Surat ul Mudassir

Surah: 74

Verse: 56

سورة المدثر

وَ مَا یَذۡکُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ ہُوَ اَہۡلُ التَّقۡوٰی وَ اَہۡلُ الۡمَغۡفِرَۃِ ﴿۵۶﴾٪  16 الثلٰثۃ

And they will not remember except that Allah wills. He is worthy of fear and adequate for [granting] forgiveness.

اور وہ اس وقت نصیحت حاصل کریں گے جب اللہ تعالٰی چاہے وہ اسی لائق ہے کہ اس سے ڈریں اور اس لائق بھی کہ وہ بخشے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا يَذْكُرُونَ إِلاَّ أَن يَشَاء اللَّهُ ... So, whosoever wills receives admonition (from it)! And they will not receive admonition unless Allah wills; This is similar to Allah's statement, وَمَا تَشَأءُونَ إِلاَّ أَن يَشَأءَ اللَّهُ And you cannot will unless Allah wills. (81:29) Concerning Allah's statement, ... هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ ... He is the One, deserving the Taqwa and He is the One Who forgives. This means that He deserves to be feared and He is eligible to forgive the sin of whoever turns to Him and repents. This was said by Qatadah. This is the end of the Tafsir of Surat Al-Muddaththir, all praise and thanks are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 یعنی اس قرآن سے ہدایت اور نصیحت اسے ہی حاصل ہوگی جسے اللہ چاہے گا۔ 56۔ 2 یعنی وہ اللہ ہی اس لائق ہے اس سے ڈرا جائے اور وہی معاف کرنے کے اختیارات رکھتا ہے۔ اس لئے وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اسکی نافرمانی سے بچا جائے تاکہ انسان اس کی مغفرت و رحمت کا سزاوار قرار پائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] مگر اللہ بھی صرف اسے ہدایت کی توفیق دیتا ہے جو خود بھی ہدایت کا طالب ہو۔ اور جو خود ہدایت سے کوسوں دور رہنا چاہتا ہو، اللہ ایسے لوگوں کو زبردستی ہدایت نہیں دیا کرتا۔ [٢٧] آیت کے اس جملہ کی بہترین تفسیر درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں :&& کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اس بات کا اہل ہوں کہ لوگ مجھ سے ڈریں اور جو شخص مجھ سے ڈر گیا اور میرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ بنایا تو مجھے لائق ہے کہ میں اسے بخش دوں۔ && (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ سورة المدثر)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

هُوَ اَهْلُ التَّقْوٰى وَاَهْلُ الْمَغْفِرَةِ (...He is worthy to be feared, and worthy to forgive... 74:56) Allah is ` Ahl-ut-taqwa in the sense that &He alone is worthy to be feared and entitled to be obeyed&. Ahl-ul-Maghfirah signifies that &He alone is the Being Who forgives the sins of even the greatest sinners whenever He so wishes&: No one else has the power to do this . Alhamdulillah The Commentary on Surah Al-Muddaththir Ends here

(آیت) هُوَ اَهْلُ التَّقْوٰى وَاَهْلُ الْمَغْفِرَةِ اللہ تعالیٰ کا اہل تقویٰ ہونا بایں معنی ہے کہ صرف وہی اس کا مستحق ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور اس کی نافرمانی سے بچا جائے اور اہل مغفرت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہی ایسی ذات ہے جو بڑے بڑے مجرم گناہگار کو اس کے سب گناہ جب چاہتے ہیں بخش دیتے ہیں اور کسی کا یہ حوصلہ نہیں ہوسکتا۔ تمت سورة المدثر بحمد اللہ یوم المجعة ٥٢ رجب ١٩٣١

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا يَذْكُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ۝ ٠ ۭ ہُوَاَہْلُ التَّقْوٰى وَاَہْلُ الْمَغْفِرَۃِ۝ ٥٦ ۧ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ والغفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور بغیر مشیت خداوندی کے یہ لوگ نصیحت نہیں قبول کریں گے، وہی ہے جس سے ڈر کر اس کی فرمانبرداری کی جائے اور وہی ہے جو گناہ معاف کرتا ہے یعنی جو شخص اس سے ڈرے گا اور توبہ کرے گا تو وہی ہے اس کے جو قیامت میں گناہ معاف کرے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦{ وَمَا یَذْکُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ ط } ” اور یہ لوگ نصیحت اخذ نہیں کریں گے ‘ مگر یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔ “ { ہُوَ اَہْلُ التَّقْوٰی وَاَہْلُ الْمَغْفِرَۃِ ۔ } ” وہی ڈرنے کے لائق ہے اور وہی مغفرت کا مجاز ۔ “ یہ اسی کا حق ہے کہ اس کا تقویٰ اختیار کیا جائے ‘ اس کے احکام کی پاسداری کی جائے اور وہی اس کا اہل ہے کہ جس کی چاہے مغفرت فرما دے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41 That is, a person's taking heed dces not wholly depend upon his own will, but he takes heed only when Allah also wills to grant him the grace to take heed. In other words, the truth that has been expressed here is that no act of man takes a concrete shape solely by his own will, but each act is implemented only when the will of God combines with the will of the man. This is a very delicate question, failure to understand which has often made human thought falter. Briefly it can be understood thus: If in this world every man had the power to accomplish whatever he wanted to accomplish, the system of the world would be disturbed. This system continua to hold only because the will of Allah is .dominant over all other wills. Man can accomplish whatever he wants to accomplish only when Allah also wills that he be allowed to accomplish it. The same is also the case with guidance and error. Only man's own desiring to have guidance is not enough for him to have guidance; he receives guidance only when Allah also takes a decision to fulfil his desire. Likewise, only man's desiring to go astray by itself is also not enough, but when Allah in view of his desire decides that he be allowed to wander into evil ways, then he wanders into the evil ways in which Allah allows him to wander. As for example, if a person wants to become a thief, only his desire is not enough that he may enter into any house he likes and matte away with whatever he likes, but he can fulfil his desire only at the time and to the extent and in the form that AIlah allows him to fulfil it, according to His supreme wisdom and expedience. 42 That is, "The admonition being given to you to avoid Allah's displeasure is not for the reason that Allah needs it, and if you did not take it, AIlah would be harmed, but you are being so admonished because it is Allah's right that His servants should seek His pleasure and good will and should avoid doing anything against His will." 43 That is, "It behoves only Allah that He should receive into His mercy whoever desists from evil no matter how many acts of disobedience he might have committed in the past. Allah is not vengeful to His servants so that He may refuse to forgive their errors and be bent upon punishing them in any case."

سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :41 یعنی کسی شخص کا نصیحت حاصل کرنا سراسر اس کی اپنی مشیت ہی پر موقوف نہیں ہے ، بلکہ اسے نصیحت اسی وقت نصیب ہوتی ہے جب کہ اللہ کی مشیت بھی یہ ہو کہ وہ اسے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق بخشے ۔ دوسرے الفاظ میں یہاں اس حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے کہ بندے کا کوئی فعل بھی تنہا بندے کی اپنی مشیت سے ظہور میں نہیں آتا ، بلکہ ہر فعل اسی وقت پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے جب خدا کی مشیت بندے کی مشیت سے مل جائے ۔ یہ ایک نہایت نازک مسئلہ ہے جسے نہ سمجھنے سے انسانی فکر بکثرت ٹھوکریں کھاتی ہے ۔ مختصر الفاظ میں اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر اس دنیا میں ہر انسان کو یہ قدرت حاصل ہوتی کہ جو کچھ وہ کرنا چاہے اللہ کی مشیت ساری مشیتوں پر غالب ہے ۔ انسان جو کچھ بھی کرنا چاہے وہ اسی وقت کر سکتا ہے جبکہ اللہ بھی یہ چاہے کہ انسان کو وہ کام کرنے دیا جائے ۔ یہی معاملہ ہدایت اور ضلالت کا بھی ہے ۔ انسان کا محض خود ہدایت چاہنا اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ اسے ہدایت مل جائے ، بلکہ اسے ہدایت اس وقت ملتی ہے جب اللہ اس کی اس خواہش کو پورا کرنے کا فیصلہ فرما دیتا ہے ۔ اس طرح ضلالت کی خواہش بھی محض بندے کی طرف سے ہونا کافی نہیں ہے ۔ بلکہ جب اللہ اس کے اندر گمراہی کی طلب پا کر یہ فیصلہ کرد یتا ہے کہ اسے غلط راستوں میں بھٹکنے دیا جائے تب وہ ان راہوں میں بھٹک نکلتا ہے جن پر اللہ اسے جانے کا موقع دے دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی چور بننا چاہے تو محض اس کی یہ خواہش اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ جہاں جس کے گھر میں گھس کر وہ جو کچھ چاہے چرالے جائے ، بلکہ اللہ اپنی عظیم حکمتوں اور مصلحتوں کے مطابق اس کی اس خواہش کو جب اور جس قدر اور جس شکل میں پورا کرنے کا موقع دیتا ہے اسی حد تک وہ اسے پورا کر سکتا ہے ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :42 یعنی تمہیں اللہ کی ناراضی سے بچنے کی جو نصیحت کی جا رہی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ اللہ کو اس کی ضرورت ہے اور اگر تم ا یسا نہ کرو تو اس سے اللہ کا کوئی نقصان ہوتا ہے ، بلکہ یہ نصیحت اس بنا پر کی جا رہی ہے کہ اللہ کا یہ حق ہے کہ اس کے بندے اس کی رضا چاہیں اور اس کی مرضی کے خلاف نہ چلیں ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :43 یعنی یہ اللہ ہی کو زیب دیتا ہے کہ کسی نے خواہ اس کی کتنی ہی نافرمانیاں کی ہوں ، جس وقت بھی وہ اپنی اس روش سے باز آ جائے اللہ اپنا دامن رحمت اس کے لیے کشادہ کر دیتا ہے ۔ اپنے بندوں کے لیے کوئی جذبہ انتقام وہ اپنے اندر نہیں رکھتا کہ ان کے قصوروں سے وہ کسی حال میں در گزر ہی نہ کرے اور انہیں سزا دیے بغیر نہ چھوڑے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(74:56) وما یذکرون الا ان یشاء اللہ۔ واؤ حالیہ ہے ما یذکرون مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ ذکر (باب نصر) مصدر سے جس کے معنی ہیں ذکر کرنا۔ یاد کرنا۔ بیان کرنا۔ پندو نصیحت حاصل کرنا۔ قبول کرنا۔ الا ان یشاء اللہ استثناء مفرغ ہے (اس کا مستثنیٰ منہ مذکور نہیں ہے) ۔ مطلب یہ کہ قرآن مجید ایک نصیحت ہے جو چاہے اس کو حاصل کرے۔ لیکن نصیحت چاہنے والے کا نصیحت حاصل کرنا محض اور صرف اس کی اپنی مشیت پر مبنی نہیں ہے بلکہ مشیت ایزدی اور اس کی کرم نوازی پر منحصر ہے۔ نصیحت کا پالنا تبھی ممکن ہوگا جب اللہ بھی جائیگا۔ وھذا تصریح بان افعال العباد بمشیۃ اللہ عزوجل بالذات او بالواسطۃ (روح المعانی) یہ صریحا ظاہر ہے کہ بندوں کے افعال بالذات یا بالواسطہ اللہ عزوجل کی مشیت سے وابستہ ہیں۔ (نصیحت پذیر ہونے کی چاہت کرنے والے) کسی وقت نصیحت پذیر نہیں ہوسکتے مگر اسی وقت جب کہ خدا ان کی مشیت اور نصیحت پذیری کا ارادہ کرے۔ یہ آیت صراحۃ دلالت کر رہی ہے کہ انسانی اعمال و افعال اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے وابستہ ہیں۔ (تفسیر مظہری) ۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے وما تشاء ون الا ان یشاء اللہ ان اللہ کان علیما حکیما (76:30) اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر جو خدا کو منظور ہو۔ بیشک اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے۔ یہ اس لئے کہ بندے کی مشیت خواہ کتنی ہی عقل و فہم پر مبنی ہو وہ محدود اور نقائص و معائب سے مبرا نہیں ہوسکتی۔ اور اس علیم و حکیم کی مشیت کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہے عقل کا تقاضا یہی ہے کہ وہ دانائے کل کے تابع رہے۔ ھو اہل التقوی واہل المغفرۃ۔ ھو ای اللہ۔ اہل۔ والا۔ والے۔ وہ سب لوگ اہل کہلاتے ہیں جن کو مذہب یا نسب یا دونوں کے علاوہ اور کسی قسم کا کوئی رشتہ یا تعلق مثلاً ایک گھر یا ایک ہی شہر میں رہنا بسنا یا کسی مخصوص صفت اور پیشہ میں شریک ہونا۔ غرض کسی خاص صفت سے منسوب ہونا یا متصف ہونا ایک سلسلہ میں منسلک کر دے۔ کسی چیز کا مستحق یا سزا وار ہونا۔ عربی میں بولتے ہیں فلان اہل لکذا۔ فلاں اس کا مستحق اور سزا وار ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ وہی اس قابل ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور وہی اس لائق ہے کہ بخش دے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت نے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا : تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ میں ہی اس لائق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے اور میرے علاوہ کسی کو معبود نہ بنایا جائے۔ لہٰذا جو شخص بھی یہ دونوں کام کرے گا تو میں ہی اس لائق ہوں کہ اسے بخش دوں۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ومایذکرون .................... المغفرة اس کائنات میں جو چیز بھی واقع ہوتی ہے اللہ کے عظیم تر نظام مشیت میں بندھی ہوتی ہے۔ اللہ کے ارادے اور مشیت ہی کے رخ پر اور اس کے وسیع دائرے کے اندر واقعات چلتے ہیں۔ لہٰذا کسی انسان سے کوئی فعل اللہ کی مشیت کے بغیر سر زد نہیں ہوسکتا۔ زمین کی تمام قدروں کی مشیت الٰہیہ اپنے دائرے کے اندر لیے ہوئے ہوتی ہے۔ کیونکہ تمام قدریں اللہ کی مشیت کی پیدا کردہ ہیں اور انسان اور نوامیس فطرت اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ اس کائنات میں جو واقعات چلتے ہیں وہ مشیت الٰہیہ کی ریل کے اندر ہی چلتے ہیں جس پر کوئی حد اور قید نہیں ہے۔ اس ریل کے اندر ہر انسان آزاد بھی ہے اور بند بھی۔ تذکر اور نصیحت آموزی تو اللہ کی توفیق کے مطابق ہوتی ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ کون اس کا مستحق ہے۔ دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ اللہ جس طرح چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے۔ اگر اللہ جان لے کہ یہ شخص اچھی نیت کا مالک ہے تو اللہ اسے اچھائی کی طرف پھیر دیتا ہے۔ لیکن انسان کو کوئی پتہ نہیں ہے کہ اللہ کیا چاہتا ہے ؟ اللہ کی چاہت تو پردہ غیب میں ہے۔ البتہ اس کو یہ معلوم ہے کہ اللہ کی رضا کیا ہے ؟ کس میں ہے ؟ اور یہ بات اللہ نے قرآن میں بتادی ہے کہ اللہ کی رضا کس میں ہے ؟ جب انسان اللہ کی مرضی کے راستے کی طرف بڑھتا ہے تو اللہ اسے مزید آگے بڑھنے کی توفیق دیتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایک مومن کے احساس کے اندر جس چیز کو اچھی طرح بٹھانا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت بےقید ہے۔ اور یہ کہ اللہ کی مشیت اسے گھیرے ہوئے ہے ، تاکہ ایک مخلص بندے کی تمام تر توجہ اللہ کی ذات پر مرکوز رہے۔ اور ایک مسلم پوری طرح اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کیے رکھے۔ یہ ہے وہ بنیادی حقیقت جسے ذہن نشین کئے بغیر اسلام کسی انسانکے دل میں جاگزیں نہیں ہوسکتا۔ اور جب یہ کیفیت ذہن میں اچھی طرح بیٹھ جائے اور انسانی قلب ونظر اس میں سرشار ہوجائیں اور انسان زندگی کے تمام واقعات اور حادثات کی تعبیر اس تصور کے مطابق کرنے لگے تو وہ صحیح طرح مسلم ہوتا ہے۔ یہی مقصد ہے اللہ کی مشیت کے بےقید ہونے کا اور اللہ کی مشیت کا یہ اطلاق قرآن میں ہر فیصلے کے ساتھ لایا جاتا ہے۔ چاہے جنت اور دوزخ کا فیصلہ ہو ، چاہے کسی شخص کی ہدایت وضلالت کا فیصلہ ہو۔ رہا وہ تاریخی اور کلامی مجادلہ و مباحثہ جو انسان کے جبرواختیار کے بارے میں چلا ، تو وہ پوری حقیقت کو ظاہر نہیں کرتا ، وہ دراضل کلی حقیقت کے ایک جزء کو لیتا ہے اور اس کیو جہ سے فکر انسانی کسی تشقی بخش قول تک کبھی نہیں پہنچ سکا۔ کیونکہ یہ مباحثہ ومجادلہ قرآن کے صحیح اور سادہ راہوں سے ہٹ کر نہایت ہی پیچیدہ راہوں پر جانکلا اور جس قدر یہ مباحثہ آگے بڑھا ، فکر انسانی کی تگ وتازی کی راہیں تنگ ہوتی رہیں۔ وما یذکرون ................ اللہ (74:56) ” اور یہ کوئی سبق حاصل نہ کریں گے۔ الایہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے “۔ کیونکہ وہ اللہ کی مشیت کے نظام سے متصادم نہیں ہوسکتے۔ اور نہ وہ کسی حیثیت میں کوئی مخالفانہ حرکت کرتے ہیں۔ انسان کی حرکت اور انسان کا ارادہ بھی وسیع تر دائرہ مشیت کے اندر ہی ہوتا ہے۔ ھواھل التقوی (56:74) ” وہ اس کا حقدار ہے کہ اس سے تقویٰ کیا جائے “۔ اللہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے بندے اس سے ڈریں ، اس لئے ان سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں۔ واھل المغفرة (74:56) ” اور وہ اس بات کا اہل ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو بخش دے “۔ اور یہ کرم وہ جن بندوں پر چاہتا ہے کرتا ہے اور اللہ کا کرم اس کے نظام مشیت کے مطابق ہوا کرتا ہے۔ تقویٰ ہی انسان کو مغفرت کا اہل بناتا ہے۔ اور اللہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ ھواھل ........................ المغفرة (74:56) ” وہ اس بات کا حق دار ہے کہ اس سے تقویٰ کیا جائے اور وہ اس کا اہل ہے تقویٰ کرنے والوں کو بخش دے “۔ ٭٭٭٭٭

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ مَا يَذْكُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ يَّشَآء اللّٰهُ ١ؕ﴾ (اور نہیں نصیحت حاصل کریں گے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ چاہے) ۔ ﴿هُوَ اَهْلُ التَّقْوٰى وَ اَهْلُ الْمَغْفِرَةِ (رح) ٠٠٥٦﴾ (وہی ہے جس سے ڈرنا چاہیے اور وہی معاف کرنے والا ہے) ۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت کریمہ ﴿ هُوَ اَهْلُ التَّقْوٰى وَ اَهْلُ الْمَغْفِرَةِ (رح) ٠٠٥٦﴾ کی تلاوت فرمائی پھر فرمایا کہ تمہارے رب نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں اس کا اہل ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے لہٰذا کوئی میرے ساتھ کوئی معبود نہ ٹھہرائے سو جو شخص مجھ سے ڈرا اور میرے ساتھ کوئی معبود نہ ٹھہرایا میں اس کا اہل ہوں کہ اسے بخش دوں۔ (روح المعانی صفحہ ١٥٤: ج ٢٩ و عزاہ الی احمد والترمذی والحاکم) احیانا اللہ تعالیٰ علی توحیدہ واماتنا علیہ وھذا آخر تفسیر سورة المدثر والحمد للہ علی التمام وحسن الختام والصلٰوة والسلام علی نبیہ خیر الانام وعلی الہ وصحبہ البررة الکرام

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ” وما یذکرون “ اور جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیئت میں ان کا نصیحت حاصل کرنا نہ ہو وہ نصیحت حاصل نہیں کرسکتے۔ کیونکہ بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ کی مشیئت ہی سے معرض وجود میں آتے ہیں۔ ” ھو اھل التقوی “ اللہ ہی کی ذات اس کی مستحق ہے کہ اس کے عذاب سے ڈرا جائے اس کی اطاعت کی جائے اور اس کے ساتھ شرک نہ کیا جائے اور وہی اس کا اہل ہے کہ جو اس پر ایمان لائے اور اس کی اطاعت کرے، اس کی کوتاہیوں کو معاف کرے اور اس کی عملی کمزوریوں سے درگذر فرمائے۔ حدیث میں وارد ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں اس کا اہل ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے اور میرے ساتھ شرک نہ کیا جائے۔ جو مجھ سے ڈرے گا اور کسی کو میرا شریک نہ بنائے گا میں اسے بخش دوں گا۔ کیونکہ اس کا اہل بھی میں ہی ہوں۔ عن انس ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال (فی ھذہ الایۃ) قد قال ربکم انا اھل ان اتقی فلا یجعل معی الہ فمن فمن اتقانی فلم یجعل معی الھا اخر فانا اھل ان اغفر لہ (روح ج 29 ص 135 بحولہ احمد، ترمذی، حاکم، نسائی، ابن ماجہ) سورة مدثر میں آیات توحید۔ ” قم فانذر، وربک فکبر “ نفی شرک ہر قسم۔ سورة المدثر ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(56) اور جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے یہ لوگ نصیحت قبول کرنے والے نہیں ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی اس کے لائق ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور وہی مغفرت اور بندوں کے گناہ معاف کرنے کا اہل ہے۔ یعنی قرآن تو واقعی تذکرہ ہے اور فی نفسہ نصیحت ہے لیکن بعض لوگ نصیحت قبول نہیں کرتے تو بات یہ ہے کہ حضرت حق تعالیٰ کے بدون چاہے یہ لوگ نصیحت قبول نہیں کریں گے جو لوگ رشحات نور سے محروم رہ چکے ہیں اور جن کا دامن استعداد حق پرستی سے خالی ہے اور جو اپنی بداعمالی اور اسلام دشمنی کے باعث توفیق الٰہی سے محروم ہیں اور ان کی ہدایت کے ساتھ مشیت ایزدی کا تعلق نہیں ہے وہ نصیحت قبول نہیں کریں گے آخر میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی تقویٰ کا اہل ہے یعنی وہی ہے جس کی گرفت اور جس کے عذاب سے ڈرنا چاہیے وہ اللہ تعالیٰ ہی اس لائق ہے کہ لوگ اس سے ڈریں اور وہی اس قابل ہے کہ ڈرنے والوں کے گناہ بخشے اور معاف کردے۔ حدیث قدسی میں آتا ہے کہ تمہارا پروردگار فرماتا ہے میں اس کا اہل ہوں اور میں اس قابل ہوں کہ بندہ مجھ سے ڈرتا رہے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور جب بندہ مجھ سے ڈرا اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تو میں اس قابل ہوں کہ اس کے گناہوں کو بخش دوں اور اپنے لطف و کرم سے اس کے تمام گناہ معاف کردوں۔ تم تفسیر سورة المدثر