Surat ul Qiyama

Surah: 75

Verse: 16

سورة القيامة

لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ ﴿ؕ۱۶﴾

Move not your tongue with it, [O Muhammad], to hasten with recitation of the Qur'an.

۔ ( اے نبی ) آپ قرآن کو جلدی ( یاد کرنے ) کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How the Prophet received the Revelation This is Allah teaching to His Messenger that how to receive the revelation from the angel. For verily, he (the Prophet) was rushing in his attempts to grasp the revelation and he would be reciting the revelation with the angel while he was reciting it. Therefore, Allah commanded him that when the angel brings some revelation to him he should just listen. Allah would make sure to collect it in his chest, and He would make it easy for him to recite it in the same way that it was revealed to him. Allah would explain it, interpret it and clarify it for him. So the first phase was gathering it in his chest, the second phase was recitation and the third phase was its explanation and clarification of its meaning. Thus, Allah says, لاَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ Move not your tongue concerning to make haste therewith. meaning, with the Qur'an. This is as Allah says, وَلاَ تَعْجَلْ بِالْقُرْءانِ مِن قَبْلِ إَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِى عِلْماً And be not in haste with the Qur'an before its revelation is completed to you, and say: "My Lord! Increase me in knowledge." (20:114) Then Allah says,

حفظ قرآن ، تلاوت و تفسیر کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ یہاں اللہ عزوجل اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دیتا ہے کہ فرشتے سے وحی کس طرح حاصل کریں ، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اخذ کرنے میں بہت جلدی کرتے تھے اور قرأت میں فرشتے کے بالکل ساتھ ساتھ رہتے تھے ، پس اللہ عزوجل حکم فرماتا ہے کہ جب فرشتہ وحی لے کر آئے آپ سنتے رہیں ، پھر جس ڈر سے آپ ایسا کرتے تھے اسی طرح اس کا واضح کرانا اور تفسیر اور بیان آپ سے کرانے کے ذمہ داری بھی ہم ہی پر ہے ، پس پہلی حالت یاد کرانا ، دوسری تلاوت کرانا ، تیسری تفسیر ، مضمون اور توضیح مطلب کرانا تینوں کی کفالت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰٓى اِلَيْكَ وَحْيُهٗ ۡ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا ١١٤؁ ) 20-طه:114 ) یعنی جب تک تیرے پاس وحی پوری نہ آئے تو پڑھنے میں جلدی نہ کیا کر ہم سے دعا مانگ کہ میرے رب میرے علم کو زیادہ کرتا رہے ، پھر فرماتا ہے اسے تیرے سینے میں جم کرنا اور اسے تجھ سے پڑھوانا ہمارا ذمہ ہے جب ہم اسے پڑھیں یعنی ہمارا نازل کردہ فرشتہ جب اسے تلاوت کرے تو تو سن لے جب وہ پڑھ چکے تب تو پڑھ ہماری مہربانی سے تجھے پورا یاد ہو گا اتنا ہی نہیں بلکہ حفظ کرانے تلاوت کرانے کے بعد ہم تجھے اس کی معنی مطالب تعین و توضیح کے ساتھ سمجھا دیں گے تاکہ ہماری اصلی مراد اور صاف شریعت سے تو پوری طرح آگاہ ہو جائے ، مسند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پہلے وحی کو دل میں اتارنے کی سخت تکلیف ہوتی تھی اس ڈر کے مارے کہ کہیں میں بھول نہ جاؤں فرشتے کے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے اور آپ کے ہونٹ ہلتے جاتے تھے چنانچہ حضرت ابن عباس راوی حدیث نے اپنے ہونٹ ہلا کر دکھایا کہ اس طرح اور ان کے شاگرد سعید نے بھی اپنے استاد کی طرح ہلا کر اپنے شاگرد کو دکھائے اس پر یہ آیت اتری کہ اتنی جلدی نہ کرو اور ہونٹ نہ ہلاؤ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے اس کی تلاوت کرانا ہمارے سپرد ہے جب ہم اسے پڑھیں تو آپ سنئے اور چپ رہئے جبرائیل کے چلے جانے کے بعد انہی کی طرح ان کا پڑھایا ہوا پڑھنا بھی ہمارے سپرد ہے ، بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے ، بخاری شریف میں یہ بھی ہے کہ پھر جب وحی اترتی آپ نظریں نیچی کر لیتے اور جب وحی چلی جاتی آپ پڑھتے ، ابن ابی حاتم میں بھی بہ روایت ابن عباس یہ حدیث مروی ہے اور بہت سے مفسرین سلف صالحین نے یہی فرمایا ہے یہ بھی مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت تلاوت فرمایا کرتے تھے کہ ایسا نہ ہو میں بھول جاؤں اس پر یہ آیتیں اتریں ، حضرت ابن عباس اور عطیہ عوفی فرماتے ہیں اس کا بیان ہم پر ہے یعنی حلال حرام کا واضح کرنا حضرت قتادہ کا قول بھی یہی ہے ۔ پھر فرمان ہوتا ہے کہ ان کافروں کو قیامت کے انکار ، اللہ کی پاک کتاب کو نہ ماننے اور اللہ کے عظیم الشان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کرنے پر آمادہ کرنے والی چیز حب دنیا اور غفلت آخرت ہے ، حالانکہ آخرت کا دن بڑی اہمیت والا دن ہے ، اس دن بہت سے لوگ تو وہ ہوں گے جن کے چہرے ہشاش بشاش ترو تازہ خوش و خرم ہوں گے اور اپنے رب کے دیدار سے مشرف ہو رہے ہوں گے ، جیسے کہ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ عنقریب تم اپنے رب کو صاف صاف کھلم کھلا اپنے سامنے دیکھو گے ، بہت سی صحیح احادیث سے متواتر سندوں سے جو ائمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں وارد کی ہیں ثابت ہو چکا ہے کہ ایمان والے اپنے رب کے دیدار سے قیامت کے دن مشرف ہوں گے ان احادیث کو نہ تو کوئی ہٹا سکے نہ ان کا کوئی انکار کر سکے ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اپنے رب کو قیامت کے دن دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا سورج اور چاند کو جبکہ آسمان صاف بے ابر ہو دیکھنے میں تمہیں کوئی مزاحمت یا رکاوٹ ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں آپ نے فرمایا اسی طرح تم اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے ، بخاری و مسلم میں ہے حضرت جریر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چودہویں رات کے چاند کو دیکھ رہے ہو پس اگر تم سے ہو سکے تو سورج نکلنے سے پہلے کی نماز ( یعنی صبح کی نماز ) اور سورج ڈوبنے سے پہلے کی نماز ( یعنی عصر کی نماز ) میں کسی طرح کی سستی نہ کرو ، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انہی دونوں متبرک کتابوں میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو جنتیں سونے کی ہیں وہاں کے برتن اور ہر چیز سونے کی ہے اور دو جنتیں چاندی کی ہیں اور ان کے برتن اور ہر چیز چاندی ہی کی ہے سوائے کبریائی کی چادروں کے اور کوئی آڑ نہیں ۔ یہ جنت عدن کا ذکر ہے ، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرمائے گا کچھ چاہتے ہو کہ بڑھا دوں؟ وہ کہیں گے الٰہی تو نے ہمارے چہرے سفید نورانی کر دیئے ، ہمیں جنت میں پہنچا دیا جہنم سے بچا لیا اب ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے؟ اسی وقت حجاب ہٹا دیئے جائیں گے اور ان اہل جنت کی نگاہیں جمال باری سے منور ہوں گی اس میں انہیں جو سرور و لذت حاصل ہو گی وہ کسی چیز میں نہ حاصل ہو گی سب سے زیادہ محبوب انہیں دیدار باری ہو گا اسی کو اس آیت میں لفظ ( زیادہ ) سے تعبیر کیا گیا ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ( لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ ۭ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوْهَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 26؀ ) 10- یونس:26 ) یعنی احسان کرنے والوں کو جنت بھی ملے گی اور دیدار رب بھی ، صحیح مسلم کی حضرت جابر والی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں پر قیامت کے میدان میں مسکراتا ہوا تجلی فرمائے گا ، پس معلوم ہوا کہ ایماندار قیامت کے عرصات میں اور جنتوں میں دیدار الٰہی سے مشرف کئے جائیں گے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے ہلکے درجہ کا جنتی اپنے ملک اور اپنی ملکیت کو دو ہزار سال دیکھتا رہے گا دور اور نزدیک کی چیزیں یکساں نگاہ میں ہوں گی ہر طرف اور ہر جگہ اسی کی بیویاں اور خادم نظر آئیں گے اور اعلیٰ درجہ کے جنتی ایک ایک دن میں دو دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کے بزرگ چہرے کو دیکھیں گے ، ترمذی شریف میں بھی یہ حدیث ہے ، یہ حدیث بروایت حضرت ابن عمر مرفوعًا بھی مروی ہے ، ہمیں ڈر ہے کہ اگر اس قسم کی تمام حدیثیں اور روایتیں اور ان کی سندیں اور ان کے مختلف الفاظ یہاں جمع کریں گے تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا بہت ہی صحیح اور حسن حدیثیں بہت سی مسند اور سنن کی کتابوں میں مروی ہیں جن میں اکثر ہماری اس تفسیر میں متفرق مقامات پر آبھی گئی ہیں ، ہاں توفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اللہ کا شکر ہے کہ اس مسئلہ میں یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار مومنوں کو قیامت کے دن ہونے میں صحابہ تابعین اور سلف امت کا اتفاق اور اجماع ہے ائمہ اسلام اور ہداۃ انام سب اس پر متفق ہیں ، جو لوگ اس کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مراد اس سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو دیکھنا پاس اس آیت کا کیا جواب ہے جہاں بدکاروں کی نسبت فرمایا گیا ہے آیت ( كَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ 15؀ۭ ) 83- المطففين:15 ) یعنی فاجر قیامت کے دن اپنے پروردگار سے پردے میں کر دیئے جائیں گے ، حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ فاجروں کے دیدار الٰہی سے محروم رہنے کا صاف مطلب یہی ہے کہ ابرار یعنی نیک کار لوگ دیدار الٰہی سے مشرف کئے جائیں گے اور متواتر احادیث سے ثابت ہو چکا ہے اور اسی پر اس آیت کی روانگی الفاظ صاف دلالت کرتی ہے کہ ایمان دار دیدار باری سے محظوظ ہوں گے ، حضرت حسن فرماتے ہیں یہ چہرے حسن و خوبی والے ہوں گے کیونکہ دیار رب پر ان کی نگاہیں پڑتی ہوں گی پھر بھلا یہ منور و حسین کیوں نہ ہوں اور بہت سے منہ اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے بدشکل ہو رہے ہوں گے بےرونق اور اداس ہوں گے ، انہیں یقین ہو گا کہ ہم کوئی ہلاکت اور اللہ کی پکڑ آئی ، ابھی ہمیں جہنم میں جانے کا حکم ہوا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ ۣاَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ ١٠٦؁ ) 3-آل عمران:106 ) یعنی اس دن بعض چہرے گورے چٹے خوبصورت اور حسین ہوں گے اور بعض کالے منہ والے ہوں گے اور جگہ سے آیت ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَةٌ Ą۝ۙ ) 88- الغاشية:2 ) ، یعنی قیامت کے دن بہت سے چہرے خوف زدہ دہشت اور ڈر والے بد رونق اور ذلیل ہوں گے جو عمل کرتے رہے تکلیف اٹھاتے رہے لیکن آج بھڑکتی ہوئی آگ میں جا گھسے پھر فرمایا آیت ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاعِمَةٌ Ď۝ۙ ) 88- الغاشية:8 ) ، یعنی بعض چہرے ان دن نعتموں والے خوش و خرم چمکیلے اور شادان و فرحان بھی ہوں گے ، جو اپنے گزشتہ اعمال سے خوش ہوں گے اور بلند و بالا جنتوں میں اقامت رکھتے ہوں گے ، اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جب وحی لے کر آتے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے ساتھ جلدی سے پڑھتے جاتے کہ کہیں کوئی لفظ بھول نہ جائے۔ اللہ نے اپنے فرشتے کے ساتھ ساتھ اس طرح پڑھنے سے منع فرمایا۔ صحیح بخاری

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا تُحَرِّكْ بِہٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِہٖ۝ ١٦ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ حرك قال تعالی: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ [ القیامة/ 16] ، الحرکة : ضدّ السکون، ولا تکون إلا للجسم، وهو انتقال الجسم من مکان إلى مکان، وربّما قيل : تَحَرَّكَ كذا : إذا استحال، وإذا زاد في أجزائه وإذا نقص من أجزائه . ( ح ر ک ) الحرکۃ یہ سکون کی ضد ہے اور جسم کے ساتھ مخصوص ہے یعنی جسم کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کو حرکت کہا جاتا ہے اور کبھی کسی چیز میں تغیر ہونے یا اس کے اجزاء میں کمی بیشی واقع ہونے پر بھی تحرک کذا کہہ لیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ [ القیامة/ 16] اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) وحی کے پڑھنے کے لئے اپنی زبان نہ چلایا کرو ۔ لسن اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر . ( ل س ن ) اللسان ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦۔ ١٨) اے محمد قرآن پڑھنے کے لیے آپ اپنی زبان نہ ہلایا کیجیے اس سے پہلے کہ جبریل امین اپنی قرات سے فارغ ہوجائیں کیونکہ نبی اکرم جس وقت جبریل امین قرآن کریم کا کوئی حصہ لے کر آتے تھے تو جبریل امین کے ختم کرنے سے پہلے بھول جانے کے خوف سے آپ پڑھنا شروع کردیتے، اللہ تعالیٰ نے اس چیز کی ممانعت فرمائی اور فرمایا کہ آپ کے قلب میں اس کا جمع کردینا ہمارے ذمہ ہے اور جبریل امین کی قرات کا آپ کی زبان سے پڑھوا دینا یا یہ کہ حلال و حرام کا سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے، سو جس وقت جبریل امین اس کو پڑھنے لگا کریں تو آپ ان کے بعد اس کو پڑھ لیا کیجیے یا یہ کہ جس وقت وہ حلال و حرام کی تعلیم کریں تو آپ ان کی پیروی کریں۔ شان نزول : لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ (الخ) امام بخاری نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم پر جس وقت وحی نازل ہوا کرتی تھی تو آپ اس کے یاد کرنے کی خاطر اپنی زبان کو حرکت دیا کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦{ لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ ۔ } ” آپ اس (قرآن) کے ساتھ اپنی زبان کو تیزی سے حرکت نہ دیں۔ “ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول تھا کہ جونہی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) وحی لے کر آتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نئے کلام کو فوری طور پر یاد کرنے کی کوشش کرتے۔ اس پس منظر میں یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اس ضمن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فکر مند نہ ہوں :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 The whole passage from here to "Again, it is for Us to explain its meaning", is a parenthesis, which has been interposed here as an address to the Holy Prophet (upon whom be peace) . As we have explained in the Introduction above, in the initial stage of the Prophethood when the Holy Prophet (upon whom be peace) was not yet fully used to receiving the Revelation, he was afraid when Revelation came down to him whether he would be able to remember exactly what the Angel Gabriel (peace be on him) was reciting to him or not. Therefore, he would try to commit to memory rapidly what he heard from the Angel simultaneously. The same thing happened when Gabriel was reciting these verses of Surah AI-Qiyamah. Therefore, interrupting what was being revealed, the holy Prophet was instructed to the effect: "Do not try to memorise the words of the revelation, but listen to it attentively and carefully. It is Our responsibility to enable you to remember it by heart and then to recite it accurately. Rest assured that you will not forget even a word of this Revelation, nor ever commit a mistake in reciting it! After this instruction the original theme is resumed with "No, by no means! The fact is . . . " The people who are not aware of this background regard these sentences as wholly .unconnected with the context when they see them interposed here. But one does not see any irrelevance when one has understood their background. This can be understood by an example. A teacher seeing the inattentiveness of a student in the course of the lesson might interrupt the lesson to tell him, "Listen to me carefully", and then resume his speech, This sentence will certainly seem to be irrelevant to those who might be unaware of the incident and might read the lesson when it is printed and published word for word, But the one who is aware of the incident because of which this sentence was interposed, will feel satisfied that the lesson has been reproduced verbatum and nothing has been increased or decreased in it in the process of reproduction. The explanation that we have given above of the interpolation of the parenthesis in the present context, is not merely based .on conjecture, but it has been explained likewise in the authentic traditions. Imam Ahmad, Bukhari, Muslim, Nasa'i, Tirmidhi Ibn Jarir, Tabarani, Baihaqi and other traditionists have related with authentic chains of transmitters a tradition from Hadrat `Abdullah bin `Abbas, saying that when the Qur'an was revealed to the Holy Prophet (upon whom be peace) , he would start repeating the words of the Revelation rapidly as the Angel Gabriel recited them, fearing lest he should forget some part of it later. Thereupon, he was instructed: "Do not move your tongue to remember this Revelation hastily ... The same thing has been related from Sha`bi, Ibn Zaid, Dahhak, Hasan Basri, Qatadah, Mujahid and other early commentators.

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :11 یہاں سے لے کر پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے تک کی پوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو سلسلہ کلام کو بیج میں توڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ جیسا کہ ہم دیباچہ میں بیان کر آئے ہیں ، نبوت کے ابتدائی دور میں ، جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی اخذ کرنے کی عادت اور مشق پوری طرح نہیں ہوئی تھی ، آپ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کو یہ اندیشہ لاحق ہو جاتا تھا کہ جبریل علیہ السلام جو کلام الہی آپ کو سنا رہے ہیں وہ آپ کو ٹھیک ٹھیک یاد رہ سکے گا یا نہیں ، اس لیے آپ وحی سننے کے ساتھ ساتھ اسے یاد کرنے کی کوشش کرتے لگتے تھے ۔ ایسی ہی صورت اس وقت پیش آئی جب حضرت جبریل سورہ قیامہ کی یہ آیات آپ کو سنا رہے تھے ۔ چنانچہ سلسلہ کلام توڑ کر آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ وحی کے الفاظ یاد کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ غور سے سنتے رہیں ، اسے یاد کرا دینا اور بعد میں ٹھیک ٹھیک آپ سے پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے ، آپ مطمئن رہیں کہ کلام کا ایک لفظ بھی آپ نہ بھولیں گے نہ کبھی اسے ادا کرنے میں غلطی کر سکیں گے ۔ یہ ہدایت فرمانے کے بعد پھر اصل سلسلہ کلام ہرگز نہیں ، اصل بات یہ ہے سے شروع ہو جاتا ہے ۔ جو لوگ اس پس منظر سے واقف نہیں ہیں وہ اس مقام پر ان فقروں کو دیکھ کر یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس سلسلہ کلام میں یہ بالکل بے جوڑ ہیں ۔ لیکن اس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد کلام میں کوئی ربطی محسوس نہیں ہوتی ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک استاد درس دیتے دیتے یکایک یہ دیکھے کہ طالبعلم کسی اور طرف متوجہ ہے اور وہ درس کا سلسلہ توڑ کر طالبعلم سے کہے کہ توجہ سے میری بات سنو اور اس کے بعد آگے پھر اپنی تقریر شروع کر دے ۔ یہ درس اگر جوں کا توں نقل کر کے شائع کر دیا جائے تو جو لوگ اس اصل واقعہ سے واقف نہ ہوں گے وہ اس سلسلہ تقریر میں اس فقرے کو بے جوڑ محسوس کریں ۔ لیکن جو شخص اس اصل واقعہ سے واقف ہو گا جس کی بنا پر یہ فقرہ درمیان میں آیا ہے وہ مطمئن ہو جائے گا کہ درس فی الحقیقت جوں کا توں نقل کیا گیا ہے ، اسے نقل کرنے میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی ہے ۔ اوپر ان آیات کے درمیان یہ فقرے بطور جملہ معترضہ آنے کی جو توجیہ ہم نے کی ہے وہ محض قیاس پر مبنی نہیں ہے ، بلکہ معتبر روایات میں اس کی یہی وجہ بیان ہوئی ہے ۔ مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابن جریر ، طبرانی ، بہیقی اور دوسرے محدثین نے متعدد سندوں سے حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت نقل کی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوتا تھا تو آپ اس خوف سے کہیں کوئی چیز بھول نہ جائیں جبریل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ وحی کے الفاظ دہرانے لگتے تھے ۔ اس پر فرمایا گیا کہ لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی بات شعبی ، ابن زید ، ضخاک ، حسن بصری ، قتادہ ، مجاہد اور دوسرے اکابر مفسرین سے منقول ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: یہ ایک جملۂ معترضہ ہے جس کا پس منظر یہ ہے کہ جب حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم پر قرآنِ کریم نازل ہوتا تو آپ اُس کے الفاظ ساتھ ساتھ دُہراتے جاتے تھے، تاکہ آپ اُنہیں بھول نہ جائیں۔ ان آیات میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ زبان مبارک سے الفاظ کو دُہرانے کی مشقت نہ اُٹھائیں، کیونکہ ہم نے ذمہ داری لے لی ہے کہ ہم اُنہیں آپ کو یاد بھی کرائیں گے، اور ان کی تشریح بھی آپ کے قلب مبارک میں واضح کردیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦۔ ٢٥۔ شروع سورة سے منکرین حشر اور قیامت کا ذکر تھا اور پھر آخر سورة میں بھی وہی ذکر ہے بیچ میں یہ آیتیں آگئیں اس خوف سے کہ کوئی آیت بھول نہ جائیں جب حضرت جبرئیل (علیہ السلام) وحی لاتے تو حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی قرأت کے ساتھ وحی کی آیتوں کو وہ بھی پڑھنا شروع کردیتے تھے۔ اس کی ممانعت میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ اسی واسطے ان آیتوں کو سورة کی اول اور آخر کی آیتوں کے مضمون سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ اس بےتعلقی کے سبب سے امامیہ مذہب کے مفسروں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اس سورة میں چند آیتیں رہ گئی ہیں۔ ان کی یہ بات تو غلط ہے کیونکہ ان ہی آیتوں میں جب اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے اکٹھا اور جمع کردینے کا وعدہ فرمایا ہے تو اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے خلاف یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ چند آیتیں جمع ہونے سے رہ گئی ہوں اور امامیہ مذہب کے مفسروں کے علاوہ اہل سنت میں سے بعض مفسروں نے ان آیتوں کی بےتعلقی کے سبب سے طرح طرح کی باتیں لکھی ہیں لیکن مسند امام احمد ابو داؤد ٤ ؎ ترمذی ‘ نسائی ‘ صحیح ابن حبان مستدرک حاکم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت سے جب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہر ایک سورة میں ہر ایک آیت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاتبوں سے کہہ کر اور پتہ بتا کر لکھوایا کرتے تھے اور مسند امام احمد وغیرہ کی حضرت عثمان بن ابی العاص کی روایت سے یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ہر ایک آیت کا موقع اور مقام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سمجھا دیا کرتے تھے تو یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ سورة طہ کی آیت ولا تعجل بالقران من قبل ان یقضی الیک وحیہ اور اس سورة کی اس آیت کا سبب نزول یہی ہے کہ ان دونوں سورتوں کے نازل ہونے کے وقت حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی قرأت کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پڑھنے کا موقع پیش آیا اور اس وقت یہ ممانعت کا حکم نازل ہوا اور جس سورة کے نزول کے وقت کا یہ حکم تھا اسی سورة میں یہ آیتیں شمار کی گئیں اس لئے اصل سورة کے مضمون سے ان آیتوں کا کچھ تعلق نہیں ہے بلکہ ایک جدا مضمون اور جدا حکم کی یہ آیتیں ہیں جو حسب موقع ہر ایک سورة میں شریک کی گئی ہیں اس کے بعد سلسلہ منکرین حشر کے ذکر کا پھر شروع کیا۔ اور فرمایا کہ ان لوگوں کے عقبیٰ سے غافل رہنے کا اور کوئی سبب نہیں فقط اس کا یہی سبب ہے کہ یہ لوگ دنیا کی محبت اور الفت میں گرفتار ہو کر ایسے کام کرتے ہیں جس سے گناہ پر گناہ کرتے کرتے ان کے دل بالکل مردہ ہوگئے ہیں اور ان پر زنگ آگیا ہے جس زنگ کے سبب سے ان کے دل پر عقبیٰ کی کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔ اس لئے ان لوگوں نے عقبیٰ کے خیال کو چھوڑ رکھا ہے۔ مسند ١ ؎ امام احمد صحیح ابن حبان مستدرک حاکم میں ابو درداء سے روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کی اس قدر فراغت جو آدمی کی ضرورتوں کو کافی ہو اس مال داری سے بہت بہتر ہے جو آدمی کو دین سے غافل کر دے۔ حاکم ٢ ؎ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور مسند امام احمد کی سند بھی قوی ہے اب اس کے بعد دنیا کے پیچھے جو لوگ دین کو بالکل چھوڑ بیٹھے تھے ان کا اور ان کے برعکس جو لوگ دنیا میں گزر کرتے تھے ان کے آخرت کا انجام کا ذکر فرمایا کہ جو لوگ دنیا میں رہ کر عقبیٰ کو نہیں بھولے تھے بلکہ ثواب آخرت کی نیت سے انہوں نے اپنی نیکیوں کا پلڑا بھاری کرلیا تھا جب ایسے لوگ جنت میں داخل ہو کر جنت کی طرح طرح کی نعمتوں سے اس قدر خوش ہوں گے کہ خوشی کے مارے ان کے چہروں پر ایک رونق اور چمک آجائے گی تو ان سب نعمتوں سے بڑھ کر ان کو ایک یہ نعمت عطا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔ جس غلام کی آغا تک رسائی ہو اس کی ہر طرح کی روز بروز کی بہبودی ایک لازمی بات ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے دیدار سے بڑھ کر کوئی نعمت جنت میں نہیں ہوسکتی۔ پھر ان لوگوں کے عقبیٰ کے انجام کا ذکر فرمایا جو دنیا کی زندگی پر غش اور عقبیٰ سے بیخبر تھے کہ جب جنتی اور دوزخیوں کو الگ الگ کیا جائے گا تو ان کے چہروں پر ایک اداسی چھائی ہوئی ہوگی۔ اور دوزخ کی بلا سر پڑنے سے پہلے وہ جان لیں گے کہ ان پر ایسی بھاری بلا آنے والی ہے جس سے ان کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ نیک لوگوں کو عقبیٰ میں اللہ کا دیدار جو نصیب ہوگا۔ اس کا ذکر صحیح ٣ ؎ حدیثوں میں تفصیل سے آیا ہے کہ بغیر ابر والے دن میں سورج کو اور ابر والی رات میں چاند کو سب لوگ جس طرح دیکھتے ہیں اسی طرح جن لوگوں کو دیدار الٰہی نصیب ہوگا اور دیدار الٰہی سے مشرف ہوں گے۔ معتزلی ‘ خارجی اور مرجیہ فرقے کے بعض لوگوں نے دیدار الٰہی کا انکار کیا ہے اور اہل سنت نے طرح طرح سے ان لوگوں کو قائل کیا ہے خاص کر اس مسئلہ میں بڑی بڑی کتابیں تصنیف ہوئی ہیں۔ فاقرہ وہ سخت مصیبت ہے جس سے آدمی کی کمر ٹوٹ جائے۔ (٤ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة التوبۃ ص ١٥٧ ج ٢۔ ) (١ ؎ الترغیب والترہیب الترغیب فی الفراغ للعبادۃ الخ ص ٢٠٣ ج ٤۔ ) (٢ ؎ الترغیب والترہیب الترغیب فی الفراغ للعبادۃ الخ ص ٢٠٤ ج ٤۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب قول اللہ وجوہ یومئذ ناضرۃ الایۃ ص ١١٠٥ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(75:16) لا تحرک بہ لسانک ـ لا تحرک فعل نہی واحد مذکر حاضر۔ تحریک (تفعیل) مصدر بمعنی حرکت دینا۔ چلانا۔ تو زبان نہ چلا۔ بہ میں ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع القرآن ہے والضمیر للقران لدلالۃ سیاق الایۃ نحو انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ای لا تحرک بالقران لسانک عند القاء الوحی من قبل ان یقضی الیک وحینہ (روح المعانی) ضمیر قرآن کے لیے ہے جیسا کہ آیت کا سیاق دلالت کر رہا ہے۔ جیسے انا انزلنہ فی لیلۃ القدر میں ہے یعنی القاء وحی کے وقت اس کے مکمل ہوجانے سے قبل قرآن کے (یاد رکھنے کے لئے اس کے) ساتھ ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیتے رہو۔ لتعجل بہ۔ لام علت کا ہے۔ تعجل مضارع کا صیغہ واحد مذکر حاضر، عجل (باب سمع) مصدر سے منصوب بوجہ عمل لام۔ کہ تو جلدی کرے بہ اس کو یاد کرنے کی۔ ضمیر ہ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔ قرآن کے لئے ہے۔ اسی مضمون میں اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ ولا تعجل بالقران من قبل ان یقضٰ الیک وحیہ (20:114) اور قرآن کی وحی جو تمہاری طرف بھیجی جاتی ہے اس کے پورا ہونے سے پہلے قرآن کے (پڑھنے کے) لئے جلدی نہ کیا کرو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ لاتحرک۔ حرکت نہ دے۔ قرانہ۔ اس کو پڑھوا دینا۔ بیانہ۔ اس کو کھول دینا۔ بیان کرا دینا۔ العاجلۃ ۔ جلد ملنے والی چیز۔ ناضرۃ ۔ تروتازہ۔ باسرۃ۔ اداس ہونے والے۔ فاقرہَ کمر کو توڑ دینے والی۔ تراقی۔ ہنسلی۔ راق۔ جھاڑ پھونک کرنے والا۔ التفت۔ لپٹ گئی۔ المساق۔ چلنا۔ روانگی۔ یتمطی۔ اکڑتا ہوا۔ اولی لک۔ تیرے لئے خرابی ہے۔ سدی۔ یوں ہی ۔ یمنی۔ ٹپکائی گئی۔ یحییٰ ۔ وہ زندہ کرتا ہے۔ الموتی۔ مردے۔ بےجان۔ تشریح : حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ (ابتداء میں) جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل کیا جاتا تو آپ اس خوف سے کہیں کسی چیز ( آیات قرآنی) کو بھول نہ جائیں تو حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے ساتھ جلدی جلدی وحی کے الفاظ دھراتے جاتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنی زبان مبارک کو ( اس وجہ سے ) جلدی جلدی حرکت نہ دیا کریں ( کہ وہ یاد ہوجائے) کیونکہ اس کا ( آپ کے قلب مبارک پر) جمع کرنا اور پھر اس کو پڑھوا دینا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ لہٰذا جب ہم (جبرئیل کے واسطے) آپ کو پڑھائیں تو آپ اس کی قرات کو نہایت غور سے نئے ( پھر یہی نہیں کہ ہم اس کو پڑھوا دیں گے بلکہ) اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم جلد حاصل ہونے والی (دنیا کی چیزوں سے) تو بےانتہا محبت کرتے ہو اور اس آخرت کے دن کو بھول گئے ہو جو کفار و مشرکین کے لئے ایک ہولناک اور اہل ایمان کے لئے راحتوں سے بھرپور دن ہوگا۔ اس دن کچھ چہرے تو چمکتے دمکتے ، ہشاش بشاش اور پررونق ہوں گے۔ انہیں اللہ کی تجلیات کا کھلی آنکھوں سے دیدار نصیب ہوگا اور جنت کی ابدی راحتیں ان کی منتظر ہوں گی۔ اس کے برخلاف بعض چہروں پر نحوست، بےرونقی اور اداسی کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہوں گی۔ وہ اپنے سامنے جہنم کے عذاب کو دیکھ کر اس بات کا اچھی طرح اندازہ لگالیں گے کہ وہ بہت جلد اس انجا تک پہنچے والے ہیں جو ان کی کمر توڑ کر رکھ دے گا۔ فرمایا کہ اگر یہ اللہ کے نافرمان اس دن غور کرلیتے جب ان کی جان گلے کی ہنسلی پہنچ گئی تھی ( یعنی دنیا سے گزر جانے کے وقت) جب وہ اپنی جان بچانے کے لئے ہر تدبیر اور علاج سے لے کر جھاڑ پھونک تک کرچکے تھے۔ جب ایک پنڈلی دوسری پنڈلی پر چڑھ گئی تھی یعنی اس میں اپنی پنڈلیاں ہلانے تک کی طاقت نہ رہی تھی اس دن ان کے کوئی کام نہ آیا تھا جب موت ان کے سامنے تھی پھر بھی انہیں توبہ کی توفیق تک نہ ہوئی حالانکہ موت کے فرشتے سامنے آنے سے پہلے توبہ قبول ہوسکتی ہے ۔ فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے نہ تو اللہ کے دین کی تصدیق کی ہوگی نہ نماز پڑھی ہوگی بلکہ ہر سچائی کو جھٹلا کر انہوں نے غرور وتکبر سے اپنے چہروں کو پھیرلیا ہوگا اور نہایت غروروتکبر سے وہ اپنی خوشیوں میں مگن گھر کے عیش و آرام کی طرف چل دئیے ہوں گے۔ اللہ نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کے لئے ہر طرح کی بربادیوں کے سوا کچھ بھی نہ ہوگا اور ایسے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ان کو یوں ہی بیکار اور فضول چھوڑ دیا جائے گا بلکہ ان کو سخت سزا دی جائے گی۔ اللہ نے فرمایا کہ انسان نے کبھی اپنی تخلیق یعنی پیدائش پر بھی غور کیا ہے ؟ فرمایا کیا وہ حقیر پانی کے ایک قطرہ سے پیدا نہیں کیا گیا جو رحم مادر میں ڈالا گیا تھا۔ پھر وہ خون کا لوتھڑا سا بن گیا۔ پھر اللہ نے ماں کے پیٹ میں اس کے تمام اعضاء درست کء اور اس کو جیتا جاگتا انسان بنادیا۔ مرد، عورت نر اور مادہ اس نے جس طرح چاہا اس کو مختلف جنسوں میں تقسی کردیا۔ یہ سب کچھ اللہ نے اپنی قدرت سے کیا تھا کہ ایک حقیر قطرہ کو ایک حسین شکل دیدی تھی اب وہی آدمی کہتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہم مرجائیں گے، ہماری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی اور ہمارے وجود کے ذرات کائنات میں بکھر جائین گے کیا ہم دوبارہ پیدا ہوں گے ؟ فرمایا کہ اگر اللہ پانی کے حقیر قطرے سے جیتا جاگتا انسان پیدا کرسکتا ہے تو کیا وہ اللہ جو ہر چیز قدرت رکھتا ہے اس بات پر قادر نہیں ہے کہ آدمی کو پھر سے پیدا کردے ؟ کیا اللہ ایک مرتبہ بنانے کے بعد دوسری مرتبہ بنانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ہرگز نہیں۔ اللہ جو اس کائنات کا ماکل ہے اس کو ہر طرح کی قدرت حاصل ہے اور وہ تمام لوگوں کے مرجانے کے بعد ان کو زندہ کرے گا اور پھر میدان حشر قائم کرکے ہر شخس کو اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دے گا۔ سورة القیامہ کی ان آخری آیات سے متعلق چند باتیں ۔ 1۔ لا تحرک بہ لسانک۔ (یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنی زبان کو اس قرآن (کے پڑھنے میں) جلدی جلدی حرکت نہ دیجئے۔ اس کی وضاحت سے پہلے قرآن کری کی چند آیات ملاحظہ کرلیجئے تاکہ اس کا مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ٭بے شک ہم نے ہی اس ذکر (قرآن کریم) کو نازل کیا اور بیشک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ٭بے شک اس (قرآن مجید) کو (جبرئیل) اللہ کے حکم سے آپ کے قلب پر نازل کرتے ہیں۔ (بقرہ) ٭ہم آپ کو (یہ قرآن) اس طرح پڑھائیں گے کہ آپ اس کو بھول نہ سکیں گے (الاعلی) ٭ جب تک آپ پر پوری طرح قرآنی (آیات) نازل نہ ہوجائیں اس وقت تک آپ جلدی نہ کیا کیجئے (طہ) ٭زیر مطالعہ سورت القیامہ میں اللہ نے فرمایا کہ ” آپ اپنی زبان کو (اس وجہ سے) جلدی جلدی حرکت نہ دیا کریں (کہ وہ یاد ہوجائے) کیونکہ اس قرآن کو ( آپ کے قلب پر) جمع کردینا اور پڑھوا دینا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ لہٰذا جب ہم اس کو (جبرائیل کے واسطے سے) پڑھائیں تو آپ اس کو پوری توجہ سے سنئے۔ (القیامہ) مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے بتا دیا ہے کہ یہ قرآن میرا کلام ہے جس کو میں نے جبرئیل کے ذریعہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر نازل کیا ہے۔ میں خود ہی اس کی حفاظت کروں گا۔ اس کی حفاظت کے لئے میں کسی کا محتاج نہیں ہوں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتا دیا گیا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کریم کو نازل کیا جا رہا ہو تو آپ اس کو یاد کرنے کے لئے اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دی اکریں اور اس کی فکر نہ کیا کریں کہ آپ اس کو بھول جائیں گے کیونکہ اس قرآن کو آپ کے قلب پر جمع کردینا اور پھر اس کو آپ کی زبان سے ادا کرادینا ان دونوں باتوں کی ذمہ داری ہماری ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مرتبہ پورا قرآن کریم حضرت جبرئیل امین کو سنایا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور سے آج تک لاکھوں کروڑوں ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے قرآن کریم کو حفظ کرکے اللہ کے اس وعدے کو پورا کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ آج بھی قرآن کریم کا ایک ایک لفط محفوظ ہے اور انشاء اللہ قیامت تک محفوظ رہے گا۔ قرآن کریم کی ان آیات اور تاریخ کی گواہیوں کے باوجود اگر کوئی یہ کہتا ہو کہ قرآن کریم کے چالیس سپارے تھے جن میں سے دس ھجرت عائشہ کی بکری کھا گئی یا اسی طرح کی کوئی اور فضول بات کرتا ہے تو درحقیقت وہ اللہ پر الزام لگاتا ہے کہ اللہ اپنے وعدے کے باوجود قرآن کریم کی حفاظت نہ کرسکا (نعوذ باللہ) ۔ 2۔ فاذا قرانہ فاتبع قرانہ۔ پھر جب ہم اس کو (جبرئیل کے واسطے سے آپ کو) پڑھائیں تو اس کے پڑھنے کو غور سے سنئے۔ اسی بت کو ایک دوسری آیت میں اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ” جب قرآن کریم پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو “۔ ان آیت کی تشریح ان بہت سی حدیثوں سے ہی ہوتی ہے جن میں آپ نے فرمایا ہے کہ ” جب نماز میں امام قرأت کرتا ہے تو تم خاموش رہ کر سنو ! (صحیح مسلم) ایک جگہ فرمایا کہ امام کی قرأت مقتدی کی قراءت ہے (بیہقی) ابتداء میں صحابہ کرام (رض) دوران نماز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ساتھ تلاوت کرتے تھے بعد میں آپ نے اس سے منع فرمادیا۔ سورة فاتحہ اور آیات قرآنی جو نماز میں پڑھی جاتی ہیں امام کے پیچھے تلاوت کرنے سے منع کرکے خاموشی سے سننے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی لئے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ جب امام نماز کے دوران تلاوت کرتا ہو ( خواہ زور سے یا آہستہ سے) اس وقت مقتدی خاموش رہیں اور ساتھ ساتھ تلاوت نہ کریں کیونکہ امام کی قرأت مقتدیوں کی قرأت ہوا کرتی ہے۔ 3۔ ثم ان علینا بیانہ۔ پھر اس کو واضح کرادینا ( مطلب سمجھا دینا بھی) ہماری ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب قرآن کری نازل کیا جائے تو آپ اس خوف سے اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دیا کریں کہ اس کے بعض حصے کو آپ بھول جائیں گے۔ کیونکہ یہ ہمارا کلام ہے ہم ہی اس کے محافظ ہیں لہٰذا جب آپ کے سامنے قرآن کری کی آیات تلاوت کی جائے تو آپ اس کو غور سے سنئے اس کلام کو آپ کے دل پر جمع کرکے آپ کی زبان مبارک سے ان آیتوں کے مطلب، مفہوم، معنیٰ اور مراد کو سمجھا دینا یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ چناچہ آپ تئیس سال کے طویل عرصے میں قرآن کریم کی ایک ایک آیت کا مفہوم اپنے ارشادات اور عمل سے واضح کرکے صحابہ کرام (رض) کی ایک ایسی پاکیزہ اور مقدس جماعت تیار کی جنہوں نے قرآن و سنت کے ہر حکم پر عمل کرکے قرآن و سنت کی تعلیمات کو ساری دنیا تک پہنچانے کی مخلصانہ جدوجہد فرمائی۔ صحابہ کرام (رض) اور ان کے بعد آنے والے تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین، حدثین، علماء کرام اور بزرگان دین نے ھضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) کی اس جدوجہد اور کوشش کو آگے بڑھاتے ہوئے ارشادات نبوی کی روشنی میں قرآن و سنت کی تشریح فرمائی اور صراط مستقیم کی راہوں کو روشنی ومنور کیا۔ لیکن ہمارے دور میں کچھ ایسے بدنصیب لوگ بھی ہیں جو ترقی پسندی اور جدید دور کے تقاضوں کا نام لے کر قرآن کریم کی ایسی من مانی تشریح اور تاویل کر رہے ہیں جس کا قرآن و سنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث کو عجمی سازش کا نام دے کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن الحمد اللہ ہمارے علماء اور بزرگان دین نے ایسے ولگوں کی سازش کو بےنقاب کرنے کی مسلسل کوششیں کرکے اپنا فرض پورا کیا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک کرتے رہیں گے۔ 4۔ اس سورت میں قیامت کے ہولناک دن کا ذکر کرتے کرتے درمیان میں اللہ نے عطمت قرآن کو واضح کرنے کے لئے منکرین قرآن اور منکرین قیامت کو بتادیا ہے کہ جس قرآن کریم میں قیامت کا بیان کیا جا ررہا ہے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے بیان نہیں کر رہے ہیں بلکہ آپ تو اسی قرآن کو بیان کر رہے ہیں جو ان پر نازل کیا جا رہا ہے اور اس کو جو بھی وضاحت ہے وہ اللہ ہی نے آپ کو بتائی ہے جسے آپ اپنی زبان مبارک سے بیان فرما رہے ہیں لہٰذا جس طرح قرآن کریم کے سامنے ساری دنیا اس جیسا قرآن لانے سے عاجز ہے اسی طرح جب قیامت آئے گی تو ہر شخص اس کے سامنے مجبور اور بےبس ہوگا۔ 5۔ تحبون……۔ تم جلدی حاصل ہونے والی (دنیا) سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ بیٹھتے ہو۔ آیت کے اس حصے کا مفہوم یہ ہے کہ جب آدمی آخرت اور اس کے انجام سے غافل ہوجاتا ہے تو وہ ” عاجلہ “ یعنی دنیا اور اپنے ہر عمل کے فوری نتیجہ کو زندگی سمجھنے لگتا ہے کیونکہ دنیا کے فوری نتائج کو وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے اور آخرت کا نتیجہ اسے نظر نہیں آتا۔ لہٰذا وہ دنیا حاصل کرنے میں زندگی بھر لگا رہتا ہے اور اسی کو کامیابی سمجھتا ہے حالانکہ اصل کامیابی وہ ہے جو آدمی کو آخرت میں نصیب ہوگی جو ہمیشہ کی زندگی ہوگی۔ دنیا کی زندگی اور اس میں حاسل ہونے والا مال اور دولت تو اس کا ساتھ اس وقت تک دیتے ہیں جب تک موت نہیں آجاتی۔ موت کے ساتھ ہی سارا کھیل ختم ہوجاتا ہے۔ انسان کے جیسے اعمال ہوں گے وہ ان کو آخرت میں خود محسوس کرلے گا چناچہ قیامت کے دن اہل جنت کے چہرے تو خوشی سے دمک رہے ہوں گے اور اہل جہنم کے چہروں پر سوائے اداسی اور مایوسی کے اور کچھ بھی نہ ہوگا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے۔ لوگو ! تم ان کی طرح نہ ہوجانا جو دنیا اور اس کی آرزؤں میں پھنس کر بدعات اور خرافات میں مبتلا ہوگئے۔ اور اس دنیا کی طرف جھک پڑے جو بہت جلد فنا ہونے والی ہے۔ گذرے ہوئے وقت کے مقابلے میں دنیا کا اتنا کم حصہ باقی رہ گیا ہے جتنی دیر میں اونٹ والا اپنے اونٹ کو بٹھاتا ہے یا دودھ نکالنے والا دودھ کی ایک دھار نکالتا ہے۔ تم کس بھروسے پر ہو ؟ اور کس بات کا انتظار کر رہے ہو ؟ اللہ کی قسم دنیا کا موجودہ وقت اس قدر تیزی سے گزرجائے گا کہ جیسے کبھی اس کا وجود ہی نہ تھا اور تم اس آخرت کی طرف (بڑی تیزی سے) جا رہے ہو جو کبھی فنا ہونے والی نہیں ہے۔ تم اس دنیا سے جانے سے پہلے (آخرت کا) سامان تیار کرلو۔ اور خرچ کا توشہ تیار کرلو۔ یادر رکھو جو کچھ تم آگے بھیجو گے اس کا تمہیں پورا پورا اجر ملے گا اور جو تم پیچھے چھوڑ جائو گے اس پر نادم اور شرمندہ ہونا پڑے گا ( خطبات نبوی ص 218) 6۔ الی ربھا ناظرۃ۔ وہ اپنے رب کی طرف دیکھنے والے ہوں گے۔ یعنی قیامت کے دن لوگ اللہ تعالیٰ کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھیں گے اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اس بات پر تمام علماء اہل سنت والجماعت اور فقہا ومحدثیں کا اجماع ہے کہ قیامت میں تمام اہل جنت اللہ کی تجلیات کو بےحجاب نہ دیکھیں گے یعنی درمیان میں کسی قسم کی رکاوٹ یا پردے نہ ہوں گے۔ حضرت صہیب رومی نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اہل جنت جنت میں پہنچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں مزید ایک چیز عطا کروں ؟ بندے عرض کریں گے الٰہی ! آپنے ہمارے چہرے روشن کئے جہنم سے نجات عطا فرما کر جنت میں داخل کیا (یعنی الٰہی ! اس کے علاوہ ور وہ کون سی نعمت ہے جس کی ہم تمنا کرسکتے ہیں) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کے جواب میں اچانک حجاب اٹھ جائے گا۔ پھر وہ اللہ کے نور کا بغیر کسی رکاوٹ کے دیدار کرسکیں گے۔ ان کا یہ حال ہوگا کہا ہل جنت کو جو کچھ عطا کیا گیا تھا ان سب سے زیادہ محبوب اور پیاری چیز یہی دیدار الٰہی ہوگا۔ پھر آپ نے قرآن کریم کی یہ آیات تلاوت فرمائی۔ الذین……۔ یعنی جنلوگوں نے اس دنیا میں اچھی بندگی والی زندگی گزاری ان کے لئے اچھی جگہ ہے اس پر مزید ایک نعمت ہے۔ (صحیح مسلم) ۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے صحابہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب بادل نہ ہو اور سورج چمک رہا ہو تم اس کی طرف دیکھو تو کیا کوئی شک یا رکاوٹ ہوتی ہے ؟ عرض کیا جی نہیں۔ پھر آپو نے فرمایا کہ جب چودھویں کا چاند چمک رہا ہو اور بادل نہ ہو تو کیا تمہیں اس کے دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے ؟ عرض کیا جی نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اسی طرح قیامت کے دن تم اپنے رب کو دیکھو گے۔ احادیث میں آتا ہے کہ یہ دیدار کچھ لوگوں کو روزانہ کچھ لوگوں کو جمعہ کے دن اور کسی کو صبح و شام عطا کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا تیسرا بڑا جز لوگوں کو قیامت کے احتساب سے آگاہ کرنا ہے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے سامنے قیامت کا ذکر کرتے تو لوگ اس پر غور کرنے کی بجائے جلد بازی میں آکر کہتے کہ قیامت کب آئے گی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے نزول کے وقت اس لیے جلدی فرماتے تاکہ وحی کا کوئی لفظ بھول نہ جائے۔ اس پر آپ کو جلد بازی سے روکا گیا اور تسلی دی گئی کہ جس وجہ سے آپ جلدی کرتے ہیں اس کا فکر نہ کریں آپ کو قرآن مجید ضبط کروانا اور اس کا ابلاغ کروانا ہمارے ذمہ ہے لہٰذا آپ اطمینان کے ساتھ وحی سنا کریں۔ وحی کے ابتدائی ایام میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جبریل امین قرآن مجید کی تلاوت شروع کرتے تو آپ جلدی جلدی اسے پڑھنے کی کوشش فرماتے تاکہ کوئی لفظ محو نہ ہوجائے۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ یقین دلایا گیا کہ آپ اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دیا کریں۔ قرآن مجید کو آپ کے دل پر ثبت کرنا اور آپ کی زبان سے اس کی تلاوت کروانا ہماری ذمہ داری ہے، جب ہم وحی مکمل کرچکیں تو پھر آپ اسے پڑھا کریں، ہماری ذمہ داری یہی نہیں کہ ہم آپ کے دل پر قرآن نازل کریں، ہم اسے یاد بھی کروائیں گے اور پھر وحی کے مطابق اسے من وعن بیان کروانا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ بیان کروانے کا محض یہ معنٰی نہیں کہ آپ وحی کے مطابق لوگوں کے سامنے صرف قرآن کی تلاوت کردیتے تھے، بیان سے مراد اس کی تفسیر بھی ہے جسے حدیث رسول کہا جاتا ہے۔ اس میں یہ بات خوبخود شامل ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کی تلاوت اور بیان اور اس کا جمع کرنا اپنے ذمہ لیا ہے اسی طرح حدیث کی حفاظت کروانا بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین کے ذریعے محفوظ فرما دیا گیا ہے۔ (کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِمَّا تَنَزَّلُ عَلَیْہِ الْآیَاتُ فَیَدْعُوْ بَعْضُ مَنْ کَانَ لَہٗ یَکْتُبُ لَہٗ وَیَقُوْلُ لَہٗ ضَعْ ہٰذِہِ الْاٰیَۃَ فِی السُّوْرَۃِ الَّتِیْ یُذْکَرُ فِیْہَا کَذَا وَکذَا) (رواہ ابوداؤد : کتاب الصلٰوۃ) ” جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آیات اترتیں تو کاتب وحی کو بلا کر فرماتے اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں جگہ لکھو۔ “ (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یکَرِبَ الْکِنْدِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ ) (مسند احمد : باب حدیث المقدام بن معدیکرب، قال الالبانی ھٰدا حدیث صحیح) ” مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خبردار بیشک مجھے کتاب اور اس جیسی اور چیز بھی عطا کی گئی ہے خبردار مجھے قرآن اور اس جیسی ایک اور چیز بھی عطا کی گئی ہے۔ “ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّہُ قَالَ یَا رَسُول اللہِ أَکْتُبُ مِنْکَ مَا أَسْمَعُ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ قُلْتُ مَا قُلْتَ فِی الرِّضَا وَالْغَضَبِ ؟ قَالَ نَعَمْ فَإِنِّی لاَ أَقُولُ فِی ذَلِکَ کَلِمَۃً إِلاَّ الْحَقَّ ) (رواہ ابوبکر فی مسند البزار : باب ہَذَا مَا حَدَّثَ بِہِ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھٰذا حدیث صحیح) ” عمر بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو کچھ میں آپ سے سنتا ہوں لکھ لیا کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! پھر میں نے کہا اے اللہ کے نبی ! آپ کبھی خوشی میں بات کرتے ہیں اور کبھی ناراضگی کی حالت میں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لکھ لیا کرو ! کیونکہ میں حق کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا۔ “ (وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ) (النحل : ٤٤) ” اور ہم نے آپ کی طرف نصیحت اتاری تاکہ آپ لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کریں جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غوروفکر کریں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجید ضبط کروانا اور اسے بیان کروانا اپنے ذمہ لیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے قرآن اور اس کی تفسیر کروانے کا ذمہ لیا۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کی حفاظت : ١۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب چار آیات آتی ہیں جو قرآن مجید کے بارے میں آپ کو ہدایات دے دی ہیں اور یہ جملہ معترضہ ہیں۔ لا تحرک ........................ بیانہ ان آیات کے بارے میں ہم نے سورت کے مقدمہ میں جو کچھ کہہ دیا ہے اس پر اس قدر اضافہ ضروری ہے کہ قرآن کریم کے حفظ و حفاظت کا کام اللہ نے مطلقاً اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ اللہ اس بات کا ضامن ہے کہ قرآن زندہ رہے گا ، محفوظ رہے گا ، جمع وتدوین مکمل ہوگی اور اس کی تشریح بھی اللہ کرے گا۔ مکمل ذمہ داری اللہ پر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری فقط یہ ہے کہ آپ اسے اٹھائیں اور لوگوں تک پہنچادیں۔ یہ اس لئے کہا گیا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اخذ وحی کے لئے بیتاب ہوجاتے تھے اور آپ جلدی سے سب کے سب قرآن کا اخذ اور حفظ چاہتے تھے۔ اور اس بارے میں بےحد سنجیدہ تھے کہ اس کا کوئی کلمہ رہ نہ جائے۔ اس لئے آپ جلدی جلدی دہراتے تھے ، تو آپ کو یہ ہدایت کی گئی کہ آپ زبان سے دہرانے کی کوشش نہ کریں ، حفاظت اللہ کی ذمہ داری ہے۔ یہ بات قرآن کے اندر کئی جگہ ریکارڈ کی گئی ہے ، اس لئے کہ خدا تعالیٰ یہ بات مسلمانوں کے ذہن میں بٹھانا چاہتا تھا کہ قرآن کا حفظ اور جمع بہت اہم ہے۔ جس کی طرف ہم نے سورت کے مقدمہ میں اشارات کیے ہیں۔ اس جملہ معترضہ کے بعد اب سورت میں قیامت کے مناظر آتے ہیں کہ نفس لوامہ کا اس میں کیا حال ہوگا۔ ان مناظر میں یہ بات یاد دلائی جاتی ہے کہ اس دنیا کے بارے میں تمہارے نفوس کے اندر کیا کیا امنگیں آتی ہیں ، کس طرح تم دنیا کے اندر مگن ہو اور آخرت کو بھولے ہوئے ہو۔ اور آخرت کی پرواہ ہی نہیں کرتے ہو۔ ذرا دیکھو تو سہی کہ وہاں تمہاری کیا گت بننے والی ہے۔ ایک نہایت ہی زندہ اور متحرک منظر میں اس حالت کو انسانوں کے سامنے رکھا جاتا ہے جو نہایت ہی موثر اور اشارتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشفقانہ خطاب، آپ فرشتہ سے قرآن کو خوب اچھی طرح سن لیں پھر دہرائیں، ہم آپ سے قرآن پڑھوائیں گے اور بیان کروائیں گے ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مشفقانہ خطاب فرمایا ہے جیسا کہ دوسرے خطابات بھی اسی طرح کے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے ان کا شان نزول یوں بیان فرمایا کہ جب وحی نازل ہوتی تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشقت برداشت کرتے تھے اور اپنے دونوں ہونٹوں کو ہلاتے تھے (تاکہ جو کچھ نازل ہو رہا ہے وہ فوراً یاد ہوجائے) ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ جلدی نہ کریں ہم اسے آپ کے سینہ میں جمع کردیں گے اور آپ سے پڑھوا دیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” لا تحرک “ یہ جملہ معترضہ ہے۔ روافض کہتے ہیں ان آیتوں کا ما قبل اور ما بعد سے کوئی تعلق نہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن میں تغیر و تبدل ہوچکا ہے اور ان آیتوں کو ان کے موزوں مقام سے اٹھا کر یہاں رکھ دیا گیا ہے۔ لیکن یہ اعتراض سراسر باطل ہے، کیونکہ یہ ترتیب توقیفی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے آپ کی زندگی ہی میں مکمل ہوچکی تھی۔ اس پر امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کا اجماع ہے اور قرآن میں تغیر و تبدل اور زیادۃ و نقصان کا قول کفر ہے۔ باقی رہی ان آیتوں کی سیاق وسباق سے مناسبت تو اس میں کئی وجوہ ہیں۔ وجہ اول، ممکن ہے گذشتہ آیتوں کے نزول کے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ساتھ ساتھ پڑھنا شروع کردیا ہو تاکہ یاد ہوجائے اور کہیں کوئی لفظ بھول نہ جائے تو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت یہ آیتیں نازل فرما کر آپ کو اس سے روک دیا ہو (کبیر) ۔ وجہ دوم، یہ آیتیں ایک لطیف نکتہ بیان کرنے کے لیے یہاں لائی گئی ہیں جب اللہ تعالیٰ ایسا قادر ہے کہ ہر انسان کو اس کے اگلے پچھلے اعمال کی خبر دے سکتا ہے تو وہ آپ کے سینے میں قرآن کو بھی جمع کرسکتا ہے اس لیے آپ غم نہ کریں (حضرت الشیخ قدس سرہ) ۔ وجہ سوم، جس طرح اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اپنی وحی فرشتے کے چلے جانے کے بعد پوری ترتیب کے ساتھ حرف بحرف بدوں ادنی فروگذاشت اپنے پیغمبر کے سینے میں جمع کردے کیا اس پر قادر نہیں کہ بندوں کے اگلے اور پچھلے اعمال جن میں سے بعض کو کرنے والا بھی بھول چکا ہوگا سب جمع کر کے ایک وقت میں سامنے کردے اور ان کو خوب طرح یاد دلا دے اور اسی طرح ہڈیوں کے منتشر ذرات کو سب جگہ سے اکٹھا کر کے ٹھیک پہلی ترتیب پر انسان کو از سر نو وجود عطا فرما دے بیشک وہ اس پر اور اس سے کہیں زیادہ پر قادر ہے (تفسیر عثمانی) ۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں تین باتوں کی ذمہ داری لی ہے۔ اول قرآن کو آپ کے سینہ مبارک میں محفوظ رکھنا۔ دوم، پھر جس طرح اترا ہے اسی طرح آپ کی زبان مبارک سے اس کو پڑھوانا اور ادا کرانا۔ سوم، قرآن مجید کے معانی اور اس کے احکام کا بیان۔ فرمایا نزول قرآن کے وقت اسے جلدی یاد کرلینے کی غرض سے آپ ساتھ ساتھ نہ پڑھا کریں، بلکہ زبان بھی نہ ہلائیں کیونکہ قرآن کو آپ کے سینے میں جمع کرنا اور پھر اسی طرح آپ کی زبان سے اسے پڑھوانا بھی ہمارے ذمہ ہے اس لیے ساتھ ساتھ پڑھنے کے بجائے جب ہماری طرف سے اس کی تلاوت ختم ہوجائے اس کے بعد آپ تلاوت فرمایا کریں۔ ہم آپ کی زبان پر اس کی صحیح صحیح تلاوت جاری کردیں گے۔ پھر قرآن کے معارف و معانی کی تشریح اور اس کے احکام کی تفصیلات کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔ اہل سنت و جماعت کا اس پر اجماع ہے کہ اس قرآن کو جس کیفیت اور کمیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ مبارک میں جمع فرمایا تھا اسی کیفیت وکمیت کے ساتھ آپ نے صحابہ کرام (رض) کو اس کی تعلیم دی اور وہ بعینہ بلا تغیر وتبدل، بلا تقدیم وتاخیر اور بلا زیادۃ و نقصان آج ہمارے سینوں اور سفینوں میں محفوظ ہے۔ اور قرآن میں کسی بھی قسم کی تحریف کو تسلیم کرنا صریح کفر ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) اے پیغمبر آپ نزول قرآن کے وقت اس غرض سے کہ آپ اس قرآن کو جلدی جلدی حاصل کریں اپنی زبان کو قرآن کے ساتھ حرکت نہ دیا کیجئے۔ سورة طہٰ میں گزرچکا ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) جو وحی لاتے تو آپ اس خیال سے کہ مبادا کوئی لفظ پڑھنے سے رہ جائے اور بعد میں یاد نہ آئے جبرئیل (علیہ السلام) کے ساتھ ساتھ قرآن سنتے بھی تھے اور پڑھتے بھی وہاں فرمایا تھا کہ آپ اس سے پہلے کی وحی ختم ہو قرآن کو لینے میں جلدی نہ کیا کیجئے چونکہ اس طرح سنتے اور ساتھ ساتھ پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے اور تنگی پیش آتی ہے۔ اس لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منع فرمایا مقصد یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ ساتھ پڑھنے میں اس غرض سے کہ یاد کرنے میں جلدی کروں اور قرآن کو جلدی کے ساتھ یاد کرلوں ایسانہ کیا کیجئے بلکہ خاموش سنتے رہا کیجئے اور اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کیجئے۔