Surat ul Mudassir
Surah: 74
Verse: 8
سورة المدثر
فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوۡرِ ۙ﴿۸﴾
And when the trumpet is blown,
پس جبکہ صور میں پھونک ماری جائے گی ۔
فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوۡرِ ۙ﴿۸﴾
And when the trumpet is blown,
پس جبکہ صور میں پھونک ماری جائے گی ۔
فاذا نقرفی الناقور…:” الناقور “ ” نقر ینفر “ (ن) سے ” فاعدل “ کے وزن پر ہے جس کا معنی ہے، پھونکنا، ایسی ضرب لگانا کہ سوراخ ہوجائے، مراد صور ہے۔ شروع سورت میں ڈرانے کا حکم ہے، اب اس کی تفصیل ہے کہ جس دن صور میں پھونکا جائے گا اور ہر چیز فنا ہونے کے بعد دوبارہ سب لوگ قبروں سے نکل کر اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو وہ ایک مشکل دن ہوگا ۔
فَاِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُوْرِ ٨ ۙ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ نقر النَّقْرُ : قَرْعُ الشَّيْءِ المُفْضِي إِلَى النَّقْبِ ، والمِنْقَارُ : ما يُنْقَرُ به كمِنْقَارِ الطَّائرِ ، والحَدِيدَةِ التي يُنْقَرُ بها الرَّحَى، وعُبِّرَ به عن البَحْثِ ، فقیل : نَقَرْتُ عَنِ الأَمْرِ ، واستُعِيرَ للاغْتِيَابِ ، فقیل : نَقَرْتُهُ ، وقالتْ امرأةٌ لِزَوْجِهَا : مُرَّ بِي عَلَى بَنِي نَظَرِي ولا تَمُرَّ بي عَلَى بَنَاتِ نَقَرِى «1» ، أي : علی الرجال الذین ينظُرون إليَّ لا علی النِّساء اللَّواتِي يَغْتَبْنَنِي . والنُّقْرَةُ : وَقْبَةٌ يَبْقَى فيها ماءُ السَّيْلِ ، ونُقْرَةُ القَفَا : وَقْبَتُهُ ، والنَّقِيرُ : وَقْبَةٌ في ظَهْرِ النَّوَاةِ ، ويُضْرَبُ به المَثَلُ في الشیء الطَّفِيفِ ، قال تعالی: وَلا يُظْلَمُونَ نَقِيراً [ النساء/ 124] والنَّقِيرُ أيضا : خَشَبٌ يُنْقَرُ ويُنْبَذُ فيه، وهو كَرِيمُ النَّقِيرِ. أي : كَرِيمٌ إذا نُقِرَ عنه . أي : بُحِثَ ، والنَّاقُورُ : الصُّورُ ، قال تعالی: فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ونَقَرْتُ الرَّجُلَ : إذا صَوَّتَّ له بلسانِكَ ، وذلک بأن تُلْصِقَ لسانَك بنُقْرَةِ حَنَكِكَ ، ونَقَرْتُ الرَّجُلَ : إذا خَصَصْتَهُ بالدَّعْوَةِ ، كأَنَّك نَقَّرْتَ له بلسانِكَ مُشِيراً إليه، ويقال لتلک الدَّعْوَةِ : النَّقْرَى. ( ن ق ر ) النقر ( ن ) کسی چیز کو کھٹکھٹانا حتیٰ کہ اس میں سوراخ ہوجائے المنقار کھٹکھٹا نے لا آلہ جیسے پرند کی چونچ یا چکی کو کندہ کرنے کے اوزار وغیرہ ۔ نقرت عن الامر کسی معاملہ کی چھان بین کرنا نقرتہ بطور استعارہ بمعنی غیبت کرنا جیسا کہ ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا : ۔ کہ مجھے مردوں کے پاس سے لے کر کر گزر نا جو نظر ڈالتے ہیں اور عورتوں کے پاس سے لے کر نہ گزر نا جو عیب لگاتی اور غیبت کرتی ہیں ۔ النقرۃ گڑھا جس میں سیلاب کا پانی باقی رہ جاتا ہے گر دن کے پچھلے حصے کے گڑھے کو نقرۃ القفا کہا جاتا ہے ۔ انقیر کھجور کی گھٹلی کے گڑھے کو کہتے ہیں ۔ اور یہ حقیر چیز کے لئے ضرب المثل ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا يُظْلَمُونَ نَقِيراً [ النساء/ 124] اور تل برابر بھی حق تلفی نہ کی جائے گی ۔ اور النقیر اس لکڑی کو بھی کہتے ہیں جس میں گڑھا کر کے اس میں نبیذ ڈالتے ہیں کہا جاتا ہے ھو کریم النقیر فلاں شریف الاصل ہے یعنی بعد از تفتیش ۔ الناقور کے معنی صور یعنی بگل کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ نقرت الرجل زبان کو تالو سے لگا کر آواز نکال کر کسی آدمی کو بلانا ۔ نقرت ت الرجل کسی شخص کو جماعت میں سے خاص کر علیحدہ بلانا گو یا زبان کے ذریعہ آواز نکال کر خاص کر اس کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اور اس طور سے بلانے کو نقری کہا جاتا ہے ۔ میں نے خاص طور پر انہیں بلایا ۔
(٨۔ ١٠) اور اپنے پروردگار کی اطاعت اور اس کی عبادت پر جمے رہو، سو جس وقت مردوں کو زندہ کرنے کے لیے صورت میں پھونک ماری جائے گی تو اس دن کی ہیبت و عذاب کافروں کے لیے سخت ہوگا جس میں ان پر ذرا آسانی نہ ہوگی۔ شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ (الخ) امام بخاری و مسلم نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے غار حرا میں ایک مہینہ تک اعتکاف کیا ہے جب میں اپنے اعتکاف کے دن پورا کرچکا تو میں وہاں سے آنے کے لیے نکلا تو مجھے آواز دی گئی تو میں نے اپنا سر اوپر کو اٹھایا دیکھتا کیا ہوں کہ وہی فرشتہ ہے جو میرے پاس غار غرا میں آیا تھا، چناچہ میں لوٹا اور میں آکر کہنے لگا کہ مجھے کپڑا اوڑھاؤ، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ ۔ طبرانی نے سند ضعیف کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا کہ ولید بن مغیرہ نے قریش کے لیے کھانا تیار کیا، چناچہ جب انہوں نے کھانا کھالیا تو وہ کہنے لگے کہ اس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے تو ان میں سے بعض کہنے لگے ساحر ہیں، اور بعض نے کہا ساحر نہیں ہیں، اور بعض کہنے لگے کاہن ہیں اور بعض نے کہا کاہن نہیں ہیں، اور بعض کہنے لگے شاعر ہیں اور بعض نے کہا شاعر نہیں ہیں اور بعض کہنے لگے یہ تو منقول جادو ہے اس چیز کی رسول اکرم کو اطلاع ہوئی تو آپ غمگین ہوئے اور اپنا سر مبارک جھکا لیا اور چادر لپیٹ لی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ تک نازل فرمائی۔
آیت ١٠{ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ ۔ } ” کافروں پر وہ ہلکا نہیں ہوگا۔ “ اس کے مقابل سورة المزمل میں قیامت کے دن کا ذکر اس طرح آیا تھا : { فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَانِ - السَّمَآئُ مُنْفَطِرٌم بِہٖط کَانَ وَعْدُہٗ مَفْعُوْلًا ۔ } ” اب اگر تم بھی کفر کرو گے تو تم کیسے بچ جائو گے اس دن جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ آسمان اس کے ساتھ پھٹ پڑنے کو ہے۔ اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ “ اس کے بعد سورت کے تیسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے۔ ان آیات کا لہجہ اور انداز بہت سخت ہے۔
(74:8) فاذا نقر فی الناقور : ناقور، صور، یہ لفظ نقر سے بنا ہے۔ نقر کا مطلب ہے آواز پیدا کرنا۔ اصل معنی ہے کسی چیز کو اتنا کھٹکھٹانا کہ آخر اس میں سوراخ ہوجائے۔ پدنرے کی چونچ کو منقار اسی مناسبت سے کہتے ہیں۔ فاذا میں ف سببیہ ہے۔ گویا مطلب ہوا کہ کافروں کے دکھ پر صبر کرو ان کے سامنے ایک سخت ترین دن آرہا ہے جس میں تم کو صبر کا اچھا نتیجہ ملے گا۔ ترجمہ :۔ پھر جب ناقور پھونکا جائے گا۔ اذا شرطیہ، جملہ شاطیہ ہے۔
فہم القرآن ربط کلام : اللہ کے رسول نے جونہی لوگوں کو اللہ کی توحید کی دعوت دی تو وہ لوگ آپ کی جان کے دشمن ہوگئے اور انہوں نے آپ کی مخالفت میں ایڈی چوٹی کا زور لگا دیا۔ ایسے لوگوں کو ان کا انجام بتلایا گیا ہے کہ آج تم اپنی طاقت پر گھمنڈ کرتے ہو۔ وہ وقت یاد کرو جس دن صور پھونکا جائے گا۔ انکار کرنے والوں کے لیے یہ دن بڑا سخت ہوگا اور اس کی سختی کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ سرداران مکہ نے بڑی کوشش کی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی طرف لوگ متوجہ نہ ہوسکیں لیکن دعوت کی کشش، آپ کے اخلاق اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم جدوجہد کے نتیجہ میں لوگ آپ کی ذات کے گرویدہ اور توحید کی دعوت قبول کیے جا رہے تھے یہ بات سرداران مکہ کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھی۔ اس کے لیے وہ سرجوڑ کر بیٹھتے اور غور کرتے کہ اس دعوت کو کس طرح روکا جائے بالخصوص حج کے موقع پر ان کی نیندیں حرام ہوجاتیں، وہ بار بار اس بات پر غور کرتے کہ زائرین حرم کو آپ کی ذات اور دعوت سے کس طرح روکا جائے۔ اسی ایجنڈے کے پیش نظر سرداران مکہ نے ایک نمائندہ اجلاس بلایا اور لوگوں کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا کہ حج کی آمد آمد ہے۔ اس لیے ہمیں پہلے سے ہی اس بات کی منصوبہ بندی کرلینی چاہیے تاکہ ہمارے مؤقف میں کوئی تضاد نہ پایا جائے اس طرح ہم لوگوں کو (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روک سکتے ہیں۔ ایک شخص نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم لوگوں کو یہ بات کہیں گے کہ یہ شاعر ہے اور شاعرانہ کلام سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے۔ صدر مجلس ولید نے اس بات کی تردید کی کہ ہم شاعرانہ کلام کو اچھی طرح سمجھتے ہیں یہ بات آپ پر لاگو نہیں ہوتی۔ دوسرے نے کہا کہ ہم اسے کاہن کے طور پر پیش کریں گے لیکن ولید نے اس کی بھی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کاہن تو اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں یہ الزام بھی اس پر صادق نہیں آتا بالآخر اس نے خود تجوید دی کہ ہم اسے جادو گر کہیں گے کیونکہ اس کے کلام میں جادو کا اثر پایا جاتا ہے جو بھی اس کی بات توجہ سے سنتا ہے وہ اس کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس پر مجمع نے اسے بڑی داد دی جس پر اس نے فاخرانہ انداز میں ناک چڑھائی اور منہ بسوڑا اور متکبرانہ انداز میں مجلس برخواست کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا، پھر پوری رعونت کے ساتھ اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔ بظاہر تو یہ ایک شخص کا واقعہ ہے لیکن حق سے روگردانی کرنے والا ہر بڑا شخص ایسا ہی کردار رکھتا ہے۔ اس لیے اس کے کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے یوں انتباہ کیا گیا۔ مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دیں جسے میں نے اکیلا پیدا کیا اور اسے بہت سا مال دیا اور اس کو بیٹے دیئے جو ہر وقت اس کے سامنے حاضر رہتے ہیں اور اسے ہر طرح کی کشادگی دی اس کے باوجود یہ امید رکھتا ہے کہ اسے مزید دیا جائے یہ ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ عناد رکھتا ہے عنقریب کٹھن منزل کی طرف چڑھایا جائے گا۔ اس نے سوچا اور اپنی طرف سے بات بنانے کی کوشش کی، اس پر اللہ کی مار ہو کیونکہ اس نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادوگر ہونے کا الزام لگایا پھر لوگوں کی طرف فاخرانہ انداز میں دیکھا اور اپنی پیشانی پر تیور چڑھائے، منہ بسوڑا اور متکبرانہ انداز میں اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ یہ تو پہلے دورکا جادو ہے جو اسی طرح چلا آرہا ہے اور انسان کا بنایا ہوا کلام ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا۔ ان آیات میں ولید بن مغیرہ کا کردار اور اس کے گھریلو حالات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو بہت سامال دیا اور بارہ بیٹے عطا فرمائے جو ہر وقت اس کے حکم کے منتظر رہتے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر غور کرتا اور حلقہ اسلام میں داخل ہوجاتا لیکن اس نے اپنی مالی حیثیت اور افرادی قوت کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوا۔ ذلیل اور نافرمان ہونے کے باوجود اس کی خواہش اور کوشش تھی کہ مجھے اور زیادہ مال و اسباب دیئے جائیں تاکہ میں عرب کا بادشاہ بن جاؤں۔ فرمایا کہ اب اسے کچھ نہیں دیا جائے گا اب تو اس کا مقدر بربادی ہے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ عناد رکھتا ہے عنقریب اسے مشکل ترین گھاٹی پر چڑھایا جائے گا اس نے برا سوچا اور بری بات بنانے کی کوشش کی اس پر اللہ کی مار ہے۔ گھاٹی سے مراد مشکل اور زلت ہے چناچہ یہ شخص بدر کے میدان میں ذلّت کی موت مرا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جسے مال اور اولاد دے اسے چاہیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے۔ ٢۔ جو شخص اللہ کی آیات کی پرواہ نہیں کرتا اور دین کے بارے میں بری باتیں بناتا ہے۔ ٣۔ ” اللہ “ کی آیات سے منہ پھیرنا اور تکبر کرنا انتہا درجے کا جرم ہے۔ ٤۔ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اسے جادو یا کسی انسان کا کلام کہنا اس کے ساتھ کفر کرنا ہے۔ ٥۔ جو شخص قرآن مجید کو کسی انسان کا کلام قرار دیتا اسے جہنم میں دھکیلاجائے گا۔ ٦۔ جہنم کی آگ مجرموں کی چمڑیاں ادھیڑ دے گی۔ تفسیر بالقرآن جہنم کی آگ کی تفصیل۔ ١۔ جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ (البقرۃ : ١٦٧) ٢۔ جہنم سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔ (الزخرف : ٧٧) ٣۔ جہنم میں موت وحیات نہیں ہوگی۔ (طٰہٰ : ٧٤) ٤۔ جہنم کی سزا میں وقفہ نہیں ہوگا۔ (فاطر : ٣٦) ٥۔ جہنم کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔ (الفرقان : ٦٥) ٦۔ جہنم بدترین ٹھکانا ہے۔ (آل عمران : ١٩٧) ٧۔ جہنمی کو آگ کے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا۔ (ہمزہ : ٩)
فاذا ........................ الناقور (74:8) ” کے معنی بھی بگل میں پھونکنے کے ہیں لیکن نقر کے معنی میں آواز کی سختی بھی ہے اور آواز کی اس سختی سے اشارہ مقصود ہے ، اس دن کی سختی کی طرف۔ گویا ناقور میں آواز ٹھونکی جاتی ہے اور اس سے سخت آواز نکلتی ہے اور یہ آواز کانوں پر فائر کی طرح لگتی ہے۔ اس لئے یہ دن کافروں پر بہت ہی سخت ہوگا اور اس میں ان کے لئے کوئی سہولت نہ ہوگی۔
مکہ معظمہ کے بعض معاندین کی حرکتوں کا تذکرہ اور اس کے لیے عذاب کی وعید، عذاب دوزخ کیا ہے ؟ معالم التنزیل صفحہ ٤١٥ : ج ٤ میں علامہ بغوی (رح) نے لکھا ہے کہ ایک دن ولید بن مغیرہ مسجد حرام میں تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس نے سورة ٴ غافر کی شروع کی دو آیات سنیں اور آیات سن کر متاثر ہوا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محسوس فرما لیا کہ یہ متاثر ہو رہا ہے۔ آپ نے دوبارہ آیات کو دہرایا اس کے بعد ولید وہاں سے چلا گیا اور اپنی قوم بنی مخزوم میں جا کر کہا کہ اللہ کی قسم میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ابھی ابھی ایسا کلام سنا ہے جو نہ انسانوں کا کلام ہے نہ جنات کا اور اس میں بڑی مٹھاس ہے۔ اور وہ خود بلند ہوتا ہے دوسروں کو بلند کرنے کی ضرورت نہیں اس کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا جب قریش کو یہ بات معلوم ہوئی تو کہنے لگے کہ ولید نے تو نیا دین قبول کرلیا اب تو سارے قریش اس نئے دین کو قبول کرلیں گے، یہ سن کر ابو جہل نے کہا کہ میں تمہاری مشکل دور کرتا ہوں یہ کہہ کر وہ ولید کے پاس گیا اور اس کی بغل میں رنجیدہ ہو کر بیٹھ گیا، ولید نے کہا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے کیا بات ہے تم غمگین نظر آ رہے ہو، ابو جہل نے کہا رنجیدہ ہونے کی بات ہی ہے قریش نے فیصلہ کیا تھا کہ تیرے لیے مال جمع کریں اور تیرے بڑھاپے میں تیری مدد کریں اب وہ یہ خیال کر رہے ہیں کہ تو نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام سنا ہے اور تو ان کے پاس جاتا ہے وہاں ابن ابی قحافہ (حضرت ابوبکر صدیق (رض) بھی موجود ہوتا ہے اور تو ان لوگوں کے کھانے میں سے کھا لیتا ہے یہ بات ولید کو بڑی بری لگی اور کہنے لگا کہ قریش نے ایسا خیال کیوں کیا ؟ کیا قریش کو معلوم نہیں کہ میں ان سے بڑھ کر ہوں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کا کبھی پیٹ بھرا بھی ہے جو ان کے پاس فاضل کھانا ہو (جس سے میں کھا لوں) ۔ اس کے بعد ولید ابو جہل کے ساتھ روانہ ہوا اور اپنی قوم کی مجلس میں پہنچا اور کہنے لگا کہ تم لوگ خیال کرتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیوانہ آدمی ہے تو کیا تم نے کبھی دیکھا کہ وہ اپنا گلا گھونٹ رہا ہو۔ سب نے کہا نہیں، پھر کہنے لگا کہ تم لوگ خیال کرتے ہو کہ وہ کاہن ہے تو کیا تم نے کبھی انہیں کاہنوں والی بات کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ کہنے لگے نہیں ! کہنے لگا کہ تم لوگ کہتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر ہے کیا تم نے کبھی کوئی شعر کہتے ہوئے سنا ہے ؟ کہنے لگے نہیں، کہنے لگا تم کہتے ہو کہ وہ جھوٹا ہے کیا تم نے اس کی زندگی میں کبھی کوئی بات ایسی آزمائی ہے جس میں اس نے جھوٹ بولا ہو، سب نے کہا نہیں (ان لوگوں کی کیا مجال تھی کہ کوئی جھوٹ آپ کی طرف منسوب کرتے انہوں نے تو خود ہی آپ کو نبوت سے سرفراز ہونے سے پہلے امین کا لقب دے رکھا تھا) ۔ قریش نے ولید سے کہا تو تو بتا پھر کیا بات ہے اس نے کہا کہ میری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ وہ جادوگر ہے تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس کی باتوں سے میاں بیوی اور بیٹوں کے درمیان تفریق ہوجاتی ہے۔ روح المعانی میں یوں ہے کہ ابو جہل نے ولید سے کہا کہ تیری قوم تجھ سے راضی نہیں ہوسکتی جب تک کہ تو اس کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دے جس سے معلوم ہوجائے کہ تو اس شخص کا معتقد نہیں ہے ولید نے کہا کہ مجھے مہلت دی جائے تاکہ میں سوچ لوں پھر اس نے سوچ کر کہا کہ وہ جادوگر ہے۔ ولید بن مغیرہ مالدار بھی تھا، کھیتی باڑی، دودھ کے جانور، پھلوں کا باغ، تجارت، غلام اور باندی کا مالک ہونا، ان سب چیزوں کا مفسرین نے تذکرہ کیا ہے نیز اس کے لڑکے بھی تھے جو حاضر باش رہتے تھے ان کی تعداد دس تھی اور جب اس کے سامنے جنت کا ذکر آیا تو کہنے لگا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنت کی خبر دے رہے ہیں اگر یہ سچی ہے تو سمجھ لو کہ وہ میرے لیے ہی پیدا کی گئی ہے۔ ان باتوں کو سامنے رکھ کر آیات کا ترجمہ اور تفسیر ذہن نشین فرمایئے اول تو قیامت کا تذکرہ فرمایا کہ جس دن صور پھونکا جائے گا وہ دن کافروں پر سخت ہوگا جس میں ان کے لیے ذرا آسانی نہ ہوگی، اس کے بعد ایک بڑے معاند کٹر کافر یعنی ولید بن مغیرہ کا تذکرہ فرمایا۔
5:۔ ” فاذا نقر “ تخویف اخروی۔ نقر ای نفخ، یعنی پھونکا جائے گا۔ فلذلک الخ جملہ جزائے شرط ہے۔ یومئذ، ذلک سے بدل ہے اور اسم غیر متمکن کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے یوم مبنی علی الفتح ہے۔ یوم عسیر، ذلک کی خبر ہے۔ علی الکافرین، عسیر سے متعلق ہے۔ غیر یسیر، عسیر کی تاکید ہے (روح) ۔ جب صور پھونکا جائے گا اور قیامت قائم ہوجائے گی تو یہ دن کفار و مشرکین پر نہایت سخت اور دشوار ہوگا۔ اس دن میں کسی قسم کی آسانی، رعایت اور راحت ان کو میسر نہ ہوگی۔