والْمُصْحَفُ : ما جعل جامعا لِلصُّحُفِ المکتوبة، وجمعه : مَصَاحِفُ ، والتَّصْحِيفُ : قراءة المصحف وروایته علی غير ما هو لاشتباه حروفه، والصَّحْفَةُ مثل قصعة عریضة . ( ص ح ف ) الصحیفۃ کے معنی پھیلی ہوئی چیز کے ہیں جیسے صحیفۃ الوجہ ( چہرے کا پھیلاؤ ) اور وہ چیز جس میں کچھ لکھا جاتا ہے اسے بھی صحیفہ کہتے ہیں ۔ اس کی جمع صحائف وصحف آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی/ 19] یعنی ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] پاک اوراق پڑھتے ہیں جس میں مستحکم ( آیتیں ) لکھی ہوئی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ صحف سے قرآن پاک مراد ہے اور اس کو صحفا اور فیھا کتب اس لئے کہا ہے کہ قرآن میں کتب سابقہ کی بنسبت بہت سے زائد احکام اور نصوص پر مشتمل ہے ۔ المصحف متعدد صحیفوں کا مجموعہ اس کی جمع مصاحف آتی ہے اور التصحیف کے معنی اشتباہ حروف کی وجہ سے کسی صحیفہ کی قرآت یا روایت میں غلطی کرنے کے ہیں ۔ اور صحفۃ ( چوڑی رکابی ) چوڑے پیالے کی طرح کا ایک برتن ۔ نشر النَّشْرُ ، نَشَرَ الثوبَ ، والصَّحِيفَةَ ، والسَّحَابَ ، والنِّعْمَةَ ، والحَدِيثَ : بَسَطَهَا . قال تعالی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] ، وقال : وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] «2» ، وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ [ الشوری/ 28] ، وقوله : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] أي : الملائكة التي تَنْشُرُ الریاح، أو الریاح التي تنشر السَّحابَ ، ويقال في جمع النَّاشِرِ : نُشُرٌ ، وقرئ : نَشْراً فيكون کقوله :«والناشرات» ومنه : سمعت نَشْراً حَسَناً. أي : حَدِيثاً يُنْشَرُ مِنْ مَدْحٍ وغیره، ونَشِرَ المَيِّتُ نُشُوراً. قال تعالی: وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] ، بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] ، وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلانُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وأَنْشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ فَنُشِرَ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] وقیل : نَشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ وأَنْشَرَهُ بمعنًى، والحقیقة أنّ نَشَرَ اللَّهُ الميِّت مستعارٌ من نَشْرِ الثَّوْبِ. كما قال الشاعر : 440- طَوَتْكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ نَشْرٍ ... كَذَاكَ خُطُوبُهُ طَيّاً وَنَشْراً «4» وقوله تعالی: وَجَعَلَ النَّهارَ نُشُوراً [ الفرقان/ 47] ، أي : جعل فيه الانتشارَ وابتغاء الرزقِ كما قال : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] ، وانْتِشَارُ الناس : تصرُّفهم في الحاجاتِ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] ، فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] وقیل : نَشَرُوا في معنی انْتَشَرُوا، وقرئ : ( وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] «1» أي : تفرّقوا . والانْتِشَارُ : انتفاخُ عَصَبِ الدَّابَّةِ ، والنَّوَاشِرُ : عُرُوقُ باطِنِ الذِّرَاعِ ، وذلک لانتشارها، والنَّشَرُ : الغَنَم المُنْتَشِر، وهو للمَنْشُورِ کالنِّقْضِ للمَنْقوض، ومنه قيل : اکتسی البازي ريشا نَشْراً. أي : مُنْتَشِراً واسعاً طویلًا، والنَّشْرُ : الكَلَأ الیابسُ ، إذا أصابه مطرٌ فَيُنْشَرُ. أي : يَحْيَا، فيخرج منه شيء كهيئة الحَلَمَةِ ، وذلک داءٌ للغَنَم، يقال منه : نَشَرَتِ الأرضُ فهي نَاشِرَةٌ. ونَشَرْتُ الخَشَبَ بالمِنْشَارِ نَشْراً اعتبارا بما يُنْشَرُ منه عند النَّحْتِ ، والنُّشْرَةُ : رُقْيَةٌ يُعَالَجُ المریضُ بها . ( ن ش ر ) النشر کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے ۔ بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردیتے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] اور جب دفتر کھولے جائیں گے ۔ وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامیدہو جانیکے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت ( یعنی بارش کے برکت ) کو پھیلا دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] اور بادلوں کو ( بھاڑ ) ( پہلا دیتی ہے ۔ میں ناشرات سے مراد وہ فرشتے ہن جو ہواؤں کے پھیلاتے ہیں یا اس سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو بادلون کو بکھیرتی ہیں ۔ چناچہ ایک قرات میں نشرابین یدی رحمتہ بھی ہے جو کہ وہ الناشرات کے ہم معنی ہے اور اسی سے سمعت نشرا حسنا کا محاورہ ہے جس کے معنی میں نے اچھی شہرت سنی ۔ نشرالمیت نشودا کے معنی ہیت کے ( ازسرنو زندہ ہونے کے ہیں ) چناچہ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] اسی کے پاس قبروں سے نکل کر جانا ہے بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] بلکہ ان کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کی امیدہی نہیں تھی ۔ وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے ۔ اور نہ جینا اور نہ مرکراٹھ کھڑے ہونا ۔ انشر اللہ المیت ک معنی میت کو زندہ کرنے کے ہیں۔ اور نشر اس کا مطاوع آتا ہے ۔ جس کہ معنی زندہ ہوجانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ بعض نے کہا ہے ک نشر اللہ المیت وانشرہ کے ایک ہی معنی میں ۔ لیکن درحقیقت نشر اللہ المیت نشرالثوب کے محاورہ سے ماخوذ ہے شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (425) طوتک خطوب دھرک بعد نشر کذاک خطوبہ طیا ونشرا تجھے پھیلانے کے بعد حوادث زمانہ نے لپیٹ لیا اس طرح حوادث زمانہ لپیٹنے اور نشر کرتے رہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت ٹھہرایا ۔ میں دن کے نشوربنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا روبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] اور اس نے رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو ۔ اور انتشارالناس کے معنی لوگوں کے اپنے کاروبار میں لگ جانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو ۔ فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] تو جب کھانا کھا چکو تو چل دو ۔ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نشروا بمعنی انتشروا کے آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ : وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑا ہوا کرو ۔ میں ایک قراءت فاذا قیل انشروافانشروا بھی ہے ۔ یعنی جب کہاجائے کہ منتشر ہوجاؤ تو منتشر ہوجایا کرو ۔ الانتشار کے معنی چوپایہ کی رگوں کا پھول جانا ۔۔ بھی آتے ہیں ۔ اور نواشر باطن ذراع کی رگوں کو کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بدن میں منتشر ہیں ۔ النشر ( ایضا) پھیلنے والے بادل کو کہتے ہیں ۔ اور یہ بمعنی منشور بھی آتا ہے جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اسی سے محاورہ ہے ؛اکتسی البازی ریشا نشرا ۔ یعنی باز نے لمبے چوڑے پھیلنے والے پروں کا لباس پہن لیا ۔ النشر ( ایضا) خشک گھاس کو کہتے ہیں ۔ جو بارش کے بعد سرسبز ہوکر پھیل جائے اور اس سے سر پستان کی سی کونپلیں پھوٹ نکلیں یہ گھاس بکریوں کے لئے سخت مضر ہوتی ہے ۔ اسی سے نشرت الارض فھی ناشرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی زمین میں نشر گھاس پھوٹنے کے ہیں ۔ شرت الخشب بالمنشار کے معنی آرے سے لکڑی چیرنے کے ہیں ۔ اور لکڑی چیر نے کو نشر اس لئے کہتے ہیں کہ اسے چیرتے وقت نشارہ یعنی پر ادہ پھیلتا ہے ۔ اور نشرہ کے معنی افسوں کے ہیں جس سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢{ بَلْ یُرِیْدُ کُلُّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ اَنْ یُّؤْتٰی صُحُفًا مُّنَشَّرَۃً ۔ } ” بلکہ ان میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کو پکڑا دیے جائیں کھلے صحیفے۔ “ یہ ان کی استہزائیہ گفتگو کا ذکر ہے ۔ وہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے جواب میں اکثر ایسی باتیں کرتے تھے کہ یہ حساب کتاب کا م... عاملہ قیامت پر کیوں ٹالا جا رہا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اللہ سے کہیں کہ وہ مہربانی فرما کر ہمارے اعمالنامے ابھی ہمارے ہاتھوں میں پکڑا دے ۔ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم قرآن کو اللہ کا کلام تب مانیں گے جب ہم میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایک صحیفہ پکڑا دیا جائے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38 That is, they desire that if Allah really has appointed Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) as His Prophet, He should send a letter to each one of the chiefs and elders of Makkah telling him that Muhammad is Allah's Prophet; therefore he should obey and follow him. And these letters should be such as may convince them that they have been written by Allah Himself. At another plac... e in the Qur'an, this saying of the disbelievers of Makkah has been cited: "We will not believe in it unless we are given the like of what has been given to the Messengers of Allah." (Al-An`am: 124) . At still another place their this demand has been cited: "Or you ascend the sky ... and bring down to us a writing that we may read." (Bani lsra'il: 93) .  Show more

سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :38 یعنی یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اگر واقعی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مقرر فرمایا ہے تو وہ مکہ کے ایک سردار اور ایک ایک شیخ کے نام خط لکھ کر بھیجے کہ محمد ہمارے نبی ہیں ، تم ان کی پیروی قبول کرو ۔ اور یہ خط ایسے ہوں جنہیں دیکھ کر انہیں یقین آجائے کہ اللہ تع... الی ہی نے یہ لکھ کر بھیجے ہیں ۔ ایک اور مقام پر قرآن مجید میں کفار مکہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ہم نہ مانیں گے جب تک وہ چیز خود ہم کو نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے ۔ ( الانعام ، 124 ) ۔ ایک دوسری جگہ ان کا یہ مطالبہ نقل کیا گیا ہے کہ آپ ہمارے سامنے آسمان پر چڑھیں اور وہاں سے ایک لکھی ہوئی کتاب لا کر ہمیں دیں جسے ہم پڑھیں ( بنی اسرائیل ۔ 93 ) ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: یہ اُن کافروں کا ذکر ہے جو یہ کہا کرتے تھے کہ قرآنِ کریم حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم پر ہی کیوں نازل ہوا ہے؟ اگر اﷲ تعالیٰ کو ہدایت کے لئے کوئی کتاب بھیجنی تھی تو ہم میں سے ہر شخص پر الگ کتاب آنی چاہئے تھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(74:52) بل یرید کل امری منھم ان یؤتی صحفا منشرۃ : بل یہاں ابتدائیہ ہے اور محض انتقال مضمون کے لئے لایا گیا ہے کلام سابق سے اعراض مقصود نہیں ۔ اہل تفسیر نے بیان کیا ہے کہ کفار قریش نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ اگر تم سچے ہو تو ہم میں سے ہر شخص کے سرہانے صبح کو ایک کھلی چٹھی...  برآمد ہونا چاہیے جس میں لکھا ہو کہ آپ خدا کے رسول ہیں آپ کے کہنے پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ان مصدریہ ہے یؤتی مضارع مجہول واحد مذکر غائب ایتاء (افعال) مصدر بمعنی دینا۔ صحفا۔ صحیفہ کی جمع ہے بمعنی صحیفے ، کتابیں، نوشتے، اور اق۔ صحف بوجہ مفعول منصوب ہے ۔ اور موصوف ہے اس کی صفت منشرۃ ہے۔ صحیفہ کی جمع صحف نادر ہے کیونکہ فعیلۃ کی جمع فعل پر نہیں آتی۔ ندرت اور قیاس میں اس کی مثال سفینۃ کی جمع سفن ہے۔ منشرۃ صفت ہے صحفا کی اسم مفعول ہے واحد مؤنث ہے۔ تنشیر (تفعیل) مصدر سے ۔ کھلی ہوئی۔ پھیلی ہوئی۔ ترجمہ ہوگا : بلکہ ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اس کو کھلی ہوئی کتابیں دی جائیں یہی مضمون ایک اور جگہ بھی قرآن مجید میں آیا ہے :۔ ولن نؤمن لرقیک حتی تنزل علینا کتبا نقرؤہ (17:93) اور ہم تمہارے چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے جب تک کہ کوئی کتاب دلاؤ جسے ہم پڑھ بھی لیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ در منثور میں قتادہ سے مروی ہے کہ بعضے کفار نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کا اتباع کریں تو خاص ہمارے نام ایسے نوشتے لائیں جن میں آپ کے اتباع کا حکم لکھا ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بل یرید .................... منشرة یہ شعور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حسد کی وجہ سے رکھتے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ منصب کیوں عطا ہوا ؟ ہر کہ ومنہ یہ چاہتا تھا کہ یہ منصب اسے دیا جائے اور ہر شخص کے اوپر کھلے صحیفے اترتے نظر آئیں۔ یہ اشارہ ہے ان کبرائے قریش کی طرف جو ... اس بات پر جل بھن گئے تھے کہ محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ابن عبداللہ پر یہ کلام کیوں نازل ہوا۔ لو لا ................................ عظیم ” یہ قرآن دو شہروں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں ہوا ؟ “ لیکن اللہ نے فرمایا کہ وہ چاہتا ہے کہ منصب رسالت کا اہل کون ہے اور اس عظیم کام کے لئے اس نے کس کا انتخاب کرنا ہے۔ یہی بات تھی جس کی وجہ سے یہ لوگ اسلامی نظریہ حیات سے نفرت کرتے تھے اور قبولیت پر آمادہ نہ تھے۔ ان لوگوں کے نفوس کی اندرونی تصویر کشی جاری ہے ، چناچہ اس طمع اور لالچ اور حسد سے بھر پور ایک دوسرا سبب بھی سامنے رکھ دیا جاتا ہے کہ یہ لوگ اس بےجا حسد اور لالچ میں کیوں مبتلا ہوگئے ہیں تو اس سے بھی دور رس سبب یہ ہے کہ یہ لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔ اس وجہ سے اللہ کے اس فضل وکرم سے محروم ہوگئے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿بَلْ يُرِيْدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ اَنْ يُّؤْتٰى صُحُفًا مُّنَشَّرَةًۙ٠٠٥٢﴾یعنی ان کو ایمان لانا نہیں ہے کفر پر جمے رہنے کے لیے ایسے مطالبات کرتے ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بس میں نہیں ہیں، کہتے ہیں کہ اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم میں سے ہر شخص کے سر کے پاس جب صبح کو سو کر اٹ... ھیں تو ایک پرچہ ہونا چاہیے جس میں اللہ کی طرف سے یہ لکھا ہو کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ بھی لکھا ہو کہ ان کا اتباع کرو۔ یہ ان کی جاہلانہ باتیں ہیں واضح ہونے کے بعد حق کو نہ ماننا اور حیلے بہانے تلاش کرنا مزید کفر در کفر ہے۔ (الدر المنثور صفحہ ٢٨٦ ض ج ٦)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ بل یرید۔ یہ مقدر پر معطوف ہے۔ یہ معاندین اس عظیم تذکرہ (قرآن) کو کافی نہیں سمجھتے، بلکہ ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کے نام پر الگ الگ صحیفہ آسمان سے ت اترے تب وہ مانیں گے عطف علی مقد یقتضیہ المقام کانہ قیل لایکتفون بتلک التذکرۃ ولا یرضون بھا بل یرید کل واحد منہم الخ (روح ج 29 ص 134) ۔ تائید...  : لن نؤمن حتی نؤتی مثل ما اوتی رسل اللہ (انعام) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(52) نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کو کھلے ہوئے آسمانی صحیفے دیئے جائیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ہر کوئی نبی ہوا چاہتا ہے کہ کھلی کتاب پاوے آسمان سے۔ خلاصہ : یہ کہ سورة نبی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ یہ کافر ایمان لانے کے لئے یہ شرط مقرر کرتے تھے کہ اس کتاب کو ... ہم خودپڑھیں ایسی کتاب ہمارے سامنے آسمان سے لاکر ہم کو دو ، اس قسم کی شرائط محض وفع الوقتی کے لئے کرتے تھے یا یہ کہ جو کچھ اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے وہ ہم کو بھی دیا جائے۔ حتی نوتی مثل مااوتی رسل اللہ (سورہ انعام)  Show more