Surat ul Qiyama
Surah: 75
Verse: 24
سورة القيامة
وَ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍۭ بَاسِرَۃٌ ﴿ۙ۲۴﴾
And [some] faces, that Day, will be contorted,
اور کتنے چہرے اس دن ( بد رونق اور ) اداس ہونگے ۔
وَ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍۭ بَاسِرَۃٌ ﴿ۙ۲۴﴾
And [some] faces, that Day, will be contorted,
اور کتنے چہرے اس دن ( بد رونق اور ) اداس ہونگے ۔
ووجوہ یومئذ باسرۃ…:” باسرۃ “ ” یسر یسر بسوراً “ (ن) تیوری چڑھانا، منہ بگاڑنا، ” فاقرۃ “ وہ سختی جو کمر توڑ دے۔ یہ ” ففرات الظھر “ سے نکلا ہے جس کے معنی ” پیٹھ کے مہرے “ ہیں۔ کہا جاتا ہے : ” ففرت الرجل “ ” میں نے اس آدمی کی پیٹھ کے مہرے توڑ دیئے۔ “
وَوُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍؚبَاسِرَۃٌ ٢٤ ۙ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ بسر البَسْرُ : الاستعجال بالشیء قبل أوانه، نحو : بَسَرَ الرجل الحاجة : طلبها في غير أوانها، وبَسَرَ الفحل الناقة : ضربها قبل الضّبعة وماء بُسْر : متناول من غدیره قبل سکونه، وقیل للقرح الذي ينكأ قبل النضج : بُسْر، ومنه قيل لما لم يدرک من التمر : بُسْر، وقوله عزّ وجل : ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ [ المدثر/ 22] أي : أظهر العبوس قبل أوانه وفي غير وقته، فإن قيل : فقوله : وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ باسِرَةٌ [ القیامة/ 24] ليس يفعلون ذلک قبل الوقت، وقد قلت : إنّ ذلك يقال فيما کان قبل الوقت ! قيل : إنّ ذلك إشارة إلى حالهم قبل الانتهاء بهم إلى النار، فخصّ لفظ البسر، تنبيها أنّ ذلک مع ما ينالهم من بعد يجري مجری التکلف ومجری ما يفعل قبل وقته، ويدل علی ذلک قوله عزّ وجل : تَظُنُّ أَنْ يُفْعَلَ بِها فاقِرَةٌ [ القیامة/ 25] . ( ب س ر ) البسر کے معنی کسی چیز کو قبل از وقت جلدی لے لینا کے ہیں جیسے بسرالرجل الحاجۃ ( اس نے قبل از وقت اپنی ضرورت کو طلب کیا ) بسر الفحل الفحل الناقۃ ( مادہ کی خواہش کے بغیر اونٹ نے اس سے جفتی کی ماء بسر بارخن کا تازہ پانی جو زمین پر گرنے سے پہلے ہی لے لیا جائے بسر القرح پھوڑے کو پکنے سے پہلے پھوڑدینا اسی سے گدری کھجور کو بسر کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ [ المدثر/ 22] پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑلیا ۔ میں بسر کے معنی قبل از وقت منہ بگاڑنے کے ہیں اس پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اگر بسر کے یہی معنی ہیں آیت : وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ باسِرَةٌ [ القیامة/ 24] اور بہت سے منہ اس دن اداس ہوں گے ہیں باسرۃ کے کیا معنی ہوں گے کیونکہ وہاں تو قبل از وقت منہ بگاڑنا نہیں ہوگا اس کا جواب یہ ہے کہ چوں کہ ان کی یہ حالت آگ میں داخل ہونے سے قبل ہوگی اس لئے باسرۃ کہہ کر اشارہ کیا ہے کہ گویا آگ میں پہنچنے سے قبل ان کا منہ بگاڑنا محض تکلف اور قبل از وقت ہوگا جیسا کہ بعد کی آیت تَظُنُّ أَنْ يُفْعَلَ بِها فاقِرَةٌ [ القیامة/ 25] خیال کریں گے کہ ان پر مصیبت واقع ہونے والی ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔
(75:24) ووجوہ یومئذ باسرۃ : واؤ عاطفہ ہے وجوہ (اہل قرب کے چہرے کے بالمقابل کافروں کے چہرے یا کچھ چہروں کے مقابل میں کچھ اور چہرے) مبتداء باسرۃ اس کی خبر۔ یومئذ متعلق خبر۔ باسرۃ اداس، بےرونق، پریشان ، بسر (باب نصر) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث۔ اصل میں بسر کے معنی ہیں وقت سے پہلے کسی چیز کے متعلق جلدی کرنے کے ہیں ۔ یہاں وقت سے پہلے اداس ہونا۔ اور تیور بگڑ جانا مراد ہے۔ مجازاً اس کے معنی ترش رو ہونے اور منہ بگاڑنے کے بھی آتے ہیں۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور کئی چہرے یا کافروں کے چہرے اس روز اداس اور بےرونق ہوں گے۔
فہم القرآن ربط کلام : نیک لوگوں کے مقابلے میں آخرت کا انکار کرنے والوں کا حال۔ جوں ہی قیامت کے منکرین کو ان کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھوں میں دئیے جائیں گے تو ان کے رنگ پیلے اور چہرے بجھ جائیں گے وہ فوراً سمجھ جائیں گے کہ ہمارے ساتھ کمرتوڑ سلوک ہونے والا ہے، کمرتوڑ سلوک سے مراد انتہادرجے کی ذلّت اور سزا ہے۔ اس مشکل گھڑی کی ابتدا اسی وقت سے ہوجائے گی جب ان پر موت وارد ہوگی۔ ایسے آدمی کی موت کے وقت یہ حالت ہوتی ہے جیسے اس کی جان ہنسلی میں آکراٹک گئی سو یہ ایسا وقت ہے جب کوئی دوا اثر نہیں کرتی اور اس کے لواحقین اس وقت کہتے ہیں کہ اب کسی سے دعا کروانی چاہیے۔ جن کا عقیدہ کمزور ہوتا ہے وہ تعویذ، گنڈھے اور جھاڑ پھونک کے پیچھے بھاگتے ہیں حالانکہ مرنے والا سمجھ جاتا ہے کہ میرا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ اس کی ایک پنڈلی دوسری پنڈلی کے ساتھ لگ جاتی ہے یعنی اسے انتہا درجے کی کمزوری لاحق ہوجاتی ہے کیونکہ انسان کی روح اس کے پاؤں کی طرف سے نکل کر اس کے سر کی طرف سے پرواز کرتی ہے۔ اس لیے پنڈلیوں کی کمزوری کا پہلے ذکر کیا ہے یہاں تک اس کے عزیز و اقرباء بھی اس کے ہاتھ پاؤں سیدھے کرنے شروع کردیتے ہیں تاکہ موت کے بعد اس کا وجود ٹیڑا نہ ہوجائے۔ (وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلآءِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَ اَدْبَارَہُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ) (الانفال : ٥٠) ” اور کاش ! آپ دیکھیں جب فرشتے کافر لوگوں کی جان قبض کرتے ہیں تو ان کے چہروں اور پشتوں پر مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ جلا دینے والا عذاب چکھو۔ (عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الْعَبْدَ الْکَافِرَ إِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ نَزَلَ إِلَیْہِ مِنَ السَّمَآءِ مَلَآءِکَۃٌ سُوْدُ الْوُجُوْہِ مَعَہُمُ الْمُسُوْحُ فَیَجْلِسُوْنَ مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ ثُمَّ یَجِیْءُ مَلَکُ الْمَوْتِ حَتّٰی یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِہٖ فَیَقُولُ أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْخَبِیْثَۃُ اخْرُجِیْٓ إِلَی سَخَطٍ مِّنَ اللّٰہِ وَغَضَبٍ قَالَ فَتُفَرَّقُ فِیْ جَسَدِہٖ فَیَنْتَزِعُہَا کَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّوْدُ مِنَ الصُّوْفِ الْمَبْلُوْلِ ) (رواہ أحمد : مسند براء بن عازب) ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب دنیا سے کافر کا رخصت ہونے اور موت کا وقت آتا ہے تو آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے اترتے ہیں، ان کے پاس ٹاٹ کا لباس ہوتا ہے، فرشتے فوت ہونے والے کافر سے حد نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک الموت اس کے سرہانے آکر کہتا ہے۔ اے خبیث جان۔ اللہ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر پھر روح اس کے جسم سے الگ ہوتی، فرشتے اسے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گرم سلاخ کو روئی سے کھینچا جاتا ہے۔ “ مسائل ١۔ آخرت کے دن بہت سے چہرے مایوس ہوں گے اور وہ اس خیال میں ہوں گے کہ ہم پر بھاری مصیبت ٹوٹنے والی ہے۔ ٢۔ برے انسان کو موت کے وقت ہی اپنے انجام کا پتہ چل جاتا ہے۔ ٣۔ فوت ہونے والے اکثر لوگوں کو یقین ہوجاتا ہے کہ اب میرا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ ٤۔ موت کے وقت آدمی کی پنڈلی سے پنڈلی جڑ جاتی ہے۔ ٥۔ موت کے وقت اس کے لواحقین دوا کی بجائے دعا پر زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن برے لوگوں کے چہرے مایوس اور ذلیل ہوں گے : ١۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ (الحج : ٧٣) ٢۔ کفار کے چہرے مرجھائے اور اڑے ہوئے ہوں گے۔ (القیامہ : ٢٤) ٣۔ کفار کے چہروں پر گردوغبار ہوگا۔ (عبس : ٤٠) ٤۔ مجرموں کے چہرے ڈرے اور اوندھے ہوں گے۔ (الغاشیہ : ٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ کفار کو ان کے چہروں کے بل اوندھا کرکے اٹھائے گا یہ ان کی سزا ہے۔ (الاسراء : ٩٧ تا ٩٨) ٦۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی اور انہیں اللہ تعالیٰ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ (یونس : ٢٧)
ووجوہ ........................ فاقرة (75:25) ” اور کچھ چہرے اس دن اداس ہوں گے اور سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ برتاﺅ ہونے والا ہے “۔ یہ کون سے چہرے ہوں گے ، جو پریشان ، بدبخت اور سیاہ ردہوں گے۔ یہ اللہ کی نظرکرم سے محروم اور ناامید ہوں گے۔ اور یہ محرومی خود ان کی اپنی غلطیوں اور پسماندگیوں کی وجہ سے ہوگی۔ ان کی مادیت اور بےبصیرتی کی وجہ سے ہوگی۔ ان کے چہروں پر رنج والم اور حزن وملال چھپایا ہوا ہوگا اور رنج وملال کی وجہ سے چہروں پر سیاہی چھائی ہوئی ہوگی۔ کیونکہ ان کو یہ شدید خطرہ لاحق ہوگا کہ وہ بہت جلد ایسے حادثے سے دو چار ہونے والے ہیں جوان کی کمر توڑ کر رکھ دے گا۔ فاقرہ ریڑھ کی ہڈی کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد خوف ، ڈر ، بےچینی ، چہرے کی سیاہی ، پریشانی اور رنج والم ہے۔ یہ ہے نقشہ آخرت کا جسے یہ لوگ پس پشت ڈال رہے ہیں اور مہمل چھوڑ رہے ہیں ، اور دنیا کی اس مختصر زندگی کے پیچھے دوڑ رہے ہیں ، جسے وہ بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ حالانکہ جو دن آرہا ہے وہ بہت اہم ہے۔ اصل انجام کا وہاں فیصلہ ہوگا اور اس دنیا اور آخرت کی اہمیت میں بہت بڑا فرق ہے۔ قیامت میں بعض چہرے تروتازہ ہوں گے اور رب تعالیٰ کی طرف دیکھ رہے ہوں گے جب کہ کچھ چہرے پژمردہ ہوں گے اور انہیں یہ شدید خطرہ لاحق ہوگا کہ ان کو کمر توڑ حادثہ پیش آنے والا ہے۔ مشاہد قیامت یوں تھے کہ وہاں دیدے پتھراجائیں گے ، چاند بےنور ہوگا اور شمس وقمر اکٹھے کردیئے جائیں گے اور انسان بےاختیار پکار اٹھے گا کہ کہاں جاﺅں اور پھر وہاں لوگوں کے انجام بہت مختلف ہوں گے ، اور جنتیوں اور دوزخیوں کے انجام کے درمیان طویل فاصلے ہوں گے۔ جنتیوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے ، وہ رب کی طرف نظریں جمائے ہوں گے ، جبکہ دوزخیوں کے چہرے سیاہ ہوں گے اور وہ شدید خطرے سے دوچار ہونے والے ہوں گے۔ یہ وہ مناظر ہیں جو بےحد قوی الاثر ہیں اور ان کی اثر آفرینی کی اصل قوت ان کے اسلوب بیان میں ہے۔ جو اک شخص اور مصور اور زندہ اسلوب ہے ، تو ان مناظر اور مشاہد کو آگے بڑھاتے ہوئے اب ایک ایسا منظر سامنے لایا جاتا ہے جو روز مرہ کا منظر ہے اور جسے ہم روز اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ ایک بھاری اور ناگوار منظر ہوتا ہے مگر یہ ہونی شدنی ہے اور ہر جگہ اور ہر گھر میں واقع ہوجاتا ہے۔ یہ منظر ، موت کا منظر ہے۔ وہ موت جسے ہر زندہ کو دو چار ہونا ہوتا ہے۔ جس کو کوئی شخص نے اپنے آپ سے دور رکھ سکتا ہے اور نہ کسی اور کو اس سے بچا سکتا ہے۔ یہ موت دوجگری دوستوں کو جدا کردیتی ہے۔ یہ اپنے راستے پر جاتی ہے اور جاری وساری ہے۔ کسی بھی وقت اس کے وقوع میں وقفہ نہیں ہوتا۔ کسی کا رونا اور کسی کی چیخ و پکار کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ نہ جدا ہونے والوں کی حسرتوں کا اس پراثر ہوتا ہے۔ نہ کسی کی چاہت کا اس پر اثر ہوتا ہے اور نہ کسی کے ڈرکا اس پر اثر ہوتا ہے۔ یہ موت جباروں اور قہاروں کو بھی اسی طرح دبوچ لیتی ہے جس طرح ایک کیڑے کو دبوچ لیتی ہے۔ امراء وغربائ، غلاموں اور ڈکٹیٹروں سب کو نابود کردیتی ہے۔ یہ موت جس کے مقابلے میں انسان کے لئے کوئی حیلہ اور چارہ نہیں ہے لیکن اے افسوس کہ لوگ اس کے بارے میں کم ہی سوچتے ہیں کہ موت کس قدر عظیم قوت قاہرہ رکھتی ہے۔
پھر فرمایا ﴿ وَ وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍۭ بَاسِرَةٌۙ٠٠٢٤ تَظُنُّ اَنْ يُّفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌؕ٠٠٢٥﴾ (اور کچھ چہرے اس دن بدرونق ہوں گے اور وہ خیال کر رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے والا معاملہ کیا جائے گا) یعنی یہ سمجھ لیں گے کہ دنیا میں جو نافرمانی کی زندگی گزاری ہے اس کی سزا ملنے والی ہے اس سزا کو فاقرۃ سے تعبیر فرمایا، ریڑھ کی ہڈی کو فقار کہا جاتا ہے یہ لفظ اسی سے ماخوذ ہے۔ قال صاحب الروح ای داھیة عظیمة تفصم فقار الظھر من فقرہ اصابہ فقارہ۔